حضرت عیسیٰ عادل الخطیب
حضرت عیسیٰ عادل الخطیب (تذکرہ / سوانح)
حضرت عیسیٰ عادل الخطیب رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب:آپ کا نام عیسیٰ بن ملک عادل سیف الدین ابی بکر بن ایوب اور آپ کا لقب شرف الدین تھا۔
تاریخ ومقامِ ولادت: آپ 576 ء میں مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:آپ نے فقہ جمال الدین محمود حصیری سے پڑھی اور دیگر علوم وفنون کی کتابیں جلیل القدر علماء سے پڑھی۔کتاب مسعودی کو یاد کیااور امام احمد کی تمام مسند کو سنااور حدیث کو روایت کیا۔
سیر ت و خصائص: آپ بڑے عالم فاضل، فقیہ، ادیب، نحوی، لُغوی، شاعرِ عروضی اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ملک مصر میں آٹھ سال تک بادشاہ رہے۔ بنی ایوب میں آپ کے اور آپ کی اولاد کے علاوہ کوئی حنفی المذہب نہیں تھا۔آپ نے فقہاء کو حکم دیا تھا کہ میرے لئے امام اعظم علیہ الرحمہ کا مذہب دیگر سب علماء سے علیحدہ کرو، پس فقہاء نے ایسا ہی کیا اور آپ نے اسے یاد کیا۔ اور علماء کو حکم دیا کہ امام احمد کی مسند کوابواب پر مرتب کریںاور ہر ایک حدیث کو اس باب میں وارد کریں جو اس کو اس کے معنی کا تقاضا کرے۔اسی طرح آپ نے ایک کتاب لغت میں بھی جامع کبیر مرتب کرائی۔آپ کے وقت میں علماء و فضلاء کی بڑی قدر تھی اور دوردور سے آکر آپ کے پاس جمع ہوگئے تھے اور بڑے بڑے وظائف ان کے لئے مقرر فرمائے اور ان کو اپنی مجالس میں بٹھاکرآپ ان سے علمی استفادہ کرتے(لیکن موجودہ دور جتنا ظلم جماعتِ علماء سے کیا جاتاہے شاید ہی کسی دوسرے گروہ کے ساتھ ایسا معاملہہو۔ یہ نورانی جماعت چاہتی ہے ہم امتِ محمدیہﷺ کی اخلاقی و ذہنی تربیت کرکے انہیں ایک انسان کے اعلی محاسن تک پہنچائے،توہونا یہ چاہیئے تھا کہ عوام کو علماء سے قریب کیا جائے ، لیکن قریب کرنے کے بجائے علماء سے دور ہی کردیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام ظلمت و جہالت کے اندھیرے میں خود بھی جارہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اسی اندھیرے میں ڈال کر شرم و حیاء کے دائرے سے باہر نکال رہے ہیں۔علماء سے فائدہ حاصل کرنے بجائے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ ان کی تعلیم فقط دین تک محدود ہے لیکن ان کی سوچ بہت غلطی پر مبنی ہے کیونکہ جس طرح ایک عالم دین کا علم رکھتا ہے اسی طرح اسے دنیا میں چلنے والے حالات پر بھی ایک گہری نگاہ حاصل ہوتی ہے۔تاریخ کی کتابیں اس بات کی گواہی دیرہی ہیں بڑے بڑے بادشاہوں کو اپنی سلطنت چلانے کے لئے علماء کی رائے اور مشوروں کی ضرورت ہوتی تھی)۔ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے شعرا ء نے آپ کی مدح کی اور اچھی مدح کی۔ 611 ھ میں حج کیا۔ جامع کبیر کی کئی ایک مجلد میں تصنیف کی اور ایک کتاب عروض میں لکھی۔ خطیب بغدادی نے جو امام اعظم علیہ الرحمہ کے حق میں تاریخِ بغداد میں کچھ کلام کیا ہے اس کی تردید میں ایک کتاب سہم المصیب فی الرد علی الخطیب تصنیف ک۔
وصال: آپ کی وفات یکم ذو الحجہ 624 ھ/ بمطابق11 نومبر 1227 ء کی چاند ررات کو ہوئی اور دمشق کے قلعہ میں دفن کئے گئے، پھر آپ کی نعش جبلِ صالحہ کی طرف لیجاکروہاں کے مدرسہ میں جہاں آپ کے خاندان کے لوگوں کی قبریں ہیں اور معظمہ نام سے مشہور ہے، دفن کئے گئے۔(معلوم ہوا کہ علماء و اولیاء کے جسدِ خاکی کو نہ زمین کھاتی ہےاور نہ ہی ان کا جسم گل سڑ جاتا ہے بلکہ صحیح و سالم رہتاہے۔ اور یہ صرف حضرت عیسیٰ عادل خطیب کے بارے میں ہی منقول نہیں بلکہ متعدد اولیاء و علماء کے بارے میں درج ہے کہ انہیں دفنانے کے ایک عرصہ بعدکسی مجبوری کی وجہ سےدوسری قبر میں دفنانے کے لئے جب انہیں نکالاگیا تو ان کے مبارک جسم صحیح اور سالم تھے)
ماخذ ومراجع: حدائق الحنفیہ