حضرت ابوالفضائل رضی الدین حسن بن محمد قرشی عدوی صغانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حسن بن محمد بن حسن بن حیدر قرشی عدوی عمر ی صغانی: حضرت عمر بن الخطاب کی نسل میں سے تھے۔ابو الفضائل کنیت اور رضی الدین لقب تھا اگر چہ تمام علوم میں ماہر متجر تھے مگر فقہ و حدیث اور لغت میں امام زمانہ و استاد بے نظیر عدم التمثیل تھے۔دمیاطی نے کہا ہے کہ آپ شیخ صالح،فضول کلام سے صات اور حدیث میں صدوق اور لغت و فقہ و حدیث میں امام تھے۔میں نے آپ سے پڑھا آباء و اجداد اپ کے شہر صغان یعنی چغان کے رہنے والے تھے جو ماوراء النہر میں شہر مرو کے پاس واقع ہے مگر آپ ۱۵ ؍ماہ صفر ۵۷۷ھ میں شہر لاہور میں پیدا ہوئے اورغزنہ میں جاکر نشو و نمایا۔ابتداء میں اپنے والد ماجسد سے تلمیز کیا اور فنون کثیرہ واستعداد کاملہ حاصل کر کے ۶۱۵ھ میں بغدا د کو گئے اور وہاں مدت تک تحصیل علوم و تدریس او ر تصنیف میں مصروف رہے۔زان بعد مکہ معظمہ کی زیارت کر کے عراق میں واپس آئے اور ۶۱۷ھ کو بغداد کی طرف واپس گئے پھر دوبارہ بغداد سے ہند کو بطو سفارت آئے اور ۶۳۷۶ھ میں بغداد کو واپس گئے۔بغداد،مکہ معطمہ،ہند وغیرہ میں اپنے شیوخ سے احادیث کو بکثر سُنا اور بہت سی تصنایف مفیدہ کیں از انجملہ کتا مصباح الدجیٰ من صحاح احایدث لالمصطفیٰ اور کتاب شمس المنیرہ من الصحاح الماثورہ اور کتاب مشارق الانوار النبویہ من صحاح الاخبار المصطفوہیہ اور کتاب تبیین الموضوعات اور کتاب عقلۃ العجلان اور کتاب وفیات صحابہ اور کتاب زبدۃ المناسک اور کتاب فرائض اور کتاب درجات العلم واعلماء اور کتاب الشوار ولغت میں اور کتاب الافتعال اور کتاب العروض اور کتاب العباب لغت میں اور کتاب شرح صحیح بخاری اور کتا ب شرح القلاوۃ السمطیۃ فی تو شیخ الدریہ اور کتاب التکملہ لغت میں جو صحاح جو ہری میں غلطی تھی اس کی اس میں تصحیح کی اور جو لغات کہ اس میں نہ تھے ان کو داخل کیا اور کتاب مجمع البحرین لغت میں جو نہایت کلاں اور تمام لغت عرب کو شامل ہے اور کتاب نوادر لغت و تراکیب میں ار کتاب اسماء انفارہ اور کتاب اسماء الاسد اور کتاب اسماء الذنب اور کتاب شرح ایبات المفصل اور کتاب بغیۃ الصیان مشہور و معروف ہیں۔ان کے علاوہ اور تصنیفات بھی ہے جو آپ کے کمال علم و تجر پر دال ہے۔
۶۵۰ھ میں بغداد کے اندر عہد خلیفہ مستعصم میں وفات پائی،پہلے آپ کو حرم ظاہری واقع بغداد میں اپنے گھر کے اندر بطور امانت دفن کیا گیا پھر حسب وصیت آپ کے اسی سال آپ کے بیٹوں نے اپ کو مکہ معظمہ میں لے جاکر دفن کیا۔آپ کو مکہ معظمہ میں لے جاکر دفن کیا۔آپ کے اٹھانے کے لیے پچاس دینار مقرر کیے گئےتھے۔آپ نے اپنی موت اور مکہ معظمہ میں قبر کے ہونے کےلیے دعا مانگی تھی جہاں ابتداء مشارق الانوار میں کہا ہے اماتہ بھا حمید افا قبرہ ثم ازا شاء انشرہ پس خدا نے قبول کرلی۔’’محدث زیب فصحاء‘‘ تاریک وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)