حضرت ابوالحسن علی بن حمید الصعید المعروف بابن الصباغ علیہ الرحمۃ
آپ صاحب احوال بلند اور مقامات ارجمند تھے۔بہت سی کرامات اور بہت سے خارق عادات ان سے ظاہر ہوئےتھے۔آپ کے والد رنگریز تھے۔چاہتے تھے کہ ان کا بھی بیٹا رنگریز ہو،لیکن آپ کو یہ بات گراں گزرتی تھی۔کیونکہ صوفیوں کی صحبت میں جاتے تھےاور ان کا طریق اختیار کرتے تھے۔رنگنے سے باز رہتے تھے۔ایک دن ان کا باپ آیا۔دیکھا کہ لوگوں کے کپڑوں کو نہیں رنگااور وقت گزر چکا ہے۔وہ غصے ہوگیا۔دکان میں مٹکے بہت تھے اور ہر ایک میں اور ہی قسم کا رنگ تھا۔جب باپ کے غصہ کو دیکھا تو سب کپڑوں کو لے کر ایک ہی مٹکے میں ڈال دیا۔تب تو باپ کا غصہ اور بھی بھڑک اٹھا اور کہا کہ دیکھا تم نے کیا کیا۔لوگوں کے کپڑوں کو خراب کردیا۔ہر ایک شخص ایک ایک رنگ چاہتا تھا۔تم نے سب کو ایک ہی رنگ میں ڈال دیا۔ابوالحسن نے اس مٹکے میں ہاتھ ڈال کر سب کپڑے نکال لیے۔جب باہر آئے تو ان میں سے ہر ایک ہی کا وہی رنگ تھا،جو اس کا مالک چاہتا تھا۔جب اس کے باپ نے یہ حال دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔اس کو صوفیوں کے طریق پر چھوڑ دیااور رنگریزی کے پیشہ سے معذور رکھا۔آپ کی یہ عادت تھی کہ جب تک کسی کا نام لوح محفوظ میں اپنے مریدوں میں نہ دیکھ لیتے۔اس کو اپے پاس نہ رکھتے۔ایک دن ایک شخص نے ان سے کہا میں آپ کی محبت میں رہنا چاہتا ہوں۔شیخ نے تھوٹی دیر مراقبہ کیا اور کہا ہمارے پاس کوئی خدمت کا وظیفہ نہیں رہا کہ جس پر تم قیام کرو۔اس شخص نے بہت اصرار کیا جس سے گریز نہ ہو سکے۔کہا کہ اچھا ہر روزایک گٹھر گھاس کا کاٹ لایا کرو۔جب اس نے یہ کام کیا۔ایک عرصہ کے بعد اس کا ہاتھ درد کرنے لگا۔اس نے ورانتی کوکہ جس سے گھاس کاٹا کرتا تھا۔پھینک دیا اور فقراء کی صحبت ترک کی۔ایک رات خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہےاورلوگ پلصراط پر سے گزر رہے ہیں۔بعض تو سلامت نکل جاتے ہیں اور بعض آگ میں گرتے ہیں۔اس نے کوئی چیز طلب کی کہ جس پر ہاتھ مارے کچھ نہ پایا۔دفعتہً دیکھا کہ اس گھاس کے گٹھر میں سے ایک گٹھر آگ پر چلتا ہے۔اس نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیاتو اس نے اس کو آگ سےباہر نکال دیا اور نجات پائی۔ڈرتا ہوا،خواب سے اٹھا اور شیخ کی خدمت میں آیا۔شیخ کی آنکھ اس پر پڑی تو کہا،میں نے تمہیں نہیں کہاتھا کہ تمہاری خدمت میرے پاس نہیں ہے۔شیخ کی خدمت میں استغفار کی اور اپنے کام کو چلاگیا۔یعنی وہی گھاس لانے لگا۔آپ ۶۱۲ھ ہجری میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)