حضرت بی بی زلیخہ رحمتہ اللہ علیہا
حضرت بی بی زلیخہ رحمتہ اللہ علیہا (تذکرہ / سوانح)
شیخ نظام الدین اولیاء کی والدہ ماجدہ تھیں شیخ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ کو اللہ سے خاص تعلق تھا، جب ان کو کوئی ضرورت درپیش ہوتی تو وہ پہلے ہی اس کام کے متعلق خواب دیکھ لیا کرتیں تھیں اور اس کام کو انجام دینے میں انہیں اختیار حاصل ہوجاتا تھا میری خود یہ حالت ہے کہ جب کوئی ضرورت پڑتی ہے تو میں والدہ ماجدہ کے مزار پر جا کر عرض کرتا ہوں اور میرا وہ کام تقریباً ایک ہفتہ کے اندر ہی ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ اس کے پورا ہونے مین ایک مہینہ لگے۔ میری والدہ ماجدہ کو ان کی زندگی میں جب کوئی ضرورت ہوتی تو وہ پانچ سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنا دامن پھیلا کر دعا مانگتی تھیں اور جو چاہتی تھیں مل جاتا تھا۔ میری والدہ ماجدہ اتنی مقبول بارگاہ تھیں کہ جب ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو فرماتیں آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔ ان کی اس بات سے مجھے ایک خاص ذوق حاصل ہوا ہی تھا کہ اچانک کوئی آدمی ایک اشرفی کا غلہ ہمارے گھر ڈال گیا اور اتنے دنوں تک چلا کہ میں اس کے ختم نہ ہونے سے تنگ آگیا اور اس ذوق کا منتظر رہا کہ والدہ ماجدہ فرمائیں آج ہم اللہ کے مہمان ہیں ان کی اس بات سے مجھے وہ ذوق سکون و چین ملا جسے بیان نہیں کرسکتا۔
سکوں آپ کی بات میں جو مِلا ہے
کسی شے میں ہے نہ کسی نے دیا ہے
سلطان قطب الدین بن سلطان علاؤالدین خلجی نے شیخ نظام الدین اولیاء سے جھگڑنا چاہا اور جھگڑنے کا ابتدائی سبب یہ ہوا کہ اس نے قلعہ سیپری میں ایک جامع مسجد بنائی اور تمام مشائخین کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کی نماز اس جامع مسجد میں پڑھیں شیخ نظام الدین اولیاء کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی لیکن آپ نے جانے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے قریب کی مسجد اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اس میں نماز پڑھی جائے اس لیے میں یہیں جمعہ پڑھوں گا غرضکو آپ مسجد سیپری جمع پڑھنے نہیں گئے دوسری وجہ مخالفت کی یہ ہوئی کہ بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ ہر ماہ کی چاندرات کو تمام مشائخین، علماء، رئیس اور معززین شہر نئے چاند کی مبارک بادپیش کرنے باشاہ کے حضور حاضر ہوتے لیکن شیخ نظام الدین خود نہ جاتے بلکہ اپنی طرف سےاپنے ملازم خاص اقبال کو روانہ کردیا کرتے تھے، حاسد لوگوں نے یہ بات بھی بادشاہ سے لگا کر اس کو آپ کی دشمنی پر اور ابھارا چنانچہ بادشاہ نے غرور میں آکر کہا کہ جو کوئی آئندہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو نہیں آئے گا ہم اس کو سخت سزا دیں گے، شیخ کو جب یہ معلوم ہوا تو بغیر کچھ کہے ہوئے سیدھے اپنی والدہ کی قبر پر گئے اور دعا کرتے ہوئے کہا کہ اس بادشاہ نے مجھے سزا دینے کا عزم کیا ہے اگر وہ اپنے ارادہ میں کامیاب ہوگیا تو پھر آپکی زیارت کے لیے کبھی نہ آسکوں گا۔ یہ باتیں اپنی والدہ سے ناز و ادا کے ساتھ کر کے اپنے گھر مین آکر بیٹھ گئے آئندہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو اللہ کے حکم سے بادشاہ پر یہ مُصیبت آئی کہ خسروخاں پروان نے جو کہ مقربین دربار میں سے تھا بادشاہ کو قتل کر کے اس کی لاش محل سے باہر پھینک دی جیسا کہ مشہور ہے۔
اللہ غنی شان ولی راج دلوں پر
دنیا سے چلے جائیں حُکومت نہیں جاتی
(ار مُغانِ مدینہ)
حکایت ہے کہ نظام الدین اولیا فرمایا کرتے تھے کہ جمادی الثانی کی پہلی تاریخ کو میری والدہ دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔ میرا دستور تھا کہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو والدہ کے قدموں میں گرتا تھا چنانچہ ایک مرتبہ نوچندی کے دن چاند دیکھ کر میں نے والدہ ماجدہ کی قدم بوسی کی تو فرمایا آئندہ مہینہ میں کس کے قدموں پر سر رکھوگے؟ میں سمجھ گیا کہ اب نہ رہیں گی، میری حالت غیر ہوگئی اور میں رونے لگا، اور روتے ہوئے کہا اماں جان! مجھ غریب بے چارہ کو کس کے سپرد کیجئے گا؟ فرمایا کل صبح بتائیں گے فرمایا، آج رات شیخ نجیب الدین متوکل کے گھر آرام کرو چنانچہ میں ان کے حکم کے مطابق رات کو شیخ کے گھر میں چلاگیا، شب کے اخیر حصہ میں جبکہ صبح ہونے والی تھی خادِم نے آکر کہا کہ بی بی تمہیں بلارہی ہیں جب میں حاضر ہوا تو فرمایا کل تم نے ایک بات پوچھی تھی جسے بتانے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ اب کہتی ہوں پھر میرا سیدھا ہاتھ پکڑ کر کہا اے اللہ! اسے تیرے حوالہ کیا۔ بس اتنا کہا اور جاں بحق ہو گئیں آپ کا روضہ مبارک شیخ نجیب الدین متوکل کے مقبرے کے پاس ہے اسی مقام پر اپنی زندگی میں رہا کرتی تھیں۔ بی بی نور جہاں پر عام طور پر خواتین بکثرت جاتی ہیں اگر درحقیقت یہ بی بی نور کا مزار ہے تو اس کے عقب ہی والدہ مرحومہ کا مزار واقع ہے اللہ آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار