حضرت بابا ذہین شاہ تاجی
حضرت بابا ذہین شاہ تاجی (تذکرہ / سوانح)
حضرت بابا ذہین شاہ تاجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا محمد طاسین فاروقی المعروف بابا ذہین شاہ تاجی بن پیر زادہ دیدار بخش فاروقی 1904ء کو کھنڈیلہ ، ضلع توڑاوائی ، ریاست جے پور ( راجستھان ، انڈیا) میں حضرت سلطان التارکین صوفی حمید الدین ناگوری ؒ کی اولاد اناس میں سے ہیں ۔ صوفی حمید الدین ،سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ الاقدس کے خلیفہ اول ہیں ۔ صوفی حمید الدین کی زیر نگرانی میں دربار خواجہ غریب نواز تعمیر ہوا ۔ اور آپ نے وصیت فرمائی کہ اس مزار پاک سے جو پتھر چھٹن بچتی ہے اس سے میری قبر تعمیر کی جائے ۔ حضرت صوفی حمیدالدین کی مزار شریف ناگور (ریاست جودھپور) میں ہے ۔
تعلیم و تربیت :
بابا ذہین شاہ بہترین فارسی دان تھے انہوں نے جے پور میں اپنے والد اور دیگر علماء سے فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ 1922ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے میٹرک پاس کیا جب میٹرک پاس کیا تو ان کی قابلیت گریجویٹ کی تھی انگریزی پر مہارت رکھتے تھے دہلی میں رہ کر محبوب المطابع مچھلی دالان ( اردو بازار ) میں ملازمت کرکے خوشنویسی سیکھی ۔ آپ بہترین خوش نویس تھے ۔
بعد فراغت جے پور واپس آگئے ریاسے جے پور میں جاڈیشن کلرک کی ملازمت اختیار کرلی ۔ اور ریاست کے مختلف اضلاع کی عدالتوں میں بحیثیت سر شیدار ( جوڈیشن کلرک )ملازمت کی 1942ء کو ذہین شاہ کو محکم سول سپلائی میں چیف انسپکٹر لے لیا گیا۔
بابا یوسف ، ذہین شاہ کو بعد بیعت اپنے ساتھ مارہرہ شریف لے کر گئے جہاں ان کو فصوص الحکم اور درس نظامی کی اہم کتابوں کی تعلیم دی پڑھایا اور پڑھوایا اس تعلیم کی وجہ سے انہیں عربی پر دسترس حاصل ہو گئی کہ بعد میں عربی میں شعر بھی کہے۔
بیعت و خلافت:
حضرت مولانا عبدالکریم قادری المعروف بابایوسف تاجی ؒ 19 سال کی عمر میں جامعہ رضویہ منطر الاسلام بریلی شریف میں داخلہ لیا اور 18سال تک بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ کے گھر میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور 1888ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔ اعلیٰ حضرت کے حکم سے اپنے وطن مالوف جے پور واپس تشریف لے گئے اور تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہو گئے۔
1900 ء کو حضرت صوفی عبدالحکیملکھنوی ثم کا مٹوی سے سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ میں بیعت ہوئے ۔ ایک سال بعد خلافت دی گئی اور آپ نے بیعت لینی شروع کر دی تھی ۔ حکم مرشد سے جے پور سے اجمیر شریف مستقل سکونت اختیار کی۔ درگاہ معینیہ اجمیر شریف کے ’’تڑپولیہ دروازہ ‘‘کے قریب مکان دیا گیا۔ حضرت بابا خوش الحان ، بہترین میلاد خوان ، مٹھاس و سوزوگداز سے جب مثنوی شریف کی تلاوت فرماتے تھے ایک کیفیت و سکوت طاری ہو جاتا۔
حضرت صوفی عبدالحکیم جامٹوی نے 1916ء کوبابا یوسف کو نا گپور شریف ( سی پی)جانے کا حکم دیا۔ آپ وہاں پہنچے وہاں پہنچتے ہی آپ پر جذب کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ تاج الاولیاء حضرت بابا تاج الدین گپوری ؒ ( متوفی 1925ء آستانہ تاج الالیاء ناگپور ضلع خود ( سی پی ) انڈیا) سے سلسلہ عالیہ چشتیہ تاجیہ میں بیعت ہوئے انہیں یوسف شاہ کا نام دیا اور بارہ سلسلوں میں اجازت عطا فرمائی ۔
حضرت بابا ذہین شاہ 1930ء کو دربار اجمیر شریف میں حضرت بابا یوسف شاہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ تاجیہ یوسفیہ میں بیعت ہوئے اور فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ جو کہ سید المکاشفین شیخ اکبرمحی الدین محمد بن علی طائی اندلسی المعروف شیخ ابن عربی قدس سرہ ( متوفی 638ھ ) کی تصوف پر بے مثل و معرکۃ الآرا تصانیف کا درس لیا۔
تصنیف و تالیف:
بابا ذہین تاجی کو کئی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ عربی ، فارسی ، انگریزی اور سنسکرت کے عالم تھے ۔ اردو کے صاحب طرز غزل گوشاعر تھے ۔ آپ نے کراچی سے ماہنامہ ’’تاج ‘‘ جاری کیا جو دینی و ادبی رسائل و جرائد میں اہمیت کا حامل ہے ۔ کئی کتابیں آپ کی یاد گار ہیں:
٭آیات جمال اردوغزلیات کا مجموعہ ہے ۔
٭جمال آیات : فارسی کلام پر مبنی ہے۔
٭اجمال جمال رباعیات و قطعات اردو، فارسی کا مجموعہ ہے۔
٭لمعات جمال نعتیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔
٭فصوص الحکم سید الکاشفین شیخ اکبرمحی الدین محمد بن علی طائی اندلسی المعروف ابن عربی قدس سرہ الاقدس ( متوفی 638ھ) کی
تصوف و معرفت پر عظیم تصنیف ہے ۔ جس پر آپ نے تالیقات لکھی ہے ۔
٭فتوحات مکیہ : ایک پارہ کا اردو ترجمہ کیا
٭جمالستان : اردو منظومات
٭کتاب الطواسین : خواجہ منصور حلاج کی کتاب ’’الطاسین ‘‘کا ترجمہ و شرح
٭تاج الاولیائ: تاریخ و تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری
٭ماہنامہ تاج : کراچی سے 1956ء سے بہارکالونی آگرہ تاج کالونی لیاری سے جاری کیا جو کہ اب تک جاری ہے۔
٭وہابیت اور اسلام
آپ نے کئی دینی علمی اور تصوف کے موضوع پر بلند پایہ مضامین تحریرفرمائے جو کہ ماہنامہ تاج میں شائع ہوئے۔
ردوہابیہ:
ایک مضمون میں وہ دیوبندی اہلحدیث وہابیوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
وہابیہ ایاک نستعین (آیت ) سے استدلال کرتے ہیں کہ غیر اللہ سے استعانت ناجائز ہے حالانکہ غیر اللہ سے اسمتد ادواستعانت ( یعنی امداد طلب کرنا یا مدد مانگنا ) اس وقت ناجائز ہوسکتی تھی جب کہ قرآن و حدیث میں کوئی نص اس قسم کی وارد ہوتی الاستعانۃ لغیر اللہ شرک اورکفر ۔ہمیں دکھایا جائے وہ کونسی آیت یا حدیث ہے جس میں سوق کلام اس معنی میں ہوا ہو کہ غیر اللہ سے مدد چاہنا کفر ہے یا شرک ہے محض ایاک نستعین سے استدلال مفید مدعا نہیں اس کی وجوہات یہ ہیں:
اول: ایاک نستعین (ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں )یہ جملہ دعائیہ ہے بندوں کی طرف سے دعا ہے ، خدا کی طرف سے یہ حکم نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ دعا خدا ہی نے بندوں کو تعلیم فرمائی ہے ۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ یہ ’’نہی‘‘نہیں ، نہ اس میں کوئی و عید مذکور ہے اس لئے منع استعانت کے لئے نص قطعی ہونے کی اس جملہ میں صلاحیت نہیں ہے ۔
دوئم :پورا جملہ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین ‘‘ہے۔ دونوں جملے الگ الگ نہیں اس لئے ان کے الگ الگ معنی لیا جانا درست نہیں ۔ دونوں جملوں میں رابطہ لازم ہے اور وہ اس طور پر حاصل ہوتا ہے کہ عبادت کرنے کی نسبت جو بندے اپنی طرف کرتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ عبادت کرنا بھی اللہ کی امداد اور توفیق پر ہی منحصر ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ !ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور اس عبادت کرنے میں ہم تجھی سے طالب امداد ہیں جیسا کہ اس جملہ کے بعد اھدنا الصراط المستقیم کے درمیان ایاک نستعین بالکل ان مل ، بے جوڑ سافقرہ رہ جاتاہے۔
سوئم : جس طرح استعانت کے ناجائز ہونے میں یہ فقرہ نص کی تعریف میں نہیں آتا بالکل اسی طرح غیر اللہ کی عبادت ممنوع قرار دینے میں بھی نص ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے قرآن مجید میں غیر اللہ کی عبادت ممنوع قرار دینے کے لئے عبارۃ دوسری نصوص وارد ہوئی ہیں جن پر صراحۃ غیر اللہ کی عبادت حرام قرار پائی ہے مثلا:اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو ۔یہ تیرے رب کا قطعی فیصلہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہوگی ‘‘۔ وغیرہ
پس جس طرح ایاک نعبد کے باوجود غیر اللہ کی عبادت ممنوع قرار دینے کے نصوص قرآن میں موجود ہیں ، اسی طرح ایاک نستعین کے وہابی مفہوم کی تائید میں کوئی آیت قرآنی یا کوئی حدیث موجود ہونی چاہئے وہ آج تک پیش نہیں کی گئی محض اپنے وہم و خیال سے مسلمانوں کو مشرک قرار دے رہے ہیں اور اس کو دینی خدمت سمجھ رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ماہنانہ ثناء ڈائجسٹ کراچی، ستمبر ء1985، ص ۵۱)
شاعری:
آپ کی نعتیہ شاعری میں سے ایک نعت تیر کا پیش کرتا ہوں:
دو جہاں میں ہے ضیائے شمع دین مصطفی
ہیں زمین و آسمان زیر نگین مصطفی
ہے رخ شمس و قمر پر تو گزین مصطفی
اللہ اللہ !جلوہ نور جبین مصطفی
پستیوں میں بھی نمایاں رفعتوں کی شان ہے
وقت سجدہ عرش تھا زیر جبن مصطفی
ظلم کے بدلے میں ملتی ہے ہدایت کی دعا
درس ہے اخلاق کا تعلیم دین مصطفی
قلب مومن جو خدا کا گھر ، خدا کا عرش ہے
غور سے دیکھا تو نکلا سر زمین مصطفی
ہر نبی کا اک جدا طاسین ہے لیکن ’’ذہین‘‘
خاص طاسین محمد ہے ذہین مصطفی
نبی کے نشان و علم غوث الاعظم
ولی تیرے قدم غوث الاعظم
خدا کے کرم کے طلب گار ہیں ہم
سراپا خدا کا کرم غوث الاعظم
میرے دل کی جھولی کو جلووٗں سے بھر دو
بھکاری کا رکھ لو بھرم غوث الاعظم
’’ذہین‘‘ اہل دل کا وظیفہ یہی ہے
کرم غوث الاعظم کرم غوث الاعظم
محبوب کے معروف شدہ سبحانی
غوث الصمدانی شیر ربانی
جلوہ گہ، ھو القادر ہست
عبدالقادر بقدرت یزدانی
شادی و اولاد :
آپ کی پہلی شادی ضلع شیخاواٹی جھنجھنوں ، ریاست جے پور (راجستھان ،انڈیا) میں ہوئی ۔ اس میں سے چار لڑکے اور چار لڑکیاں تولد ہوئیں۔
۱۔محمد امین فاروقی ۲۔محمد معین فاروقی ۳۔محمد حم فاروقی
۴۔محمد جمیل فاروقی
۱۔غوثیہ ۲۔شمسہ ۳۔عالیہ ۴۔صالحہ
دوسری شادی 1947ء کو کراچی میں جے پور کی قوم بساطیہ میں سے کی ۔ اس سے فقط ایک لڑکی سلمیٰ تولد ہوئی ۔
سید گوہر علی شاہ مرحوم آپ کے خلیفہ سید اختر علی شاہ کے بیٹے اور آپ کے داماد اور مشہور ٹی وی آرٹسٹ مظہر علی کے والد ہیں ۔ مظہر علی ، بابا ذہین شاہ کے نواسہ ہیں ۔
خلفاء:
بابا صاحب سے پڑے لکھے ، تعلیم یافتہ طبقہ کا وسیع حلقہ متاثر تھا بلکہ اکثر شرف بیعت بھی رکھتے تھے ۔ یہاں بعض خلفاء کے اسماء گرامی درج کئے جا رہے ہیں اس سے بھی واضح ہوگا کہ کیسے کیسے صاحب علم شخصیات آپ کے دامن سے وابستہ تھیں ۔
٭کنور اصغر علی خان عرف البیلے شاہ علیگ یوسفی تاجی
٭سید ظہور الحسنین شاہ ظاہر یوسفی تاجی ایم ۔ اے ۔ایل ایل بی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان
٭سید اختر علی شاہی یوسفی تاجی مراد آباد میں بیعت ہوئے تھے ، مولانا شوکت علی کے سیکریٹری تھے ۔
نہایت خوش الحسان مثنوی شریف کے حافظ تھے ۔ بابایوسف کے طالب ہوئے اور بعد میں خلافت سے نواز ے گئے۔
٭ڈاکٹر محمد محمود احمد یوسفی تاجی نے وحدت الوجود کے موضوع پر جرمنی سے ڈاکٹر یٹ کیا ۔ سابق صدر شعبہ فلسفہ کراچی یونیورسٹی ، کراچی
٭ڈاکٹر سید علی اشرف ذہینی سابق صدر شعبہ انگریزی کراچی یونیورسٹی (حال مقیم لندن )
٭مولانا محمد حسین طائی کا ٹھیاواڑی ذہینی مرحوم
٭حضرت صوفی محمود شیرازی ذہینی کینیڈا میں دینی روحانی کام میں سر گرم ہیں
٭مولانا اسلحہ الحسینی ، مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد ، فاضل دیوبند لیکن حضرت کی نظر کرم سے دیوبند یت سے تائب ہوکر اہل سنت و جماعت میں داخل ہوئے ۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے شعبہ عربی کے انچارج تھے ۔
٭مولانا فضیل احمد سابق دیوبندی ۔ مولانا حسین احمد مدنی کے مرید تھے حضرت کی نظر کے اسیر ہوئے، دیوبند یت سے تائب ہو کر اہل سنت و جماعت میں داخل ہوئے۔
وصال :
حضر ت بابا ذہین تاجی نے 16، شعبان المعظم 1398ھ بمطابق 23، جولائی 1978ء کو 74 سال کی عمر میںانتقال کیا۔ حضرت مولانا سید اختر علی شاہ (گمشدہ ) کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور خانقاہ یوسفیہ تاجیہ ( میوہ شاہ قبرستان لیاری ، کراچی )میں اپنے پیرو مرشد کے پہلو میں مدفون ہیں ۔ سالانہ عرس مبارک ہوتا ہے جس میں مریدین و عقیدمندوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ آپ کے انتقال کے بعد انوف شاہ سجادہ نشین ہوئے اس کے بعد ان کے داماد عاطف شاہ مسند نشین ہیں لیکن اب وہ بات نہیں رہی ہے، رشد و ہدایت کا سلسلہ موقوف ہے۔ دین و مسلک سے دلچپسی کم رہ گئی ہے۔ خانقا ہیں جب سے اپنے اصل مشن تزکیہ نفس سے ہٹ کر تعویذفروشی کے دھندے میں لگ گئی ہیں تب سے انسانوں کا بہت بڑا خسارہ ہوا ہے ۔ یہاں بھی وہ ہی صورت حال ہے تعویذ کے سائلین کا ہجوم ہے لیکن بہت بڑی جامع مسجد تاجیہ (شادمان ٹاوٗن ، نارتھ کراچی ) ویران ہے نہ مدرسہ ، نہ مکتبہ ، نہ تعلیم و تربیت اور نہ ہی انتظام ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے ۔
[عید الاضحی (1425ھ) کے تیسرے روز نعتیہ اسکالر محترم شہزاد احمد کے توسل سے محترم بابا سید رفیق عزیزی یوسفی چشتی (شاہ فیصل کالونی ) سے ان کے دولت خانہ پر ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت ذہین شاہ تاجی کے متعلق حالات قلمبند کروائے ۔ بابا صاحب حضرت ذہین شاہ کے نہ فقط پیر بھائی تھے بلکہ لنگوٹی یارہیں ۔ قریبی تعلقات کی بنا پر ان کی معلومات مستندد معتبر کے ساتھ وسیع و جامع بھی ہے ۔ اسی بنا پر بابا رفیق نے فرمایا : آج تک ذہین شاہ کے متعلق مستند اور مفصل حالات شائع نہیں ہوئے اور تاج کے خصوصی نمبر میں بھی الحاقی کلام ہے لہذا مستند مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔ (راشدی غفرلہ )]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)