شاہ کمال سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
بقول مصنف،تاریخ لاہور،آپ سا دات حسینی سے تعلق رکھتے تھے اور سہرور دیہ خاندان میں صاحب کرامات بزرگ تھے،مولانا نور احمد خان فریدی اپنے ایک مضمون،شاہ کمال کا شمیری آسمان سہروردیہ کا ایک تا بند ہ ستا رہ، میں لکھتے ہیں کہ آپ ککرا بیگ سہرور دی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے، وہ شاہ شرف رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ شاہ معروف رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ شیخ جعفر الدین رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ شیخ فہیم الدین رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ حضرت جمال خند اں رو رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ اچوی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شیخ الا سلام حضرت صد را لدین عارف کے اور وہ حضرت خواجہ بہاء الحق سہروردی ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
سلسلہ درس و تدریس
حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ بحثییت ایک صوفی کے اتنے معروف نہیں تھے جتنے کہ آپ تعلیم و تدریس کے میدان میں مشہور ہیں، آپ کی علمیت اور قابلیت کا ایک زمانہ معتر ف ہے، عالم کے حثییت سے آپ لاہور کے چوٹی کے علماء میں شمار ہوتے تھے اور زندگی بھر اسی شغل میں گز ارا۔آپ کے بیشما ر شاگرد تھے مگر جو عالمی شہرت اور عظمت آپ کے تین عظیم المرتبت شاگر دوں کو نصیب ہوئی وہ بے مثال ہے،آپ کے پہلے شاگرد حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ ہیں جن کو مقفقہ طور پر گیا رھویں صدی کا مجدد تسلیم کیا گیا ہے نیز آپ کی تالیفا ت کوایک خاص مقام حاصل ہے،سر زمین پاک وہند اورا فغا نستان وغیرہ میں آپ کے لاکھوں مرید ہیں، آپ کے دوسرے شاگرد حضرت علامہ عبد الحکیم سیا لکوٹی رحمتہ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے علم منطق ، فلسفہ اور علم کلام میں ایک امتیازی اور منفرد حثییت حاصل کی تھی، شہنشاہ اکبر اور جہا نگیر کے عہد حکومت میں آپ مغیلہ حکومت کے سب سے بڑے مدرسہ کے صد ر الصد ور تھے، نیز آپ کو جاگیر بھی عطا ہوئی ،عہد شا ہجہانی میں سیا لکوٹ میں آپ کے زیر اہمتام ایک اسلام یو نیو رسٹیقائم ہوئی جس میں بیرون ہند کے طالب علم منطق، فقہ اور کلام کی تعلیم حاصل کرنے کےلیئے آتے تھے۔آپ نے ان مضا مین کی قدیم کتب پر ایسے حاشیے تحریر فرمائے کہ تمام اسلامی ممالک کے مدارس میں ان کو مستند سمجھ کر ان کو داخل نصاب کیا گیا ہے۔
آنجناب کے تیسرے شاگرد علامہ نواب سعد اللہ خان وزیر اعظم شاہجہان تھے، علم و فضل اور تد برو سیاست آپ کا جو پایہ تھا وہ کسی طرح بھی نظام الملک طوسی،خواجہ جہاں احمد بن عباس،خواجہ محمود گا واں وغیرہ سے کم نہیں ہے، یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ علامہ عبدا لحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ سعد اللہ خان رحمتہ اللہ علیہ اوائیل عمر میں لاہور برا
ئے تحصیل علوم آئے تھے۔
آپ کا مقبرہ،راواں،میں جو ایک چھو ٹا سا قصبہ جو رحمان پورہ اچھر ہ کے نزدیک ہے ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے ارد گرد سبز ہ زار ہے۔
وفات:
۱۶۶۹ء بمطابق ۱۰۸۰ھ عہد شا ہجہان میں بمقام لاہور ہوئی اور قصبہ راواں میں دفن ہوئے‘ جہاں بقول مصنف ’’ تاریخ لاہور‘‘ آپ کا مقبرہ ہشت پہلو چبوترہ پر بنا ہوا ہے ’’راواں‘‘ لاہور کی قدیم ترین آبادی ہے جس کو راجہ راما چندر کے لڑکے اچھو جس نے اچھرہ بسایا تھا ان کے سالہ راؤنے اپنے نام پے آباد کیا تھا۔ اب صرف یہاں مزار اقدس ہی ہے مقبرہ کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)