حضرت محمد حسن جان خواجہ علامہ مجددی فاروقی
حضرت محمد حسن جان خواجہ علامہ مجددی فاروقی (تذکرہ / سوانح)
حضرت محمد حسن جان خواجہ علامہ مجددی فاروقی علیہ الرحمۃ
و ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۲ء ف ۱۳۶۵ھ/۱۹۴۶ء
حضرت خواجہ علامہ حافظ محمد حسن جان مجددی الفاروقی رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت قندھار افغانستان میں بتاریخ ۶/شوال المکرم/ ۱۲۷۸ھ۔ ۶/اپریل /۱۸۶۲ھ کوہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سراج الاولیاء حضرت خواجہ عبدالرحمٰن مجددی الفاروقی تھا، جن کا سلسلہ نسب نو (۹) درمیانی واسطوں سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی قدس سرہ سے اور اس سے اوپر بتیس (۳۲) واسطوں سے حضرت سیدنا امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔
(شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ ص ۱۹، ناشر خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمۃ کی ظاہری اور باطنی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد ماجد کے سایہ عاطفت میں ہوئی جو اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور ولی اللہ تھے، آپ کی نظر کیمیا اثر کی بدولت آپ علوم و معارف کے کمال مدارج تک پہنچے۔
(شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ ص ۲۲، ناشر خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
دو سال تک ‘‘میٹاری’’ کے مشہور عالم دین علامہ لال محمد سے دینی علوم کی اور پانچ سال عرب میں جاکر اس وقت کے ممتاز عالم حضرت مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کے پاس مدرسہ ‘‘صولتیہ’’ میں اپنے علم کی تکمیل کی اور مکہ مکرمہ کے مفتی شیخ احمد زینی دھلان مکی سے علم حدیث حاصل کیا اور روایت صحاح ستہ کی اجازت بھی ان سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے کاشوق ہوا۔ تھوڑے عرصے میں بائیس پارے مکہ شریف میں یاد کیے اور باقی آٹھ پارے ‘‘ٹکھڑ’’ میں آنے کے بعد حفظ کیے ۔
حضرت موصوف کی عمر مبارک جب سترہ برس کو پہنچی تو اس وقت افغانستان میں ایک اندوہناک انقلاب رونما ہوا ۱۲۹۵ھ /۱۸۷۱ء میں انگریز کابل اور قندھار پر قابض ہوگئے۔ اور ہر طرف افراتفری پھیل گئی اس اثناء میں آپ کے والد ماجد افغانستان سے ہجرت فرماکر ‘‘ٹکھڑ’’(حیدر آباد سندھ سے اٹھارہ میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے یہ سادات کرام کی بستی ہے۔ یہاں کے حاکم و رئیس بھی سادات کرام کی بستی ہے۔ یہاں کے حاکم و رئیس بھی سادات کرام تھے جن کے اصرار پر) کو مستقل اقامت گاہ کے لیے پسند فرمایا اپنے والد بزرگوار کی رحلت ۱۳۱۵ھ /۱۸۹۷ء کے بعد آپ نے ٹکھڑ میں مزید ایک سال قیام فرمایا ۔ اس کے بعد آپ نے قصبہ ٹنڈو سائیں داد میں مستقل سکونت اختیار کر لی، ٹکھڑ سے یہاں منتقلی کی بڑی وجہ مریدین اور زائرین حضرات کی سہولت تھی۔ کیوں کہ ٹنڈو سائیں دار اپنے محل و قوع کے اعتبار سے ریلوے اسٹیشن ٹنڈو محمد خان سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا اور دور و نزدیک سے آنے والے حضرات ریل کے ذریعہ ہی یہاں پہنچتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد یہ مقام مطلع الانوار بن گیا۔
(مقدمہ شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ ص ۲۵ناشر خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
حضرت موصوف کو تصنیف و تالیف کے فن میں زبردست مہارت اور دستر س حاصل تھی۔ زبان و بیان کی سلاست و نفاست آپ کی تحریروں کا طرہ امتیاز تھا۔
آپ نے تقریباً پچیس (۲۵) کتابیں اور اس کے علاوہ دوسرے چھوٹے رسالے تصنیف فرمائے
۱: انیس المریدین (فارسی) اپنے والد کی سوانح پر لکھی ہے۔
۲: تذکرہ الصلحا ء (فارسی) صالحین کے حالات قلمبند کیے ہیں۔
۳: شرح حکم (فارسی)تصوف میں بے نظیر کتاب ہے۔
۴: الاصول الاربعہ فی الوھابیہ(فارسی)۔
اس کتاب میں بریلوی مسلک کی تائید فرمائی ہےاور دیوبندی وھابی فرقے پر تنقیداور تردید کی ہے اور اس کتاب میں چار بنیادی اصولوں کا بیان حنفیہ عقیدے کے مطابق کیا گیا ہے۔ (۱) غیر اللہ کی تعظیم (۲) وسیلہ لینا (۳) نداء غائب (۴) چاروں عقیدوں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا، یہ کتاب آپ کے حیات مبارک میں ہی ہند، سندھ، افغانستان کے علاوہ عرب و عجم کے دوسرے ممالک میں بہت مقبول ہوئی اس کا ایک ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں ‘‘ترکی’’ سے بھی شائع ہوا۔ اس کا سندھی ترجمہ زیر طبع ہے۔ اور طریق النجات (فارسی) بہت مشہورہوئی ہے۔ حضرت خواجہ محمد حسن جان کو لوگ مختلف القاب سے یاد کرتے تھے۔ آپ کو حضرت وقت، قطب الاوقات اور ثانی مجدد الف ثانی بھی کہتے تھے۔
(تذکرہ شعراء ٹکھڑ سندھی ص ۴۸ و مقدمہ العقائد الصحیح: خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
حضرت خواجہ علیہ الرحمۃنے پوری زندگی ملک و ملت خصوصاً مسلک حق اہل سنت و جماعت کی خدمت میں صرف کردی اور اسی کام کا بیڑا آپ کے رحلت فرمانے کے بعد آپ کے حقیقی جانشین فرزند ان حضرت خواجہ عبداللہ المعروف شاہ آغا جان علیہ الرحمۃ و حضرت خواجہ عبدالستارجان علیہ الرحمۃ و حضرت آقا خواجہ علامہ حافظ محمد ہاشم جان علیہ الرحمۃنے اٹھایا لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب اس وقت آپ کی کچھ اورلاد میں سے دیوبندیوں وہابیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اللہ انہیں اپنے اجداد کی پیروی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کی عمر مبارک ۸۷ سال تھی اس عرصہ میں پانچ حج کئے، کئی مسجدیں تعمیر کرائیں۔ گیارہ مدسے تعمیر کروائے۔ ۲/رجب المرجب/ ۱۳۶۵ھ۔ ۶/جون/ ۱۹۴۶ء بروز پیرآپ نے اس دار فانی سے دالبقا کی طرف کوچ فرمایا آپ کا مزار پر انوار آپ کے والد ماجد کے پہلو میں مقبرہ شریف میں مرکز انوار تجلیات الٰہی ہے۔
نغفرلہ
۱۳۲۵ھ
آپ کا سن وصال ہے
(مقدمہ شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ ص ۲۸ خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )