مفتی اعظم حضرت علامہ سعد اللہ انصاری
مفتی اعظم حضرت علامہ سعد اللہ انصاری (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء حضرت مفتی اعظم علامہ محمد سعد اللہ انصاری تقریباً ۱۸۶۴ء میں نیوہالا (ضلع حیدرآباد) کے انصاری محلہ میں تولد ہوئے (السند)
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم ہالا میں حاسل کی اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ تحصیل علم کے بعد وطن واپس ہوئے (تاریخ و ماہ ولادت، اساتذہ کے نام ، فراغت کا سن معلوم نہ ہوسکا)
جامع مسجد صدر حیدرآباد کے امام و خطیب مقرر ہوئے۔ علوم دین کے علاوہ مختلف ادیان نجوم اور عروض و غیرہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔
مفتی اعظم:
۱۹۰۱ء میں اخبار میں خیر پور ریاست (سندھ) کیلئے سنی مفتی کی ضرورت کا اعلان جاری ہوا۔ اخباری اعلان پڑھ کر مفتی صاحب کی طرح کئی علماء وہاں تشریف لے گئے لیکن مفتی صاحب کامیاب قرار پائے۔
مفتی صاحب ریاست کی طرف سے ریاست کیلئے ’’سنی مفتی اعظم‘‘ مقرر ہوئے۔ قضاء کی شدید مصروفیات کے باجود درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی اور تصنیف و تحقیق کا کام بھی جاری رکھا۔
خی رپور میرس ریاست کے ٹالپ رحکمران شیعہ تھا انہوں نے شیعہ کیلئے شیعہ مفتی، مولوی خادم حسین ملتانی کو مقرر کیا ہوا تھا ۔ شیعہ مفتی نے اپنی حکومت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عقائد اہلسنت و جامعت کے خلاف اپنے مذہب کی حمایت میں ایک کتاب ’’پستول حیدری‘‘ لکھ کر شائع کی۔
علامہ مفتی سعد اللہ انصاری نے ۱۹۳۰ء میں پستول حیدری کی تردید میں لا جواب علمی و تحقیقی شاہکار ’’توپ محمدی‘‘ لکھ کر شائع کی۔ کتاب کیاتھی تحقیقات کا نادر نمونہ کہ شیعیت کی تردید خود انہیں کی معتبر و امہات کتب سے کی گئی۔ جس کی اشاعت سے ماتمیوں کے گھروں میں ماتم ایسا چھا گیا کہ ابھی تک ان کے گھروں میں وہی سائے منڈلا رہے ہیں۔ توب محمدی نے شیعیت کے گھروں کو جڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیا گویا یہ ان کیلئے زلزلہ ثابت ہوا۔ اور سیدھے سادھے لوگ شیعیت کے سباعی مذہب سے دور بھاگے۔
نتیجتاً ریاست کے حاکم…/ نے مفتی اہل سنت کی مال ملکیت ضبط کرلی، کتاب توب محمدی پر پابندی عائد کی اور آپ کو شہر بدر کیاگیا۔ اعلان حق کی خاطر آپ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تمام سختیاں تکالیف برداشت کی لیکن اپنے موقف سے بال برابر بھی نہیں ہٹے۔
ان دنوں انگریز حکومت تھی وائے سرائے نے دونوں کتابوں کو ملاحظہ کی ااور اس کے بعد فیصلہ سنایا کہ پستول حیدری‘‘ کے مصنف نے شرارت کی ہے اور گوب محمدی میں کوئی الزام تراشی نہیں ہے جو بھی دلائل دیئے گئے ہیں وہ مضبوط ہیں انہیں کی کتب سے اصل عبارت کے ساتھ دیئے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ پستول حیدری کے مصنف کو سز ادی جائے۔
مدرسہ کا قیام:
خیر پو رشہر والوں کے تعاون سے مدرسہ قائم کیا جس میں درس و تدریس کے علاوہ نازہائی اسکول میں عربی کی تعلیم بھی دیتے تھے (شریعت سوانح نمبر ۱۹۸۱ئ)
حضرت مفتی صاحب پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچ گئے مخالفین کا شروع سے یہ متعصب رویہ رہا ہے کہ انہٰں جب منہ کی کھانی پڑتی ہے تو علماء حق پر بزدلانہ حملہ کرتے ہیں ۔ حضرت مفتی صاحب اہلسنت و جماعت کے مفتی اعطم اور احناف کے قابل فخر سرمایہ تھے ، فقہ میں انہیں سندھ (اتھارٹی) کی حیثیت تھی۔
بیعت:
سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت مولانا پیر عبدالحق نقشبندی درگاہ خنیاری شریف (ضلع نوابشاہ) کے دست اقدس پر بیعت تھے۔
مفتی صاحب ، سکندی علماء کے استاد مولانا فقیر محمد صالح مہر (امام جامع مسجد درگاہ شریف راشدیہ پیران پاگارہ پیر جو گوٹھ ) کے استاد تھے۔ مفتی صاحب کو حضرت شمس العلماء پیر سید شاہ مردان شاہ راشدی المعروف پیر صاحب پاگارہ کوٹ دہنی علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۳۴۰ھ) نے اپنے مدرسے جامع راشدیہ پیر جو گوٹھ) میں استاد و مفتی مقرر کیا تھا۔ (روشن صبھ، ص۱۰۷، السادات اکیڈمی لارکانہ)
حضرت مفتی صاحب مستجاب الدعوات تھے، ایک بار خی رپور ریاست میں بارش نہیں ہورہی تھی جس کے سبب عوام الناس اور جانور بہت متاثر تھے، حضرت مفتی صاحب سے عرض کی گئی آپ نے اعلان کروایا اور مذکورہ تاریخ پر نماز استسقاء (بارش کیلئے نفلی نماز) پڑھائی تو اسی وقت آسمان پر بادل چھا گئے، جب دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو بارش شروع ہوئی اور تین یوم تک مسلسل بارش جاری رہی یہاں تک کہ لوگ بارش سے تنگ آکر آپ کے حضور حاضر ہوئے ارو آپ نے دعا فرمائی اور بارش رک گئی۔
شاعری:
حضرت مخدوم امین محمد ثانی صدیقی سہروردی ہالا والے علیہ الرحمۃ جو کہ عمدۃ العافرین غوث الزمان، قیوم زمان، حضرت سید محمد رشید الدین شاہ راشدی المعروف پیر سائیں بیعت دہنی علیہ الرحمۃ کے معتقد خاص تھے۔ ان کے وصال پر حضرت مفتی محمد سعد اللہ انصاری علیہ الرحمۃ نے قطع تاریخ وصال کہا:
شہ مار دنیاچو تشریف برد بعقبی شدہ نیز مسند نشین
سروبی دیر گفت ایں نوید شہنشاہ جنت محمد امین
۱۳۰۳ھ
(تذکرہ مشاہیر سندھ ص۱۷۵)
معلوم ہوا کہ مفتی صاحب قبلہ شاعری میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔
اولاد:
مفتی صاحب کی نرینہ اولاد بچپن میں فوت ہوگئی ، فقط ایک صاحبزادی زندہ رہی جو کہ حکیم حافظ عبدالکریم ہالا والے کے عقد میں آئی ا ور صاحب اولاد ہے۔
تصانیف:
درج ذیل کتب آپ کی یادگار ہیں اگر جدید طرز پر شائع ہوں تو کیا بات ۔
۱۔ توب محمدی ضخامت ۳۲۸ صفحات، کاتب پیر زادہ عبدالرزاق کی کتابت سے بتاریخ ۱۸، رمضان المبارک ۱۲۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔
۲۔ ضرب المدارس بجواب واقعۃ القرطاس (قلمی ، نایاب)
۳۔ الدلیل المعقول عن کان خلیفۃ الحق بعد الرسول (سندھی)
۴۔ خرافات اہل تشیع حصہ اول و دوئم (سندھی)
۵۔ عجالہ در جواب میر حسن علی خان ٹالپر حیدرآبادی (فارسی)
۔ جواب الجواب بر کلام مولوی اخلاق حسین (فارسی)
۷۔ سکینۃ الروح فی تذکرۃ مخدوم نوح (سندھی)
۸۔ بم گولہ در جواب بے ناگ
۹۔ بعض مسائل دینیہ (تمباکو کے متعلق)
۱۰۔ گلشن ریاضی(سندھی) اور دیگر نامکمل رسائل وغیرہ
(محترم سید مخمور بخاری (ہالا) کے مضمون سے ماخوذ السند مارچ ۲۰۰۲ئ)
مفتی صاحب اعلیٰ پائے کے خونشویس تھے اسلئے کافی کتب اپنے قلم سے نقل کی تھیں ان میں سے امام اہلسنت علامہ عبدالغور ہمایونی علیہ الرحمۃ کے کتب و رسائل کی کثرت تھی۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کثیرہ میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ حضرت مولانا محمدصالح مہر قادری، درگاہ شریف یر جو گوٹھ سابق صدر مدرس جامعہ راشدیہ
٭ مولاناغلام حیدر شاہ محلہ لقمان خیر پور میرس
٭ مولوی محمد صدیق سومرو محلہ لقمان خیر پور میرس
٭ مولوی فقیر محمد میمن محلہ لقمان خیر پور میرس
وصال:
ایک اندازے کے مطابق مفتی صاحب نے ۱۹۴۱ئ/۱۳۶۰ھ منیں خیر پور میرس میں (ماہنامہ السند مارچ ۲۰۰۲ئ) اس فانی دنیا سے انتقال کیا۔ میت کو غسل کیلئے حجرہ سے باہر لائے تو ہلکی بارش ہوئی غسل کے بعد میت کو اندر لایا گیا تاکہ دیدار کرایا جائے تو بارش تھم گئی۔ جب میت کو نماز جناہز اور دفن کیلئے دوبارہ باہر لایا گیا تو ہلکی بارش ہوئی جو کہ دفن تک جاری ہری۔ یعنی آپ کے انتقال پ رانسان تو افسردہ تھے لیکن آسمان بھی رویا بارش کی صور ت میں۔ سچ ہے:
موت العالم موت العالم(شریعت سوانح نمبر)
مولان امفتی عبدالرحیم صاحب سکندری (شاہ پور چارک) و دیگر احباب کے بقول مفتی سعد اللہ انصاری کی مزار شریف، حضر ت پیر رامپوری (متوفی ۱۹۳۶ئ) (محلہ سعد آباد خیرپور میرس) کی خانقاہ کے احاطہ میں مرجع خلائق ہے۔ اس محلہ کا اسل نام ’’سعد آباد‘‘ ہے جو کہ حضرت مفتی کی جانب سے منسوب ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)