حضرت امیر حسن بن علا سنجری دہلوی
حضرت امیر حسن بن علا سنجری دہلوی (تذکرہ / سوانح)
آپ کو اپنے زمانے کے باکمال علماء میں خاص مقام و عزت حاصل تھی، شیخ نظام الدین کی قربت اور نظرِ عنایت کی وجہ سے دوسرے تمام مریدوں سے فائق اور ممتاز تھے، حسن معاملہ اور پاکیزگی باطن اور دیگر تمام اوصاف حسنہ کی وجہ سے یکتائے زمانہ تھے، اسی طرح تصوف کے تمام تر اوصاف سے موصوف تھے اگرچہ آپ اور امیر خسرو باہم دیگر دوست تھے لیکن باوجود اس کے امیر خسرو پر آپ کو ایک قسم کی برتری حاصل تھی، آپ نے سلطان غیاث الدین بلبن کی مدح میں قصائد لکھے تھے اور امیر خسرو کے کلام میں اس بادشاہ کی تعریف کے سلسلہ میں کوئی شعر نہیں ملتا، البتہ امیرخسرو نے زیادہ تر سلطان غیاث الدین بلبن کے فرزند ارجمند خان شہید کی تعریف میں قصائد لکھے ہیں جو اپنے والد کی زندگی میں ملتان کا گورنر تھا یہ اس زمانہ کی بات ہے جب امیر خسرو اس کے ہاں ملتان میں ملازم تھے، خان شہید نے شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی سے ملتان تشریف لانے کی درخواست کی تھی لیکن شیخ سعدی نے آنا تسلیم نہیں کیا اور فرمایا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں (کہیں آنے جانے کی طاقت نہیں رہی) علاوہ ازیں ہندوستان کی سیر کی خواہش بھی نہیں اور امیرخسرو اور شیخ سعدی کی ملاقات کے جو قصے مشہور ہیں وہ تمام تر بے اصل اور بے بنیاد ہیں، میر حسن نے اپنی کتاب فوائدو الفواد میں شیخ نظام الدین کے ملفوظات کو جمع کیا ہے، یہ کتاب اپنے متین الفاظ اور لطیف معانی کے اعتبار سے شیخ نظام الدین اولیاء کے مریدین اور متعلقین میں ایک قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ امیر خسرو فرمایا کرتے تھے کہ کاش میری تمام تالیفات میر حسن کے نام سے منسوب ہوجاتیں اور ان کے عوض میں فوائد الفواد میرے نام سے منسوب ہوتی یہ بات اس پر واضح اور بین دلیل ہے کہ امیر خسرو کو اپنے شیخ سے غایت درجہ کی محبت تھی۔
فوائد الفواد میں ہے کہ ایک دن میں شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت مکان کی سیڑھی پر بیٹھے تھے، میں چوکھٹ پر بیٹھ گیا، ہوا کے تیز جھونکوں سے بار بار دروازہ بند ہوجاتا، چنانچہ میں اس دروازے کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا کچھ دیر کے بعد مرشد نے میری طرف دیکھا کہ میں دروازے کو پکڑ کر کھڑا ہوں تو فرمایا کہ اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے، میں نے نیازمندانہ طور پر عرض کیا کہ میں نے یہ در پکڑ رکھا ہے تو آپ نے مسکرا کر فرمایاکہ تم نے یہ در پکڑ لیا ہے اور مضبوط پکڑ لیا ہے۔
نیز فوائد الفواد میں ہے کہ میں 18؍رجب المرجب 711ھ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گذشتہ رات میں نے ایک خواب دیکھا تھا وہ شیخ کی خدمت میں عرض کیا، خواب یہ تھا کہ فجر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے اور میں نماز کے لیے وضو کر رہا ہوں، وقت چونکہ بہت ہی تنگ ہوچکا تھا اس لیے جلدی جلدی وضو کیا اور سنتیں پڑھیں، مجھے یقین تھا کہ جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، چنانچہ سنتوں سے فراغت کے بعد جماعت میں شریک ہونے کی غرض سے بڑی عجلت سے آگے بڑھا لیکن معلوم ہوا کہ سورج طلوع ہوچکا ہے، میں نے آفتاب کی طرف ہاتھ اٹھاکر اس خوف سے کہ نماز کا وقت نہ نکل جائے اشارہ کیا کہ شیخ کی نماز ختم ہونے تک نہ نکلنا، اتنا کہنے کے بعد میں بیدار ہوگیا، شیخ یہ خواب سننے کے بعد رونے لگے اور اس کے مناسب کئی حکایات بیان فرمائیں۔
ایک مرتبہ محفل سماع کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی تو میں نے عرض کیا کہ میرے تمام کام بخیریت ہیں اسی وجہ سے کسی قسم کی عبادت و اطاعت اور درویشوں کے مانند کسی ورد اور وظیفہ میں مشغول نہیں ہوں، لیکن جب سماع سنتا ہوں تو راحت کاملہ اور رِقت تامہ حاصل ہوتی ہے اور اس وقت آپ کی صحبت کی برکت سے میرے دل میں دنیاوی خواہشات بھی نہیں آیں، فرمایا، کیا اس وقت تمہارا دل تمام دنیاوی خواہشات سے خالی ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں! اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ سماع دو قسم کا ہوتا ہے۔ ہاجم اور غیر ہاجم
ہاجم اسے کہتے ہیں کہ سماع میں ابتداءً ہی غلبہ اور ہجوم طاری ہوجائے مثلاً کوئی آواز یا شعر سننا جس سے سامع کے اندر ایک جنبش پیدا ہوتی ہے اس حال کو ہاجم کہتے ہیں جس کی شرح نہیں کی جاسکتی، اور غیر ہاجم وہ سماع ہے جو سننے والے کو اللہ تعالیٰ یا اپنے مرشد کے حضور یا وہاں جہاں اس کا ارادہ ہو پہنچادے۔
اتوار 20؍ربیع الثانی 716ھ کو پھر میں بغرض زیارت حاضر ہوا تو اس وقت کمزور اعتقاد قسم کے لوگوں کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی اور خصوصاً ان لوگوں کے بارے میں جو زیارت کعبہ کو جائے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد دنیاوی کاروبار میں مشغول ہوجائے میں نے عرض کیا کہ ان لوگوں پر بہت تعجب ہے جو اپنے مرشد سے تعلق قائم کرنے کے بعد دوسروں کے ہاں چلے جاتے ہیں اس وقت میرا ایک دوست (بنام) ملیح بھی وہاں موجود تھا میں نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے اس دوست نے ایک مرتبہ مجھے ایک بات کہی تھی جو مجھے اب تک یاد ہے وہ یہ کہ حج کو وہ جائے جس کا پیر نہ ہو، شیخ نظام الدین اولیاء یہ سن کر رونے لگے اور یہ مصرع پڑھا۔
ایں رہ بسوئے کعبہ رودآں بسوئے دوست
ترجمہ (یہ راستہ کعبہ کی جانب جاتا ہے اور وہ دوست کی طرف)
سمجھ کر کوچہ جاناں میں جنت میں چلا آیا
کوئے جاناں تو طیبہ ہے میں جاؤں تو کِدھر جاؤں
(جمالِ خلیل)
ایک مرتبہ تلاوت قرآن پاک کا تذکرہ ہو رہا تھا اسی اثناء میں میں نے عرض کیا جب میں قرآن پڑھتا ہوں تو اکثر اوقات جو چیزیں واضح ہوتی ہیں دل پر اثر کر جاتی ہیں اور اگر تلاوت قرآن کے درمیان میں میرا دل کسی فکر یا خوف میں مشغول ہو تو میں اپنے دل ہی میں کہتا ہوں کہ یہ خوف و خطر کیسا ہے؟ اور پھر دل کو تلاوت میں مشغول کرلیتا ہوں، اسی لمحہ میری نظر اگلی آیت پر پڑتی ہے جو باطل اور غلط وہم اور اندیشہ کو دور کرتی ہے یا کسی ایسی آیت پر نظر جاپہنچتی ہے جس سے بیشتر اشکال حل ہوجاتے ہیں اور دل کے وساوس دور ہوجاتے ہیں، یہ تمام باتیں سن کر شیخ نے فرمایا کہ یہ سب اچھی علامتیں ہیں اور ان اوصاف کو محفوظ رکھنا، سیرالاولیاء میں ہے کہ ایک روز امیر حسن نے شیخ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں عرض کیا کہ رویت باری تعالیٰ کا مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے تو اس کے حاصل ہوجانے کے بعد کیا مومن کسی اور چیز کی طرف دیکھے گا؟ آپ نے فرمایا یہ سخت کوتاہ نظری ہوگی کہ اللہ کو دیکھنے کے بعد نظر کسی اور کی طرف جائے، امیر حسن دہلی میں پیدا ہوئے اور تمام عمر مجرد اور غیر شادی شدہ رہے آخری عمرمیں دیوگیر چلے گئے اور وہیں 732ھ میں انتقال فرمایا، آپ کا مزار بھی وہیں ہے، اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اخبار الاخیار