حضرت خواجا بہاری الباری
حضرت خواجا بہاری الباری (تذکرہ / سوانح)
حضرت میاں میر جلیل القدر مرید و خلیفہ تھے۔ فقہ، حدیث اور تفسیرِ قرآن کے جیّد عالم ہونے کے علاوہ واقفِ اسرارِ ربانی بھی تھے۔ شہر حاجی پورہ میں مقیم تھے جو قصبہ گواپور(بہار) میں واقع تھا۔ آپ چھوٹی عمر ہی میں علم حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن سے نکلے۔ کچھ مدت تک قصبہ کورا میں شیخ جمال اولیاء کے پاس رہے، ان سے فیض حاصل کر کے لاہور آئے اور ملّا فضل لاہوری سے علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔ ملّا اپنے ہو نہار شاگرد سے اس قدر خوش تھے کہ انہیں اپنے گھر ہی میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان ایّام میں حضرت شیخ میاں میر کا باطنی فیض عام تھا۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علومِ باطنی کی تکمیل کی۔ وفاتِ مرشد کے بعد مرجع خلائق تھے۔ آپ نے تمام عمر ہدایتِ خلق اور درس و تدریس میں گزاری۔ آپ کامدرسہ دہلی دروازے کے اندر واقع تھا۔ جو بہت مشہور تھا۔ نواب سعداللہ خاں اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔ کسبِ علوم کے لیے دور دور سے طلبہ آکر فیض یاب ہوتے تھے۔ فقر و استغنا میں درجۂ بلند رکھتے تھے۔ چنانچہ شاہ جہان ایک دفعہ آپ کی ملاقات کے لیے آیا۔ آپ یہ خبر سن کر وہاں سے چل دئیے۔ جب آپ سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا: میں اپنا اطمینانِ قلب کھونا نہیں چاہتا تھا۔ ایک فقیر کو بادشاہوں کی ملاقات سے کیا سرو کار۔ جلالتِ علمی کے ساتھ صاحبِ خوراق و کرامت بھی تھے۔ محمد دارا شکوہ سفینہ الاولیاء میں لکھتا ہے کہ ایک رات آپ غازی خاں نامی شخص کے ہاں عرس کی تقریب میں شامل تھے اور حاضرین میں توحید کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ گھر کے صحن میں آگ جل رہی تھی۔ خواجہ بہاری اپنی جگہ سے اٹھ کر آگ میں جا بیٹھے۔ ایک گھڑی تک اس میں رہے اور فرمایا: توحید میں قیل و قال کی کیا ضرورت ہے۔ حال ملاحظہ کرو۔ یہ کہہ کر صحیح و سالم آگ سے باہر نکل آئے۔ سفینۃ الاولیاء میں مرقوم ہے کہ جن ایام میں خواجہ بہاری ملا محمد فاضل لاہوری کے ہاں سکونت پذیر تھے تو ایک دن ملا صاحب کی بیوی خواجہ صاحب کے لیے آش کا بھرا پیالہ لے کر حجر کے دروازے پر پہنچیں، دیکھا کہ خواجہ نے کسی کو قتل کردیا ہے اعضا ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں۔ موصوفہ نے جونہی یہ دیکھا تو فریاد کرنا شروع کردی۔ اور شوہر کے پاس آکر تمام واقعہ بیان کیا۔ ملّا اسی وقت موقع پر پہنچے، دیکھا کہ خواجہ بہاری سر جھکائے ہوئے مراقبہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ واپس آکر اہلیہ سے کہا۔ اولیاء اللہ کے کئی احوال و مقامات ہوتے ہیں۔ جو تم نے دیکھا ہے اس پر اظہار تعجب کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور شخص اپنے بیٹے کو خواجہ صاحب کی خدمت میں لایا۔ اس کے جسم پر برص کے سفید داغ تھے۔ آپ نے فرمایا: کسی حکیم سے علاج نہ کراؤ، اس کا علاج میں کروں گا۔ چنانچہ آپ ہر روز ایک داغ پر انگلی رکھتے اور وہ مٹ جاتا۔ حتیّٰ کہ آپ کی انگشت مبارک کے اثر سے تما م داغ دُور ہو گئے اور لڑکا درست ہو گیا۔ دارا شکوہ رقم طراز ہے کہ ۱۰۵۱ھ میں مرزا آصف بیگ والیٔ ایران نے قندھار کی تسخیر کا ارادہ کیا۔ میں نے اس کا ذکر حضرت خواجہ بہاری سے کیا۔ آپ نے فرمایا: اس کی کیا مجال کہ تمہاری مملکت پر دست درازی کر سکے۔ اِن شاءاللہ مارا جائے گا۔ چنانچہ ایک مہینے کے بعد خبر آئی کہ مرزا مذکور کو اس کے دشمنوں نے زہر دے کر ہلاک کردیا ہے۔
دارا شکوہ لکھتا ہے: ایک روز آپ شالامار باغ کی سیر کو گئے۔ وہاں دو تین مرتبہ فرمایا: وہ مجھے طلب نہیں کرتے۔ اگر وہ طلب کریں تو مجھے مرشد کی قبر کے پاس دفن کرنا۔ ۱۰۶۰ھ میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخِ وفات:
بہاری چوں بجنت رخت بربست |
|
زونیا جست یکسر برکناری |