حضرت غوث علی شاہ قادری پانی پتی جمعتہ المبارک ماہ رمضان ۱۲۱۹ھ میں پیدا ہوئے ۔یہ حضرت بری امام رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ قادریہ سے بیعت تھے ان کی تعلیمات ، ملفوظات اور حالات پر آپ کے خلیفہ سّید گل حسن شاہ صاحب قادری نے دو بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں جن کے نام تذکرہ غوثیہ اور تعلیم غوثیہ ہیں ۔ بلا مبالغہ یہ کتابیں اردو زبان میں دو آخر بہترین تصوفی کتابیں ہیں ۔ان کا انداز بیان کچھ اس قدر پر کشش اور سدا بہار ہے کہ حقائق اور معارف سے پر لطف وا سلوب طریقے سے ایسا پردی چاک کیا جاتا ہے کہ دل سرو ر روحانی سے لبریز ہو جاتاہے ۔آپ نے ۲۶ ربیع الاول۱۲۹۷ھ کو پانی پت میں وصال پایا ۔
ان بزرگا نِ دین کے اعلاوہ مندر ذیل مشہور بزرگ ہیں جنہوں نے مزاربری امام رحمتہ اللہ علیہ سے فیض پایا ۔جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں ہدیتہً اور مختصًرن ان کے اسما ء گرامی تحریر کیے جاتے ہیں ۔سلطان العارفین قاضی محمد اشرف ان کا ایک شعر ہے۔
شاہا شاہا کرن پکھیرو ں سومنے نال آوازا ں
شاہ لطیف پیارے رب دے واقف رازانیازاں
قادری سکنہ تمیر نزدہ چراہ ضلع روالپنڈی ۔بڑے سامک اور با شریعت بزرگ ہو کر گزر رہے ہیں ۔سید رجب شاہ صاحب کا جن کا عالی شان مزار دھوبی گھاٹ مری میں ہے آپ سے کئی کرامات منسوب ہیں ۔جن کے چشم دید گواہ آج بھی موجود ہیں ۔ سایئں عبداللہ دہلی والے جن کے عقیدت مندوں کا ایک خاص طبقہ پشاور میں موجود ہیں ۔ہمہ وقت ند یوں اور جنگلوں میں چلہ کش رہتے۔
(فیضانِ امام برّی)