حضرت الیاس علیہ السلام
حضرت الیاس علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
وَاِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْقَالَ لِقَوْمِہٓ اَلَا تَتَّقُوْنَ، اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ اللہ رَبَّکُمْ وَرَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ، فَکَذَّبُوْہُ فَاِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ اِلَّا عِبَادَ اللہ الْمُخْلَصِیْنَ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (پ۲۳ سورۃ صافات ۱۲۳، ۱۳۲)
اور بے شک الیاس پیغمبروں سے ہے جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا ڈرتے نہیں کیا تم بعل (بت کا نام) کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پید اکرنے والے اللہ تعالیٰ کو جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلوں باپ دادا کا پھر انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثناء باقی رکھی سلام ہو الیاس علیہ السلام اور ان کے ساتھ ایمان والے والوں پر بے شک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں سے ہے۔
حضرت الیاس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، آپ کا نسب مشہور قول کے مطابق یہ ہے الیاس علیہ السلام بن یاسین بن قحاص بن العیزار بن ہارون۔
حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہما السلام کی ہر سال ملاقات:
حضرت الیاس علیہ السلام خشکی پر مقرر کیے گئے تھے اور حضرت خضر دریاؤں پر اور جزیروں پر مقرر ہیں، ہر سال حج کے موقع پر ان دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ اور الیاس علیہ السلام کی ملاقات:
ایک سفر کے دوران کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آسمانوں سے اللہ تعالیٰ نے کھانا اتارا دونوں حضرات نے وہ کھانا مل کر کھایا اس کے کھانے میں روٹی مچھلی وغیرہ نازل کی گئی، پھر عصر کی نماز دونوں حضرات یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم اور الیاس علیہ السلام نے مل کر ادا کی۔
آپ نے قوم کو کہا:
حضرت الیاس علیہ السلام نے قوم کو کہا: تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟ تمہیں چاہیے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو اور اس کےنواہی (جن کاموں سے رب نے منع کیا ہے) سے اجتناب کرو، تم بت پرستی کے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بت سے حاجات طلب کر رہے ہو، اور اس ذات کو چھوڑ رہے ہو، یعنی اس ذات کی عبادت نہیں کر رہے ہو اور اس سے تم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر رہے ہو جو سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے۔
خیال رہے خالق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے بغیر کوئی خالق نہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے؛ کیونکہ ان کے گمان کے مطابق رب کے بغیر بھی خالق تھے، تو کہا گیا ہے جن کو تم خالق مانتے ہو ان سب سے اچھا خالق اللہ تعالیٰ ہے یا مجازی طور پر دوسرے کاموں کے ایجاد کرنے والوں کو وہ لوگ خالق کہہ دیتے تھے تو آپ نے بھی ان کے قول کے مطابق کلام فرمایا ہو۔
قوم الیاس کا بت:
ان کے بت کا نام ’’بعل‘‘ تھا۔ یمن کی لغت میں ’’بعل‘‘ کا معنی رب ہے۔ وہ کہتے تھے:
’’من بعل ھذا الدار‘‘؟
اس گھر کا مالک کون ہے؟
اسی وجہ سے خاوند کو بھی ’’بعل‘‘ کہا گیا ہے قرآن پاک میں ہے:
وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ
اور ذکر کیا گیا ہے: وَھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا
ان دونوں مقاموں میں بعل کا معنی خاوند ہے، چونکہ وہ اس بت کو اپنا رب مانتے تھے۔ اس کا نام ہی انہوں نے بعل رکھا ہوا تھا۔ اس بت کی لمبائی بیس ذراع (تیس فٹ) تھی۔ وہ سونے کا بنا ہوا تھا اس کے چار منہ تھے۔ وہ اس کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ اس کی خدمت کے لیے انہوں نے چار سو خادم رکھے ہوئے تھے، وہ خدام چونکہ ان کے معبود کے خدمت گزار رہتے تھے، اس لیے وہ ان کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے۔ بعض مفسرین نے ’’ابنائھم‘‘ کی جگہ ’’انبیاء‘‘ تحریر کیا ہے کہ وہ ان خادموں کو اپنے خدا کا نبی سمجھتے تھے۔
شہر بعلبک:
’’بعلبک‘‘ شہر کا نام اس لیے بعلبک رکھا گیا ہے کہ اس وقت کے حاکم کا نام ’’بک‘‘ تھا۔ اور اس کے معبود کا نام ’’بعل‘‘ تھا۔ اس نے ایک شہر آباد کیا جس کا نام اس نے اپ نے اور اپنے معبود کے نام سے مرکب کرکے ’’بعلبک‘‘ رکھا نحو کی تمام کتب میں ایسا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ ’’بک‘‘ اس جگہ کا نام تھا جہاں انہوں نے اپنے بت ’’بعل‘‘ کو رکھا ہوا تھا۔ اس طرح بت ا ور اس کے مندر کے نام سے شہر کا نام ’’بعلبک‘‘ رکھا گیا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
تنبیہ: بعض حضرات نے تحریر کیا ہے کہ ’’بعل‘‘ بت میں شیطان بولتا تھا کہ گمراہی کی طرف ان کی راہنمائی کرتا تھا، وہ بت کچھ احکام جاری کرتا اس کے خدام یعنی جن کو وہ اپنے بت کے نبی سمجھتے تھے لوگوں تک وہ احکام پہنچاتے تھے۔
علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
’’واما قولھم ان الشیطان کان یدخل فی جوف بعل ویتکلم بشریعۃ الضلالۃ فھذا مشکل لانا ان جوزنا ھذا کان ذالک قادحا فی کثیر من المعجزات لانہ نقل فیمعجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلام الذئب معہ وکلام الجمل معہ وحنین الجذع ولو جوزنا ان یدخل الشیطان فی جوف جسم ویتکلم فحینئذ یکون ھذا الاحتمال قائما فی الذئب والجمل والجذع وذالک یقدح فی کون ھذہ الاشیاء معجزات‘‘ (تفسیر کبیر ج۲۶، ص۱۶۱)
بعض لوگوں کا جو یہ قول ہے کہ بعل بت کے پیٹ میں شیطان داخل ہوجاتا اور ان کو گمراہی کے راستہ پر چلانے کا کام کرتا تھا اس کا تسلیم کرنا بہت مشکل ہے اگر اسے مان لیا جائے تو بہت سے معجزات پر عیب لازم آئے گا اور ان پر اعتبار ہی ختم ہوجائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں ان معجزات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ سے بھیڑیے نے کلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ نے کلام کیا، آپ نے جب منبر بنوالیا تو جس ستون سے آپ پہلے سہارا لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ وہ رونے لگا، آپ نے اسے تسلی دی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ شیطان جسموں میں داخل ہوکر کلام کرتا ہے تو یہ احتمال بھیڑیے اور اونٹ اور کھجور کے تنے یعنی اس رونے والے ستون میں بھی قائم ہوگا کہ (معاذاللہ) ان میں بھی شیطان نے داخل ہوکر کلام کیاہوگا اس طرح تو معجزات پر اعتبار ہی اٹھ جائے گا۔
علامہ رازی کی اس بحث سے واضح ہوگیا کہ یہ قول ہی باطل ہے کہ ’’بعل‘‘ کے پیٹ میں شیطان داخل ہوکر کلام کرتا تھا۔
خیال رہے کہ یہاں فَکَذَّبُوْہُ فَاِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ..... تو انہوں نے اس کی تکذیب کی پس بے شک وہ پکڑے جائیں گے ..... میں اخری عذاب کا ذکر ہے۔ اسی طرح اس کے بعد اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِیْنَ مگر اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے ...... میں استشاء بھی اسی اخروی عذاب سے ہے۔
دنیا میں قوم الیاس کی تباہی اور آپ پر ایمان لانے والوں کی نجات کا ذکر معتبر تفاسیر میں نظر نہیں آسکا۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ بھی یہی ظاہر کر رہا ہے (سَلَامٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ) کا ترجمہ اعلیٰ حضرت نے کیا ہے ’’سلام ہو الیاس علیہ السلام پر‘‘ اس میں ایک قول یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں پر سلام ہو۔ ایک قرات میں آل یاسین ہے، چونکہ الیاس علیہ السلام بن یاسین ہیں یعنی یاسین کی آل پر سلام ہو اس سے مراد الیاس علیہ السلام ہیں۔
(تذکرۃ الانبیاء)