حضرت ابراہیم بن معصاد الجعبری علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو اسحق ہے۔صاحب آیات ظاہرہ اور مقامقت فاخرہ تھے۔آپ کا مذہب محو کلی اور نفی وجود افلاس و ناداشت کا تھا۔شیخ عبدالقادر گیلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔
انابلبل الافصاخ املاء دوحھا طر باوفی العلیاء بازا شھب
یعنی میں خوش بیاں ایک بلبل ہوں کہ جو درخت کو خوشی سے بھر لیتی ہے اور بڑوں میں سفید باز ہوں اور شیخ ابراہیم نے اس کے مقابلہ میں (کسر نفسی سے)یہ کہا ہے۔
اناصر دالمر حاض املا بیرہ نتنا وفی البیداء کلب اخرب
یعنی میں پاخانہ کی چڑیاں ہوں ۔جو غسل خانہ کے کنوئیں کو گندگی سے بھر دیتی ہےاور جنگل میں خراب کتا ہوں۔ایک دن ان کا شاگرد آیااور کہا کہ میں نے دو بیت سنے ہیں۔جو مجھے بہت اچھے معلوم ہوئے ہیں۔کہا،وہ کونسے ہیں؟اس نے پڑھے۔
وقائلۃ انقضت عمرک سرفا علی مسرف فی یتھہ ودلا لہ
فقلت لھا کفی عن اللوم اننی شغلت بہ عن ھجرہ ووصالہ
یعنی بہت سے کہنے والے ہیں کہ یوں کہتے ہیں،تم نے اپنی عمر اسراف میں برباد کردی ،اپنے غرور اور کبر میں۔میں نے کہا کہ ملامت کو روک لو۔کیونکہ اس کے سبب سے ہجر ووصال سے آزاد ہوگیا ہوں۔شیخ ابراہیم نے کہا کہ یہ نہ تیرا مقام ہے ،نہ تیرے شیخ کا ۔ایسا کہتے ہیں کہ جس اس کی اجل نزدیک آپہنچی تو اپنی قبر کی جگہ پر آئےاور کہا،یاقبیر قد جاءک زبیر یعنی اے چھوٹی قبر ریتے پاس زبیر آیا ہے۔وہیں مقیم ہوگئے۔بغیر اس کے کہ اس کو کوئی علت یا مرض ہو اور بہت جلد ۶۸۷ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)