حضرت علامہ سیماب اکبر آبادی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1299 | جمادى الآخر | |
یوم وصال | 1370 | ربيع الآخر | 22 |
حضرت علامہ سیماب اکبر آبادی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ سیماب اکبر آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
قادر الکلام شاعر و عالم مولانا عاشق حسین صدیقی المعروف سیماب اکبر آبادی بن مولانا محمد حسین صدیقی ، اکبر آباد (انڈیا) میں جمادی الاخر ۱۲۹۹ھ؍۱۸۸۰ ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
آپ کے گھر کا ماحول دینی روحانی تھا، اس لئے تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا اپنے والد ماجد سے دینی تعلیم حاصل کی اس کے بعد وقت کے مشاہیر علماء سے اکتساب فیض کیا ان میں سے حضرت مولانا جمال الدین سر حدی کا نام نمایاں ہے ۔
شاعری کا اعلی ذوق اور صلاحیت انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی ، کچھ ان کی اپنی کاوش و جفاکشی تھی ۔ فصیح الملک نواب مرزا داغ دہلوی سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ۔
بیعت :
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ وارثیہ میں حضرت حافظ حاجی سید وارث علی شاہ متوفی ۱۹۰۴ء (دیوہ شریف ضلع بارہ بنکی ، یوپی ، انڈیا)سے بیعت ہوئے۔
ذریعہ معاش:
آپ نے ذریعہ معاش کے لئے ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ ملازمت کے دوران ہی مقامی اور بیرونی مشاعروں میں شرکت اور صدارت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، اس وقت کے موثر رسائل و جرائد میں آپ کا کلام خصوصی امتیاز کے ساتھ شائع ہوا کرتاتھا ۔ دادا صاحب کی وفات کے بعد بہت بڑے کنبے کی کفالت کا تمام تربار آپ کے کاندھوں پر آپڑا تھا،لہذا ۱۹۲۲ئ کو ریلوے کی ملازمت سے مستعفی ہو کر مستقلا آگرے (اکبرآباد )آگئے اور ُنا ادبی ادارہ ’’قصر الادب ‘‘ قائم کر کے تصنیف و تالیف کو باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ دادا صاحب کا قائم کیا ہوا ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا اس میں مقدور بھر توسیع کی۔ قصر الادب کا ذیلی ادارہ ’’دارالتصنیف ‘‘قائم کیا جو کفالت کا بہترین ذریعہ بن گیا ۔ اور بہت جلد قصر الادب مرکز فیض بن گیا ۔
شادی و اولاد :
آپ نے انڈیا میں ۱۹۰۰ کو سکینہ بیگم سے عقد مسنون کیا۔ جس میں سے دو بیٹیاں اور چار بیتے تولد ہوئے ۔
حسینہ خاتون ، شمشاد حسین منظر ، جمیلہ خاتون ، اعجاز حسین اعجاز ، سجاد حسین ، مظہر حسین مظہر صدیقی مرحوم ۔ والد کے انتقال کے بعد مظہر صدیقی نے والد کے مشن کو جاری رکھا ناظم آباد میں ’’سیماب اکیڈمی‘‘قائم کر کے والد کی گرانقدر کتب کو طباعت کے زیور سے آراستہ کر کے مطالعہ کی میز تک پہنچائیں ، اس کے علاوہ علماء دانشور اور مشاہیرامت کے تاثرات بھی ہر کتاب کے ساتھ شائع کئے ۔ علاوہ ازاں مظہر صدیقی نے ماہنامہ پرچم کا ’’تعزیت نمبر ‘‘شائع کیا تھا جس میں بھی ہندوپاک کے علماء ، مشائخ ،دانشور ، شعراء اور مشاہیر کے تاثرات ، مناقب اور تاریخی قطعات درج ہیں ۔
پاکستان میں آمد :
۱۹۴۷ء کو پاکستان قائم ہوا اور اگست ۱۹۴۸ء کو سیماب انڈیا سے پاکستان کراچی تشریف لائے اور ۱۹۵۱ء کو انتقال کیا اس طرح وہ سرزمین پاک میں فقط تین سال زندہ رہے ۔اس سے واضح ہوا کہ آپ کی زندگی قصر الادب آگرہ میں علم و ادب کی خدمت میں بسر ہوئی ۔
تلامذہ :
قصر الادب سے نہ جانے کتنے حضرات میں شاعری کا ذوق ابھرا، نہ جانے کتنے لوگ صاحب دیوان بن گئے اور نہ جانے کتنے گمنام لوگوں کو شہرت دوام مل گئی ، تلامذہ کا مجموعہ روز بروز بڑھتا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ڈھائی ہزار تلامذہ نے آپ سے استفادہ کیا ۔
صحافت :
سیماب مرحوم کا کلام بے شمار اخبارات و رسائل میں شائع ہوا اور بہت سارے اخبارات و رسائل ان کی ذات کی وجہ سے وجود میں آئے ان میںسے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :
زیرادارت:
ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین ، ہفت روز ہ تاج ، ماہنامہ شاعر ، ماہنامہ کنول ، سہ روزہ ایشیا، ماہنامہ پرچم کراچی ۔ وغیرہ
تحریک پاکستان :
سیماب نے ۱۹۳۰ء کو ایک نیا رسالہ ’’شاعر ، آگرہ سے جاری کیا ، اسی کے ساتھ ہفت روزہ ’’تاج ‘‘ کا اجراء عمل میں آیا۔ ماہنامہ شاعر خالص ادبی وشعری رسالہ تھا اور ہفت روزہ ’’تاج ‘‘علمی ادبی اور سیاسی پرچہ تھا جو چار پانچ سال مسلسل شائع ہونے کے بعد کانگریس حکومت کے عتاب کی نذر ہوگیا ۔
۱۹۴۵ء تا ۱۹۴۸ء تک کا عرصہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے کس قدر صبر آزما اور حوصلہ شکن رہا تھا باخبر بخوبی جانتے ہیں ۔ ادبی دنیا پر بھی ایک جمود سا طاری رہا، وسوسوں اور تذبذب کے سوا کچھ اور تھا ہی نہیں ، کسی نہ کسی طرح قصر الادب کا تھوڑا بہت کام چل رہا تھا ۔ ماہنامہ شاعر کبھی وقت پر اور کبھی تاخیر سے شائع ہوتا رہا ۔ اس عالم میں بھی سیماب مرحوم کا قلم مسلسل چلتا رہا وہ اپنی قومی نظموں کے ذریعہ قوم کو آزادی کا پیغام دیتے رہے ، صلح و آشتی کا پرچار کرتے رہے ، مسلمانان ہند کو ان کا وقار اور ان کے اسلاف کے مسلک سے آشنا کرتے رہے ، گوانہوں نے خود عملی طور پر سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا مگر اپنے اعلی سیاسی شعور و تدبر کو اپنی تخلیقات کے ذریعے اکابرین تک پہنچاتے رہے جو مسلمانوں کے تحفظ اور وقار کے لئے شمع آزادی روشن کرنے کی جدوجہد میں مسلسل کو شاں اور مصروف تھے ۔
(ماخوذ: لوح محفوظ : پیش لفظ ، مطبوعہ سیماب اکیڈمی)
تصنیف و تالیف :
آپ کی نظم ونثر میںچھوٹی بڑی تصانیف و تالیفات کی تعداد ۲۸۴ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے بعض مشہور و معروف تخلیقات کا تعارف درج ذیل ہے۔
٭ وحی منظوم: قرآن مجید کا مکمل منظوم اردو ترجمہ مع تشریح ، سیماب اکیڈمی کراچی نے نومبر ۱۹۸۱ء کو شائع کیا دوران طباعت ہی صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے اس منفرد و منظوم ترجمہ کو ’’ہجرۃ ایوارڈ‘‘دیا۔(تین جلدیں )
٭ ساز حجاز: روح پرور نعتیہ کلام مطبوعہ سیماب اکیڈمی کراچی ۱۹۸۲ء
٭ ستون کعبہ : شہداء کر بلا کو خراج عقیدت
٭ استوار الاصلاح :فن اصلاح پر مشتمل ہے ، آٹھواں ایڈیشن ۱۹۴۶ء کو شائع ہوا ۔
٭ الہام منظوم اردو ترجمہ مثنوی مولانا روم : مولانا فیروز الدین مالک فیروز اینڈ سنز کی فر مائش پر مکمل ترجمہ کیا جو کہ ۶ جلدوں میں شائع ہوا۔ مولانا نے پیش لفظ میں لکھا: یہ مشکل کام کسی بڑے سے بڑے شاعر کے بس کی بات نہ تھی ‘‘۔
٭ سیرت النبی ﷺ (نثر ) : تاج کمپنی لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائر یکٹر شیخ عنایت اللہ کی فرمائش پر تحریر کی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان
٭ کلیم عجم: پہلا دیوان جو کہ ۱۹۳۶ء کو شائع ہوا اس میں ان کے وہ چودہ خطبات بھی شامل ہیں جو کہ مختلف مشاعروں مین بحیثیت صدر پڑھ چکے تھے ۔
٭ کارامروز:نظموں کا پہلا مجموعہ ۱۹۳۶ء کو آگرہ سے شائع ہوا۔
٭ سدرۃ المنتہی : غزلوں کا دوسرا دیوان شائع ہوا۔
٭ سازو آہنگ :نظموں کا خوبصورت مجموعہ شائع ہوا۔
٭ شعر انقلاب : نظموں کا خوبصورت مجموعہ شائع ہوا۔
٭ قائد کی خوشبو : قائداعظم کے صد سالہ جشن پیدائش کے موقع پر متعلق ولولہ انگیز نظموں پر مشتمل سیماب اکیڈمی کراچی نے شائع کی ۔
٭ نے ستاں : ابتداء میں سب سے پہلا مجموعہ شائع ہوا جو کہ مذہبی نظموں ، نعتوں اور تصوف پر مبنی کلام پر مشتمل ہے ۔
٭ لوح محفوظ :غزلوں کا آخری دیوان ہے جسے سیماب اکیڈمی کراچی ۱۹۸۳ء کو شائع کیا۔
٭ کلیات سیماب ۔
٭ ریاض الاظھر فی احوال سید البشر :(مولف مولوی محمد باقر آگاہ ) مرتبہ شارح ،سیماب طبع اول قومی پریس معسکر بنگلور انڈیا ۔ (بحوالہ: اردو میں میلاد النبی ص)
نمونہ کلام :
آپ کے کلام میں سے تبر کا کچھ اشعار نذرقارئین ہیں :
سر کار غوث اعظم، محبوب سبحانی ، قندیل نورانی ، قطب ربانی، حضور سید عبدالقادر جیلانی کے حضور اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں :
خاک بوس آستان شاہ جیلانی ہوں میں
کاش! اسی مٹی میں مل جاوٗں اگر فانی ہوں میں
صدر محفل میں مرا منبر رہے سب سے بلند
مدح سنج حضرت محبوب سبحانی ہوں میں
ہے تصور کو میسر حاضری بغداد کی
غوث اعظم کا ارادت مند روحانی ہوں میں
سطوت ناز و نعم ہے میری نظروں میں حقیر
پر غرور اک بندہ درگاہ سلطانی ہوں میں
(لوح محفوظ)
حضت سیماب واعظین و ذاکرین کی محرم الحرام کے سلسلہ میں بعض غلط روایات کا اس طرح نوٹس لیتے ہیں، جس سے حضرت کی علمیت اور گہرے مطالعہ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
آل عبا کی چادر سرکون پھاڑتا ہے، یہ ہے اک افترا
کیوں دامن ادب کی اڑاتا ہے دھجیاں، خاموش نوحہ خواں
کھینچی تھی کس نے بالیاں بنت حسین کی، ہے بات بے تکی
اس وقت کب عرب میں مروج تھیں بالیاں، خاموش نوحہ خوان
مہندی لگانا آج جو لوگوں میں عام ہے، مکروہ کام ہے
مہندی لگاتے ہاتھ کیوں؟ قاسم جواں، خاموش نوحہ خواں
بین و بکا تو شیوہ آل عبا نہ تھا، شکوہ گلہ نہ تھا
صابر تھی خاندان امامت کی بیبیاں، خاموش نوحہ خواں
حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کے معراج شریف کے متعلق سیماب نے اس طرح پھول کھلائے ہیں:
ہو چکے جب عبد اور معبود میں راز و نیاز
ہوگئی انسانیت روحانیت سے سرفراز
قربت محبوب تھی اک گو مگو کا ماجرا
یعنی جو دیکھا وہ دیکھا اور سنا جو کچھ سنا
تھا یہ منشا اب یہیں رہ جائو اے میرے حبیب!
عرش و کرسی کو تمہارا فخر قربت ہو نصیب
سلسبیل وکوثر و تسنیم کو دو آبرو
گلشن فردوس کو حاصل ہو تم سے رنگ و بو
آسمانوں کو تمہارا قرب وجہ ناز ہو
عالم لاہوت، پابوسی سے سر فراز ہو…
لوٹ آئے جانب دنیا رسو کائنات
پیکر مردہ میں جیسے عود کر آئے حیات
محفل انساں میں پھر انسان کامل آگیا
قالب کونین میں کونین کا دل آگیا
عرش عالی ظرف انساں کے نہ قابل ہوسکا
آسمان بار نبوت کا نہ حاصل ہوسکا
جلوہ احمد سے دنیا ضوفشاں کردی گئی
یہ امانت پھر سپرد خاکداں کر دی گئی
(ساز حجاز ص ۵۱)
وصال :
فقید المثال، قادر الکلام شاعر، عربی فارسی انگریزی اور سنکسرت پر دسترس رکھنے والے محقق عالم، ولولہ انگیز نقاد محرر، انقلاب آفریں دانشور و صحافی سیماب اکبر آبادی نے ۳۱ جنوری ۱۹۵۱ئ/۱۳۷۱ھ کو کراچی میں اکہتر(۷۱) سال کی عمر میں انتقال کیا۔ شاہراہ قائدین سابقہ قائد آباد نزد مزار قائد مختصر قبرستان میں سبز گنبد کے اندر مزار واقع ہے۔
اپنی اکہتر۷۱ سالہ زندگی میں پچاس سال تک مسلسل اردو شعر و ادب اور صحافت کی گرانقدر اور بیش بہا خدمات انجام دیں جسے تا قیامت اہل علم یاد کرتے رہیں گے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)