حضرت ابن الفارض الحموی المصری
حضرت ابن الفارض الحموی المصری (تذکرہ / سوانح)
حضرت ابن الفارض الحموی المصری علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو حفص ہے اور نام عمر ہے۔آپ بنی سعد کے قبیلہ سے ہیں جو کہ قبیلہ حلیمہ کا ہے،جو کہ رسولﷺ کی دائی کا تھا۔حموی الاصل ہیں،اور مصر کی پیدائش ہےآپ کے والد مصر کے بڑے علماء میں سے تھے۔آپ کے فرزند سیدی کمال الدین محمدی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں شروع مین اپنے والد سے سیر اور تنہا رہنے کی اجازت مصر کے جنگلوں اور پہاڑوں میں پھرا کرتا تھا۔ایک رات دن کے بعد والد کی خاطر کی وجہ سے والد کے پاس والس آیا کرتاتھا۔جب باپ نے وفات پائی تو پھر میں بالکل سیر و سیاحت و تنہا رہنے کے لیے سلوک طریقت کی طرف ہوگیا۔لیکن مجھ پر اس طریق کی کوئی چیز نہ کھلی۔یہاں تک کہ ایک دن میں نے چاہا کہ مصر کے کسی مدرسہ میں جاؤں۔میں نے دیکھا کہ مدرسہ کے دروازہ پر ایک پیر بقال ہے جو وضو کرتا ہےلیکن شریعت کی ترتیب پر نہیں کرتا۔اس نے اول ہاتھ دھوئے پھر پاؤں دھوئے۔اس کے بعد سر کامسح کیا۔اس کے بعد منہ دھویا۔میں نے دل میں کہا،تعجب کی بات ہے کہ یہ ایک بوڑھا شخص اسلام کے ملک میں مدرسہ کے اندرفقہا کے درمیان ایسا وضو کرتا ہےکہ جو شرعی ترتیب پر نہیں ہے۔اس نے بوڑھے نے مجھے دیکھا اور کہا اے عمر تجھ پر مصر میں کوئی فتح حاصل نہ ہوگی۔حجاز اور مکہ میں ہوگی۔وہاں کا ارادہ کر،کیونکہ تیری فتح کا وقت آپہنچا ہے۔میں نے جان لیا کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہے،اور اس کا ترتیب وضو سے مقصود۔اپنی جہالت کا اظہار اور لوگوں کو شبہ مین ڈالنا اور ایک قسم کا حال ہے۔مین نے ان کے سامنے بیٹھ گیا،اور کہا ،یا سیدی مین کہاں اور مکہ کہاں۔حج کے دن بھی نہیں ہیں اور کوئی رفیق بھی ساتھ نہیں ہےنہ کچھ خرچ ہے۔اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا یہ دیکھ مکہ تمہارے سامنے ہے مین نے دیکھا تو مکہ سامنے تھا۔میں نے ان کو چھوڑا اور مکہ کی طرف منہ کرلیاکہ میری نظر سے غائب نہ ہوا۔یہاں تک کہ میں اس میں آگیا،اور فتح کے دروازے مجھ پر کھل گئے۔اس کے آثار پے درپے ہونے لگے۔مکہ کے پہاڑوں اور جنگلوں میں سیر کرتا تھا۔یہاں تک کہ ایک جنگل میں مقیم ہوگیا۔کہ وہاں سے مکہ تک دس رات سن کا راستہ تھا۔پانچوں نمازوں کو مکہ میں حرم شریف کی جماعت میں حاضرہوجایا کرتا میرے ساتھ آنے جانے مین ایک بڑا درندہ شیر میری ہمراہی کرتا تھا۔اونٹ کی طرح زانوں پر آتا اور کہتا،اے میرے سردار تم سوار ہوجاؤ،لیکن میں کبھی اس پر سوار نہ ہوا۔پندرہ سال اس طرح وہاں پر گزر گئے۔دفعتہً اس شیخ بقال کی آواز میرے کان میں آئی کہ یوں کہتا ہے۔یاعمرتعالیٰعلیالقابرہاحضروفاتی یعنی اے عمر آمصر کی طرف اور میری وفات پور حاضر ہوجا۔میں بہت جلد وہاں آیا دیکھا کہ وہ جان بلب ہے۔میں نے اس کو سلام کہا۔اس نے مجھے بھی سلام کہا۔چند دینار مجھے دئیےکہ ان سے میرا کفن دفن کرنا۔اور میرے صندوق کے اٹھانے والے کو ایک ایک دینار دینا،اور قرافہ کی فلاں جگہ پر مجھے لے جانا۔کہتے ہیں کہ وہ وہی جگہ ہےجہاں کہ اب شیخ ابو الفارض کی قبر ہے۔پھر کہا میرا صندوق وہاں رکھ دینا اور منتظر رہنا کہ خدا تعالیٰ کیا کرتا ہے۔جب انہوں نے وفات پائی۔میں نے ان کی وصیت کے موافق عمل کیااور صندوق کو وہیں رکھ دیا۔جہاں اس نے کہا تھا۔اتنے میں دیکھا کہ ایک مرد پہاڑ سے جانور کی طرح دوڑتا ہوا آیا ہے،اور میں نے اس کے پاؤں کوزمین پر لگتے نہ دیکھا۔میں نے اس کو پہچان لیایہ وہ شخص تھا کہ بازاروں میں پیادہ پھرا کرتا تھا۔لوگ اس کے ساتھ مسخری کیا کرتے تھے۔اور اس کی پیٹھ پر تھپڑ مارا کرتے تھے۔تب اس نے کہا اے عمر آگے بڑھ کر اس پر جنازہ کی نمازپڑھیں۔میں آگے بڑھا۔میں نے دیکھا کہ زمین آسمان کے درمیان سبز شہد جانور ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہیں ہیں۔جب ہم نماز سے فارغ ہوچکے ،تو ان میں سے ایک سبز جانور بڑا قدآور نیچے آیا اور اس کے صندوق کے نیچے بیٹھ گیا۔اس کے صندوق کو نگل گیا،اور دوسرے جانوروں سے جا ملا۔سب تسبیح کہتے ہوئے اڑ رہے تھے۔یہاں تک کہ میری نظر سے غائب ہوگئے۔میں نے اس حال سے تعجب کیا۔اس مرد نے کہا ،یا عمر اما سمعت ان ارواح الشھداء فی جوف طیر خضر تسترح میں الجنۃ حیث شاھ تھم شھداء الشیوف واما شھداء المجتہ فکلھم اجسادھم ارواحھم فی جوف طیر خضر وھذا الرجل مجھم یا عمر یعنی اے عمر کیا تم نے نہیں سنا کہ شہیدوں کی روحیں سبز جانوروں کے پیٹ میں رہتی ہیں۔وہ جنت میں چلتے پھرتے ہیں۔جہاں چاہتے ہیں،اور یہ تلوار کے شہیدوں کا ذکر ہے،لیکن جو لوگ محبت کے شہید ہیں۔ان کے تمام اجسام اور ارواح سبز جانوروں کے پیٹ میں ہوتےہیں۔اور یہ شخص ان میں سے ہے اے عمر،اور مین بھی ان میں سے تھا۔لیکن مجھ سے ایک قصور ہوگیا۔اس لیے مجھ کو اپنے دل میں سے نکال دیا۔اب بازاروں میں پمجھے تھپڑ پارتے ہیں اور قصور کی سزا دیتے ہیں۔آپ کا دیوان ہے جو کہ معرفت اور لطیف فنون میں ہے۔ایک ان قصیدوں میں سے قصیدہ تائیہ ہے کہ جس کے کم و بیش سات سو پچاس شعر ہیں۔وقد اشتھرت ھذا القصیدۃ بین المشائخ الصوفیۃ وغیر ھم من الفضلاء واھل الحقیقۃ یعنی بے شک یہ قصیدہ مشائخ سوفیہ وغیرہ فاضلوں اور اہل حقیقت میں مشہور ہوچکا ہے بعد سیر اور تمام سلوک کے جو کچھ کہ اس قصیدہ میں حقائق علوم دینیہ اور معارف یقینیہ اپنے ذوق سے اور اولیاء کاملین و اکابر محققین میسر نہیں ہوئی۔اور کسی فاضل و ہنر مند کو آسان نہ ہوئی۔بلکہ اکثر لوگوں کے مقدور سے باہر ہے۔
عن کل لطیف فیہ لفظ کاشف فی کل معنی منہ حسن باھر
بحر ولکنانطفاۃ و عنبر مزن ولکن الغیوث الجوھر
یعنی ہر اس کا لفظ ہر لطیفہ کو کھولنے والا اور اس کے ہر ایک معنی میں روشن حسن ہے۔وہ سمندر ہے لیکن اس کی کف عنبر ہے۔وہ بادل ہے لیکن اس کی بارش جواہرات ہے۔شیخ فرماتے ہیں کہ جب قصیدہ ثانیہ کہا گیا،تو رسولﷺ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں۔یاعمر ما سمیت قصیدتک یعنی تم نےاپنے قصیدہ کا کیا نام رکھاہے۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اس کا نام لوائح الجنان وروائح الجنان رکھا ہے۔فقال رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم لا بل سمھا نظم السلوک فسمیتھا بذالک یعنی تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس کا نام نظم السلوک رکھ۔اس لیے میں نے اس کا نام یہ رکھا۔لوگ ان کے اصحاب سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا یہ قصیدہ لکھنا شعر کے قاید کے مطابق نہیں تھا۔بلکہ کبھی ان کو جذبہ آجاتا تھا،اور کئی دن بلکہ ایک ہفتہ بلکہ دس دس دن تک حواس سے غائب رہتے تھے۔جب ہوش میں آتے تو لکھا کرتے ۳۰یا۲۰یا۵۰شعر جس قدر کہ خداتعالیٰ ان پر اس غائب رہنے کے دنوں میں کھول دیا کرتا تھاوہ لکھ دیا کرتے تھے۔اس کے بعد ترک کردیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ وہ پہلی حالت لوٹ کر آجاتی۔شیخ شمس الدین ابکی رحمتہ اللہ جو کہ شیخ صدر الدین کی خدمت مین علماء اور طلباء حاضر ہوا کرتے تھے۔طرح طرح کے علوم میں باتیں ہوتی تھیں اور مجلس کا ختم قصیدہ نظم لسلوک کے شعر پر ہوا کرتا تھا۔حضرت شیخ اس پر عجمی زبان میں غریب باتیں اور لدنی معنی فرمایا کرتے تھے کہ اس کو ہرشخص سمجھ نہیں سکتا تھا،مگر وہی جو کہ اصحاب ذوق میں سے ہوتا تھا۔کبھی ایسا ہوتا کہ دوسرے دن یوں فرماتے تھے کہ اس بیت میں ایک دوسرا مطلب مجھ پر ظاہر ہوا جو کہ پہلے معنی سے بڑھ کر غریب اور دقیق ہوتا تھا۔اکثر فرمایا کرتے کہ صوفی کو چاہیے کہ اس قصیدہ کو یاد کرلے ،اور جو شخص کہ اس قصیدہ کو سمجھ سکے اس کے سامنے اس کی معانی کی شرح کر دے۔شیخ شمس الدین یہ بھی کہتے ہیں کہ شیخ سعید فرغانی نے اپنی پوری ہمت اس بات کہ سمجھنے پر کہ حضرت شیخ نے فرمائی ہے لگائی ہے۔اس کا حاشیہ لکھتے تھے۔اول اس کو فارسی زبان میں شرح کیا ہے۔اور دوبارہ عربی زبان میں اور وہ سب ہمارے شیخ کے انفاس کی برکت ہےیعنی شیخ صدر الدین علیہ الرحمۃ کی۔قال الا مام الیافعی رحمتہ اللہ قداحسن یعنی امام یافعی کہتے ہیں کہ بہت اچھا کہا ہے یعنی شیخ ابن الفارض نے فی وصفہ راح المجبۃ فی دیوانہ المشتمل علے لطائف المعارف والسلوک والمجبۃ والشوق والو صل وغیر ذالک ومن الا صطلاحات والعلوم الحقیقۃ والمعرفۃ فی کتب مشائخ الصوفیۃ ومن ذالک وصفہ لھا فی ھذا البیت المشھور
ھینا لاھل الزیر کم سکرو وابھا وما شربوا منھا ولکنھم ھموا
علی نفسہ فلیبک من ضاع عمرہ ولیس لہ فیھا نصیب ولا سھم
وقال ایضاً من المشھورانہ وقع للشیخ شھاب الدین سھروردی رحمۃاللہ تعالیٰ قبض فی بعض حجابہ اتی الید الشیخ النظم رحمۃ اللہ فاستنشدہ الشیخ شھاب الدین رح من قرنطیۃ فانشدہ الشیخ الناظم رحمۃ اللہ قصیدۃ واستمر فی انشا دھا الی ان قال
احلا لما لم اکن اھلا لموقعہ قول المبشر بعد الیاس بالفرج
لک البشارۃ فاخلح ماعلییک فقد ذکرت ثم علی فیک من عوج
فقام الشیخ شہاب الدین سھوروردی رحمۃ اللہ فتو احد ومن عندہ من الشیخ الوقف الحاضرین وکان المجلس عامر الشیوخ اجلاء وسادۃ من الاولیاء فخلع علیہ ھو والحاضرون قیل اربعمایۃ خلعۃیعنی ابن الفارض نے اپنے دیوان میں محبت کی شراب کی تعریف کی ہے،جو کہ معروف سلوک محبت وشوق و وصل وغیرہ کے لطائف پر شامل ہے۔جس میں وہ اصطلاحات علوم حقیقہ و معرفت کی ہیں،جو کہ مشائخ صوفیہ کی کتب میں سے ہیں ۔ان میں سے اس کا شراب محبت کا اس مشہور بیت میں بیان کرتا ہے۔شراب خانہ والوں کو مبارک باد ہو کہ کس قدر شراب پی ہے۔انہوں نے شراب نہیں پی،لیکن اس کا قصد کیا ہے۔پس چاہیے کہ اپنی جان پروہ شخص روئے کہ جس کو اس میں نصیب اور حصہ نہیں ہے۔اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ قصد مشہور ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کو بعض حجاب میں آکر فیض واقع ہوا۔اتنے میں شیخ ناظم رحمتہ اللہ ان کے پاس آئے تب آپ نے ان سے کہا کہ دیوان کا کوئی شعر پڑھو۔پھر شیخ ناظم نے اپنا قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ یہ شعر پڑھا مجھے خوشخبری اس بات کی ہو جس کا میں اہل نہ تھا۔خوشخبری سنانے والے کی بات ناامیدی کے بعد خوشی کی بات۔تجھ کو خوشخبری ہو۔
رب تو سب غم دور کردے،کیونکہ بے شک تیرا ذکر محبوب کے پاس باوجود تیری کجی اور قصور ذکر کیا گیا ہے۔تب شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کھڑے ہوگئے،اور وجس کرنے لگے،اور جتنے ان کے ساتھ شیوخ الوقت حاضرین تھے،وہ بھی وجد کرنے لگے۔ان کی مجلس بڑے بڑے اعلیٰ مشائخ اور سردار اولیاء اللہ سے بھری تھی۔تب اس پر آپ نے خود اورحاضرین خلعتیں نثار کیں۔کہتے ہیں کہ چار سو خلعت ہوگئیں۔ایک دفعہ شیخ ابن الفارض سے خطا ہوگئی لوگوں نے ان پر مواخذہ کیا۔ان کو ایسا قبض ہوا کہ قریب تھاان کی جان نکل جائے۔پھر جریری کا یہ شعر آپ نے پڑھا
من ذالذی ماساء قط ومن لہ الحستی فقط
یعنی کون شخص ہے جس نے کبھی برائی نہ کی ہو،اور کون ہے وہ شخص کہ جس کی طرف نیکیاں ہی ہوں وہ سنتے ہیں کہ زمین آسمان کے درمیان کوئی شخص یہ شعر پڑھتا ہے لیکن اس کا وجود نظر نہیں آتا تھا؟
محمد الھادی الذی علیہ جیربل ھبط
یعنی محمد ﷺ ایسے ہادی ہیں کہ جن پر جبریل علیہ السلام اترتے تھے۔شیخ برہان الدین ابراہیم جعریؒ نے کہا ہے کہ میں جعیر کے اطراف میں سیر کرتا تھا،اور اپنے دل سے محبت میں فنا ہونے کی لذت کی باتیں کرتا تھا۔اتفاقاً ایک مرد بجلی کی طرح گزرا اور یہ بیت پڑھتا تھا
فلو تھونی مالم تکن فی فانیا ولم تفن مالم تجلی فیک صورتی
یعنی تم میرے عاشق نہ ہوگے جب تک کہ مجھ میں فنا نہ ہوگےاور فنا نہ ہوگی۔جب تک تم میں میری صورت جلوہ گر نہ ہوگی۔میں نے جان لیا کہ وہ ایک دوست شخص ہے اس کے پیچھے دوڑا اور اس کو پکڑلیا۔اور کہا کہ تم کو یہ نفس کہاں سے ملا۔کہا یہ اشعارمیرے بھائی شمس الدین ابن الفارض کے ہیں۔میں نے کہا اب وہ کہاں ہیں۔کہا اس سے پہلےاس کی کبر حجاز سے سنتے تھے۔اب مصر کی طرف سنے جاتے ہیں،اور اس وقت وہ جان بلب ہیں۔مجھ کو حکم ہوا ہے کہ اس کے انتقال کے وقت حاضر ہوجاؤں۔اور اس پر نماز پڑھوں۔اب اس کی طرف جاتا ہوں اور مصر کی طرف متوجہ ہوا ہوں۔میں بھی ادھر متوجہ ہوا۔اس شخص کی خوشبو پاتا تھا،اور اس کی خوشبو کے پیچھے پیچھے جاتا تھا۔یہاں تک کہ ابن الفارض کے پاس آگیا۔وہ حالت نزع میں تھے۔میں نے کہا،السلام علیک رحمتہ اللہ و برکاتہ۔اس نے کہا وعلیک السلام یا ابراہیم بیٹھ جا ،اور تم کو خوشخبری ہوکہ تو اولیاء اللہ کے گروہ میں سے ہے۔میں نے کہا،یاسیدی مین جانتا ہوں کہ یہ خوشخبری خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔جو اس وقت تمہاری زبان سے نکلتی ہے،لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کا سبب معلوم کروں تاکہ مجھے اطمینان پاجائے۔نصیب ہے کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میرے انتقال کے وقت اولیاء اللہ کی ایک جماعت حاضر ہوجائے،اور تم حاضر ہوئے۔پس تم بھی ضرور اولیاء اللہ میں سے ہو۔اس کے بعد میں نے دیکھا کہ بہشت اس کو دکھایا گیا۔جب اس کو دیکھا تو آہ بھری اور ان کو بڑا رونا آیا۔ان کا چہرہ بدل گیا،اور یہ شعر پڑھنے لگے۔
انکان منزلتی فی الحب عندکم ماقدرایت فقد ضیعت ایامی
احنیۃ ظفرت روحی بھا زمنا الیوم احسھا اضغات احلام
یعنی اگر میرا مرتبہ تمہارے نزدیک یہی ہے جو میں نے دیکھا تو پھر میں بے شک اپنی عمر ضائع کی۔وہ آرزو کہ جس سے مدت تک میری روح کامیاب ہوئی تھی۔آج کے اس کو پراگندہ خواب خیال کرتا ہوں۔میں نے کہا اے سیدی یہ مقام تو بزرگ ہے۔کہا اے ابراہیم رابعہ ادویہ کہ ایک عورت تھی کہتی تھی،وعزتک ما بعدتک خوفا من نارک ولا رغبت فی جنتگ بل کرامۃ لو جھک الکریم و محبۃ فیک یعنی مجھ کو تیری عزت قسم ہےمیں تیری عبادت اس لیے نہیں کرتی کہ مجھے تیری آگ کا خوف ہےاور تیری جنت کی رغبت ہے۔بلکہ تیرے کریم چہرہ اور تیری محبت کی وجہ سے کرتی ہوں۔یہ وہ مقام نہیں ہےکہ جس کو میں نے طلب کیا ہےاور اس کی طلب میں ساری عمر گزاری ہے۔اس کے بعد آرام کیا اور خوش ہوکر مجھ کو سلام کہا اور رخصت کیا،اور کہا کہ میرے کفن دفن میں جماعت کے ساتھ موجود رہنا اور میرا جنازہ پڑھنا ۔تین دن تک میری قبر پر رہیو۔اس کے بعد اپنے ملک کو جانا۔اس کے بعد دعا اور مناجات میں مشغول ہوا۔میں نے سنا کہ کوئی کہتا ہے۔جسکی میں آواز سنتا تھا،لیکن خود اس کو نہ دیکھا تھا۔یاعمر فما تروم یعنی اے عمر پھر تم کیاچاہتے ہو۔اس نے کہا اے
اروم وقد طال المدی منک نظرۃ وکم من دعا دون مرمائی طلت
مدت سے مین تمہارا ایک دیدار چاہتا ہوں ،حالانکہ میرے مقصود سے ورے بہت سے خون ہوچکے ہین۔اس کے بعد ہنستا ہوا اور کشادہ چہرہ جان بحق ہوا۔اس وقت میں نے جان لیا کہ ان کا مطلب مل گیا اور اس کا مقصود اس کی بغل میں رکھا گیا۔شیخ برہان الدین ابراہیم جعیری یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے انتقال کے وقت اولیاء اللہ کی ایک بڑی جماعت حاضر تھی۔بعض کو تو میں پہچانتا ہوں اور بعض کو نہیں پہچانتا تھا۔منجملہ ان کے ایک وہ عزیز جو میری معرفت کا سبب ہوا تھا۔میں نے اپنی تمام عمر میں اس سے بڑھ کر کوئی بزرگ جنازہ نہیں دیکھا تھا۔سفید سبز جانور اس کے سر پر اڑتے تھے اور بہت سے لوگ اس کے اٹھانے کے لیے جمع تھے۔حضرت رسالت پناہﷺ کی پاک روح موجود تھی اور اس پر نماز جنازہ پڑھتی تھی اور دیگر انبیاء اولیاء انس وجن کی پاک روحیں بھی موجود تھیں۔میں ہر ایک گروہ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا۔اس لیے ان کے دفن میں دیر ہوگئی۔دن کا آخیر حصہ ہوگیا۔ہر ایک اس میں گفتگو کرتا تھا۔بعض کہتے تھے کہ یہ اس کے حق میں سزا ہےکہ جو محبت میں بلند مقامی کا دعویٰ کرتاتھااور بعض اس کے سوا اور کچھ کہتے تھے۔یہ لوگ اصل بھید سے بے خبر تھے۔الامن شاء اللہ یعنی مگر جس کو خدانے چاہا،وہ جانتا تھا۔جب شام کے قریب اس کو دفن کیا گیاتو وصیت کے مطابق میں تین دن تک وہاں رہا۔بہت سے عجیب و غریب حالات دیکھنے میں آئے کہ جن کے سمجھنے کی عقلوں میں طاقت نہیں۔ایک دفعہ شیخ برہان الدین مذکور ایک بڑے لوگوں کی جماعت کے ساتھ ان کی زیارت کو گئے اور دیکھا کہ بہت مٹی ان کی قبر کے گرد جمع ہو رہی تھی۔اس پر گرداپڑا ہوا ہےتو آپ نے یہ شعر پڑھا
مساکن اھل العشق حتی قبور ھم علیھا تراب الذل بین المقابر
یعنی عاشقوں کے گھر حتیٰ کہ ان کی قبریں ان کی ذلت کی مٹی ہے،قبروں کے درمیان۔اس کے بعد اس مٹی و گردا کو جھاڑدیااور اپنے دامن مبارک سے صاف کردیا۔یہاں تک کہ قبر کے گرد کو پاک کردیا۔آپ نے ۸جمادی الاولی ۷۳۲ھ میں انتقال فرمایا۔
(نفحاتُ الاُنس)