حضرت علامہ قاضی دوست محمد صدیقی بلبلِ سندھ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شہباز خطابت ، لحن داودی ، ترجمان اہلسنت حضرت علامہ قاضی دوست محمد صدیقی المعروف مولانا بلبل سندھ کی ولادت باسعادت سندھ کے مشہور شہر شکار پور کی نامور تحصیل گڑھی یاسین کی چھوٹی سی بستی ’’گوٹھ ترائی ‘‘کے نامور علمی خاندان ’’صدیقی قاضی ‘‘میں مولانا محمد بقا صدیقی کے گھر ۱۹۱۸ء کو ہوئی ۔ اس خاندان نے بے شمار علما ء فضلاء و اطباء پیداکئے ، اسی خاندان کی ایک اور علمی شخصیت حضرت مولانا فضیلت اور شیعیت کی تروید میں ’’ خلفاء رسول ‘‘ کتاب لکھی تھی ۔ یہ مولانا گل محمد مولانا بلبل سندھ کے چچا تھے ۔ (روشن صبح ص۱۲۲)
تعلیم و تربیت :
مولانا بلبل سندھ کے تعلیمی سفر کا آغازیوں ہوتا ہے کہ مولانا شاہ محمد (سندھ ) اس کے بعد مولانا عبدالواحد ( کوٹ مٹھن شریف ) اس کے بعد ہارون آباد (ضلع بہاولنگر ) میں شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ؒ (شیخ الحدیث دارالعلوم امجد یہ کراچی ) اس کے بعد مدرسہ انوارالعلوم ملتان میں غزالی زمان رازی دوران علامہ سید اھمد سعید کاظمی محدث ملتانی ؒ کے زیر سایہ کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی ۔ غالبا علامہ کاظمی ؒ کی تحریک پر امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی ؒ کی قائم کردہ درسگاہ جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ( انڈیا) مزید تعلیم کے لئے تشریف لے گئے ، وہاں نواسہٗ اعلی حضرت، اما م معقولات و منقولات علامہ مفتی تقدس علی خان رضوی ؒ ( جو کہ بعد میں سندھ تشریف لائے اور جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے اور اس پاک سر زمین میں مد فون ہوئے ) کے حضور زانوئے تلمذ طے کئے۔ اس کے بعد پاکستان تشریف لائے اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخلہ لیا اور محدث اعظم پاکستان حضر ت علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد رضوی ؒ کے پاس درس نظامی کی اور دستار فضیلت باندھی ۔
بیعت :
فراغت تعلیم و تکمیل علوم کے بعد آپ نے بیعت ہونا ضروری سمجھا ، آپ کو بچپن ہی سے اما م العارفین ، غوث العالمین ، غیاچ المسلمین مجدد بر حق حضرت سید محمد راشد پیر سائیں روضے دہنی قدس سرہ الاقدس سے عقیدت و محبت گھٹی میں ملی ہوئی تھی اسی محبت کی خاطر آپ نے حضرت قبلہ عالم کے سلسلہ عالیہ میں بیعت ہونا پسند کیا، اور آپ ہی کے خلیفہ حضرت سید محمد حسن شاہ جیلانی ؒ ( بانی درگاہ بھر چونڈی شریف ) کے سجادہ نشین شیخ طریقت مجاہد اہل سنت حضرت پیر عبدالرحمن قادری ؒ کے ہاتھ ر سلسلہ عالیہ قادر یہ راشدیہ میں بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی ۔
تصنیف و تالیف:
معلوم ہوا کہ آپ شاگردی کے دور میں وقت بوقت اخبارات میں مضامین لکھتے تھے اور طلباء کو اسباق کی تقار یر بھی تحریر کر کے دیتے تھے، جو کہ ااج محفوظ نہیں ۔
عارف باللہ ، سندھ کے عوامی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی قادری ؒ کے صوفیانہ کلام پر مشتمل دیوان ہے جس کا نام ’’شاہ جورسالو ‘‘ہے ۔ اس میں سے اپنی پسند کے ایک سوا بیات(شعر ) کی تلخیص’’گلدستہ عشق ‘‘ کے نام سے مرتب کی ،جسے بعد میں نیشنل بک اسٹور لاڑکانہ نے شائع کیا۔ ایک سوابیات آپ کو حفظ تھے جس کو ترنم سے پڑھ کر اپنی تقریروں کو چارچاند لگاتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی تصنیف سامنے نہیں آئی ۔
تلامذہ :
جہاں تک معلوم ہے کہ آپ نے باقائدگی سے کسی دینی درسگاہ میں تدریس کے فرائض انجام نہیں دئے تھے۔ البتہ شروع کے دنوں میں بعد فراغت اسکول میں عربی کے استاد مقررہوئے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد استعفیٰ دے کر پوری توجہ خطابت پر مرکوز فرمائی ۔
خطیب اسلام مقبول اہلسنت مولانا حافظ علی اکبر قاسمی ، طوطی بیاں مولانا امیر بخش چنہ اور مجاہد اہلسنت مولانا بدر الدین سترہیہ خطیب چار یار مسجد لاڑکانہ وغیرہ واعظین مولانا بلبل سندھ ؒ کے تربیت یافتہ و صحبت یافتہ ہیں۔ اور فقیر کو بھی بچپن میں آپ کی صحبت و شفقت حاصل رہی ہے ۔
اولاد:
آپ نے دوشادیاں کی تھیں ۔ پہلی بیوی سے فقط ایک بیٹی ہوئی تھی ۔ بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی ایک بیوہ عورت سے کی جس میں سے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تولد ہوئی اورچار بچوں میں سے ایک بچہ بچپن میں انتقال کر گیا تھا۔ تین بیٹے صاحب اولاد ہیں : (۱) عبدالرشید (۲)محمد یوسف (۳)شرف الدین
سفر حرمین شریف :
آپ نے زندگی میں ایک بار حرمین شریفین کا سفر کیا ۔ ۲۵ ، نومبر ۱۹۷۵ ء کو حج پرگئے حج کیا اور مدینہ منورہ حضور پر نور ﷺ کے روضہ اقدس پر حا ضری کی سعادت حاصل کی اور صلوۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔
حضور کا پروانہ ، ساعی زندگی عظمت مصطفی ﷺ کے ڈنکے بجانے والا ، سندھ کے قریہ قریہ بستی بستی میں شان مصطفیﷺ کی خوشبوئے بکھیرنے والا ، دور دور سندھ میں درودوسالام نعت و مولودکی مجالس برپا کرنے سے زبان قاصر ہے ، البتہ یوں ہوگا:
سل بھر آیا ہے تو جی کھول کے رو لینے دو
پھر کبھی جوش پہ یوں دیدہ تر ہو کہ نہ ہو
حلیہ مبارک :
بقول حضرت پیر محمد ابراہیم خلیل فاروقی مدظلہ العالی کہ مولانا بلبل سندھ کا حلیہ اس طرح تھا : سہنی صورت بیش بہا قیمتی لباس ،زریدار قلے پر پشاوری یا مشہدی ساڑھی ، پنجابی طرز پر بندی ہوئی ،گر جدار آواز مگر شیریں ، قد معتدل مائل بہ بلندی ، رنگ گندم ، دبلے پتلے ، چہرہ خوبصورت پرکشش ، گال روشن روشن ، ہونٹ گلاب کی پتیوں کی طرح باریک گلابی،مزا ج نرم ، اخلاق کے پیکر اور داڑھی شریف پر مہندی لگاتے تھے ۔
خطابت:
خطابت مولانا بلبل سندھ کی پہچان تھی ، مولانا سحر انگیز خطابت کے سبب پیران عظام کے محبوب اور اہلسنت و جماعت میں مقبول اور علماء کی شان تھے ۔ قدرت نے مولانا کو حاضر جوابی ، فن خطابت ، خوش الحانی ، طرز بیانی ، گوہر روانی اور فصیح لسانی میں کامل قوت و حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ ہر مو ضوع پر بولنے اور موضوع کو نبھانے کا خوب سلیقہ تھا، رد فرقہ باطلہ ان کا خاص موضوع تھا ،آپ تکمیل تعلیم کے بعد اسکول میں عربی کے استاد مقرر ہوئے ، جوں جوں سندھ کے حالات سے واقفیت ہوئی تو محسوس کیا کہ سندھ میں وہابیت پر نکال رہی ہے ۔ دوسری طرف سندھ کے عوام الناس بالکل سیدھے سادھے ہیں ، انہیں ان بھیڑیوں کے حملہ سے بچانا نہایت ضروری جانا اس لئے عملی زندگی میں قدم بڑھایا، نوکری کی قربانی دی ، خطابت کے لئے اپنے کو وقف کیا اور خارزاروں پر قدم رکھا اسی روز سے وصال تک احقاق حق و ابطال باطل میں مصروف رہے ۔ لیل و نہار شہر شہر ، نگر نگر، قریہ قریہ، بستی بستی اپنے خطاب سے لوگوں کے قلوب میں عشق مصطفی کی شمع روشن کی ، اہل سنت کو بیدار کیا، وہابیت دیوبند یت اور بد مذہیت کے فتنے سے آگاہ کیا، ان کی رسول دشمنی ، گستاخیاں، بے باکیاں ، بے ادبیاں ، مکرو فریب اور تقیہ بازی سے سندھ بھر کے عوام الناس کو خبر داررکھا ۔ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒکے علم و فضل سے اہل سندھ کو رو شناس کیا ۔وہابیت دیوبندیت شیعیت، غیر مقلدیت، قادیانیت وغیرہ کے رد میں مولانا کا جواب نہیں۔
جامع مسجد عثمانیہ متصل درگاہ شریف حضرت مخدوم محمد عثمان قریشی ؒ شہر لاڑکانہ میں تقریبا تیس (۳۰) برس جمعہ کوفی سبیل اللہ خطابت کے فرائض سر انجام دئے ۔ عید الفطر اور عیدالاضحی کے مواقع پر حضرت پیر صاحب پگارہ کی دعوت خاصپر درگاہ شریف راشد یہ پیر گوٹھ تشریف لے جاتے جہاں ہزار رہا افراد کو اپنے خطابت سے نوازتے ۔ اس کے علاوہ اسی دربار پر سالانہ عید معراج النبی ﷺ کے موقع پر بھی خصوصی خطاب فرماتے۔ درگاہ مشوری شریف کے سالانہ عظیم الشان جلسہ جشن عیدمیلادالنبی ﷺ میں ولولہ انگیز خطاب سے جماعت کو مسرور فرماتے ۔ حرمجاہدین ۱۹۴۲ء کے مارشل لا میں جوسیر تھے انہیں مولانا صاحب تعلیم قرآن دیا کرتے تھے۔
جامع مسجد غوثیہ ٹانگہ اسٹینڈ لارکا نہ میں سالانہ عرس خواجہ غریب نواز میں آپ کا اردو میں خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا۔غوث العالمین حضرت بہاوالدین زکر یا ملتانی قدس اور حضرت شاہ رکن الدین ؒ کے سالانہ اعراس کے موقعہ پر آ پ کا خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا آپ سندھی کے علاوہ اردو میں بھی روانی سے تقریر کیا کرتے تھے ، مدرسہ انوارالعلو م ملتان میں دستار فضیلت میں آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی ۔ سندھ کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان کے بھی محبوب خطیب تھے ۔آپ کے ان خطابات سے اعتقادی و اصلاح احوال کے حوالہ سے عوام الناس میں انقلاب برپا ہوا۔غیر مسلم،ایمان کی بدولت سے مالا مال ہوئے، گمراہ ، صراط مستقیم پر گامزن ہوئے ، بھٹگے ہوئے راہ راست پر آلگے ، بے نمازی ، نمازی بنے،بے دین دیندارصالح بنے ، بد کردار ہوئے ، اور کئی بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا جنون ہوا ، کئی والدین نے اپنے بچوں کے دینی مدارس میں داخل کروائے،جو کہ آگے چل کر محراب و منبر کی زینت بنے ۔ نوجوان علماء پر خطابت کی راہیں کھلی ۔
یہ ہیں آپ کے خطابت کے وہ تاثرات جو کہ ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہوئے۔آ پ اپنے خطاب میں قرآن و سنت کے دلائل کے بعد بلبل باغ رسالت امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ اور صوفی باصفا عاشق مصطفی، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی قدس سرہ لاقدس کے اشعار موقع محل کے مطابق جب گنگنانے تھے تو محفل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ اور تقریر میں شہری انتظامیہ اور وڈیروں کو بھی حق کہنے میں کبھی نہیں ڈرے ۔ بہر حال مولانا بلبل سندھ کی زندگی بے باکی ، حق گوئی ، سادگی اور للہیت کی بہترین نمونہ تھی ۔
جدا جدا جو وصف دیگر خطباء میں تھے
وہ سب کے اس عاشق مصطفی میں تھے
بلبل سندھ :
سندھ باب الا سلام ہے اس لئے سندھ کی زبان عشق مصطفی ہے اور مولانا باغ مصطفی میں عشق مصطفی ﷺ کے گیت ترنم و عقیدت سے گنگناتے تھے اسے لئے بلبل باغ مصطفی ہوئے یعنی بلبل سندھ ۔ مولانا احمد بخش بھٹو نے بتایا کہ مولانا صاحب کو یہ خطاب شیخ العرب والعجم ، فقیہ اعظم ، امام اہلسنت حضرت علامہ مفتی پیر محمد قاسم مشوری ؒ الباری (بانی درگاہ مشوری شریف ) نے اپنی زبان فیض ترجمان سے مرحمت فرمایا۔ اس کے بعد ’’بلبل سندھ ‘‘ آپ کے نام کا جزبن گیا ۔ اور فلک شگاف نعرے ’’ بلبل سندھ زندہ باد ‘‘ بلند ہونے لگے ۔
وزارت کی پیشکش :
آپ نے ایک روز عثمانیہ مسجد میں خطاب کے دوران فرمایا: ہمیں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے وزارت کی پیشکش کی ۔ لیکن آپ نے یہ کہہ کر پیشکش ٹھکرادی کہ: وزارت صدارت آے جانے والی چیز ہے آج دی جائے گی اور کل چھینی جائے گی، لیکن اللہ کریم نے حضور پر نورﷺ کی ثناء خوانی کا جو منصب ہمیں عطا کیا ہے یہ ہمارے لئے کافی ہے یہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکتااور انشاء اللہ تعالیٰ مرتے دم تک یہ ہمارے پاس ہو گا۔
لوگ کیا کیا بک گئے تو نے نہیں بیچے اصول
تیرے دامن کو بہت ہے دولت عشق رسول
وصال :
عمر طویل نہ تھی خطاب کے لئے مسلسل سفر پہ رہنے کی وجہ ، محنت ، مشقت کے سبب، عمر رسیدہ نظر آنے لگے اور مختلف بیماریوں (ذیابیطسن ، پتھری وغیرہ ) کی وجہ سے بہت کمزور و نحیف ہو گئے اس کے باوجود دن رات ثناء خوانی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد ایک اور صدمے سے دوچار ہوئیکہ بھتیجے سراج احمد کو پالا پوسا پڑھایا لکھایا لیکن جب وہ اسلام آباد میں ڈاکٹر لگ گئے تو اس نے بے وفائی کی اور یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے ۔ جس کے سبب دل ٹوٹ چکا تھا تقریر و گفتگو میں بات بات پر آنکھوں سے آنسے کی لڑی لگ جاتی تھی ۔ ایسے عالم میں جب آپ اندر سے چکنا چور ہو چکا تھے پھر بھی امت مصطفویہ کی ہدایت و نصیحت کا جو بیڑا اٹھایا تھا وہ سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا اور یوں شعرا کثر گنگناتے تھے کہ :
محمد ﷺ کی ثنا کر تے ہوئے گر میرا دم نکلے
فرشتے غسل دیں لاشے میرے کو آب کوثر سے
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہ ہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اور یہ آپ کی دیرینہ آرزو پوری ہوئی کہ حضورﷺ کی ثناء خوانی میں وصال کیا ۔
یکم رجب المرجب ۱۴۰۷ھ؍۲،مارچ ۱۹۸۷ء بروز پیر شام کے پونے تین بجے مدرسہ انوارالعلوم کندھ کوٹ ( ضلع جیکبآباد سندھ ) میں ۶۹ سال کی عمر میں وصال کیا اور انتقال کے وقت باآواز بلند اللہ اکبر سننے میں آئی اور روح پرواز ہو کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوئی ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون انتقال کندھ کوٹ میں کیوں ہوا ؟اس لئے کہ وہاں دودینی کاموں سے گئے ہوئے تھے ایک تو اس مدرسہ کو مدرس کی ضرورت تھی اس لئے لاڑکانہ سے مولوی شیر محمد سندیلو کو ساتھ لے کر گئے تھے اور رات کو اسی مدرسہ میں جلسہ تھا ۔ اس طرح دین کی راہ میں سفر کی صورت میں جان جان آفرین کے سپرد کی ۔ آپ کی نماز جناح باغ لاڑکانہ میں ہوئی جس میں علماء کرام ، مشائخ عظام اور عوام وخواص نے کثرت سے شرکت کی ۔ جناب سید غلام حسین شاہ بخاری نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ طریقت حضرت میاں علی محمد مشوری ، حضرت حافظ نالے مٹھا مشوری ( درگاہ مشوری شریف ) مخدوم حافظ عبدالرحیم سومرو ، مولانا مفتی محمد صالح نعیمی، مفتی درمحمد سکندری (سانگھڑ) خطیب اسلام مناظر اہل سنت علامہ قادر بخش قاسمی ( رحمانی نگر ) مفتی غلام محمد نعیمی(ملیر ) مفتی محمد حسین قادری ( سکھر ) مفتی محمد ابراہیم قادری (سکھر ) مولانا ہدایت اللہ آریجوی اور راقم زین العابدین راشدی وغیرہ وغیرہ نے شرکت کی ۔
جامع مسجد عثمانیہ متصل درگاہ شریف حضرت مخدوم محمد عثمانیہ قریشی ؒ کے روضہ شریف میں مدفون ہوئے جہاں آپ کا مزار شریف مرجع عام و خاص ہے ۔ (ماخوذ : تذکرہ مولانا بلبل سندھ قلمی)
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
دیرینہ کرم جناب طارق سلطانپوری ( حسن ابدال ) نے راقم کی فرمائش پر ’’قطعہ تاریخ وصال ‘‘ مرحمت فرمائی ۔
تابانی فکر و زین نظر
۱۹۸۷ء
تابانی فکروزین نظر
۱۹۸۷ء
ہے ’’بھر چونڈی‘‘مرے پیارے وطن کا
نمایاں مرکز رشد و ہدایت
گرانی مرتبت وہ بلبل سندھ
اسی درگاہ سے تھی اس کو نسبت
زمانے کا وہ مرشد عبد رحماں
تھا اس کا اس کے سر پر دست شفقت
وہ تلمیذعارفان وقت کا تھا
سعادت مند تھا وہ در حقیقت
تقدس ، کاظمی ، سردار احمد
تھے اس کے رہبران باکرامت
تھی مقبول جہاں تقریر اس کی
غذا ئے روح تھی اس کی تلاوت
تھا انداز بیاں اس کا یگانہ
تھی اس کی منفرد طرز خطابت
تھا اسلوب نوا اس کا موثر
تھی اس کے نطق میں اک خاص لذت
وہ فخر صاحبان علم و دانش
وقار اہل حق وہ خوب قسمت
سن ترحیل اس کا میں نے ’’طارق‘‘
کہا ہے ’’جلوہ شان خطابت‘‘
۱۴۰۷ھ
مولانا در محمد ’’ خاک‘‘ صدیقی
مولانا ابوالاقبال در محمد خاک صدیقی ۱۲، ربیع الاول شریف بروز پیر، گوٹھ کاندھلہ نزد نصیر آباد ضلع لاڑکانہ میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مقلانا در محمد نے ابتدائی تعلیم آخوند محمود لا کھیر اور حکیم میاں جمال الدین سے حاصل کی ۔ (میاں جمال الدین آپ کے قریبی رشتہ دار، ایک لاثانی حکیم اور عالم دین تھے)۔ مولانا نے فارسی کی تعلیم مولانا مسعود سے حاصل کی جو کہ حضرت علامہ عطا ء اللہ فیراز شاہی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے ۔ اس کے بعد عربی کی کی ابتدائی کتب مولانا حافظ فدا احمدمہیسر کے پاس پڑھیں ۔ اور اعلی تعلیم کے لئے حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن دھامراہ کی خدمات حاصل کی ۔ اس کے بعد نورنگ واہ ( تحصیل قمبر علی خان ) کے مدرسہ میں مولانا میر محمد نورنگی کے درس میں شامل ہوئے ۔ اس کے علاوہ گوٹھ گاجی کھاوڑ ( نزد نصیر آباد ) میں حضرتمولانا ابوالخیرات محمد صالح کے پاس درسی کتب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت :
مولانا درمحمد ۱۸ سال کی عمر میں سلسلہ قادریہ سلطانیہ میں مفتی اعظم ، رئیس العلماء ، عاشق خیر الوریٰ ، عارف کامل حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی ؒ کے دست بیعت ہوئے ۔ اس کے بعد دادو ضلع کے نامور نقشبندی بزرگ حضرت مولانا غلام محمد ملکانی ؒ ( ملکانی شریف ) کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندی یہ میں بیعت ہوئے ۔
درس و تدریس :
مولانا بعد فراغت ۸سال اپنے گوٹھ میں ، ۱۳برس لعلورائنک میں درس دیا۔ اس طرح فرید آباد ( میہڑ) اور شکار پور میں بھی درس دیا ۔ درس و تدریس سے بارہ طلباء فارغ التحصیل ہوئے ۔ مسجد ناراجیل حیدر آباد میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دئیے۔
شاعری :
مولانا کو شاعری سے خاص قلبی لگاوٗ تھا۔ ’’خاک ‘‘ تخلص تھا ۔حمد ، نعت ، مولود ، منقبت اور غزل صنف میں کلام دستیاب ہے ۔ ( سندھی میں فقہی تحقیق جوار تقاء ص)
تصنیف و تالیف:
مولانا درمحمد کاندھلوی کثیر التصانیف عالم تھے ۔ اس کے رسائل ، عربی ، فارسی اور سندھی میں تحریر شدہ ہیں۔ مولانا نے اپنے گوٹھ کاندھلہ میں اشاعتی مرکز ’’ادارہ سبحانی ‘‘قائم کیا جس کے تحت اپنی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ادارہ سے بعض رسائل شائع ہوئے ۔ آپ کی تصانیف میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :۔
٭فتاویٰ صدیقی (قلمی)
٭انوار محمدیہ ﷺ (سندھی ) مطبوعہ فروری ۱۹۸۱ء
٭خزانۃالعارفین (سندھی ) شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعض اشعار کی شرح
٭الوحی الوفی فی وجوب ذکر الخفی
٭اعانۃ الوحید فی رد عقائد السنی الجدید ( سندھی ) ردشیعیت
٭نور الابصار فی جواز الجمعۃ فی القریہ والامصار
٭تحفۃالاخوا ن فی اباحۃالتنباک و شربالدخان (مطبوعہ ۱۳۹۷ھ ۱۹۷۷ئ)اس رسالہ میں تمباکو کو مباح قرار دیا۔
٭اللمعۃفی تحقیق الخطبۃ(عربی )
٭عمدۃالالقاب
٭شرف الشبیہ فی شرح شجرۃالطیبہ
٭کلیات خاک ٭رباعیات خاک
٭خطبات خاک ٭بھیج پاگارہ ، پیر پیارا
وصال :
مولانا درمحمد کا اپنے متعلق خیال تھا کہ وہ ’’مجدد ‘‘ ہیں ۔ اپنے کو مجددثابت کرنے کیلئے انہوں نے مستقل ایک رسالہ ’’عمدۃالالقاب ‘‘لکھا۔ او رانوار محمد یہ کے آخر میں مجدد کے ثبوت میں علم الاعداد کے ذریعے دلائل درج کئے ہیں ۔
مولانا در محمد خاک نے ۳۰، ربیع الاول ۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱ء شب جمعہ انتقال کیا۔ (انوار محمدیہ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)