خواجہ عبد الخالق
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1270 | ||
یوم وصال | 1350 | محرم الحرام | 12 |
خواجہ عبد الخالق (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ عبد الخالق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت با سعادت:
آپ ۱۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے، قریباً تین سال کے تھے کہ آپ کے والد بزرگوار حضرت خواجہ شمس العرفاں قدس سرہ نے شہادت پائی۔ اُن کے چہلم پر حضرت حاجی محمد قدس سرہ نے آپ کے سر مبارک پر دستار خلافت باندھ کر سجادہ نشین مقرر کیا۔ اور حضرت شمس العرفان کے مرید ان کامل میں سے خلفائے نامدار امام بخش راہوانی، بلاقی شاہ، عالم شاہ، بیگے شاہ او رنور احمد کی بھی دستار بندی کی اور فرمایا کہ یہ پانچوں وزیر اور عبدالخالق بادشاہ ہے۔ اس گدی کو سنبھالو۔
تحصیل علم:
جب آپ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو درویش آ پ کو تحصیل علم کے لیے سائیں نیک محمد کے پاس جہانخیلاں میں لے جاتے۔ اور رخصت کے وقت لے آتے۔ کچھ عرصۃ کے بعد آپ کو مولوی پیر محمد صاحب ساکن بنگہ کے سپرد کردیا گیا۔ مولوی صاحب بڑی محبت سے پیش آتے تھے مگر اُن کی والدہ کا سلوک اچھا نہ تھا۔ اس لیے مولوی صاحب نے آپ کو اپنے پیر بھائی محمد بخش سب انسپکٹر پولیس کے حوالہ کردیا۔ آپ ان کی زیر نگرانی بنگہ میں تعلیم پاتے رہے۔ پھر حضرت قطب زماں خواجہ توکل شاہ انبالوی قدس سرہ آپ کو انبالہ لے گئے اور وہاں دینیات پڑھواتے رہے۔ بعد ازاں آپ علم حدیث پڑھنے کے لیے سہارنپور میں مولانا احمد علی صاحب محدث کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا احمد حسن صاحب کانپوری اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی آپ کے ہم سبق تھے۔ اس کے بعد آپ نے دہلی میں مولوی کریم محمد صاحب اور مولوی سعید احمد صاحب سے تکمیل دینیات کی۔
علوم باطنی کا حصول:
علم باطن کی تحصیل کے لیے آپ متعدد جگہ حاضر ہوئے، آخرکار حضرت شیخ احمد صاحب بخاری قادری سے خاندان قادریہ میں بیعت ہوئے۔ حضرت شیخ نے آپ کو خلافت سے مشرف فرمایا۔ حضرت شیخ کا مزار مبارک رسولپور ضلع بارہ بنکی میں ہے۔ اس کے بعد آپ نے خاندان نقشبندیہ میں حضرت حاجی حافظ محمود صاحب جالندھری سے بیعت کی اور اجازت ارشاد پاکر اپنے وطن میں قیام کیا اور اشاعت طریقہ نقشبند میں سرگرم رہے۔
قوم راجپوت میں بیوگان کا نکاح ثانی جائز نہ سمجھا جاتا تھا۔ جب آپ کی عمر ۳۷ سال کی ہوئی تو آپ نے اس سنت کے احیاء میں نہایت کوشش کی۔ بہت سی تکالیف کا سامنا ہوا، مگر آپ کے پائے ثبات میں تزلزل نہ آیا اور آخر کار کامیاب ہوئے۔
آپ یتیم رہ چکے تھے اور بفحوائے شعر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ ؎
مرا باشد از دردِ طفلاں خبر
کہ در خردی از سر برفتم پدر
یتیم خانہ اور مدرسہ کی تعمیر:
یتیموں کے حالات سے خوب واقف تھے۔ اس لیے آپ نے کوٹ عبدالخالق میں ۱۳۲۲ھ میں ایک یتیم خانہ کی بنا رکھی۔ اور یتامیٰ و مساکین کی تعلیم کے لیے جون ۱۹۰۵ء مین مدرسہ تعلیم القرآن جاری کیا۔ اور حافظ محمد یعقوب کو مدرس مقرر کیا۔ پہلے دن پانچ یتیم داخل مدرسہ ہوئے۔ بعد ازاں دو سال تک کوئی اور طالب علم داخل نہ ہوا، مخالفین کہنے لگے کہ بچوں کو قرآن پڑھا کر ان کی عمریں ضائع کرنا ہے۔ اس لیے آپ نے ۱۹۰۷ء میں اسی مدرسہ کو پرائمری کے درجہ تک قائم کرکے دینیات کو لازم قرار دیا۔ اور مدرسہ کا انتطام اور روپیہ پیسہ کا حساب کتاب ایک انجمن خالقیہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور انجمن کو باضابطہ رجسٹر کرادیا گیا۔ یہ ابتدائی مدرسہ پرائمری سے مڈل اور مڈل سے انٹرینس تک ترقی کرگیا۔ اور آخر پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوگیا۔ اس اسکول میں اول سے آخر تک رائج الوقت نصاب کے علاوہ تعلیم دینیات لازم قرار دی گئی ہے۔
وصال مبارک:
اخیرعمر میں آپ بواسیر وغیرہ امراض متعددہ میں مبتلا رہا کرتے تھے۔ بتاریخ ۱۲ محرم الحرام بروز جمعہ ۱۳۵۰ھ مطابق ۵ جون ۱۹۳۱ء آپ نے شہر انبالہ میں ایک مکان کی چھت پر وضو کرکے فجر کی سنتیں پڑھیں۔ فرضوں کی جماعت ہونے لگی، مولوی رحیم الدین میرٹھی پیش امام تھے۔ حضرت صاحب، خلیفہ عبدالرزاق، سید دین علی شاہ اور مولوی سراج الدین بنگالی مقتدی تھے۔ جب دوسری رکعت کے آخری سجدے میں گئے چھت یکایک گر پڑی۔ حضرت صاحب شہید ہوگئے۔ اور باقی زخمی ہوگئے۔ ادائے نماز جنازہ کے بعد نعش مبارک تابوت میں رکھ کر لاری میں کوٹ عبدالخالق میں لائی گئی۔ اور بتاریخ ۱۹ محرم الحرام ۱۳۵۰ھ بروز یک شنبہ دو بارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو دفن کردیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کی کرامات و ملفوظات و اوراد و شبانہ روزی اور آپ کے خلفاء کے حالات کے لیے سیرت خالقیہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
(مشائخ نقشبند)