حضرت بی بی فاطمہ سام
حضرت بی بی فاطمہ سام (تذکرہ / سوانح)
اپنے زمانہ کی صالحہ، عابِدہ اور صبر و شکر کرنے والی بی بی تھیں، بی بی فاطمہ کا تذکرہ شیخ نظام الدین اولیا اور آپکے خلفاء کے ملفوظات میں بکثرث موجود ہے۔
شیخ نظام الدین اکثر بی بی فاطمہ کے مقبرہ میں مشغول عبادت رہتے تھے۔
شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بی بی فاطمہ سام ایک مرد تھے جن کو اللہ نے عورتوں کی شکل میں بھیجا تھا۔
شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شیر جب اپنے کچھار سے نکلتا ہے تو کوئی یہ نہیں پُوچھتا کہ نر ہے یا مادہ انسانوں کو ان سے خوفزدہ ہونا ضروری ہے خواہ وہ نر ہو یا مادہ، پھر اس کے بعد بی بی فاطمہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا وہ نہایت بوڑھی اور صالح بی بی تھیں، میں نے خود ان کو دیکھا ہے۔ بڑی پیاری بی بی تھیں، شیخ فرید الدین گنج شکر اور شیخ نجیب الدین متوکل اور بی بی فاطمہ، منہ بولے بھائی بہن تھے، ہر چیز کے متعلق حسب حال شعر کہا کرتی تھیں، مجھے ان کے یہ دو مصرعہ یاد ہیں۔
ہم عشق طلب کنی وہم جاں خواہی
ہر دوطلبی ولے میسر نشود!
لاکھوں روزوں اور نمازوں سے بہتر عمل: شیخ نظام الدین فرماتے تھے میں نے بی بی سام کی زَبانی خود سنا ہے کہا کرتی تھیں جو کوئی اللہ کے راستہ میں تھوڑی سی روٹی اور پانی کا گلاس کسی کو دیتا ہے تو اللہ اس پر دین و دنیا کی ایسی نعمتیں نچھاور کرتا ہے جو لاکھوں روزےنماز سے بھی نہیں مل سکتیں اللہ عزوجل نے بی بی سارہ کو منالیا میر سید گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ شیخ نصیر الدین محمود کی مجلس میں ایک مرتبہ بی بی فاطمہ سام کی تعریف پر بات چل پڑی جس پر شیخ نصیر الدین نے کہا کہ بی بی فاطمہ سام اپنی وفات کے بعد ایک شخص کے خواب میں آئیں اور کہا کہ ایک دن میں دربار خداوندی عزوجل میں تیزی کے ساتھ جارہی تھی کہ مجھ سے آسمانی فرشتے نے آواز دے کر کہا، کون ہو، ٹھہر جاؤ کتنی بیباکی سے جا رہی ہو، اور میں نے بھی قسم کھائی کہ جب تک اللہ تعالیٰ خودنہ بلائے گا میں بھی یہیں بیٹھی رہوں گی، کچھ دیر بعد ام المومنین بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہما اور بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہما دونوں تشریف لائیں، میں ان کے قدموں پر گر پڑی، ان دونوں نے فرمایا، اے فاطمہ سام! آج کیا بات ہے جو اللہ نے ہم کو تمہارے بلانے کے لیے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی لونڈی ہوں اور اس سے زیادہ میری عزت اور کیا ہوگی کہ آپ مجھے بلانے تشریف لائی ہیں، بات صرف اتنی ہے کہ میں نے قسم کھائی تھی اس کے بعد فرمان الٰہی عزوجل ہوا، کہ فاطمہ سام سچ کہتی ہے، تم دونوں بیچ میں سے ہٹو، اور اے فاطمہ سام میرے پاس آؤ، کہو کیا چاہتی ہو؟ میں خود آیا ہوں، جس پر فاطمہ سام نے عرض کیا اے اللہ! تیرے دربار میں ایسے بے ادب بھی ہیں جو تیرے پاس آنے والوں کو پہنچانتے تک نہیں یہ قصہ بیان کرکے خواب دیکھنے والے نے بلند آواز سے آہ کی اور اپنی قبر میں بیٹھ گیا۔
میر سید محمد گیسو دراز فرمارہے ہیں کہ خدمت گار کا گمان یہ ہے کہ حضرت چراغ دہلوی نے اپنی جانب کنای ے اشارہ کیا ہے اور رسمِ قدیم کے موافق لفظ غائب (وہ) لکھا ہے۔
خیر المجالس میں مذکور ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء نے مولانا حسام الدین سے فرمایا اے حسام الدین! آج ہم نے ایک ابدال دیکھا، انہوں نے کہا حضور کہاں دیکھا؟ فرمایا آج میں بی بی فاطمہ سام کی زیارت پر گیا جو حوض والے قبرستان میں ہے، وہاں میں نے ایک آدمی دیکھا جو ککڑیوں کی ٹوکری سر پر رکھے حوض کے کنارے پر آیا، اُس نے ککڑیوں کا ڈھیر لگادیا، پھر اس طرح وضو کیا کہ مجھے بے انتہا تعجب ہوا، غرض کہ اس نے وضو کے بعد دو رکعت نماز بڑے سکون سے ادا کیں، مجھے اس کی پر ذوق نماز پڑھنے پر بھی حیرت ہوئی، اس کے بعد اس نے تین مرتبہ حوض میں ٹوکرا دھویا، پھر درود شریف پڑھ پڑھ کر ایک ایک کرکے سب ککڑیوں کو دھویا، اس کے بعد اس نے وہ دھلی ہوئی ٹوکری پھر حوض میں تین مرتبہ ڈِبو کر نکالی اور کنارہ پر رکھ دی تاکہ اس کا پانی ٹپک جائے، یہ تمام ماجرا دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی پگڑی میں سے ایک اشرفی نکال کر ان کو دی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی اور کہا مجھے معذور رکھئے، اس پر میں نے کہا آپ دو آنے کی خاطر اتنی تکالیف اور محنت کررہے ہیں اللہ نے آپ کو ایک اشرفی بھجوائی ہے یہ کیوں نہیں لیتے؟ اس پر اس نے کہاں بیٹھو تو بتاؤں، چنانچہ ہم دونوں بیٹھ گئے اور اس نے کہنا شروع کیا، میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے۔ میرے بچپن ہی میں ان کا انتقال ہوگیا، اس وقت مجھے دین کے اتنے ہی احکام بتائے گئے تھے کہ میں پنج وقتہ تماز کے قابل ہو گیا تھا، پھر والدہ نے اپنے انتقال کے وقت مجھے اپنے پاس بلا کر کہا، میری گرہ میں ایک چیز رکھی ہے اسے نکالو، میں نے والدہ کی کمر سے وہ گرہ نکال کر اُن کو دی تو انہوں نے وہ گرہ کھول کر اس میں سے کچھ روپے نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا یہ میرے دفن کفن وغیرہ کے لیے ہیں، پھر اس گرہ میں کی باقی رقم بیس روپے تھی، یہ بھی مجھے دیتے ہوئے کہا تمہارے والد کی تمام عمر کی کمائی یہی ہے یہ لو، اور باغ جا کر اس میں سے ککڑیاں اور سبزی خرید کر فروخت کرنا اور اسی پر گزر بسر کرنا اور اس کے سوائے کسی دوسرے طریقے سے کوئی چیز نہ لینا اور اسے اپنے استعمال میں لانا، جب اس ککڑی والے شخص نے قصہ پورا سنا دیاتو میں سمجھ گیا کہ یہ ابدال ہے اور ابدال کسی سے کوئی چیز بطور نذر یا تحفہ وغیرہ قبول نہیں کرتے ہیں صرف مزدوری کر کے کھاتے ہیں ۔
سیرالاولیاء میں ہے کہ بی بی فاطمہ سام کا مزار قصبہ اندر پت کے علاقہ میں ہے اور مرجع خاص و عام ہے، لیکن میں مولٔف اخبارالاخیار کہتا ہوں کہ بی بی فاطمہ سام کی قبراب تک دہلی میں نخاس دروازہ کے اندر ایک کھنڈر میں ہے جس سے عام طور پر لوگ ناواقف ہیں الاماشاءاللہ۔ بعض لوگ ان کو بی بی شام اور بعض بی بی صائمہ کہتے ہیں یہ دونوں غلط ہیں بلکہ ان کا اصلی نام بی بی فاطمہ سام ہے، اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اخبار الاخیار