حضرت خواجہ محمود الخیر فغنوی فغنوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ
الخیر فغنہ نزد بخارا (۶۲۷ھ/ ۱۲۳۰ء۔۔۔ ۷۱۷ھ/ ۱۲۱۷ء) وابکنہ نزد بخارا
قطعۂ تاریخِ وصال
جانشین تھے وہ خواجہ عارف کے تھے نگاہوں میں سب کی اے صاؔبر
|
|
مرد ہشیار اور شب بیدار ’’خواجہ محمود مہر و ماہِ وقار‘‘ ۱۳۱۷ء
|
(صاؔبر براری،کراچی)
آپ حضرت خواجہ عارف ریوگری رحمۃ اللہ علیہ کے تمام اصحاب میں افضل و اکمل اور خلافت سے ممتاز تھے آپ کی ولادت ۱۸؍شوال ۶۲۷ھ مطابق ۱۲۳۰ء میں موضع الخیر فغنہ نزد وابکنہ (بخارا سے چند میل دور) میں ہوئی۔ ذریعۂ معاش گلکاری (نقاشی، بیل بوٹے کا کام) تھا۔ جب آپ کو اجازتِ ارشاد مل گئی تو آپ نے مصلحتاً اور بتقاضائے وقت ذکر جہر شروع کیا کیونکہ حضرت خواجہ عارف ریوگری رحمہ اللہ نے آخری وقت فرمایا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جس کی طرف ہمیں اشارہ ہوا تھا کہ طالبوں کو بربنائے مصلحت ذکر جہر اختیار کرنا پڑے گا۔
مولانا حافظ الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ (جو اس وقت کے بہت بڑے عالم اور خواجہ محمد پارسا قدس سرہ کے جدِّ اعلیٰ تھے) نے رئیس العلماء شمس الآئمہ حلوانی کے اشارے سے علماء عصر کی ایک جماعت کے رو برو حضرت خواجہ محمود رحمہ اللہ سے سوال کیا تھا کہ آپ ذکر جہر کس نیت سے کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تاکہ سویا ہوا بیدار اور غفلت سے ہشیار ہوجائے۔ راہِ راست پر آجائے اور شریعت و طریقت پر استقامت حاصل کرے اور توبہ و انابت (خدا کی طرف رجوع، انکساری و عاجزی) کی طرف رغبت کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ کی نیت درست ہے اور آپ کے لیے یہ شغل جائز ہے لیکن ذکر جہر کی ایک حد مقرر کردیجیے کہ جس سے حقیقت مجاز سے اور بیگانہ، آشنا سے ممتاز ہوجائے۔ اس پر حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ذکر جہر اس شخص کے لیے جائز ہے کہ جس کی زبان جھوٹ اور غیبت سے پاک ہو، جس کا حلق حرام و شبہ سے،دل ریا وسمعہ سے اور باطن توجہ بماسوا سے پاک ہو۔
حضرت خواجہ علی رامتینی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ محمود قدس سرہ کے وقت ایک درویش نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا اور اُن سے پوچھا کہ اس زمانے مین مشائخ میں سے ایسا کون ہے جو طریقِ استقامت پر ثابت قدم ہوتا کہ اس کا مرید بن کر اُس کی پیروی کروں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ حضرت خواجہ محمود الخیر فغنوی۔ خواجہ رامتینی کے بعض اصحاب نے کہا کہ وہ درویش سائل خود خواجہ رامتینی تھے مگر اپنا نام اس وجہ سے نہ لیا کہ یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے۔
آپ صاحبِ کرامت بزرگ تھے جن کی کرامتیں زبان زدِ عام تھیں۔ بطور تبرک ایک کرامت درج ذیل ہے:
ایک روز حضرت خواجہ علی رامتینی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ محمود الخیر فغنوی کے باقی اصحاب کے ساتھ موضع رامتین میں مشغولِ ذکر تھے۔ کیا دیکھتے ہین کہ ایک بہت بڑا سفید پرندہ اُن کے اوپر اڑا چلا آتا ہے۔ جب وہ پرندہ اُن کے عین سرپر آیا تو بزبانِ فصیح بولا ’’اے علی مرد بن اور اپنے کام میں مشغول رہ‘‘۔ یہ بات سن کر تمام اہل مجلس پر ایک کیفیت طاری ہوگئی اور بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو حضرت خواجہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ وہ حضرت خواجہ محمود فغنوی قدس سرہٗ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ طاقت اور قوت بخشی ہے کہ وہ جس مخلوق کے قالب میں چاہیں متشکل ہوجائیں اور وہ ہمیشہ اس مقام پر پرواز جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے کئی ہزار کلمات فرمائے۔ اُس وقت خواجہ و ہتقان قلتی رحمۃ اللہ علیہ بروایتِ دیگر خواجہ دہقان قلبی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ اول خواجہ اولیائے کبیر رحمۃ اللہ علیہ) کا وقتِ آخر تھا۔ انہوں نے دعا کی تھی یا اللہ! میرے اس آخری وقت میری مدد کے لیے اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج تاکہ اُس کی برکت سے اپنا ایمان سلامت لے جاؤں، چنانچہ بادشاہِ ربانی حضرت خواجہ محمود فغنوی کی روح مبارک خواجہ وہقان کے پاس پہنچی تھی۔ ان کا خاتمہ بالخیر ہوگیا اور اب واپس تشریف لے گئے ہیں چونکہ اُنہیں میرے حال پر فرط محبت و عنایت تھی لہٰذا اس راہ سے گزرتے ہوئے مجھ پر کرم فرمایا۔
واضح رہے کہ حیاتِ دنیوی میں بعض بندگان خدا کو غائیتِ صفا و لطافت سے بغائیت ایزدی اس بات پر قدرت ہوتی ہے کہ جسمِ ظاہری کی قید کے باوجود مختلف بدن تبدیل کرسکیں چونکہ موت کے بعد جبکہ یہ قید رفع ہوجاتی ہے اور طائرِ روح اس قفس سے آزاد ہوجاتا ہے لہٰذا وہدوسرے بدن میں تبدیل ہونے پر بطریق اولیٰ قادر ہیں۔ اسے بروز کہتے ہیں۔ بروز و تناسخ میں فرق ہے۔ اہل تناسخ عموم و لزوم کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی روح نفیس ہو یا خسیس، مسلمان ہو یا کافر، انسان ہو یا حیوان کسی بدن سے جدا نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی دوسرا بدن اُس کے واسطے تیار نہ ہوتا کہ پہلے بدن سے نکلتے ہی دوسرے میں چلی جائے۔ بخلاف اہل بروز کے کہ اُن کے نزدیک نہ عموم ہے نہ لزوم یعنی اس طائفہ کے نزدیک یہ کاملین سے خاص ہے اور وہ بھی برجلیل لزوم نہیں۔ کیونکہ موت کے بعد کبھی مصلحت کی بنا پر دوسرے بدن میں ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ بدن اصلی دینوی کی مثل ہو یا نہ ہو اور صورتِ بشری میں ہو یا نہ ہو۔ اور پھر اتمامِ مطلوب کے بعد پس پردہ غائب ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ بروز و تناسخ میں فرق نہیں کرتے وہ اولیائے کرام پر بے جا اعتراض اور طعن و تشنیع کرتے ہیں ؎
تاچند کنی ببادہ نوشاں انکار رندے کہ بود ز بادۂ عرفاں مست
|
|
انکار ممکن کہ نیست نیکو ایں کار زنہار برو طعنہ مکن صد ز نہار
|
آپ کی وفات ۱۷؍ربیع الاول ۷۱۷ھ مطابق ۱۳۱۷ء کو ہوئی۔ مزار اقدس واہکنہ (نزد بخارا) میں ہے۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ محمود انجیر فغنوی قدس سرہ
افضل و اکمل:
آپ خواجہ عارف قدس سرہ کے تمام اصحاب میں افضل و اکمل اور خلافت سے ممتاز تھے آپ کا مقام ولادت موضع انجیر فغنہ ہے جو علاقہ بخارا میں وابکنہ [۱] کا ایک گاؤں ہے۔ آپ وابکنہ میں رہا کرتے تھے۔ وجہ معاش گل کاری تھی۔ جب آپ کو اجازت ِارشاد مل گئی تو آپ نے بنابر مصلحت و مقتضائے حال طلاب پوشیدہ نہ رہے کہ حیات دنیوی میں بعضے بندگان خدا کو غایت صفا و لطافت سے بعنایات ایزدی اس بات پر قدرت ہوتی ہے کہ باوجود بعد ظاہری کی قید کے مختلف بدن کسب کرسکیں۔ پس موت کے بعد جبکہ یہ قید رفع ہوجاتی ہے اور طائر روح اس قفس سے آزاد ہوجاتا ہے وہ دوسرے بدن کے کسب پر بطریق اولےٰ قادر ہیں۔ اسے بروز کہتے ہیں۔
[۱۔ وابکنہ ایک قصبہ ہے جو چند قریات و مزارح پر شامل ہے اور شہر بخارا سے تین فرسنگ کے فاصلہ پر واقع ہے۔]
بروزا ور تناسخ میں فرق:
بروزا و رتناسخ میں فرق ہے۔ اہلِ تناسخ عموم و لزوم کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی روح نفیس ہو یا خسیس۔مسلمان ہو یا کافر۔ انسان ہو یا حیوان کسی بدن سے جدا نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی دوسرا بدن اس کے واسطے تیار نہ ہو۔ تاکہ پہلے بدن سے نکلتے ہی دوسرے میں چلی جائے۔ بخلاف اہل بروز کے کہ ان کے نزدیک نہ عموم ہے نہ لزوم۔ یعنی اس طائفہ کے نزدیک یہ کاملین سے خاص ہے۔ اور وہ بھی بر سبیل لزوم نہیں۔ کیونکہ موت کے بعد کبھی بنابر مصلحت دوسرے بدن میں ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ بدن اصلی دنیوی کی مثل ہو یا نہ ہو اور صورت بشری میں ہو یا نہ ہو اور پھر اتمام ِمطلوب کے بعد پس پردہ سے غائب ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ بروز و تناسخ میں فرق نہیں کرتے وہ اولیائے کرام پر بیجا اعتراض و طعن کرتے ہیں۔
تا چند کئی ببادہ نوشاں انکار
انکار مکن کہ نیست نیکو ایں کار
رندے کہ بود زبادۂ عرفاں مست
زنہار بروطعنہ مکن صد زنہار
وصال مُبارک:
حضرت خواجہ محمود قدس سرہ کا سنہ وفات بعضوں نے ۱۷ ربیع الاول ۷۱۷ھ لکھا ہے۔آپ کا مزار مبارک وابکنہ میں ہے۔ (رشحات۔ روائح)
//php } ?>