حضرت سیدنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیِّدُناحافظ ابو عمر بن عبدالبَر علیہ رحمۃاللہ الاکبر نے اپنی کتاب""الاَ نْسَاب"" میں تحریر فرمایاہے کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک بن اَنَس بن ابی عامر اَصْبَحِیْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینۃالرسول عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے امام ہیں ۔یہیں سے حق ظاہر اور غالب ہوا۔ یہیں سے دین کی ابتداہوئی اور اسے شہرت ملی۔یہیں سے شہر فتح کئے گئے اور مسلسل مدد ملی۔ امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ""عالِمِ مدینہ"" کہا جاتاہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم کی شہرت ہر طرف پھیلی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اکتسابِ علم کے لئے لوگوں نے دور دراز کے سفر طے کئے۔ (سیر اعلام النبلاء، الرقم۱۱۸0، مالک الامام،ج۷،ص۳۸۸،مفھوماً)
فتاویٰ نویسی:
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سترہ (17)برس کی عمر میں تدریسِ علم کی مسند پر تشریف فرما ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسا تذہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مسائل کے حل کے لئے آتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریباً نوے (90)سال کی عمر پائی اور ستر سال تک فتویٰ نویسی فرمائی اور لوگوں کو علم سکھاتے رہے۔
جلیل ُ القدر تابعینِ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فقہ اور حدیث کا علم حاصل کرتے رہے۔ مشہور ائمۂ حدیث اور علماء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے احادیث روایت کیں۔ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: ""(۱)۔۔۔۔۔۔امامُ السنہ حضرت سیِّدُنا محمد بن شہاب زُہری (۲)۔۔۔۔۔۔فقیہہ اہلِ مدینہ، حضرت سیِّدُناربیعہ بن عبدالرحمن (۳)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنایحیی بن سعید انصاری اور(۴)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیِّدُناموسیٰ بن عقبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ یہ تمام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اساتذہ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام ہیں اور ان سب نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے احادیث روایت کیں۔(سیر اعلام النبلاء، الرقم۱۱۸0، مالک الامام،ج۷،ص۳۸۵،مفصلًا)""
عالِمِ مدینہ کون ہيں؟
تابعین و تبع تابعین علیہم ر حمۃاللہ المبین فرماتے ہیں کہ امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الرازق وہ عالم ہیں جن کی بشارت حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دی تھی۔ چنانچہ، حضرت سیِّدُنا امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب ""جَامِعِ تِرْمِذِی"" میں حدیث شریف نقل فرماتے ہیں: ""علم منقطع ہو جائے گاتوعالِمِ مدینہ سے زیادہ علم والا باقی نہ رہے گا۔(جامع الترمذی،ابواب العلم، باب ماجاء فی عالم المدینۃ،الحدیث۲۶۸0،ص۱۹۲۲،مختصرًا)""
دوسری حدیث ِ پاک میں ہے: ""دُنیامیں اس (عالِمِ مدینہ) سے بڑھ کر کوئی عالم نہ ہو گا، لوگ اس کی طرف سفر کر کے آئیں گے۔(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،الفصل الاول فی ترجیحہ من طریق النقل،ج۱،ص۱۸)""
ایک حدیثِ پاک میں یوں ہے: ""عنقریب لوگ (علم کے لئے )سفر کریں گے توعالِمِ مدینہ سے زیادہ علم والا کوئی نہ پائیں گے۔(المستدرک ،کتاب العلم ، باب یوشک الناس ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۳۱۴ ، ج۱ ،ص ۲۸0)""
حضرت سیِّدُناابن ِ عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ فرماتے ہیں: "" محدثینِ کرام کے نزدیک ""عالمِ مدینہ "" سے مراد حضرت سیِّدُنا امام مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (التمھید لابن عبد البر،زیدبن رباح،تحت الحدیث۱۲۲،ج۲،ص۶۷۴)""
حضرت سیِّدُنا عبد الرزّاق رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ""ہماری رائے یہ ہے کہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کوئی بھی ""عالمِ مدینہ "" کے نام سے معروف نہیں۔ لوگوں نے حصولِ علم کے لئے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف جتنا سفر کیا اتنا کسی کی طرف نہیں کیا۔"" آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ""میں افتاء اور حدیث کے لئے اس وقت تک مسند نشین نہ ہوا جب تک کہ ستر (70) علماءِ کرام ومشائخِ عظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے میری اہلیت کی گواہی نہ دے دی۔(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،باب فی ابتداء ظھورہ فی العلم وقعودہ للفتوی والتعلیم،ج۱،ص۳۴)""
حضرت سیِّدُناحماد بن زید علیہ رحمۃاللہ الواحد کی خدمت میں ایک شخص کوئی مسئلہ پوچھنے آیا جس میں لوگوں کا اختلاف تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:""اے بھائی ! اگر تو اپنے دین کی سلامتی چاہتا ہے تو عالِمِ مدینہ سے پوچھ اور ان کی بات توجہ سے سن کیونکہ وہ حجت (یعنی دلیل ) ہیں اور لوگوں کے امام ہیں۔ (المرجع السابق،ص۳۷)""
حضرت سیِّدُنا حماد بن سلمہ علیہ رحمۃاللہ ارشاد فرماتے ہیں :""اگر مجھے کہا جائے کہ امتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے کوئی امام اختیار کروجس سے لوگ علمِ دین حاصل کریں تو میں حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس کا حق دار اور اہل سمجھتا ہوں۔ اور میری یہ رائے امت کی بہتری کے لئے ہے۔""(المرجع السابق،ص۳۶)
حضرت سیِّدُنا لیث بن سعد علیہ رحمۃاللہ الاحد فرماتے ہیں: ""حضرت سیِّدُنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم پرہیزگاری کا علم ہے اور اس کے لئے حفظ وامان کا باعث ہے جو اسے حاصل کرے۔(ترتیب المدارک وتقریب المسالک، باب شھادۃ السلف الصالح واھل العلم لہ بالامامۃ فی العلم،ج ۱،ص۳۶)""
حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن قاسم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرمایاکرتے تھے: ""میں اپنے دین میں دو آدمیوں کی پیروی کرتاہوں: عمل میں حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور تقویٰ میں حضرت سیِّدُنا سلیمان بن قاسم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی۔"" (حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس،الحدیث۸۸۷۸،ج۶،ص۳۵0)