حضرت شیخ احمد چشتی اور ان کے بھائی خواجہ اسماعیل چشتی علیہ الرحمۃما
شیخ احمد چشتی ابو احمد ابدال کے سوا اور شخص ہیں کیونکہ وہ ان سے پہلے ہیں ،شیخ الاسلام نےان کو نہ دیکھا تھا اور خواجہ احمد بن مودود کے بھی غیر ہیں کیونکہ وہ ان کہ پیچھے ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلام کو انہوں نے نہیں دیکھا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو زیادہ قوی ملامت کے طریق اور پورا احمد چشتی سے نہیں دیکھا۔چشتی سارے ایسے ہی تھے۔کلفت سے بے باک اور باطن میں جہان کے سردار۔تین دفعہ جنگل میں گئے تھےاور پھر لوٹے۔کیونکہ اپنے درمیان اس میں اخلاص نہ دیکھا تھا۔یہ تمام حالات میں اخلاص اور ترک ریا کے ساتھ رہتے تھے۔شرع میں کسی قسمکی سستی جائز نہ رکھتے تھے۔زیادہ کاہلی کا تو کیا ذکر شیخ احمد نجار وغیرہ کو دیکھا تھا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ احمد چشتی بزرگ تھے۔اور میری تعظیم اور اس قدر کرتے کہ کسی اور کی نہ کرتے تھے۔سب سے پہلے وہ شخص جس نے اپنے بال میرے پاؤں پر ملے ہی تھے۔آپ شیخ ابو نصر طالقانی کی زیارت کے لیے گئےتھےاور یہ بیت ان سے سنا تھا۔
وزیماکت ندانستم ہمے پنداشتم دائم ازیں پندار گونا گون ازیں دانش پشیمانم
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو برادر احمد چشتی کی طرح دیدار اور فراست میں نہیں پایا۔وہ میری خدمت کرتے تھے۔بڑے عزت کرتے تھے۔قہندز میں مجلس کرتا تھا۔میرے سا معین میں سے ایک شخص تھا جو ان کی صحبت میں رہا کرتا تھااور میری باتیں ان سے کہا کرتا وہ کہتے تھےکہ یہ تمہارا دانشمند ہمارے کوشہ میں سے رہے۔خدا جانتا ہے اس بات سے میرے سر میں کیا طمع ہےاس کی وہ ات میری مایہ ہے۔ اس کے بعد مجھے دعوت دی اور اپنی تمام دنیا مجھ پر نثار کر دی اس کے بعد ہم سردی اور موسم برف میں نبازان میں گئے۔وہ مجھ کو لے گیااور وہی سے ہمارے کام میں تھے۔ابو نصر سوہان گر یارانے چشتی سے ہے۔وہ بڑا داناتھاجب کہ ہم نبازان مین گئے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔اطراف کے ۶۲مشائخ وہاں جمع ہو گئے تھے۔چالیس سے کچھ اوپر دن تک میں ان کو وعض کہتا رہااور علم حقیقت کی تشریح و توضیح پہلے وہاں سے شروع ہوئی۔ان میں سے کوئی شخص میرے برابر نہ چلا لیکن سب صاحبان ولایت و کرامت و فراست تھے۔ جب تک یہ لوگ زندہ تھے کوئی ترکمان خراسان میں نہ آیا۔
(نفحاتُ الاُنس)