آپ نارنول کے باشندے تھے اور صاحب نفس مشہور تھے اکثر اوقات نارنول کے بازاروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ آپ کا مزار بھی نارنول ہی میں ہے، آپ جس جگہ بیٹھ جاتے وہاں سے کئی کئی دن تک نہ اُٹھتے، تنہائی میں خود سے باتیں کیا کرتے کبھی گریہ و زاری کرتے، کبھی ہنستے کبھی اپنے آپ سے لڑتے جھگڑتے، کبھی دوتارہ بجا کر فارسی چٹکلے کہتے، پُرانے چیتھڑے پہنتے اور ہاتھ پاؤں میں لوہے کی زنجیریں ڈالے رکھتے، گفتگو میں آپ کا تکیہ کلام یہ تھا، خدایا آؤ، خدایا جاؤ، خدایا بیٹھو اور جس سے اور جس سے گفتگو کرتے یہ تکیہ کلام ضرور استعمال کرتے۔
جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے
وہ جلوہ گر آشکار آقاﷺ
(ذوقِ نعت)
ملا محمد نارنولی کہا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میری والدہ نے مجھ سے کہا ملا محمد تم بچپن میں اتنے سخت بیمار ہوئے تھے کہ تمہارے بچنے کی کوئی امید نہ تھی چنانچہ ہمارے محلّہ سے الہ دین مجذوب گزرا اور اس نے ایک ٹھیکری ایک آدمی کو دے کر ہمارا پتہ بتایا کہ یہ ان کو دے دینا، چنانچہ وہ آدمی ہمارے پاس ان کی دی ہوئی ٹھیکری لایا اور میں نے اس ٹھیکری کا تعویذ بنا کر تمہارے بازو پر باندھ دیا اور اللہ تعالیٰ نے تم کو تندرست کردیا، اس کے بعد تمہارے والد الہ دین کو گھر لے گئے تاکہ اس کو کچھ کھلائیں، الہ دین نے آکر کہا، خدا یا کوئی چیز گرم خدا یا کوئی چیز ٹھنڈی خدایا کوئی چیز کھٹی خدایا کوئی چیز میٹھی، چنانچہ تمہارے والد نے فوراً ہی چاول پکوائے اور شکر دہی خدمت میں پیش کی، الہ دین وہ کھا کر چلاگیا۔
تیرے بندوں کے بھی عجیب رنگ ہیں
بازار میں کیچڑ ہو گئی تھی الہ دین جس کسی کے پاؤں میں کیچڑ لگی دیکھتے تو اس کا پاؤں صاف کر کے خود اپنے پاؤں میں کیچڑ مل لیتے۔
ملا محمد یہ بھی کہتے تھے کہ ایک روز میں کچھ پیسے نذرانہ کے طور پر لے کر الہ دین کو تلاش کرنے لگا، سب جگہ ڈھونڈا کہیں نہ ملے، اتفاقاً شہر کے بَاہَر دیکھا کہ گھوڑے پر ایک آدمی چیتھڑوں پر لپٹا ہوا پڑا ہے۔ میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مردہ ہے لیکن قریب آکر دیکھا تو وہ چیتھڑے ہلنے لگے تب میں سمجھاکہ کوئی زندہ ہے۔ پھر اس کے بعد ان چیتھڑوں میں سے اس آدمی نے سر نکال کر کہا خدایا دیدو جو لائے ہو، میں جو کچھ لایا تھا ساری رقم ان کو دے دی۔ الہ دین مجذوب نے وہ رقم لے کر کہا، خدایا یہاں گھورا ہے واپس ہوجاؤ۔
الہ دین مجذوب نے پندرہویں شعبان 946ھ کو صبح صادق کے وقت وفات پائی، آپ کی تاریخ وفات مجذوب صادق ہے۔
اخبار الاخیار