حضرت شیخ محمد اسماعیل مدرس عرف میاں وڈا سہروردی
حضرت شیخ محمد اسماعیل مدرس عرف میاں وڈا سہروردی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محمد اسمٰعیل مدرس عرف میاں وڈا سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ابتدائی حالات
آپ کا اصلی نام حافظ محمد اسماعیل تھا والد کا اسم گرامی فتح اللہ اور دادا کا نام عبد اللہ ولد سرفراز خاں تھا، قوم کے کھو کھر تھے، از موضع تڑ گڑ علاقہ پوٹھو ہار میں ۹۹۵ھ بمطابق ۱۵۸۶ء میں پیدا ہوئے، بچپن میں ہی آپ کے والدین ترک سکونت کرکے دریائے چنا ب کے پاس موضع لنگر میں اقامت گزین ہوگئے تھے،ابتدائی تعلیم مخدوم عبد الکریم سے حاصل کی جو ایک متشرع فاضل اور عارف کا مل تھے،آپ کے چار بھائی تھے،۱حضرت میاں اسماعیل۲میاں محمد طفیل۳محمد ابراہیم۴محمد حسین۔
خزینتھ الا صفیا جلد دوم صفحہ ۱۰۵ پر آپ کے متعلق لکھا ہے،از بزرگان دین و مشائخ اہل یقین صاحب مقامات بلند و کرامات ار جمند صاحب تدریس قرآنی جامع علوم ہمہ دانی بو دو در سلسلہ عالیہ سہرور دیہ مریدو شاگر دو شیخ عبد الکریم است۔
آپ علم فقہ میں بڑی دستر س رکھتے تھے اور علمی مسائل نہایت خوبی سے بیان فرماتے تھے، مرشدی شجرہ اس طرح ہے حضرت محمد اسماعیل مرید مخدوم عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ مرید طیب رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ مخدوم برہان الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ مرید چنن رحمتہ اللہ علیہ کے ، وہ شیخ میلون رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شیخ حسان الدین متقی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ سید شاہ عالم رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ سید برہان الدین قطب رحمتہ اللہ علیہ کے ، وہ سید ناصر الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ سید جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شیخ حسام الدین ابو الفتح ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شیخ صد ر الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ صد ر الدین عارف ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے۔
لاہور میں آمد
۴۵سال کی عمر میں آپ لاہور تشریف لائے تو چالیس دن مخدوم سید علی ہجو یری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر اعتکاف کے بعد محلہ تیلی واڑہ یا تیل پورہ میں قیام فرمایا اور ایک مدرسہ قائم کیا جس نے آہستہ آہستہ ایک عظیم مدرسہ کی حثییت اختیار کرلی جہاں پر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی، ۱۰۰۸ھ بمطابق ۱۵۹۹ء میں آپ نے یہاں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی، اور نگزیب عالمگیر نے اخر اجات مدرسہ کےلیئے سات چاہ بمعہ اراضی مز روعہ عنایت کیئے، تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ آپ تنتا لیس سال کی عمر میں لاہور تشریف لائے تھے اور جہاں آپ نے رہائش اختیار کی وہاں گورستان تیلیاں تھا جو آج کل بھی موجود ہے، آپ کے مزار اقدس کی چار دیواری کے باہر کھٹیوں میں ایک روضہ سید محمود ہے،وہ اس وقت یہاں موجود تھے انہوں نے ہی آپ کو تلقین کی تھی کہ لاہور مقیم ہونے سے قبل حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر انو ار پر چالیس دن اعتکاف کرو چنانچہ آپ نے ویسا ہی کیا اور تسکین کلی حاصل کی، حضرت سید محمود رحمتہ اللہ علیہ اس زمانہ میں اس محلہ کے رئیس تھے،نجابت اور تقویٰ میں اپنا خاص مقام رکھتے تھے۔
شاہجہان بادشاہ کو آپ سے بے حد عقیدت و ارادت تھی اور اس نے آپ کے درس اور مسجد کےلیئے خاصی زمین بھی عطا کی،شاہی خز انہ سے سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔اس کی وفات کے بعد عالمگیر نے بھی درس کےلیئے سات آباد کنوئیں مخصوص کرائے اور طلباء کےلیئے ہوسٹل تعمیر کرائے جہاں سے ان کھانا بھی ملتا تھا، اس بادشاہ نے آپ کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا تھا۔
برکت قرآن پاک
قرآن پاک سے آپ کا عشق کمال درجہ کا تھا۔فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میری قبر پر سے درخت کے پتےکھائے گا اس کو قرآن مجید حفظ کرنے میں آسانی ہوگی،چنا نچہ دور دراز مقامات سے لوگ قرآن مجید کا فیضان حاصل کرنے کےلیئے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔جس پر بھی آپ کی نظر ہوجاتی وہ حافظ قرآن ہوجاتا، غریب اور نا بینا افراد کےلیئے بھی حفظ قرآن کا انتظام تھا، فرمایا کرتے تھے کہ ہماری وفات کے بعد بھی قرآن پاک کا فیضان ہماری قبرسے جاری رہے گا، چنا نچہ آنجناب کی وفات کے بعد حافظ شیخ محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ متوفی ۱۷۲۹ء پچپن سال تک، حافظ محمود بیالیس سال تک، متوفی ۱۷۷۹ء حافظ معز الدین رحمتہ اللہ علیہ پینتیس سال تک متوفی ۱۸۰۶ ء اور حافظ شرف الدین ساٹھ سال تک درس کلام پاک دیتے رہے، حافظ شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ۱۸۰۳ء میں ہوئی، ان کے بعد حافظ احمد دین نے گدی سنبھالی اور ۱۸۸۸ء کو وصال فرمایا، ان کے بعد حاجی حافظ غلام محمد صاحب نے مسند سجادہ نشین کو زینت دی جنہوں نے ۱۸۹۴ء میں وصال فرمایا اور جانشین حافظ محمد شفیع ہوئے جنہوں نے سوانح عمری میاں وڈا صاحب رحمتہ اللہ علیہ تصنیف کی۔
سکھ گردی اور خانقاہ و مدرسہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے زمانہ میں اس خا نقاہ کی بہت عزت کرتا تھا،نذ رانہ پیش کرتا تھا، مگر اس کے مرنے پر اس کی اولاد نے خا نقاہ کی عزت نہ کی،تاریخوں میں مذ کور ہے کہ ۱۸۰۴ء میں جب راجہ گلاب سنگھ والی جموں و کشمیر کے بھائی راجہ سو چیت سنگھ اور لاہور کی خالصہ فوجوں کے درمیان خانقاہ میاں وڈا رحمتہ اللہ علیہ کے مقام پر زبر دست جنگ ہوئی تھی جس میں راجہ سو چیت سنگھ قتل ہو گیا۔
یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے راج میں جب کہ راجہ ہیرا سنگھ وزارت عظمیٰ پر فائز سو چیت سنگھ جموں سے آکر یہاں ٹھہرا، حافظ شرف دین مدرس اعلیٰ نے بہت زور لگایا کہ سکھ فوج یہاں قیام نہ کرے مگر وہ نہ مانے چنا نچہ لاہور کی خالصہ فوج نے راجہ ہیرا سنگھ کے حکم کے مطابق حملہ کردیا اور وہ مارا گیا،خانقاہ کی دیو اریں توپو ں کے گولوں سے تباہ و برباد ہوگئیں نیز خانقاہ کے بہت سے درویش بھی مارے گئے۔کتب خانہ جس میں ہزار ہا نادر و نایاب کتب تھیں جو جل کر خاکستر ہوگئیں، انگریزوں کے عہد میں اس خانقاہ کا کچھ حال درست ہوا، میاں محمد سلطان ٹھیکیدار نے اس خانقاہ کےلیئے رکھ جلو کی زمین سے کچھ حصہ اس خانقاہ کےلیئے وقف کیا تھا جس کی آمدنی سے مدرسہ کے اخراجات پورے ہوتے تھے، ایک صدی قبل اس جگہ تقریباً دو سو فقرا رہتے تھے جن کو یہاں خو راک وغیرہ دی جاتی تھی،نیز نا بینا مسلمانوں کو قرآن مجید حفظ کرایا جاتا تھا۔
خلفاء
شیخ جان محمد سہروردی ،شیخ نور محمد سہروردی،مولوی جان محمد لاہوری سہروردی،شیخ تیمور لاہوزی،حافظ اللہ بخش،حافظ عبداللہ،شیخ محمد ہاشم اخوند،محمد عثمان ،حافظ محمد فاضل،شیخ عبدالکریم قصوری،حافظ محمد حسین اعوان،شیخ عبدا لحمید اخواند،محمد عمر،حافظ محمد خو شابی،امانت خاں، حافظ محمد حسین وغیرہ تھے۔
اولاد
آپ کے ایک بھائی حافظ محمد حسین کی قبر بی بی پاک دامنا ں کے قبرستان میں بتائی جاتی ہے مگر سوانح عمری حضرت میاں وڈا رحمتہ اللہ علیہ میں لکھا ہے کہ دونوں حضرات حافظ محمد حسین اور حافظ محمد خلیل کی قبور جتیا ضلع سیالکو ٹ میں ہیں چونکہ آپ اور آپ کے تین بھائی تمام عمر مجرد رہے اس لیئے ان کی کوئی اولاد نہ تھی،دوسرے بھائی حافظ محمد ابراہیم کی قبر حضرت میاں اسماعیل صاحب کے مزار کے پاس ہی ہے۔
وفات
۱۰۸۵ھ بمطابق ۱۶۷۴ء میں بہ عمر نوے سال بعہد عالمگیر وفات پائی۔
مقبرہ
چاردیوا ری جوکہ خانقاہ بھی کہلاتی ہے میں آنجناب کا مزار عالی ہے جس پر گنبد نہیں ہے، گرد و نواح میں قبرستان ہے،ساتھ ہی ایک مسجد ہے اور سجادہ نشیناں کے مکانات بھی، چبو ترے پر جو قبور ہیں ان میں خام قبر حضرت حافظ محمد اسماعیل کی ہے اور باقی تین آپ کے خلفا ء شیخ جان محمد، شیخ نور محمد اور حافظ محمد صالح کی ہیں، مسجد کے ایک طرف سائیں محمد دین کا مزار ہے جس پر گنبد بنا ہوا ہے، ۱۹۶۰ء میں اس درس کو محکمہ اوقاف نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔
مکمل فہرست سجادہ نشینان حضرت میاں وڈا سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اس طرح ہے:
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)