آپ خطۂ دلپذیر کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے اسم گرامی شرف الدین تھا قدوۃ الواصلین امام الواصلین مروج الاسلام کا سرالاسلام۔ شاہ بلاول اور بلبل شاہ خطابات تھے آپ کی کوششوں سے کشمیر کی وادیوں میں اسلام کا نور پھیلا آپ حاکم کشمیر رنجو شاہ کے دَور حکومت میں کشمیر میں آئے یہ زمانہ ۷۲۵ھ کا تھا دریائے جہلم کے کنارے پر قیام فرماتے تھے راجہ اگرچہ ہندو تھا مگر اس کا دل ہندو مذہب سے وابستہ نہ تھا وہ مذہب اسلام پر غور و فکر کرتا تھا دوسرے ادیان پر بھی اظہار خیال کرتا تھا مختلف مذاہب کے لوگ راجہ کے پاس آتے اور اپنے نظریات اور عقائد کو پیش کرتے راجہ سب کی گفتگو سنتا رہتا۔ ایک رات وہ مختلف مذاہب پر غور کر رہا تھا اسے سارا دن نیند نہ آتی اس نے فیصلہ کیا کہ علی الصباح جو شخص سب سے پہلے میرے پاس آئے گا اسے حق پر سمجھوں گا علی الصباح راجہ اپنے محل کی چھت پر کھڑا ہوگیا اور عرب کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی نگاہیں دُور دریا کے کنارے پر پڑیں اس نے دیکھا کہ ایک فرشتہ صورت بزرگ پتھر کے مصلیٰ پر باکمال تمکین و اعزاز اور نہایت سوزوگداز کھڑا نماز ادا کر رہا ہے بادشاہ کو اس شخصیت کو دیکھنے کے شوق نے اس قدر پرانگخیتہ کیا کہ وہ چھت سے اترا۔ اور اسی طرح تن تنہا دریا کی طرف چل پڑا وہ بزرگ حضرت بلبل شاہ تھے بادشاہ نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ گناہوں سے توبہ کی واپس آکر اس نے تمام اہل خانہ کو بھی دولت ایمان حاصل کرنے کو کہا دربار کے امرا و وزراء کو اسلام کی دعوت دی اس کی کوششیں اتنی مخلصانہ تھیں کہ اس کے اہل و عیال اور امراء و وزراء سب کے سب مسلمان ہوگئے۔
بادشاہ نے حضرت بلبل شاہ کے مقام خاز پر ایک خوبصورت خانقاہ تعمیر کرائی مورخین کہتے ہیں کہ وادی کشمیر میں اہل تصوف کی یہ پہلی خانقاہ تھی جسے تعمیر کیا گیا اس خانقاہ کا ابتدائی نام لنگر بابا بلبل شاہ رکھا گیا۔ بلبل شاہ نے اپنی خانقاہ کے ساتھ ہی ایک مسجد تعمیر کرائی خواجہ محمد اعظم تواریخ اعظمیٰ میں لکھتے ہیں۔ (یہ کتاب تاریخ دومری کے نام سےمشہور ہے) کہ سید والا جاہ بلبل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی طاقت دی ہے کہ میں کھائے پیئے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں اس بدن سے جان چلی بھی جائے تو چل پھر سکتا ہوں اس بدن ظاہری کے ساتھ دارالبقا میں جاسکتا ہوں۔ اور اس کی حفاظت کرسکتا ہوں چونکہ یہ تینوں چیزیں سنت نبوی کے خلاف ہیں۔ لہذا میں کوئی کام ایسا کرنا نہیں چاہتا جو سنت رسول کے خلاف ہو۔ میرے نزدیک سنت نبوی پر اقامت اور اطاعت ہزاروں سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
حضرت بابا بلبل شاہ کی وفات صاحب تواریخ کشمیر نے ۷۲۷ھ لکھی ہے اس سلسلہ میں یہ شعر بھی لکھا ہے۔
سالِ تاریخ وصل حضرت شاہ
|
|
بلبل قدس گفت خاص اللہ ۷۲۷ھ
|
سلطان رنجو شاہ اسلام لائے تو حضرت پیر روشن ضمیر بلبل شاہ نے انہیں سلطان صدرالدین کے خطاب سے نوازا۔ وہ بھی اسی سال واصل بحق ہوئے۔ انہوں نے دو ماہ چھ ماہ تک بحالت اسلام بادشاہی کی اور اسلام کی ضیا باریوں کو کشمیر کے دُور دراز علاقوں تک پہنچایا ان کا مزار بھی حضرت بلبل شاہ کے مزار سے متصل ہے۔
پیر روشن ضمیر بلبل شاہ ارتحالش چو از خرد جستم
|
|
شیخ دین متقی کشمیری گفت نامی ولی کشمیری ۷۲۷ھ
|
|
رنجو شاہ کی تاریخ وفات کا قطعہ یوں درج ہے۔
شاہ رنجو مروج الاسلام شاہ عیں الکرم بگو شالش ۷۲۷ھ
|
|
کرد چوں جاں فدا ہراۂ حق ہم نجواں شاہ بادشاہ حق ۷۲۷ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)