حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی الہٰ آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
خطیب شہیر حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی ابن حاجی محرم علی، ۱۵؍اگست ۱۲۲۹ء کو اپنےوطن پھول پور ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے، دس برس کی عمر میں درجہ چہارمپاس کر کے الہ آباد کے مشہور مدرسہ سُبحانیہ میں داخل ہوئے، اور علامہ نظام الدینبلیاوی مدظلہ سے معقول ومنقول کی امہات کتب کےعلاوہ صحاح ستہ کا دور کیا اور سند فراغت حاصل کی، رئیس التارکین بقیۃ السلف حضرت مولانا شاہ محمد حبیب الرحمٰن قادری مدظلہٗ العالی سے بھی، جو کہ اس زمانہ میں مدرسہ سبحانیہ کےصدر مدرس تھے چند کتابیں پڑھیں اور بیعت کا تعلق قائم کیا،مدرسہ سُبحانیہ میں درس دیا، اور عالم، مولوی کا کورس مدرسہ مصباح العلوم میں پڑھایا، ایک سال جامعہ حبیبیہ میں تدریسی فرائض انجام دیئے، آپ کو درس نظامی کے جملہ علوم و فنون میںپوری بصیرت حاصل ہے، پورےہندوستان میں آپ کی خطابت کا غلغلہ ہے: بڑے بڑے جلسوں کی کامیابی آپ کی شرکت پر منحصر ہوتی ہے، بفضلہٖ تعالیٰ خوب قبول عام پایا ہے، آپ اوصاف میں بزرگوں سے حُسن عقیدت نمایاں وصف ہے، نئے حالات اور نئے تقاضوں کے پیش نظر تبلیغ وارشاد کے لیےعلماء مبلغین کو تیار کرنےکےواسطے آپ نےاپنےوطن میں دار العلوم غریب نواز قائم فرمایا ہے، اس کےعلاوہ آپ کےپیش نظر امام احمد رضا کی یاد میں ایک ایسی لائبریری کا قیام ہےجس میں علمائےاہل سنت کی ساری کتابیں اہل قلم کو دست یاب ہو سکیں۔
آپ کو تقریر وتدریس کی طرح تصنیف و تالیف میں بھی خصوصی سلیقہ ہے ‘‘خون کے آنسو’’ دو حصے دیوبندی دین کے علماء کے بے ادبی وبے باکی کے رد میں آپ کے مشہور زمانہ تصنیف ہے، اور بہتوں نے اس کو پڑھنے کے بعد دین دیوبندیت سے توبہ کی ہے۔