حضرت حاجی محمد قادری نوشہ گنج بخش علوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اوصافِ جمیلہ
آپ سراج العارفین، شمس العاشقین، دلیل المتورّعین، جلیل المتصوّفین، قطب الثقلین، غوث الفریقین، سلطان الاولیا، برہان الاتقیا، امامِ صدرِ ولایت، ضیائے بدرِ ہدایت، علالۂ اصحابِ شریعت، سلالۂ اربابِ طریقت، واقفِ رموزِ حقیقت، کاشفِ اسرارِ معرفت، ہادیٔ راہِ ارشاد، وَلی مادر زاد، صاحبِ جذب و صحو و سُکر و عشق و محبت و ذوق و شوق و زُھد و ریاضت و تقوٰے و عبادت و خوارق و کرامات تھے، فقر میں مقاماتِ بلند اور شانِ ارجمند رکھتے تھے، حضرت سخی شاہ سلیمان نوری قادری بھلوالی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفۂ اعظم تھے۔
نام و لقب
آپ کا اسمِ گرامی حاجی محمد، لقبِ سامی نوشہ، خطاب گنج بخش، وارث الانبیا، غالب الاولیا، مجددِ اکبر، پہلوانِ سخی، بھُورے والہ تھا۔
نسب نامہ پدری
آپ خاندانِ عالیشان ساداتِ صحیح النسب علوی عباسی کے معزز رکن تھے، سیادت و نجابت موروثی رکھتے تھے۔
آپ کے والد بزرگوار کا نام حاجی الحرمین الشریفین حضرت سید ابو اسمٰعیل علاو الدین حسین غازی رحمۃ اللہ علیہ تھا جو اکابر اولیائے وقت سے تھے، سات حج پیادہ چل کر کیے، اِن کا مزار گھگانوالی سے جانب نیرت ایک میل کے فاصلہ پر، موضِع بھیکھے والہ سے مغرب کی طرف اور موضع دُھنی سے مشرق کی طرف بنام ’’درگاہِ حاجی غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘ مشہور و زیارت گاہِ خلائق ہے ابن سید ابو العلاء شمس الدین سنگی شہید بن سید ابو سلیمان جلال الدین سید ابو محمد عبد اللہ ذاکِر ھُوْ بن سید صاحب الدین المعروف بہ شاہنشاہ بن سید گل محمد بن سید معز الدین بن سید اوحد الدین عبد الصمد الملقب بہ شاہ سوہند ابن سید عطاء اللہ بن سید عبد الاول زاہد بن سید محمود شاہ الملقب بہ پیر جالب بن سید کمال الدین احمد شاہ بن سید ابو المنصور جلال الدین سلطان شاہ بن سید امین الدین محمد شاہ بخت مند الملقب بہ منوّر بن سید سعید الدین سکندر شاہ بن سید برہان الدین ہبیرہ بن سید جلال الدین گوہر شاہ بن سید غر الدین الملقب بہ شاہ عزت بن سید جمال الدین اسحاق روشن ضمیر بن سید عبد الحق سجن بن سید ابو العباس زمان علی محسن بن سید ابو عبد اللہ عون قطب شاہ بغدادی بن سید یعلٰے قاسمِ بن سید حمزہ ثانی بن سید طمیار بن سید قاسم بن سید علی بن سید جعفر بن سید ابو القاسم حمزۃ الاکبر بن سید ابو العباس حسن بن سید ابو علی عُبید اللہ المدنی بن سید ابو الفضل عباسی علم دار شہیدِ کربلا بن حضرت سید امام ابو الحسن علی المرتضیٰ علیھم السلام والرضوان۔
ف آپ کے آبا و اجداد کے حالات میں میں نے (شرافت نے) ایک علیٰحدہ کتاب بنام تاریخ عباسی لکھی ہے۔ جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تک بلکہ اپنے تک سب بزرگوں کے حالات مستند تذکروں سے لکھے ہیں۔
نسب نامہ مادری
حضرت نوشاہِ عالیجاہ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت بی بی جیونی رحمۃ اللہ علیہ تھا جو عارفات کا ملات سے تھیں بنت شیخ عبد اللہ مفتی قصبہ بیلاں ضلع گجرات (نو مسلم) بن فرن بن جیون بن چنگا بن چوکھا بن کالا بن سٹھو بن منہاس [مورث قوم منہاس راجپوت] بن بھاؤ بن اوپر چند بن بھدر بن لوہ بن راجہ کرن بن سورج حاکم جموں۔
خاندانی حالات
سادات علوی پہلے مدینہ طیبہ میں سکونت گزین تھے۔ ان میں سے پہلے سید ابو القاسم حمزۃ الاکبر بن حسن علوی بغداد شریف میں آبسے اور کثیر الاولاد ہوئے۔
ان کو اولاد میں سے سید عون بن یعلیٰ قاسم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے قطب الھند کا خطاب پاکر اُن کے حکم سے تبلیغ کے واسطے ہندوستان وارد ہوئے۔ اور ہندؤں کی کئی قوموں کھوکھر، چوہان وغیرہ کو اسلام میں داخل کیا اور اُن کے رئیسوں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں اور اولاد ہوئی۔ پھر خود واپس بغداد چلے گئے ۵۵۶ھ میں وفات پائی۔
ان کے کئی بیٹے اس ملک میں آباد ہوئے۔ ان میں سے سید زمان علی محسن اپنے ننہال کی قوم پر بنام شاہ کھوکھر مشہور ہوئے کوہِ کرانہ پر تخت نشین رہے۔ ۵۷۶ھ میں وفات پائی۔ توی ملکانی کے کنارہ پر بمقام قُری اِن کا مزار موجود ہے۔
ان کی اولاد میں سے سید سکندر شاہ انور بن سید برہان الدین دوابہ رچنہ میں چلے گئے۔ علاقہ ساندر بار میں حکمرانی کی۔ شہر ڈچکوٹ کو مقام ریاست بنایا ۶۹۴ھ میں انتقال کیا۔
اِن کے پوتوں میں سے سید سلطان شاہ بن سید محمد شاہ نے مقام رام دیانہ علاقہ گوندل بار میں رہائش اختیار کی ۷۳۴ھ میں وفات پائی۔
ان کے پوتوں میں سید محمود شاہ الملقب بہ پیر جالب بن سید احمد شاہ نے زیادہ عزت و اقتدار حاصل کیا اور بانی خاندان ہوئے ۷۷۳ھ میں وفات پا کر رام دیانہ میں دفن ہوئے۔
اِن کی اولاد میں سے سید جلال الدین بن سید عبد اللہ ذاکر ھُوْ بمقام گھوگا نوالی رونق افروز ہوئے جو ضلع گجرات، تحصیل پھالیہ قصبہ قادر آباد سے مغرب کی طرف ایک گاؤں ہے۔ ۹۳۱ھ میں وہیں وفات پائی۔ تین چار پشت اسی موضع میں گذریں۔ حاجی الحرمین سید علاو الدین بن سید شمس الدین کے ہاں حضرت نوشہ صاحب کی پیدائش کا فخر اسی موضع کو حاصل ہوا۔
تاریخِ ولادت
آپ کی ولادت با سعادت شبِ دوشنبہ[۱] [۱۔ کتاب مناقبات نوشاہی اور تلقین نوشاہی میں لکھا ہے کہ اُس روز سوموار وقت فجر تھا۔ شرافت] بتاریخ یکم رمضان المبارک ۹۵۹ھ نوسو انسٹھ ہجری مطابق ۱۵۵۲ء ایک ہزار پانسو باون [۱] [۱۔ تقویم ہجری و عیسوی کے مطابق اس روز ۲۲؍ اگست ۱۵۵۲ء ساون ۱۶۰۹ب تھا ۱۲ شرافت] عیسوی میں بمقامِ کھگانوالی ہوئی۔
عطائے خرقہ
حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ بالہامِ غیبی گھگانوالی تشریف لائے اور اپنے لباس میں سے ایک کپڑا دیا کہ اس لڑکے کو اس میں لپیٹنا، اور مائی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کو ارشاد فرمایا کہ اس بچے کو احتیاط سے رکھنا، اور ہر وقت اس کی خبر گیری کرنا، اور ہم بھی اس کی خبر لیتے رہیں گے۔ [۱] [۱۔رسالہ احمد بیگ ص ۷۲]
ف منقول ہے کہ یہ کپڑا وہ خرقہ تھا جو حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فرزند اکبر کو پہنچا تھا۔
تربیت
آپ کے والد بزرگوار تو اکثر سفر حج میں رہتے تھے، انہوں نے سات حج پاپیادہ کیے ہیں، اس لیے زیادہ تر آپ کی تربیت اپنی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا اور چچا صاحب شاہ رحیم الدین علوی رحمۃ اللہ علیہ کی آغوش میں ہوئی۔
آپ کی محافظت کے لیے ملائکہ نوری مقرر تھے، اور پاک نہاد مردو عورتیں جو با طہارت ہوں آپ کو اٹھاتی اور بہلاتی تھیں، اگر کوئی نا پاک جسم والی عورت آپ کو ہاتھ لگانا چاہتی تو گزند اٹھاتی۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۷۵ شرافت]
شباب
جب آپ حدّ بلوغ کو پہنچے تو اس قدر طاقت آپ کے وجود اقدس میں ظاہر ہوئی کہ بیس تیس سالہ نو جوان کو مقابلہ کی جرأت نہ ہوسکتی تھی، آپ کو تیر اندازی کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ اس فن میں ایسا کمال حاصل کیا کہ کبھی آپ کا نشانہ خطانہ جاتا تھا، چند جنگوں میں آپ نے شرکت کی، اور ہر جگہ فتحیاب رہے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۷۹]
یادِ الٰہی کا شوق
اوائل میں ہی جاذبۂ الٰہی نے ایسی کشش کی کہ آپ گھر سے تنہا نکل کر جنگل میں چلے گئے، ایسے ویرانہ میں مقام کیا، جہاں پانچ پانچ کوس تک گرد نواح میں کہیں آبادی کا نشان نہ تھا، دن کو صائم رہتے، اور رات کو قیام کرتے، وجہِ قُوت عنابِ صحرائی جن کو جَھڑ بیر (پہنجو) کہتے ہیں، یا درختوں کے پتے یا سبز گھاس تھی، جس سے روزہ افطار کرتے، اور دن رات کسی درخت کے سایۂ میں یادِ الٰہی میں مصروف رہتے، کچھ عرصہ کے بعد کسی زمیندار کو حضور کا پتہ چلا تو وہ روزانہ ایک کاسہ شیر آپ کی خدمت میں لے جایا کرتا، اور آپ اُس سے افطار فرمایا کرتے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۳]
شادی خانہ آبادی
جب آپ کا شہرہ اکثر زبانزد خلائق ہوا تو آپ کی والدہ ماجدہ جو جستجو میں رہا کرتی تھیں، اپنے قبیلہ کے بعض لوگوں کو ساتھ لے کر جنگل میں گئیں اور آپ کو گھر واپس لائیں، اور خیال کیا کہ اگر اِن کا نکاح کیا جائے تو شائد اپنے گھر میں دل جمعی سے بیٹھ جائیں، اس لیے موضع نوشہرہ تارڑاں میں دریائے چناب کے شمالی کنارہ پر ایک مشہور گاؤں تھا، اپنی قوم کے ایک محترم بزرگ حضرت شیخ فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے آپ کا نکاح کیا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۵ و ص ۹۶]
سکونتِ نوشہرہ
آپ نے جب نوشہرہ تارڑاں کو دیکھا کہ دریا کے کنارہ پر ہے اور مکان بہت خوب ہے، اور اس جگہ کے باشندے بھی نیک نہاد ہیں، اور یہاں عبادت کا بھی اچھا موقعہ ملے گا، تو آپ نے گھگا نوالی سے ترک کر کے یہاں اپنے سُسرال کے گھر قیام کیا، والدین کبھی کبھی یہاں آکر آپ کو مِل جایا کرتے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۶ شرافت]
تحصیل علوم
آپ کو عِلم کا شوق جوانی میں پیدا ہوا، چند سبق تو اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھے، اور پھر حضرت شاہ علاؤ الدین رحمۃ اللہ علیہ آپ کو موضِع جاگو تارڑ میں حضرت مولوی حافظ قائم الدین رحمۃ اللہ علیہ اور بقولِ صاحبِ تحقیقاتِ چشتی حافظِ بُڈھا صاحب رحمۃ اللہ علیہ قاری کے پاس لے گئے، جو قرأت سبعہ کے ماہر تھے، [۱] [۱۔ ثواقب المناقب ص ۵۷] اور کمالیتِ باطنی بھی اس قدر تھی کہ جب وہ سوتے تو صدائے اسمِ ذات اُن کے قلب سے ظاہر ہوتی تھی، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۱۵] اُن کا درس عام تھا، آپ وہیں داخل ہوئے۔
اگرچہ آپ سبق میں بہت کوشش کرتے لیکن قرأت کے قواعد و مخارج اچھی طرح ادا نہ ہوتے تھے، اتفاقًا ایک شب آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آئے اور فرمایا کہ میاں حاجی محمد! ہم فرشتے ہیں، اور خدا کے امر سے تجھے تعلیم قرآن دینے آئے ہیں، اپنا منہ کھولو، آپ نے منہ کھولا تو فرشتہ نے منہ میں انگلی رَکھی، اور فرمایا کہ فلان حرف کا یہ مخرج ہے، سارے حروف کے مخارج انگلیاں رکھ کر بتائے، صبح کو بیدار ہوئے تو قرأت از بَر تھی، استاد سے سبق لینے لگے تو اس طرح الفاظ ادا ہوتے تھے کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسے ادا نہ ہوسکتے تھے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۷]
کشف علوم
فرشتوں کے تعلیم دینے سے علومِ لدنی کے دروازے آپ پر کھُل گئے، قرآن مجید حفظ ہوگیا، اصول و فروع میں پوری دسترس ہوگئی، علوم منقول و معقول کی تحصیل کر کے علمائے متبحرین سے ہوئے، حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سند علمیّہ دے کر آپ کو رخصت کیا، اور آپ کے کمالاتِ روحانی کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ بطورِ شکریہ فرمایا کہ الحمد للہ آپ جیسا کامل انسان ہماری شاگردی میں رہا، امید ہے کہ قیامت کے دن آپ کے طفیل ہماری بھی نجات ہوجائے گی، اور ہم کو فراموش نہ کر دینا، چنانچہ آپ فضائلِ علمیہ سے معمور ہوکر واپس نوشہرہ میں تشریف لائے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۹ شرافت]
قال و حال
خود حضور نے فرمایا ہے کہ میں نے یہاں تک تعلیم حاصل کی، کہ تمام قال میرا حال ہوگئے، صاحبِ رسالہ نے آپ کے الفاظ اس طرح لکھے ہیں۔
’’بعد از فراغِ تجوید قرآن مجید از صحبت سرا سر بہجت و حصولِ مسائلِ اصولِ فرائض و سنن و مستحبات و فروعِ آں کہ از مقال ہمہ حالِ من گشتند‘‘۔[۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۱۶]
سَیر لاہور
کچھ عرصہ کے بعد آپ کو سیر لاہور کا شوق پیدا ہوا تو چند مخلص ہمراہیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے لاہور وارد ہوئے، اور زیاراتِ مزاراتِ بزرگاں سے مشرف ہوئے، خصوصًا حضرت مخدوم علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف سے بہت کچھ استفاضہ کہا، نیز مشائخ زندگان کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے، خصوصًا حضرت شیخ عبد الوہاب متقی قادری شاذلی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ جو قطبِ مکّہ تھے، اور اُن دنوں لاہور میں شیخ فرید بخاری رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ شیخ فرید بخاری رحمۃ اللہ علیہ امرائے جہانگیری سے تھے، محرم ۱۰۱۵ھ میں بادشاہ نے مرتضیٰ خاں کے خطاب سے نوازا، چنانچہ توزک جہانگیری میں لکھا ہے، ’’بہڑوال را کہ جنگ دراں مقام دست دادہ بود شیخ فرید مرحمت نمودم و اور ابخطابِ والائے مرتضیٰ خاں سرفراز گرد ایندم‘‘ اور عہدۂ بخشی بیگی اور منصب پنجہزاری سے بھی مشرف ہوئے، اور بقولِ صاحبِ قاموس المشاہیر ۱۰۳۵۔ ۱۶۱۶ء میں وفات پائی ۱۲ شرافت] کی مسجد میں تشریف فرما تھے، اُن سے بھی استفادہ کیا، اور اُن کی ملازمت سے مشرف ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۰۲]
واقعۂ بیعت
اگرچہ عبادت و ریاضت میں آپ ہر دم مشغول رہتے تھے، لیکن علم معرفت جو اسرار و حقائق صدریہ سے ہے سوائے وسیلہ شیخ کامل کے حاصل ہونا غیر ممکن ہے اس لیے لاہور سے واپس آتے ہی آپ کا ارادہ ہوا کہ کسی بزرگ صاحبِ نسبت کی ملازمت اختیار کریں، تلاشِ فقرا میں ہوئے، اتفاقًا کسی آدمی سے حضرت ملا کریم الدین جو کالوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف سنی جو کہ حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ کے خلفاے بزرگ میں سے تھے، اُن کی ملاقات کی، اور حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ محامد و اوصاف وہاں سے سُن کر دل میں عشق موجزن ہوا، اور برفاقتِ مُلا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھلوال شریف پہنچ کر حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے شرفِ دیدار سے مشرف ہوئے، ملا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آگے ہوکر آپ کی ساری حقیقیت بیان کی، حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ مولوی صاحب! ہم اس جوان کے حال سے خوب واقف ہیں، اس نے ہم کو بہت انتظار کروائی ہے، اور خوشی سے اُن کا چہرہ گُلِ گلاب کی طرح شگفتہ ہوا، پہلی ہی نظر سے آپ کی حالات دگر گون ہوگئی، لیکن چونکہ استعدادِ عالی رکھتے تھے، اس لیے حتی الوسع اپنے آپ کو سنبہالا اور بحال رہے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۰۸]
بیعت و سپردِ امانت
حضرت سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میاں حاجی محمد! سامنے آؤ، آپ سامنے ہوئے اور قدمبوسی کی، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر بطریقِ مسنون بیعت کیا، اور کمالِ مہربانی سے گلے لگا کر معانقہ کیا، اور زبان مبارک سے فرمایا الحمد للہ کہ حقدار کو حق پہنچ گیا، اور امانت اپنے اہل کو موصول ہوئی، اور حضرت مخدوم شاہ معروف خوشابی رحمۃ اللہ علیہ کے امانت دینے کا سارا واقعہ آپ کے رو برو بیان کیا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۱۰ شرافت]
سُکر و صحو
قاضی رضی الدین کنجاہی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک ہی نظر فیض اثر سے مجذوب ہوگئے، حالتِ سُکر نے ایسا غلبہ کیا کہ دنیا اور فافیہا کی کچھ ہوش نہ رہی، ایسی بیخودی طاری ہوئی کہ تین ماہ تک ایک ہی پہلو میں پڑے رہے، کھانے، پینے، بولنے کی کچھ خبر نہ تھی، اس کے بعد پیر روشن ضمیر نے آپ پر نظرِ رحمت ڈالی تو آپ ہوش میں آگئے، اور سُکر صحو سے مبذول ہوگیا، اور آپ فضائل باطنی سے معمور ہوکر واپس نوشہرہ تشریف لائے۔
مرزا احمد بیگ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی عرصہ تین ماہ میں آپ کو تمام مراتبِ فنا و بقا اور مقاماتِ سلوک طے ہوگئے، اور یہ محض جذبۂ ربّانی اور توجہ شیخ کامل رحمۃ اللہ علیہ کا نتیجہ تھا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۱۰ شرافت]
زیارتِ شیخ کو جانا
پھر آپ کو عشق غالب ہوا تو بھلوال شریف پا پیادہ گئے، حضرت سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پیادہ سفر کرنے سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، اب گھوڑی پر سوار ہوکر آیا کرنا، چنانچہ اس کے بعد آپ نے ایک گھوڑی خریدلی، اور سوار ہوکر زیارت کو جایا کرتے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۳۰]
حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جب کبھی آپ زیارت کے لیے بھلوال شریف جاتے تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ تین چار میل کا فاصلہ طے کر کے پشتہ بلندی تک استقبال کے لیے تشریف لاتے، اور وہیں طالب و مطلوب کی ملاقات ہوتی، گویا کہ وہ پُشتہ (ٹیلہ) قِران السعدین تھا، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینہ پر رکھ لیتے اور کمال محبت و شفقت سے مکان شریف تک نصائح و وصایا کرتے ہوئے ساتھ لیے جاتے، وہاں جا کر چار پائی ڈال کر اُس پر اپنی چادر مبارک بچھادیتے، اور آپ کو اس پر بیٹھنے کا امر فرماتے، آپ بحکمِ الامر فوق الادب آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کے کسی حکم سے سَر نہ پھیرتے خود حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ مہمانداری میں مشغول رہتے، روٹی پکا کر اپنے ہاتھ سے لقمے آپ کے منہ میں ڈالتے، انواعِ طعام و اقسامِ میوہ سے جو کچھ میسر ہوسکتا آپ کے لیے لے آتے، اور کھلاتے اور محبت سے فرماتے میاں حاجی محمد! تم ایسی ہی خدمات کے لائق ہو۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۵]
ف اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور بدرجۂ محبوبیت و مرادیت فائز ہوچکے تھے۔
درگاہِ شیخ میں منظوری
آپ پیر روشن ضمیر رحمۃ اللہ علیہ کے اس قدر مطیع فرمان تھے کہ جو کچھ ارشاد ہوتا بلا حیل و حجت اُس پر عمل پیرا ہوتے، اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ پر گرویدہ ہوچکے تھے، او رآپ کی نہایت قدر ومنزلت کرتے، دوسرے یاروں کو دیکھ کر رشک آتا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۶ شرافت]
خلافتِ کبرٰے
جب حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی توجہاتِ کریمانہ سے آپ کی حالت دن بدن ترقی کرنے لگی تو مُلا کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ یارانِ قدیم کو اس بات پر غیرت ہوئی کہ ہم قدیم الخدمت ہیں اور یہ جوان ہماری ہی وساطت سے اس جگہ پہنچا، اور اب اس کا یہ مرتبہ ہے کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اس پر سب سے زیادہ مہربان ہیں، حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے یاروں کے اس خیال کو بمکاشفہ قلبی دریافت فرمایا، تو چہرۂ مبارک پر آثارِ جلالیت نمایاں ہوئے، نماز کا وقت تھا، بطورِ آزمائش ملا کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ امامت کرواؤ تاکہ نماز با جماعت ادا کریں، مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ دگر گون دیکھ کر آگے کھڑے ہونے کی تاب نہ ہوئی، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے تین بار امر کیا، لیکن مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تینوں بار معذرت کی، اور آگے نہ ہوئے، پھر حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو امر فرمایا کہ میاں حاجی محمد! تم امام بنو، آپ بلا عذر آگے بڑھے، اور جماعت کروائی، بعد فراغِ نماز حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا، اور دوسرے ہاتھ میں مُلا کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑا، اور وزن کیا، اور فرمایا مولوی صاحب! میاں حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ تم سے بھارا ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر پوری ہوگئی، تم کو تین دفعہ امامت کےلیے کہا گیا لیکن تم امام نہ بنے، اب منصبِ امامت میاں حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ کو مل گیا ہے، یہ تمہارا سب کا امام ہے، اور سب دوستوں کو طلب کر کے فرمایا کہ اپنے قدیم الخدمت ہونے کو ترجیح دیتے ہو، لیکن تمہاری نسبت اس جوان سے مقدم نہیں، اور اگر اپنی بہتری چاہتے ہو تو اس کی خدمت و اطاعت کرو، اور یہ جان لو کہ۔
حاجی سلیمان ھے تے سلیمان حاجی ھے
صاحب کنز الرحمت نے اس کو اس طرح تحریر کیا ہے۔
بدا نید حاجی سلیماں شدہ |
|
سلیماں ز حاجی یکے جاں شدہ |
جو کوئی اس سے رو گردانی کرے گا وہ ہم سے رو گردانی کرے گا۔ ہماری حالت یہ ہے۔
من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی
تا کس نگوئد بعد ازیں من دیگرم تو دیگری[۱]
[۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۲۷]
اور اپنے دونو صاحبزادوں حضرت شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ و حضرت شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ کو بُلا کر آپ کی بیعت کروایا، اور اپنے سب دوستوں کو بھی آپ کے سپرد کیا، اور فرمایا میاں حاجی محمد! یہ ہمارے لڑکے اور یار جو ہیں آپ کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں، اگر ان سے کوئی لغزش یا بے ادبی واقعِ ہو تو معاف کر دینا اور ان کی تربیت کرنا۔
اور اپنے سب یاروں کو فرمایا اے یاراں! اب ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو، جس کسی کو حق کی طلب ہے اُس کو چاہیے کہ حضرت شاہ حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جائے، ا س کے بعد بھی اگر کوئی شخص آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرضِ استفادہ آتا تو اس کو آپ کے پاس ہی بھیج دیتے، چنانچہ سب یاروں نے آپ کی اطاعت کو سرمائہ سعادت خیال کیا، اور حضور کی ذاتِ اقدس سے بہرہ یاب ہوئے، اور جس کسی نے آپ سے انحراف کیا، وہ راندۂ دارین ہوا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۴۱ شرافت]
تقرر نوشہرہ و تفضیل بر اولیا
جب حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خرقۂ خلافتِ قادریہ عطا فرمایا، اور اجازتِ ارشادِ مسترشداں سے نوازا، تو حکم فرمایا کہ تم موضع نوشہرہ تار ڑاں میں اپنی سکونت کو قائم رکھو، بیشمار خلقت دور دور سے آکر تم سے بہرہ یاب ہوگی، آپ نے دست بستہ ہوکر عرض کیا کہ یا قبلہ! اُس سر زمین میں بہت اولیاء اللہ ہیں، جو ہمارے نواح میں آس پاس مقیم ہیں، چنانچہ شاہ دَولا دریائی رحمۃ اللہ علیہ و شاہ حسین گایٔنٹہ رحمۃ اللہ علیہ گجرات میں، اور میاں حسّوتارڑہ اور میراں سید شریف خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ مَگھو وال میں، اور شاہ حسام الدین تخت ہزارہ میں، اور میاں طاہر رحمۃ اللہ علیہ اور میاں مانا رحمۃ اللہ علیہ جاگوتارڑ میں، اور میاں سلیمان چدہڑ رحمۃ اللہ علیہ کھارہ مانگٹا میں، اور شاہ عبد السّلام کیلیانوالہ میں، اور جَتی [۱] [۱۔ جَتی ہندی کا لفظ ہے دبستانِ مذاہب میں ہے ’’جَتی آنست کہ روئے زَن ندیدہ باشد‘‘ اور اردو ادبی لغات میں ہے ’’جَتی خواہش نفسانی کو روکنے والا، زاہد، نیک، پاک، صاف‘‘ شرافت] شاہ عبد الرحمٰن بخاری رحمۃ اللہ علیہ چک گھوگہ میں، اور شاہ مسکین قلندر رحمۃ اللہ علیہ درپال میں، اور دیوان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ، اتنے بزرگوں کے درمیان فقیر کو حکم ہو رہا ہے، وہاں میرا کیسے فروغ ہوسکے گا، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کا جواب کل دیا جائے گا، چنانچہ دوسرے دن صبح کو جب آپ آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ہوئے تو انہوں نے فرمایا میاں حاجی محمد! آج رات مکاشفہ میں دیکھا گیا ہے کہ تمہاری مسکنت کے قریب ہی درگاہِ سید بالا رحمۃ اللہ علیہ میں درخت پیپل کے نیچے سب مذکورہ بالا بزرگ جمع ہوئے ہیں، وہ سب ایک طرف ہیں، اور تم اکیلے ایک طرف ہو، اور تمہارے درمیان گوئے و چوگان کی کھیل پڑی ہے، ایک حد ہندوستان اور دوسری حد قندھار مقرر ہوئی ہے، تم نے جو پہلی ضرب چوگان کی لگائی ہے تو کیند کو ہندوستان سے آگے لے گئے ہو، اور دوسری ضرب سے قندھار و خراسان سے آگے لے گئے ہو، تو اس سے ظاہر ہوا ہے کہ کوئی بزرگ تم سے سبقت نہ کر سکے گا، اور اگر تمہارا مقابلہ کرے گا تو خطا کھائے گا، اور ان مذکورہ بالا بزرگوں میں سے کسی کا سلسلہ جاری نہیں ہوگا، اور مقامِ ولایت تمہارے لیے اور تمہارے فرزندوں اور مریدوں کے لیے ہے، اور اس سر زمین میں انہیں کا حکم ہوگا، اور جا بجا وہی ہوں گے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۰۴]
اس بشارت کے بعد حضور کی تسکین ہوئی، اور بارشادِ مرشدِ عالیجاہ رحمۃ اللہ علیہ نوشہرۂ تارڑاں میں زیب افزائے و سادۂ سجادۂ سلیمانیہ ہوئے، اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آکر مستفیض ہونے لگے، اور ہنکامۂ مشیخت گرم ہوا۔
آخری ملاقاتِ شیخ
یوں تو آپ کئی مرتبہ بھلوال شریف گئے، اور زیارتِ فیض بشارت حضرت سلیمانِ روزگار رحمۃ اللہ علیہ سے مشرف ہوتے رہے، اور ہر ایک ملاقات میں بہت بہت مہربانیاں آپ کے حال پر ہوئیں، لیکن جب آخری مرتبہ آپ زیارت کو گئے تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ پشتہ بلندی پر کھڑے تھے، دیکھتے ہی بزبانِ ہندی فرمایا۔ ’’اٰیا میرا ڈھولن چارے بَنّے رکھّ‘‘
یعنی میرا محبوب فرزند چاروں مراتب کو طے کر کے آیا ہے، اور اس مرتبہ آپ کو ہر طرح کی وصیتیں فرمائیں، اعمالِ ظاہری و اشغالِ باطنی و حفظ مراتب کی نصیحتیں فرمائیں، اور رخصت کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۱۲]
زیارتِ مزارِ سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ
ابھی آپ کو بھلوال شریف سے آئے ایک دو مہینہ ہی گذرے تھے کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا، آپ کو خبر پہنچی تو بمعہ یاراں فاتحہ خوانی کے واسطے تشریف لے گئے، بھلوال شریف پہنچ کر زیارتِ مزارِ اطہر سے آنکھوں کو منور کیا،اور نہایت درد وذوق سے اپنا چہرہ مبارک قبر شریف پر رکھ کر اس قدر روئے، اور آنسو بہائے کہ زمین تر ہوگئی، اور قدرے خاکِ درگاہ شریف لے کر تبرّکًا اپنے چہرۂ انور پر مَلی، اور فاتحۂ خیر پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا، اور ایک ساعت وہاں مراقبہ کیا۔ [۱] [۱۔ ثواقب المناقب ص ۸۶ شرافت]
تغیر احوال و منظوری
پھر اس حجرہ میں تشریف لے گئے جس حجرہ میں حضرت سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ خود رہا کرتے تھے، وہاں دیر تک بیٹھے، آپ کی حالت نہایت متغیر ہوتی رہی، کبھی چہرہ کا رنگ زرد کبھی سُرخ ہوجاتا تھا، گھڑی گھڑی کے بعد رنگ دگر گون ہوجاتا تھا۔
پھر آپ نے چار پائی طلب کی، اور لیٹ گئے، اور یاروں کو فرمایا کہ تم علیحدہ ہوجاؤ، جب تک ہم نہ بُلائیں پاس نہ آؤ، اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو پاس آنے دو، چنانچہ سب یار متفرق ہوگئے، شیخ نور محمد سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور کے پاس بیٹھا رہا، آپ نے سَلارہ چہرہ پر لے لیا۔ اور چار پائی پر دراز ہوگئے، یہ معلوم نہیں ہوا کہ آپ سو گئے یا کہ بیدار ہی رہے، لیکن اس قدر معلوم ہے کہ باوجود اس کے کہ موسمِ سَرما تھا، اور شدت کی سردی تھی، آپ کے وجودِ اطہر سے پسینہ کے قطرات اس حد تک جاری تھے کہ چار پائی سے نیچے گر رہے تھے، دو تین ساعت اسی نہج پر گذریں، تو آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے، اور زبانِ مبارک سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ہماری خدمات درگاہِ شیخ رحمۃ اللہ علیہ میں منظور ہوئیں، اور ہمارا خلوصِ قلب اور جوہرِ قابلیت پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کے آگے صاف روشن ہوا، اور آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پُر فتوح کی رضا مندی حاصل ہوئی۔[۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۴۵۔ ثواقب المناقب ص ۸۷]
تربیت صاحبزاد گان
پھر آپ نے ایک شخص کو فرمایا کہ جاؤ صاحبزادوں کو بُلا لاؤ، اتفاقًا پہلے صاحبزادۂ خرد شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ آحاضر ہوئے، وہ قلندر مشرب تھے، آپ نے اُن کے حال پر توجہ فرمائی، اور فرمایا صاحبزادہ جیو! تم جس حال میں رہو گے اچھے رہو گے، اور تمہارے احوال دن بدن ترقی پر رہیں گے، پھر صاحبزادۂ اکبر شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوئے، وہ ظاہر بشریعت آراستہ اور باطن بطریقت پیراستہ تھے، اُن کو اپنے ہاتھ مبارک سے دستارِ خلافت عطا کی، اور حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ کے سجادۂ ہدایت پر بٹھایا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۴۶۔ ۱۴۷]
آپ چند روز تک درگاہ شریف سلیمانیہ میں معتکف رہے، اور پھر بمعہ یاراں فائز المرام ہوکر واپس نوشہرہ تار ڑاں میں تشریف لائے، دن بدن آپ کا غلغلہ زیادہ ہوتا گیا، اور اطرافِ زمین سے طالبانِ خدا و اہلِ مطالب جوق جوق خدمت شریف میں آنے لگے، اور رشد و ہدایت کا بازار گرم ہوا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۴۸ شرافت]
پیشینگویاں
آپ کے وجودِ مسعود کے متعلق کئی کبار اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ و بزرگانِ سلف نے بشارتیں دی ہیں، اور کئی بزرگوں نے آپ کے مشہور ہونے سے پہلے آپ کی جلالتِ قدر کی خبریں دی ہیں، ان میں سے چند یہاں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ قرآنِ مجید کا اشارہ
اگرچہ کوئی نصّ صَریح آپ کے ظہور کی نسبت قرآن مجید میں وارد نہیں ہے، لیکن بفجوائے لا رطبٍ ولا یا بسٍ الّا فی کتٰبٍ مبین۔ (الانعام۔ ع ۷) غور کرنے سے آپ کے وجودِ مسعود کی طرف اشارہ ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ثُلّۃٌ من الاوّلین وقلیلٌ من الاٰخرین (الواقعہ۔ ع ۱) یعنی آخر زمانہ میں بھی تھوڑے بزرگ مثل اوّلین کے مقربینِ بارگاہِ الٰہی ہوں گے۔
اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے خلفا متاخرین اولیا اللہ سے ہیں، اور حضور کا طریقہ بسبب اتباعِ سنت کے طریقۂ اوّلین یعنی اصحابِ کبار رضی اللہ عنہ کے مماثل ہے۔
۲۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بعض احادیث بھی آیتِ مذکورہ بالا کی موید ہیں، جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے، فرمایا حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ مثل اُمّتی کمثل المطر لا بداری اوّلھا خیر ام اٰخرھا۔ یعنی میری امت مثل بارش کے ہے، نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخر کا۔
اگرچہ سب زمانوں سے بہتر زمانہ نبوت ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے خیر القرون قرنی لیکن چونکہ متاخرین کبرائے امت بھی کمالاتِ نبوّت و ولایت کے حصول میں مثل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اکمل ہونے تھے، اور کمال مشابہت کے باعث تردد کا مقام تھا کہ ایک کو دوسرے پر فضیلت دے سکیں، اس لیے حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوّلین و آخرین کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دی، اور اُن کے بارہ میں فرما دیا کہ لا یدرٰے اوّلھا خیر ام اٰخرھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے خلفا اولیائے متاخرین سے ہوئے ہیں۔
حضرت علامہ شیخ محمد ماہ صداقت کُنجاہی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ثواقب المناقب میں اِس حدیث شریف کو حضور کی ذاتِ جامِع کمالات پر مطابق فرمایا ہے، اور اس سے آپ کی پیشینگوئی مراد لی ہے۔
۳۔ ارشادِ نبوی
حضرت مرزا احمد بیگ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالۂ اَلاعجاز میں، اور حضرت مولانا شاہ محمد اشرف فاروقی منچری رحمۃ اللہ علیہ کتاب کنز الرحمت میں لکھتے ہیں کہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم کو بوساطتِ حضرت سخی شاہ سلیمان نوری بھلوالی رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت پہنچی ہے کہ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ آخری زمانہ میں ہند کے اندر میری امت سے ایک شخص حاجی محمد نوشہ نام پیدا ہوگا تمام کمالات اُس کی ذات کو عطا کیے جائیں گے، اُس دیار میں اُس کا اور اُس کی اولاد کا حکم قیامت تک جاری رہے گا۔
ہمیں طور ارشاد، پاک از رسول |
|
شدہ با وساطت سلیماں قبول |
فقیر شرافت عافاہ ربہٗ کہتا ہے کہ یہ روایت چار شِق سے خالی نہیں۔
اوّل: یہ کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ روایت حسبِ سلسلۂ طریقت بزرگانِ قادریہ سے پہنچی ہوگی، اور یہ اظہر ہے کہ سب مشائخ سلسلہ تا حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکابر اولیا اللہ، مقتدایانِ اسلام، صاحبِ علومِ ظاہری و باطنی ثِقہ و معتبر تھے، لہذا اس روایت کی سند متصل و صحیح ہوئی، بلکہ اگر اس کو حدیث مرفوع بھی کہا جائے تو کچھ بیجا نہیں۔
دوم: یہ کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بشارت مکاشفہ میں حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہنچی ہوگی، اور حدیث کشفی بھی حجت ہوسکتی ہے، حضرت مولانا خواجہ مہر علی شاہ صاحب چشتی نظامی گولڑوی مدظلہ العالی مکتوباتِ طیّبات المعروف مہر چشتیہ کے ایک مکتوب میں جو ماسٹر غلام حیدر کے نام لکھا ہے تحریر فرماتے ہیں۔
’’اور محققین کے ہاں حدیثِ کشفی کو قوت و صحت میں ترجیح ہے اُس حدیث پر جو بذریعہ رُواۃ ہمارے تک پہنچے گی، کما فی الفتوحات وغیرہ‘‘۔
سوم: یہ کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ ارشاد مشاہدہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہنچا ہوگا، اور کتب ائمہ تصوف و حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیداری میں بھی اپنا جمال با کمال دکھا سکتے ہیں، حضرت حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے المنقذمن الضلال میں، اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ میں اس بات کی تصریح کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمال نبوی یقظہ و بیداری میں ممکن ہے۔
چہارم: یہ کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ حکم خواب میں حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہنچا ہوگا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب میں دیکھنا بھی مثل بیداری کے ہے، کیونکہ اس میں شیطانی فریب کو کچھ دخل نہیں کما جاء فی الحدیث انّ الشیطان لا یتمثل بی۔
الحاصل چاروں شِقوں سے یہ روایت حدیث کا حکم رکھتی ہے، اگر سندًا ہے تو بھی صحیح و متصل ہے، اور اگر مکاشفہ میں ہے تو بھی معتبر ہے، اور اگر مشاہدہ یا رؤیا میں بشارت ہوئی ہے تو بھی موثق و قابل اعتبار ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ الدُّرّ الثمین فی مُبشرّاتِ النبی الامین میں اُن احادیث کو جمع کیا ہے جو انہوں نے مشاہدہ یا خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں۔
اس روایت کی زیادہ تفصیل و تحقیق و تنقید فقیر شرافت عفٰی عنہ نے اپنے رسالہ النظائر والا شباہ فی مناقب اولاد النوشاہ میں کی ہے۔
۴۔ فرمانِ مرتضوی
بعض کتابوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک روز اسد اللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے فرزندان حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بشارت فرمائی کہ تمہاری اولاد میں اقطاب و امام پیدا ہوں گے، اسی اثنا میں ان کے صاحبزادہ حضرت عباس علم بردار رضی اللہ عنہ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا ابّا جان! مجھے بھی کچھ دعا دیجیے، تو حضرت ولایت مآب علیہ السلام نے فرمایا اے عبّاس! تیری اولاد سے جماعتِ کثیر دنیا میں پھیلے گی، اور تیری نسل سے ایک مقبولِ خدا پیدا ہوگا، جس کا نام حاجی محمد نوشہ ہوگا، وہ تیری اولاد کا فخر ہوگا۔
۵۔ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت خواجہ ابو الفیض کمال الدین محمد احسان مجددی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب روضۃ القیومیہ رکنِ اوّل میں لکھتے ہیں کہ۔
’’ایک روز حضرت شیخ الجن و الانس سیّد عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ جنگل میں مراقبہ میں بیٹھے تھے کہ آسمان سے ایک نورِ عظیم ظاہر ہوا، جس سے تمام جہان منور ہوگیا اور دمبدم اُس نور کی روشنی بڑھتی گئی، اُس نور سے تمام گذشتہ اور آئیندہ اولیا نے نور حاصل کیا، آنجناب رحمۃ اللہ علیہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے، کہ یہ کس شخص کا نور ہے؟ الہام ہَوا کہ اِس نور کا مالک تمام اولیائے امت سے افضل ہے جو آپ کے چار سو سال بعد پیدا ہوگا، اور ہماے پیغمبر علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے دین کی تجدید کرے گا، وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہوگا جو اس کی زیارت کرے گا، اُس کے فرزند اور خلیفے بارگاہِ احدیّت کے صدر نشین ہوں گے، بعد ازاں شیخ الجن والانس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا خاص خرقہ اتار کر اپنی مخصوصہ نسبت و دیعت کر کے بطورِ امانت اپنے بڑے خلیفہ کے حوالہ کیا، اور وصیّت فرمائی کہ اسے پوری پوری حفاظت سے رکھنا، یہاں تک کہ ایک شخص پیدا ہوگا کہ اُس کا پیر اُس سے فیض حاصل کرے گا، اور اُسے اپنے سے اونچا بٹھائے گا، اور مریدانہ سلوک کرے گا، اُسے ہمارا سلام پہنچانا اور یہ خرقہ بطور تحفہ اُسے دینا۔‘‘
اگرچہ صاحبِ روضۃ القیّومیہ نے اس پیشگوئی کو حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ پر مطابق کیا ہے، لیکن بچند وجوہ اس بشارت کا صحیح موعودہ و مصداق حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا وجودِ مسعود ہوسکتا ہے۔
اوّل: یہ کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بَڑے خلیفہ حضور کے فرزندِ اکبر حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ تھے، اور وہی صاحبِ سجادۂ غوثیہ تھے، جیسا کہ خزینۃ الاصفیا و سفینۃ الاولیا سے ظاہر ہے، چونکہ عبارتِ بالا سے واضح ہوتا ہے کہ خرقۂ مخصوصہ بڑے خلیفہ کو عطا کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ انہیں کو مرحمت ہوا اور انہیں کے سلسلہ میں منتقل ہوتا رہا، اور ان کے سلسلہ میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے سوا کوئی دوسرا بزرگ اِس شان کا نہیں ہوا۔
اور حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار نقشبندیہ میں ہے، اور اگر قادریہ میں داخل کیا جائے تو اُن کا سلسلہ سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کو ملتا ہے جو حضرت غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اکبر نہ تھے۔
دوم: یہ کہ پیشگوئی میں واقع ہے کہ ’’وہ دین کی تجدید کرے گا،‘‘ اور یہ بھی اظہر ہے کہ آپ دین کی تجدید کرتے رہے، اور بخطاب مجدّدِ اکبر موسوم ہوئے۔
سوم: پیشگوئی میں واقع ہے کہ ’’وہ خوش نصیب ہوگا جو اُس کی زیارت کرلے گا‘‘، رسالہ احمد بیگ میں حضور کا ارشاد مذکور ہے کہ ’’من فقیر بودم ہر کہ مرادیدہ موافقِ نصیب بر و چیزے دادہ ام‘‘
نیز یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص آپ کی زیارت کرتا اُس کا قلب ذاکر ہوجاتا تھا۔
چہارم: پیشگوئی میں واقع ہے کہ ’’اُس کے فرزند اور خلیفے بارگاہِ احدیّت کے صدر نشین ہوں گے‘‘، آپ کے فرزندوں اور خلفا کے حالات و مقامات کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں کہ وہ کس پایۂ کے بزرگ و مقبولِ خدا گذرے ہیں۔
پنجم: وہ خرقہ مخصوصہ وہی تھا، جو حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے بوقتِ ولادت حضور کے آپ کو پہنایا تھا۔
ششم: پیشگوئی میں واقع ہے کہ ’’اُس کا پیر اُس کو اپنے سے اونچا بٹھائے گا، اور مریدانہ سلوک کرے گا‘‘۔
اِسی طرح آپ کو حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ چار پائی پر اپنی چادر ڈال کر اوپر بٹھاتے، اور خود نیچے بیٹھتے تھے، اور طرح طرح کے اطعمہ و اغذیہ آپ کے سامنے رکھتے، اور خود اپنے ہاتھ مبارک سے لقمے آپ کے منہ میں ڈالتے۔
بہر صورت یہ پیشگوئی حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں ثابت ہے۔
۶۔ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری پیشگوئی
حضرت شاہ عمر بخش صاحب رسولنگری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مناقباتِ نوشاہیہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب بحالتِ انقباض بیٹھے تھے کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، اور ان کو اندوہناک دیکھ کر سبب پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ یا قبلہ! میں اس خیال میں منہمک ہوں کہ کیا وجہ ہے میرے چھوٹے بھایوں سیّد عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ اور سید عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا مجھ سے زیادہ شہرہ ہے؟ تو حضرت غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ کیا، اور بایمائے غیبی فرمایا کہ بیٹا غمگین نہ ہو، تیرے سلسلۂ مریدین میں ایک شخص نوشہ حاجی گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نام پیدا ہوگا، جس سے تیرے سلسلہ کو فروغ ہوگا، اور تیرے طریقہ کی اشاعت کرے گا، اور تیرا نام اقطارِ عالم میں اُس کے ذریعہ روشن ہوگا، انہوں نے عرض کیا یا قبلہ! اُس فیض مجسم کو دیکھنے کا مجھے اشتیاق پیدا ہوگیا ہے، تو جناب غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اِس طرف دیکھ، جب دیکھا تو بعالم مشاہدہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بمعہ اپنے خلفا کے مجلس لگائے بیٹھے ہوئے نظر آئے، محفلِ سماع منعقد ہے، وجد و رقص ہو رہے ہیں، سوزو گداز کا غلبہ ہے، سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ دیکھ کر کمال خوش ہوئے، اور کہا کہ اب میری تسلّی ہوگئی ہے۔
۷۔ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری پیشگوئی
بزرگانِ صداقت بیان سے منقول ہے نیز بعض رسالوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک روز حضرت غوث الثقلین رحمۃ نے اپنے دولت خانہ خاص سے ایک صندوق نکالا، اُس کا قُفل کھول کر اُس میں سے ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی، اُس کا قفل کھول کر اُس میں سے ایک چیز نکالی، اُس کو بوسہ دیا، اور آنکھوں پر لگا کر پھر بحفاظتِ تمام اسی طرح دھردی، اور صندوقچی کو قفل لگا کر بطریق سابق صدوقچہ میں، پھر اُس کو صندوق میں رکھ کر مقفل کر دیا، حاضرین خلفا نے عرض کیا یا قبلہ! یہ کیا چیز تھی جس کو آپ نے اتنی حفاظت سے رکھا ہے؟ اور اس حد تک اس کی تعظیم کی ہے، حضرت غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ ایک سیاہ کمل ہے جو میرے جد امجد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیب تن فرمایا تھا، یہ بطورِ امانت سلسلہ وار مشائخ طریقت رحمۃ اللہ علیہ سے ہمارے پاس پہنچا ہے اور اسی طرح آگے چلا جائے گا یہاں تک کہ اس کمل کا صاحب ہندوستان میں پیدا ہوگا، اُس کا نام نامی حاجی محمد نوشہ رحمۃ اللہ علیہ ہوگا، وہ اس کمل کو اوڑھے گا، اور میرے سلسلہ کی اشاعت کرے گا، وہ تمام کمالات اوّلین و آخرین کا جامع ہوگا۔
وہی کمل حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے بوقتِ خلافت و اجازت حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مرحمت فرمایا، اور آپ نے ملبوس کیا، اسی روز سے آپ کا نام بھورے والہ مشہور ہوا کیونکہ اہل ہند کمل کو بھُورا کہتے ہیں۔
۸۔ شیخ داؤد قیصری رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت علامہ شیخ داؤد قیصری رحمۃ اللہ علیہ شارح فصوص الحکم مقدمہ قیصری کے فصل دوم میں لکھتے ہیں کہ ہر ایک اسم و کواکب کا دَورہ ہزار سال کے ساتھ ہے، پس اس امت میں بھی بعد ہزار سال کے ایک شخص پیدا ہوگا جو دین کی تجدید کرے گا، اور قائم مقام انبیائے اولو العزم ہوگا۔
چونکہ حضور کا ظہور ہزار سال ہجری کے سر پر ہوا، اور آپ مجدّدِ اکبر ہوئے، اِس لیے یہ پیشگوئی آپ کے حق میں پوری ہوئی۔
۹۔ سید مبارک حقانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ خزینۃ الاصفیا میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت مخدوم شاہ معروف چشتی خوشابی رحمۃ اللہ علیہ جنگل میں حضرت مخدوم سیّد مبارک حقانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت سے مستفید ہوئے، اور اُن کی ایک ہی توجہ سے مراتبِ اعلیٰ کو پہنچے تو بوقتِ عطائے خلافت حضرت سید مبارک حقانی رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کو بشارت دی کہ تجھ سے ایک خانوادہ جدید پیدا ہوگا۔
چنانچہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ظہور انہیں کے سلسلہ سے ہوا، اور آپ کی ذات سے خاندانِ ذی شان نوشاھی کا آغاز ہوا۔
۱۰۔ شاہ معروف رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
منقول ہے کہ جن ایّام میں حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت مخدوم شاہ معروف خوشابی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت ہوئے، انہوں نے خلافت و اجازت دینے کے وقت اپنے دائیں طرف دیکھ جب دیکھا تو ایک نو جوان بلند قامت، خوبصورت، چہرہ پر نورانی آثار، روشن رخسار نظر آیا، پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ ایک جوان عیسیٰ نفس نوشہ حاجی نام ہے، جو مہدی آخر الزمان کی طرح ولایتِ مادرزاد سے مشرف ہوگا، زمانہ میں اس کا کوئی ثانی نہ ہوگا، مشرق سے مغرب تک تمام جہان کو روشن کرے گا، اِس کا غلغلہ ہندو حجاز و خراسان میں اکثر ہوگا، اس کے مرید اقطارِ عالم میں مثل ستاروں کی چمکیں گے، تیرے زمانہ میں پیدا ہوگا، یہ جو کچھ تم کو عنایت کیا گیا ہے سب اسی کی امانت ہے، جس وقت یہ جوان تیری ملازمت میں پہنچے، تو یہ امانت اس کے سپرد کرنا، اور ہماری یہ ساری گفتگواس کے آگے بیان کرنا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۸۔ ثواقب المناقب ص ۲۵ کنز الرحمت ص ۱۶]
۱۱۔ شاہ رحیم الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چچا بزرگوار حضرت شاہ رحیم الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بڑے بھائی حضرت شاہ علاو الدین حسین رحمۃ اللہ علیہ کو ایک روز فرمایا کہ بھائی صاحب! میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے گھر میں آسمان سے نور نازل ہوا ہے، جس سے تمام درو دیوار اور صحنِ خانہ روشن ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو فرزند عطا فرمائے گا، جو قطبِ آخر الزمان مقبولِ خدا، دین و دنیا کا بادشاہ ہوگا، اُس کا رتبہ بہت بلند ہوگا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۶۱۔ کنز الرحمت ص ۳۰ شرافت]
۱۲۔ شاہ علاو الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابھی شکمِ والدہ میں ہی تھے، کہ آپ کےوالد بزرگوار حضرت حاجی شاہ علاو الدین حسین رحمۃ اللہ علیہ نے حج ششم کا ارادہ کیا، اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، اور بوقتِ رخصت اپنی اہلیہ محترمہ حضرت بی بی جیونی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ اے بی بی! ہم کو کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں لڑکا ہوگا، جب وہ فرزند ہمارے بعد پیدا ہو تو اس کا نام حاجی محمد رکھنا، وہ پہلوانِ دین ہوگا، قطبِ وقت ہوگا، حق تعالیٰ اُس کو خلعتِ نوشاہت سے سرفراز کرے گا، وہ خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سرّ ہوگا، اس کو عزت سے پرورش کرنا، اور پوری احتیاط سے رکھنا، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم بھی جلدی ہی سفر سے واپس آجائیں گے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۷۱۔ ثواقب المناقب ص ۵۰۔ کنز الرحمت ص ۳۲]
۱۳۔ شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابھی بطنِ والدہ میں ہی تھے کہ ایک دن حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ بھلوال شریف سے چل کر موضِع گھگانوالی میں آپ کے والدین کے گھر تشریف لائے، اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بشارت فرمائی کہ بی بی صاحبہ! تمہاری پیشانی میں ایک نور تاباں ہے، تمہارے ہاں ایک فرزند نیک خصال تولد ہوگا جو صاحبِ کمال اور ولیِ زمانہ ہوگا، تمام جہان اُس کے فیض سے بہرہ مند ہوگا، اہلِ عالم اُس کے قدموں پر ہاتھ رکھیں گے، جب وہ مولودِ مسعود تولّد ہو ہم کوبھی خبر کرنا۔[۱] [۔بحوالہ مذکور ۱۲ شرافت]
۱۴۔ شیخ عبد الوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بعالمِ شباب ایک مرتبہ لاہور تشریف لے گئے، وہاں بزرگان مشائخ کی زیارات سے مستفید ہوتے رہے، ایک روز قطب مکہ حضرت مولانا شیخ عبد الوہاب متقی حنفی قادری شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، جو اُن ایام میں شیخ فرید بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں رہا کرتے تھے، ایک ساعت اُن کی مجلس میں بیٹھ کر رخصت ہوئے حضرت شیخ فتح محمد سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ مریدِ شیخ موصوف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت شاہ حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ ہمارے شیخ کی ملاقات سے سرفراز ہوکر رخصت ہوئے، تو ہمارے شیخ عبد الوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے دوستو! یہ ایک جوان عالی مرتبہ ہے، اس کا قدم زمین پر نہیں پَڑتا، بلکہ اونچا رہا ہے، عنقریب ہی اس کا کام بلند ہوجائے گا، اور دن بدن ترقی میں ہوگا۔ (رسالہ احمد بیگ)
۱۵۔ شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی
حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات دفترِ اوّل مکتوبِ دویست نہم ۲۰۹ میں لکھتے ہیں کہ۔
’’حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے رحلت کر جانے سے ہزار سال بعد حضور کی امت کے اولیا جو ظاہر ہوں گے، اگرچہ وہ قلیل ہوں گے مگر اکمل ہوں گے، تاکہ اس شریعت کی تقویت پورے طور پر کر سکیں۔‘‘
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا وجود مسعود انہیں قلیل اولیاء اللہ سے تھا، جو نہایت اکمل اور شریعت محمدیہ کے مقوم تھے۔
معمولات
عبادت و ریاضت
آپ ہمیشہ سفر ہو یا حضر، موسمِ گرما ہو یا سرما، بعد نصف شب بیدار ہوتے، اور وضو کر کے دوگانہ تہجد بکمال خشوع و خضوع ادا فرماتے اور اس کے بعد ذکر و فکر و مراقبہ میں مشغول ہوتے، سوا پہر دن چڑھے تک اذکار و اشغال میں مشغول رہتے، نماز پنجگانہ با جماعت ادا فرماتے، نوافل اشراق، ضحٰے، اوّابین، ضروری پڑھتے، چہار رکعت سنت قبل از عصر کبھی ترک نہ فرماتے، رخصت کو چھوڑ کر عزیمت پر عمل فرماتے۔ [۱] [۱۔ گنج الاسرار ۱۲ شرافت]
اذکار
آپ ذکر جہر فرمایا کرتے تھے، لَا کو بامد کھینچ کر اِلَّا اللہ کی ضرب پر لگاتے، ذکر لگاتے، ذکر نفی اثبات بالترتیب ایک ہزار یا تین ہزار مرتبہ کرتے، حبسِ نفس، ذکر ارّہ، ذکر سہ پایۂ، شغلِ محمود، شغل نصیرا، اکثر آپ کا معمول تھا، اور سلطان الاذکار جاری تھا، پاس انفاس دائمی تھا۔ [۱] [۱۔ گنج الاسرار ۱۲]
افکار
بعد از فراغتِ اذکار آپ کا اکثر وقت تفکر و تدّبر میں گذرتا تھا، مراقبہ محبت، محاسبہ نفس، تصوّرِ شیخ میں زیادہ تر انہماک ہوتا تھا، استغراق و محوّیت آپ پر غالب تھا۔ [۱] [۱۔ گنج الاسرار ۱۲]
اوراد
آپ لسانی وظائف میں سے تلاوتِ قرآنِ مجید بملا خط معانی بلاناغہ، اور کملہ طیّبہ، درود شریف ہزارہ، درود شریف خضری، اسم اعظم، قصیدہ خمریہ محبوبیہ، کا وِرد رکھتے تھے، یاد الٰہی خلوت میں کیا کرتے تاکہ پریشانی خاطر کا موجوب نہ ہو، ایسے موقعہ پر سوائے خواص کے کسی کو حاضر ہونے کی رخصت نہ ہوتی تھی۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ۔ مناقبات نوشاہیہ ۱۲]
متابعت نبوی
آپ ہر قول و فعل و حال میں سنت نبوی کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے، متابعتِ محمدی کو اپنا فرض اولین سمجھتے، ہر کام میں شریعت کا پاس رکھتے، بحدیکہ اپنے مریدوں کو مرید نہ کہتے، بلکہ یار کہتے، جو لفظِ صحابی یا صاحب کا ترجمہ ہے، اپنے یاروں کو پابندی شرع کی خاص تاکید کرتے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۰۹]
تدریس
آپ نے جب نوشہرۂ تارڑاں میں اقامت فرمائی تو وہاں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور اس میں سلسلہ تدریس جاری کیا، کئی بزرگانِ ملت نے آپ سے تعلیم پائی، اوائل میں آپ کی شہرت بوجہ علم و درس کے ہی ہوئی تھی، گرد و نواح کے لوگ آ آکر آپ سے علم حاصل کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۸۵ شرافت]
اخلاق و عادات
آپ کریم الاخلاق عمیم الاشفاق تھے، خلقِ محمدی کا مجسم نمونہ تھے، غریبوں مسکینوں کے ساتھ محبت رکھتے، اور سلام میں سبقت کرتے، اغنیا و متمولین و امرا سے احتراز رکھتے اور اُن کے ساتھ سلام میں سبقت نہ کرتے، سائلین کو کبھی خالی نہ پھیرتے، اگر کوئی چیز وقت پر موجود نہ ہوتی تو آپ دکان سے دِلوا دیتے، اور بعد میں خود وہ قرضہ ادا کر دیتے، مسافروں کی خدمت کا خاص خیال رکھتے، کسبِ حلال کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے، کبھی زراعت کرتے، کبھی گھوڑوں کی تجارت کرتے، اپنے گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے، گھوڑی کے لیے خود گھاس کھود کر لے آتے، اور اپنی بھینسوں کو خود بیلہ میں لے جا کر چراتے، وہ چَرنے میں لگ جاتیں، تو آپ یاد الٰہی میں مشغول ہوجاتے، جو کچھ از قسم فتوح و ہدیہ آتا اُس کو رد نہ فرماتے بلکہ قبول کر کے ایثار کر دیتے، سخاوت میں دریا دل تھے، جو کچھ حاضر ہوتا راہِ خدا میں خرچ کر دیتے، اہلِ خانہ کی یہ حالت تھی کہ کئی کئی روز فاقہ سے گذر جاتے تھے، صلاح و تقوٰے کو ہمیشہ مدنظر رکھتے، مشتبہ طعام سے پرہیز فرماتے، انصاف پسند اور عدل دوست تھے، ہر کسی پر احسان کرتے، لنگر جاری رکھا تھا، دونو وقت روٹی آیٔندگاں و زائراں کو ملتی تھی، روٹی میں کسی شخص کی خوشامد یا کمی بیشی نہیں ہوتی تھی، جو کچھ ما حضر ہوتا تھا امیر و غریب کو یکساں ملتا تھا، جب کوئی مہمان آتا تو آپ نہایت خوش ہوتے، اور فراخدلی سے اُس کی خدمت کرتے، مہمانوں کے ہاتھ خود دُھلاتے، اُن کے آگے روٹی خود رکھتے، ہر ایک شخص کو لطف و کرم سے پیش آتے، اگر کوئی شخص بوجہ حیا کے کھُل کر اپنا مقصد نہ عرض کر سکتا تو خود اُس کے آنے کا سبب اور مطلب دریافت فرماتے، کسی پر سختی نہ فرماتے، اپنے نفس کی خاطر کسی پر غصہ نہ کرتے، اگر کوئی شخص کسی قسم کی عرض کرتا تو اس کو قبول فرما لیتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، جنازوں پر شامل ہوتے قبروں کی زیارت کرتے، اپنے یاروں کے گھروں میں جا کر اُن کی خبر گیری کرتے، اپنی حالت کو زیادہ تر مخفی رکھنے کی کوشش کرتے، کسی شخص کی دل شکنی نہ کرتے، کبھی کسی غیر محرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتے، اگر کوئی عورت کسی مراد کے لیے حاضر خدمت ہوتی تو اُس کو پردہ کے پیچھے بیٹھنے کا حکم کرتے، یا دور کھڑا رہنے کو کہتے، دُور سے ہی اُس کی عرض سُن کر اُس کا مطلب حل فرماتے، اپنے احباب و خدّام سے نیک سلوک کرتے، اگر کسی دوست سے کوئی لغزش ہوجاتی تو مؤاخذہ نہ کرتے بلکہ معاف کر دیتے، ہر ایک فن والے کی قدر شناسی کرتے، گاہے گاہے بوقت انقباض سیر کے لیے دریا یا صحرا میں بھی نکل جاتے، علماء و مشائخ کو عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے، آپ کا رعبِ ولایت کچھ ایسا تھا کہ ہر کس و ناکس کو آپ کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہ ہوسکتی تھی، اپنے دوستوں سے ہمدردی رکھتے، کبھی کبھی شگفتہ مزاجی اور خوشطبعی بھی کیا کرتے، آپ دین حق کی اشاعت پند و نصائح سے فرماتے، متلاشیانِ حق کو احسن طریقوں سے راہ نمائی کرتے، آپ کی پیشانی مبارگ پر کسی نے چین نہ دیکھا، کلام آہستہ اور پُر مغز فرماتے، آپ کا ہر فعل صانع حقیقی کی خوشنودی کے لیے ہوتا تھا، خود پسندی سے آپ کو نفرت تھی، ہر کسی سے لِلّٰہی محبت کرتے، خود غرضی و مطلب پرستی کو بالکل دخل نہ دیتے؛ محتاجوں، بیکسوں بے یاروں، یتیموں، بیواؤں کی دستگیری فرماتے، اور ان کی دلجوئی میں کوئی کَسر اٹھانہ رکھتے، ہر دم ذاتِ الٰہی سے خائف رہتے، خوف و رجا میں بلند مقام رکھتے، آپ کی سادہ مزاجی، حلیم الطبعی، خوش خُلقی، دیانتداری، راست گفتاری شیریں کلامی ضرب المثل ہوگئی تھی، آپ کی عالی حوصلگی، اولو العزمی، فیّاضی کا عام چرچا تھا، طریقہ اسلام کے سچے اور پختہ طور پر پابند تھے، دیکھنے والے آپ کے نقشِ قدم پر چلنا سعادت سمجھتے، اور آپ کے علمی نمونہ سے اسلام کے مدّاح ہوجاتے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ۔ تذکرہ نوشاہیہ۔ ثواقب المناقب۔ کنز الرحمت۔ تحایف قدسیہ۔ قادری نوشاہی ۱۲ شرافت]
مواعظِ حسنہ
آپ کی مجلس کبھی واعظانہ و تبلیغی گفتگو سے خالی نہ ہوتی تھی، اگرچہ عام واعظوں کی طرح آپ منبر پر چڑھ کر وعظ و تقریر نہ فرماتے تھے، لیکن محفلِ اقدس میں یا بعد از نماز اپنے حقایق و معارف سے اکثر حاضرین کو مستفیض فرمایا کرتے تھے، مسائل شرعیہ، معارفِ تصوّف، واقعاتِ سلف، پندو نصائح سے مجلس کو معمور و پُر نور رکھتے تھے، آپ کا کلام سادہ اور عام فہم ہوتا تھا، تکلّف و بناوٹ کو ہر گز راہ نہ دیتے تھے، اگرچہ آپ کے تذکرہ نویسوں نے آپ کے مواعظ کو تفصیلًا بیان نہیں کیا، تاہم کئی جگہ آپ کی زبان کے ارشادات قلمبند کیے ہیں۔
فضائل نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایک دن دورانِ تقریر میں فضائل جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی طور پر بیان فرمائے، جن میں سے ایک یہ بھی فرمایا کہ بہشت میں تمام لوگ امرد (بے ریش) ہوں گے، کسی کی داڑھی نہیں ہوگی، سوائے ہمارے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہ اُن کی ریش مبارک ہوگی بسبب عظمت شان ان کے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۷۹ شرافت]
فضائل شہدا
یہ کوئی ضروری نہ تھا کہ آپ مجمع کثیر میں ہی تقریر فرماویں، بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ دو تین آدمی مجلس میں ہوتے تو بھی دریائے حقائق موجزن ہوتا، ایک بار حضرت سیدہ شاہ محمد رہتا سی رحمۃ اللہ علیہ و حضرت شیخ نانو مجذوب رحمۃ اللہ علیہ اور ایک تیسرا یار بھی، تینوں مجلس میں موجود تھے، کہ مسائلِ شرعیہ میں گفتگو شروع ہوئی، تینوں دوستوں نے عرض کیا یا قبلہ! موت کونسی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا تمام اقسامِ مرگ میں سے موتِ شہادت افضل ہے، اس کے بعد شہداء کے فضائل بیان فرمائے تینوں احباب نے عرض کیا کہ ہمارے لیے دعا فرمائی جائے کہ ہم کو شہادت نصیب ہو، آپ نے اُن کے حق میں دعائے خیر فرمائی، اور بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ تم کو شہادت نصیب کرے گا، اور تمہارے درجات شہیدوں میں بلند فرمائے گا، چنانچہ واقعی وہ تینوں بزرگ درجۂ شہادت سے مشرف ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۷۸ شرافت]
حلیۂ اقدس
آپ بلند قامت، قوی ہیکل، بھارا جسم، گندم گون رنگ، کشادہ پیشانی، ابرو پیوستہ، آنکھیں موٹی اور پُر جلال، بینی بلند، دہن متوسط، رخسار نورانی، دندان چمکدار تھے، ریش مبارک پر انبوہ مربع سفید تھی، سینہ چَوڑا، اعضا مضبوط، آپ کے ناصیہ سے ایسا نور ہویدا تھا کہ آنکھ کام نہ کرسکتی تھی، آپ کے بدن پر کبھی مَیل نہ جمتا تھا، پسینہ خوشبو دار ہوتا تھا، سر کے بال موافق سنت کبھی کانوں تک اور کبھی زلفیں دراز ہوتی تھیں، حسن و جمال میں لاثانی تھے۔
لباس
آپ کا لباس سادہ درویشانہ ہوتا تھا، کھدر دیسی کے (چَونسے پنیسے) کپڑے زیب تن ہوتے تھے، اکثر بھورا یعنی سیاہ کمل بھی اوڑھتے جس میں سُرخ دھاری ہوتی تھی، کبھی بجائے بھورا کے کھیس اور سَلارہ اور چادر کا استعمال بھی کرتے، کمر میں تہبند، کبھی لنگی چار خانیہ باریک دھاری دار ہوتی تھی، سَر پر ٹوپی طاقیہ جس کو عرف میں کانوں پر ٹوپی کہتے ہیں، اور کبھی دستار بھی رکھتے تھے۔ آپ اکثر سفید کپڑے استعمال کرتے، لیکن گاہے گاہے سبز جُبہ یا کیکر کے رنگ میں رنگا ہوا تہبند بھی زیب تن فرمایا کرتے، لباس میں صفائی کو خاص طور پر مد نظر رکھتے نظافت و طہارت پسند تھے، کثافت اور بدبو اور میل سے نفرت ہوتی تھی۔
رفتار و گفتار
آپ جب چلتے تو آپ کی رفتار آہستہ ہوتی تھی، لیکن طےّ ارض کا کرشمہ اس میں موجود تھا، راستہ میں آگے پیچھے دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے، نظر برقدم رہتے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۹۹] اور اگر کلام کرتے تو نرم آواز سے کرتے، جو شخص مجلس میں بیٹھتا مفتون ہوجاتا، آپ کا کلام سادہ پنجابی ہوتا تھا، بعض اوقات ایک ایک بات کو کئی کئی مرتبہ دُھراتے، خصوصًا ایسی باتوں کا تکرار کرتے جن میں کسی شخص کو ذوق حاصل ہو یا خود اُس سے محفوظ ہوں، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۶۷] آپ کے کلام میں ایک خاص تاثیر تھی، جو کوئی سُن لیتا متاثر ہوتا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۸۴]
سماع و وجد
آپ کی محفل فیض منزل میں اکثر سماع ہوتا تھا، میاں ہندال رحمۃ اللہ علیہ قوالِ خاص تھا، جو اپنے موزون آواز سے اشعار توحید گا کر آپ کو محفوظ فرماتا تھا، آپ کا سماع ضرورتِ وقت کے مطابق کبھی بغیر مزمیر کے اور کبھی سارنگی و طبلہ کے ساتھ ہوتا تھ، آپ کی مجلس میں اکثر لوگوں کو وجد بھی ہوتا تھا، آپ کی توجہ اور نظر سے پَتھر سے پَتھر دل بھی موم ہوجاتے تھے، رقتِ قلب اور گریہ وُبکا بے شمار لوگوں کو ہوتا تھا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۶۲۔ ۱۶۳ شرافت]
آپ مجلس سماع میں حسب آدابِ صوفیہ حتی الوسع غیر آشنا کو دخل نہ دیتے، تاکہ ارباب حال کی پریشانی کا باعث نہ ہو، بحالتِ وجد جس کسی پر نگاہ ڈالتے، صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ دیتے، صاحبِ تصرّف استحضارِ وجد پر حاکمِ تھے، جس پر توجہ فرماتے وجد میں آجاتا۔
آپ کو بسا اوقات وجد میں یہاں تک محویّت ہوجاتی کہ انزہاق تک نوبت پہنچ جاتی، پھر افاقہ ہوتا۔
فضائل
آپ کے فضائل تو شمار سے باہر ہیں، لیکن یہاں چند ایک درج کیے جاتے ہیں۔
۱۔ مناقباتِ نوشاہیہ میں ہے کہ بروز میثاق جب صفوف انبیا و اولیا قائم ہوئیں، اور حضرت سیّد السّادات غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو خلعتِ محبوبیت و قطبیت سے سرفرازی ہوئی، اُسی روز بحضورِ ارواح انبیاء و اولیاء حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی روح پاک کو جناب غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیا گیا، اور فرمایا گیا کہ اس کا سلسلہ فقر تمام دنیا میں پھیلے گا، اور اس کا غلغلہ ممالک دور و دراز میں ہوگا۔
۲۔ مناقباتِ نوشاہیہ میں ہے کہ جس وقت آپ کو حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت و اجازت سے نوازا، اُس وقت وہاں تمام انبیائے کرام علیہ السلام و اولیائے امت کی ارواح حاضر ہوئیں، حضرت سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ میرا نوشہ ہے سب حضرات اس کو تنبول ڈالو، چنانچہ سب بزرگوں نے اپنے اپنے طریق کے فیوض سے آپ کو سرفراز کیا، خصوصًا چودہ (۱۴) خاندانِ فقر کے ائمہ و پیشواؤں اور نو قادروں نے آپ کو اپنے اپنے خرقے عطا کیے، اسی واسطے نوشاہی درویش جو لباس پہنیں ان کو جائز ہے کیونکہ ان کو ہر قسم کا لباس عطا کیا گیا ہے۔
۳۔ مناقبات نوشاہیہ میں ہے کہ جس وقت اولیائے معاصرین و حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان گوئے چوگان کی کھیل ہوئی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک نے فرمایا کہ اے حاجی محمد! تم چاروں طرف گیند کو ضرب لگاؤ، چنانچہ حسب الارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے چاروں طرف ضرب لگائی تو مشرق، مغرب، جنوب، شمال تک گیند چلا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو گلے لگایا، اور فرمایا تیرا فیض اقطارِ عالم میں چاروں طرف منتشر ہوگا، اور میں تیرے فقر کا قیامت تک محافظ رہوں گا، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو خرقہ، تاج، جبہ مبارک بعالمِ مشاہدہ عطا فرمایا۔
۴۔ سرِّ مکتوم میں ہے کہ جس وقت حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھلوال شریف میں حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت سے مشرف ہوئے تو انہوں نے بعالمِ مشاہدہ آپ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلسِ شریف میں حاضر کردیا، اور آپ کا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں پکڑ وادیا، اُس وقت حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے پاس چہار یار ظاہری، اور چہار یار باطنی بھی موجود تھے، اُن سب بزرگوں نے آپ کے حال پر عنایت فرمائیں، اور اپنی اپنی نسبتوں سے نوازا۔
۵۔ رسالہ احمد بیگ میں ہے کہ حضرت مولانا حافظ معموری ہیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہے، اور حق تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اور خلقت کا حساب ہو رہا ہے، ہر ایک گروہ کے علم کھڑے ہیں، سب سے بلند حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا عَلَم ہے، اور اس سے پست اور دوسرے تمام علموں سے اونچا حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا عَلَم ہے، جس کے نیچے آپ کے تمام یار بیٹھے ہیں اور حضور ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔
۶۔ تذکرہ نوشاہیہ میں حضرت شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک روز ہمارے جدِ امجد حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے بیٹھے فرمانے لگے کہ اے دوستو! دیکھو کہ دریا کی اُس طرف قلندر کا ہاتھ کہاں تک پہنچ رہا ہے؟ یاروں نے عرض کیا کہ یا حضرت! وہ قلندر کون ہے؟ اور اُس کا ہاتھ کہاں تک پہنچ رہا ہے؟ آپ فرمایا وہ قلندر مسکین فقیر ہے، اور اُس کا ہاتھ عرش کے نیچے تک پہنچ رہا ہے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ مبارک بلند کیا، یاروں نے عرض کیا یا حضرت! آپ کا ہاتھ شریف کہاں تک پہنچتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہمارا ہاتھ عرش معلّٰی کے اوپر جاتا ہے۔
۷۔ تذکرہ نوشاہیہ میں بروایت مذکور منقول ہے کہ ایک روز آپ استراحت فرما رہے تھے، ارادتمندوں سے ایک شخص پاؤں داب رہا تھا، اُس کے دل میں خیال آیا کہ پتہ نہیں شاہ دَولا ولی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ کا کیا مرتبہ ہے؟ آپ نے اس خیال سے ازروئے کشف آگاہ ہوکر اُن کا مرتبہ بیان فرمایا، پھر اُس کے دل میں خیال آیا کہ شائد میاں شاہ جیو ابنِ عبد السّلام گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا کیا مرتبہ ہے؟ آپ نے ان کا مرتبہ بھی بتادیا، پھر اس کے دل میں آیا کہ شاید میاں مسکین قلندر رحمۃ اللہ علیہ کا مرتبہ کیا ہے؟ آپ نے وہ بھی جَتلا دیا، حتیّٰ کہ تمام بزرگانِ گردو نواح کے درجات و مقامات آپ نے بیان فرمائے، پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ شاید حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا مرتبہ کیا ہے؟ آپ ایک ساعت خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ جس کو اپنی نوازش سے ’’صاحب اختیار کردیویں اُس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا؟
ف صاحبِ اختیار ہونے سے مراد مرتبہ تکوین کا حاصل ہونا ہے، جیسا کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فتوح الغیب مقالہ شانزدہم و چہل ششم میں فرماتے ہیں۔
قال اللہ تعالٰی فی بعض کتبہ یا ابن اٰدم انا اللہ لا الٰہ الّا انا اقول للشئی کُن فیکون اطعنی اجعلک تقول للشئی کن فیکون یعنی اے ابنِ آدم میں وہ خدا ہوں کہ جب کسی چیز کو کہتا ہوں ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے، تو میری تابعداری کر تو میں تجھے ایسا کر دوں گا کہ اگر تو بھی کسی چیز کو کہے گا ہوجا تو وہ ہوجائیگی۔
حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ درجہ بہت نبیوں اور ولیوں کو دیا گیا ہے اور یہ وہی فنا ہے جو اولیا و ابدال کا غایت احوال ہے، اور جب کسی کو درجۂ تکوین دیا جاتا ہے تو جوکرنا چاہتا ہے حکم ربّانی سے ہوجاتا ہے۔
تفسیر کبیر جلد پنجم میں ہے۔ اما اذا استانست بمعرفۃ اللہ ومحبّتہٖ وقلّ انغما سہا فی تدبیر ھٰذا البدن واشرقت علیہا انوار السّماویّۃ العرشیّۃ المقدّسۃ وفاضت علیھا من تلک الانوار قویت علی التصرّف فی اجسام ھٰذہ العالم مثل قوّہ الارواح الفلکیّۃ علٰی ھٰذہ الاعمال۔ خلاصہ یہ کہ جب کوئی معرفتِ الٰہی اور محبت ذات حق میں فنا پا چکے، تو اس پر روح القدس جو اجسام دنیا میں تصرّف کرنے کی قوّت رکھتا ہے نازل ہوتا ہے۔ [۱] [۱۔ العصیدۃ الیوسفیہ ص ۴۴]
نیز فتوح الغیب مقالہ چہلم میں ہے ویردّ علیک التکوین فتکون کلیتک قدرۃ یعنی تجھ کو پیدا کرنا اشیا کا عطا کیا جائے گا، پس تو سارا قدرت ہی بن جائے گا۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مفتاح الفتوح میں اس کی شرح میں نقل کرتے ہیں کہ جب ولی اللہ مضیقِ بشریت سے خارج ہوکر میدانِ قدرتِ الٰہی میں فائز ہوتا ہے تو اُس کو یہ مرتبہ و کرامت عطا ہوتی ہے کہ اشیا کو بدون اسباب عادی کے اس کے ہاتھ پر ظاہر کرتے ہیں، جیسا کہ سب مومنین بہشت میں اسی اقتدار پر ہوں گے بہشت مقام قدرت کا ہے کہ قدرت وہاں ظاہر ہوگی اور حکمت مخفی، اور عالمِ دنیا میں قدرت مخفی ہے اور حکمت ظاہر، جب اولیائے کاملین عادات و رسوم سے گذر کر فانی ہوجاتے ہیں تو عالم دنیا میں بھی قتل از دخول جنت مظہر تجلّٰی اسم قدیر کے ہوجاتے ہیں، اور اصطلاح صوفیہ کرام میں اُس کامل کو عبد القادر کہتے ہیں۔ [۱] [۱۔ نورِ ربّانی ص ۹ شرافت]
کتاب تعلیم غوثیہ میں مقام جمع الجمع کی تشریح کے ضمن میں لکھا ہے کہ۔
’’یہ مقام برزخ البرازخ ہے کہ وجوب و امکان اعتدال کے مرتبہ پر ہوں کہ ایک کو دوسرے پر غلبہ نہ ہو، مرج البحرین یلتقیان بینھما برزخ لّا یبغیان (الرحمٰن۔ ع ۱) اس مقام میں سالک کو کثرت آئینہ و حدت اور وحدت آئینہ کثرت بَن جاتی ہے، یعنی وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت دیکھتا ہے، اور عارف متصرف عالم وسخّر لکم مافی السّمٰوٰت وما فی الارض (الجاثیہ۔ ع ۲) کا مصداق بن جاتا ہے، اور ’’صاحبِ اختیار‘‘ ہوتا ہے، جب چاہتا ہے تجلّٰے حق کو اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے اور جس صفت میں چاہتا ہے متصف ہوکر ان صفات کے اثر کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ متصف بصفاتِ حق و متخلق باخلاق اللہ ہوگیا ہے۔‘‘
۸۔ تذکرہ نوشاہیہ میں بروایت مذکور منقول ہے کہ ایک روز حضور کی مجلس میں تذکرہ ہوا کہ فلاں بزرگ نے چار شخصوں کو ولی کیا، اور فلاں نے دو شخصوں کو، اور فلاں نے ایک شخص کو ولی کیا، آپ نے فرمایا دو تین چار اولیا کرنا کیا معنی رکھتا ہے، اگر ہر ایک گھر میں اولیا نہ ہوں تو ہر ایک گاؤں میں تو ایک ایک ولی ہونا چاہیے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ہر ایک گاؤں میں ایک ایک شخص پر مقامِ ولایت کھول دیا، اور بیشمار لوگوں کو اولیا کر دیا، یہ آپ کے اعلیٰ فضائل سے ہے۔
۹۔ تذکرہ نوشاہیہ میں ہے کہ آپ جس وقت نماز پڑھتے تھے تو سجدہ تنگ دیتے، ایک شخص نے عرض کیا کہ آپ سجدہ تنگ کیوں دیتے ہیں؟ فرمایا اگر میں سجدہ فراخ کروں تو میرا سَر بیت اللہ شریف سے آگے گذر جاتا ہے، اور ایسا ہونا شریعت کے خلاف ہے۔
ف اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد۔
نظرتُ الٰی بلاد اللہ جمعًا |
|
کخرد لۃٍ علٰی حکم اتّصالی |
کے مطابق وراثتِ غوثیہ میں آپ کو بھی یہ منصب حاصل تھا کہ تمام زمین آپ کے سامنے دانہ خردل کی طرح زیرِ نظر اور سمٹی ہوئی تھی۔
نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تمام نمازیں کعبہ شریف میں ادا فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ نماز فقر کی وہ ہے کہ جب تک کعبہ کو ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں، تکبیر اولٰے نہ کہیں۔
۱۰۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی مقرّب بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کو علمِ لدّنی عطا فرماتا ہے، جس سے وہ ولی عالم ہوجاتا ہے، پھر اُس کو نودنہ نام یعنی اسمائے حسنٰے کا عِلم دیتا ہے جس سے اُس پر وہ علوم کھلتے ہیں، جس سے علمائے ظاہر بے خبر رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اُس کو اسمائے باطنی و ظاہری کی معرفت کی طرف ترقی دیتا ہے، پھر چَودہ حروف مفرد قرآنی جو کئی سورتوں کے اوائل میں وارد ہوئے ہیں، اور جن کو حروفِ نورانی کہا جاتا ہے اُن کا علم دیتا ہے، پھر اُس کو اسمِ اعظم سکھلایا جاتا ہے جس سے جو دعا کرے وہ قبول ہو، اور جو سوال کرے وہ پورا ہو، اور اسمِ اعظم حضرت خضر علیہ السّلام کے وسیلہ سے اُس کو سکھلایا جاتا ہے، اور پھر اس کو الہام سے بہرہ ور کیا جاتا ہے، اور کرامات عطا کی جاتی ہیں، جیسے کہ زمین اس کے لیے سمیٹی جاتی ہے، اور وہ پانی پر چلتا ہے، اور ہوا میں اڑتا ہے، اور زمین و اَعیان اُس کے لیے منقلب کیے جاتے ہیں، اور دیگر کئی ایسے کرامات سے اللہ تعالیٰ اس کو مخصوص فرماتا ہے، جو کتابوں کے علم میں نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے کے درمیان مخصوص ہیں۔ شمس المعارف الکبرٰے جزو اول میں ہے، اوّل ما خص اللہ بہ العبد اذا ارادان یتولا ہ علّمہ العلم اللّدنی فیکون ولیًّا عالمًا وان یخصّہ من علم التسعۃ والتسعین اسمًا فیضتح لہٗ منہا العلوم مالا یفتح للعالم بطریق النظر ثم یرقیہ الٰی معرفۃ الاسماء الباطنۃ والظاھرۃ منہا کما رجعت الظاھرۃ الی اللہ تعالٰی وبعد معرفتہ ھو یعلمہ الاشیاء الباطنۃ الّتی ھی حروف مفردۃ وھی الاربعۃ عشر حرفا الواردۃ فی القراٰن العظیم فی فواتح السّور وھی الاحرف النّورانیّۃ المتقدمۃ وبعد فھمہا فھمہ اللہ تعالٰی الاسم الاعظم الذی اذا دعی بہٖ اجاب واذا سئل بہٖ اعطی وانّما یا خذ الاسم الاعظم من الخضر علیہ السّلام فی اکثر الاقوال وقد یتلقاہ الولیّ بالا لھام عند ھبوب الرّحمۃ علی العبد وطریق اخذہٖ فی الاولیاء مختلف یطول فی تفصیلہٖ واٰخرہٗ انہ تطوی لہ الارض ویمشی علی الماء ویطیر فی الھواء وتقلب لہ الارض والاعیان الٰی غیر ذٰلک من الکرامات الّتی اختصّ اللہ بہا الاولیاء وھٰذا لیس بعلم صحف وانما ھو مخصوص بین العبدو ربّہٖ قال علیہ الصّلوٰۃ والسّلام انّما قام الوجود کلّہ باسماء اللہ تعالٰی الباطنۃ ثم الظّاھرۃ المقدّسۃ واسماء اللہ تعالٰی المعجمۃ الباطنۃ اصل لکل شئٍی من امور الدّنیا والاٰخرۃ وہی خزانۃ سرّہ ومکنون علمہٖ ومنہا تفرّع اسماء اللہ تعالی کلّہا وھی الّتی تقضی بہا الامور واودعہا امّ الکتاب۔ [۱] [۱۔ شمس المعارف الکبرٰے جزو اول ص ۵۹] انتھٰی۔
یہ تمام آثار مذکورہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی میں ملتے ہیں، آپ کو علم لدنی کا عطا ہونا، [۱] [۱۔ مناقب نوشاہی ۱۲] چودہ حروف کی تلقین کا گنج الاسرار کے بعض نسخوں میں درج ہونا، [۱] [۱۔ گنج الاسرار ۱۲] اسمِ اعظم پڑھنے کے واسطے حضور کا تاکید کرنا، [۱] [۱۔ گنج الاسرار ۱۲] حضرت خضر علیہ السلام کا آپ کی برات میں شامل ہونا، اور آپ کو نوشہ کہہ کر پکارنا، [۱] [۱۔ مجمع الاسرار ۱۲] آپ کا الہاماتِ ربّانی سے بہرہ ور ہونا، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۸۷۔ ۳۸۲] آپ کو کراماتِ کثیرہ کا عطا ہونا، [۱] [۱۔ مقدمہ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲] آپ کے واسطے نماز کے وقت زمین کا سمٹ جانا، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۸۵] آپ کے ارشاد مبارک سے بحر عمیق کا پایاب ہوجانا، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۸۷] آپ کا ہوا میں پرواز کر کے شاہ حسام الدین ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کو بھگانا، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۷۵] آپ کا جھنڈا مزارعہ کی زمین کا تقلب کر کے کم کردینا، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۰۲] آپ کا آفتاب کو ایک جگہ ٹھیرا دینا، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۸۴ شرافت] اِن تمام حالات سے معلوم ہوا کہ حضور اولیائے مقربین سے تھے، اور تصرّفاتِ قویّہ رکھتے تھے۔
۱۱۔ آپ کو معیت و صحبت حضرت خضر علیہ السلام بھی حاصل تھی، کتاب مجمع الاسرار میں ہے کہ جس وقت آپ کی شادی ہوئی تو آپ برات کے ہمراہ بحالتِ استغراق و محویت جا رہے تھے، راستہ میں ایک کمزور بُڈھے نے کہا کہ میری لکڑیوں کا گٹھا اٹھالو، چونکہ آپ رحم دل اور فیّاض تھے، آپ نے گٹھا اٹھالیا اور برات کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ روانہ ہوئے، تھوڑی دور جا کر بُڈھے نے دیکھا تو گٹھا آپ کے سَر سے دو گز اونچا جا رہا تھا، پھر اس نے گٹھا لے لیا، چونکہ آپ برات سے بہت پیچھے رہ گئے ہوئے تھے، اس لیے براتیوں نے آپ کی تلاش کی، اُس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے غیب سے ندا دی کہ ’’یہ ہے نوشہ، یہ ہے نوشہ‘‘۔
۱۲۔ تحائف قدسیہ میں ہے کہ آپ ہر روز صبح سے ایک پہر دن چڑھے تک بلند آواز سے ندا کیا کرتے، کہ جو شخص حاجتمند ہو آوے اُس کی حاجت پوری ہوگی، ہمارا خمِ عشق جوش و خروش میں ہے جو شخص رنگین ہونا چاہے وہ آکر عشق میں رنگا جاوے۔
چنانچہ آپ کی توجہ باطنی نہایت قوی تھی، جو شخص سامنے آتا، ایک ہی نگاہ سے اُس کے لطائف جاری ہوجاتے، اور اُس پر مقامِ ولایت منکشف ہوجاتا۔
ف فقیر شرافت عافاہ ربہٗ کہتا ہے کہ صوفیہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک توجہ کی چار قسم ہیں اور ان کی تاثیر مختلف ہے۔
اول تاثیر انعکاسی، اس میں کامِل کا عکس مرید میں چمک جاتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کوئی عطر مَل کر کسی مجلس میں آوے، اور ہم نشینوں کے دماغ میں اس کی خوشبو پہنچے، مگر یہ اثر پائدار نہیں، اس کے اُٹھ جانے سے اُٹھ جاتا ہے بعد میں باقی نہیں رہتا۔
دوم تاثیر القائی۔ کہ اپنا اثر مریدوں پر ڈال دے، اور جب تک کوئی مانع نہ ہو وہ قائم بھی رہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کوئی چراغ جلا کر لاوے، اور دوسرا اس سے بَتی روشن کرے، سو یہ جب تک ہوا اور بارش وغیرہ کا صدمہ نہ پہنچے قائم رہے گی، اور جس قدر اپنا تیل ہے اسی کے مقدار پر روشن رہے گی، یہ اوّل سے قوی ہے۔
سوم تاثیر اصلاحی۔ کہ مرشد اپنی روحانی طاقت سے مرید کے باطن کی اصلاح کردے، اور لطائف جاری ہو جاویں، اس کی مثال ایسی ہے جیسا کوئی کاریگر کسی حوض کی نالیوں اور پانی کے آنے کی جگہ کو اور فوّارہ کو صاف کردے، اور پانی ڈال کر فوّارہ کو رواں کردے، یہ اول و دوم سے قوی ہے، لیکن یہ بھی اسی وقت تک جاری ہے جب تک حوض میں پانی ہے، نیز جس قدر پانی آنے کی نالیوں میں وسعت ہے، اور جب تک ان نالیوں میں بہیمیّت کا کُوڑا کرکٹ نہیں آیا ہے۔
چہارم تاثیر اتحادی۔ جو سب سے قوی تاثیر ہے، اور وہ یہ کہ مرشد اپنے روحانی زور سے مرید کو اپنے ضمن میں لے کر اپنی روح کو اس کی روح سے ایک کردے اور جو کچھ کمالات اس کی روح میں ہیں وہ اس میں بھی آجاویں، اور یہ سب سے اعلیٰ تاثیر ہے، اس میں بار بار استفادہ کی حاجت نہیں رہتی، اور یہ کوئی محال بات نہیں، روحانی طاقتور کا تو کیا ذکر ہے بعض پرند جانوروں میں بھی ایسی تاثیر ہے کہ وہ دوسرے چھوٹے جانوروں کو ایک مدت میں اپنا ساہی کر دیتے ہیں، اور ان کو توالد و تناسل کا یہی طریقہ ہے، یہ توجہ اتحادی حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کی تھی، اور اس توجہ میں یہ کوئی ضرور نہیں کہ ہمیشہ اتحاد ظاہری و باطنی رہے۔ [۱] [۱۔ تفسیر فتح المنّان المعروف تفسیر حقانی جلد ہشتم ص ۱۸۷۔ سورۂ العلق ۱۲ شرافت]
۱۳۔ ہفتاد اولیا میں ہے کہ آپ نے اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کی طرح پاپیادہ چل کر سات حج حرمین الشریفین زادھما اللہ شرفًا وتعظیمًا کیے جو آپ کے اعلیٰ فضائل سے ہے۔ [۱] [۱۔ ہفتاد اولیا ص ۴۲۴]
خصائص
جو جو کمالاتِ عالیہ اور مدارج مخصوصہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے اُن کا احصا نہیں ہوسکتا، لیکن بعض خصائص آپ کے بیان کیے جاتے ہیں۔
۱۔ آپ کی ولادت کی کئی بزرگوں نے بشارتیں دیں۔ [۱] [۱۔ اکثر کتب خاندان جن کے حوالے پیشگویوں میں گذرچکے ہیں۔ ۱۲]
۲۔ آپ کی ولادت کے وقت فرشتوں نے مبارکبادیں دیں۔[۲] [۲۔ مناقب نوشاہی ۱۲]
۳۔ آپ کو عشق الٰہی کی گڑہتی لگائی گئی۔[۳] [۳۔ ایضًا ۱۲]
۴۔ آپ کی تربیت و بہلانا فرشتے کرتے تھے۔[۴] [۴۔ رسالہ احمد بیگ ص ۷۵]
۵۔ آپ کو ملائکہ نے تعلیم دی۔[۵] [۵۔ ایضًا ص ۸۸]
۶۔ آپ کو علمِ لدنی عطا کیا گیا۔[۶] [۶۔ ایضًا ص ۸۸۔ مناقب نوشاہی ۱۲]
۷۔ آپ کو مقطعاتِ فرقانی کا عِلم دیا گیا۔[۷] [۷۔ گنج الاسرار ۱۲]
۸۔ آپ کو اسمِ اعظم سکھلایا گیا۔[۸] [۸۔ ایضًا ۱۲]
۹۔ آپ پر گذشتہ و آئندہ کے حالات منکشف ہوئے۔[۹] [۹۔ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲]
۱۰۔ آپ کو ہر قسم کے تصرّفات عطا کیے گئے۔[۱۰] [۱۰۔ ایضًا ۱۲]
۱۱۔ آپ ہزار سال کے مجدّدِ اکبر ہوئے۔[۱۱] [۱۱۔ قادری ص ۱۲]
۱۲۔ آپ مقامِ سابقین و اوّلین پر فائز ہوئے۔[۱۲] [۱۲۔ ثواقب المناقب ۱۲]
۱۳۔ آپ کو اتباعِ نبوی مثل صحابہ کبار کے نصیب ہوا۔[۱۳] [۱۳۔ ایضًا ۱۲ شرافت]
۱۴۔ آپ کو مرتبہ تکوین عطا ہوا۔[۱۴] [۱۴۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۸۲]
۱۵۔ آپ کا سکہ نوشاہت تمام عالم میں جاری ہوا، اور آپ کی نوشاہت کو تمام جنوں، انسانوں، فرشتوں، اشجار، احجار نے تسلیم کیا، اور ہر ایک نے بزبانِ قال و حال نوشاہت کی شہادت دی۔[۱۵] [۱۵۔ ایضًا ص ۱۲۰]
۱۶۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ بازا شہب تھے، ان کی وراثت میں آپ بھی نسبتِ شہبازیّت سے مشرف ہوئے۔[۱۶] [۱۶۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۷۵]
۱۷۔ آپ کو عالمِ ملکوت کا سَیر حاصِل ہوا۔[۱۷] [۱۷۔ ایضًا ص ۱۱۷]
۱۸۔ آپ پر انوارِ ذات کا تجلّٰے ہوا، بلکہ نورِ ذات آپ کا مشہود ہوا۔[۱۸] [۱۸۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۲۱]
۱۹۔ آپ کو مشاہدہ ذاتِ لایزال حاصِل تھا۔[۱۹] [۱۹۔ رسالہ احمد بیگ ص ۸۳]
۲۰۔ جو دوسرے مشائخ کو چالیس سال کی محنت و ریاضت سے حاصل ہو سکتا ہے وہ آپ کی ایک نظر سے حاصل ہوجاتا تھا۔[۲۰] [۲۰۔ مناقب ۱۲]
۲۱۔ آپ کا طریقہ جامِع شریعت و طریقت ہے۔[۲۱] [۲۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۸۵]
۲۲۔ آپ کا طریقہ سب طریقوں سے افضل و اسہل ہے، دوسرے طریقوں کے سالک جو کچھ آٹھ روز میں حاصل کرتے ہیں، اس طریق کے مبتدی کو آٹھ پہر میں وہ کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔[۲۲] [۲۲۔ روایتِ مشہور ۱۲]
۲۳۔ آپ کے خاندان میں چودہ خاندانوں کے فیض شامل ہوئے۔[۲۳] [۲۳۔ مناقباتِ نوشاہیہ ص ۶۶]
۲۴۔ آپ کے سلسلہ کے مریدوں کو قیامت کے روز دوزخ سے رہائی دینے کا وعدہ کیا گیا۔[۲۴] [۲۴۔ کنز الرحمت ص ۱۱۰]
۲۵۔ آپ کو اپنی تمام اولاد جو قیامت تک ہونے والی ہے دکھلائی گئی، اور اس کے متعلق سپردِ ولایت کی بشارت دی گئی۔[۲۵] [۲۵۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۵ شرافت]
مقاماتِ فقر
تعریفِ مقام
جب حال دائمی سالک کی مِلک ہوجاتا ہے تو اس کو مقام کہتے ہیں، یعنی سالک نے اقامت کی، اور حال مشتق تحول سے ہے، بمعنی ’’تغیرّاز لَونے بلونے یا از حالے بحالے‘‘۔ [۱] [۱۔ تعلیم غوثیہ ص ۱۳۷ شرافت]
آپ کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تمام مقاماتِ ولایت سے حصہ موصول ہوا تھا۔
مقامِ نوشاہت
آپ کو ابتدائے احوال میں محبوب حقیقی کا ایسا جذبہ اُٹھا کہ ہر دم اسی کی دُھن میں محو سوز و گداز رہنے لگے، دنیا و مافیہا کا خیال دل سے اٹھ گیا، یہاں تک کہ آپ کی روحِ پاک قفصِ عنصری اور کالبد جسمی کو چھوڑنا چاہتی تھی، اسی شوق اور ولولہ میں دیوانہ وار آپ دَوڑ پڑے، اور صحرا نوردی کرتے ہوئے ایک ایسے چاہِ کہنہ (ڈل) تنگ و تاریک پر پہنچے جو چاہِ یوسف سے کم نہ تھا، آپ اس میں کود پڑے، اور غرم بالجزم کیا کہ اس کنوئیں سے ہر گز نہ نکلوں گا وقتیکہ شاہد حقیقی پردۂ غیب سے مجھ پر ظہور کر کے اپنے وصول سے مجھے سرفراز نہ کرے، اور اگر ایسا نہ ہوا تو اسی جگہ اپنے محبوب کو جان سپرد کروں گا، اسی خیال میں چالیس روز تک اسی کنوئیں میں بحالتِ محویّت بیٹھے رہے، سوائے زاری و فغان و شورش کے کوئی وِرد نہ تھا، چالیس (۴۰) روز کے بعد ایک شبان بکریاں چراتا ہوا وہاں جانکلا، جب اُس نے کنوئیں میں جھانکا تو ایک آدمی نظر پڑا، اُس نے محنت سے آپ کو باہر نکالا، آپ پر حالتِ مدہوشی طاری تھی، سانس کی آمد و رفت سے اُس نے معلوم کیا کہ ابھی اس میں رمق باقی ہے، جلدی سے بکری دوہ کر آپ کے حلق میں چند قطرات دودھ کے ڈالے، جب غذائے جسمانی اندر گئی تو قوائے بدنی حرکت میں آئے، آپ کو حالت سُکریہ سے کچھ افاقہ ہوا، دیکھا کہ ایک مَرد خدمت میں بیٹھا ہے، آپ نے اس چرواہے کو بہت ملامت کی کہ جس مقصد کے لیے ہم نے یہ مصیبت کاٹی تھی وہ مطلوب ابھی تک ہم کو ملا نہیں کہ تو نے ہم کو باہر نکال لیا ہے، اور نہایت مہجورانہ اور فراقیہ دلپاش کلمات کہے، آپ کی صدا ہائے والہانہ سے بحرِ رحمتِ الٰہی جوش میں آیا اور سروشِ غیبی نے آپ کو ندا دی کہ اے ہمارے عاشِق صادق! اے حاجی محمد!
مصرعہ کلبہ احزاں شو درد زے گلستاں غم مخور
تو کیوں غمناک ہے؟ تیری آرزو کا غنچہ شگفتہ ہوگیا ہے، تیرے سینہ سے غم وانددہ کا غبار دور کیا گیا ہے، تیرے عرفان کے باغ ترو تازہ کیے گئے ہیں، تیری تعریف میں بلبلیں خوش آواز سے چہچہا رہی ہیں، معرفت کا سورج تجھ پر طلوع ہوگیا ہے، گمراہی کی ظلمت تجھ سے دُور کی گئی ہے، تجھے الست کے شراب سے مخمور کیا گیا ہے، تجھے عرفان کے پیالہ سے مَست کیا گیا ہے، روز میثاق سے نورِ ربوبیّت کا ظہور تیرے لیے کیا گیا ہے، تجھے ہزاروں دام رکھ کر شکار کیا گیا ہے، اگر اب تجھے رہا کر دیویں تو کچھ عجب نہیں، تیرے لیے اپنا جمال کر دیا ہے، اور نور ذات کا جلوہ تیرے لیے بے نقاب کر دیا ہے، اگر تجھے اپنی تسکین خاطر اور ہماری اس نِدا کی صداقت معلوم کرنی ہے تو فلان درخت کے نیچے چلے جاؤ، جو بالکل خشک اور مدت سے بے برگ و ساز گدائے نا توان کی طرح کھڑا ہے، وہ تمہاری عیسیٰ دی اور خضرمقدمی سے ترو تازہ ہوجائے گا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو جان لینا کہ ندائے غیبی صحیح نہیں تھی۔ آپ اس الہام کے بموجب چل کر اُس درختِ مامورہ کے نیچے جا بیٹھے، آپ کی آمد کی خوشی میں بزبانِ حال وہ درخت یہ شعر پڑھ رہا تھا۔
مژدہ اے دل کہ مسیحا نفسے مے آید |
|
کہ ز انفاسِ خوشش بوئے کسے مے آید |
آپ کے وہاں پہنچتے ہی آپ کے قدم مبارک کی برکت سے وہ درخت فی الفور سبز ہوگیا، اسی وقت اس کی ڈالیاں اور پَتے اور شگوفے اور پھل ظاہر ہوگیا اور اس کے ہر پتے سے صدائے نوشہ نوشہ نکلنے لگی، اور آپ اس کو محسوس کرتے تھے۔
آپ وہاں سے اٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے تو جو چیز آپ کے سامنے آتی سب نوشہ نوشہ کہتے، وحوش، طیور، جِنَّات، ملائکہ نے آپ کو نوشہ نوشہ کی صدا سے محفوظ کیا، عالم نا سوت و ملکوت میں کوئی چیز ایسی نہ رہی جس نے آپ کو لفظ نوشہ کے مژدہ سے نہ بشارت دی ہو، جو انسان بھی آگے سے ملتا وہ بے ساختہ آپ کو بجائے حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ کے یا نوشہ یا نوشہ کے لفظ سے پکارتا تھا، غرض کہ آپ کی نوشاہت کا نقارہ دونو جہان میں بجایا گیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۱۶۔ کنز الرحمت ص ۴۹ شرافت]
ف اسی روز سے بجائے حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ کے آپ کا نام نوشہ مشہور ہوا، اور جو شخص آپ سے نسبتِ فرزندی یا مریدی رکھے وہ نوشاہی کہلاتا ہے، یہ خطاب و لقب آپ کو وراثتِ غوثیہ میں ملا، جیسا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو محی الدین کا لقب ملا تو ہر کہ ومِہ نے ان کو اسی نام سے پکارا ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء (الجمعہ۔ ع ۱)
لفظِ نوشہ کی تشریح
لغت میں نوشہ بالفتح بادشاہِ نوجوان، دنیا داماد، دولھا، خوش، خرّم، خوشحال کو کہتے ہیں۔ [۱] [۱۔ غیاث اللغات ص ۴۸۰۔ لغاتِ کشوری ص ۵۴۷۔ لغات فیروزی ص ۴۰۰۔ شرافت]
اور اصطلاح صوفیہ میں نوشاہت کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہر، دوسرا باطِن، نوشہ من حیث الظاہر اُس شخص کو کہتے ہیں جس کی نئی شادی ہو، یعنی اُس کا اپنے محبوبِ مجازی سے واصل ہونے کا پہلا دن ہو، اور وہ امتیازی لباس کے ساتھ اپنے تمام ہمراہیوں سے ممتاز نظر آئے، اُس وقتِ خاص میں وہ بسبب نوشاہت کے اپنے سب ہمراہیوں کا سردار ہوتا ہے، اُس کے ہمراہیوں کو عُرفِ عام میں بَراتی (جانجی) کہتے ہیں، سب براتی اُس کے طفیلی اور بمنزلہ رعیت ہوتے ہیں، اگرچہ اُس کے ہمراہی بعض حیثیتوں میں اس سے اعلیٰ بھی ہوں، مثلاً کوئی حاکمِ یا رئیس یا بزرگ ہو مگر تاہم جب کوئی اُن سے پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ بجائے اپنا منصب و مرتبہ بتانے کے اُس وقت یہی کہیں گے کہ ہم براتی ہیں، کسی کی حکومت یا ریاست یا بزرگی اُس وقت وہ شان نہیں رکھتی جو نوشہ کی ہوتی ہے، ہر ایک براتی کی شخصیت منصبِ نوشاہت کے مقابلہ میں محو و مضمحل ہوجاتی ہے، اگر کوئی اجنبی آدمی بھی اس برات میں شامل ہو تو وہ سب سے پہلے نوشہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرے گا، گویا کہ اُس وقتِ خاص میں نوشہ بمنزلہ بادشاہ کےہوتا ہے، اور سب براتی اُس کے طفیلی اور رعیّت ہوتے ہیں، اگرچہ گروہِ برات میں جزوی فضیلت والے کئی لوگ موجود ہوں لیکن اُس وقتِ خاص میں فضیلتِ کُلی نوشہ کو ہوتی ہے، اور اگر برات میں نوشہ موجود نہ ہو تو وہ برات کہے جانے کی مستحق نہیں ہوسکتی، اس لیے برات میں نوشہ کا ہونا نہایت لازمی اور ضروری ہوتا ہے۔
اور نوشہ من حیث الباطن اس شخص کو کہتے ہیں جس کو اپنے محبوبِ حقیقی سے وصول حاصل ہو، یہاں تک کہ اپنی ہستی موہوم کو فنا کر کے اُس کی ذاتِ پاک سے بقا حاصِل کرے، حقیقی نوشہ ذاتِ اقدس رحمۃ للعالمین سید المرسلین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، سب انبیائے کرام و اولیائے عظام بلکہ جمیع کائنات اُسی کی برات ہے حدیث شریف قُدسی ہے لولاک لما خلقت الافلاک، [۱] [۱۔حدیثِ لولاک جو متن میں درج ہے یہ روایت بالمعنے ہے، صحیح الفاظ یہ ہیں لولاک لما خلقت سماء ولا ارض ۱۲] اور حدیث شریف یا محمّد انا وانت وما سوٰک خلقتُ لا جلک، [۱] [۱۔ مکتوبات امامِ ربّانی دفتر دوم مکتوب ہفتم ۱۲ شرافت] اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ اگر اُس نوشہ کا ظہور نہ ہوتا تو کوئی چیز بھی عالمِ خلق و امر سے موجود نہ ہوسکتی، تمام عالمِ علوی و سفلی، ظاہری و باطنی، صوری و معنوی اسی نوشہ کے طفیلی ہیں، جیسا وصول بدرجۂ اتم ذاتِ باری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوا اس کی نظیر اولین و آخرین میں کہیں موجود نہیں، اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو مظہر اتم اور انسانِ کامل کہتے ہیں، واقعۂ معراج اسی کے وصول و تقرّب کا تذکرہ ہے، جب مقامِ قابَ قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱) پر فائز ہوئے تو حجابِ کثرت اٹھائے گئے، حقیقتِ وحدت سے رُوشناس کرائے گئے، وفی انفسکم (الذاریات۔ ع ۱) کا پردہ چاک کیا گیا، اسمِ احمد کے میم کا قصّہ پاک کیا گیا، جب نقابِ غیریت دور ہوا، تو توحیدِ مطلق کا ظہور ہوا، ھو الاوّل والاٰخر والظاھر والباطن (الحدید۔ ع ۱) کا نتیجہ کھُلا، لقد راٰی من اٰیٰت ربّہ الکبرٰی (النجم۔ ع ۱) کا غنچہ کِھلا، یہی مقامِ نوشاہت کا اصل الاصول ہے، اُسی رات ذاتِ محمدیہ کو ملا اعلٰے میں نوشہ مقرر کیا گیا، اِسی واسطے نوشاہت کی رات یعنی لیلۃ المعراج کو وہ شرف حاصل ہے جو لیلۃ القدر کو ہے، بلکہ عاشقانِ جمال محمدیہ علیہ الصّلوٰۃ والتحیۃ کے نزدیک یہ رات تمام سال کی راتوں سے افضل و اشرف ہے کہ اس میں حبیب و محبوب کا وصال ہوا فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی (النجم۔ ع ۱)
منصبِ نوشاہت ایک ایسا خاص منصب ہے جس کی کیفیت وجدانی ہے بیانی نہیں ہر ایک نبی اور ولی کو اس منصب سے اپنے اپنے زمانہ میں حسبِ استعداد حصہ ملا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کی تعبیت میں ہر ایک عہد میں نسبتِ نوشاہت کسی نہ کسی بزرگ میں جلوہ گر ہوتی رہی، اسی وجہ سے سلسلۂ نظامِ عالم مربوط رہا۔
اگرچہ اس مقام سے تبعیت نبوی میں اکثر اولیا و اقطاب کو وراثتًا حصہ پہنچتا رہا، لیکن اس حقیقت کا پورا انکشاف، اور اس مقامِ عالی کو پوری نسبت، اور اِس منصبِ بزرگ کا اصلی ظہور، خاص طور پر مظہر اتم ذاتِ کردگار، مصدرِ اعمِ صفاتِ پرور دگار، وارثِ کمالاتِ نبوّتِ احمدیہ، خاتم مقاماتِ ولایت محمدیہ، مرکزِ دائرہ توحید، قطبِ فلکِ تجرید، سیّد الاولیا، امام الاصفیا، حضرت شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ بابرکات پر ہوا، آپ کو خلعتِ نوشاہت عطا کر کے تمام اولیائے متقدمین و متاخرین کا نوشہ مقرر کیا، اور سب کو آپ کا طفیلی یا براتی بنایا گیا، اگرچہ جزوی فضیلت ہر ایک بزرگ کی ظاہری و محقق ہے لیکن اس منصبِ خاص میں آپ کو سب اولیا اللہ پر فضیلتِ کلّی حاصل ہے۔مقاماتِ ولایت میں بعض مقامات تو مشہور و معروف ہیں، مثلاً قطبیت، غوثیت محبوبیت، امامت وغیرہ کیونکہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک ہر زمانہ میں کئی بزرگوں کو اِن مناصب سے سرفرازی ہوتی رہی، اور یہ مناصب اکثر زبا نزد صوفیہ رہے۔
اور بعض مقامات غیر مشہور ہیں، اس کی یہ وجہ ہے کہ جب کسی بزرگ پر بوقتِ ریاضت و مجاہدہ یا محض فضلِ ایزدی سے کسی نئے مقام کا انکشاف ہوا تو اس کی حقیقت ظاہر ہوئی، مثلاً قیومیت، نوشاہت وغیرہ۔
منصبِ قیومیت بھی انہیں مناصب میں سے ہے جس کا ہزار سال تک کچھ نشان ظاہر نہ ہوا، کسی کتابِ تصوّف میں اس کا تذکرہ نہیں پایا جاتا، لیکن جب امامِ ربّانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ پر اس مقام کی حقیقت کھلی، اور وہ اس منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اس کو ظاہر کیا، اور وہ قیومِ اوّل ہوئے جیسا کہ کتبِ نقشبندیہ سے صاف ظاہر ہے، اب اس کے بعد کوئی شخص اس حقیقت سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
ایسا ہی یہ منصبِ نوشاہت بھی ہزار سال کے بعد قطب الاقطاب حضرت شاہ حاجی محمد گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ پر منکشف ہوا، اور وہ اس کی حقیقت سے متحقق ہوئے تو اُن کو نوشہ کہا گیا، اور تمام موجودات نے بزبانِ حال اُن کی نوشاہت کو تسلیم کیا، اس کی حقیقت ظاہر ہونے کے بعد اب کسی شخص کو اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
نوشاہت کی خصوصیّت
جتنے مقاماتِ ولایت مشہور و متعارفِ صوفیہ ہیں، ان مقامات کے حصول میں کئی بزرگ باہم مشارک ہیں، مثلاً۔
غوثیت سینکڑوں کی تعداد میں اولیاء اللہ اس مقام پر فائز ہوئے مثل حضرت غوث الاعظم جیلانی رحمۃ اللہ علیہ و شاہ قمیص قادری رحمۃ اللہ علیہ و شاہ کمال کینتھلی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے۔
قطبیت اس سے بھی بیشمار اولیاء متحقق ہوئے مثل حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ و شیخ اکبر محی الدین عربی رحمۃ اللہ علیہ و شیخ عبد الوہاب متقی قادری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے۔
محبوبیت اس سے بھی بطورِ خاص دو بزرگ مشرّف ہوئے، حضرت محبوب سبحانی غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔
امامت اس سے بھی ائمہ اثنا عشر بالترتیب فائز المرام ہوئے، ان کے بعد بھی کئی بزرگوں کو یہ منصب ملا۔
قیومیت اس سے بھی چار شخصوں کو حصہ ملا، حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ خواجہ معصوم سرہندی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ حجۃ اللہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ محمد زبیر مجددی رحمۃ اللہ علیہ۔
اِن مقاماتِ ولایت میں صرف ایک منصبِ نوشاہت ایسا مقامِ خاص ہے جو آج تک سوائے حضرت شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کو نہیں ملا، اور تمام امتِ محمدیہ میں صرف آپ کی ایک ہستی اس منصب بزرگ سے مشرف ہوئی کوئی فرد بشر اولیائے متقدمین یا متاخرین میں سے اس مقام میں آپ کا شریک نہیں، خدائے واحد لا یزال نے اپنی رحمتِ خاصہ سے اس عہدۂ جلیلہ کےلیے تمام جماعت اسلامیہ میں سے شخصِ واحد کو منتخب کیا، واقعی قدرت کا انتخاب ایک اعلیٰ انتخاب ہوتا ہے، واللہ یختصّ برحمتہٖ من یشاء (البقرہ۔ ع ۱۳)
نوشاہت کی حقیقت
مقامِ نوشاہت تمام مقاماتِ ولایت کا جامع ہے، سارے مقامات و مناصب کے آثار اس میں پائے جاتے ہیں، گویا کہ تمام مقاماتِ ولایت لوازم نوشاہت سے ہیں، اور مثل اجزا کے ہیں، اور مقامِ نوشاہت مثل کل کے ہے، جس کو نوشاہت کا منصب ملا، اُس کو ضمنًا سب مقامات کا وصول حاصل ہوا، تو اس سے ظاہر ہے کہ نوشہ کا لقب پانے والا تمام کمالاتِ نبوت اور مقاماتِ ولایت کا حقیقی وارث ہوتا ہے۔
سنتِ الٰہی اس طرح پر جاری رہی ہے کہ عہد سابقہ میں جب جہالت کا شیوع اکثر ہوجاتا، اور دین میں سستی ہوجاتی تو ایک صاحبِ شریعت اولو العزم نبی مبعوث ہوتا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہزار ہزار سال کے بعد مبعوث ہوئے، چونکہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تھا، اس لیے حسب الارشاد علماء امّتی کا نبیاء بنی اسرائیل دین کی سستی کو مٹانے اور بِدعات کو دور کرنے کےلیے ہزار سال کے بعد حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اور کمالاتِ نبوّت و ولایت آپ کو مرحمت کیے، اور منصبِ نوشاہت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مخصوص تھا، اور مدتِ ہزار سال تک کوئی شخص کلیۃً اس سے سرفراز نہیں ہوا تھا، وہ نیابتِ نبوی میں آپ کو موصول ہوا، اور آپ نے اس نسبت سے مشرف ہوکر از سَرِ نو دین اسلام کے حقائق کی تجدید و ترویج کی۔
مقامِ غوثیت
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کے بزرگوں میں غوثیت کے مقام سے بھی مشرّف ہوئے۔ [۱] [۱۔ مکاتیب شریفہ مکتوب صد دیکم ۱۰۱ ؍ ۱۲]
مقامِ قطبیت
آپ کو قطب الاقطاب کا مرتبہ بھی حاصل ہوا، بلکہ آپ کے خلفا بھی قطبیّت سے سرفراز ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۵۲۔ کنز الرحمت ص ۱۱۰]
مقامِ فردیّت
آپ کو مقامِ فردیت بھی حاصل ہوا کما ھو ظاھر من کتاب ثواقب المناقب۔ [۱] [۱۔ ثواقب المناقب ص ۱۲۷]
نیز روضۃ القیومیہ رکن دوم میں لکھا ہے کہ ’’آپ نہایت عزیز الوجود تھے‘‘[۱] [۱۔ روضۃ القیومیہ رکن دوم ص شرافت]
اور حضرت مُلّا شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ جماعت جو خاص الخاص ہے اور جس کا وجود نہایت عزیز ہے وہ مفرد ہے، اور اسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اَور کچھ مطلوب نہیں، اور کوئی چیز اس سے باز نہیں رہتی، اور وہی محبوبِ خدا ہے‘‘[۱] [۱۔ سکینۃ الاولیا ص ۱۲۷]
نیز فرمایا ہے ’’فقیروں میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ ان کا مرتبہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں یہ فرمایا ہے بی یسمع وبی یبصر وبی یبطش وبی یمشی (حدیثِ قُدسی) یعنی مجھی سے سنتا ہے اور مجھی سے دیکھتا ہے اور مجھی سے پکڑتا ہے اور مجھی سے چلتا ہے، اور جنہیں ایسا مرتبہ نصیب ہے وہ خال خال ہیں، وہ دوگانگت، غربت، خدمت سے بَری ہیں، اس واسطے ان کو مفرد کہتے ہیں۔‘‘ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۸ شرافت]
اِن عبارات سے آپ کی فردیّت اظہر ہے۔
مقامِ محبوبیت
روضۃ القیومیہ رکنِ دوم میں لکھا ہے کہ ’’آپ کا جذبہ نہایت قوی تھا‘‘ اور تمام کتب سلسلہ نوشاہیہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ طریق جذب سے واصل باللہ ہوئے۔
اور حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف میں لکھتے ہیں کہ ’’طریق جذب مرادوں اور محبوبوں کا طریق ہے‘‘۔
اس سے ثابت ہوا کہ آپ کو مقامِ محبوبیت و مرادیت حاصل تھا، اور آپ محبوبِ الٰہی تھے۔
مقامِ صدّیقیت
یہ مقام بھی آپ کے خصائص میں سے ہے، آپ نے اپنی نظرِ کیمیا نظر سے کئی خلفاء کو بھی اس مقام سے بہرہ ور فرمایا، مثل حضرت شیخ پیر محمد سچیار نو شہروی رحمۃ اللہ علیہ کے کہ وہ آپ کی توجہ سے مقامِ صدیقیت سے مشرف ہوئے۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ۱۲]
مقامِ امامت
حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو منصبِ امامت پر فائز فرمایا، اور ارشاد کیا کہ اب اس کے پیر بھایوں سے کوئی اس کے برابر نہیں ہے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۲۷]
صاحب خزینۃ الاصفیا نے لکھا ہے کہ آپ طریقہ نوشاہیہ کے امام و پیشوا ہوئے۔
مقامِ گنج بخش
آپ عشق اللہ میں مستغرق تھے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، ہاتفِ غیبی نے آپ کو نوشہ اور گنج بخش کہ کر پُکارا، اسی وقت ہر کہِ دمہِ آپ کو نوشہ گنج بخش کہنے لگے۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الشیخ ۱۲]
صاحبِ ہفتاد اولیا نے لکھا ہے کہ ’’شاہ سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا کیا، اور ساتھی ہی نوشہ گنج بخش کا خطاب بھی دیا، اس کے بعد آپ ہدایت خلق میں مصروف ہوگئے۔‘‘ [۱] [۱۔ ہفتاد اولیا ص ۴۲۳ شرافت]
ف فقیر شرافت عافاہ ربہٗ کہتا ہے کہ لفظِ گنج بخش اسمِ الٰہی الوھّاب کا ترجمہ ہے، یعنی بغیر کسی عوض اور غرض کے بے انتہا بخشش کرنے والا، ھِبَہ حقیقتاً اُس عطیہ کا نام ہے جس میں کوئی غرض نہ ہو، اور اگر بدلہ لینے کے واسطے بخشش کرے تو وہ واھب نہیں کہلائے گا بلکہ بایع (بیچنے والا) شمار کیا جائے گا، لہٰذا واھب اور وھّاب فی الحقیقت خدائے قدّوس ہے۔ کتاب شمس المعارف الکبرٰے میں ہے اعلم انّ الوھّاب ھو معطی العطیّۃ الخالیۃ عن الاغراض فاذا کثرت العطیّات والصّلات سمّی صاحبہا وھّاب ولا یتصوّر الّا من اللہ تعالٰی وھو الوھّاب من غیر عوض وقد وھبک النظر والسّمع والشّمّ والذّوق والعافیۃ والمشیئۃ والا یجاد کمّلک بالخلقۃ لتجیب الدّاعی۔[۱] [۱۔ شمس المعارف الکبرٰی ص ۴۸] انتھٰی۔
جو شخص اسمِ الوھّاب کا مظہر اتم ہو اُس کو اِس طائفہ علیہ کی اصطلاح میں گنج بخش کہتے ہیں، جس کو یہ لقب عطا ہو اس پر اسمِ الوھّاب کے تمام کمالات منکشف ہوجاتے ہیں، شمس المعارف الکبرٰے میں ہے اعلم انّ لعبد اذا صدق مع اللہ وتخلّق بھٰذا الاسم رای جمیع الا کوان تخدمہ بالمواھب ومن اکثر ذکرہٗ فتح اللہ علیہ بالمواھب۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۹]انتھٰی۔
مقامِ فقر
آپ نے فرمایا ہے میں کوئی شیخ یا رند یا قلندر نہیں ہوں، دنیا میں فقیر ہی رہا ہوں، اور اب دنیا سے فقیر ہی جا رہا ہوں۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۸۸ شرافت]
اِس سے ثابت ہوا کہ آپ کو مقامِ فقر پورا حاصل تھا، فقر کی تعریف میں کتبِ مشائخ میں بیشمار اقوال موجود ہیں، اس جگہ سب کا احصا نہیں ہوسکتا، صرف ایک بزرگ شیخ جمال الدین احمد ہانسوی الخطیب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر اجودھنی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد فقر کی تعریف میں نقل کیا جاتا ہے، وہ اپنے رسالہ ملہمات میں لکھتے ہیں۔
الفقر خلق شریف یتولّدمنہ الصّلاح والعفّۃ والزّھد والورع والتّقوٰی والطّاعۃ والعبادۃ والجوع والفاقۃ والمسکنۃ والقناعۃ والمروّۃ والفتوۃ والدّیا نۃ والصّیانۃ والا مانۃ والسّھر والتھجد والخضوع والخشوع والتذتل والتّواضع والتّحمل والکظم والعفو و الا غماض والاشفاق والانفاق والایثار والاطعام والا کرام والاحسان والاعراض والاخلاص والانقطاع والا نفصال والصّدق والصّبرو السّکوت والحلم والرّضاء والحیاء والبذل والجود والسّخاوۃ والخشیۃ والخوف والرّجاء والرّیاضۃ والمجاھدۃ والمراقبۃ والموافقۃ والمرافقۃ والمداومۃ والمعاملۃ والتّوحید والتّھذیب والتجّرید والتّفرید و السّکوت والوقار والمداراۃ والمواساۃ والعنایۃ والرّعایہ والشفقۃ والحفاوۃ والشّفاعۃ واللّطف والکرم والتعقد والشکر والفکر والذکر والحرمۃ والادب والاعتصام والاحترام والطّلب والرّغبۃ والغیرۃ والعبرۃ والبصیرۃ والیقظۃ والحکمۃ والحسبۃ والھمّۃ والمعرفۃ والحقیقۃ والخدمۃ والتّسلیم والتّفویض والتّوکّل والتّبتّل والیقین والثقۃ والغناء والا ستقامۃ وحسن الخلق وکلّ فقیر وجدت فیہ ھٰذہ الصّفات سمّی فقیرًا کاملًا واذا فقدت لم یسمّ فقیرًا۔[۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۶۸ شرافت] انتھٰی۔
مقامِ وراثۃ الانبیا
حضرت قاضی سلطان محمود صاحب قادری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ مسند آرائے اوان شریف فرمایا کرتے تھے کہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو مقامِ وارثۃ الانبیا حاصل تھا۔
ف ابو داؤد و ترمذی میں بروایت ابو درداء رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ فرمایا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء یعنی گروہِ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
جاننا چاہیے کہ علماء دو قسم ہیں، ایک علمائے راسخین جن کو علمائے ربّانی علمائے آخرت، اربابِ باطن، صوفیہ، اولیاء اللہ کہتے ہیں، دوسرے علمائے غیر راسخین، جن کو علمائے نفسانی، علمائے دنیا، اصحابِ ظاہر، کہا جاتا ہے، مقدم الذکر علما صاحبِ حال ہیں، ان کا استناد کشف و عیان پر ہے، اور موخر الذکر علما صاحبِ قال ہیں، ان کا استدلال حجۃ برہان پر ہے، ثواقب المناقب میں حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد منقول ہے، اعلموا اخوانی انّ مستند الصّوفیۃ الکشف والعیان لا الحجّۃ والبُرھان حضرت مولانا روم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
گربا ستد لال کارِ دیں بُدے |
|
فخر رازی راز دارِ دیں بُدے |
تو اب ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مِصداق علمائے ظاہر تو ہو نہیں سکتے کیونکہ یہ علم کبھی منجر بفساد بھی ہوجاتا ہے۔
علم کہ از دے دوجہاں روشن ست |
|
طُرفہ از و رہبر وہم رہزن ست |
بلکہ اکثر فرقہ بندی اور حسد و ریا و تصنّع و کبرو عجب کو اس میں بڑا دخل ہے، اسی واسطے عالم کی گواہی دوسرے عالم پر شرعًا مقبول نہیں، کتاب ہدیہ مجددیہ میں ہے ذکر فی المبسوط فی مذھب مالک انّہٗ لا یجبوز شہادۃ القاری یعنی العلماء لا نھم اشدّ الناس تحاسدًا اوتباغضًا اور حدیث شریف میں ہے اتقوا من علماء السّوء۔ نیز حدیث شریف میں ہے انّ اشدّ الشر شرار العلماء وانّ خیر الخیر خیار العلماء۔ اور قوۃ القلوب میں حدیث شریف درج ہے یکون فی اٰخر الزّمان علماء یغلق علیہم باب العمل ویفتح علیہم باب الجدال۔ کنز العّمال جلد چہارم میں ہے کہ ابنِ عسا کرنے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے شہادۃ المسلمین بعضہم علٰی بعضٍ جائزۃ ولا تجوز شہادۃ العلماء بعضہم علٰی بعضٍ لانّھم حسّد۔ حضرت امامِ ربانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف کے دفتر اول مکتوب چہل ہفتم میں لکھتے ہیں ’’علمائے دنیا جن کا مقصود ہمہ تن دنیا کمینی ہے ان کی صحبت زہر قاتِل ہے، اور ان کا فساد متعدی ہے۔
عالمِ کہ کامرانی و تن پروری کند |
|
او خویشتن گُم ست کرا رہبری کند |
گذشتہ زمانہ میں جو بلا اسلام پر آئی وہ اسی جماعت کی کمبختی کے باعث تھی، بادشاہوں کو انہوں نے ہی بہکایا، بہتر مذہب جنہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا ہے ان کے مقتدا اور پیش رَو یہی بُرے علما ہیں، علما کے سوا ایسے لوگ بہت کم ہیں جو گمراہ ہوئے ہوں اور ان کی گمراہی کا اثر اور لوگوں تک پہنچا ہو۔‘‘
اِن احادیث پر غور کرتے ہوئے ظاہر ہوتا ہے کہ حدیثِ وراثت کا صحیح مصداق علمائے باطِن ہیں، کیونکہ ان کا علم صلاح و تقوٰے و ورع کا مبدا ہے، اخلاص و خوف و تواضع و انکسار اس سے پیدا ہوتا ہے جو اوصافِ انبیا سے ہیں، حضرت شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں الفقراء بین العلماء کالبدر بین کواکب السّماء۔
کتاب مباہج الاعلام میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے قال رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم العلماء ورثۃ الانبیاء فکلّ علٰی قدر ارثہٖ وارثہٗ علٰی قدر نورہٖ ونورہٗ علٰی قدر فتحہٖ وفتحہٗ علٰی قدر صفاء قلبہٖ وصفاء قلبہ علٰی قدر معرفتہٖ بربّہٖ ومعرفتہ بربّہ علٰی حسب ما سبق لہٗ من وجود حبّہٖ وحقیقۃ الارث ان ینتقل المورث الی الوارث علی الصّفۃ الّتی کان بھا عند المورث عنہ غیر انّ علماء الباطن احقّ بالارث و اولٰی واقرب نسبۃ واعلٰی لانّ علمہم تلزمہ الخشیۃ تکشفہ العظمۃ فکلّ صاحب علم لا خشیۃ لہٗ فلیس باھل ان یکون وارثًا قال صلی اللہ علیہ وسلم العلماء ورثۃ الانبیاء ای العلماء باللہ فان العلم باللہ یورث الخشیۃ۔ انتھٰی۔
اقوالِ مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام کے حقیقی وارث یہی جماعتِ صوفیہ ہیں جن کو علمائے راسخین کہا گیا ہے، جنہوں نے کمالاتِ ولایت و نبوت کو حاصل کیا، اور اتباعِ شریعت محمدیہ میں بدایت سے نہایت تک متمسک رہے، وہی مقامِ وراثۃ الانبیا پر فائز ہوئے۔
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ مقام بوجہِ اتم حاصل ہوا، اور اس کی پوری حقیقت آپ پر منکشف ہوئی، اور مقامِ وراثۃ الانبیا کے حقائق سے متحقق ہوئے اسی واسطے آپ کو وارث الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔
مُجددیتِ کبرٰے
آپ خلعتِ تجدید سے بھی سر فراز ہوئے، اور ہزار سال کے مجدد اکبر ہوئے، صاحبِ رسالہ قادری نے لکھا ہے۔
’’امام الائمہ آخر الزمان، راہنمائے انس و جان، رونقِ باغِ قدسیان، رہبرِ دین، مرشدِ راہِ متین، قطب الاقطاب حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش ابنِ حاجی علاو الدین رضی اللہ عنہم قادری چشتی امام الطریقہ ہیں، آپ ہی سے خاندان پاک قادری مجددی نوشاہی ہے، اب غور طلب بات صرف اتنی ہے کہ نوشہ کے معنی کیا ہیں، تو لا محالہ یہی کہا جائے گا کہ نوشہ اور مجدد کے ایک ہی معنی ہیں، یا یہ دونو الفاظ مترادف ہیں، پس ثابت ہوا کہ حضرت ممدوح رحمۃ اللہ علیہ قادری خاندان میں دوسرے ہزار سال کے مجدد تھے‘‘۔
سنن ابی داؤد و مسند حسن بن سفیان و مسند بزار و معجم اوسط طبرانی و کامل ابن عدی و مستدرک حاکمِ و حلیہ ابو نعیم و مدخل بیہقی میں بروایتِ حضرت ابو ہریرہ رحمۃ اللہ علیہ مروی ہے کہ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انّ اللہ یبعث لھٰذہ الامّۃ علٰی رأس کلّ مائۃ سنۃٍ من یجدد لھا امر دیہا (مشکوٰۃ باب العلم) یعنی اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد مبعوث کرتا رہے گا، جو امورِ دین میں تجدید کیا کرے گا۔
مرقاۃ الصعود شرح سنن ابی داؤد میں اس حدیث کے تحت میں لکھا ہے فاقول ھٰذ الحدیث اتفق الحفّاظ علٰی صحتہٖ منہم الحاکم فی المستدرک والبیھقی فی المدخل۔ انتھٰی۔
اور حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ رسالہ منبئتہ بمن یبعثہ اللہ علیٰ راس المأتہ میں اس حدیث کے بارہ میں لکھتے ہیں اتفق الحفّاظ علٰی صحتہٖ۔ انتھٰی۔
اور سید صدّیق حسن خاں محدّث رحمۃ اللہ علیہ جج الکرامہ میں لکھتے ہیں وقد اتفق الحفّاظ علٰی تصحیح ھٰذا الحدیث۔ انتھٰی۔
اس حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ ہر سو سال کے بعد ایک شخص علمائے راسخین میں سے منتخب کیا جاتا ہے جس کو مجدّد کہتے ہیں جو مسندِ نبوّت پر متمکن ہوکر ہدایت خلق اللہ کیا کرتا ہے، اور کفر و شرک و ضلالت و بدعات کی تاریکیوں کو مٹاکر اسلام کی حقانیت کو ظاہر کرتا ہے، تبلیغ ظاہری کے علاوہ قوّتِ روحانی سے بھی دین حق کی ترویج و تجدید کرتا ہے۔
مکتوباتِ امامِ ربانی دفتر دوم مکتوب چہارم میں ہے کہ مجدد وہ ہوتا ہے کہ جو فیض اس مدت میں امتوں کو پہنچنا ہوتا ہے اسی کے ذریعے پہنچتا ہے، خواہ اس وقت کے اقطاب و اوتاد ہوں اور خواہ ابدال و نجبار‘‘۔
ف اگر کوئی شخص کہے کہ ہزار سال کے مجدد حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ تھے جیسا کہ عام مشہور ہے، تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک صدی کے بعد تمام دنیا کے واسطے صرف ایک ہی مجدد مبعوث ہو بلکہ ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم میں علیٰحدہ علیٰحدہ مجد دین کا ہونا ممکن ہے، امام شہاب الدین ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انّہ لا یلزم ان یکون فی رأس مائۃ سنۃ واحد۔ انتھٰی۔اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ رسالہ منبتہ میں لکھتے ہیں لا یلزم منہ ان یکون المبعوث علی رأس المائۃ رجلًا واحدًا بل وقد یکون اکثر۔ انتھٰی۔
اور شیخ الاسلام بدر الدین ابدال رحمۃ اللہ علیہ رسالہ مرضیہ فی نصرۃ مذہب الاشعریہ میں لکھتے ہیں وقد یکون اثنین وجماعۃ ان لم یحصل الاجماع علٰی واحد بعینہٖ۔ انتھٰی۔
اسی واسطے ہر ایک صدی کے سَر پر متعدد مجددین ہوئے ہیں، جن کی مجددیت کو جماعتِ علما نے تسلیم کیا ہے، اور اپنی اپنی کتابوں میں اُن کے تذکرے کیے ہیں، چنانچہ کتاب نجم الثاقب وقرۃ العیون و مجالس الابرار میں ہر ایک صدی کے مجددوں کی مفصل فہرست مرتب ہوئی موجود ہے، اس جگہ تمام اسماء کا ذکر کرنا موجب طوالت ہے۔
نیز مجدّدین کے متعدد ہونے کی یہ بھی وجہ ہے کہ دینِ اسلام مختلف اجزا سے مرکب ہے، اور اس کے کئی شعبے اصول و فروع کے ہیں، اس لیے ہر ایک امر دین کا علیٰحدہ مجدد ہونا لازمی ہے، کیونکہ ہر ایک امر کی مجموعی خدمت کما حقہٗ سوائے نبی صاحبِ شریعت کے کوئی بجا نہیں لاسکتا، کیونکہ دائرۂ اسلام نہایت وسیع ہے، اور مجدّدین فردًا فردًا اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں۔
حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ الصعود شرح سنن ابی داؤد میں لکھتے ہیں۔ قال ابن الاثیر اختلف العلماء فی تاویل ھٰذا الحدیث کل واحد فی زمانہٖ و اشار وا الٰی قائم الذی یجدد للناس دینہم علٰی رأس کلّ مائۃ سنۃ وکان کل قائم قد مال الٰی مذھبہٖ وذھب بعض العلماء الٰی ان الاولٰی ان یحمل الحدیث علٰی وجہ العموم فان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم من یجدد لھا دینہا لا یلزم ان یکون المبعوث علٰی رأس المائۃ واحد بل قد یکون واحد او قد یکون اکثر فان انتفاع الامۃ بانفعھا وان کان انتفاعًا عامًا فی امور الدّین فان انتفاعہم لغیر ھم ایضًا اکثر مثل اولی الامر واھل الحدیث والقرّاء والوعاظ واصحاب الطبقات فی الزھد ینفعون بالمواعظ علی الزوم التقوٰی والزھد فی الدّنیا فالاحسن والاجود ان یکون ذٰلک اشارۃ الٰی حدوث جماعۃ من الا کابر المشہورین علٰی اعلٰی رأس کلّ مائۃ سنۃ یجدّدون للنّاس دینھم ویحفظونہٗ علیہم فی اقطار الارض ولٰکنّ الذی ینبغی ان یکون المبعوث علٰی رأس المائۃ رجلًا مشہورًا معروفًا مشارًا الیہ فی فن من ھٰذہ الفنون وقد کان قبل کلّ مائۃ ایضًا من یقوم بامر الدین وانّما المراد بالذکر من انقضت المائۃ وھو حیّ عالم مشہور مشارا الیہ۔ انتھٰی ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ اتحاف الاحبۃ ببیانِ حدیث المحبۃ میں لکھتے ہیں۔ ’’حقیقتِ محمدی را دَورات ست مثل دَوراتِ فلکی و نہایت ہر دورہ مانا کہ برسَرِ صد سال ست کہ ان اللہ یبعث لھٰذہ الامّۃ علٰی راس کلّ مائۃ سنۃ من یجدد امر دینہا ہر کرا کارے از دست بر آید کہ سببِ تقویت و تجدید و ترویجِ ایں امر گردو از ہر وادی کہ باشد داخلِ ایں بشارت ست و علما و مشائخ و امر اوحکّام وغیرہم ہمہ مصدوقِ ایں عنوان اند واعظم امور دریں باب ارشاد و ہدایت ست و تجدید و ترویج احکامِ سنت بالاتر ازیں کارے کہ مثمر سعادتِ ابدی و دولتِ سرمدی گردد نیست‘‘۔
حضرت شاہ غلام علی صاحب مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکاتیبِ شریفہ کے مکتوب ہشتادہشتم (۸۸) میں لکھتے ہیں ’’در حدیث شریف آمدہ کہ بعد ہر ماتہ مجددے پیدا شود کہ امرِ امت راتا زہ مے نماید، مجدد در سلاطین چنانچہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ، و مجّدد درامورِ دین در علما چنانچہ امامِ شافعی رحمۃ اللہ علیہ، و مجدد در صوفیہ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، و مجدد در اسرارِ علم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، و مجدد در افاضہ فیوض با کثرتِ خوارق حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ ایں مجدداں امرِ امت را تقویت فرمودہ اند، و شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ در حدیث مجدّد ست و علمِ حدیث را رواج بخشیدہ، و حضرت مجددِ الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دربیانِ مقامات طریقت و حقیقت ممتاز اند۔‘‘
اسی طرح ہزار سال کے بعد بھی متعدد مجددین کا ظہور ہوا، کیونکہ دنیا محلِ حوادث ہے، ہر وقت و ہر لمحہ اس کے حالات میں تغیر تبدّل واقع ہوتا رہتا ہے، لیکن ہزار سال کا زمانہ خاص طور پر انقلابِ طبائع و تغیرِ احوال میں غیر معمولی اثر رکھتا ہے، اس لیے ہزار سال کے بعد جو لوگ خلعتِ تجدید سے سرفراز ہوئے۔ وہ نہایت اکمل اور عزیز الوجود تھے۔
امامِ ربّانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف دفترِ اول مکتوب دو پست نہم (۲۰۹) میں لکھتے ہیں ’’جاننا چاہیے کہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے رحلت کر جانے سے ہزار سال بعد حضور کی امت کے اولیا جو ظاہر ہوں گے، اگرچہ وہ قلیل ہوں گے مگر اکمل ہوں گے تاکہ اس شریعت کی تقویت پورے طور پر کر سکیں۔‘‘
نیز مکتوبات دفتر دوم مکتوب چہارم میں لکھتے ہیں کہ ’’ہر سو سال کے بعد ایک مجدد گذرا ہے لیکن سو سال کا مجدد اور ہے اور ہزار سال کا مجدد اور جس قدر سو اور ہزار کے درمیان فرق ہے اِسی قدر بلکہ اس سے زیادہ دونو مجددوں کے درمیان فرق ہے۔‘‘
مجددیتِ الف
اِن حوالجات بالا سے معلوم ہوا کہ ہزار سال کے مجدد دین سو سال کے مجددوں سے اعلیٰ و افضل و مثیل صحابہ و نائب و قائم مقامِ انبیائے اولو العزم تھے، اور جیسا کہ گذشتہ نو صدیوں میں سلسلہ مجددین چلا آیا، اور ہر ایک صدی کے سَر پر متعدد مجددین مبعوث ہوئے، اسی طرح ہزار سال کے گذرنے پر مندرجہ ذیل مجددوں کا ظہور ہوا۔
حضرت مولانا ابو الحسنات محمد عبد الحی فاضل لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مجموعہ الفتاوٰے جلد دوم میں ہے ’’از معائنہ خلاصۃ الاثرفی اعیان قرن الحادی عشر وغیرہ واضح ست کہ از مجددینِ الف شہاب الدین رملی رحمۃ اللہ علیہ و مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بود ندو بس، واللہ اعلم‘‘۔
یہاں فاضِل لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نہیں لکھا، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ وہ مجدّد نہیں تھے، بلکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے علاوہ دوسرے بزرگوں کو بھی یہ شرف حاصل ہوا، اِسی طرح حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ سراپا کمالات بھی مجدّد الف ہوئے، اور سب کے وجود سے دینِ اسلام کو تقویت پہنچی۔
ہر ایک مجدد نے دین حقہ کی بڑی خدمت کی، حضرت مُلّا علی القاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ کی تجدید کی، اور حضرت مولانا شہاب الدین رملی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کی اشاعت کی، اور حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے اسرارِ توحید و طریقہ سلوک کو زندہ کیا اور حضرت شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے طریقِ جذب و اجتبا، علومِ باطن، تصفیہ قلوب عباد اللہ، تکمیل روحانیت، عشق حقیقی کی تجدید فرمائی۔
اور یہ بات اظہر و اجہر ہے کہ بہ نسبت تکمیل ظاہر کے تکمیلِ امور باطن کی مدارِ نجات اُس پر ہے زیادہ مفید و کار آمد ہوتی ہے، اور دین کا یہ جزو سب سے ضروری اور بڑا ہے، جس مجدد نے اس کام کی خدمت کی، وہ مجددِ اکبر ہوا اور بتواتر ثابت ہے کہ یہ کام حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات نے ہی کیا، لہٰذا ہزار سال کے مجدد اکبر آپ ہوئے۔
مقامِ جمع الجمع
آپ نے فرمایا ہے کہ اے دوستو! مجھے کوئی چیز نظریں نہیں آتی۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۵۷۔ ۳۵۹ شرافت]
مطلب یہ کہ سوائے خدا تعالیٰ کے مجھے کوئی چیز مشہور نہیں ہوتی، یہ کلام آپ کا مقام جمع الجمع سے خبر دیتا ہے، اور بمتابعتِ مرتضوی آپ کو عنایت ہوا ہے، اور بعینہٖ حضرت شاہِ ولایت علیہ السلام کے کلام کے مشابہ ہے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے ما رأیت شیئًا اِلّا رأیت اللہ معہٗ یعنی میں نے کسی چیز کو نہیں دیکھا مگر اللہ تعالیٰ کو اُس کے ساتھ دیکھا ہے۔
ف کتاب تعلیم غوثیہ المعروف بہ مرأۃ الوحدت میں ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے سالک کو فنا سے ترقی دیتا ہے، اور بقا عنایت فرماتا ہے، اور اپنے نور ذاتی سے اُس کو باقی کرتا ہے تو اس مرتبہ کو جمع الجمع و حیرتِ کبرٰے و بقا باللہ کہتے ہیں، چونکہ حال و مقام اربابِ قلوب کے خواص سے ہے اور مقام جمع الجمع مقامِ دلکشا ہے، پس جمع اصطلاح صوفیہ کرام میں مقابل فرق کو کہتے ہیں، اور فرق مراد ہے احتجاب حق بخلق، یعنی خلقت کو دیکھتا اور حق کو من کلّ الوجوہ غیر جانتا ہے، یہ مرتبہ علم الیقین مقام کاملین کا ہے، اور جمع عبارت ہے مشاہدہ حق بے خلق سے، یہ مرتبہ فنا سالک ہے لیکن جب تک سالک کی ہستی قائم ہے شہود حق بے خلق نہیں ہوسکتا، کہ ہستی سالک بھی جملہ خلق میں سے ہے، یعنی جب تک شہود میں سے اپنی ہستی نہ جاتی رہے، شہودِ حق بے حجابِ خلق میسر نہیں ہوتا، کیونکہ اگر سالک ہر دو عالم کو نہ دیکھے اور اپنی ہستی کو دیکھتا ہے تو ابھی فنائے اتم کو نہیں پہنچا خود باقی ہے، یہ مرتبہ عین الیقین مقام اکملین کا ہے، اور جمع الجمع مقصود ہے شہودِ حق قائم بخلق ہے یعنی سالک ذاتِ حق کو جمیع موجودات میں مشاہدہ کرتا ہے، جس نے جا بجا بصفاتِ مختلفہ ظہور کیا ہے، اور بقا باللہ سے یہ مطلب ہے کہ بعد الفناء رجوع الی البدایۃ یعنی فنا کے بعد سالک ہوشیار ہوکر بدایت و ابتدا کی طرف رجوع کرتا ہے، اور بدایت کو مرتبہ تفرقہ یعنی ادراک من حیث التعینات ہوتا ہے نظر مبتدی کی غیر ظاہر پر پڑتی ہے، اور یہ مقام موجبِ غفلت ہے، اور جب سالک اپنی بیخودی و فنائے اتم کے بعد قیود و تعینات و تشخصات سے باہر آکر پھر اعتبار تعینات کی طرف رجوع کرتا ہے، تو اُس وقت سالک کی نظر اوّل ظاہر پر کہ ذاتِ مطلق ہے پڑتی ہے، پھر اس کے نور ذاتی سے تعینات و تشخصات کو دیکھتا ہے، اوّل کو یعنی صاحبِ جمع کو صاحبِ حال اور ثانی کو صاحب جمع الجمع کہتے ہیں، اگرچہ حالتِ جمع الجمع سالک کو بسبب کشف کے صاحبِ حال کرتی ہے، اور یہ ہر دو مرتبہ باعتبار تعینات ہمدگر شریکِ حال ہیں لیکن بتامّل فرق بیّن پایا جاتا ہے، کیونکہ صاحبِ حال و صاحبِ جمع الجمع کو اگرچہ خلق و حق ہر دو کا شہود ہوتا ہے لیکن صاحب حال یعنی اکمل کو شہود خلق میں حق پوشیدہ ہوجاتا ہے اور شہود حق میں خلق، اور صاحب جمعین یعنی مکمل کو ایک کے شہود میں دوسرا غائب نہیں ہوتا، اور حجاب میں نہیں پڑتا، بلکہ ہر دَو کو جمع الجمع مشاہدہ کرتا ہےت، اس مقام کو بقا باللہ اور فرق بعد الجمع و سیر کُبرٰے و صحو بعد المحو و حق الیقین کہتے ہیں، یہ اقصائے مراتب عرفان میں سے ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ فرق سے یہ مراد ہے کہ سالک کے لیے خلق حجاب حق ہو، اور جمع سے یہ غرض ہے کہ سالک کے لیے حق حجابِ خلق ہو، اور جمع الجمع سے یہ مطلب ہے کہ سالک کے لیے نہ تو خلق حجابِ حق ہو، اور نہ حق حجاب خلق ہو، بلکہ خلق عین حق اور حق عین خلق منکشف ہو۔
مقامِ دلکشائش جمع جمع ست |
|
جمالِ جاں فزائش شمع جمع ست |
پس عارِف مکمل ہستی حق کو جمیع اوقات و احوال میں مشاہدہ کرتا ہے، اور اثنینیت وغیریت سالک کی نظر سے اصلاً مفقود و ساقط ہو جاتی ہے، اس مرتبہ میں نہ اشیا حجابِ رویت حق ہوتی ہیں نہ رویت حق حجابِ اشیاء کیونکہ عارف حقیقتِ انسانی میں جو مرتبہ الوہیت ہے پہنچ گیا ہے، اور جس طرح الوہیت کو وجوب و امکان مساوی ہے، اسی طرح اس عارفِ مکمل کو بھی خلق و حق میں حجاب نہیں رہتا، مخلوق کو معدوم محض اور حق کو موجود مطلق دیکھتا ہے، اور بطورِ حق الیقین جانتا ہے کہ مطلق نے ان وہمی قیدوں میں مقید ہوکر عبودیت کا اقرار کیا ہے، یہ مرتبہ عبدیت و خلافت حق ہے کہ بندگان حق کوحق کی تعلیم فرماتا ہے، ظاہر میں عبد اور باطن میں حق ہوتا ہے، گودر اصل ابتدا و انتہا میں ذات کو کچھ تغیر و تبدل نہیں ہوا جو تھی وہی ہے، البتہ علم کا فرق ضرور ہے، اور یہ قابل سند ہے، یہ مقام برزخ البرازخ ہے کہ وجوب و امکان اعتدال کے مرتبہ پر ہوں کہ ایک کو دوسرے پر غلبہ نہ ہو۔ مرج البحرین یلتقیٰن بینھما برزخ لّا یبغیٰن (الرحمٰن۔ ع ۱) اس مقام میں سالک کو کثرت آئینہ وحدت اور وحدت آئینہ کثرت بَن جاتی ہے، یعنی وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت دیکھتا ہے، اور عارف متصرفِ عالم وسخّر لکم مافی السّمٰوٰت وما فی الارض (الجاثیہ۔ ع ۱) کا مصداق بَن جاتا ہے، اور صاحبِ اختیار ہوتا ہے، جب چاہتا ہے تجلّٰے حق کو اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے، اور جس صفت میں چاہتا ہے متصف ہوکر ان صفات کے اثر کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ متصف بصفاتِ حق و منخلق با خلاق اللہ ہوگیا ہے، اس لیے حضرت امیر المؤمنین علی کرم اللہ وجہہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ما رأیت شیئا الّا رأیت اللہ معہٗ یعنی نہیں دیکھا میں نے کسی شے کو مگر دیکھا میں نے اللہ کو اُس شے کے ساتھ وھو معکم این ما کنتم (الحدید۔ ع ۱) اس معیّت کو دیکھنا چاہیے اور یہی قابلِ اعتبار ہے۔
ہست رب الناس رابا جانِ ناس |
|
اتصالے بے تکیف بے قیاس |
جیسے رویتِ کثرت میں سالک وحدتِ حقیقی سے محتجب نہیں ہوتا، ایسے ہی رویت وحدت میں بھی کثرت محتجب نہیں ہوتا، چنانچہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
فرق چہ بود عین غیرانگا شتن |
|
جمع غیرش راعدم پندا شتن |
اگرچہ کسی مرتبہ و مقام کی حد و نہایت نہیں لیکن صوفیہ کرام نے اس مرتبہ کو انتہائے مقامِ عرفان میں لکھا ہے، اور یہ مرتبہ سالِک مطلق کا ہے۔ [۱] [۱۔ تعلیم غوثیہ ص ۱۳۷۔ ۱۳۸ شرافت]
کرامات
آپ کی کرامات لا تعدّ و لاتحصٰے ہیں، صاحبِ تذکرہ نوشاہیہ نے لکھا ہے لو کان البحر مدادًا و بنان الخلق اقلامًا وصرفوا الاعمار فی النر قیم لما کتبوا حرفًا من الوف خوارقہ العظم۔ یہاں چند کرامات آپ کے درج کیے جاتے ہیں۔
تصرّف
تصرّف کہتے ہیں اختیار کامِل کو جو ایک زبردست طاقت کی طرف سے تمام اشیاء مثلاً ارواح و اشباح پر عطا شدہ ہو، ان تصرفات کو تصرّف فی الوجود کہتے ہیں، اور یہ حضور کی ذات کو بدرجۂ کمال حاصل تھے۔
احیائے اموات
ایک روز حضور مسجد کی تعمیر کر وا رہے تھے، مزدور لوگ کام میں مصروف تھے، اور آپ بحالتِ استغراق پاس بیٹھے ہوئے تھے، اُستا جانی نجّار لکڑی چیر رہا تھا، لکڑی بڑی تھی، اُس کو ارّہ کرتے وقت دونو تختوں کو جدا کرنے کے لیے درمیان پھاناں لگایا ہوا تھا، اُستاجانی اُس کو اَڈّا سے نیچے اتر کر مضبوط کرنے لگا کہ ناگہاں وہ پھاناں اُڑگیا، اور اُس کا سَر درمیان آگیا، اور وہ لٹکنے لگا، لوگوں نے اُس کو لکڑی سے نکالا، اور شور و غوغا ہوا کہ فلان ترکھان فوت ہوگیا، آپ نے سنا تو اٹھ کر اس کے سَر کے پاس تشریف لائے، دیکھا کہ اُس کا سَر پاش پاش ہوگیاہے، حضور نے اپنے ہاتھ مبارک سے اُس کا سَر درست فرمایا، اور ایک باریک لکڑی لے کر اُس کے کانوں اور ناک میں ڈالی، اور جو منغر اُس کا باہر بہہ کر نکل آیا تھا اُس کو ٹھیک کیا اور فرمایا ’’بھائی مرنے کو وقت بہت ہے اب فقیروں کی بدنامی نہ کرو‘‘ اور حاضرین کو فرمایا کہ اس کے اوپر چادر ڈال دو، چنانچہ چادر ڈالنے پر فورًا وہ زندہ ہوگیا، اور اس کے بعد چھ سات سال تک زندہ رہا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۸۹۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۵۸۔ ثواقب المناقب ص ۱۱۱۔ کنز الرحمت ص ۶۱۔ ضیاء العارفین ص ۱۲۲۔ شرافت]
چوپان کو زندہ کرنا
منقول ہے کہ ایک شخص شہمیر نام آپ کی گائیں چرایا کرتا تھا اور نہایت مخلصین سے تھا، ایک دن عرض کرنے لگا یا قبلہ! کوئی شخص عالمِ ہے کوئی زاہد ہے، کوئی عاشِق ہے، کوئی معشوق ہے، کوئی عابد ہے، مجھ میں کوئی وصف نہیں، جب قبر میں مجھ سے سوال کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا، آپ نے فرمایا اچھا جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، چنانچہ صبح کو امر الٰہی سے اُس کا انتقال ہوگیا، اُس کے متعلقین نے اُس کی تجہیز تکفین کی، حضور کو جب خبر ہوئی تو اُس کی قبر پر تشریف لے گئے اور بلند آواز سے فرمایا اے چوپان! جلدی باہر آؤ ہماری گائیں تمہارے لیے منتظر کھڑی ہیں، اسی وقت حکمِ الٰہی سے قبر شَق ہوگئی، اور وہ زندہ باہر نکل کر قدمبوس ہوا، آپ نے پوچھا بتاؤ قبر میں کیا کچھ گذرا، اُس نے عرض کیا کہ یا حضرت جس وقت مجھ کو دفن کر کے چلے گئے تو فورًا منکر نکیر آگئے، اور مجھ سے خدا و رسول و دین کے متعلق سوال کیا، میں نے کہا کہ میں کوئی کام نہیں جانتا، صرف اپنے پیر حضرت نوشہ حاجی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی جانتا ہوں، وہ میرے پاس نشانی موجود ہے، جب انہوں نے حضور کا نام سنا تو میرے پاس سے چلے گئے، اسی وقت میرے لیے جنت الفردوس کا دروازہ کھل گیا، میں داخل ہونے کو تیار تھا کہ حضور کی آواز پہنچی، اور میں دوڑ کر آپ کے پاس حاضر ہوا۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۷۱۔ شرافت]
ہلاکتِ مویشیاں
منقول ہے کہ اوائل حال میں آپ کے دولت خانہ میں دو بھینسیں ہوا کرتی تھیں، آپ رات کا پہر رہتے ہوئے اُن کو بیلہ میں چرانے کے واسطے لے جاتے، اور خود کنارہ دریا پر مشغولِ عبادت ہوجاتے، ایک روز چوبدری مہماں تارڑ کا چَوپان حضور کی خدمت میں آیا، اور عرض کیا کہ یا قبلہ! اگر آپ بھینسیں میرے مویشیوں میں داخل کردیویں تو میں اُن کو چَرا لایا کروں اور آپ بفراغِ خاطِر عبادت کیا کریں، آپ نے فرمایا چوہدری مَہماں کی چراگاہ ہے، اور وہ بہت جابر شخص ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے تکلیف پہنچائے، چَوپان نے عرض کیا کہ یا حضرت! اُس کی دو تین سو بھینسیں ہیں، اُن میں سے دو بھینسوں کو وہ کِس طرح پہچان سکے گا، چنانچہ وہ لے گیا، ایک دن چوہدری مہماں کا اتفاقیہ وہاں سے گذر ہَوا دیکھا کہ وہ دونو بھینسیں دوسرے مویشیوں سے علیٰحدہ چَر رہی ہیں، چوپان کو بُلا کر دریافت کیا، اُس نے خوف سے سچ سچ بتا دیا کہ یہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بھینسیں ہیں، چوہدری نے چوپان کو سخت طمانچہ مارا، اور زجر و تو بیخ کی، نیز کہا کہ میں اُن سے بھی سمجھ لوں گا، چنانچہ چوپان نے یہ سرگذشت حضور کے آگے بیان کی، آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ ظالم شخص ہے، چوپان نے عرض کیا کہ مجھے اپنا تو کچھ فکر نہیں، صرف اس بات کا خوف ہے کہ وہ حضور کو نہ تکلیف پہنچائے، آپ نے فرمایا کہ ہمارا خدا حافظ ہے، اور جو تیری بے ادبی اُس نے کی ہے اُس کا ثمرہ بھی دیکھ لے گا، چنانچہ ایسا امر الٰہی ہَوا کہ دو تین روز میں اُس کی ایک سو چالیس بھینسیں مر گئیں، پھر وہ بمعہ متعلقین حضور کی خدمت میں آکر معافی کا خواستگار ہوا، اُس روز سے تمام لوگوں کے دل میں حضور کا ادب جا گزین ہوا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۹۴ شرافت]
تصرّف فی الاشباح
منقول ہے کہ آپ ہمیشہ دریا کی طرف اکثر آمد رفت رکھا کرتے تھے، اور یہ حضور کا طریقہ تھا کہ چلنے میں نظر برقدم رکھتے، دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے، اور غریب لوگوں کو سلام میں سبقت فرماتے، اور اہلِ حکومت سے کنارہ کش رہتے ایک روز دریا کی طرف جا رہے تھے، راستہ میں ایک نشست گاہ (بیٹھک) تھی، وہاں ایک چکلہ دار بیٹھا تھا، آپ نے اُس کو کوئی سلام تسلیم نہ کیا، اور آگے گذر گئے، اُس نے لوگوں سے کہا کہ یہ شخص بڑا مغرور معلوم ہوتا ہے، اس نے کوئی سلام و آداب نہیں کیا، لوگوں نے کہا کہ یہ درویش بزرگ ہیں، کسی سے الفت نہیں رکھتے، دنیا و اہلِ دنیا سے مجتنب رہتے ہیں، چکلہ دار نا بکارنے نے اپنی حکومت کے غرور سے گستاخانہ کہا کہ اگر وہ اب اس راہ سے واپس آیا، تو میں اُس کی گردن کا مُہرہ درست کروں گا، کسی شخص اخلاص مند نے جا کر حضور کے آگے یہ تمام سرگذشت بیان کی، اور کہا کہ اب حضور واپس جاتے ہوئے کسی دوسرے راستہ گذریں، ایسا نہ ہو کہ وہ تکلیف پہنچائے، آپ نے متبسم ہوکر فرمایا کہ فقیروں کی گردن کا مہرہ تو خدا تعالیٰ نے درست کر دیا ہَوا ہے، جس کا مُہرہ گردن نا درست ہوگا، وہی درست ہوگا، آپ کے یہ الفاظ فرمانے ہی تھے کہ چکلہ دار کی گردن کا مُہرہ ٹوٹ گیا، اور اس کا سر پیچھے چلا گیا، اور ہر گز بہتر نہ ہوسکا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۹۹]
زورِ ولایت
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ لاہور تشریف لے گئے تھے، ان دنوں وہاں ایک شاہی پہلوان شیر علی نام مغلزادہ بیجا پوری آیا ہوا تھا جو پہلوان پائے تخت کا خطاب رکھتا تھا، اُس نے افغانستان کے ایک پہلوان جنگی زور کو کشتی میں شکست دی تھی، اس لیے اُس کا شہرہ عام ہوگیا تھا، آپ کو شوق تھا کہ اُس کو دیکھیں، آپ ہمراہیوں سمیت اُس کے اکھاڑہ میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ورزش کر رہا تھا، آپ چونکہ بلند قامت جسیم اور طاقتور تھے، پائے تخت نے آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ کوئی پہلوان ہے، کہنے لگا اے جوان! اگر خواہش ہے تو میرے کسی شاگرد سے کشتی کرو، آپ نے فرمایا میں تو اُستاد سے کشتی لڑوں گا، چنانچہ آپ کپڑوں کے ساتھ ہی آگے بڑھے، پہلوان نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا، آپ نے ایسا دبایا کہ اس کے ہاتھ سے خون کے قطرے گرنے لگے، اُس نے سمجھ لیا کہ یہ بندے کی طاقت نہیں، یہ زورِ ولایت ہے اور آپ کے قدمبوس ہوا۔ [۱] [۱۔ رسالہ ص ۱۰۶۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۸۵۔ ثواقب المناقب ص ۶۷۔ کنز الرحمت ص ۳۹ شرافت]
سلبِ امراض
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے شیخ عالی جاہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ بارِ گوندلاں کا سیر فرماتے ہوئے موضع دیووال میں پہنچے، وہاں کا نمبر وار اُن کی خدمت میں آیا، اور عرض کیا کہ یا حضرت میرا ایک ہی فرزند ہے، اور عرصہ سے بیمار ہے، چالیس روز گذر چکے ہیں کہ اس نے منہ میں بھی کوئی چیز نہیں ڈالی، صرف چمچہ سے پانی اس کے منہ میں ڈالتے ہیں، اکثر بیہوش رہتا ہے پانچ چھ گھڑی کے بعد آنکھ کھولتا ہے، صرف رمق باقی ہے، زندگی کی کچھ امید نہیں، اگر حضور کچھ دعا فرمادیں تو شاید قبول ہوجائے، حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہ لڑکا تندرست ہوجائے گا، ہمارے درویش کو لے جاؤ، یہ علاج کرے گا، اور آپ کی طرف دیکھ کر فرمایا حاجی محمد! جاؤ، بزرگ کام بزرگوں سے ہی ہوتےہیں آپ تسلیمات بجا لا کر اُن کے گھر چلے گئے، اور بیمار کی چار پائی کے قریب بیٹھ گئے، اور پوچھا کہ کلام بھی کرسکتا ہے یا نہیں؟ اُس کی والدہ نےکہا یا حضرت اس پر بوجہ کمزوری آنکھ کھولنا بھی مشکل ہے کلام کیسی؟ آپ نے فرمایا اس کو بلاؤ تو سہی، والدہ نے بلایا کہ بیٹا! شاہ حاجی محمد آئے ہیں، آنکھیں کھول کر ان کے چہرہ مبارک کو دیکھو، بیمار نے آنکھیں کھولیں، اور بمجرّد دیدار پر انوار کے اُس کی رگوں میں کچھ طاقت پیدا ہوگئی، آپ نے فرمایا کچھ کھاؤ گے؟ اُس نے عرض کیا اگر کھچڑی ہو تو شائد کھا سکوں، اس کے کہنے پر فی الفور کھچڑی تیار کرائی گئی، پھر آپ نے فرمایا اس کو اٹھا کر بٹھاؤ، چنانچہ اس نے بیٹھ کر چند لقمے کھائے، پھر آپ نے فرمایا بھائی تمہارے گاؤں میں حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ آئے ہوئے ہیں اُن کی زیارت کے واسطے چلو، اُس نے کہا اگر کوئی پکڑ کر لے چلے تو شاید جا سکوں، آپ نے اُس کے والد کو فرمایا کہ اس کو بغلوں سے پکڑ کر اٹھاؤ، اور آہستہ آہستہ اپنے سہارے چلا کر لے چلو، جب اسی طریق سے حویلی کے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ اب اس کو چھوڑ دو خود بخود چلے گا، والد نے چھوڑ دیا، چنانچہ وہ بغیر کسی سہارے کے حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کمال خوش ہوئے، اور آپ کی طرف نظر کر کے فرمایا آؤ بابا! آگئے ہو، واقعی مرد اسی طرح کرتے ہیں، تم میرے پہلوان ہو اسی روز سے حضور کو پہلوانِ سخی کا خطاب ملا، اور وہ شخص بالکل تندرست ہوگیا۔ [۱] [۱۔ ؟؟]
نا بینا کا بینا ہوجانا
حضرت شیخ نور محمد سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک روز حضور جنگل کی طرف سَیر کو نکلے، میں بھی ہمراہ تھا، راستہ میں بارش شروع ہوگئی، ہم ایک موضع میں ٹھیر گئے، میں آپ کے پاؤں دبانے لگا آپ استراحت فرما گئے، مجھے پیاس لگی، میں ایک کنوئیں پر پانی پینے چلا گیا وہاں ایک مرد و عورت شتر سوار بھی پانی پینے کے لیے اُترے، میں نے اُن سے پوچھا کہاں سے آئے ہو، اور کہاں جاؤ گے؟ کہنے لگے کہ ہم خوشاب سے آئے ہیں اور چک ساہنپال میں حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جا رہے ہیں، میں نے خیال کہ یہ مکان شریف پر جا کر پریشان ہوں گے، اس واسطے ان کو بتا دیا کہ حضور اسی جگہ استراحت فرما رہے ہیں، وہ نہایت خوش ہوئے، اور وہیں ٹھیر گئے، جب حضور بیدار ہوئے تو وہ مرد دست بستہ سامنے کھڑا ہوگیا، آپ نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ قومِ بلوچ سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا مطلب رکھتا ہے؟ اُس نے عرض کیا یا حضرت! یہ میری عورت ہے، اور میری اس کے ساتھ کمال محبت ہے، اور میرے گھر کی آبادی اسی سے ہے، یہ دونو آنکھوں سے نا بینی ہوگئی ہے، ہر چند فقیروں اور طبیبوں کے پاس گیا ہوں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، اب حضور کا نام مبارک سُن کر یہاں حاضر ہوا ہوں، آپ نے فرمایا عورت کہاں ہے؟ اس نے کہا یہاں گوشہ میں بیٹھی ہوئی ہے، آپ نے فرمایا اس کو لا کر ہمارے رو برو بیٹھادو، وہ بلوچ عورت کا ہاتھ پکڑ کر سامنے لے آیا، آپ ہمارے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوئے، اور اس عورت کو فرمایا کہ ہماری طرف دیکھتی رہو، جب اُس نے دیکھا تو آپ نے پوچھا کہ کچھ دکھائی دیتا ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ قدرے نظر آتا ہے، پھر ایک ساعت کے بعد پوچھا کہ اب کیا حال ہے، اُس نے کہا کہ اب حضور کی صورت اچھی طرح نظر آتی ہے، پھر ذرا دیر کے بعد پوچھا تو کہنے لگی کہ اب پہلے کی طرح بالکل تندرست ہوں، اور میری آنکھیں روشن ہوگئی ہیں، چنانچہ وہ بالکل تندرست ہوگئی، اور وہ رخصت ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۵۵۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۲۷۔ ثواقب المناقب ص ۹۳۔ کنز الرحمت ص ۵۳۔ ضیاء العارفین ص ۱۲۱ شرافت]
تصرّف فی الاعیان
حضرت مولانا حافظ معموری صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک روز میاں جیون حجام رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ یا حضرت! مدت ہوئی ہے کہ آپ موضع باہو کی ہمارے غریب خانہ میں رونق افروز نہیں ہوئے، آپ اُس کی التماس قبول فرما کر وہاں تشریف لے گئے، میں بھی ہمراہ تھا، رات کو میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ کے کارندوں نے عرض کیا کہ یا حضرت! ہماری زراعت میں چوہے بہت ہیں، کھیتی کا نقصان کرتے ہیں، آپ سن کر خاموش ہوگئے، چند ساعت گذری تھیں، کہ ایک قطعہ ابر ظاہر ہَوا جو اُن کھیتوں پر خوب برسا، اور کچھ گاؤں پر بھی قطرات پڑے، صبح کارندے گئے تو دیکھا تمام قطعہ زمین پانی سے لبریز ہے، اور چوہے مرے پڑے ہیں، وہ خوش ہوکر آپ کی خدمت میں آئے، اور عرض کیا کہ حضور! اللہ تعالیٰ کے حکم اور آپ کی توجہ سے مینہ خوب برسا ہے، اگر آپ ایک دفعہ وہاں قدم رنجہ فرمادیں تو برکت کا موجب ہوگا، آپ روانہ ہوئے، چونکہ وقتِ عصر تنگ تھا، اور فاصلہ بھی نصف کوس سے زیادہ تھا، اس لیے میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ یا حضرت! نمازِ عصر پڑھ کر چلیں، آپ نے فرمایا وہیں چل کر پڑھ لیں گے میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ بار بار آفتاب کی طرف دیکھتا تھا، حضور وہاں پہنچ کر قطعہ زمین کے گِرد پھرے، میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ نے پھر عرض کیا، کہ یا حضرت نماز پڑھ لیں، آپ نے فرمایا واپس جا کر پڑھ لیں گے، میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھ لیا کہ آج کچھ اور حقیقت ہے چنانچہ پھر آہستہ آہستہ سیر و سیاحت فرماتے ہوئے گاؤں میں پہنچے، آفتاب وہیں کھڑا تھا جس جگہ کہ پہلے تھا، بال جتنا بھی اپنی جگہ سے تجاوز نہ کیا تھا، آپ نے نماز عصر ادا فرمائی، اور میاں جیون رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھ کر فرمایا میاں جیون! خدا تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں کہ اگر سورج یا چاند کو حکم کر دیویں کہ یہیں کھڑا رہو تو ان کی کیا مجال ہے کہ اپنی جگہ سے ہلیں۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۸۰۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۴۷۔ ثواقب المناقب ص ۱۰۶ شرافت]
تصرف فی الارض
آپ کے فرزندِ اکبر صاحبزادہ حضرت حافظ محمد بر خوردار صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ کا ایک مرید جھنڈا نام مزارعہ تھا جو چوہدری ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ کی زمین پٹہ پر لے کر کاشت کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ اُس کا فصل بہت اچھا تھا، اُس کا خیال تھا کہ پَٹہ ادا کر کے جو کچھ منافع حاصل ہوگا اُس سے اپنی لڑکی کی شادی کروں گا، کسی نے جا کر حاکمِ پرگنہ کے آگے چغلی کھائی کہ موضع ساہنپال میں فصل بہت اچھے ہیں، اُن کو معاملہ زیادہ لگانا چاہیے، حاکمِ پرگنہ چوہدری ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف تھا، اُس نے مولراج قانونگو کو مامور کیا، کہ تم جا کر وہاں سارے رقبہ کی پیمائش کر کے اُن پر معاملہ لگاؤ، مولراج کی بھی چوہدری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عداوت تھی، وہ بڑی خوشی سے اِس خدمت کو انجام دینے آیا، اتفاقًا سب سے پہلے جھنڈا کا کھیت سامنے آیا، اُس کی پیمایش ہونے لگی، جھنڈا نہایت مغموم ہوکر حضور کی خدمت میں آیا، اور حقیقتِ حال عرض کی، آپ نے فرمایا کہ تیری زمین بیمایش میں کِس قدر ثابت ہو تو تم راضی ہو، اس نے عرض کیا کہ اگر بیس بیگہہ بَن جاوے تو میرا کام مرضی کے مطابق ہو جائے گا، اور زمین تیس بیگہہ سے بھی زیادہ تھی، آپ نے فرمایا جس طرح تیری مرضی ہے اُسی طرح ہوجائے گا، اور اگر پیمائش میں تکرار کریں گے تو اس سے بھی کم ہوجائے گی، جھنڈا کی تسلّی ہوگئی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو کچھ آپ کی زبان مبارک سے نکلے اُس سے تفاوت نہیں ہوسکتی، آکر اپنے کھیت کے پاس کھڑا ہوگیا، ملازموں پٹواریوں نے جریب سے پیمائش کی، امر الٰہی سے وہ زمین بیس بیگہہ بنی، قانو نگو نے پٹواریوں کو ڈانٹا کہ تم نے کچھ رشوت لے لی ہے، اور زمین کی پیمائش میں بد دیانتی کر رہے ہو، پھر پیمائش کرو، چنانچہ دوبارہ پیمائش کرنے پر انیس بیگہہ ہوئی، قانو نگو نے بہت پیچ و تاب کھایا، اور خود گھوڑے سے اتر کر ایک طرف سے خود جریب پکڑی، اور دوسری طرف سے کسی اعتبار والے آدمی کو پکڑائی، پیمائش کرنے پر زمین اٹھارہ بیگہہ بنی، قانو نگو نہایت متحیر ہوا کہ اس میں کیا اسرار ہے؟ جھنڈا کو پوچھنے لگا کہ تمہارا کھیت بہت وسیع ہے پیمائش میں کم آتا ہے، کیا باعث ہے؟ اُس نے کہا یہ سب کچھ میرے پیر حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس کا تصرّف ہے، چنانچہ مولراج جھنڈا ندکور کے ہمراہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر قدمبوس ہوا، اور اپنی تقصیر کی معافی لی، اور عرض کیا جس قدر آپ ارشاد فرمادیں تمام گاؤں کا اُتنا معاملہ مقرر کیا جائے، آپ نے چوہدری ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ کو بلا کر اُس کی مرضی کے مطابق معاملہ مشخص کر وایا اس کے بعد مولراج بھی آپ کے معتقدوں سے ہوگیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۰۰۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۶۷۔ ثواقب المناقب ص ۱۱۸ شرافت]
تصرّف فی القدر
بہت لوگوں سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ موضع ساہنپال شریف میں فصل کم ہوئے، حکّام معاملہ بدستورِ سابق طلب کرتے تھے، چوہدری ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ نے غریب لوگوں اور مزارعوں کو حضور کی خدمت میں بھیجا کہ تم جاکر نالش کرو، وہ سب مِل کر آپ کے پاس آئے، اور اپنا حال بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ تمام موضع کا معاملہ کس قدر ہو تو تم بخوبی ادا کر سکتے ہو، سب نے یک زبان ہوکر عرض کیا اگر نو سو روپیہ معاملہ مقرر ہوجائے تو وہ ادا کر کے ہمارے لیے فصل کی خوراک بچ جاتی ہے، آپ نے فرمایا جاؤ، میں نے خدا تعالیٰ سے اسی قدر معاملہ مقرر کروا دیا ہے، سب خوش ہوکر چلے گئے، چوہدری حاکم پرگنہ کے پاس گیا، اُس نے بغیر کسی گفتگو کے خود بخود نو سو روپیہ جمع ساہنپال مقرر کر دیا، جب چوہدری واپس آیا تو اُس نے ظاہر کیا کہ سرکاری حکم ہوا ہے کہ معاملہ ہزار روپیہ ادا کرو، اگرچہ اس میں بھی سہولت تھی، لیکن کسی نے یہ بات حضور کے آگے بیان کی کہ چوہدری اس طرح کہتا ہے، آپ نے اُس کو بلا کر فرمایا ساہنپال! میں نے جو کچھ لوحِ محفوظ میں مقرر کروایا ہے، اُس میں کبھی تفاوت نہیں ہوسکتی، تو نے کیوں جھوٹ بولا ہے، چوہدری نے نادِم ہوکر عرض کیا کہ یا حضرت! معاملہ تو وہی نو سو روپیہ مقرر ہوا، لیکن ایک سو روپیہ زائد میں نے اپنے واسطے طمع کیا ہے، آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ یہ تمہارا چوہدری ہے، اور طمع کر بیٹھا ہے، اگر رضا مندی سے اس کو دے دو تو کچھ حرج نہیں، سب نے قبول کر لیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۶۵ شرافت]
گرم ریت کا سرد ہوجانا
حضرت قاضی خوش محمد کنجاہی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک روز گرمیوں کے موسم میں حضور سفر میں چلے، آپ سوار تھے، اور میں آپ کے ہمراہ سر اور پاؤں سے برہنہ جا رہا تھا، راستہ میں ایک ریگستان سے گذر ہَوا، دوپہر کا وقت تھا، ریت اس قدر گرم تھی کہ اُس میں دانہ بریاں ہوسکتا تھا، میرے پاؤں اتنے جلتے تھے کہ آنکھوں میں بھی حرارت معلوم ہونے لگی، آپ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا میاں خوشی! تمہارے پاؤں جلتے ہوں گے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور پر خوب روشن ہے، آپ فرمانے لگے کہ ہم تو سوار ہیں ہماری جوتی تم پہن لو، میں نے کہا یا حضرت! میری کیا مجال ہے کہ آپ کا جوڑا پاؤں میں پہنوں، پھر فرمانے لگے کہ آکر ہمارے پیچھے سوار ہوجاؤ، میں نے عرض کیا یا قبلہ! اگر حضور کی ہمرکابی میں میرا تمام بدن بھی جَل جائے تو یہ میرے لیے سعادتِ دارین ہے، لیکن یہ بے ادبی میں نہیں کرسکتا کہ آپ کے برابر سوار ہوؤں، پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا ہماری زِین کا فِتراک (کنجقہ) پکڑلو، چنانچہ میں نے کنجقہ کو ہاتھ ڈال لیا، اسی وقت وہ ریت ایسی سرد معلوم ہونے لگی، جیسا کہ پانی میں تَر کی ہوئی ہے، اُس کی سردی میری آنکھوں میں پہنچنے لگی گویا کہ میں برف خانہ میں جا رہا ہوں۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۶۶۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۳۶۔ ثواقب المناقب ص ۱۰۱۔ کنز الرحمت ص ۵۵]
تمام کائنات سے ذکر ھُوْ جاری ہونا
ایک مرتبہ ایک جوگی فقیر معمّر حضور کے پاس آیا، اور اثنائے کلام میں کہنے لگا کہ میں نے ریاضت سے بڑا فائدہ حاصل کیا ہے، اگر آپ مجھ سے کچھ دیکھنا چاہیں تو صحرا میں چلیں، آپ اُس کے ساتھ گاؤں سے باہر تشریف لے گئے، وہ نیستان کے پیچھے ہوکر ایک تیس سالہ نوجوان کی صورت بن گیا، اور آپ کو آکر سلام کیا، پھر پَردہ کے پیچھے ہوکر اپنی اصلی صورت میں ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں نے بارہ بارہ سال کی تین جوگ ختم کی ہیں، اور یہ قالب بدلنے کا کمال چھتیس (۳۶) سال میں حاصل ہوا، اس کے سوا کوئی کام میں نہیں کرسکتا، آپ نے فرمایا، اب ہمارے ساتھ آؤ، اور خدا تعالیٰ کے عشق کا نشان دیکھو، چنانچہ آپ اس کو دریا پر لے گئے، اور کنارہ پر کھڑے ہوکر بآواز بلند ھُوْ کا نعرہ لگایا، اسی وقت درختوں کے پَتّوں، اور گھاس، اور دریا کے پانی بلکہ زمین و آسمان سے ذکر ھُوْ کی آواز آنے لگی، آپ نے فرمایا اے نادان! تو نے عمر ضایع کردی ہے، اُسی وقت وہ جوگی آپ کا قدمبوس ہوا، اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ص ۱۱۳ شرافت]
فتحِ قندھار کی دعا
منقول ہے کہ حضرت شاہجہاں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مرتبہ قندھار پر چڑھائی کی لیکن وہ فتح نہ ہوتا تھا، چنانچہ ایک بار شہزادہ دار اشکوہ رحمۃ اللہ علیہ کو فوج دے کر بھیجا، وہ بھی نا کام واپس آیا، پھر شہزادہ اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کو سپہ سالار کر کے بھیجا، اُس نے چھ ماہ محاصرہ رکھا، لیکن اُسی ناکامی کا سامنا رہا، اِدھر بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے درویشوں کی طرف رجوع کیا، مگر کوئی کامیابی کی صورت نظر نہ آئی، نواب سعد اللہ خاں وزیر نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! دریائے چناب پر ایک بزرگ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نام رہتے ہیں، وہ نہایت برگزیدہ ہستی ہیں، بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو حضور کا نام سن کر تعشق ہوگیا، اور حاضر ہونے کا ارادہ کیا، وزیر نے عرض کیا کہ بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا بغیر اجازت حضور اقدس میں جانا مناسب نہیں، وہ بزرگ صاحبِ ترک و تجرید ہیں، اہلِ دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ناراض ہوجائیں، اس لیے میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں، چنانچہ بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے وہ حاضر ہوا، اُس وقت آپ دریا کی سیر کو تشریف لے گئے ہوئے تھے، اور کنارہ پر رونق افروز تھے نوّاب نے سلام و آداب عرض کیا، اور نذرانہ کثیر حاضر کیا، اور فتح قندھار کے لیے بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلام و پیام بھی عرض کیا، آپ نے فرمایا کہ تم نشان و نقارہ نہ لے جانا، اور حملہ کر دینا، بحکمِ الٰہی قندھار فتح ہوجائے گا، نواب نے عرض کیا کہ بادشاہوں کا داخلہ نقارہ کے ساتھ ہی ہوتا ہے، اگر نقارہ نہ بجائیں تو ایسا ہے جیسا کوئی بیوہ عورت شہر میں داخل ہوئی، آپ اُس کا گُستاخانہ جواب سُن کر کبیدہ خاطر ہوگئے، اور نذرانہ واپس کردیا، اور فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو اپنے لشکر و فوج اور نشان و نقارہ پر بڑا بھروسہ ہے، جا کر اپنا کام کرو، پھر تو نواب کی آنکھیں کھلیں کہ یہ کیا ہوا، بجائے راضی کرنے کے فقیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ناراض کر دیا، آخر بہزار الحاح و زاری حضرت قاضی خوشی محمد کنجاہی رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش سے آپ راضی ہوکر دوبارہ مہربان ہوئے، مگر نذرانہ نہ لیا، اور فرمایا کہ درویش اگر کسی چیز کو مسترد کردے تو پھر اس کو قبول نہیں کرتا، اور نواب کو فرمایا ایک کوزہ پانی لاؤ، اُس نے دریا سے ایک کوزہ پانی لا کر پیش کیا، آپ نے اُس سے وضو کیا، اور تین چھینٹے پانی کے قندھار کی طرف مارے، اور فرمایا جاؤ ہماری طرف سے بادشاہ کو سلام پہنچانا، اور فتح قندھار کی بشارت دینا، اور اپنا ایک دوپٹہ (خرقہ) عنایت فرمایا کہ یہ بھی ہماری طرف سے بادشاہ کو تبرک دے دینا، نواب نے وہ وقت اور تاریخ تحریر کر لی، اور رخصت ہوا، جب لاہور میں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے حضور حاضر ہوا، اور آپ کا سلام و پیام سنایا تو بادشاہ حضور کی مہربانی و نوازش کا بہت مشکور ہوا، ابھی چند روز گذرے تھے کہ قندھار سے قاصد آگیا، اُس نے بتلایا کہ ہم نے قلعۂ قندھار کا محاصرہ کیا ہوا تھا، فتح کی کوئی صورت نہ تھی، فلان تاریخ کو فلان وقت خود بخود قلعۂ قندھار کی تین جگہ سے دیواریں گر پڑیں، اور فوج اندر داخل ہوگئی، اور قندھار فتح ہوگیا نواب نے وہ تحریر دیکھی تو بعینہٖ وہی تاریخ و وقت تھا جس وقت حضور نے پانی کے چھینٹے مارے تھے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲]
ف یہ فتح قندھار ۱۰۵۸۔ ۱۰۵۹ھ میں واقع ہوئی جیسا کہ شاہ غلام حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب سیر المتاخرین میں لکھا ہے۔ [۱] [۱۔ شاہجہاں نامہ جلد سوم سے ثابت ہوتا ہے کہ فتح قندھار ۱۰۶۳ھ میں واقع ہوئی ۱۲ شرافت]
اس واقعہ کے بعد حضرت سلطان شہاب الدین محمد شاہجہاں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نہایت معتقد و ارادتمند ہوگیا، اور لنگر کے مصارف کےلیے دوگاؤں موضع ٹھٹہ عثمان و بادشاہپورفتا جاگیر میں عطا کیے جن کا جمیع ایک لاکھ تیرہ ہزار ایک سو ساٹھ دام سالانہ تھا جو مبلغ دو ہزار اکہتر (۲۰۷۱) روپیہ رائج الوقت ہوتے تھے۔
بادشاہِ وقت کو غرق سے بچانا
منقول ہے کہ حضرت شاہجہاں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ سیر کشمیر کو گیا، ایک روز بمعہ امرأ و وزراء کشتی پر سوار تھے کہ کشتی گرداب میں جا پڑی ملاحوں کا کوئی چارہ نہ رہا، اُس وقت بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے بحکمِ حدیث شریف اعینونی یا عباد اللہ کی پکار کی، اُسی وقت حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس فورًا وہاں موجود ہوئے، اور اُس کشتی کو صحیح و سلامت کنارے لگایا، اور پھر غائب ہوگئے، اُس روز سے بادشاہ آپ کے مخلص ارادتمندوں سے ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ الف ص ۱۹۳]
مشائخ وقت کا آپ سے استفاضہ
چونکہ آپ کی ذاتِ قدسی صفات جامع کمالاتِ ولایت تھی، اس لیے ہر ایک سلسلہ کے مشائخ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفاضہ کیا کرتے تھے، مثلاً قادریہ میں سے حضرت میر سید شاہ شریف عُرَیضی خوارزمی مگھو والی رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۹] اور حضرت حافظ طاہر کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۷۲] اور چشتیہ میں سے حضرت شیخ معروف چشتی سوہدروی رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۳۰] اور سُہر وردیہ میں سے حضرت مولانا شیخ جمال دریاہ رحمۃ اللہ علیہ ساکنِ کیلیانوالہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۶۳] اور نقشبندیہ میں سے حضرت خواجہ محمد فضیل کابلی رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۲۵] اور مداریہ میں سے حضرت شاہ مسکین قلندر دِرپالی رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۳۱] اور عام مشائخ میں سے شیخ عبد الجلیل گوجر رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۵۵] وغیرہ آپ سے فیضیاب ہوئے۔
اور علمائے وقت میں سے حضرت مُلّا اخوند محمد عُرف کمال الدین کشمیری رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۱۲] جو امامِ ربانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے، اور آفتابِ پنجاب حضرت مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۱۲] اور حضرت مولوی عبد القادر بن حاجی شیخ حامد ملکوالی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۳۴] آپ کی صحبت سے بہرہ یاب ہوئے۔
اور حضرت شاہ جیوبن شیخ عبد السّلام قادری رحمۃ اللہ علیہ ساکِن کیلیانوالہ، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۸۴] اور حضرت شاہ دَولا دریائی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کی مراسلت بھی رہتی تھی۔
اس کے علاوہ اہل حکومت میں سے حضرت ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہجہاں غازی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ص ۱۲۷] اور ان کا وزیر نواب سعد اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ] اور نواب سعید خاں بہادر ناظِم صوبہ کابل حضور [۱] [۱۔ ایضًا الف ص ۳۲۵ شرافت] کے معتقدوں سے تھے، اور آپ کے شرفِ زیارت سے مشرف ہوئے۔
اور فقرائے اہلِ ہنود میں سے با با لال داس بیراگی آپ کی صحبت سے اکثر مستفیض ہوتے رہے، جن کا مکان دریائے چناب کے جنوبی کنارہ پر واقعہ ہے۔
عملیات
آپ کے حالاتِ طیبہ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عامل نہیں بلکہ کامل تھے، بغیر کسی خاص عمل کے آپ کی زبان کا فرمودہ ہی عمل کی خاصیّت رکھتا تھا، اس لیے آپ کو عملیات سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، مگر تاہم بعض آیاتِ کلام اللہ یا اعدادِ اسمائے حسنٰے سے کئی مواقِع پر استفادہ کرتے تھے، از انجملہ۔
برائے دفع وبائے حیوانات
آپ نے فرمایا ہے کہ اگر مال میں وبا پڑ جائے تو ذیل کی آیت شریف پڑھ کر آملہ جات و بہیڑہ جات پر دَم کر کے ایک کوری ٹِنڈ میں پانی ڈال کر بھگو دے، چند ساعت کے بعد مویشیوں پر منہ کی طرف سے کھڑا ہوکر اُن پر چھڑکائے، صبح و شام یہ عمل کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ وباء دفع ہو جائے گی، آیت شریف یہ ہے۔
انّ البقر تشابہ علینا وانّا ان شاء اللہ لمہتدون۔ (البقرۃ۔ ع ۸)
برائے جمیع مقاصد
منقول ہے کہ یہ تعویذ مربّع جو اسمائے الٰہی وَھَّابْ اور وَدُوْدْ کے اعداد کا نقش معظم ہے۔آپ کا دستور العمل تھا، اور ہر ایک کام کے واسطے آپ اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے نقش معظم یہ ہے۔
۷۸۶
۵ |
۱۰ |
۱۵ |
۴ |
۱۶ |
۳ |
۶ |
۹ |
۲ |
۱۳ |
۱۲ |
۷ |
۱۱ |
۸ |
۱ |
۱۴ |
تصنیفات
آپ کو تصنیف یا تالیف سے کوئی خاص رغبت نہ تھی، آپ بہ نسبت لفظی تبلیغ کے معنوی تبلیغ کو زیادہ پسند فرماتے تھے، کیونکہ اسرار باطن کی سمائی لفظوں میں نہیں ہوسکتی، اگرچہ بعض آثار و علاماتِ حقائق کا بیان لفظوں میں کیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقۃ الحقائق کی گنجایش لفظوں میں نہیں ہوسکتی، اور نہ ہی وہ زبان یا قلم سے بیان ہوسکتی ہے، اس کا ذوق وجدان سے معلوم ہوسکتا ہے، اسی علمِ وجدانی کو اصطلاحِ صوفیہ میں علم الاسرار یا علم القلوب کہتے ہیں، اسی علم میں متشابہاتِ قرآنی اور مقطعاتِ فرقانی کے رموز و اشارات کا انکشاف ہوتا ہے، یہ علم سینہ سے سینہ کی طرف منتقل ہوتا ہے، کتاب و کاغذ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی افہام و عقول اس کو ادراک کر سکتے ہیں، صرف ظرفِ قلب میں اس کی سمائی ہوسکتی ہے، اسی نظریہ کے ما تحت آپ نے تصنیف کا مشغلہ اختیار نہیں فرمایا، صرف چند نسخے آپ کی طرف منسوب ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ گنج الاسرار
یہ بزبان ہندی و بھاشا ایک مجموعہ اشعار ہے، جس میں طریقہ عالیہ قادریہ کے اشغال و اذکار درج ہیں، خاندان نوشاہی کا ابتدا سے دستور العمل رہا ہے اِس کو بزرگوں نے بہت ناموں سے موسوم کیا ہے، اور یہ کثرت اسماء اس کی فضیلت و مقبولیت کی دلیل ہے، مثلاً گنج الاسرار، رمز العباد، رمز العشق، وحدت نامہ واحد نامہ، نسخۂ طریقت، بیانِ اشغال، بیان تصوف، کلام الملوک، گیان لہر۔ وغیرہ
اگرچہ اس کے اشعار کی تعداد میں اختلاف ہے لیکن جو جامع اور مکمل نسخہ ہے ا س میں ایک سو نو اشعار ہیں، رسالہ کا آغاز اس طرح پر ہے۔
جِس ذات کا اَللہ ناؤں |
|
اس کا تجھے بتاؤں تھاؤں |
اس رسالہ کا فارسی ترجمہ بنام شمس الانوار فقیر سید شرافت عافاہ اللہ نے نظم کیا ہے جو اس طرح پر شروع ہوتا ہے۔
بنامِ آنکہ نامش ہست اللہ |
|
مقامِ او بگویم باتو وَاللہ |
اس رسالہ کی شرح بنام کلید گنج الاسرار بزبان فارسی حضرت مولانا خلیفہ محمد ابراہیم انصاری برقندازی جالندہری رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۲۷۴ھ میں بہت عمدہ لکھی ہے، ابتدائے کتاب میں حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و کرامات بھی درج کیے ہیں، اس کے بعد شرح اشغال ہے، سبب تالیف یہ لکھتے ہیں کہ میرے مرشدِ ارشد حافظ عبد الوہاب نوشاہی برقندازی رحمۃ اللہ علیہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ تم گنج الاسرار کی شرح لکھو، میں اپنی بضاعتی کو مدنظر رکھتا ہوا اس اہم کام میں ہاتھ نہ ڈالتا تھا، آخر ایک رات خواب میں مجھے حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت فیض بشارت ہوئی، حضور روضہ مبارک شاہ عبد الغفور نوشاہی جالندہری رحمۃ اللہ علیہ میں کھڑے ہیں اور میری طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں۔ [۱] [۱۔ ؟؟]
جو فرماوے تجھ کوں پیر |
|
اُس پر چلیں تو ہو فقیر |
جب میں صبح کو بیدار ہوا تو عُقدہ کھلا کہ میرے پیر روشن ضمیر تو مجھ کو گنج الاسرار کی شرح لکھنے کو فرماتے ہیں، اور میرے لیے یہی موجب سعادت ہے، چنانچہ میں نے یہ شرح فارسی زبان تیار کی۔
۲۔ مثنوی رباعیہ
حضرت سید گُل محمد بن سید شاہ عصمت اللہ بر خورداری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیاض لطائف گلشاہی میں، اور حضرت سید حافظ الٰہی بخش بن سید حافظ نور اللہ برخورداری نے اپنے بیاض روضۃ الزکیہ فی حقائق العلمیہ میں لکھا ہے کہ یہ رباعی جوش و استفراغ کے وقت حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک سے صادر ہوئی۔ جو با عتبار معانی کے بلند کلام ہے۔
منادی ست در کوچہ میفردش |
|
کہ امروز درہر کہ یا بند ہوش |
۳۔ چہار بہار
یہ آپ کے ملفوظاتِ طیبہ اور ارشاداتِ عالیہ کا مجموعہ ہے، حضرت سچیار صاحب نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ کے سوالات اور آپ کے جوابات ہیں، اِس کو حضرت شیخ ہاشم شاہ نوشاہی تھر پولوی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۲۰۹ھ میں متفرق کتابوں سے فارسی میں جمع فرمایا ہے، یہ علوم معرفت و توحید کا بے بہا خزانہ ہے۔
فقیر سید شرافت کفاہ اللہ نے اِس کا ترجمہ اردو میں بنام خزائن الاسرار کر دیا ہے۔
اس میں سے ایک فارسی نظم جو آپ کی زبان پاک سے ہے یہاں درج کی جاتی ہے، حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ پوچھتے ہیں کہ دِل کیا ہے؟ اس کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے۔
1001 تک فائنل ہے اور چیک ہے
1002 سے آئے گا۔
1002 سے کام ہے۔
روان و نفس و روح و دل یکے ہست |
|
لقب بسیار از افعال بے بست |
۴۔ کلماتِ طیبات
اس میں آپ کے ایک ہزار کلماتِ عالیات کو فقیر سید شرافت عافاہ ربہٗ نے فارسی میں جمع کیا ہے۔
۵۔ جواہر المکنون
یہ آپ کے سو (۱۰۰) ارشادات کا مجموعہ ہے، فقیر سید شرافت عفی عنہ نے جمع کیا ہے۔
۶۔ لطائف الاشارات
اس میں آپ کے چالیس (۴۰) ارشادات فقیر سید شرافت عفا اللہ عنہ نے جمع کیے ہیں۔
۷۔ ذخائر الجواھر فی بصائر الزواھر
یہ خاندانی تذکروں اور تاریخی کتابوں سے اجتہادی طور پر انتخاب و استنباط کر کے آپ کے ملفوظات و نصائح و اقوال کو فقیر سید شرافت عافاہ اللہ نے جمع کیا ہے۔[۱] [۱۔ منشی لعل چند ملتانی نے کتاب نگار نامہ کے حاشیہ میں حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے تین اشعار پنجابی کے لکھے ہیں، ان کے پورے الفاظ پڑھے نہیں جا سکے، اس لیے درج نہیں کیے ۱۲ شرافت]
مکتوبات
آپ کے مکاتیب نہایت مختصر اور پر مضمون ہوا کرتے تھے، بموجب ارشاد نبوی اوتیت جوامع الکلم آپ کا کلام بھی جوامع الکلم ہوتا تھا، آپ کے صرف دو مکتوب یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
مکتوبِ اوّل
منقول ہے کہ آپ کے فرزند اکبر حضرت سید حافظ محمد بر خوردار بحر العشق رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ لاہور تشریف لے گئے، وہاں اُن کی خوشنویسی کا چرچا ہوا تو نواب سعد اللہ خاں وزیرِ اعظم نے چاہا کہ ان کو شاہی دفتر میں دیوان مقرر کیا جائے، اُس نے یہ درخواست ان کے حضور میں پیش کی، نیز کہا کہ آپ کو منصب ہزاری بادشاہ سے دلواتا ہوں، چونکہ وہ بغیر حکم والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ بات نہ کیا کرتے تھے، اس لیے انہوں نے یہ تمام ماجرا حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لکھا، اِدھر سے آپ نے یہ مکتوب ارسال کیا۔
’’اَللہُ وَرَسُوْلہٗ
رفیع القدر محمد بر خوردار۔ منصبدارانِ معبود را لائق نیست کہ منصبِ عبد اختیار کنند، بر خاستہ نجانہ بیایند
بدست آہکِ تفتہ کردن خمیر |
|
بہ از دست بستن بہ پیشِ امیر |
چنانچہ اس مکتوب گرامی کو دیکھتے ہی حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ واپس چلے آئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۳۲]
فائدہ: اس کتاب کے مکمل ہوجانے کے بعد آپ کی تصنیفات سے یہ کتابیں بھی دستیاب ہوگئی ہیں۔ معارف تصوف فارسی۔ بغیر سورۂ نازعات فارسی گنج شریف اردو۔ پنجابی منظوم۔ مواعظ نوشہ پیر۔ پنجابی منثور وغیرہ شرافت۔
مکتوبِ دوم
آپ کے فرزندِ اصغر حضرت سید محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبد الحکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تعلیم پاتے تھے، ایک بار مولوی صاحب نے حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا تو صاحبزادہ صاحب نے اُن کے ارادہ سے حضور کو بذریعہ خط آگاہ کیا، آپ نے اُس کے جواب میں یہ حکمنامہ صادر فرمایا۔
’’اللہُ وَرَسُوْلُہٗ
عزیز القدر محمد ہاشم۔ اخوند جیو رابگوئید کہ ایشاں تصدیع نکشند، چرا کہ آمدن ایشاں باعثِ شہرتِ ما میشود و ازیں امر مار اتصدیع ست، و حق ایشاں نیز برما ثابت شدہ کہ شما بخدمتِ ایشاں از تحصیل فارغ شدہ اید لہذا ما خود مے آئیم۔‘‘
چنانچہ اس مکتوب گرامی کے ارشاد کے مطابق مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ آنے سے رُک گئے، اور خود حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۹۰ شرافت]
مقالات
آپ کے علمی مقالے اور مکالمے جستہ جستہ کتابوں میں ملتے ہیں، جن میں سے ایک مقاملہ درج کیا جاتا ہے۔
مقالہ
ایک بار آفتابِ پنجاب حضرت مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کمال اشتیاق سے ساہنپال شریف میں زیارت کے لیے حاضر ہوئے، جب محفلِ اقدس منعقد ہوئی تو انہوں نے آپ سے پوچھا یا حضرت! میں تمام عمر شاگردوں کو پڑھاتے پڑھاتے اپنا مغز بھی خالی کر چکا ہوں، نہ دن کو دن دیکھتا ہوں نہ رات کو رات، مہینہ دو مہینہ نہیں بلکہ سالہا سال تک پڑھاتا ہوں، ان کی تعلیم میں ہر طرح کی کوشش کرتا ہوں، آخر سندِ فضیلت دے کر رخصت کرتا ہوں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ شاگرد و مکتب سے نکلتے ہی نا آشنا ہوجاتے ہیں، اور مقابلہ و ہمسری کو تیار بلکہ مخالفتیں کرتے ہیں، یہی حال تمام علمائے کرام کے تلامذہ کاہے۔
اُدھر آپ ہیں کہ نہ کچھ پڑھاتے ہیں، نہ کوئی درس گاہ جاری کیا ہوا ہے، صرف اپنے مریدوں کو ایک بات کان میں کہہ دیتے ہیں، چنانچہ وہ گھر بار، مال اولاد، خویش و اقربا کو چھوڑ کر آپ کی خدمت میں رہنا اختیار کرتے ہیں، تمام عمر غلامی میں بسر کر دیتے ہیں، اور جہاں دیکھتے ہیں قدم چومتے ہیں، فرشِ راہ کے لیے آنکھیں بچھاتے ہیں اور وفات کے بعد مزار کی جاروب کشی تک کو فخر کا باعث اور سعادت دارین سمجھتے ہیں، یہی تمام صوفیہ کے ارادتمندوں کا ہے، پس ہماری تعلیم اور آپ کی تعلیم میں کیا فرق ہے؟
حضور انور نے مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سوال سُن کر انہیں کے مذاق کے مطابق جواب ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ کی تعلیم اور ہماری تعلیم میں بڑا فرق ہے، آپ جس وقت اپنے شاگردوں کو سبق دیتے ہیں تو اَنَا نَحْن وغیرہ صَرف کی گردانوں میں مشغول کرتے ہیں، جس وقت وہ اَنَا کو پکا کر تکمیل کو پہنچتے ہیں تو وہ اپنی انانیت کو ثابت کر لیتے ہیں، اُسی اَنا سے اپنی ہستی کو حقیقی سمجھ بیٹھتے ہیں، اور اپنے سوا ہر کسی کو ہیچ تصوّر کرتے ہیں، اس لیے وہ آپ کو چھوڑ جاتے ہیں، اور اپنی انانیت میں مصروف رہتے ہیں، یہی حال تمام علمائے ظاہر اور اُن کے شاگردوں کا ہے۔
اور جس وقت ہم اپنے ارادتمندوں کو سبق دیتے ہیں تو ابتدا میں کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی تلقین کرتے ہیں، یعنی لَا سے شروع کرواتے ہیں کہ سوائے ذاتِ حق کے ہر ایک چیز کی نفی کرو، کہ ذاتِ حق موجود ہے، اور ہم تم سب ہیچ درہیچ اور نیست و نابود ہیں، جب وہ اس سبق میں لگتے ہیں تو وہ اپنی ذات کو فنا کر کے ذاتِ حقیقی سےبقا حاصل کرتے ہیں، اور دنیا کے علائق کو چھوڑ کر یہیں پَڑ رہتے ہیں، کیونکہ ان کا مقصود اسی جگہ سے حاصل ہوا ہوتا ہے، لہذا وہ وسیلہ حقانی کو ترک نہیں کر سکتے، اور یہی حال تمام صوفیائے کرام کے مریدوں کا ہے۔
مطلب یہ کہ تمہارا سبق ہست و بود سے شروع ہوتا ہے، اور ہمارا سبق نیست و نا بود سے، آخر اِن دونو کے نتائج ظاہر ہوجاتے ہیں۔ [۱] [۱۔ تحایف قدسیہ ص ۱۱۵]
الہامات
آپ پر اتباعِ نبوی اور وراثتِ غوثیہ میں الہام کا دروازہ بھی مفتوح تھا، سوائے امر الٰہی کے کچھ کام نہ کرتے تھے، کھانا، پینا، چلنا، پھرنا، بولنا سب کچھ حکمِ خدا وندی کے تابع تھا، جیسا امر ہوتا ویسا ہی عمل فرماتے، حتّٰی کہ اپنے یاروں سے کام کاج کروانے کے متعلق بھی جیسا ارشاد ہوتا ویسا ہی حکم فرماتے۔
الہام
حضرت حافظ نور محمد سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کو پہلے گھاس لانے، اور ہیزم کشی اور پانی ڈھونے کی خدمت سپرد تھی، پھر آپ نے ان کو فرمایا کہ اب لکڑیاں نہ لایا کرو، ان کے دل میں خطرہ پیدا ہوا کہ شائد آپ کسی ناراضگی کے باعث مجھے منع فرماتے ہیں، آپ نے تخلیہ کے وقت ان کو فرمایا۔
’’میاں نور محمد! ہم خود منع نہیں کرتے، ہم کو جو کچھ امر الٰہی ہوتا ہے اُس طرح کیا کرتے ہیں، اب تمہارے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ تم نے باربرداری بہت کی ہے، اب وضو کرانے کی کی خدمت کیا کرو‘‘ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۸۷ شرافت]
الہام
ایک مرتبہ حافظ طاہر کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بیقید فقیروں کے گروہ میں مل کر رُوسیاہ ہوکر اور پیراہن کے نیچے زنّار ڈال کر پھرتے پھراتے آپ کی خدمت میں آئے، آپ نے ان کی حقیقت بطور باطن معلوم کر کے فرمایا۔
’’حافظ! تیرا زنّار توڑنے کے لیے ہم کو حکم الٰہی ہے۔‘‘ چنانچہ پھر ان کا زُنّار تُڑوا کر اہلِ معرفت کے زمرہ میں داخل کیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۸۲]
الہام
ایک مرتبہ دریائے چناب زمین کو گراتا ہوا موضع ساہنپال شریف کے قریب آگیا، لوگوں نے خدمت میں عرض کیا، آپ دریا پر تشریف لے گئے، وہاں کنارہ پر تین جگہوں پر زمین کو چاک آئے ہوئے تے، جب وہ تینوں چاک گرپڑے تو آپ نے فرمایا۔ ’’اِسی جگہ تک حکم تھا‘‘ چنانچہ پھر دریا پیچھے ہٹ گیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۵۵ شرافت]
کلماتِ طیّبات
آپ کا کلام نصیحت و ہدایت اور معرفت و توحید کا مخزن ہوتا تھا۔ چند کلمات یہاں لکھے جاتے ہیں۔
انسان: فرمایا۔ انسان کے جسم میں بہت صفتیں اور بیشمار جوہر قدرت نے و دیعت رکھے ہیں، خصوصًا خدا تعالیٰ کی معرفت جس قدر انسان میں ہے کسی مخلوق میں نہیں، اسی لیے انسان کا مرتبہ تمام مخلوق سے بلند تر ہے۔
دنیا: فرمایا۔ دنیا ایسی زہریلی ہے کہ اس کا زہر تمام مشہور زہروں سے زیادہ خطر ناک ہے، اور اس کی صورت تمام زہریلے سانپوں سے علیٰحدہ ہے، اس کا بیمار بھی اس کے حاصل ہونے سے خوش ہوتا ہے، اور اِس کا زخمی بھی اسی کے حصول سے اپنی مرہم تلاش کرتا ہے۔
فرمایا۔ اے درویش۔ ابلیس کے مکر و فریب سے بچنے کی کوشش کرو، دنیا کمینی کی حرص کو دل سے دور کر کے خدا کی محبت سے جو نفیس ترین ہے اس کو معمور کرو۔
معرفت: فرمایا۔ اذکار پاس انفاس و نفی اثبات و سلطان الاذکار جو از قسم اشغال درویشوں نے اختیار کیے ہیں یہ اس لیے کہ بیہودہ کاموں سے بچے رہیں، اور ان کے دَم ضائع اور خدا کی یاد سے خالی نہ جائیں، ورنہ خدا تعالیٰ کی معرفت کا تعلق عقل سے ہے۔ جب تک ہوش کو دنیا کی طرف سے فراموش نہ کریں، اور وحدت کے دریا میں غوطہ نہ لگائیں، اور خدا کی الوہیت اور اپنی عبودیت کو نہ پہچانیں اذکار و اشغال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے، اصل مدعا اس امر میں اپنے خیال کی حفاظت کرنا ہے، خیال ہی ہرکام میں پیش رو ہے، دل کی زنجیر خیال ہی ہے، اس کے سوا اس کو پابند نہیں کیا جاسکتا، یاد رکھو خدا کا وصول سوائے پاکیزگی خیال کے نہیں ہوسکتا، فصد لیلٰے نے کروایا اور خون مجنوں کا جاری ہوگیا، ایسا وصل کونسے ذکر سے ان کو حاصل ہوا، انسان کا خیال ہوا و ہوس میں پراگندہ ہے، اس کے جمع کرنے کے لیے بزرگوں نے اذکار مذکورہ اختیار کیے ہیں، تاکہ کسی وجہ سے خیال ایک استقامت پکڑے، حاصل کلام یہ ہے کہ اگر تم منزل مراد پہنچنے کا ذوق رکھتے ہو تو اپنے آپ کو اس دنیا کے کمند سے خلاص کرو، اور غفلت کا پردہ دور کرو، اسی وقت راہِ راست دیکھ لو گے، اور منزلِ حقیقی پر پہنچ جاؤ گے۔
ہمہ ازوست
فرمایا اے درویش! میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں، اور ایک لازوال خزانے کا دروازہ کھولتا ہوں، دل کے کانوں سے سنو، اور خاص ہوش کے ساتھ سمجھو، جب تم ہمہ ازوست کے بھید سے واقف ہوجائے گے تو اس کی درگاہ میں بیشک مقبول ہوجاؤ گے، جو خیال میں آوے اُسی سے جانو، جو وہم میں آوے اسی سے سمجھو، جس سے تم کو جدا کرتا ہے اس سے علیٰحدہ ہوجاتے ہو، جس سے تم کو وابستہ کرتا ہے اُس سے تم مِل جاتے ہو، تمہاری حرکات گیند کی طرح ہیں، اور چوگان اسی کے ہاتھ میں ہے، تمہاری ہستی کا قیام اسی کی ذات و صفات کے پر تو سے ہے، اس کے حکم کے بغیر تمہاری زبان گویا نہیں ہوسکتی، اور بغیر حکم کے تمہاری ناک کچھ سونگھ نہیں سکتی، اس کے بغیر تم ایک سانس نہیں لے سکتے خواہ باہر نکالو خواہ اندر کھینچنے کی کوشش کرو، بہار کی تاثیر اور رنگ اور نام کیسا بنایا ہے؟ اور بادل میں بارش کا قطرہ قطرہ کِس طرح بناتا ہے؟ خواب میں وہ کس طرح چیزیں تم کو دکھاتا ہے، کہاں سے لاتا ہے، اور پھر کہاں لے جاتا ہے؟ دیکھنا اور سننا تمہارے وجود میں کس سے ہے؟ اخلاطِ اربعہ کا توازن کس طرح ہے، یہ اسرارِ حکمت وہی حکیم جانتا ہے، وہ ہر زمانہ میں اور ہر حال میں موجود ہے، آسمان اُسی کے حکم سے پھر رہا ہے ذرّہ نا چیز اُسی کے حکم سے رقص کر رہا ہے، آسمان و ذرّہ بارش اس کے نزدیک یکساں ہیں، اس کے دیکھنے میں سب لوگ برابر ہیں، مسجد اور مندر میں بٹھانے والا وہی ہے، نیکی و بدی اسی کے حکم سے ہے، تمام خواہشیں اُسی سے ہیں اور وہ خواہش سے بری ہے، ہر راہ کی رہبری اسی کے ہاتھ میں ہے، ہر کسی کے ہر حال سے خبردار ہے، اس کے حکم سے باہر ہوجانا کسی کی مجال نہیں، آسمان کی بلندی پر ستاروں کا نقشہ کھولا ہے، کنوئیں کے گہراؤ میں ریت کے دانے رکھے ہیں، اپنے ملک میں حکم چلاتا ہے اور خود جدا ہے، کوئی جگہ اس سے خالی نہیں اور وہ جگہ سے پاک ہے، جو کچھ ہم سے کرواتا ہے بیشک ہم وہی کرتے ہیں، اگر اس کی مرضی نہ ہو تو ہم کیسے کر سکتے ہیں، ہوش والے اور بدمست، شبرابی اور میفروش فقیہ اور بت پرست سب اُسی سے ہیں، خالق و مخلوق میں یہی فرق ہے کہ خالق جو کچھ چاہے وہ کرتا ہے، اور مخلوق بے حس و بے حرکت ہے، اس سے کچھ نہیں ہوسکتا، بزرگوں نے بندہ کو فاعِل مختار آدابِ پروردگار کے لیے کہا ہے، ہماری کیا مجال ہے کہ گناہ کی نسبت اس کی طرف کریں ورنہ حدیث شریف میں آیا ہے والقدر خیرہٖ وشرّہٖ من اللہ تعالٰی یعنی اور بدی کا مقدر کرنا سب اللہ تعالیٰ سے ہے۔
اے درویش! اگر گناہ کرنے والے ہم ہوں تو مخلوق ہونا ہم سے جدا ہوجاوے، اگرچہ وہ گناہ ہے لیکن کسی چیز کے بنانے کی قوت جب ہم کو ہوگئی تو ہم بھی خالق ہوگئے، مخلوقی کا حرف اسی سے مختص ہے جس سے خود بخود کوئی حس و حرکت ظاہر نہ ہو، تم دُولاب کی طرح پھر رہے ہو پانی کا نکالنا تمہاری طرف منسوب ہے مگر دراصل پھرنا تمہارے قبض میں نہیں ہے، تم تو ایک سبب ہو، اسباب بنانے والا وہی ہے، تمہاری حرکت بنانے والے کے ہاتھ میں ہے، پس ہم ہر گز اپنے آپ متحرک نہیں، گیند کی طرح ہماری حرکت چوگانِ قدرت کے ہاتھ میں ہے، ہم فعل ہیں ہماری عزت و ذلت ہمارے فاعل کے اختیار میں ہے، فعل کو کیا قدرت و طاقت ہے کہ فاعلی کرے، ہم پتوں کی طرح بے حرکت ہیں، ہماری حرکات اس کی رضا کی ہوا کے ساتھ وابستہ ہیں، اپنے آپ کو بگولا کی طرح جانو، ہوا اس میں پوشیدہ ہے، اس کو پھرا رہی ہے، کبھی بلندی پر لے جاتی ہے، کبھی پَستی پر لے آتی ہے، کبھی مٹی پر مٹی پھینکواتی ہے، پس اے مرد! جان لو کہ ہم بیشک گرد و غبار کی مانند ہیں، جس طرح وہ چاہے ہم کو رکھے، اگر ہماری حرکت ہمارے ساتھ میں ہوتی تو ہم اپنی حاجتوں کے نہ پورا ہونے سے کیوں غمگین ہوتے۔
اے درویش! مذہب فقریہ ہے کہ کسی سے کوئی غرض نہ رکھے، سب کچھ اسی ذات سے سمجھے، جب تک درویش کا اعتقاد ہمہ از دست پر راسخ نہ ہوگا اپنے آپ کو درویشوں کے سلسلہ میں مت شمار کرے، اور جو کچھ درویشانِ متقدمین کے احوال کتابوں میں لکھے ہیں، ان سے اشتغال رکھنا چاہیے کیونکہ تجربہ کاروں کے فرمان پر چلنے سے کشودِ کار ہوتا ہے۔
ہمہ اوست
فرمایا اے درویش! ہمہ اوست کمال معرفت کا درجہ ہے، وہاں ہم اور تم ہست اور نیست، کچھ نہیں شمع کی طرح ہر طرف ایک ہی رُخ ہے، ہر چہرہ میں وہی ذات اپنا جلوہ دیکھتی ہے، ہر طرف وہی وہ ہے، مشعل و پروانہ ایک ہیں، فاعل مفعول یعنی کرنے والا اور کیا گیا سب ایک ہیں۔
اے درویش! غصہ و حیا علامت دوئی (غیریت و اثنینیت) ہیں، جہاں سوا ایک کے کچھ مشہود نہ ہو وہاں غصہ کس پر اور حیا کس سے؟ درویش جو صورت سےگذر جاوے اور معنی کو پالے اس کی نظر میں سوائے ذاتِ واحد کے کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہر صورت میں اور ہر جگہ وہ ایک کو ہی دیکھتا ہے، ضارب و مضروب (مارنے والا اور مار کھانے والا) اس کی نگاہ میں باہم غیر نہیں دکھائی دیتے، وہ ہر حال میں خوش بخوش رہتا ہے، جیسا کہ عناصر یکساں ہیں اور ان سے بیشمار شکلیں اور رنگ جملہ موجودات میں نمایاں ہیں، لیکن عناصر کی یکرنگی میں کوئی فرق نہیں آیا، کمزور طاقتور، اونٹ و گھوڑے، شیر و ہاتھی، مچھر و کیڑے، ارزق و نیزبین، اخول اور اندھے سب انہیں عناصر سے موجود ہوئے، (شکلوں میں اختلاف ہوا لیکن عناصر میں نہیں) اسی طرح دیکھنے والا اور بولنے والا، پہچاننے والا اور حرکت کرنے والا سب موجودات میں ایک ہی ہے، عناصر کی ظاہری و باطنی حِس غیر اُس ذات کے کچھ نہیں، عناصر بے حس پوست ہیں اور جس نے سب پوستوں کو متحرک کیا ہے وہ صورت اورنگ سے پاک ہے، سب جگہ موجود ہے، جیسا کہ سب جہان کے چمن و گلزار اور برگ و بار کو بادِ صبا کھِلاتی اور ہلاتی ہے، اور وہ ایک ہی ہے، اور ہر ایک چشمہ میں پانی ہے اور وہ ایک ہی ہے، اور ہر ایک پتھر میں آگ ہے وہ ایک ہی ہے (مقامات کے تعدد سے ان کی یگانگت میں فرق نہیں آیا) چاہیے کہ تم صورت سے گذر جاؤ اور معنی تک پہنچو، حتی کہ اشکال مختلفہ تم کو آئینہ ہوجاویں گے، اور سب شیشوں میں تم اپنی صورت دیکھو گے، یہ بصارت جو آب و گل کی آنکھوں میں ہے یہ آب و گل کو دیکھتی ہے، اور وہ بصارت جو ہوش کی آنکھوں میں ہے حقائق اشیاء کو دیکھتی ہے جب کثرت میں وحدت ظاہر ہوجاوے تو ظاہری بصارت پر اعتبار نہیں رہتا، اہل بصیرت اور محقق نظر ہوجاتا ہے، سو بسو اور موبمو اس کو ذاتِ واحد کےسوا کچھ نظر نہیں آتا، بلکہ سب موجودات میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے، مخلوقی کا خیال اس سے برطرف ہوجاتا ہے، سوائے خالق کے کچھ نہیں رہتا، مخلوق نا بود ہوجاتا ہے جو کچھ تم کو سامنے نظر آتا ہے صرّاف کی طرح اس میں دیکھو، جب غور کی نگاہ سے دیکھو گے تو صرف ایک ذات ہی نظر آئے گی۔
اے درویش! سب مدعا خیال کی مشق میں ہے، اہل دنیا کہ دن رات دنیا کے خیال میں محو ہیں۔ خالق سے کنارہ کر کے مخلوق میں سرگردان ہوجاتے ہیں، اور بیشمار آفات و غم و اندوہ ان کو لاحق ہوتے ہیں، اسی طرح اگر دن رات تم وحدت کا خیال رکھو گے تو بتدریج ایسا وقت آئے گا کہ سوائے ایک ذات کے کچھ نہ رہے گا، جیسا کہ عشق مجازی کے خیال میں مجنوں نے کمال کیا اس کو چاروں طرف سوائے لیلیٰ کے کچھ نظر نہ آتا، بلکہ مجنووں نہ رہا لیلٰے ہی لیلٰے ہوگئی۔
اے درویش! اس دنیا کے بتکدہ کو دیکھو، ہر بت میں بت ساز اور بت شکن کو دیکھو جب آنکھیں کھولو گے تو سب شیشہ ہیں، ہر جمال میں اپنا چہرہ دیکھو گے۔ اے فقیر! جب تو اپنے مقام کو پہچانے تو تیری کوئی جگہ نہ رہے، نہ یہ رہے نہ وہ رہے، نہ تیرا گھر رہے، زندگی کی خواہش اور موت کا خوف کچھ نہ رہے، ہر آواز میں اور ہر ساز میں تیرے ہی گیت گائے جاویں۔ [۱] [۱۔ چہار بہار ۱۲]
معرفین کمال
۱۔ آپ کے مرشدِ طریقت حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے متعلق فرمایا ہے ’’آیا میرا ڈھولن چارے بنّے رکھ‘‘ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۱۲]
۲۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
’’جو اد طریق المحبت مولانائے حاجی محمد بدعائے سلامتِ احوال و صعود مدارج کمال مشغول اند۔‘‘ [۱] [۱۔ ایراد العبارات ۱۲]
۳۔ حضرت خواجہ محمد احسان مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
’’حاجی نوشہ صاحب عروۃ الوثقیٰ کے ہم عصر صاحب ذوق و شوق نہایت عزیز الوجود تھے، آپ کا جذبہ نہایت قوی تھا۔‘‘ [۱] [۱۔ روضۃ القیومیہ رکن دوم ۱۲ شرافت]
۴۔ حضرت شاہ غلام علی مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات کے ایک مکتوب میں جو خواجہ حسن مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف لکھا ہے فرماتے ہیں۔
’’قولکم اولیاء کہ بمرتبہ غوثیت رسیدہ اند در چشتیہ بسیاء اندودر قادریہ ہمیں ذاتِ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ ست، نے درخاندانِ قادریہ حاجی نوشہ و شاہ قمیص و میراں عبد اللہ و شاہ ابو المعالی و شاہ کمال کینتھلی رحمۃ اللہ علیہم و مثل اینہا عزیزاں بسیار گذشتہ اند دریں دیار، و حوال خلفائے کہ در دیار دیگر اند بسیار اند۔‘‘ [۱] [۱۔ مکاتیب شریفہ مکتوب صدویکم (۱۰۱) ۱۲]
۵۔ حضرت مولانا مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’شیخ حاجی محمد قادری المشہور بہ نوشاہِ گنج بخش قدس سرہ از عظمائے خلفائے شاہ سلیمان قادری رحمۃ اللہ علیہ ولی مادر زاد صاحبِ جذب و صحو و سکر و محبت و عشق و شوق و ذوق و زہد و ریاضت و تقوٰے صاحبِ عبادت والی ولایت اہلِ خوارق و کرامت امام و مقتدائے طریقہ نوشاہیہ قادریہ است در فقر مقاماتِ بلند و شانِ ارجمند داشت۔‘‘ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۸۰؍ ۱۲]
۶۔ حضرت شاہ بھولا ولی قادری رحمۃ اللہ ساکن چَک منجو نے فرمایا ہے۔
’’حاجی نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا در بار بڑا عالی دربار ہے، وہاں سے ہر کسی کا کاسہ گدائی لبریز ہوتا ہے۔‘‘ [۱] [۱۔ حیاتِ سچیار ۱۲]
۷۔ حضرت سیّد عبد الوہاب ثانی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ساکن چک سادہ نے فرمایا ہے۔ ’’حضرت نوشہ حاجی رحمۃ اللہ علیہ اس وقت خاندانِ قادری کے آفتاب ہیں۔‘‘ [۱] [۱۔ انوار الصالحین ۱۲]
۸۔ حضرت شیخ پیر محمد سچیار نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
’’میرے شیخ حضرت حاجی نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دربارِ نبوی میں خاص حضوری ہیں اور جو فیض امت پر وارد ہونا ہوتا ہے وہ پہلے انہیں پر وارد ہوتا ہے، اور وہ آگے تقسیم کرتے ہیں، اور بوقتِ تقسیم مجھے بڑوں کی طرح حصہ عطا فرماتے ہیں۔‘‘ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ۱۲ شرافت]
۹۔ حضرت مولانا محمد اشرف فاروقی منچری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
’’حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے تمام اولیا سے روحانی طاقت میں بڑے، اور صاحب مقاماتِ رفیعہ تھے‘‘۔[۱] [۱۔ مناقب نوشاہی ۱۲]
۱۰۔ ملائکہ مقربین نے حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا۔
’’حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا دربار عشق سے پُر ہے، اور وہ خدائی رنگ میں رنگنے والے ہیں۔‘‘ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۱۰۲]
۱۱۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب مجددی سَیتھلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’ہمارے یہاں حضرت شاہ حاجی محمد رحمۃ اللہ علیہ فقیر، ولی اپنے وقت میں ہوئے ہیں، اُن کا نام غیب سے نوشاہ رکھا گیا تھا جیسا کہ اُن کے مناقبوں میں آیا ہے سو اسی روز سے نام اُن کا سوائے بتلانے اُن کے نوشاہِ حاجی بولا گیا ہے، کوئی اُن کا نام سوائے نوشاہ صاحب کے نہیں بولتا ہے۔‘‘ [۱] [۱۔ رسالہ ردِّ مرزا قادیانی ۱۲]
۱۲۔ حضرت قاضی سلطان محمود قادری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین اوان شریف فرمایا کرتے تھے۔
’’حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے مجدد اکبر تھے، اور ان کو مرتبہ وراثۃ الانبیا حاصل تھا، اور وہ بتوجہ باطنی اپنے مریدوں کے دلوں پر اسمِ اعظم کندہ کرتے تھے۔‘‘ [۱] [۱۔ روایتِ مشہور ۱۲]
ازواجِ محترمات
آپ کی تین بیبیاں پاکباز تھیں، جو نہایت عارفات قانتات عابدات زاہذات تھیں۔
۱۔ آپ کی پہلی شادی نوشہرہ تارڑاں میں حضرت سیّد فتح محمد علوی عباسی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوئی، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۸۵ شرافت] اسی شادی میں آپ کی برات کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی ہمراہ تھے، [۱] [۱۔ مجمع الاسرار ۱۲ شرافت] صاحبِ تحقیقاتِ چشتی نے آپ کے خسر کا نام شیخ ابو نصر رحمۃ اللہ علیہ لکھا ہے۔ ان کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
۲۔ دوسری بی بی صاحبہ کا نام حضرت روئیل خاتوں صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ تھا، جو نہایت پاکباز نیک نہاد تھیں، اور آبا و اجداد سے فضیلتِ علم سے مشرف تھیں، والد بزرگوار کانام حضرت حافظ بہاو الدین ہیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھا، ابن حاجی عزیز اللہ بن شیخ فرید الدین نو مسلم (سابقہ نام روپ چند) بن فرن بن جیون بن چنگا بن چوکھا بن کالا بن سٹھو بن منہاس (مورث قومِ منہاس راجپوت) اِن کے بطن سے اولاد ہوئی۔
۳۔ تیسری بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کا حال رسالہ القادِر نوشاہی میں اس طرح پر درج ہے کہ ایک درویش بزرگ علاقہ ڈگرّ مضافاتِ دریائے راوی کا آپ کی خدمت میں وارد ہوا، اور عرض کیا کہ میری ایک ہمشیرہ سراپا عفت و عصمت ہے وہ میں کسی اہل دنیا کے حوالے کرنا نہیں چاہتا، میرا خیال ہے کہ اگر آپ اس کو قبول فرمالیں تو میں آپ کو نکاح کردوں، آپ چونکہ سوائے امر الٰہی کے کوئی کام نہ کرتے تھے، تھوڑی دیر مراقبہ کیا، اور بارگاہِ الٰہی سے اجازت ہونے پر اُس درویش کو آگاہ فرمایا، وہ درویش گیا، اور وطن سے اپنی ہمشیرہ کو ساتھ لے آیا، اور آپ کے ساتھ نکاح کردیا۔
ان کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
اولادِ کرام
آپ کے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں، تینوں حضرت روئیل خاتون صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
۱۔ حضرت شاہ حافظ محمد بر خور دار بحر العشق رحمۃ اللہ علیہ
بڑے فاضل اجل صاحب مقاماتِ عالیہ تھے، اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی وراثت میں مرتبہ قطبیت و غوثیت پر فائز ہوئے، حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بایمائے غیبی اِن کو دستارِ خلافتِ کبرٰے عطا فرما کر اپنا ولی عہد و سجادہ نشین مقرر کیا، ہزاروں مخلوق اِن سے مستفیض ہوکر درجۂ ارشاد کو پہنچی، اِن کی کرامات و خوارق اکثر کتابوں میں منقول ہیں، پندرھویں ذیقعدہ ۱۰۹۳ھ کو انتقال فرمایا، اِن کا مزار شریف روضۂ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مشرقی جانب بفاصلہ سات قبروں درمیانی کے، چبوترہ بلند پر سنگِ مَر مَر کا بنا ہوا ہے۔
اِن کے چھ صاحبزادے تھے۔ ۱۔ شاہ عنایت اللہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ شاہ سعد اللہ حکیم رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ شاہ رحمت اللہ عارف رحمۃ اللہ علیہ، ۴۔ شاہ نصرت اللہ محدث رحمۃ اللہ علیہ، ۵۔ شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان رحمۃ اللہ علیہ، ۶۔ شاہ حافظ جمال اللہ فقیہ رحمۃ اللہ علیہ۔
راقم الحروف مؤلف کتاب ہذا فقیر ابو الریاض شریف احمد شرافت عفا اللہ عنہ بھی انہیں کی اولاد سے ہے، میرا نسب نامہ اِس طرح ملتا ہے، میرے والد بزرگوار کا نام حضرت شاہ غلام مصطفےٰ صاحب مدظلہ العالی ہے، ابنِ حضرت سید السّادات سیّد محمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شبِ سہ شنبہ ۲۲؍ محرم ۱۳۳۷ھ) بن حضرت شاہ محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب یکشنبہ ۱۸؍ جمادی الاُخرٰے ۱۳۱۰ھ) بن قبلۂ عالم حضرت شاہ قُل احمد جیو صاحب پاکذات نوشاہِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شبِ سہ شنبہ ۲۳؍ ربیع الآخر ۱۲۸۶ھ) بن حضرت حضرتِ اعلٰے شاہ الٰہی بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شنبہ ۷؍ رمضان ۱۲۵۳ھ) بن حضرت حافظ شاہ نور اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶؍ صفر ۱۲۲۹ھ) بن حضرت حافظ شاہ محمد حیات صاحب رحمۃ اللہ علیہ مصنفِ تذکرہ نوشاہیہ (متوفی ۱۱۷۳ھ) بن حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب فقیہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب سہ شنبہ ۱۲؍ ربیع الآخر ۱۱۴۲ھ) بن حضرت شاہ حافظ محمد برخوردار بحر العشق رحمۃ اللہ علیہ۔
۲۔ حضرت شاہ محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ
علومِ عقلیہ و نقلیہ کی پوری تحصیل کی، مولانا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ سے تلمذ کیا، فقہ و حدیث و طب میں کافی مہارت تھی، مقاماتِ ولایت میں بلند مرتبہ تھے، روحانیت کو علمِ ظاہری میں چھپایا ہوا تھا، ان کے حالات بہت کتابوں میں موجود ہیں، بائیسویں ذی الحجہ ۱۰۹۲ھ کو وفات پائی، بھائی صاحب کلان کے مشرق جانب مزار پختہ بنا ہوا ہے۔
ان کے تین صاحبزادے تھے۔ ۱۔ شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ شاہ عظمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ شاہ محمد سعید صاحب دُولا رحمۃ اللہ علیہ پہلے دونو صاحبان لا ولد فوت ہوئے، تیسرے صاحبزادہ کی اولاد موجود ہے۔
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی کا نام
حضرت سیدہ سائرہ خاتوں صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا تھا، یہ بڑے بھائی سےچھوٹی، اور چھوٹے بھائی سے بڑی تھیں، اِن کا نکاح حضرت حافظ معموری ہیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا تھا، اِن کے بطن سے چار صاحبزادے ہوئے۔ ۱۔ میاں تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ میاں ہدایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ میاں نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۴۔ میاں عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے۔
آپ کےصاحبزادوں و اولاد کے مفصل حالات ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب ہذا کے دوسرے جلد موسوم بہ طبقات النوشاہیہ میں آئیں گے۔
فضائل اولاد
آپ نے اپنی اولاد کے متعلق کئی فضائل بیان کیے ہیں، اُن میں سے جو وفات کے وقت حضور نے ارشاد فرمائے تھے وہ تو واقعۂ وفات میں درج کیے جائیں گے، بعض فضائل جو اس کے علاوہ فرمائے ہیں وہ یہ ہیں۔
فرمایا: جس جگہ میری اولاد جائے گی میں اس کے ہمراہ ہوں گا، جو شخص میری اولاد کے ساتھ نیکی کرے گا میں خدا تعالیٰ سے اس کے ساتھ نیکی کرواؤں گا، اور جو شخص میری اولاد سے بدی کرے گا میں خدا تعالیٰ سے اس کو بری سزا دلواؤں گا، اور جو شخص میری اولاد کی خدمت کرے گا جو مانگے گا سو پائے گا، اور جو شخص میری اولاد کا ایک دام نقصان کرے گا، اُس کے تیرہ دام نقصان ہوں گے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۰] حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بعالمِ روحانیت حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بطورِ بشارت فرمایا کہ تیری اولاد بہت ہوگی، اور نعمتِ فقر سے مشرف ہوں گے، اور میں اُن کا ہاتھ پکڑنے والا ہوں، اور میں قیامت تک ان کی محافظت کا ضامن ہوں اگر کوئی شخص تیری اولاد کا ایک پیسہ نقصان کرے گا تو میں اُس کے سو پیسے زیان کروں گا، جو کوئی تیری اولاد سے عداوت رکھے گا میں اس کی بیخ و بنیاد ویران کردوں گا۔ [۱] [۱۔ مناقبات نوشاہیہ ص ۳۰]
تلامذۂ عظام
آپ نے کچھ عرصہ تک ظاہری علم کی تدریس بھی جاری رکھی، بہت لوگ آپ سے فضیلتِ علمی کو پہنچے از انجملہ۔
آپ نے کچھ عرصہ تک ظاہری علم کی تدریس بھی جاری رکھی، بہت لوگ آپ سے فضیلتِ علمی کو پہنچے از انجملہ۔
۱۔ حضرت حافظ محمد بر خور دار صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ حضرت شاہ محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ حضرت شیخ حافظ نور محمد صاحب سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ اِن کے علاوہ بھی کوئی حضور کی شاگردی سے سرفراز ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲ شرافت]
مریدین
حضرت مرزا احمد بیگ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ الاعجاز میں لکھتے ہیں کہ آپ کے یار اس قدر کثیر التعداد ہیں کہ ان کا ضبطِ قلم میں آنا محال ہے، حق تعالیٰ نے آپ کو ایسی تاثیر بخشی تھی کہ جس شخص پر آپ توجہ فرماتے اُس کا قلب فورًا ذاکر ہوجاتا، اور آپ مریدوں کو یار فرمایا کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۰۹]
آپ نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں میرے دو درویش ہوں گے وہ مجھے تیسرا حاضر سمجھیں، اور فرمایا۔ جتنے لوگ قیامت تک میرے سلسلہ میں داخل ہوں گے میں دونو جہان میں ان کی پشت پناہ ہوں گا، اور ہر ایک مشکل میں ان کا مددگار و معاون ہوں گا، جس جگہ وہ جائیں گے میں اُن کے ساتھ ہوں گا قیامت کے دن وہ میرے ہمرا خدا کی درگاہ میں حاضر ہوں گے، اور میرے سلسلہ کے تمام لوگ میرے ساتھ خدا تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۱۱۱۰ شرافت] اور فرمایا قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم کو اذن ہوگا تو ہم اپنے تمام مریدوں کو اپنے کمل (بھورا) میں گٹھڑی باندھ کر بہشت میں پہنچائیں گے، ہمارا کوئی مرید دوزخ میں نہیں رہے گا، اور فرمایا جو شخص میری خانقاہ کے حلقہ سے ہو کر گذرے گا وہ بہشتی ہوگا، اور فرمایا جو شخص میری خانقاہ کے چاروں طرف بارہ بارہ کوس کے فاصلہ تک گذرے گا دراں حالیکہ وہ میرے حق میں نیک اعتقاد رکھنے والا ہوگا اس کی نجات کی کافی امید ہے۔
حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بعالمِ روحانیت آپ کو بشارت دی تھی کہ میں تیرے فقیروں کا قیامت تک محافظ ہوں گا، اور تیرے ارادتمندوں سے کئی لوگ فقیر، اور کئی لوگ دنیا دار ہوں گے، میں سب کی نگہبانی کروں گا، اور مصیبت و مشکل کے وقت ان کی دستگیری کروں گا، اور سب کو بہشت میں اپنے ساتھ بلا حساب لے جاؤں گا۔ [۱] [۱۔ مناقبات نوشاہیہ ص ۳۱ شرافت]
خلفائے ذو الاحترام
آپ کے خلفا تو بیشمار تھے، اُن میں سے خواص یاروں کو متاخرین بزرگوں نے تین قسم پر منقسم کیا ہے، بائیس (۲۲) صوبے (خلفائے اکبر) باون (۵۲) بانوا (خلفائے اصغر) بہتر (۷۲) امراء (صاحب مجاز) لیکن فقیر شرافت عافاہ اللہ نے پہلے مصنفوں کی طرز کے مطابق کسی قسم کو ملحوظ نہیں رکھا، جو مشاہیر خلفا ہوئے ہیں اُن کے اسمائے گرامی بالترتیب درج کر دئیے ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ رحیم داد فرزند اکبر و سجادہ نشین حضرت سخی شاہ سلیمان نوری قریشی رحمۃ اللہ علیہ مدفون بھلوال شریف ضلع سرگودھا، ۲۔ حضرت شیخ تاج محمود فرزندِ اصغر حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ مدفون بھلوال شریف، ۳۔ حضرت شاہ حافظ محمد بر خور دار بحر العشق فرزند و اکبر و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین حضرت نوشہ گنج بخش علوی عباسی رحمۃ اللہ علیہ مدفون مقبرہ نوشاہیہ ساہنپال شریف ضلع گجرات، ۴۔ حضرت شاہ محمد ہاشم دریا دل فرزندِ اصغر حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدفون مقبرہ نوشاہیہ ساہنپال شریف، ۵۔ حضرت حافظ معموری بن حافظ محمد اسحٰق قوم منہاس راجپوت ساکن ہیلاں ضلع گجرات، ۶۔ حضرت شیخ حافظ نور محمد نوری مدفون محلہ رنگ پورہ سیالکوٹ، ۷۔ حضرت شیخ صدر الدین المعروف شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ قوم قریشی ہاشمی عقیلی مارفون رُکھ چٹھہ متصل رسول نگر ضلع گوجرا نوالہ، ۸۔ حضرت شیخ پیر محمد سچیار بن علی بن وارث خاں رحمۃ اللہ علیہ قوم گکٹھر کیانی مدفون نوشہرہ شریف ضلع گجرات، ۹۔ حضرت مرزا الف بیگ الملقب بہ شاہ الف المعروف شیخ محمد تقی مجذوب رحمۃ اللہ علیہ قوم مغل مدفون نوشہرہ شریف، ۱۰۔ حضرت شیخ صالح محمد بن شیخ عبد الوہاب درویش رحمۃ اللہ علیہ مدفون چک سادہ ضلع گجرات، ۱۱۔ حضرت شیخ عاشق محمد بن شیخ عبد الوہاب درویش رحمۃ اللہ علیہ مدفون بَن باجوہ ضلع سیالکوٹ، ۱۲۔ حضرت شیخ جلال الدین محمد رحمۃ اللہ علیہ ساکن کوٹلی جلال ضلع سیالکوٹ، ۱۳۔ حضرت شیخ اسمٰعیل آہنگر رحمۃ اللہ علیہ ساکن کوٹلی جلال، ۱۴۔ حضرت سید خواجہ محمد فضیل وحی رحمۃ اللہ علیہ مدفون بینی حصار کابل، ۱۵۔ حضرت شیخ شاہ محمد قطب قندھار رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۔ حضرت شیخ عبد الرحمٰن پاک صاحب بن میاں صالح محمد رحمۃ اللہ علیہ قوم قریشی اسدی بہائی مدفون بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ، ۱۷۔ حضرت شیخ آلہداد بن میاں صالح محمد رحمۃ اللہ علیہ قوم قریشی اَسدی بہائی مدفون بھڑی شاہ رحمان، ۱۸۔ حضرت شیخ فتح محمد قلندر المعروف شاہ فتّا دیوان رحمۃ اللہ علیہ مدفون ساگری ضلع جہلم، ۱۹۔ حضرت حاجی الحرمین الشریفین قاضی خوشی محمد رحمۃ اللہ علیہ مدفون کنجاہ ضلع گجرات، ۲۰۔ حضرت قاضی رضی الدین مدفون کنجاہ، ۲۱۔ حضرت شیخ مِٹھا مجذوب المعروف پیر مِٹھا رحمۃ اللہ علیہ مدفون کُنجاہ، ۲۲۔ حضرت شیخ ابو البقا رحمۃ اللہ علیہ مدفون کنجاہ، ۲۳۔ حضرت شیخ نظر محمد رحمۃ اللہ علیہ مدفون کنجاہ، ۲۴۔ حضرت سید عبد اللہ مجذوب بن شیخ فرید بخاری المخاطب بہ نواب میر مرتضٰے خاں منصبدار رحمۃ اللہ علیہ مدفون لاہور، ۲۵۔ حضرت سید شاہ محمد شہید بن میراں سید حسین بہاکری رحمۃ اللہ علیہ مدفون برکنارہ گھان قلعۂ رُہتاس ضلع جہلم، ۲۶۔ حضرت میاں شادی رحمۃ اللہ علیہ مدفون رہتاس، ۲۷۔ حضرت شیخ محمد محسن رحمۃ اللہ علیہ مدفون رہتاس، ۲۸۔ حضرت شیخ نانک شہید المعروف میاں نانو مجذوب رحمۃاللہ علیہ قوم بھیں مدفون کَیلا سکے چیمہ ضلع گوجرانوالہ، ۲۹۔ حضرت حافظ طاہر مجذوب رحمۃ اللہ علیہ ساکن کشمیر، ۳۰۔ حضرت شیخ عبد اللہ المعروف دُلّڑ شہاب رحمۃ اللہ علیہ مدفون چومکھ ضلع میر پور ریاست جموں، ۳۱۔ حضرت شیخ عبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ قومِ گوجر ساکن علاقہ گوجر ضلع گجرات، ۳۲۔ حضرت میاں جیون مطرب رحمۃ اللہ علیہ ساکن ساہنپال شریف، ۳۳۔ حضرت شیخ نور محمد ہندی رحمۃ اللہ علیہ عاشقِ صادق، ۳۴۔ حضرت میاں نانوبھک رحمۃ اللہ علیہ قوم جٹ رانجہہ، ۳۵۔ حضرت میاں محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ قوم چٹھہ، ۳۶۔ حضرت میاں تاجہ نرکھی رحمۃ اللہ علیہ، ۳۷۔ حضرت شاہ عالم سُرخ پوش رحمۃ اللہ علیہ، ۳۸۔ حضرت میاں درویش مجذوب رحمۃ اللہ علیہ، ۳۹۔ حضرت میاں جیون حجام رحمۃ اللہ علیہ ساکن باہو ضلع گجرات، ۴۰۔ حضرت میاں شاہا پرشوری رحمۃ اللہ علیہ، ۴۱۔ حضرت میاں اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ، ۴۲۔ حضرت میاں منگا رحمۃ اللہ علیہ، ۴۳۔ حضرت میاں کمال الدین بافندہ رحمۃ اللہ علیہ، ۴۴۔ حضرت میاں ماہ رُو رحمۃ اللہ علیہ، ۴۵۔ حضرت شیخ عبد الحکیم رحمۃ اللہ مدفون چک سروانی ضلع گجرات، ۴۶۔ حضرت شیخ فرّخ محمد سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ، ۴۷۔ حضرت میاں جان محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۴۸۔ حضرت میاں کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ اُن کا بھائی، ۴۹۔ حضرت میاں صادق محمد رحمۃ اللہ علیہ ساکن رند ہیر بک، ۵۰۔ حضرت میاں صادق مجذوب رحمۃ اللہ علیہ، ۵۱۔ حضرت میاں محمود رحمۃ اللہ علیہ قوم گوجر ساکن چک سمّہ، ۵۲۔ حضرت میاں جمال نعلدوز رحمۃ اللہ علیہ، ۵۳۔ حضرت مرزا امان اللہ رحمۃ اللہ علیہ قوم مغل، ۵۴۔ حضرت میاں بَکھّا رحمۃ اللہ علیہ، ۵۵۔ حضرت میاں جلیل رحمۃ اللہ علیہ، ۵۶۔ حضرت میاں بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۵۷۔ حضرت میاں بھیرو فقیر رحمۃ اللہ علیہ، ۵۸۔ حضرت میاں آلہ بخش قوم جَٹ رحمۃ اللہ علیہ، ۵۹۔ حضرت شیخ معروف چشتی رحمۃ اللہ علیہ مدفون سوہدرہ ضلع گوجرا نوالہ، ۶۰۔ حضرت میاں رحمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ساکن نون علاقہ گوجر ضلع گجرات، ۶۱۔ حضرت مُلّا اخوند محمد عُرف کمال الدین کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ساکن سیالکوٹ، ۶۲۔ حضرت مولانا عبد الحکیم آفتاب پنجاب رحمۃ اللہ علیہ مدفون سیالکوٹ، ۶۳۔ حضرت شیخ حاجی کتب دار سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ، ۶۴۔ حضرت سید میراں مصطفٰے نجاری رحمۃ اللہ علیہ مدفون مقبرہ نوشاہیہ ساہنپال شریف، ۶۵۔ حضرت شاہ چیچا ولی بخاری رحمۃ اللہ علیہ مدفون مقرۂ نوشاہیہ، ۶۶۔ حضرت شیخ جیتا ولی رحمۃ اللہ علیہ مدفون چنبہل ضلع شیخو پورہ، ۶۷۔ حضرت شاہ بل بَل دیوان رحمۃ اللہ علیہ ساکن پیلی بھیت، ۶۸۔ حضرت مولوی عبد القادر بن حاجی شیخ حامد رحمۃ اللہ علیہ ساکن مَلک وال ضلع گجرات، ۶۹۔ میاں محمد صادق پٹواری رحمۃ اللہ علیہ ساکن چک سمّہ، ۷۰۔ چوہدری شیخا رانجہہ ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۷۱۔ چوہدری شاہیں بال المعروف ساہنپال بن مَہماں قومِ تارڑ کھِڈا بانی موضع ساہنپال شریف، ۷۲۔ چوہدری رحمان قلی بن ساہنپال تارڑ رحمۃ اللہ علیہ، ۷۳۔ چوہدری محمد قلی بن ساہنپال تارڑ رحمۃ اللہ علیہ، ۷۴۔ چوہدری مرشد قلی بن ساہنپال تارڑ رحمۃ اللہ علیہ، ۷۵۔ چوہدری مست قلی بن سا ساہنپال تارڑ رحمۃاللہ علیہ، ۷۶۔ میاں ہندال قوّالِ خاص رحمۃ اللہ علیہ ساہنپالی، ۷۷۔ چوہدری نہالا مانگٹ ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۷۸۔ میاں کھیون بافندہ ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۷۹۔ میاں استا جانی نجار رحمۃ اللہ علیہ قوم بھٹی جبل ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۸۰۔ میاں احمد معمار ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۸۱۔ چوہدری شمشیر خاں رحمۃ اللہ علیہ ساکن پانڈو وال ضلع گجرات، ۸۲۔ مرزا شیر علی خاں مغل بیجا پوری رحمۃ اللہ علیہ الملقب بہ پہلوان پائے تخت ساکن لاہور، ۸۳۔ میاں محمد امین لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، ۸۴۔ چوہدری جھنڈا مزارعہ ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۸۵۔ چوہدری مست رانجہہ ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۸۶۔ چوہدری چنن گوندل ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ، ۸۷۔ میاں خیر الدین باغبان ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ، ۸۸۔ چوہدری شریف قوم تارڑ گندراء ساکن دَھریک ضلع گجرات، ۸۹۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ، المعروف خجلی فقیر ساکن منیس ضلع گوجرانوالہ، ۹۰۔ چوہدری لقمان بن شاہ محمد قوم وڑائچ رحمۃ اللہ علیہ ساکن خالق پور ضلع گوجرانوالہ، ۹۱۔ میاں نور محمد بن حمید نجار رحمۃ اللہ علیہ ساکن اگرویہ ضلع گجرات، ۹۲۔ چوہدری محب علی بن زر بخش رحمۃ اللہ علیہ ساکن اگرویہ، ۹۳۔ میاں مرزا بن رائے وجہ اللہ خاں المعروف و نجہل خاں قوم ساہی کھرل دانا آبادی رحمۃ اللہ علیہ مدفون واں ہَڈبھناں ضلع شیخوپورہ، ۹۴۔ میاں ہست محمد رحمۃ اللہ علیہ ساکن نور پور چاہلاں ضلع گوجرانوالہ، ۹۵۔میاں میراں بخش عرف میر جیو بن الٰہی بخش قوال ساہنپالی رحمۃ اللہ علیہ، ۹۶۔ حضرت سلطان ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہ جہاں غازی صاحب قران ثانی رحمۃ اللہ علیہ، ۹۷۔ نواب سعد اللہ خاں وزیر چینوٹی رحمۃ اللہ علیہ، ۹۸۔ میاں عظمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۹۹۔ میاں جمال اللہ رحمۃ علیہ، ۱۰۰۔ میاں نصرت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۱۔ میاں حاجی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۲۔ میاں خان محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۳۔ میاں عبد السّلام رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۴۔ میاں فضل رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۵۔ میاں عبد الہادی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۶۔ شیخ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۷۔ میاں رحمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۸۔ میاں نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۰۹۔ حافظ عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۰۔ میاں شریف رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۱۔ میاں ظریف رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۲۔ میاں لالہ جوگی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۳۔ میاں امام الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۴۔ میاں عبد الرشید رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۵۔ میاں اخلاص رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۶۔ میاں عبد الرسول رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۷۔ میاں عبد النبی رحمۃاللہ علیہ، ۱۱۸۔ شیخ جان نور رحمۃ اللہ علیہ، ۱۱۹۔ شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۰۔ میاں عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۱۔ میاں عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۲۔ میاں مرزا عابد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۳۔ میاں کریم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۴۔ میاں نانو رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۵۔ میاں رشید رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۶۔ میاں کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۷۔ میاں عبد الکریم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۸۔ میاں محمد محسن رحمۃ اللہ علیہ، ۱۲۹۔ میاں اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۰۔ میاں مرید رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۱۔ میاں واسع رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۲۔ میاں فتح الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۳۔ میاں محمد یار رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۴۔ میاں سُہیل رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۵۔ میاں مراد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۶۔ میاں صادق رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۷ میاں اطہر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۸۔ میاں مستقیم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۳۹۔ میاں اللہ یار رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۰۔ سید عمر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۱۔ شیخ قائم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۲۔ میاں فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۳۔ میاں مُلّا کلان رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۴۔ میاں شاہ میر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۵۔ شیخ سلیم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۶۔ میاں بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۷۔ میاں حافظ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۴۸۔ میاں عبد الشیخ رحمۃ اللہ علیہ،۱۴۹۔ میاں قاسم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۰۔ میاں احمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۱۔ میاں عبد الدئم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۲۔ چوہدری حیدر مانگٹ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۳۔ حافظ قاسِم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۴۔ میاں ہاشم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۵۔ میاں کند و رانجہہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۶۔ میاں خیر محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۷۔ شیخ عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۸۔ میاں اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۹۔ حافظ نعمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۰۔ میاں فتح اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۱۔ شیخ علی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۲۔ میاں جیدار رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۳۔ میاں شاہو نعلدوز رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۴۔ میاں بیگا خارکش رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۵۔ میاں علی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۶۔ میاں مومن رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۷۔ میاں خلاص رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۸۔ میاں علی محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۶۹۔ شیخ محمد زَینی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۰۔ میاں حسن رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۱۔ میاں سعد اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۲۔ میاں محمد حافظ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۳۔ چوہدری سوہنداجٹ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۴۔ میاں حسین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۵۔ میاں نور رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۶۔ میاں باہو رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۷۔ میاں فَتّا رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۸۔ میاں تاج رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۹۔ میاں عاج رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۰۔ میاں تاجہ رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۱۔ میاں جاتری رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۲۔ میاں چَنّن رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۳۔ میاں شادی رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۴۔ میاں میر احمد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۵۔ میاں داد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۶۔ میاں شاہباز رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۷۔ میاں امین رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۸۔ میاں طاہر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۹۔ میاں قائم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۰۔ میاں آلہداد رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۱۔ میاں بہلو رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۲۔ شیخ حیات رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۳۔ میاں سپاہا رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۴۔ شیخ مستقیم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۵۔ میاں شہمیر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۶۔ میاں لہدم رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۷۔ میاں گُلّا رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۸۔ میاں خیرا رحمۃ اللہ علیہ، ۱۹۹۔ میاں راج رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۰۔ میاں عادل رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۱۔ میاں شاہزادہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۲۔ میاں ادہم رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۳۔ میاں احمد الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۴۔ میاں امیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۵۔ شیخ مراد محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۶۔ میاں فضلا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۷۔ میاں صاحبو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۸۔ میاں جمعہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۰۹۔ میاں الاہیا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۰۔ میاں قطبا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۱۔ میاں نظام رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۲۔ میاں رحمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۳۔ میاں مغل رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۴۔ میاں تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۵۔ قاضی رفیع رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۶۔ میاں ہدایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۷۔ قاضی سعد اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۸۔ میاں محمد فاضل رحمۃ اللہ علیہ، ۲۱۹۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۰۔ شیخ عبد المجید رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۱۔ میاں تلا میراثی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۲۔ میاں بَندا میراثی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۳۔ میاں سرندا میراثی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۴۔ میاں شاہِ جہانی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۵۔ میاں معمور رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۶۔ میاں مرزا بھٹی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۷۔ میاں ساؤ نعلدوز رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۸۔ میاں بیگناں ماہی گیر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۹۔ میاں اسلام رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۰۔ میاں وَیگا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۱۔ میں شہرو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۲۔ میاں جاہر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۳۔ میاں چوہڑ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۴۔ میاں متّا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۵۔ میاں عادی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۶۔ میاں راہا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۷۔ میاں بلو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۸۔ میاں لاد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۳۹۔ میاں شہمیرا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۰۔ میاں شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۱۔ شاہ فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۲۔ سید اسمٰعیل شاہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۳۔ میاں جیوا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۴۔ میاں گھُلّا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۵۔ میاں ماکھن رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۶۔ میاں کھیرو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۷۔ میاں حیب رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۸۔ میاں پھلّا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۴۹۔ میاں شفیع رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۰۔ میاں لعل رحمۃ اللہ علیہ، ۱۵۱۔ میاں فتو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۲۔ میاں صالح الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۳۔ میاں محمد گولا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۴۔ میاں رحماں رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۵۔ میاں جلّو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۶۔ میاں ستی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۷۔ میاں کاسب رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۸۔ میاں پھوہو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۵۹۔ شاہ مراد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۰۔ میاں تُلّا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۱۔ میاں بوٹا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۲۔ میاں رحم رحمۃ اللہ علیہ ، ۲۶۳۔ میاں سادھو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۴۔ میاں وارث رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۵۔ میاں جمال رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۶۔ میاں ابن خواجہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۷۔ میاں بیگ کمال رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۸۔ میاں چاہڑ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۶۹۔ میاں بھاگو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۰۔ میاں گھنیاں رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۱۔ میاں دَہر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۲۔ میاں حیاتا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۳۔ میاں خان بے رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۴۔ سید محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۵۔ میاں محمد حال رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۶۔ میاں گلو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۷۔ میاں رستم رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۸۔ میاں خانو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۷۹۔ میاں روشن رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۰۔ میاں مصری رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۱۔ میاں کلاسی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۲۔ میاں شیرو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۳۔ میاں فضل اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۴۔ حافظ تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۵۔ میاں چھدرو رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۶۔ میاں مہرا رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۷۔ میاں محمد نور بافندہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۸۔ خواجہ روشن رحمۃ اللہ علیہ، ۲۸۹۔ میاں گوجر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۰۔ میاں گل شیر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۱۔ میاں واحد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۲۔ میاں عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۳۔ میاں قادر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۴۔ میاں خالق رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۵۔ شاہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۶۔ میاں صادر رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۷۔ میاں عصمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ۲۹۸۔ میاں کَلّا رضوان اللہ علیہم۔
اور طائفہ مستورات میں سے (۲۹۹) حضرت سیدہ سائرہ خاتون رحمۃ اللہ علیہا دختر آنجناب رحمۃ اللہ علیہ (۳۰۰) حضرت بی بی سیداں رحمۃ اللہ علیہا اہلیہ چوہدری ساہنپال تارڑ رحمۃ اللہ علیہ۔
اور اہلِ ہنود سے بھی کئی لوگ مستفیضان درگاہ سے تھے، از انجملہ (۳۰۱) بابا لال داس بیراگی (۳۰۲) مول راج قانونگو (۳۰۳) رام رائے قانونگو (۳۰۴) جادو رائے قانو نگو (۳۰۵) بلّورائے (۳۰۶) تخت مل (۳۰۷) بَجُّومل۔
ف یہ تمام خلفائے کرام و ارادتمندانِ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسما گرامی کتاب رسالہ احمد بیگ و تذکرہ نوشاہیہ و ثواقب المناقب و تحائف قدسیہ و تصانیف شاہ عمر بخش صاحب رسولنگری رحمۃ اللہ علیہ و تحریراتِ مولوی حکیم کرم الٰہی صاحب فاروقی بیگو والی رحمۃ اللہ علیہ سے لیے گئے ہیں۔ اِن میں سے صاحبانِ ارشاد و یارانِ کبار کے حالات کتاب ہذا شریف التواریخ کے جلد دوم موسوم بہ طبقات النوشاہیہ و جلد سوم موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ میں تحریر ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سلسلہ نوشاہیہ
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سے جو خانوادہ فقر پنا، اُس کا نام صنفِ فقرا میں نوشاہیہ کہا جاتا ہے، بعض لوگ گنج بخشی بھی کہتے ہیں سلسلہ نوشاہیہ کے درویش صوفی مشرب، با شریعت، متورّع، صائم الدّھر قائم اللیل ہوتے ہیں، سیاہ کمل (بھورا) زیب بدن رکھتے ہیں۔
تبرّکات
آپ کے متعدد تبرکات زمانہ حاضرہ میں اولاد و درویشوں کے پاس موجود ہیں، جن کے صحیح ہونے کی سند بزرگوں سے متواتر ثابت ہے۔
قرآن مجید
یہ وہ قرآن مجید ہے جس پر حضور تلاوت فرمایا کرتے تھے، خطِ نسخ شکستہ ہے، بعض اوراق گُم ہیں، نا مکمل ہے۔
یہ قرآن مجید فقیر شرافت عافاہ اللہ کو اپنے نانا صاحب حضرت شاہ غلام علی صاحب خلف الصدق شاہ قدم الدّین صاحب برخورداری رحمۃ اللہ علیہ کے گھر سے ملا، اور اب فقیر کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
لُنگی
یہ لنگی باریک دھاریدار چار خانیہ ہے، بوجہ زمانہ دراز گذر جانے کے بوسیدہ اور حنائی رنگ ہوچکی ہے، یہ حضور تہبند کی جگہ استعمال فرماتے تھے۔
یہ لنگی آج کَل حضرت پیر واصل حق صاحب خلف الصدق پیر مکھن شاہ صاحب بر خور داری رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں بمقامِ لاہور، موچی دروازہ، لال کھوہ، اندرون کوچہ لَٹھ ماراں موجود ہے۔
عصا
یہ عصا چوب زیتون (کئو) کا ہے، پہلے تو پورا قد آدم کے مطابق تھا وبا کے وقت لوگ مویشیوں کی پشت پر پھیرتے تو شفا ہوجاتی، کچھ عرصہ ہوا کہ کوئی شخص اسی غرض سے لے گیا، مگر اُس نا بکار نے اس کو کاٹ لیا، اور کچھ حصہ اس کا واپس کر گیا، اب وہ بقدر تین بالشت موجود ہے، دونو سروں پر لوہے کی شامیں چڑھی ہوئی ہیں۔
یہ عصا آج کل حضرت شاہ حسیب اللہ بن شاہ اقبال علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دولت خانہ میں بمقام ساہنپال شریف موجود ہے۔
بھُورا
سیاہ کمل سُرخ دھاریدار ہے، یہ کمل آج کَل میاں غلام قادر صاحب سجادہ نشین درگاہِ حضرت سخی روشن دین صاحب فقیر نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں بمقام ابھریرے ضلع منٹگمری میں موجود ہے۔
کُلاہ
یہ ٹوپی طاقیہ ہے جس کو عُرف میں کانوں والی ٹوپی یا نوشاہی ٹوپی کہتے ہیں، یہ ٹوپی آج کل چوہدری سلطان بن امین بخیش نمبر دار موضع ہر لانوالی ضلع گوجرانوالہ کے گھر میں موجود ہے، جو حضرت میراں شیخ بر خوردار ہرل رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت پاک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہے۔
چادر
یہ چادر سفید رنگ ہے جس پر ریشمی دھاگا سے سورۂ یٰسٓ بخطِ نسخ کاڑھی ہوئی ہے۔ یہ چادر آج کل خلیفہ حاجی الحرمین الشریفین آغا میر احمد صاحب صدیقی فقیر نوشاہی کے گھر میں بمقامِ شہر پشاور محلہ مچھی ہَٹہ میں موجود ہے۔
نعلین مبارک کا تلا
یہ آپ کی نعلین مبارک کا ایک تَلا یعنی حصّہ زیریں ہے زائرین نے دانتوں سے تھوڑا تھوڑا تبرکًا کاٹ کاٹ کر چھوٹا کر دیا ہے۔ یہ تَلا آج کَل میاں گہنا و الف قوم موچی کے گھر میں بمقام مرید متصل رسولنگر ضلع گوجرا نوالہ موجود ہے۔
شہتیر
یہ شہتیر چوب دیار کا ہے، اس کے متعلق مشہور ہے کہ حضور کے خلافِ فرمان ترکھان نے کاٹ کر چھوٹا کر دیا تھا، چنانچہ وہ ترکھان مرگیا، اور آپ کی کرامت سے زندہ ہوا، اور پھر مسجد پر چھت ڈالنے کے وقت حضور نے اس شہتیر کو فرمایا بڑھ جا، چنانچہ وہ بڑھ کر لمبا ہوگیا، اور تا عرصہ دراز مسجد مسقّف رہی، آج کل یہ شہتیر موجودہ مسجدِ درگاہِ نوشاہیہ کے اندر موجود پڑا ہے۔
فقیر شرافت عفٰی عنہ نے سوائے بھُورا کے دوسرے سب تبرّکات کی زیارت متعدد مرتبہ کی ہے۔ الحمد للہ علٰی ذٰلک۔
مدحیات
آپ کی تعریف پاک میں بیشمار نعتیں اور قصیدے اور کافیاں فارسی اردو پنجابی میں موجود ہیں، سب کا بیان کرنا طاقتِ تحریر سے بعید ہے، یہاں صرف ایک قصیدہ درج کیا جاتا ہے، جو حضرت مولانا حکیم غلام قادر شاہ صاحب اثر انصاری جالندہری رحمۃ اللہ علیہ نے فارسی میں لکھا ہے، وہوہذا۔
قصیدہ
اے حُسنِ حق عیاں زشبیہ حَسین تو |
|
آئینہ جمالِ الٰہی جبینِ تو |
سندِ رؤیت نوشاہیہ
مولف کتاب ہذا فقیر شریف احمد شرافت عافاہ اللہ کو چار واسطہ درمیانی سے حضرت نوشاہِ عالیجاہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شرف حاصل ہے دو سندوں سے
اوّل: فقیر شرافت عفٰے عنہ نے حضرت سیّد نوازش علی شاہ صاحب چشتی صابری نوشاہی لاہوری کو دیکھا، انہوں نے اپنے جد امجد حضرت سید حیدر شاہ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے دادا مرشد حضرت سید جیون شاہ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے پر دادا مرشد حضرت قاضی عبد الرحمٰن لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے دادا مرشد حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا۔
دوم: فقیر شرافت عافاہ ربہٗ نے حضرت میاں محمد الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ متولی جامع مسجد شرقپور کو دیکھا، انہوں نے حضرت حافظ عبد اللہ المعروف حافظ بُلہا شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے حضرت شاہ مراد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے پیر حضرت شیخ پیر محمد سچیار نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے پیر حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا۔
واقعۂ وفات
اگرچہ آپ کی تقویم جسمانی نہایت قوی و پُر طاقت تھی، مگر جب عمر شریف صدی (۱۰۰) سے متجاوز ہوئی تو بتقاضائے بشریت ضعف کے آثار آپ کے وجودِ مسعود پر طاری ہوئے، اور دن بدن آپ کے قوائے بدنی کمزور ہونے لگے۔
تقررِ خلیفہ
آپ کے خلفا نے ایک روز بیٹھ کر باہم مشورہ کیا کہ اب حضور کے آخری ایام قریب معلوم ہوتے ہیں، آپ سے دریافت کر لینا چاہیے کہ آپ کے بعد ہمارا سلام و نیاز کِس کو ہوگا؟ اور حضور کی نیابت و جانشینی کا فخر کِس کو ہوگا؟ چونکہ حضرت شاہ صدر دیوان رُکھی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے نہایت منظورِ نظر تھے، اور آپ کی کمال مہربانی اُن کے حال پر تھی، اس لیے بعض یاروں کو اشتباہ ہوا کہ شاید حضور انہیں کو ہی خلیفہ نہ بنا جائیں، اور کسی کو حضور کے سامنے عرض کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے سب نے متفق ہوکر حضرت شیخ پیر محمد سچیار نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ کو کہا کہ تم اس امر خلافت کے متعلق سوال کرو، انہوں نے نہایت ادب سے خدمت میں آکر گذارش کی کہ یا قبلہ عالمین! سب یار کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں لیکن بوجہ ترسِ جذب و بخیالِ ترک ادب کچھ کہہ نہیں سکتے، آپ نے فرمایا یاران! جو کچھ تمہارا مافی الضمیر ہے اظہار کرو، تو حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا یا حضرت! سب دوستوں کا خیال ہے کہ اگر آپ میاں صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو یا دوسرے یاروں میں سے کسی کو دستار نیابت عطا کریں تو سب دوستوں کو اُس کے قبول کرنے میں تامّل ہوگا، کیونکہ ایک دوسرے کی اطاعت کرنی ان کو ناگوار گذرے گی، اور کسی کی سرداری کو منظور نہ کریں گے، اور نہ ہی اس کو سلام و آداب کریں گے، اگر آپ اپنے بیٹوں یا پوتوں میں سے کسی کو دستارِ نیابت عطا فرمادیں تو ہم سب کو اس کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہ ہوگا، اور ہم سب ان کی اطاعت اور بجا آوری فرمان کریں گے، اور کسی یار کو سوائے تسلیم کے چارہ نہ ہوگا، آپ نے جب یہ التماس سنی تو ذرا متبسم ہوئے، اور فرمایا میاں پیر محمد! تم نے یہ کیوں اندیشہ کیا؟ میں کوئی مجذوب یا رند یا قلندر نہیں ہوں کہ اپنی نیابت دوسروں کے سپرد کروں، بلکہ اولاد کے حقوق سے واقِف ہوں، میں اپنی یہ دولت اور بادشاہی اولاد کو ہی بخشوں گا، جو شخص اپنی اولاد کی حق تلفی کرتا ہے وہ در اصل اپنا ہی نقصان کرتا ہے، چنانچہ آپ نے اپنے فرزند اکبر حضرت شاہ حافظ محمد بر خوردار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جو مجلس میں حاضر تھے، اور دست بستہ مؤدّب کھڑے تھے، اپنے سامنے بیٹھنے کا امر فرمایا جب وہ بالمقابل دو زانو بیٹھے تو حضور نے اپنے ہاتھ مبارک سے سب دوستوں کے رو برو دستارِ خلافت و نیابت اُن کے سر پر رکھ دی، اور فرمایا اے یاران! میں نے اپنی دولتِ ظاہری و باطنی اس فرزندِ عزیز میاں محمد بر خور دار کے سپرد کردی، اور میں نے اپنی مسندِ خلافت پر اس کو سجادہ نشین کیا، اب میرے بعد میری خانقاہ میرے لنگر، میرے حقوق، میرے فرائض کا متولی اور وارث یہی ہے، میں اپنے سب دوستوں کو اس کے سپرد کرتا ہوں، جو شخص اس سے سَرتابی کرے گا وہ مجھ سے سرتابی کرلے گا، اور نقصان اُٹھائے گا، اور جو شخص اس سے اچھا برتاؤ کرے گا وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کرے گا، اور فیض پائے گا، اب سلام و نیاز کا حقدار یہی فرزند ہے۔ طال اللہ عمرہٗ وضاعف حسناتہٗ۔
تمام یاروں نے حضرت حافظ محمد بر خور دار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا، اور ان کے آگے جھک کر سلام و آداب بجالائے، اور ہر طرف سے مبارک باد و تحسین کی آوازیں آنے لگیں۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۰۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۸۶۔ کنز الرحمت ص ۷۰۔ کلیدِ گنج الاسرار ۱۲]
اس کے بعد چند ہی روز گذرے تھے کہ ایک دن شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ زیارت کے لیے آئے، خود حضور پر نور دیوان خانہ کے اندر بیٹھے تھے، اور حضرت حافظ محمد بر خور دار صاحب رحمۃ اللہ علیہ دروازہ پر کھڑے تھے، انہوں نے صاحبزادہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سلام نہ کیا، اور اندر جا کر آپ کے قدموں پر سَر رَکھ دیا، آپ کی طبیعت میں جلال آگیا، اپنے قدم مبارک پیچھے ہٹا لیے، اور فرمایا صدر! سلام کے لائق وہی مصلا نشین کے قدم تھے جن کو تو دروازہ پر چھوڑ آیا ہے، اور اپنے قدموں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اب ان قدموں سے تجھ کو کچھ حاصل نہ ہوگا، فیض والے قدم وہی ہیں، جو ان کو سلام کریگا فیضیاب ہوگا، چنانچہ اسی وجہ سے شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ مسلوب الحال ہوگئے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۲]
اور بصد الحال خطا معاف ہوئی۔
اُس روز سے سب یاروں کو تنبیہ ہوگئی، پھر تمام عمر کسی نے صاحب سجادہ کے امر سے سر نہ پھیرا۔
علالتِ طبع
اس واقعہ سے تھوڑا عرصہ بعد آپ کے پاؤں میں درد شروع ہوگیا جس کی تکلیف زیادہ زیادہ ہونے لگی، طبّی معالجات سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا، سوائے صبر و شکر کے کچھ علاج کارگر نہ ہوا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۷۳ شرافت]
آخری ایّام
اگرچہ آپ کو تکلیف و درد کی شدّت تھی تاہم آپ کے چہرہ انور سے آثارِ صحت ہی ظاہر ہوتے تھے، اس حالت میں بھی فیض عام کا دروازہ سائلین کے لیے مفتوح تھا، جو شخص آتا با مراد واپس جاتا، حتّٰی کہ دو شنبہ کی رات کو ماہِ ربیع الاول کا ہلال نظر آیا۔
آپ نے فرمایا یہی ربیع الاوّل ہمارے آقائے نامدار فخر المرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا مہینہ ہے، اور ہم بھی اسی مبارک مہینہ کے منتظر تھے، الحمد للہ کہ یہ آگیا۔
اجتماعِ یاراں
آپ کا یہ ارشاد سُن کر سب اہل و عیال اولاد و خلفا کے دل میں آپ کی مفارقت کا غم پیدا ہوا کہ جو کچھ محبوبِ حقانی کے منہ سے نکلا ہے ضرور پورا ہوکر رہے گا، بعض احباب شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ و حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ تو پہلے ہی حاضر خدمت تھے، اور دوسرے بعض خواص جو موقعہ پر موجود نہ تھے، ان کو بلایا گیا، چنانچہ حضور کے پاس ارادتمندانِ کبار کی ایک کافی جماعت جمع ہوگئی، آپ کے صاحبزادۂ اصغر حضرت شاہ محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ اُن ایام میں کسی کام کو موضع گھگانوالی گئے ہوئے تھے، اُن کو بھی طلب کیا گیا، اور وہ موقع پر پہنچ گئے۔
جمعہ کے روز پانچویں ربیع الاول کو یعنی انتقال سے تین روز پہلے آپ نے فرمایا، اے یاران! میری وفات کے بعد ایک شخص آئے گا، اور کفن ہٹا کر ہمارے چہرہ کی زیارت کرے گا، جب تک وہ زیارت نہ کرلے ہم کو دفن نہ کرنا، اور ہماری اس وصیت کو یاد رکھنا۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۷۳]
شنبہ۔ کے روز چھَٹی ربیع الاول کو فرمایا اے یاران! دو شخصوں کا میں نے بَڑا انتظار کیا ہے لیکن وہ نہیں پہنچ سکے، اب وہ میری وفات کے بعد آئیں گے اور اپنا حصہ باطنی مجھ سے لے جائیں گے، اور ان کے واسطے یہی مقدّر ہے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۴۰ شرافت]
یکشنبہ۔ کے روز ساتویں ربیع الاوّل کو اپنے تمام اولاد و یاروں کو اتباعِ شریعت و استقامتِ احوال کی وصیت فرمائی، اور اذکار و عبادت کی تلقین فرمائی، خود بھی ذکرِ الٰہی میں محو و مستغرق ہوئے، دنیوی امور کے متعلق یہ وصیتیں فرمائیں۔ فرمایا۔ تمہارے پاس لوگ آیا کریں گے، اُن کی خدمت و مدارات کیا کرنا، مہمانوں کے ہاتھ خود دُھلانا، اور اُن کے آگے طعام خود رکھنا، اور ہر آئندہ و روندہ کے واسطے لنگر جاری رکھنا۔ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ۱۲]
اور فرمایا۔ موضع مَلک وال میں کبھی رشتہ ناطہ نہ کرنا، اگر عمدًا ایسا کرو گے تو خطا کھاؤ گے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۳۵]
اور فرمایا۔ کسی شخص کی ضمانت نہ اٹھانا شائد کہ بھَرنی پڑ جائے، اور کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھنا شاید کہ اس میں خیانت ہوجائے، اور اگر دیانتداری بھی ہو تو بھی ممکن ہے کہ چیز ضائع ہوجانے پر تم مَوردِ الزام بنو، اور خفت اٹھانی پڑے۔
اور فرمایا۔ میری قبر پر بلند گنبد نہ تعمیر کرنا، اور میری قبر پر کوئی بھیریا نقارہ نہ رکھنا، اور میری قبر پر میلہ نہ کرنا۔ [۱] [۱۔ سرِّ مکتوم المعروف ملفوظات محمدی ص ۷۳]
حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس وقت عرض کیا یا مولا! طالب کو حصولِ مطلوب کے واسطے کونسا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا شوق و محبت۔ [۱] [۱۔ سبیلِ سلسبیل ص ۲۷ شرافت]
دو شنبہ۔ کے روز آٹھویں ربیع الاول کو سب دوستوں کو بُلا کر فرمایا کہ اے یاران! آج میرا انتقال کا دن ہے، میں کوئی مجذوب نہیں ہوں کہ مرنے کے وقت کسی کو اطلاع نہ دوں، اور یہ بھی خیال نہ کرنا کہ میں نے آخری وقت میں کسی کو کچھ نہ دیا، میں کوئی شیخ نہیں ہوں کہ مرنے کے وقت کسی کو عصا یا مصلّٰے یا طاقیہ یا دستار عطا کروں، نہ ہی میں رند با صوفی یا طاماتی ہوں کہ مجھ سے اس وقت میں کوئی امید رکھو، میں دنیا میں فقیر رہا ہوں، اور ؟؟ حالتِ فقر میں دنیا سے جا رہا ہوں، جس کسی نے مجھ کو دیکھا ہے نصیب کے موافق میں نے اُس کو نعمتِ باطنی دے دی ہے، اور میرے دیکھنے والا کوئی خالی نہیں رہا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۳۔ کنز الرحمت ص ۸۸ شرافت]
یاروں کودعائیں
اُس وقت سب دوست دعائے خیر کے خواستگار ہوئے آپ نے تمام دوستوں کے حق میں دعا فرمائی، اور کئی یاروں کو بشارات سے مبشر فرمایا۔
حضرت شیخ رحیم داد سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا صاحبزادہ صاحب! تمہاری حالت دِن بدن ترقی پر ہے گی۔
حضرت شیخ محمود سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا تم جس حال میں رہو گے مقبول خدار ہوگے۔ حضرت شیخ پیر محمد سچیار نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا دین و دنیا کے کمالات سے تم بہرور رہو گے۔
حضرت شیخ عبد الرحمٰن پاک صاحب بھڑوی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا عشق حقیقی تجھ میں جلوہ گر ہوگا۔ حضرت شاہ صدر دیوان رُکھی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا نوشاہی فقر کا جھنڈا قیامت کے دن تیرے ہاتھ میں ہوگا۔
چوہدری ساہنپال تارڑ رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا تو عزت کی زندگی گذارے گا۔
چوہدری محب علی تارڑ اگروئی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ تیری اولاد کثرت سے ہوگی۔
میاں اُستا جانی نجار رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا تیری اولاد اہلِ فن ہوگی، اور ان کو دال روٹی کافی ملے گی۔
اسی طرح سب یاروں کو بشارتیں فرمائیں۔
فضائلِ فرزنداں
اِسی اثنا میں چوہدری لقمان وڑائچ خالقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گذرا کہ میاں پیر محمد وغیرہ یارانِ حضور اکثر غلبہ جوش میں نعرے اور آوازیں نکالتے ہیں، اور صبح و شام اذکار و اشغال میں مشغول رہتے ہیں، اور آپ کے دونو صاحبزادے حضرت حافظ محمد بر خوردار بحر العشق رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ کبھی درد و شوق سے آہ باہر نہیں نکالتے، شائد کیا وجہ ہے حضور نے ازراہِ کشف اُس کا یہ خیال معلوم کر کے فرمایا کہ میرے فرزندوں کی بابت خیال کرتے ہو، اور یاروں سے اُن کی مناسبت پَر کھتے ہو، دیکھو! میں نے اسرارِ الٰہیہ میں سے ایک ایک سر کا کچھ جزو یاروں کو عطا فرمایا ہے، اور اس کی حقیقت ان پر منکشف ہوئی ہے تو اس کے ضبط و حفظ کی طاقت نہ رکھتے ہوئے ھَا و ھُو کرنے لگ جاتے ہیں، اور نعرے و آوازیں نکالتے ہیں، اور ہزاراں ہزار اسرارِ الٰہیہ ناتناہیہ اِن دونو فرزندوں کے سینوں میں رکھے ہیں، چونکہ ان دونو بلند قدروں کے سینے خدا کی زمین کی طرح فراخ ہیں، کسی شخص کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ اِن کے سینوں میں کیا ہے، یہ انہیں میرے دونو فرزندوں کا کمال حوصلہ ہے کہ ایسے عظیم القدر اور لا تعداد اسرار الٰہیہ کو برداشت و ضبط کر لیا ہے، ’’مشک آنست کہ خود ببوئد نہ آنکہ عطار بگوید‘‘ جو کچھ اِن دونو کے سینوں میں ہے خود ہی ظہور کیا کریگا۔
ہر قطرہ بکنہِ دریا نرسد |
|
ہر ذرّہ بآفتابِ دالا نرسد [۱] |
[۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۴]
اہل دیہ کو بشارت
چونکہ حضور زندگی میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمام گھروں میں ایک ایک ولی نہ ہو تو ہر ایک گاؤں میں تو ایک ایک ولی ہونا چاہیے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۱۸۳]
آپ کے اس ارشاد کو خیال فرما کر آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ سائرہ خاتوں رحمۃ اللہ علیہا نے عرض کیا یا بابا جی! آپ اپنے گاؤں چک ساہنپال کو ملتان [۱] [۱۔ ملتان بنانے سے مراد یہ ہے کہ اولیا کثرت سے بنا جاویں، کیونکہ ملتان میں بکثرت اولیا ہیں ۱۲ شرافت] بنا جاؤ، آپ نے فرمایا سائرہ! غم نہ کر میں نے گاؤں کو ملتان کر دیا ہے۔ [۱] [۱۔رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۵ شرافت]
اولاد کے حق میں بشارت
پھر زبانِ لوح ترجمان سے فرمایا کہ میری جتنی اولاد قیامت تک ہونے والی ہے وہ حق تعالیٰ نے سب مجھ کو دکھادی ہے، اکثر اُن میں سے اہل شوق و ذوق و صاحب درد و تاثیر و بہتر و مہتر و باکمال ہوں گے اور تمام دیار میں ان کا حکم جاری ہوگا، اور جاہ و جلال سے تمام عالم پر سکہ زن ہوں گے، زمین و زمان بھی ان کے تابع ہوں گے۔
اور فرمایا۔ اگر میں اپنی اولاد کے واسطے دنیا کی دولت مال و زر، درم و دنیار خدا سے مانگتا تو اتنا ہوجاتا کہ ان کے گھروں کی دیواریں بھی سونے کی ہوجاتیں، مگر پھر ان میں فقر کی حلاوت ہر گز نہ رہتی، اب چَونسے پینسے [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ کے اصل الفاظ یہ ہیں۔ ’’جامہائے چہار صدی و پانصدی و نان و دال بسیار خواہد بو‘‘ میں نے اس کا ترجمہ چونسے پَینسے کپڑے کیا ہے جو شانِ درویشی کے مطابق ہے، اور اگر اس کا ترجمہ چار سو پانسو روپیہ قیمت کا لباس بھی کیا جائے تو بجا ہے، کیونکہ یہاں تک بھی بعض صاحبزادگانِ موجودہ کو ثروت و ولت و استعداد حاصل ہے ۱۲] (کھدر کے) کپڑے پہننے کے لیے، اور دال روٹی کھانے کے لیے ان کو ملا کرے گی، بلکہ اغنیا کی طرح بود و باش رکھیں گے، اور فقر قیامت تک رہے گا۔
اور فرمایا۔ اس دیار کے بزرگوں کا حکم ان کی زندگی تک ہے، اور میری اولاد کا حکم قیامت تک رہے گا، اور ہر زمانہ میں ترقی پر رہے گا، کیونکہ اسی طرح حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک بوساطتِ حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ ہم کو پہنچا ہے، کہ اُس ملک میں تمہارا اور تمہاری اولاد کا حکم رہے گا، اور تیرا امرِ ارشاد تازہ بتازہ رہے گا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۵۔ کنز الرحمت ص ۸۹۔ شرافت]
سید عبد اللہ کو مستفیض کرنا
اس کے بعد حضرت سید عبد اللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ منصبدارِ ہفتصدی (۷۰۰) جو آپ کے ارادتمندوں سے تھے، اور شاہی ملازمت کرتے تھے بمعہ ڈیرہ اعیانِ حکومت موضع ساہنپال شریف آئے، اور گاؤں کے باہر خیمے لگوائے، اور وہیں رہے، اُن کا ارادہ تھا کہ میں دُنیوی علائق سے آزاد ہوجاؤں، وہ خدمتِ حضور میں آئے اور سلام و قدمبوسی کی، اپنا خیال عرض کرنے کو دل چاہا لیکن جرأت نہ ہوسکی، ڈیرہ پر جا کر حضور کے پاس رقعہ لکھ کر بھیجا کہ ’’میں دنیا کے دَھندوں میں سخت گرفتار ہوں، اگر مجذوب ہوجاؤں تو ان سے خلاصی پاؤں‘‘ آپ نے کہلا بھیجا کہ سید عبد اللہ کو کہو، اس شاہی ملازمت میں بھی کئی لوگوں کے فائدے ہیں، یہ نہ ترک کرے اس کو باطنی حصہ بھی مِل جائے گا، سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ بھی وہی درخواست لکھ بھیجی کہ میری خلاصی سوائے مجذوبیت کے نہیں ہوسکتی، آپ نے سُن کر فرمایا۔
’’چنگا جیوا وہ اِنجے راضی اے‘‘
پھر آپ نے اپنا کھیس جو زیبِ بدن تھا اُتار کر شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور فرمایا کہ جا کر سید عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو پہنادو، اور دریائے چناب سے اُسے پار کر آؤ، چنانچہ شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ نے ڈیرہ پر جا کر اُن کو کھیس پہنایا، اور دریا سے پار رخصت کر آئے، بمجرد گذرنے دریا کے سید عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی حالت دگر گون ہوگئی اور مجذوب اطوار ہوگئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۷۲ شرافت]
آخری وقت
کھیس عطا کرنے کے بعد آپ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوگئے، اور حاضرین کو بھی ذکر کا امر فرمایا، اثنائے ذکر میں ملک الموت بمعہ ملائکہ نوری تشریف لائے، حاضرین کو انوارِ ملکوتی کا مشاہدہ ہوا، چند لمحہ آپ نے ذکر میں اشتغال رکھا پھر بآوازِ بلند کلمہ طیبہ لا الٰہ الّا اللہ محمّد رّسول اللہ پڑھ کر رُو بقبلہ ہوئے اور سکوت فرما گئے، جب حاضرین نے دیکھا تو روح مبارک قفص عنصری سے پرواز کر کے علیّین میں پہنچ چکی تھی، اِنّا لِلہ وانّا الیہ راجعون (البقرۃ۔ ع ۱۹)
شاہ صدر دیوان رحمۃ اللہ علیہ سید عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو دریا سے پار کر کے واپس آئے تو آگے دنیا کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، محکمۂ روحانیت کا تاجدار سفرِ آخرت اختیار کر چکا تھا، سلطنتِ ولایت کا امیر جنت الفردوس میں چل بسا تھا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ وجعل الجنّۃ مثواہ۔
تاریخ وفات
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال بروز دوشنبہ بتاریخ ہشتم ربیع الاول ۱۰۶۴ھ ایک ہزار چَونسٹھ ہجری مطابق ۲۶؍ جنوری ۱۶۵۴ء ایک ہزار چھ سو چَون عیسوی موافق ماہ پوہ ۱۷۱۱؍ ایک ہزار سات سوگیارہ بکرمی میں بعہد سلطنت حضرت ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہجہاں غازی صاحبقران ثانی ابن جہانگیر بادشاہ رحمۃ اللہ بمقام ساہنپال شریف ہوا۔
مدفِن پاک
آپ کا جسدِ اطہر تابوت میں رکھا گیا، آپ کا جنازہ نہایت تزک و احتشام سے ہوا، علماء و مشائخ کثیر کی جماعت جنازہ میں شامل تھی، بعد جنازہ کے جب دیدار آخری کے لیے ندا کی گئی تو سب لوگ زیارت سے مشرف ہوئے، اسی وقت حضرت شاہ فتّا دیوان رحمۃ اللہ علیہ ساگری والے پہنچے، اور زیارت سے مستفیض ہوئے آخر آپ کا مدفن موضع ساہنپال شریف سے مغربی جانب ہوا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۱۸۔ ۳۴۰]
بوقتِ تدفین جب قبر میں تابوت رکھ کر بعض خواص نے آخری دیدار کے لیے چہرۂ مبارک سے پردہ ہَٹایا تو دیکھا کہ آپ کا چہرۂ انور قبلہ سے پھر گیا ہے، ہر چند چاہا کہ قبلہ رُو کریں مگر نہ ہوسکا، سب مخلصین نہایت مغموم ہوئے کہ اس میں کیا راز ہو؟ ابھی اسی تشویش میں تھے کہ ایک شخص نورانی چہرہ آپہنچا، اور آتے ہی آپ کا دیدار کیا، جب وہ زیارت سے مشرف ہوا تو اُسی وقت آپ کا چہرہ خود بخود قبلہ رُو ہوگیا۔ [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۷۳ شرافت] اُس وقت سب کو وہ ارشاد یاد آگیا جو آپ نے تین روز قبل از وفات فرمایا تھا کہ ایک شخص آئے گا، جب تک وہ زیارت نہ کرلے ہمیں دفن نہ کرنا، اور ہم کووہ بات یاد نہ رہی تھی، آپ نے اپنے تصرّف سے اتنی دیر لگادی کہ وہ شخص پہنچ گیا۔
تعمیر روضہ
آپ کا مزارِ اطہر بہت عرصہ خام رہا، پھر آپ کے نبیر گان حضرت شاہ عنایت اللہ وغیرہ فرزندانِ حضرت شاہ حافظ محمد بر خوردار رحمۃ اللہ علیہ و شاہ محمد سعید بن شاہ محمد ہاشم دریا دل رحمۃ اللہ علیہ کے اہتمام سے روضہ شریف تعمیر ہوا۔
جسد اطہر کا دوبارہ ظہور
آپ کو انتقال کیے ایک سو چھ سال قمری کا زمانہ گذرا تو دریائے چناب زمین کو گراتا ہوا روضہ شریف کے قریب آگیا، صاحبزادگان نے کھدائی شروع کروائی، تین روز تک آپ کے جسم اطہر کا کچھ پتہ نہ چلا، بہت گریہ و زاری کے بعد حضور کا تابوت مبارک ظاہر ہوا۔ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ۱۲ شرافت]
آپ کا تابوت شریف بروز پنجشنبہ بتاریخ ہفدہم ماہِ ذیقعدہ ۱۱۷۰ھ مطابق ۵۷ ساون ۱۸۱۴ بکرمی موافق چہارم ماہِ اگست ۱۷۵۷ء کو اپنی اصلی قدیمی جگہ سے برآمد ہوا، تین دن تک لوگ زیارت سے مشرف ہوتے رہے، آپ کا چہرۂ مبارک بالکل ایسا ترو تازہ تھا جیسا کہ اب سوئے ہیں، آپ کا کفن بھی بالکل صحیح و سالم تھا، تین روز کے بعد چک ساہنپال کے قریب نوشہرہ تارڑاں کی زمین میں چاہ حیاتے والہ پر مدفون ہوئے، سولہ تابوت اولاد کے بھی برآمد ہوئے۔ یہ واقعۂ انتقال مزارات بعہدِ حکومت حضرت سلطان عزیز الدین عالمگیر ثانی بن جہاندار شاہ بادشاہِ دہلی پیش آیا، ۴ جلوس تھا۔
اُس وقت فقیر شرافت عافاہ اللہ کے اجدادِ پاک میں سے حضرت مولانا شاہ حافِظ محمد حیات صاحب بن شاہ حافظ جمال اللہ صاحب بر خورداری رحمۃ اللہ علیہ حیاتِ با برکات تھے، اور ان کا عہدِ ولایت تھا۔
تعمیر روضۂ ثانی
چند سال تک مزار شریف چار دیواری میں محطوط رہا، بعدازاں اولاد کے اہتمام سے روضہ شریف دوبارہ تعمیر ہوا۔
اس وقت فقیر شرافت عفٰی عنہ کے اجدادِ امجاد میں سے حضرت حافظ شاہ نور اللہ صاحب بن شاہ حافظ محمد حیات صاحب بر خورداری رحمۃ اللہ علیہ کا عہدِ ولایت تھا۔
جسدِ اطہر کا سہ بارہ ظہور
آپ کے مزار پر انوار کو ابھی دوسری جگہ ستاسٹھ سال قمری ہی گذرے تھے کہ پھر دریائے چناب بالکل قریب آگیا، اور بسبب طغیانی کے گاؤں کو اور گورستان کو گرانے لگا، تو تمام صاحبزادگان نے مِل کر کھدائی شروع کی، اور پاس قوال کافیاں پڑھ رہے تھے۔
آپ کا تابوت شریف بروز دو شنبہ بوقتِ فجر بتاریخ ہثردہم ماہِ شوال ۱۲۳۷ھ مطابق ہشتم جولائی ۱۸۲۲ء موافق بست ہفتم ماہِ ہاڑ ۱۸۷۹ اب کو اپنی جگہ سابقہ سے بر آمد ہوا، نصف روز تک لوگ زیارت سے مشرف ہوتے رہے پھر اسی دن بوقت نصف النہار موضع ساہنیانوالہ سے شرق کی سرحد پر موضع چَک ساہنپال شریف سے شمال کی طرف تابوت مبارک دفن ہوا۔
یہ واقعہ انتقالِ مزارات بعہدِ حکومت مہاراجہ رنجیت سنگھ والی لاہور پیش آیا ۲۸ جلوس تھا۔
اُس وقت فقیر شرافت عافاہ اللہ کے اجداد پاک میں سے حضرت شاہ الٰہی بخش صاحب بن حافظ شاہ نور اللہ صاحب بر خور داری رحمۃ اللہ علیہ کا عہد ولایت تھا۔
تعمیر روضۂ ثالِث
بیس سال تک پختہ چار دیواری بنی رہی، پھر ۱۲۵۸ھ / ۱۸۴۲ء میں بعہد حکومتِ سکھاں بسعی نوّاب راسِخ الاعتقاد شیخ امام الدین خلفِ شیخ غلام محی الدین ناظم الملک ہوشیار پوری صوبہ دار کشمیر پالکی شریف خوشنما تعمیر ہوئی۔ [۱] [۱۔ انوار القادریہ ۱۲ شرافت] حضرت پیر شاہ جلال معمار رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین دربار حضرت شیخ صالح محمد نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ ساکن چک سادہ (ضلع گجرات) نے فَن تعمیر بدرجہ کمال سیکھا ہوا تھا انہوں نے اپنے ہاتھوں سےاس متبرک کام کو انجام دیا، نیز پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے استاد میاں محمد بخش معمار گجراتی رحمۃ اللہ علیہ بھی شریک کار تھے، دونو بزرگوں نے با وضو پالکی شریف کی عمارت کی۔
اُس وقت فقیر شرافت عافاہ اللہ کے اجدادِ پاک میں سے حضرت حافظ شاہ قل احمد جیو پاکذات نوشاہِ ثانی بن شاہ الٰہی بخش صاحب بر خورداری رحمۃ اللہ علیہ کا عہد ولایت تھا، اور اُن کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بحالتِ شباب موجوداور سر گرمِ کار تھے۔
مَرمّتِ پالکی شریف
پالکی شریف بہت خوبصورت خوش وضع تیار ہوئی تھی، کچھ عرصہ گذرنے کے بعد بعض جگہوں سے ریخت ہونے لگی، چنانچہ تریپن (۵۳) سال قمری کے بعد ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں بسعی سائیں عبد اللہ درویش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اس کی مرمت و سفیدی ہوئی، اولاد کے پاس سے بھی بہت کچھ خرچ ہوا۔ سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے بطور یاد داشت یہ پنجابی شعر دروازہ شریف کے اندر لکھ دیا تھا۔
عبد اللہ درویش جیہا غریب نہ کوئی تیرے جیہا کوئی شاہ نہیں
دَر اپنے دی منگتی کر کے مَینوں دَر دَر بھیکھ مَنگا نہیں
اس تعمیر کا کام کرنے والا محمد الدین معمار رحمۃ اللہ علیہ تھا، اس نے یاد گار کے طور پر پالکی شریف میں یہ عربی شعر لکھ دیا تھا۔
اَنَا الْمُدْنِبْ مُحَمَّدْ دِینْ اِسْمِیْ |
|
فَاَرْحَمْنِیْ عَلَیَّ ذُوا الْکَمَالِیْ |
اُس وقت فقیر شرافت فافاہ اللہ کے جد امجد سیّد السّادات حضرت سیّد محمد شاہ صاحب بن حضرت شاہ محمد امین صاحب بر خور داری رحمۃ اللہ علیہ حیاتِ بابرکات تھے، اُن کا عہد ولایت تھا۔
مُرمّتِ ثانی پالکی شریف
پہلی مرمت کو چوتالیس (۴۴) سال قمری گذرنے پر بیرونی چار دیواری رُو بانہدام ہوگئی، چنانچہ بروز چہار شنبہ بتاریخ نوز دہم ماہِ رجب ۱۳۵۵ھ مطابق ہفتم اکتوبر ۱۹۳۶ء موافق بست دوم اسوج ۱۹۹۳ ب کو مرمت دیوار کا کام شروع کیا گیا، بیرونی ساری دیوار بنیاد تک اُکھاڑ کر نئی دیوار پختہ تیار کرائی گئی، اس کام میں تقریبًا ایک مہینہ خرچ ہوا، دیوار کی عمارت اور فرشِ مطاف کا سارا کام مستری شاہ محمد نجار نقشبندی ساکن موضع ملو علاقہ گوجر، اور اس کے شاگرد مستری ما ہلا معمار نے کیا، صاحبزادگان کا کافی خرچ ہوا، مندرجہ ذیل صاحبزادگان مختار کار تھے۔
حضرات بر خور دار یہ میں سے۔
۱۔ صاحبزادہ محمد شریف بن پیر محمد عالم صاحب ڈھلوی، ۲۔ شاہ کرم الٰہی بن پیر فاضل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ حضرت شاہ غلام مصطفٰے بن سید محمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (والدِ فقیر شرافت)، ۴۔ شاہ اللہ دتہ بن شاہ قطب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۵۔ پیر بوٹا شاہ، بن شاہ عمر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۶۔ شاہ حسیب اللہ بن شاہ اقبال علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ اور حضرات ہاشمیہ میں سے۔
۱۔ شاہ محمد حسین بن پیر بند شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ شاہ علی احمد بن پیر گانمہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ شاہ برکت علی بن شاہ نور علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ۴۔ شاہ رحمت علی بن شاہ باغ علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔
اس کے علاوہ فقیر شریف احمد شرافت عافّاہ ربہٗ، اور میرے بھائی عزیز القدر صاحبزادہ مولوی بشیر احمد صاحب بشارت مدّ عمرہٗ اور دوسرے تمام صاحبزادگان نے اس متبرک کام کو اپنے ہاتھوں سے کیا۔
اس وقت فقیر شرافت عافاہ اللہ کے لڑکے ارجمند ریاض الحسن اور عزیز سعید الظفر بھی متولد شدہ تھے۔
مسجدِ نوشاہیہ
درگاہ شریف سے جنوب کی طرف مائل بغرب مسجد پختہ موجود ہے پہلے مسجد کی عمارت کچی تھی، ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں بسعی صاحبزادگان پختہ تعمیر ہوئی، زمانہ حاضرہ میں مسجد نوشاہیہ کی امامت کا فخر مولوی فضل حسین بن میاں عبد الرسول صاحب رنملوی کو حاصل ہے، اذان و جماعت ہوتی ہے۔
مسافر خانہ
درگاہ شریف سے سیدھا بطرف جنوب چالیس (۴۰) کرم کے فاصلہ پر ایک مسافر خانہ بعمارتِ خام موجود ہے، جس کو دیوان خانہ و دالان بھی کہتے ہیں، پیچھے دو کوٹھڑیاں، آگے ایک پسار ہے، دروازے سیدھے شمال کو بجانبِ درگاہ شریف ہیں، ایک مکان اس کے متصل مغربی جانب ہے، اُس کا دروازہ بھی شمال کو ہے مسافروں اور فقیروں کا گذارہ انہیں مکانات میں بخوبی ہوجاتا ہے۔
لنگر نوشاہیہ
ہر ائیندہ روندہ و زائرین و معتکفین کو دو وقت روٹی درگاہ شریف سے ملتی ہے، اخراجاتِ لنگر اولادِ حضور کے ذمہ ہیں، سوائے روٹی و پانی و تمباکو کے کسی ملامتی فقیر کو بھنگ یا چَرس وغیرہ کوئی مُسکر چیز نہیں دی جاتی، شریعت کا پاس ضروری ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
زمانہ حاضرہ میں درگاہ شریف کی مجاورت و جاروب کشی سائیں یقین علی نام فقیر قوم سِپرا کے متعلق ہے، جو عرصہ چھ سال سے اس خدمت پر مقرر ہے، اور حضرت سچیار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کا درویش ہے، اچھا مہماں نواز ہے۔
حلقہ درگاہ
درگاہ شریف کا قدیمی حلقہ سترہ کنال پانچ مرلہ زمین ہے، اسی حلقہ میں گورستان، ایک چاہ، ایک طہارت خانہ، مسجد شریف، دیوان خانہ، درختِ بوہڑ تین عدد کلان، ما سوا اس کے بَرنے، وَن، جَنڈ، کریر، کیکر، بیری، وغیرہ کثیر التعداد موجود ہیں، مسافروں کے واسطے آرام کی بہت بہتر جگہ ہے۔
عرس شریف
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اعراس مبارک متعدد جگہ ہوتے ہیں۔
۱۔ بتاریخ پنجم ربیع الاول نوشہرہ شریف میں ہر سال آپ کا عُرس شریف نہایت تزک و احتشام سے ہوتا چلا آتا ہے، چنانچہ زمانہ حاضرہ میں حضرت میاں محمد فاضِل صاحب فقیر نوشاہی نوشہروی خاص اہتمام سے کیا کرتے ہیں۔
۲۔ بتاریخ نہم جیٹھ ہر سال بھڑی شریف آپ کا عُرس مبارک ہوتا ہے، اس پر بھی ہزاروں فقرا کا اجتماع ہوتا ہے، آج کل حضرت حاجی الحرمین میاں امام الدین صاحب و میاں چَنن شاہ صاحب و میاں اللہ دتہ صاحب سجّادہ نشین عرس شریف بڑے اعلٰے پیمانہ پر کرتے ہیں۔
۳۔ بتاریخ نہم جیٹھ کو رہتاس ضلع جہلم میں بھی آپ کا عُرس بدرگاہِ حضرت سید شاہ محمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ہوا کرتا ہے۔
۴۔ درگاہِ عالیہ نوشاہیہ پر آپ کی اولاد کے اہتمام سے ماہِ ہاڑ کی دوسری جمعرات کو ہر سال عرس ہوتا ہے، پہلے تو ماہِ ہاڑی کی چاروں جمعراتیں لوگوں کا اجتماع ہو جاتا تھا، لیکن ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء موافق ۱۹۸۴ب سے اولادِ حضرت شاہ حافظ محمد بر خوردار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سعی سے یہ عُرس پختہ طور پر دوسری جمعرات ہاڑ کو سالانہ مقرر ہوچکا ہے، کافی مخلوق جمع ہوجاتی ہے، درویشوں کو دو وقت دال روٹی کا بھنڈارہ ملتا ہے، جمعرات و جمعہ و ہفتہ تین روز کا اجتماع ہوتا ہے۔
قطعاتِ تاریخ
آپ کی وفات کے قطعاتِ تاریخ تو بہت سے بزرگوں نے بنائے، لیکن طوالت کے خوف سے یہاں بعض قطعے درج کیے جاتے ہیں۔
قطعۂ تاریخ
از کتاب تذکرہ نوشاہیہ
رفت از عالم شہِ دنیا و دیں |
|
کر در وحش جانبِ بالا صعود |
دیگر
از کتاب انوالقادریہ
نوشۂ گنج بخش قلزمِ فیض |
|
چوں کہ بنمود نوش جامِ وصال |
دیگر
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ
محمد حاجی نوشہ مجدد |
|
امیر دین و دنیا جانِ ایماں |
منہ
وفاتِ شاہِ نوشہ نیک خوانی |
|
مکمل با طریقت پیر۔ دانی |
منہ
وفاتِ پیر نوشہ اہلِ فتوٰے |
|
بگفتم آفتابِ (۱۰۶۴) دین تقویٰ |
منہ
وصالِ پیر نوشہ پاک بشنو |
|
قریشی ھاشمی عابدِ ہُو (۱۰۶۴) |
منہ
چو پر سیدم وفاتِ پیر عابد |
|
سر و شم گفت۔ قبلہ شیخ زاہد (۱۰۶۴) |
منہ
رفت نوشہ چو درجناں کامل |
|
رحلتش۔ آہ عالم و فاضل (۱۰۶۴) |
منہ
از وفاتِ جنابِ نوشہ جو |
|
اہلِ عرفان و با حقیقت گو (۱۰۶۴) |
منہ
در جناں رفت پیر حق طالب |
|
سالِ وصل جناب۔ الغالب (۱۰۶۴) |
منہ
ز ترحیلِ نوشہ ولیّ وحید |
|
وصالش بطاعت مبارک شہید (۱۰۶۴) |
منہ
سالِ فوتِ پیر مقبولِ صمد |
|
عاشق و معشوق محبوبِ احد |
منہ
چوں بپرسی رحلتِ نوشہ کمال |
|
گویمت مخدوم نوشہ جی۔ وصال (۱۰۶۴) |
منہ
سالِ وصل پیر نوشہ دستگیر |
|
آفتابِ قادری اجود امیر |
منہ
از وصالِ پیر نوشہ خوش بیاں |
|
نامدارِ جامع البرکات۔ خواں (۱۰۶۴) |
منہ
از دل چونیک جستم تاریخ فیض سرمد |
|
از وصلِ پیر نوشہ گفتا۔ ریاضِ احمد (۱۰۶۴) |
منہ
جنابِ پیر نوشہ جب ہوئے داخل بہشت اعلیٰ |
|
قریشی قادری حاجی محمد ہے، وصال اُن کا |
مادۂ تاریخ مہر اوتاد و قطب و فرد (۱۰۶۴ھ)
مادۂ تاریخ مجدّدِ شریعتِ طیّب بود (۱۰۶۴ھ)
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
جواد معظم (۱۰۶۴) |
واجد معظم (۱۰۶۴) |
وھاب معظم (۱۰۶۴) |
اعلٰی بری من المشرکین (۱۰۶۴) |
عالی بری من المشرکین (۱۰۶۴) |
کافی بری من المشرکین (۱۰۶۴) |
خیر مطہر (۱۰۶۴) |
اَللہ حفیظ (۱۰۶۴) |
وکیل حفیظ (۱۰۶۴) |
مانع قابض (۱۰۶۴) |
رشید مقیت (۱۰۶۴) |
|
(شریف التواریخ)