امیر المومنین حضرت امام ابو عبداللہ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امیر المومنین حضرت امام ابو عبداللہ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (تذکرہ / سوانح)
آں شہید تیغ محبتو فنا، قتیل معرکہ کربلا، مست شراب مازاغ البصر دماطغیٰ ساقئی کوثر ثم دنےٰ تدلےٰ، شاہد نور بے چوں اور عرایاکونین، ابو الائمہ امام ابو عبداللہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ائمۃ اہل بیت میں سے تیسرے امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب شہید اور سید ہے۔ آپ کی ولادت بروز سہ شنبہ ماہ شعبان سال ۴ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ شش ماہی ہیں۔
حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام بھی ششماہی تھے۔ رسول خداﷺ نے آپ کا اسم گامی حسین رکھا۔ آپ اس قدر حسین و جمیل تھے کہ اگر اندھیرے میں بیٹھتے تو آپ کے چہرۂ انور کے نور کی روشنی سے لوگ آپ تک پہنچ سکتے تھے۔ آپ از سرتاپاء رسول اللہﷺ کے مشابہ تھے۔ آنحضرت صلعم فرمایا کرتے تھے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے! اے اللہ! دوست رکھ اس کو جو حسین کو دوست رکھے۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ حضرت امام حسین نے حقائق و معارف الٰہیہ میں ک لمات لطیف بیان فرمائے ہیں۔ طریقت میں آپ کا مقام بہت بلند تھا اور آپ کا شمار محققین اولیاء میں ہوتا ہے۔ آپ قبلۂ اہل دل واہل صفا ہیں۔ روایت ہے کہ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ بندگی کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ بندہ کا آخری مقام یہ ہے کہ اپنے اختیار وارادہ کو ختم کردے یعنی ذاتِ احدیت میں اس طرح عزق ہوجائے کہ اپنے آپ کو نہ دیکھے۔ حضرت بندہ نواز سید محمد گیسودراز کے ملفوظات جوامع الکلم میں لھا ہے کہ عید کے دن حضرت فاطمۃ الزہارا نے حسنین سے فرمایا کہ سید کائناتﷺ کی خدمت میں جاکر عیدی طلب کرو۔ اگر آپ کوئی دنیاوی چیز عطا فرمانویں تو قبول نہ کرنا اور یہ کہنا کہوہ راز جو حق تعالیٰ نے آپ کو شبِ معراج عطا فرمایا وہی ہمیں عطا کیا جائے۔ تب ہم خوش ہوں گے۔ چنانچہ دونوں صاحبزادگان نے سرورِ کونینﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عیدی طلب کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو چیز تمہیں پسند ہے تباو تاکہ تم کو دوں۔ انہوں نے جواب دیاکہ جو دراز حق تعالیٰ نے آپ کو شب معراج میں عطا فرمایا وہی عنایت ہوا۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے تاتل فرمایا کیونکہ حق تعالیٰ نے اس راز کے اظہار سے آپ کو منع فرمایا تھا۔ اس اثناء میں جبرائیل علیہ السلام نے آکر عرض کیا کہ یہ صاحبزادگان آپ جا جزو ہیں ان کو بتانا جائز ہے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے ایک بات امام حسن کے کان کہی اور ایک بات امام حسین کے کان میں۔ اس کے بعد دونوں بھائی دوڑتے ہوئے والدہ ماجدہ کی خدمت میں پہنچے اور قصہ بیان کیا۔ لیکن امام حسن نے جو کچھ بتایا وہ اس سے مختلف تھا جو امام حسین نے بیان کیا۔ اس اثناء میں حضرت علی گھر میں تشریف لائے تو سب کو غیر معمولی طور پر خوش و خرم پایا۔ آپ نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس طرح سرور کائناتﷺ سے راز معلوم کیا ہے۔ یہ سُن کر حضرت علی نے فرمایا کہ یہ بات آنحضرتﷺ نے مجھے معراج کی صبح کو بتائی تھی۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ پھر ہم سے کیا یہ پوشیدہ رکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پوشیدہ نہیں رکھا لیکن میں قابلیت واستعداد کا انتظار کر رہا تھا۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو یہ قابلیت اور استعداد عطا فرمائی ہے اب بیان کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی نے جو چیز بتائی وہ اُن سب سے مختلف تھی۔طرفہ یہ چاروں حضرات ایک جگہ پر بیٹھے تھے لیکن آنحضرتﷺ سے مختلف بات حاصل کی۔ حضرت علی اور بات کہہ رہےتھے۔ امام حسن اور بات، امام حسین اور بات اور حضرت فاطمہ اور بات بیان کر رہی تھیں۔
کشف المحجوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ کو اپنی پشت مبارک پر بٹھایا ہوا ہے اسی کا ایک حصہ آپ کےمنہ مبارک میں ہے اور ایک سراما حسین کے ہاتھ میں ہے اور آنحضرتﷺ زانو کے بل چل رہے ہیں۔ میں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: نعم الجملک یا ابو عبداللہ۔(اے عبداللہ! تمہارا کیا ہی اچھا اونٹ ہے) یہ سن کر پیغمبر اسلام علیہ السلام نے فرمایا۔ نعم الراکب ھوا یا عمر (کیا ہی اچھا سوار ہے یا عمر)
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے فرزند رسول! میں مسکن ہوں غریب ہوں، عیال وار ہوں مجھے کچھ عطا فرمایا جاوے۔ امام حسین نے فرمایا بیٹھ جاؤ ہمارا رزق آنے والا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی نے حضرت امیر معاویہ کی طرف پانچ تھیلے دیناروں سے بھرے ہوئے پیش کیے ہر تھیلے میں ایک ہزار دینار تھے۔ اس نے کہا کہ امیر معاویہ معافی مانگ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تھوڑی سی رقم خرچ کریں بعد میں زیادہ پیش کروں گا۔ امام حسین نے وہ پانچوں تھیلے اس سائل کو دے کر فرمایا کہ معاف کرنا تمکو بہت تکلیف ہوئی ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس قدر تھوڑی سی رقم آرہی ہے تو تجھے انتظار میں نہ رکھتا۔ ہمارے پاس یہی کچھ تھا جو تم کو دے دیا۔ ہم اہل بلہ میں راحت دینا ترک کرے چکے ہیں۔ ہم نے اپنی مراد کم کردی ہے اور زندگی دوسروں کی مراد پوری صرف کر رہے ہیں۔
وکتاب سبع سنابل میں لکھا ہے کہ ایک دن ا میر المومنین حضرت حسین اپنے مہمانوں کے ساتھ دستر خوان پر تشریف رکھتے تھے کہ خادم کے ہاتھ سے گرم آش کا پیالہ گر کر اما موصوف کے سر پر لگا اور ٹوٹ گیا۔ آپ نے اُسے ادب سکھانے کی خاطر غصّے سےد یکھا اس نے ڈر کے مارے فوراً قرآن مجید کی آیت پڑھی۔ والکاظمین الغیض (یعنی مومن غصہ پی جاتے ہیں) آپ نے فرمایا۔ میں نے غصہ ختم کردیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ والعافین الناس۔ (یعنی مومن وہ ہے جو لوگوں کے قصور معاف کرتا ہے) آپ نے فرمایا میں نے تمہارا قصور معاف کیا۔ اس نے کہا واللہ یحب المحسنین اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے امام حسین نے فرمایا کہ میں نے تجھے آزاد کیا۔
‘‘کتاب جامع السلاسل’’ میں لکھا ہے کہ ایک دن امام حسن اور امام حسین رسول خداﷺ کےسامنے کشتی کر رہے تھے۔ آنحضرت صلعم نے امام حسن سے فرمایا کہ حسین کو پکڑو وہ یہ سُن کر حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ آپ بڑے بیٹے سے فرمارہے ہیں کہ چھوٹے کو پکڑو آنحضرتﷺ نےفرمایا کہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام حسین کو کہہ رہے ہیں کہ حسن کو پکڑو۔ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ جبرائیل کے ساتھ بیٹھے کہ امام حسین آئے جبرائیل نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا میرا بیٹا ہے۔ اور ان کو گود میں بٹھایا جبرائیل نے کہا کچھ دیر کے بعد لوگ ان کو قتل کردیں گے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کون قتل کرے گا۔ جبرائیل نے کہا کہ آپ کی امت میں سے ایک گروہ ان کو قتل کرے گا۔ اگر آپ چاہیں تو میں بتاؤں کہ کون سی زمین پر ان کو تقل کریں گے۔ چنانچہ جبرائیلنے ارض کربلا کی طرف اشارہ کیا اور وہاں سے کچھسرخ مٹی اٹھاکر رسول خدا صلعم کو دکھائی کہ یہ ان کے مقتل کی خاک ہے۔ شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ام الحارث نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ جس سےمجھے ڈر لگ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا دیکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے یہ دیکھا کہ کسی نے آپ کے گوشت کا ٹکڑہ کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ تم نے صحیح خواب دیکھا ہے۔ فاطمہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری گود میں آئے گا۔ کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن سید کائناتﷺ نے امیر المؤمنین حسین کو اپنی دائیں ران پر اور اپنے بیٹے ابراہیم کو بائیں ران پر بٹھا رکھا تھا۔ کہ جبرائیل نےآکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو تمہیں نہیں دے گا۔ بلکہ ایک کو لے گا۔ اب آپ جس کو پسند فرمانویں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر حسین فوت ہوجائے تو ہم تین یعنی میں، علی اور فاطمہ کو تکلیف ہوگی۔ اگر ابراہیم فوت ہوجائے تو صرف مجھے تکلیف ہوگی۔ اس لیےمیں صرف اپنا غم پسند کرتا ہوں۔ اس کے تیندن کے بعد حضرت ابراہیم کا وصال ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے آکر انکے چہرہ مبارک بوسہ دیا اور فرمایا اھلاومرحبا فدیۃ یانبی ابراہیم۔
یزید کے ساتھ جنگ
‘‘مراۃ الاسرار’’ میں ‘‘تاریخ طبری’’ سے منقول ہے کہ جب حضرت معاویہ نے وفاتپائی۔ اور ان کی وصیت کے مطابق یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا اور تمام اہل شام نے اس کی بیعت کی۔ تو اس نے ولید بن عقبہ حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ ان چار شخصوں سے میری بیعت لو، حسین بن علی، عبد الرحمٰن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر، اور عبداللہ بن زبیر۔ چنانچہ سلید نے مردان بن حکم سے مشورہ کر کے انچار حضرات کو بیعت کی دعوت دی۔ لیکن وہ شروفساد سے بچنے کے لیے مکہ معظمہ چلے گئے۔ یہ خبر سُن کراہل کوفہ خوش ہوئے اور امام حسین کی خدمت میں قاصد بھیجے کہ آپ خلافت کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ ہم لوگ آپ پر جاننثار کریں گے۔ اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور قبیلہ سمیت آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ چالیس سوار اور ایک سو پیادہ آدمی تھے یزید کےحامیوں نے فوراً یہ خبر اس کو پہنچادی۔ یزید نے عبید اللہ بن زیاد کو خط لکھا کہ بصرہ سے لشکر جمع کر کے امام حسین کے مقابلہ کے لیے چلے جاؤ۔ عبیداللہابن زیاد نے عمر بن سعد کو چار ہزار فوج کا دستہ دیکر امام حسین کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔ ماہ محرم ۶۱ھ کے پہلے ہفتہ میں حضرت امام حسین قادسیہ سے تین میل دور قیام فرمایا عمر بن سعد نےایک آدمی بھیجا تاکہ لشکر ک لیے مناسب جگہ تلاش کرے۔ اس نے امام حسین کو دیکھ کر کہا کہ اے مسلمانوں کے امام آپ کہاں جارہے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ کوفہ جارہا ہوں۔ اس نے کہا آپ واپس چلے ج ائیں عمر بن سعد چار ہزار فوج لے کر آپ کے ساتھ لڑنے کیلئے آرہا ہے۔ امام موصوف وہاں سے کوچ کر کے دشتِ کربلا میں پہنچے۔ اُدھر اہل کوفہ امام حسین سے بیوفائی کر کے عمر بن سعد کے ساتھ مل گئے اور باہمی اتفاق سے دریائے فرات کا پانی رسول اللہﷺ کے اہل بیت پر بند کردیا۔ تاکہ پیاس کے مارے ہلاک ہوجائیں۔ ایکہفتہ گفت و شنید میں گزر گیا۔
شہادت
آخر دسویں ماہ محرم۶۱ھ بوقت صبح بروز جمعہ جنگ کا آگاز ہوا۔ اور امام حسین اپنے تمام بھائیوں اور بیٹوں سمیت پیاسے لڑائی م یں مشگول ہوگئے اور شام کے وقت امام موصوف نے پانچ بھائیوں، تین بیٹوں اور اسی۸۰، دیگر افراد سمیت جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کا سر کاٹ کر یزید کے پاس لے گئے۔ شواہد النبوت میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ جس وقت ابن زیاد کے حکم سے امام حسین کا سر نیزہ پر چڑھاکر کوفہ کے بازاروں میں پھرارہے تھے تو میں ایک چو بارہ میں بیٹھا تھا۔ جب آپ کا سر مبارک میرے نزدیک پہنچا تو سر یہ آیت پڑھ رہا تھا۔ ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانو امن اٰیاتنا عجبا۔ اس کی ہیبت سے میرے جسم کے بال کھڑے ہوگئےاور میں نے فریاد کی واللہ! ابن رسولﷺ یہ کیا راز ہے اور کیا معاملہ ہے جو آپ کے ساتھ ہورہا ہے شہادت کے وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون ۵۸سال اور دوری روایت کے مطابق ستاون۵۷سالتین ماہ اور دو دن تھی۔ آپ کے چار صاحبزدے اور دو صاحبزادیاں تھیں۔ ‘‘مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ تمام شہداء تین دنتک میدان کربلا م یں پڑے رہے۔ اس کے بعد قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے آکر حضرت امام حسین کو دفن کیا اور علی اکبر ابن امام حسین کو ان کے پاؤں کی طرف دفن کیا۔ باقی شہداء کو انہوں نے یکجا کر کے دفن کردیا۔ حضرت عباس ابن علی امام حسین کی زندگی میں چند ساعت پہلے بہادری کے جوہر دکھا کر شہید ہوچکےتھے۔ انکو قادسیہ کے راستے پر علیحدہ دفن کیا تھا۔ جب حضرت عباسشہید ہوگئے تو امام حسین نے فرمایا کہ اب مجھے زندگی کی ضرورت نہیں ہے۔ غرضیکہ تمام اہل بیت یکبار رحلت کرگئے۔ صرف امام زین العابدین بن امام حسین جو خیمہ میں بیمار پڑ سے تھے زندہ بچ گئے اور خلافت وامامت کی امانت ان کے سپرد ہوئی۔ حضرت علی کے فرزندان میں سے محمدﷺ بن حنفیہ اور عمر زندہ بچ گئے۔ کیونکہ وہ حضرت امام حسین کے ساتھ موجود نہ تھے۔ امام حسین کی شہادت کےبعد ۴؍ربیع الآخر۶۴ھ کو یزید بن معاویہ شراب سے بدمست ہوکر محل کیچھت پر رقص کر رہا تھا کہ نیچے گر گیا جس سے اس کےدماغ پر چوٹ آئی اور پاگل ہوگیا بعض کہتےہیں اُسی حالت میںشکار کےلیے جارہا تھا کہ گھوڑے سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ یزید سال ۲۲ھ یا ۲۶ھ میں پیدا ہوا تھا اسنےتین سال اور آٹھ مہینے حکومت کی مرنے کےبعد قصبہ خوارزم (نزد دمشق) میں دفن ہوا۔
یزید کےعہد حکومت میں حضرت عبداللہ عمر نے مکہ میں وفات پائی۔
(اقتباس الانوار)