حاجی مفتی رحمت اللہ سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
آپ مفتی محمد ایوب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبز ادے تھے،تعلیم و تربیت انہی کی زیر نگرانی پایہ تکمیل کو پہنچی اور سلسلہ سہروردیہ میں خلافت اپنے والد سے پائی،اپنے زمانہ میں لاہور کے نامور علماء میں شما ر ہوتے تھے، مسجد مفتیاں میں درس حدیث قرآن دیا کرتے تھے،آپ نے سکھوں کی طائف الملو کی کے دو بدترین زمانے دیکھے،ایک زمانہ تو وہ تھا جب کہ سہ حاکمان لاہور کا راج تھا،سکھ رہزن شہر میں دند ناتے پھر رہے تھے،ظلم و ستم کی انتہا تھی،عد ل وانصاف کا نام تک تاریخ لاہور سے مٹ چکا تھااور کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی، نہایت پر آشوب دور تھا، مرکزی حکومت میں کوئی دم نہ تھا، درانی اور ابدالی کے حملوں نے مسلمانوں کو ہی کمزور کردیا تھا، جب یہ حملہ آور آتے تو سیکھ لٹیرے پہا ڑوں کی طرف بھاگ جاتے اور جب وہ حملہ آور واپس چلے جاتے تو یہ پھر سرزمین لاہور کو خون سے لالہ زار کردیتے،ڈھائی سیر اقحط کی وجہ سےلاہور کے عوام الناس اس شہر سے بھاگ رہے تھے۔
دوسرا وہ زمانہ تھا جب ۱۷۹۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور میں باقاعدہ حکومت قائم کرلی اور وہ لاہور کو مرکز بناکر دور دراز کے علا قوں پر حملے کر رہا تھا تو ایسے زمانہ میں جب کہ لاہور میں کسی مسلمان کی عزت و ناموس محفوظ نہ تھی بلکہ مساجد اور آثار کو بھی مٹایا جارہا تھا تو اس زمانہ میں بھی آپ نہایت خا موشی سے اپنے طریقت کے سلسلہ کی اشاعت میں مصروف رہے،بقول مصنف ،ذکر جمیل،آپ تفسیر و حدیث فقہ و ادب معافی و منطق اصول و فروغ علم الکلام اور علم طب میں امام وقت تھے۔
معا صرین میں سے مولانا غلام فرید لاہوری رحمتہ اللہ علیہ متوفی ۱۸۰۱ء،ملا محمد صدیق لاہوری رحمتہ اللہ علیہ المتوفی ۱۷۷۸ء امام خطیب مسجد وزیر خان، مفتی محمد مکرم مفتی اعلیٰ لاہور ۱۸۰۱ء تک آپ زندہ تھے،مولانا شہریار رحمتہ اللہ علیہ خطیب مسجد چینیاں والی اور حافظ جمال الدین المعروف حافظ لدھا المتوفی ۱۷۷۳ء آپ کے معاصرین میں سے تھے۔
وفات
آنجناب کی وفات ۱۸۰۶ء بمطابق ۱۲۲۱ھ بعہد مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہوری میں ہوئی،فرزندون میں پہلے مولانا حافظ مفتی محمد رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے مولانا مفتی شاہ محمد رحیم اللہ رحمتہ اللہ علیہ بہت معروف تھے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)