حضرت حاجی حافظ محمود قدس سرہ
حضرت حاجی حافظ محمود قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
حج کا سفر:
حضرت قبلہ حاجی صاحب دیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے۔ ایک روز فرماتے تھے کہ ہماری عمر تقریباً بیس سال کی تھی۔ جب ہم اور ہمارے چھوٹے بھائی حاجی حامد اپنے والد ماجد اور بہن کے ساتھ اپنے گھر ڈیرہ غازی خان سے حج کو مکہ شریف تشریف لے گئے۔ ہم دونوں بھائی چلتے تھے۔ اور شام کو عرب کے کسی گاؤں کی مسجد میں یا اور کسی جگہ ٹھہر جاتے۔ لوگ ہماری خدمت کرتے تھے۔ ایک روز ہم نجدیوں کو مسجد میں ٹھہرے۔ ہمارے درود اور کلمہ پڑھنے سے وہ لوگ ناراض ہوگئے۔ ہم پر حملہ کر کے مارنے کو آئے۔ ہم بھی کمر باندھ کر مستعد ہوگئے۔ وہاں کے نمبر دار نے ہمیں بچایا۔ پھر ہم منزل بمنزل چلتے ہوئے مکہ شریف پہنچے۔ وہاں ہمیں ہمارے والد صاحب بھی مل گئے۔ ہم نے حج ادا کیا اور واپس بمبئی میں آئے تو وہاں ہمارے والد صاحب اور بہن کا انتقال ہوگیا۔
رجوع الی اللہ:
ہم دونوں بھائیوں کو ایک ٹھگ وہاں سے جالندھر میں لے آیا۔ ہم یہاں رہنے لگے۔ یہاں مولوی محمد شریف صاحب ہوشیار پور سے تشریف لاتے تھے۔ ہم ان کی خدمت کرنے لگے۔ انہوں نے ہمیں اللہ کا نام بتایا۔ اللہ کے نام نے ہمیں پکڑلیا۔ جب اُس کا کچھ اثر ظاہر ہوا۔ تو ہمارے مرشد صاحب نے ہم سے دریافت کیا کہ تم پہلے پہلے کس کے مرید ہوئے ہو۔ ہم نے اُن کا نام لیا جن کے ہم مرید پہلے اپنے دیس میں ہوئے تھے۔ فرمایا۔ نہیں تم ہمارے مرید ہو۔ تمہیں اللہ کا نام ہم سے پہنچا ہے۔ پھر حضرت مولوی صاحب نے ہمیں اپنا مرید کیا۔ اور ہمارا سلوک اپنی توجہ سے ختم کرایا۔ جب جالندھر میں تشریف لاتے۔ بڑی عنایت اور توجہ دلی فرماتے تھے۔ پھر ہم سے فرمایا۔ کہ تم لوگوں کو اللہ کا نام بتایا کرو اور توجہ باطنی اُن کو دیا کرو۔‘‘
اللہ کا نام:
ایک روز فرمایا کہ ہمارے پیر ہمارے پیشوا مولوی محمد شریف صاحب جالندھر تشریف لائے اور یہاں کے پیر زادوں سے کہا کہ اللہ کا نام ہم سے سیکھ لو۔ تو پیر زادوں نے کہا۔ لو جی! پٹھان ہمارا پیر بنتا ہے۔ ہم آپ پیر زادے ہیں۔ ہمارے پیشوا نے فرمایا کہ میں پیر نہیں بنتا۔ اللہ کا نام سکھاتا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ ہمیں اللہ کا نام آتا ہے۔ تم کیا سکھاؤ گے۔ پھر ہمارے پیر نے فرمایا اچھا نہ سیکھو۔ ایک حاجی مسکین ہمارا طالب ہے وہ یہاں رہے گا۔ اور لوگوں کو اللہ کا نام سکھائے گا۔ ہم یہاں رہے لگے۔ اور اپنے پیشوا کے ارشاد کی تعمیل میں لوگوں کو اللہ کا نام بتانے لگے۔ ان کو توجہ دینے لگے۔ مقام ولایت صغریٰ میں ہم پر نسبت کی وہ تیزی ہوئی اور اُس کا وہ زور شور ہوا کہ جو کوئی سامنے آتا تھا اور توجہ اُس پر پڑتی تھی لوٹ پوٹ ہوجاتا تھا۔ توجہ کے وقت دس بیس آدمی ایسے زمین پر لوٹتے تھے جیسے نیم بسمل لوٹتا ہے۔ اور بڑا وجد و حال صرف توجہ سے ان پر وارد ہوتا تھا۔ ایک شور اس کا ہوگیا تو مولویوں اور پیر زادوں نے لوگوں سے کہا کہ حاجی صاحب کے پاس کوئی جن ہے کہ بدون سماع کے لوگوں کو وجد و حال ہوتا ہے۔
اشاعت طریقہ:
آپ نہایت حلیم و بردبار اور خلیق تھے۔ طالبانِ حق کو ایسی تربیت فرماتے تھے جیسے والدہ اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ آپ کی کشش باطنی تھی کہ طالبانِ خدا گرد و نواح اور دور دراز جگہوں سے استفاضہ کے لیے کھنچے چلے آتے تھے۔ مگر شہر جالندھر اس نعمت سے محروم رہا۔ وہاں کے مولوی اور پیر زادے حسد کے مارے آپ کے راستے میں روڑے اٹکاتے تھے۔ اور آپ کو شہر سے نکالنا چاہتے تھے۔ کیونکہ آپ کی موجودگی میں اُن کو کوئی پوچھتا نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود تباہ ہوگئے۔
چراغے را کہ ایزد بر فروزد
ہر آنکہ پف زند ریشش بسوزد
مشکلات کا دور:
چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قدرت ہے باہر روشنیاں ہوتی ہیں۔ اور مشعلیں جل کر یہاں سے چلی جاتی ہیں۔ اور یہاں جالندھر میں اندھیرا ہے۔ یہ ان لوگوں کے عقیدہ کا نتیجہ ہے۔ جالندھر میں ہمارے ساتھ پیر زادوں نے بڑی بڑی زیادتیاں اور سختیاں کی ہیں۔ اور ہمیں بڑی تکلیفیں دی ہیں۔ سکھوں کے وقت میں ہمارے ساتھ فساد اتنا بڑھا کہ شمس الدین مولوی نے ہمارا حقہ پانی بند کردیا۔ اور جولاہوں سے اور اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کے ساتھ تم حقہ پانی نہ پیو۔ ہم حقہ نہ پیتے تھے۔ اور پانی خدا کا تھا۔ سکھوں کی ایک پلٹن یہاں رہتی تھی۔ اُس کا اجیٹن سید امیر شاہ تھا۔ وہ ہمارا مرید اور طالب تھا۔ اور قادر بخش جہانخیلاں والا بھی ہمارا مرید اور طالب تھا جو اُسی پلٹن میں تھا۔ اور بہت سے لوگ بستیوں کے ہمارے طالب تھے۔ اُن کو یہ خبر ہوئی کہ حاجی صاحب کا حقہ پانی مولوی نے بند کردیا ہے۔ یہ سُن کر اُن کو بڑا رنج ہوا اور لڑائی کے لیے پلٹن میں ترم ہوگیا۔ پلٹن تیار ہوگئی۔ اُدھر بستیوں میں خبر ہوئی۔ بستیوں کے پٹھان چڑھ آئے۔ بارہ ہزار آدمی خدا کے حکم سے ہماری طرف سے لڑنے کو تیار ہوگئے۔ اور کہا کہ مولوی کو اور جالندھر شہر کو آج ہم قتل و غارت کریں گے۔ مولوی کی طرف دو ہزار آدمی جو لاہے وغیرہ تھے۔ جب یہ خبر کرم بخش جالندھر کے صوبہ کو ہوئی وہ بھاگے آئے۔ اور ہماری طرف والوں کو سمجھایا کہ حاجی صاحب ہماری حفاظت میں ہیں۔ کیا مجال کسی کی ہے جو اُن کو نقصان پہنچائے۔ جب وہ بلوہ اور فساد رفع دفع ہوا۔ پھر بھی لوگ نہیں مانتے تھے۔ اور بڑی بڑی تکلیفیں ہمیں دیتے تھے۔ ایک بار ذکر کیا کہ جب ہم توجہ میں بیٹھتے تھے تو مفسدین ہمارے گرد اگرد شور مچاتے تھے۔ کرم بخش صوبہ کو یہ خبر ہوئی۔ اُس نے دس سپاہی ہماری حفاظت کے لیے بھیجے جب وہ توجہ کے وقت ہمارے گرد اگرد غل مچانے لگے تو سپاہیوں نے ان کو خوب مارا۔ اسی طرح بہت سی تکلیفیں ہمیں دیں۔ آخر ہم تنگ آکر جہاں پہلے رہتے تھے وہاں سے اُٹھے اور جہاں اب رہتے ہیں یہاں آکر ایک کوٹھا بنایا۔ یہ جگہ ویران پڑی تھی۔ کوئی آبادی یہاں نہ تھی۔ اب دیکھو کس قدر آبادی یہاں ہوگئی ہے۔ یہاں دروازے کے سامنے جو کچھ ہے۔ یہ بھی ہم نے بنوائی تھی۔ یہاں آکر بھی لوگ ہمیں تکلیف دیتے تھے۔ ایک دن ایک شخص نے کوئیں میں جوتی ڈال دی۔ سپاہی نے دیکھ لیا۔ اُس کو خوب مارا۔ جن پیرزادوں اور مولویوں نے ہمیں تکلیف دی وہ سب خراب ہوگئے ان کا کچھ بھی نہ رہا۔
خلفاء:
باوجود ایسی تکالیف کے آپ کا فیض بذریعہ خلفاء دور دور پہنچا۔ خواجہ قادر بخش جہانخیلی حاجی مظفر علی خاں صاحب مراد آبادی مولوی محمد جمال صاحب فیرروز پوری، مولوی رحیم بخش صاحب سیالکوٹی، حافظ انور علی صاحب رہتکی، فقیر شہاب الدین صاحب لاہوری، خواجہ عبد الخالق صاحب جہانخیلی وغیرہ نے آپ ہی سے خلافت پائی اور لوگوں کو فیض پہنچایا۔ بہت سے ولایتی لوگ بھی آپ سے فیض یاب ہوئے آپ کا ایک خلیفہ شیر محمد نام ملک چٹہا کو گیا اور ایک خلیفہ دوست محمد نام یار قند کو گیا۔
واضح رہے کہ آپ کے خلفاء میں سے ایک مولوی احمد علی صاحب بھی ہیں جن کے خلیفہ حضرت غلام جیلانی قدس سرہ ہیں۔ حضرت غلام جیلانی نے بیعت بے شک حضرت مولوی احمد علی صاحب سے کی مگر سلوک بالتفصیل حضرت قبلہ حاجی صاحب قدس سرہ کی خدمت میں تمام کیا آپ بستی دانشمندوں میں پیدا ہوئے اور وہیں یکم جمادی الاخریٰ ۱۳۳۲ھ میں نوے برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ انا للہِ وانا الیہ راجعون جناب مفتی عبد الحمید صاحب لدہیانوی کو ارادت و اجازت حضرت غلام جیلانی قدس سرہ سے ہے۔
کشف و کرامات
(۱) فرمایا کہ جن دونوں میں لوگ ہمیں اِس غرض سے تکلیف دیتے تھے کہ یہ یہاں سے چلا جائے کیوں کہ اِس کی موجودگی میں ہمیں کوئی نہیں پوچھتا ایک دن ہمیں خواب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ہم اور ہمارا چھوٹا بھائی حاجی حامد مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ منورہ کا پردہ لٹکتا تھا اُس کو ہم نے سر پر لے کر فریاد کی کہ یا رسول اللہ! لوگ ہمیں بہت تکلیف دیتے ہیں اور ہم مسکین غریب الوطن ان کے ہاتھوں سے تنگ آگئے ہیں روضہ منورہ سے آواز آئی یا شیخ لا تخف۔ پھر ہماری آنکھ کھل گئی اور ہم نہایت خوش اور بشاش اُٹھے ان ہی دنوں میں ہمیں امام ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی جن کا مزار مبارک شہر جالندھر میں ہے یہ باطن میں دو آبہ جالندھر کے حاکم ہیں اور بڑے ولی اللہ ہیں یہ قبر سے باہر بھی ملتے ہیں اور اندر بھی ملتے ہیں ہمیں امام ممدوح ملے او فرمایا کہ تیری کمان اب چڑھی ہے ہم نے عرض کیا خوب کمان چڑھی ہے لوگ تکلیف دیتے ہیں انہوں نے ہماری تسلی کی پھر بڑا فیض لوگوں میں جاری ہوا اور نور کی روشنیاں ملکوں میں پھیلیں مگر جالندھر میں اندھیرا ہی رہا۔
علم لدنی:
فرمایا کہ میانوالی پر گنہ رعیہ ضلع سیالکوٹ سے ایک مولوی غلام حسین بھی ہمارے پاس آیا۔ اُس نے امتحاناً ہم سے علمی سوالات کیے وہ جو جو سوال کرتا تھا۔ اُس کا جواب غیب سے ہمارے سامنے آجاتا تھا ہم اُس کے بموجب جواب دیتے جاتے تھے یہ علم لدنی تھا جو برکت متابعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عطا کیا گیا علم درسی یا مکتبی نہ تھا اُس مولوی کو ہمارے جوابوں سے تسلی ہوگئی وہ بھی بیعت ہوگیا اور اچھا آدمی ہوگیا۔
عہدے پر بحالی اور معزولی:
فرمایا کہ ایک ہندو جو کسی اچھے عہدے پر یہاں اہل کار تھا موقوف ہوگیا وہ ہمارے پاس آیا اور کہا کہ مجھے بتاؤ ہم نے کہا کہ رات کو ایک سو بار یہ پڑھ کر سورہنا۔ ’’نہیں کوئی مقصود میرا سوائے تیرے۔ مقصود میرا تو ہی ہے۔ رضا تیری مطلوب ہے۔‘‘ اُس نے رات کو یہی پڑھا۔ صبح ہی حاکم پیادہ اُس کو بلالے گیا اور اُسی عہدے پر بحال کردیا وہ بہت خوش ہوا۔ ایک مولوی شمس الدین یہاں جالندھر میں تھے انہوں نے پوچھا کہ تیرا کام کس طرح بن گیا اس نے کہا کہ حاجی صاحب نے مجھے کچھ بتایا تھا اس کے پڑھنے سے میرا کام ایک ہی رات میں بن گیا مولوی نے کہا ہمیں بھی سنادے کیا بتایا تھا اس نے بتادیا مولوی نے سن کے کہا کہ یہ تو کلمہ ہے۔ یہ سن کر ہندو کے دل میں شک پڑگیا شک کا پڑنا تھا کہ پھر اُسی وقت وہ ہندو نوکری سے موقوف ہوگیا اور پھر ہمارے پاس بھاگا آیا اور ہم سے سب حال بیان کیا ہم نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا بعد ازاں وہ ہندو بڑا خراب اور تباہ ہوا بات یہ کہ سارا کام محبت پر ہے جب شک آیا تو محبت کہاں۔
حرام مال کا معلوم ہونا:
فرمایا: ہم چاؤنی جالندھر میں رات کو ایک شخص کے ہاں ٹھہرے اُس نے ایک پلنگ ہمارے سونے کے لیے لاکر بچھایا جب ہم اس پلنگ پر لیٹے ایسا معلوم ہوا کہ ہم گندگی میں چلے گئے۔ ہم اسی وقت اس پر سے اٹھے اور وہاں سے چلے آئے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسب حلال کا مال نہ تھا۔
غیب سے الہام:
۸ ربیع الثانی ۱۳۰۳ھ کو آپ نے فرمایا کہ یہاں سے بہت فیض جاری ہوا۔ جس کی قسمت ہوتی ہے لے جاتا ہے۔ دو برس ہوئے ہمیں غیب سے یہ الہام ہوا تھا کہ جب تیرے دو سو اور طالب ہوجائیں گے تو تیرا انتقال ہوجائے گا۔ ہم نے خیال نہیں کیا کہ اس کے بعد کتنے طالب ہوچکے ہیں اور معلوم نہیں کہ کون ایسا طالب ہوگا جو سب سے آخر ہوگا۔
نگاہ کامل کا اثر:
جناب مفتی عبد الحمید صاحب لدہیانوی بروایت حضرت حاجی انور شاہ سجادہ نشین بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کی توجہ نہایت تیز تھی آپ جس پر نظر ڈالتے بیہوش ہوجاتا۔ ایک روز ایک شخص کوئیں میں سے پانی نکال رہا تھا۔ آپ نے اُس سے فرمایا کہ پانی لوٹے میں بھی ڈال دو وہ دالنے لگا آپ کی نظر اُس پر پڑی بیہوش ہوگیا اور کوئیں میں گر پڑا۔ اس کو کوئیں میں سے نکال کر کسی نے حاکمِ وقت کو اطلاع دی کہ یہ ساحر ہے جس پر نظر ڈالتا ہے وہ بیہوش ہوجاتا ہے آپ کو طلب کیا گیا حاکم نے کہا کہ لوگ آپ کو ساحر بتاتے ہیں آپ نے کہا میں ساحر نہیں اللہ اللہ کرتا ہوں۔ یہ سُن کر حاکم بولا کہ جاؤ یہ خدا پرست شخص ہے۔ جناب مفتی صاحب موصوف کے مرشد حضرت غلام جیلانی کا بیان ہے کہ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ جب میں توجہ چاہتا ہوں تو حضرت مولانا محمد شریف قدس سرہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ بازار تشریف لے گئے ایک سبزی فروش کی دکان سے سبزی طلب فرمائی اُس نے کہا کیا چاہتے ہو آپ نے جو نظر اُٹھا کر دیکھا تو وہ بیہوش ہوکر گر پڑا اُسی روز سے حضرت حاجی صاحب نے عہد کرلیا کہ میں ایسے معمولی کاموں کے لیے باہر نہ نکلا کروں گا۔
توجہ کی کیفیت:
ایک روز ایک بنگالی آیا وہ ایک ہفتہ حضرت حاجی صاحب کے پاس ٹھہرا بعد ازاں اس نے کہ کہ ہمیں اس قدر فرصت نہیں کہ مہینوں یہاں بیٹھے رہیں ہم چلتے ہیں نام تو بڑا سنا تھا مگر مدت مدید چاہیے ہم جاتے ہیں ہمیں اتنی فرصت نہیں امید لے کر آئے تھے مگر مایوس جاتے ہیں آپ نے فرمایا کہ کل کا روز اور ٹھہرو دوسرے روز اُس پر توجہ ڈالی اور تمام مقامات طے کرادیئے اور خلافت عطا فرما کر اُسے رخصت کردیا حاضرین نے عرض کیا کہ ایک شخص یہاں آتا ہے اور ایک ہفتہ میں کامل مکمل ہوکر چلا جاتا ہے دوسرے مدت سے یہاں پڑے ہیں آپ نے فرمایا تم اس راز کو نہیں سمجھتے اُس کے لیے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حکم ہوا کہ اُسے اس کا حصہ جلد دے کر رخصت کردو۔
مولوی صاحب کی تلاش مرشد:
جناب مفتی عبد الحمید صاحب لدہیانوی بروایت حاجی انور شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ مولوی کمال الدین صاحب فیروز پوری ہمدرسِ جناب مولوی ولی محمد صاحب جالندھری تلاشِ مرشد میں نکلے بہت جگہ پھرے مگر کہیں تسلی نہ ہوئی آخر کار انبالہ میں حضرت سائیں توکل شاہ صاحب قدس سرہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرضِ حال کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ تم عالم ہو میں کچھ پڑھا ہوا نہیں۔ تم جالندھر میں حضرت حاجی محمود کی خدمت میں جاؤ مولوی صاحب جالندھر پہنچے اور مولوی ولی محمد صاحب سے حاجی صاحب کا تذکرہ کیا انہوں نے کہا وہ بیعت تو کرتے ہیں مگر علم ظاہر سے واقف نہیں عالم کو عالم کی بیعت کرنی چاہیے مولوی کمال الدین صاحب نے حضرت سائیں صاحب کا ارشاد بیان کیا اور کہا کہ میں تو ضرور وہاں حاضر ہوں گا پس حاضر خدمت ہوئے حضرت حاجی صاحب اس وقت بوقت دوپہر دولت خانہ میں تھے بذریعہ خادم اطلاع کی جواب ملا کہ ظہر کے وقت ملوں گا۔ چنانچہ ظہر کے وقت آپ تشریف لائے اور وضو فرما کر نماز معمولی طور پر ادا کی یہ دیکھ کر مولوی صاحب کے دل میں آیا کہ یہاں بھی نہیں جن کی نماز ایسی ہے وہاں کیا ہوگا حضرت نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا کہ میری عمر سو سال سے متجاوز ہے اس عمر میں مسجد میں آکر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا غنیمت ہے پھر مولوی صاحب سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا علم پڑھا ہے اس پر مولوی صاحب نے کئی علموں کے نام لیے بعد ازاں حضرت نے فرمایا کہ تم تو بڑے عالم ہو ہمیں نماز ہی سنادو۔ مولوی صاحب کی زبان سے صرف سبحانک اللہ ہی نکلا، آگے حیران ہیں کچھ دیر تک سکتہ کا عالم رہا پھر حضرت نے فرمایا مولوی! تم تو کہتے تھے میں نے فلاں فلاں علم پڑھا ہے تم تو نماز بھی نہیں سنا سکتے۔ اچھا الحمد شریف ہی سناؤ۔ مولوی صاحب کی زبان سے فقط الحمد نکلا آگے حیران ہیں سب کچھ بھول گئے حضرت نے فرمایا کہ کیا اس علم سے فقیر کی شناخت ہوسکتی ہے دنیا میں فقیر ہیں اللہ والے ہیں اگر اللہ والے نہ ہوں تو قیامت برپا ہوجائے اس فقرہ کو کئی بار دُہرایا۔ آخر جناب حاجی صاحب کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اب میرے وظیفہ کا وقت ہے مولوی صاحب نے آپ کے پاؤں پکڑ لیے اور چیخ ماری حضرت کو رحم آیا اور فرمایا کہ تم نے فقیر کا قدم پکڑ لیا ہے فقیر کسی کو محروم نہیں کیا کرتے کل کو تمہیں داخل سلسلہ کروں گا۔ چناں چہ دوسرے روز بیعت ہوئے چند روز کے بعد رخصت کرتے وقت اپنی ریش مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مولوی! اِس داڑی کی لاج رکھنا بعد ازاں مولوی صاحب اپنے شہر میں چلے گئےکچھ عرصہ کے بعد قبض وارد ہوئی اور حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا آپ نے اُس کو دو دو ہزارہ کا ورد فرمایا۔ جس سے حالت بحال ہوگئی۔
وصال مُبارک:
وفات شریف سے دو تین دن پہلے آپ کی داڑھ جو دکھتی تھی ایک شخص سے نکلوائی داڑھ کو دیکھتے ہی آپ پر فالج گرا اور آپ بے ہوش ہوگئے۔ حضرت قبلہ توکل شاہ صاحب انبالوی کو آپ کی بیماری کی اطلاع دی گئی وہ تشریف لائے۔ ۸ ربیع الاول ۱۳۰۶ھ کو آپ کا وصال ہوگیا شہر میں کہرام مچ گیا قیامت کا نمونہ تھا کچھ دن چڑھے آپ کا جنازہ اُٹھایا گیا شہر کے اور بستیوں کے خاص و عام بڑی کثرت سے آپ کے جنازہ کے ساتھ تھے بستی شیخ کے راستہ پر جو ایک قبرستان ہے وہاں آپ کو دفن کیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ارشاداتِ عالیہ
(۱) ایک روز ہم توجہ اور مراقبہ میں بیٹھے تھے ایک شخص نا واقف نے پاس آکر کہا۔ السلام علیکم۔ جب ہم مراقبہ سے اٹھے تو ہم نے اس سے کہا کہ سن تو میاں! جب کوئی نماز میں ہو اُس سے سلام علیک کہنا جائز ہے یا نہیں اُس نے کہا نہیں ہم نے کہا توجہ و مراقبہ ہماری طریقت کی نماز ہے اس میں بھی سلام کہنا درست نہیں۔
(۲) آپ کے مرید و خلیفہ حافظ انور علی رہتکی کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت نے مجھے استغفار اور آمنت باللہ بتایا اور اس کو صحیح کرایا اس کے بعد مجھے سے فرمایا آج تم ایسے پڑھتے ہو جیسے نادان پڑھتے ہیں میں نے عرض کی۔ حضرت نادان ہی ہوں یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئے فرمایا اہا! نادان ہی سب کچھ پاتا ہے دانا ہوا اور گیا گزرا پھر فرمایا نہ ہونا تیرا منظور۔ ہونا تیرا نا منظور۔
(۳) جب اللہ کے نام کا تذکرہ ہوتا تھا تو حضرت یہ پنجابی بیت اکثر پڑھا کرتے تھے۔؎
رب جہاں دے ول انہاں نوں غم کیں دا وے لوکا
وہڑے چنن رُکھ لگا مسافر آ بہندا وے لوکا
یعنی اے لوگو! رب جن کی طرف ہے انہیں کس کا غم ہے۔ اے لوگو! ان کے آنگن میں تو چندن کا درخت لگ گیا ہے۔ جس کے نیچے مسافر آخر بیٹھتا ہے۔ اس بیت میں بظاہر وہڑے سے مراد قلبِ سالک ہے اور چنن رُکھ سے مراد اللہ کا نام ہے۔ جس میں سب سے زیادہ خوشی ہے اور مسافر سے مراد واردات غیبی ہیں۔
(۴) جب تم اولیاء اللہ میں سے کسی کے مزار مبارک پر جاؤ تو قبر کی طرف منہ کرکے اور قبلہ کو پسِ پشت کرکے ایسے بیٹھو کہ دو حصہ قبر کے پاؤں کی طرف اور ایک حصہ سر کی طرف رہے پھر ایک بار سورہ الحمد شریف پڑھ کر اُس کا ثواب اُس بزرگ کی روح کو بخشو۔ پھر ایسے متوجہ ہوکر بیٹھ جاؤ جیسے یہاں توجہ میں بیٹھتے ہیں اور ہماری صورت کو پیش نظر رکھو۔ ابتدا میں تھوڑے دن اس کی ضرورت ہے پھر نہیں کیوں کہ مبتدی پر جو شیطان کا غلبہ ہوتا ہے۔ پیشوا کی صورت کو خیال میں رکھنے سے وہ بھاگ جاتا ہے توجہ کے وقت وسوسہ دل میں نہ ڈالو جب تم دل کی طرف اچھی طرح متوجہ ہوجاؤ گے۔ تو اگر وہ بزرگ صاحب مزار توجہ لیتا مرگیا ہے تو تمہارے دل کا نور اس کی طرف جائے گا اور اگر وہ بزرگ فیض دیتا مرگیا ہے اور صاحب ارشاد ہوا ہے تو اس کا نور تمہاری طرف آئے گا اس سے ایک سرور اور بیہوشی تمہیں ہوگی۔ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات نہ ہو یعنی نہ تمہارا نور اس کی طرف جائے نہ مزار سے کوئی نور تمہاری طرف آئے تو سمجھو کہ اس قبر میں کچھ نہیں ہے وہاں سے اٹھ کھڑے ہو۔ جب حضرت نے یہ ارشاد فرمایا تو عرض کیا گیا کہ اگر قبض ہوجائے تو کیا علاج کیا جائے فرمایا اول تو قبض نہ ہوگا۔ اور اگر ہو تو درود ہزارہ پڑھ لینا کھل جائے گا۔
(۵) ۱۲ ربیع الثانی ۱۳۰۳ھ کو حضرت نے ایک شخص کو حسب معمول لطیفہ سر کا سبق پڑھایا۔ زیر قدم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معنی یہ بتائے کہ اس راہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچے تھے اور سرکا نور سفید ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سے مناسبت تھی کہ طبیعت ان کی تیز تھی۔
(۶) شخص امیر الدین نامی نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے بھی کچھ بتاؤ فرمایا دل کی جگہ سے خیال سے اللہ اللہ کیا کر کوڑے میں لعل چھپا ہوا ہے اور نور سوتا ہے۔ جب نور جاگتا ہے تو مومن ہوتا ہے پھر حضرت نے فرمایا کہ میراں سید بھیکہ فرماتے ہیں۔؎
بھیکھا بھوکا کوئی نہیں سب کی کٹھڑی لال
گرہ کھول نہیں جانتے ایسی بُدھ بھئی کنگال
(۷) ایک روز حضرت نے حافظ انور علی رہتکی سے فرمایا کہ جس طرح تمہیں اب ہماری زندگی میں توجہ اور صحبت میں نور اور فیض پہنچتا ہے اسی طرح ہمارے انتقال کے بعد تم کو نور اور فیض پہنچے گا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ اب جس طرح ہم تم سے باتیں کر رہے ہیں اس طرح باتیں نہ کرسکیں گے۔ ہمارے انتقال کے بعد جو بات تمہیں دریافت کرنی ہو ہمارے صاحبزادے محمد انور شاہ سے دریافت کرلینا۔
(۸) ایک روز آپ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ دل میں خطرہ آنا بند نہیں ہوتا بہت آتا رہتا ہے حضرت نے فرمایا ایک عورت چکی پیستی جاوے اور گاتی جاوے تو آٹا نکلتا رہتا ہے اور ایک مسافر راستہ بھی چلتا جاوے اور راہ میں تماشا بھی دیکھتا جاوے تو منزل ختم ہوجاتی ہے تم اپنے کام کیے جاؤ خطرہ کو آنے دو جب تم سلوک کا اپنا سبق پڑھتے جاؤگے تو آٹا پستا جائے گا۔ منزل ختم ہوجائے گی خطرہ آپ پر بند ہوجائے گا۔ اُس کے لیے دل میں جگہ نہ رہے گی۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ذکرِ خیر میں لکھتے ہیں کہ ایک روز کسی شخص نے حضرت سائیں صاحب علیہ الرحمۃ سے عرض کیا کہ حضور! خطرات نفس مجھے بہت آتے ہیں۔ ہر چند میں ہٹاتا ہوں مگر جاتے نہیں اس لیے میں ذکر نہیں کرتا کیوں کہ خطرات سے دل پاک ہو تو ذکر کروں حضور نے فرمایا کہ اسی طرح ایک شخص نے حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں خطراتِ نفس کی شکایت کی تھی تو حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمۃ نے اُس پر یہ مثال بیان فرمائی تھی کہ جس طرح گداگروں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک ہاتھ سے بھیک لینے کے واسطے کاسہ وغیرہ رکھتے ہیں سوال کے وقت اُس ہاتھ کو بھیک دینے والے کی طرف بڑھائے رکھتے ہیں مگر دوسرے ہاتھ میں لاٹھی لیے ہوئے پیچھے کتوں کو بھی ہٹاتے رہتے ہیں کیوں کہ اگر بھیک ہی لیں اور کتوں کو نہ ہٹائیں تو ان کے کاٹ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جو کتوں کو ہی ہٹاتے رہیں اور بھیک کی طرف متوجہ نہ ہوں تو بھیک سے محروم رہنے کا خوف ہے اس لیے ایک ہی وقت میں دونوں کام کیے جاتے ہیں اسی طرح خطرات کے دور کرنے کی یہ ترکیب ہے کہ ادھر تو ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے اور ادھر دل میں خطرات کو برا جانتے رہے۔ ذکر الٰہی کرنے سے فوراً خناس کے منہ میں آگ لگتی ہے اور خطرہ سے باز رہتا ہے او ر سب خطرات سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ خطرات سے پاک ہوں تو ذکر کروں بلکہ خطرات کے وقت زیادہ ذکر کرنا چاہیے۔
(۹) آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جس قدر کسی سے ہوسکے ہم سے توجہ لے۔ توجہ ذکر فکر سب پر فوقیت رکھتی ہے لوگ بڑے بڑے ذکر اور چلے کرتے ہیں وہ بات ان سے حاصل نہیں ہوتی جو توجہ سے حاصل ہوتی ہے اسی موقع پر حضرت زبانِ مباک سے میراں سید بھیک رحمۃ اللہ کا یہ دہرہ پڑھتے تھے۔؎
آدھی سے آدھی گھڑی اور آدھی سے بھی آدھ
بھیکھا سنگت سادھ کی کاٹے کوٹ اپر ادھ
(۱۰) ۲۲ رجب ۱۳۰۴ھ کولد ہیانہ کے مریدوں کا ذکر آیا کہ کون کون ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ لدہیانہ میں ہمارے بہت سے مرید ہوئے۔ نام یاد نہین رہے پھر فرمایا ہم کو کیا اوگھائی کرنی ہے جو نام یاد رکھیں نام مریدوں کے وہ لکھے جس کو سلیپ کرنی ہو خدا کے واسطے کوئی ہمارے پاس آیا ہم نے خدا کا نام بتادیا۔ آگے اس کی محنت رہی سینکڑوں آئے اور سینکڑوں چلے گئے۔ کس کس کا نام یاد رکھیں۔(مقامات المحمود۔ تذکرۃ المحمود وغیرہ)۔
(مشائخ نقشبند)