حضرت علامہ مولانا پیر محمد چشتی علیہ الرحمۃ
خود نوشت حالات
آج ۲۰۱۰ء سے تقریباً۷۳ سال قبل شاگروم میں پیدا ہوا۔شاگروم نام کا یہ وسیع و عریض گاؤں درہ تریچ کی آخری آبادی ہے ضلع چترال تحصیل ملکھو کا یہ میری پیدائش سے پہلے بھی مردم خیزی میں مشہور تھا جس میں نوابی دور کے علم دشمن ماحول میں بھی محمد جناب شاہ اور قاضی بدرالدین خواجہ جیسی ہستیاں بالترتیب عصری اور مذہبی علوم کی روشنی پھیلا رہی تھیں۔ نوابوں کے تعلیم دشمن ماحول سے آزاد اور ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوجانے کے بعد بھی چترال کے اس درہ سے اچھے خاصے اہل علم پیدا ہوئے میری پیدائش ریاستی دور کے جس ماحول میں ہوئی وہ کچھ اس طرح تھا کہ نوابوں کے بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم کا انتظام مقامی طور پر میسر تھا جبکہ قرآن شریف ناظرہ پڑھنے اور نماز و روزہ جیسے ضروری احکام سے روشناس ہونے کے ساتھ مڈل تک دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے پشاور، دہلی، لاہور اور انگلینڈ کا رخ کیا کرتے تھے جبکہ رعایا کے بچوں کی تعلیم کا قطعاً کوئی انتظام ہی نہیں تھا مگر یہ کہ نوابوں کے کارندوں سے چھپ کر ریاست کی حدود سے نکلنے میں کامیاب ہوتا تو سفر و غربت اور بے وطنی کی صعوبتیں برداشت کرکے مذہبی یا عصری تعلیم کی کچھ روشنی پاتا جن کی تعداد کائیوں سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔
فقدانِ تعلیم کی اس بدحالی کے ساتھ معاشی زبوں حالی کا یہ عام تھا کہ نوابوں کی گزراوقات رعایا سے ظلماً و صول کیے جانے والے غلہائے عشر پر ہوا کرتی تھی تو عام آدمیوں کی معیشت کا کہنا ہی کیا تھا درہ تریچ میں سب سے زیادہ قطعہ اراضی کے مالک ہونے کے باوجود ہمارے خاندان میں بھی عمومی خوراک جوکی روٹی یا باجرہ کی روٹی ہوا کرتی تھی لیکن اس کے ساتھ ہمارے خاندان پر رب کریم جل جلالہ و عم نوالہ کا خاص کرم یہ تھا کہ ہرن کے گوشت سے ہمارا گھر کبھی خالی نہ ہوتا تھا۔ میرے دادا جان (نام رحیم ولد عبدالکریم) جو اپنے وقت کے خدارسیدہ بزرگ تھے وفاداری، امانتداری، سخاوت، شجاعت اور صدقِ لہجہ میں مشہور تھے جن کی وفا شعاری کو دیکھ کر مہتر چترال نواب میں محمد ناصر الملک رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں امین دربار کے عہدے پر فائز کیا تھا جس کی بدولت ان کے بیٹوں کو شاگروم سے ملحق بالائی شکار گاہوں کی اختیارداری اور ہر جگہ سے شکار کی اجازت کی اجازت تھی۔ میرے تایا شہزادہ رحیم (مرحوم) سرکاری شکار ہونےکی بناء پر پورے چترال میں شکاری کے نام سے ہی مشہور تھے میرے (مرحوم) والد ان سے عمر میں تقریباً تیس سال چھوٹے تھے، گھریلو ذمہ داریوں سے زمینوں کی دیکھ بھال تک جملہ انتظامات کے نگران تھے جبکہ میرے چھوٹے چچا امام رحیم (مرحوم) ان کے نائب و معاون تھے۔ میرے والد محمد رحیم ہرن کے شکار سے لے کر ہر موسم کے پرندوں تک شکار کرنے میں پورے درہ تریچ میں اپنی مثال آپ تھے۔ شانِ قدرت ہے کہ شکار کرکے کھانے اور کھلانے والے اس عظیم شکاری کو اس حوالہ سے وہ شہرت نہ ملی جو ان کے بڑے بھائی شہزادہ رحیم کو ملی۔
علاقائی ماحول اور خاندانی روایات کا شعور پانے کے بعد میں بھی اس راپ پر چلنے لگا جس پر چلتےہوئے اپنے بڑوں کو دیکھا تھا لیکن شکار کے حوالہ سے میرے اور میرے بڑے بھائی جان مولانا شیر محمد مدظلہ العالی کا معاملہ اپنے بزرگوں سے مختلف رہا کیوں کہ ہمارے والد مرحوم و مغفور نور اللہ مرقدہ اپنے بڑےبھائی سے کئی گنا زیادہ فعا اور ہر موسم کے شکار کا بہترین شکاری ہونے کے با وجود اپنے بڑے بھائی جیسی شہرت اس حوالہ سے نہ پاسکے حالاں کہ وہ ہر موسم کے اچھے شکاری تھے چھوتے پرندوں کے شکار کے حوالہ سے میری فنکاری کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی درخت کے نیچے بیٹھ کر گھنٹہ سے دو گھنٹے کے دورانیہ میں پچاس ساٹھ کی تعداد میں پرندے مار گراتا تھا مجھے مواد پہنچانے اورذبح کرنے پر مقرر لڑکوں کو کہنا ہے کہ روزانہ کی یہ تعداد دوسو سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ (صحیح کے متعلق حتمی صور ت مجھے یاد نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
یہاں پر شاید قارئین کو ان پرندوں سے متعلق تعجب ہوا کہ اس کثرت سے آنے والے وہ کیسے پرندے ہوں گے اور وہ شکار گاہ کیسی ہوگی؟ تو اس کے متعلق یہ ہے کہ ان دنوں میں یعنی آج سے تقریباً نصف صدی قبل ہر قسم شکار کی بہتات ہونے کی طرح گندم اور باجرہ کی فصل جن پکنے کے قریب ہوتی تھی تو اسے کھانے کے لیے پرندوں کی یہ نسل کثیر تعداد میں آیا کرتی تھی۔ جس کو کھوار زبان میں شویچ کہا جاتا ہے جو جسامت میں اندازتاً تین چڑیوں کے برابر ہوتا ہے اور رنگت کے اعتبار سے ان کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ ایک خاکستری سفید، دوسری وہ جس کا سر اور گردن سمیت سینے کا بالائی حصہ سرخ باقی سارا حصہ خاکستری جو خوبصورتی و دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں اور گوشت اس کابہت لذیذ ہوتا ہے۔ دورہ تریچ سمیت چترال کے بالائی حصہ کی تینوں تحصیلوں میں اس کی کثرت کے ساتھ آمد کا موسم ماہ ستمبر ہوا کرتا تھا لیکن دنیا کی ارتقائی زندگی کے دوسرے شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں آنے کی طرح ہر موسم کے شکار میں بھی کافی حد تک تبدیلیاں آچکی ہیں۔ کیمیائی کھادگی وجہ سے گندم کی پیدا وار زیادہ ہونے کی بناء پر بابرہ کی کاشت ہی ہمارے علاقہ سے ناپید ہوچکی ہے یہ باجرہ بھی خاص نسل کا ہوتا تھا جس کو کھوارزبان میں اڑین کہا جاتا تھا جو آج سے نصف صدی قبل ہماری عمومی خوراک ہوا کرتا تھا اور گندم کی فصل ستمبر میں پکنے کے بجائے ترقی کرکے اگست کے اوائل میں ہی تیار ہوتی ہے جس وجہ سے شویچ کی اس کثرت سے آمد رہی نہ اس کے شکار کا رواج۔ اگر کوئی اِکا دُکا دانہ اڑتا ہوا نظر آتا ہے اسے ماضی کی یادگار تصور کیا جاتا ہے۔ جس درخت کو میں نے شکار گاہ بنایا ہوا تھا وہ شتلک کی درمیانہ سائز کی لمبائی والا درخت تھا جس کی لمبائی اندازتاً ۱۵ سے ۲۰ فٹ تک ہوگی جس کے نیچے اندازتاً آٹھ کنال میں پھیلی ہوئی گندم کی فصل اور بعض سالوں میں اڑین کی فصل ہوا کرتی تھی۔ وہ دلکش و حسین منظر میرے لیے بھولنے کی چیز نہیں ہے جب لیسرک واشیر وسرک شویچ کا روم (سیل) آکر اوپر سے درخت کو ڈھانپتا تھا اور نیچے سے میں شونجور سے انہیں مارگرایا کرتا تھا۔ الغرض اس وقت کو شکار کے حوالہ سےاپنے ماضی کے کن کن حسین جھروکوں کا تصور کرتا بلکہ ایک ایک کے تصور پر کلام اقبال بے ساختہ زبان پر آتا ہے کہ
یاد آتا ہے مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
مذہبی تعلیم نے آنے غیبی اسباب: برادری کی بزرگ ہستی صوفی گل محمد مرحوم کے پاس دوسرے لڑکوں کے ہمراہ قرآن شریف کا ناظرہ سبق پڑھ رہا تھا۔ ایک دن سبق یاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں مار پڑی انہوں نے کہا کہ ‘‘شیر دشمن بتی گوئے تہ کریمتو کتابان برے تان اچاکسیر’’ جس کاترجمہ یہ ہے کہ شیر محمد عالمِ دین بن کر آئے گا تجھ پر کتابیں لاد کر اپنے پیچھے پھیرائے گا۔ مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ میرے بڑے بھائی صاحب کا نام شیر محمد ہے جس کو لڑکپن میں شیر کہہ کر پکارا جاتا تھا اور وہ مذہبی تعلیم کے لیے مسافرت میں تھا۔
صوفی گل محمد کی اس بات کا مجھ پر اتنا گہر اثر ہوا کہ میں نے بھی مذہبی تعلیم کے لیے مسافرت اختیار کی، عرصہ ایک سال تک انگور کلی علاقہ ورسک چارسدہ میں ترکی حاجی صاحب مرحوم کے مدرسہ میں اپنے بڑے بھائی مولانا شیر محمد اور گاؤں کے اور چند لڑکوں کے ہمراہ مولانا عبدالعزیز چترالی (مرحوم) کے درس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دوسرے سال میں پشاور شہر میں آکر اس وقت کے دارالعلوم سرحد واقع مسجد غلام جیلانی میں داخلہ لیا تقریباً تین سال تک یہیں پر ابتدائی کتابیں حضرت مولانا مفتی عبداللطیف، حضرت مولانا پائندہ محمد عرف کابل استاذ، حضرت مولانا محمد عمر چکسر استاذ جیسے کہنہ مشق و مشفق اساتذہ سےپڑھی۔ اس دوران کے میرے رفقاء درس میں سے مولانا محمد وزیر سکنہ نشکو چترال (مرحوم)، مولانا کبیر شاہ سکنہ مدک چترال (حیات)، مولانا حاجی ابراہیم سکنہ ورکوپ چترال (حیات)، مجھے یاد ہیں جو ہر اعتبار سے قابل ستائش طلباء تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی سے ان تین سالوں میں دارالعلوم کے تمام طلباء میں نمایاں حیثیت رہی کسی بھی کتاب اور کسی بھی امتحان میں کوئی اور مجھ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے نہیں پایا۔ اس پرمستزادیہ کہ دارالعلوم کے سالانہ جلسہ میں طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے عربی زبان میں جو تقریر کیا کرتا تھا وہ مزید شہرت کا سبب بنی۔ تین سال یہیں پر اوسط درجہ تک کتابیں پڑھنے کے بعد اس وقت کے جامعہ اشرفیہ واقع ہندو متروکہ بلڈنگ نیلا گنبد لاہور چلا گیا لیکن لیٹ پہنچنے کی وجہ سے داخلہ نہ مل سکا تو مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں داخلہ لیا اسباق میں تسلی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر اس وقت کے احسن المدارس واقع جامع مسجد الحنفیہ راولپنڈی میں جاکر داخلہ لیا اور مولانا اللہ بخش نور اللہ مرقدہ اور سید عارف اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں چند کتابیں پڑھ کر سالانہ ماہ رمضان کی تعطیلات میں دورہ تفسیر پڑھنے کے لیے وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ حضرت ابو الحقائق مولانا عبدالغفور ہزاروی کے درس تفسیر میں شامل ہوا۔ جس میں (۴۰) شرکاء درس میں سے جن رفقاء کے نام مجھے یاد ہیں، ان میں:
(۱) پیر طریقت رہبر شریعت مولانا علاء الدین صدیقی مالک النور چینل انگلینڈ (حیات)۔
(۲) مولانا عبداللہ شاہ (مرحوم) مہتمم مدرسہ انوار الابرا ملتان۔
(۳) مولانا حافظ فضل احمد حال امریکہ۔
(۴) مولانا شیخ الحدیث نور حسین شیخ الدرس جامعہ مراڑیاں شریف گجرات۔
(۵) مولانا صادق شاہ کشمیری جن کی حیات و ممات کا علم نہیں ہے۔
(۶) پیر طریقت رہبر مولانا عابد حسین شاہ م (مرحوم) جو حضرت جماعت علی شاہ محدث علی پوری نارو وال پنجاب کے سجادہ نشین تھے۔
(۷) مولانا مفتی عبدالشکور جو حضرت ابو الحقائق نور اللہ مرقدہ کے صاحبزادے تھے جواب مرحوم ہوچکے ہیں۔
وزیر آباد کے دورہ تفسیر میں چالیس (۴۰) دن کا دورانیہ کامیابی کے ساتھ گزارنے اور امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد دوسرے سال مولانا غلام رسول رضوی شیخ الحدیث وبانی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے درس میں شامل ہوا اس دوران ان سے استفادہ کرنے کے علاوہ اس وقت کے متعدد مشاہیر علماء لاہور سے بھی مستفیض ہونے کا اچھا موقع مل گیا۔ تعلیمی سال یہیں پر کامیابی کے ساتھ گزارنے اور امتیازی پویشن پانے کے بعد حضرت استاذ العلماء دنیائے تدریس کے تاجدار مولانا عطاء محمدچشتی نور اللہ مرقدہ الشریف کے درس میں سیال شریف حاضر ہوا یہیں پر ایک سال کامیابی سے گزارنے کے بعد جب استاذ مکرم بندیال کو منتقل ہوئے ان کی ہمراہی میں وہیں جاکر دوسال تک حضرت کی کفش برداری کو سعادت پائی۔ سیال شریف سے لے کر بندیال شریف تک اس دورانیہ میں حضرت مولانا صاحبزادہ عبدالحق بندیالوی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اشرف سیالوی، حضرت شیخ المعقولات والمنقولات مولانا غلام محمد تونسوی جیسے قابل فخر رفقاء درس کی معیت رہی، بحمدہ سبحانہٗ وتعالیٰ اب تک یہ سب کے ساب حیات ہیں، جو علمی امانت کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
درس نظامی کی آخری کتابوں کے اختتام پر غالباً ۱۹۶۱ء تھا، ملتان جاکر دورہ حدیث شریف کی تکمیل کے لیے شیخ الحدیث مولانا السید احمد سعید الکاظمی نور اللہ مرقدہ کے درس حدیث میں شامل ہوا، اسی سال تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کے صدر حضرت غزالی زماں اور ناظم اعلیٰ مولانا غلام جہانیاں سکنہ ڈیرہ غازی خان مقرر ہوئے تھے ان ہی کی کوششوں سے ۱۹۶۱ء میں تنظیم المدارس پاکستان کے زیر انتظام مدارس کے ان طلباء کا تحریری امتحان لیا گیا تھا جو دورہ حدیث پڑھ کر فارغ تحصیل ہونے والے تھے وَن یونٹ کا زمانہ تھا موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملاکرمغربی پاکستان کہا جاتا تھا، سیاسی آزادی نہیں تھی، فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان مرحوم کا دور تھا، ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) ایوب خان کے وزیر خارجہ تھا۔ تنظیم المدارس پاکستان کے اس تاریخی امتحان میں مجھے ملک بھر سے فارغ تحصیل ہونے والوں میں پہلی پوزیشن پانے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جس کے بعد میری تدریسی خدمات حاصل کرے کے یلے جامعہ غوثیہ کہروڑ پکا ملتان، جامعہ نعیمیہ لاہور، جامعہ سراج العلوم خانپور رحیم یار خان کے منتظمین ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے جبکہ میرے شیخ فی الحدیث حضرت غزالی زماں نور اللہ مرقدہ مجھے اپنے مدرسہ انوار العلوم ملتان میں ہی مقرر کرنا چاہتے تھے لیکن خانپور کے حافظ سراج احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طلب کو اپنی پسندپر ترجیح دیتے ہوئے مجھے خان پور ضلع رحیم یار خان بھیج دیا۔ جہاں پر تقریباً دو سال تک منتہی طلباء کو پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی جن میں سے مولانا سید محمد فاروق القادری سجادہ نشین خانقاہ قادریہ، گڑھی اختیار خان ضلع رحیم یارخان، مولانا عزیز الرحمٰن درانی سکنہ خانپور، مولاناحافظ محمد خان ، مولانا محمد احمد سکنہ خاص رحیم یار خان حال انگلینڈ، مولانا نذیر احمد حال مقیم مکہ معظمہ، مولانا حبیب الرحمٰن مرحوم سکنہ دنین چترال کے نام اس وقت یاد ہیں جبکہ حافظ سراج احمد مرحوم اور ان کے صاحبزادے مولانا مختار احمد درانی مہتمم مدرسہ سراج العلوم جس اخلاص و محبت سے پیش آتے رہے، وہ اب بھی مجھے یاد ہے۔
۱۹۶۴ء میں جب جامعہ عباسیہ بہاولپور اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل ہوکر تخصص فی التفسیر و الحدیث کے لیے امیدواروں کو امتحان کے لیے بلایاگیا میں بھی اپنے شیخ فی الحدیث کی ہدایات کے مطابق سراج العلوم خانپور کی تدریس سے استعفیٰ دے کر اس میں شامل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی غیبی توفیق سے اس تاریخی امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی جس کا ملک بھر میں چرچا ہوا، سکالر شپ کے خصوصی اعزاز کے ساتھ تخصص فی التفسیر والحدیث کی کلاسوں سے مستفیض ہونے کے ابھی صرف چھ ماہ گزرے تھے کہ جامعہ انوار العلوم ملتان کے طلباء نے کچھ داخلی سازشیوں کے دخل عمل سے ہنگامہ برپا کیا تو حضرت غزالی زماں نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے شیخ الدرس بناکر انوار العلوم ملتان بھیج دیا۔ شبانہ وروز محنت کرکے جب یہاں پر خوشگوار علمی فضاقائم کرنے میں کامیاب ہوا تو یہاں کے کچھ کہنہ مشق سازشیوں نے میری سادگی اور نوجوانی کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کر اعتماد کا ایسا دھوکہ دیا کہ حضرت غزالی زماں اور مفتی مسعود علی القادری رحمہمااللہ تعالیٰ سے ہدایات لیے بغیر محض سازشیوں کے دھوکہ میں آکر موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کردیا۔ میرا یہ فیصلہ نہ صرف دینی مدارس کے مزاج و روایت کے منافی تھا بلکہ ہر اعتبار سے نامناسب و غلط تھا مجھے اپنی اس غلطی کا احساس تب ہوا جب حضرت غزالی زماں نوراللہ مرقدہ کی طرف سےتفصیلی خط گھر کے پتہ پر وصول ہوا، جس میں اس کے پس منظر سے مجھے آگاہ کرنے کے ساتھ اس کو نوجوانی کا ناتجربہ کاری اور حاسدوں کی سازش سے بے علمی کا نتیجہ قرار دے کر مجھے جلد از جلد انوار العلوم واپس پہنچنے کا فرمایا گیا تھا۔ حضرت کا یہ مکتوب گرامی اس وقت مجھے وصول ہوا جب میں بیمار سے نڈھال تھا اور علاج کے لیے میوہسپتال لاہور جانے کی تیاری تھی جس کے بعد حضرت مفتی اعجاز ولی شیخ الحدیث جامعہ نعمانیہ لاہور نور اللہ مرقدہ کی وساطت سے میوہسپتال لاہور کے ایک بڑے ڈاکٹر جو پیر محمد کرم شاہ الازہری مرحوم کے بردارِ محترم تھے جن کا نامِ گرامی یاد نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ اس جہاں میں انہیں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے کی نگرانی میں زیر علاج رہا۔ تقریباً تین ماہ لاہور میں علاج کے اس دورانیہ میں جامعہ نظامیہ لاہور میں بڑی کلاسوں کو چند اسباق بھی پڑھاتا رہا، اس دوران مجھ سے استفادہ کرنے والوں میں سے قاری خوشی محمد مرحوم اور مولانا حکیم اللہ اوگی مانسہرہ (ابھی حیات ہے) کے نام اس وقت یاد ہیں۔ علاج سے فائدہ نہ ہونے پر کچھ تجربہ کار حضرات کے مشورے اور حضرت غزالی زماں کی نگرانی میں حضرت کے ہمسایہ حکیم عطاء اللہ مرحوم سکنہ محلہ قدیر آباد ملتان کے پاس پہنچا۔ نبض دیکھ کر انہوں نے مجھے تسلی دی اور فرمایا کہ جگر کی حرارت حد اعتدال سے تجاوز کئے ہوئے ایک سال سےزیادہ عرصہ ہوچکا ہے، ڈاکٹر کی غلط تشخیص اور بے مصرف گرم دوائیوں نے ‘‘جلتے پرتیل کا عمل کیا ’’ ہے۔انجام کار حکیم عطاء اللہ مرحوم کے علاج سے چند ہفتوں میں بیماری سے نجات پانے کے بعد تصوف کی جان ‘‘فصوص الحکم’’ شریف پڑھنے کا دیرینہ شوق پورا کرنے کے لیے حضرت غزالی زماں کی اجازت سے مہر آباد شریف گوگڑاں، ضلع لودھراں امام الواصلین، افضل العاملین، سند الکاملین، جامع المعقول والمنقول سیدی و سندی ومرشدی امام شاہ نوراللہ مرقدہ الشریف کی خدمت میں مہر آباد شریف پہنچا۔ صحیح النسب بخاری سادات کی یہ بستی کسی وقت ‘‘چاہ نئی والا’’کے نام سے مشہور تھی، لیکن حضرت امام الواصلین کی علمی شخصیت، قال اللہ قال الرسول کی تعلیم و تبلیغ اور خلق خدا کی روحانی تربیت کی بدولت آہستہ آہستہ بستی کا نام تبدیل ہوکر سیدوں کی بستی مشہور ہونے لگی اور جس روز حضرت پیر مہر علی شاہ نور اللہ مرقدہ اپنے چہیتے خلیفہ کی احوال پرسی کے لیے یہاں پر قدم رنجہ فرمایا اس دن سے اس کا نام مہر آباد شریف پڑ گیا اور یہ دلکش نام اتنا مشہور ہوا کہ نئی نسل کو پرانے نام کا پتہ ہی نہیں ہے یہیں پر ڈیڑھ ماہ میں حضرت امام الواصلین نور اللہ مرقدہ الشریف سے فصوص الحکم شریف کادرس سبقاً سبقاًپڑھا۔ درس کے اختتام پر عید الفطر کی صبح کو عیدگاہ جانے سے قبل اپنے مبارک ہاتھوں سے میری دستار بندی فرمائی۔ یہاں پر اگر مہر آباد میں قیام کے دوران حضرت کے لیل و النہار کے حوالہ سے اپنے حسین مشاہدات کا تذکرہ کروں یا فصوص الحکم شریف کے درس کے حوالہ سے فیوضات و برکات اور مکاشفات کی تفصیل میں جاؤں تو اس سے مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے لیکن میں نے یہیں پر اپنے ماضی کے جھروکوں کی صرف اور صرف اجمالی جھلک ضبط تحریر میں لانے کے سوا اور کچھ نہ کرنے کا التزام کیا ہوا ہے ورنہ مہر آباد شریف سے میری کافی سے زیادہ حسین یاد یں وابستہ ہیں۔ تاہم فرمان الہٰی ‘‘واما بنعمۃ ربک فحدث’’ پر عمل کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت کے فیض رساں درس میں فصوص الحکم شریف پڑھنے کےبعد شرح صدر کی و ہ توفیق مجھے میسر ہوئی جس کے بعد الہٰیات کے مشکل سے مشکل مسائل آسان ہونے لگے، درس نظامی کے جملہ فنون و کتب میں پوشیدہ رموز کا عقدہ کھلنے لگا اور بالخصوص قرآن و سنت کے معارف تک رسائی کی سبیل میسر ہوئی جس کے بعد فتاویٰ درالمختار کی اس بات پر مجھے حق الیقین کا درجہ حاصل ہوا جو انہوں نے امام مجدالدین فیروزآبادی صاحب القاموس فی اللغۃ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
‘‘ومن خواص کتبہ ان من واظب علی مطالعتھا انشرح صدرہ لفک المعضلات وحل المشکلات’’ (فتاویٰ الدرالمختار، جلد۱، صفحہ۳۵۸، مطبوعہ مجتبائی دہلی)
جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی کتابوں کی خصوصیات میں سے ہے کہ جو ہمیشہ ان کا مطالعہ کرتا ہے اس لا ینحل اور مشکل مسائل کا عقدہ کھولنے کے لیے شرح صدر کی توفیق نصب ہوتی ہے۔
اس کے بعد حضرت غزالی زماں نور اللہ مرقدہ کی طرف سے جامعہ غوثیہ سکھر جاکر شیخ الدرس کا منصب سنبھالنے کا حکم ملا۔ تقریباً دو سال تک وہیں پر حضرت مولانا مفتی محمد حسین قادری نور اللہ مرقدہ کی نگرانی میں خدمات انجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دوران حضرت مفتی صاحب مرحوم کی کمالِ شفقت و محبت کے ساتھ نواب و حید احمد خان ایڈوکیٹ مرحوم کا اخلاص اور حاجی محمد یعقوب مرحوم اور ان کے بیٹوں کی میری ساتھ محبت بھولنے کی چیز نہیں ہے۔
یہاں پر مجھ سے درس پڑھنے والے حضرات میں صرف مولانا شمیم الحسن القادری حال خطیب کشمور، مولانا محمد فاروق مرحوم، مولانا مفتی محمد شریف خطیب روہڑی سکھر، مولانا حبیب احمد شیخ الحدیث جامعہ نوریہ کوئٹہ بلوچستان کے نام یہ ہیں۔
بعد ازاں حضرت غزالی زمان کی ہدایات کے مطابق غوثیہ معینیہ پشاور کی بنیاد ۳۱دسمبر ۱۹۶۶ء کو رکھ کر حسب استطاعت مذہبی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اب تک میرے حلقہ درس سے بلاواسطہ علم و عمل کی تربیت حاصل کرنے کے بعد نمایا ں خدمات انجام دینے والے حیات حضرات مندرجہ ذیل کے نام یاد ہیں:
۱۔ مولانا ڈاکٹر صدیق علی چشتی سئیڈن۔
۲۔ مولانا سید محمد فاروق القادر، سجادہ نشین خانقاہ قادریہ غفوریہ گڑھی اختیار خان، ضلع رحیم یارخان۔
۳۔ مولانا شاہ منیر چشتی، شیخ الحدیث دارلعلوم جامعہ جنیدیہ کار خانوخیبر روڈ پشاور۔
۴۔ مولانا سید محمد عرفان المشہدی خطیب یورپ۔
۵۔ مولانا حبیب احمد نقشبندی شیخ الحدیث جامعہ نوریہ کوئٹہ بلوچستان۔
۶۔ مولانا محمد قاسم چشتی شیخ الدرس دالعلوم جامع مسجد العربی النہان، خاران بلو چستان۔
۷۔ مولانا مفتی غلام صدیق قادری خطیب اعظم کوہ دامن اضاخیل متنی سرحد۔
۸۔ مولانا محمد صدیق نقشبندی شیخ الدرس دار العلوم غوثیہ خالو غازی ہری پور۔
۹۔ مولانا پیر سید شیخ الدرس دارالعلوم قادریہ غفوریہ طارق آباد سوات۔
۱۰۔ مولانا قاری محمد انور بیگ امجدی چشتی قادری خطیب الجامع السنہری مسجد پشاور و مہتمم مدرسہ حدیقۃ القرآن پشاور۔
۱۱۔ مولانا محمد یعقوب القادری خطیب بروٹھہ اٹک۔
۱۲۔ مولانا سید منیر اللہ شاہ قادری خانقاہ قادریہ گڑھی بلوچ پشاور۔
۱۳۔ مولانا محمد درود پکتیا افغانستان، (۱۴) مولانا محب الرحمٰن فاروقی ملکھو چترال۔
۱۴۔ مولانا قاری عطاء اللہ خطیب بلیم چترال۔
۱۵۔مولانا جہاں شاہ رائیں چترال۔
۱۶۔ مولانا محمد ضیاءالدین کراچی، استاذ جامعہ وقاریہ نارتھ ناظم آباد کراچی۔
۱۷۔ مولانا اخونزادہ عبدالرحمٰن لوگر افغانستان۔
۱۸۔ مولانا سید محمد صدیق بخاری خطیب شاہور جنوبی وزیرستان۔
۱۹۔ مولانا سید افضل مہتمم مدرسہ اسلامیہ حیات العلوم جلال آباد افغانستان۔
۲۰۔ مولانا حبیب اللہ خان شیخ الدرس دارالعلوم قادریہ اسبنڑلوئردیر۔
۲۱۔ مولانا محمد عزیز الرحمٰن درانی خان پور ضلع رحیم یار خان۔
۲۲۔ مولانا نعمت اللہ استاذِ جامعہ شمس العلوم نقشبندیہ خاران بلوچستان۔
۲۳۔ مولانا شادی خان چشتی خطیب ڈوڈالکی مروت۔
۲۴۔ مولانا صاحبزادہ عبدالولی مہتمم مدرسہ جامعہ مومنیہ قادریہ ماشوگگر ضلع پشاور۔
۲۵۔ مولانا صاحبزادہ حمدُاللہ سجادہ نشین حاجی محمد امین عمر زئی چار سدہ۔
۲۶۔ مولانا میاں محمد عمر انبار مہمند ایجنسی۔
۲۷۔ مولانا محمد اسحاق صدیقی شیخ الدرس فیضان مدینہ ایبٹ آباد۔
۲۸۔ مولانا الشیخ محمد عبداللہ خطیب داؤد زئی پشاور۔
۲۹۔ مولانا محمد صاحب الحق کٹھانہ پاتراک کوہستان ضلع دیر۔
۳۰۔ مولانا عبدالقادر چشتی خطیب کالام ضلع سوات۔
۳۱۔ مولانا احسان الملک باچا خطیب راموڑہ چکدرہ۔
۳۲۔ مولانا صاحبزادہ فضلِ منان خطیب کوہاٹ۔
۳۳۔ مولانا نور عزیز چشتی لیکچرار ڈگری کالج بروک و سپور چترال۔
۳۴۔ مولانا حبیب اللہ چشتی ناظم اعلیٰ جامعہ غوثیہ معینیہ پشاور۔
۳۵۔مولانا کلیم اللہ استاذ دارالعلوم جامعہ غوثیہ معینیہ پشاور۔
۳۶۔ مولانا قاری محمد حکیم مہتمم و خطیب جامعہ نجم النساء، گلبہار پشاور، ۔۔۔۔۔ الحمدللہ علی توفیقہ افاضہ وتربیت کا یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
عمر کی اس منزل میں ماضی کے نشیب و فراز کے آئینہ سبق سے جن تلخ و شیرین تجربات کا احساس کر رہاہوں انہیں آئندہ کی امانتِ حیات کو بامقصد بنانے کےلیے رہنما اصول سمجھ کر سفرِ حیات طے کر رہا ہوں، جن کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں۔
جوانی کی عمر میں جو کام مجھے کرنے چاہیے تھے اور جن کو بہتر انداز میں انجام دے سکتا تھا وہ نہ کرپایا، جس کی سب سے بڑی وجہ مذہبی تعصب سے آلودہ معاشعرہ ہے، تحقیق دشمن ماحول اور محدودیت کا زندان ہے، سیاست نا آشنا معاشرہ کا حصہ ہونا ہے، اپنے وجود میں موجود خدادا صلاحیتوں سے بے اعتنائی اور زنگ آلود ماحول کی خرابی سے ناتجربہ کاری تھی۔اے کاش! عمر کی اس منزل میں پہنچ کر تجربہ کی جو روشنی محسوس کر رہوں یہ اگر جوانی میں مجھے حاصل ہوتی تو
ہم بھی آدمی تھے بڑے کام کے
- اللہ تعالیٰ جل جلالہ وعم نوالہ کا بے حد احسان ہے کہ عصبیت کے اس حصار سے نکال کر حق پرستی، حق جوئی او ر حق بینی کی شاہراہِ استقامت پر چلنے کی توفیق دی، لقمۂ حلال نصیب فرمایا، صبرو استقامت اور قناعت کی دولت سے سرفراز فرمایا۔
- اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت مجھ پر یہ بھی ہوئی کہ ابناء جنس کی روش کے برعکس کسی مذہبی ادارہ، انجمن، مدرسہ اور کسی بھی فورم کو حصولِ دنیا کا ذریعہ بنایا بلکہ عائلی مصارف سے اضافی و سائل کو دینی مدرسہ سے لے کر تبلیغِ حق کی راہ میں صرف کرنے کی توفیق شامل حال رہی، تقریر سے لے کر تحریر تک اور خطابت سے لے کر تدریس تک حسب استطاعت جس کی توفیق مل رہی ہے۔ اسے دنیاوی لالچ، شہرت، معاوضہ، نام و نمود وغیرہ کسی بھی دنیوی مفاد سے بالا تررہ کر حسبۃ للہ انجام دینے کی بھی توفیق مل رہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان دراحسان اور کرم بالائے کرم سمجھتا ہوں۔
- رب کریم جل جلالہ وعم نوالہ کی مجھ پر خصوصی عنایت یہ بھی رہی کہ قناعت کی توفیق سے مجھے نوازا ہے کہ عائلی زندگی میں مابہالکفاف سے زیادہ کی خواہش کبھی نہیں کی۔ ضروریاتِ زندگی کے تمام گوشوں میں کفایت شعاری کی اس توفیق کا ثمرہ ہے کہ کئی بار گزرا اوقات مشکل سے ہونے کے باوجود کسی کو بھی اپنی بے استطاعتی پر مطلع ہونے نہیں دیا، اپنے کسی بھی قریبی دوست احباب اور عقیدت کیشوں کا زیر احسان نہ ہوا، ہر حال میں ورثہ نبوت، محراب ومنبر کے تقدس اور علمی وقار کے تحفظ کو پیش نظر رکھا۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھ سے قائم کردہ دارالعلوم کے مصارف کے لیے حکومت امدادیا اہل ثروت کی زکوٰۃ و خیرات کو بھی کبھی خاطر میں نہیں لایا، دنیا سے استغناء کی یہ توفیق رب کریم جل جلالہ وعم نوالہ کی مجھ پر خصوصی عنایت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ورنہ ؎
من انم کہ من دانم
وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہٖ الطیبین الطاھرین و صحابتہ اجمعین
وانا العبدالضعیف
پیر محمد
چشتی طریقۃً، والحنفی مسلکًا، والمسلم مذھبًا،
والچترالی مولدًا، واپشاوری مَسکنًا