حضرت سلطان بازید محمد
حضرت سلطان بازید محمد (تذکرہ / سوانح)
حضرت سلطان بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ(والد حضرت سلطان باہو)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے والدِ محترم کا اسمِ گرامی حضرت سلطان بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ تھا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتب کے شروع میں اپنا تعارف جن الفاظ سے کراتے ہیں اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے یعنی ""تصنیف فقیر باھو ولد بازید محمد عرف اعوان""۔
حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ پیشہ ور سپاہی تھے اور مغل بادشاہ شاہجہان کے لشکر میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ شروع ہی سے ایک صالح" شریعت کے پابند حافظِ قرآن" فقیہ شخص تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی جوانی لشکر کے ساتھ بسر کی اور تمام جوانی جہاد کی نذرکردی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد نہیں تھی۔
ڈھلتی عمر میں شاہی دربار چھوڑ کر چپ چاپ واپس اپنے علاقے میں چلے آئے اورایک رشتہ دار ہم کفو خاتون حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا سے نکاح فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اہلیہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا عارفہ کاملہ تھیں اورپاکیزگی اورپارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔ اکثر ذکر اور عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں وہ جگہ اب تک معروف و محفوظ ہے جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہا ایک پہاڑی کے دامن میں چشمہ کے کنارے ذکر اسم ذات میں محو رہا کرتی تھیں۔سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصانیف میں اپنی والدہ محترمہ سے اپنی عقیدت و محبت کا بارہا اظہار فرماتے ہیں۔ "" مائی راستی صاحبہ( رحمتہ اللہ علیہا )کی روح پر اللہ تعالیٰ کی صدبار رحمت ہو کہ انہوں نے میرا نام باھو رکھا""۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں!
؎ راستی از راستی آراستی
رحمت و غفران بودبر راستی
ترجمہ: راستی راستی(حق) سے آراستہ ہے ۔ اللہ کی رحمت و مغفرت ہو راستی پر۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ کا پایہ فقر میں بہت بلند تھا۔ اور اپنے بچے کا نام باھو رکھا تو اس بناء پر کہ وہ فنا فی ھُو کے مرتبہ پرتھیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہا کو بارگاہِ حق تعالیٰ سے سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت اور بلند مرتبہ کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہا نے حکمِ الٰہی کے تابع آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام باھورکھا۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی ابتدائی تربیت بی بی صاحبہ رحمتہ اللہ علیہا نے کی اورآپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی والدہ سے ہی ابتدائی باطنی تربیت بھی حاصل کی۔
حضرت سلطان بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ نکاح کے بعد جب اپنی اہلیہ محترمہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے ساتھ رہنے لگے تو ان کی پارسائی اور عبادت گزاری سے بہت متاثر ہوئے۔ اب وہ خود عمر کے اس مرحلے پرتھے جب آدمی اپنے اندر تجزیے میں مصروف ہوتا ہے کہ زندگی میں کیا کھویا" کیا پایا۔ کچھ فیضِ ازلی نے آپ کو متوجہ کیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دنیا ترک کردی اورطے کیا کہ آئندہ اسبابِ دنیاداری سے الگ رہ کر وہ بھی صرف یادِ خدا میں زندگی بسر کریں گے۔ دل میں یہ قصد لے کر ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ملتان پہنچے۔ چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فوج چھوڑ کر گئے تھے اور سلطنتِ دہلی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا حلیہ مشتہر کیا جا چکا تھا اس لیے سرکاری اہلکار آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تلاش میں تھے۔ملتان میں آپ رحمتہ اللہ علیہ پہچان لیے گئے اورحاکمِ ملتان کے سامنے پیش کیے گئے۔ جب ملتان کے حاکم نے حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک" لباس اور سواری کی گھوڑی دیکھی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بہت متاثر ہوا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دو روپیہ یومیہ وظیفہ مقرر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان میں ایک مکان کے اندرتنہائی میں یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے اور بالآخر ولی اللہ اوربارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے ہوئے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ملتان میں قیام کے دوران حاکمِ ملتان اور راجہ مروٹ کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ تنہا ملازم تھے اس لیے اس خدمت کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو کسی نے یاد نہیں کیا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ خود بخود گھوڑی پر ضروری اسباب باندھ کر اور ہتھیار لگا کر ملتان کے حاکم کی خدمت میں پہنچے اور کارِخدمت کی درخواست کی۔ حاکم نے پوچھا کہ ""آپ رحمتہ اللہ علیہ لشکر میں کس برادری کے جتھہ میں شریک ہو کر جنگ کریں گے؟""عرض کیا ""چونکہ میں اکیلا تنخواہ کھاتا رہا ہوں اب جو کچھ مجھ سے ہوگا اکیلا ہی خدمت کروں گا""۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ بات سن کر دربار کے تمام امراء مسکرا دیئے۔ حاکم نے کہا ""کوئی مضائقہ نہیں جس طرح یہ مرد کہے اسی طرح کرنا چاہیے۔ ""پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ ""ایک شخص راستہ کا واقف اور ایک تصویر راجہ مروٹ کی عنایت ہو۔"" چنانچہ دونوں چیزیں مہیا کردی گئیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سلام کر کے روانہ ہوئے اور جب قلعہ مروٹ کے قریب پہنچے تو ساتھی کو رخصت کیا اور خود شہر کی راہ لی اور ایک ہی چھلانگ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گھوڑی قلعہ کی فصیل پار کر گئی۔ قدرتِ خداوندی دیکھیے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سیدھے راجہ مروٹ کی کچہری میں جا ٹھہرے اور سب درباریوں کی موجودگی میں راجہ کا سر کاٹ کر قربوس سے لٹکے ہوئے توبڑہ میں رکھ لیا۔ اس اچانک افتاد سے تمام درباریوں پر حالتِ سکتہ طاری ہوگئی اور کسی کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ شہر کے تمام دروازے بند کردیئے گئے تاکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرار نہ ہو سکیں لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شاہین گھوڑی پھرایک ہی چھلانگ میں قلعے کی فصیل پھلانگ گئی۔
حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ جب ملتان کے حاکم کے دربار میں راجہ مروٹ کا سر اکیلے لے کر داخل ہوئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر حاکم حیران رہ گیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اس کارنامے کی شہرت جب دہلی کے دربار تک پہنچی تو پہچان لیے گئے اور شاہجہان نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو واپس بلوایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے معذرت کی اور کہا کہ باقی عمر یادِ خدا میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا ان کی سابقہ خدمات کے پیشِ نظر یہ درخواست نہ صرف منظور ہوئی بلکہ شور کوٹ کی جاگیر بھی انہیں عطا ہوئی جس کا رقبہ 25ہزار ایکڑ زمین پر مشتمل تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ انگہ کو چھوڑ کر شورکوٹ میں رہائش اختیار کرلی۔ تاریخ میں حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت بی بی ر استی رحمتہ اللہ علیہا کے سنِ وفات کا تذکرہ نہیں ملتا۔ مناقبِ سلطانی سے بس اتنا معلوم ہوا ہے کہ حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ لیکن مائی صاحبہ رحمتہ اللہ علیہا اس وقت بھی زندہ تھیں جب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی عمر مبارک 40سال تھی۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے والدین کے مزار مبارک شورکوٹ شہر میں ہیں اور مزار مبارک ماں باپ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔
(مناقبِ سلطانی)