آپ حضرت فرید مسعود فاروقی شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ اپنے وقت کے مشائخ کاملین میں شمار ہوتے تھے۔ سیرالاقطاب اور معارج الولایت کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقبول و منظور شخصیت کے مالک تھے علم و فضل میں ان کا ثانی کوئی نہیں تھا پہلے بخارا میں رہے، بعد میں بعض علمی اور روحانی مشکلات کے حل کے لیے گھر سے نکلے۔ اور بخارا سے چل کر دہلی پہنچے۔ جب یہاں بھی مسائل کے حل میں تسلی نہ ہوئی، دوبارہ ملتان کے راستہ بخارا کو روانہ ہوئے۔ پاک پتن پہنچے تو آپ کے ساتھیوں نے حضرت فرید شکر گنج کی زیارت کا ارادہ ظاہر کیا، آپ درویشوں کے خلاف تھے، کہنے لگے میں یہاں ہی بیٹھا ہوں، آپ لوگ زیارت کر آئیں۔ لیکن دوست آپ کو کشاں کشاں حضرت خواجہ فرید کی خانقاہ تک لے گئے، مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ حضرت فرید نے باطنی طور پر معلوم کرکے خود ہی اس کے سوالات پر گفتگو شروع کردی اور ان کے سوالات کا حل پیش کرتے گئے۔ بدرالدین آپ کی گفتگو سے بڑے مطمئن ہوئے، ذہن مطمئن ہوگیا، اب علمی مشکلات کے حل کے بعد حضرت خواجہ فرید نے آپ کو روحانی طور پر اپنی طرف کھینچا اور پوچھا آپ ہماری ملاقات کے لیے آنے سے کیوں ہچکچاتے تھے۔ اگرچہ علماء کی مجالس اکسیر اعظم ہے اور ان کی گفتگو سے علمی روشنیوں کو فروغ ملتا ہے مگر کبھی کبھی مسکین درویشوں کے پاس بھی آنا چاہیے ہم سے محبت کرنے سے خدا خوش ہوتا ہے۔
بدرالدین نے آپ کی گفتگو سنی تو قدم بوس ہوگئے اور ارادت باطنی سے مرید ہوگئے اور بخارا جانے کا ارادہ ترک کردیا، اس دن سے آپ خانقاہ کی خدمات سر انجام دینے لگے، ہر روز صحرا اور بیابان میں نکل جاتے۔ لکڑیوں کا ایک گٹھا اٹھاکر لاتے اور مطنج کے سامنے لا رکھتے تاکہ لنگر پکایا جاسکے حتی کہ ایک وقت آیا کہ آپ کی تکمیل ہوگئی خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئے اور پھر عزت فرزندی (دامادی) سے بھی معَّزز ہوئے۔
آپ کی وفات ۶۹۰ھ میں ہوئی۔ کتاب الاسرار آپ کی ہی تالیف ہے
کرد بدرالدین چو از عالم سفر
سالِ وصلش او بگو بے قال دقیل
بدر دین، مہدی دین، بدر کمال
۶۹۰ھ، ۶۹۰ھ، ۶۹۰
ہم بغر ما شاہ بدرالدین جمیل
۶۹۰ھ