حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
میر سید علی ہمدانی: ہمدان میں دو شنبہ کے روز ۱۲؍رجب ۷۱۴ھ میں پیدا ہوئے۔مخزن علوم ظاہری،مظہر تجلیات ربانی،عالمِ عامل،عارف کامل،صاحبِ کرامات و خوارق عادات تھے،علوم ظاہری و باطنی میں آپ کو وہ کمال حاصل تھا کہ ایک سو ستّرسےزیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے مجمع الاحادیث،شرح اسماء الحسنیٰ،ذخیرۃ الملوک،شرح فصوص الحکم،مراۃ التائبین،شرح قصیدہ حمزیہ و فارضیہ،آداب المریدین،اور دس قواعد اشہر ہیں۔۷۸۰ھ میں مع سات سور فقاء وسادات کے ہمدان سے کاشمیر میں تشریف لائے اور محلہ علاء الدین پورہ میں جہاں اب آپ کی خانقاہ فیض پناہ ہے،جلوہ افروز ہوئے۔بادشاہ کمال خشوع و خضوع سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اسلام نے جو بلبل شاہ کے وقت سے کاشمیر میں رواج پکڑنا شروع کیا تھا آپ کے وقت میں رونق بے اندازہ حاصل کی،اسی لیے آپ کو بانی مبانی اسلام کہتے ہیں کہ ایک شاعر نے کہا ہے ؎
یعنی آں بانی مسلمانی میر سیّد ھمدانی
بادشاہ کو جمع بین الاختین کیا ہوا تھا،آیت لا تجمعوابین الاختین پر عمل کرایا۔تین دفعہ کاشمیر میں آئے اور تین بار سیر سیاھب ربع مسکون کی فرمائی۔جب اخیر کو کاشمیر سے رحلت کی تو تہتّر سال کی عمر میں میدان کبیر میں پہنچ کر ۷۸۵ھ میں انتقال فرمایا اور نعش آپ کی ختلان میں لے جاکر دفن کی گئی۔مزار آپ کا زیارت گاہ عام ہے۔شیخ میرمحمد اویسی نے قطعہ تاریخ آپ کا اس طرح پر کہا ہے ؎
فخر عارفاں شہِ ہمداں
|
|
کنہ دمش باغ معرفت بشگفت
|
مظہر نورِ حق کہ رویش بود
|
|
عاقبت از جہانیاں نہفت
|
عقل تاریخ سالِ رحلت
|
|
سید باعلی ثانی گفت
|
(حدائق الحنفیہ)