حضرت شیخ برہان الدین غریب
حضرت شیخ برہان الدین غریب (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت خواجہ محبوب الٰہی کے خلیفہ خاص تھے۔ وقت کے کاملین مشائخ میں مانے جاتے تھے ذوق شوق عشق و مستی میں معروف، وجد و سماع کے دلدادہ تھے آپ کا شمار علماء عصر میں ہوتا تھا۔ امیر خسرو امیر حسن علائی سنجری وغیرہ دانشوروں کی صف میں بیٹھتے تھے، شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی قدس سرہ اکثر آپ کے گھر تشریف لاتے آپ حضرت خواجہ نظام الدین کے اتنے معتقد او ارادت مند تھے آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر غیاث پور کی طرف پشت بھی نہیں کی آپ کو حضرت سلطان المشائخ نے دو بار خرقۂ خلافت سے نوازا پہلی بار جب خلافت ملی تو حضرت امیر خسرو اور میر علائی سنجری مجلس میں موجود تھے ان سب حضرات نے حضرت محبوب الٰہی کی خدمت میں سفارش کی کہ برہان الدین آپ کے قدیم خاص ہیں انہیں خرقۂ خلافت ملنا چاہیے خواجہ اقبال جو حضرت خواجہ نظام الدین کے خادم خاص اور محرم مجالس تھے وہ اس معاملہ میں پیش پیش تھے وہ پیر امین اور کلاہ لائے اور حضرت شیخ کو استدعا کی شیخ برہان الدین کو پہنایا جائے خود پہناتے وقت اعلان فرمادیا، مولانا آج سے آپ بھی خلیفہ ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین خاموش رہے، یہ خاموشی آپ کی اجازت اور رضا مندی کی علامت تھی۔ پھر ایک وقت آیا جب شیخ علی زینی اور ملک نصرت جو سلطان علاء الدین کے رشتہ دار تھے اور حضرت خواجہ نظام الدین کے ارادت مند تھے آئے اور حضرت خواجہ کی خدمت میں عرض کی کہ مولانا برہان الدین غریب پیر زمن ہوگئے ہیں، مگر ابھی تک اپنے گھر میں بوریا نشین ہیں اور جو کلیم بردوشن رہتے ہیں، مگر مخلوق خدا ان کے دروازے پر ہجوم کرتی ہے اور سجادہ نشین کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی ہے اور آپ کی طرح ہی مرید بنا رہے ہیں کیا یہ سب آپ کی اجازت سے ہور ہا ہے؟ حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی کو ان کی اس بات سے غصہ آگیا، جب مولانا رات کو حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بات نہ کی، ایک خادم نے مولانا برہان الدین کو کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ آپ کو یہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے آپ اٹھے، حیران و پریشان وہاں سے چل پڑے اور گھر جاکر صف ماتم بچھادی، شہر کے لوگ آتے تو آپ سے اظہار تعزیت کرتے امیر خسرو نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو حضرت خواجہ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حالت میں کھڑے ہوئے کہ گلے میں پٹکا ڈال رکھا ہے حضرت خواجہ نے پوچھا اے ترک اللہ کیا معاملہ ہے عرض کی حضور میں مولانا برہان الدین غریب کے گناہوں کی معافی کا خواستگار ہوں شیخ نے مسکرا کر فرمایا معاف کردیا گیا انہیں لے آؤ مولانا برہان الدین اور خواجہ امیر خسرو دونوں گلے میں پگڑیاں ڈالے حاضر خدمت ہوئے قدم بوسی کی حضرت خواجہ نے مولانا برہان الدین کو از سر نو مرید کیا، نیا خرقۂ خلافت دیا اور ایک علاقہ پر قطب مقرر کیا، جہاں آپ کو بڑی شہرت ملی۔
معارج الولایت کے مولف نے لکھا ہے کہ جب مولانا برہان الدین دہلی سے دیوگری پہنچے تو آپ وہاں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہی دنوں شیخ زین الدین دادو شیرازی نے آپ کی کرامت کی شہرت سنی، شیراز سے ازروئے کرامت اڑ کر دیوگری پہنچے، لوگوں سے سنا، شیخ برہان الدین تو اکثر اوقات سماع میں مشغول رہتے ہیں اور لوگ آپ کو سجدہ بھی کرتے ہیں تو داد و شیرازی کو بڑی مایوسی ہوئی، شیخ برہان الدین نے نور بصیرت سے معلوم کرلیا کہ ان کے دل میں ایسے خطرات موجود ہیں ایک خادم کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ایک بزرگ کے لیے ا تنا لمبا سفر کرکے آنا اور پھر ایک بات سن کر مایوس ہوکر لوٹ جانا عقلمندی نہیں اگر یہ شیطانی وسوسہ ہے یا غلط فہمی ہے تو ہمارے پاس آکر بیان کریں ان شاء اللہ شکوک رفع ہوجائیں گے شیخ زین الدین اسی وقت مجلس میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت برہان الدین مجلس سماع میں وجد میں تھے شیخ زین الدین بھی مجلس سماع میں بیٹھتے اور رقت و وجد میں آگئے دل صاف ہوگیا اور تمام خیالات محو ہوگئے، مجلس برخاست ہوئی تو آپ مرید بن گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں کمال حاصل کیا۔
شیخ زین الدین شیرازی، شیخ فریدالدین شیخ کمال الدین کاشانی ، شیخ رکن الدین حجام کاشانی حضرت شیخ برہان الدین کے خلفاء میں سے تھے۔ شیخ زین الدین کا حسین نامی بزرگ مرید تھا آپ کے ملفوظات اسی نے ہی مرتب کیے تھے جس کا نام ہدایت القلوب تھا۔
شجرہ چشتیہ کے مصنف نے شیخ برہان الدین غریب کی وفات سات سو اکتالیس ہجری لکھی ہے آپ کا مزار پر انوار دیوگیر زیارت گاہ خاص و عام ہے ہندوستان کا ایک بہت بڑا شہر برہان پور آپ کے نام سے آباد کیا گیا۔ اس شہر کو آباد کرنے کے لیے شیخ صلاح الدین درویش اور شیخ رمضان جو آپ کے خلفاء تھے نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
چو شد برہان دین از دار فانی
خر و سال وصال او تشہیر
یکی فرمود عاشق منبع ھق
دگر اہل صفا برہان دین پیر
-------------------------------------
آپ بڑے باذوق بزرگ تھے، اور مسئلہ سماع میں درجہ غلو تک پہنچے ہوئے تھے اس وقت کے فضلاء، امیر خسرو اور امیر حسن اور دوسرے خوش مزاج حضرات آپ کی محبت کے اسیر تھے، شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی جب دہلی میں تشریف لاتے تو آپ ہی کے گھر قیام فرماتے، آپ کو اپنے پیر پر بہت پختہ اعتقاد تھا آپ نے عمر بھر غیاث پور کی جانب پشت نہیں کی، آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ تھے اور آپ کی خلافت کا قصہ سیرالاولیاء میں بایں طور ہے کہ خواجہ مبشر جو خواجہ نظام الدین اولیاء کے پرانے خادم تھے انہوں نے اور سید حسین اور سید خاموش نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ شیخ برہان الدین غریب ہمارے شیخ خواجہ نظام الدین کے قدیمی اور پرانے مرید ہیں، علاوہ ازیں وہ ہم سب لوگوں میں ممتاز اور سر بلند بھی ہیں، انھیں خلافت دلانے کے لیے شیخ سے عرض کیا جائے چنانچہ یہ سب لوگ باہمی مشورے کے بعد شیخ کی خدمت میں گئے اور عرض کیا کہ برہان الدین جو آپ کے قدیمی مرید ہیں پاپوشی اور نوازش کے امیدوار ہیں اتنے میں برہان الدین بھی اس مجلس میں آگئے اس کے بعد اقبال خادم نے وہ ٹوپی اور خرقہ پیش کیا جو خواجہ نظام الدین نے اسے دیا تھا خواجہ نظام الدین نے (بطور برکت) اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اس کے بعد وہ خرقہ اور ٹوپی ان لوگوں نے برہان الدین غریب کو پہنا دی اور کہا کہ آپ بھی خلیفہ ہیں خواجہ نظام الدین اولیاء یہ سب کچھ دیکھتے رہے مگر خاموش رہے اور ان کی خاموشی دراصل رضا مندی ہی تھی۔
ایک مرتبہ خواجہ نظام الدین اولیاء برہان الدین پر ناراض ہوگئے جس کی تفصیل یہ ہے کہ شیخ برہان الدین بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور ویسے طبعی اعتبار سے بھی بے حد کمزور اور دبلے تھے اس لیے اپنے کمبل کوتہ بتہ کرکے اسے نیچے بچھا کر اپنے گھر میں بیٹھا کرتے تھے، علی زنبیلی اور ملک نصرت جو سلطان علاؤالدین خلجی کے رشتہ داروں میں سے تھے اور خواجہ نظام الدین کے حلقہ میں داخل ہوکر سر منڈواچکے تھے انہوں نے خواجہ نظام الدین کے سامنے برہان الدین غریب کی اس نشست کو یوں بیان کیا کہ وہ اب سجادہ نشینی کرنے لگا ہے اور اپنی نشست پیروں اور مشائخ کی طرح بناتا ہے، خواجہ نظام الدین اولیاء یہ سن کر کبیدہ خاطر ہوئے اور جب برہان الدین خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے کوئی بات نہ کی، جب مجلس برخاست ہوئی تو برہان الدین جماعت خانے میں گئے، تھوڑی دیر کے بعد اقبال خادم شیخ کا فرمان لایا کہ شیخ نے آپ کے لیے حکم دیا ہے کہ آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں، چنانچہ برہان الدین غریب حیران و پریشان حالت میں گھر لَوٹ آئے اور اپنے گھر مانند ماتم کناں اور تعزیت داران بیٹھ گئے چنانچہ شہر کے لوگ آپ کی اس حالت زار کو دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے، تھوڑے دنوں کے بعد امیرخسرو اپنا عمامہ گلے میں ڈال کر خواجہ نظام الدین کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے، شیخ نے نظر اٹھاکر دیکھا تو ان کے سامنے یہ منظر تھا، آپ نے فرمایا اے ترک کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ برہان الدین کے جرم کی معافی کا خواستگار ہوں یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا وہ کہاں ہے اسے بلا لاؤ، اس کے بعد مولانا اور امیر خسرو دونوں اپنی گردنوں میں عمامے ڈالے ہوئے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، شیخ نے مولانا کا جرم معاف کردیا، برہان الدین نے دوبارہ بیعت کی اور اپنے پیر کے انتقال کے بعد مولانا برہان الدین بھی چند ہی برس زندہ رہے اور لوگوں سے بیعت لیتے رہے اور پھر دیوگیر چلے گئے اور وہیں جان جانِ آفریں کے سپرد کی، آپ کی قبر بھی وہیں ہے اور شہر برہان الدین پور آپ ہی کے نام سے مشہور و آباد ہے وہاں کے ملوک آپ کے بہت عقیدت مند تھے اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔آمین
اخبار الاخیار