حضرت خواجہ فخر الدین روزی
حضرت خواجہ فخر الدین روزی (تذکرہ / سوانح)
آپ سلطان الاولیاء کے مصاحبان خاص میں سے تھے بڑے متقی اور پرہیزگار تھے قرآن پاک کی کتابت کرتے عام لوگوں سے علیحدہ رہتے اور رجال الغیب آپ کی مجالس میں آیا کرتے تھے۔
ایک دن آپ نے حضرت محبوب الٰہی دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں عرض کی کہ ایک دن مجھے سخت پیاس لگی مجھے غائب سے ایک کوزہ آتا نظر آیا، میں نے اسے توڑ ڈالا اور سارا پانی زمین پر گر گیا اور کہا میں کرامت سے درآمد شدہ پانی نہیں پیوں گا، حضرت شیخ نے سن کر فرمایا پی لینا چاہیے تھا یہ غیب سے تھا، بے عیب تھا میں نے بھی ایک بار کنگھی کرنا چاہی مگر میرے پاس اپنی کنگھی نہ تھی دیوار پھٹی ایک شخص ظاہر ہوا اس کے ہاتھ میں کنگھی تھی پکڑ کر میں نے کنگھی کرلی، ایک بار میں وضو کر رہا تھا میں نے چاہا کہ داڑھی کو کنگھی کروں میری کنگھی خانقاہ کے اندر طاق میں پڑی ہوئی تھی وہ کنگھی اپنے طور پر اڑتی اڑتی میرے ہاتھ میں آپہنچی میں نے پکڑی اور کنگھی کرلی۔
شیخ فخرالدین ہر روز قرآن پاک کےجزو (سپارے) کی کتابت کرتے، اور لوگوں کو دے کر اُجرت لیتے لوگ خوشی سے آپ کو چھ آنے دے دیا کرتے تھے مگر آپ صرف چار آنے لیتے اور اپنے اخراجات کی کفالت کرتے۔ جب آپ بوڑھے ہوگئے نظر کمزور ہوگئی، کتابت کرنے سے معذور ہوگئے، ملک التجار حمیدالدین نے سلطان علاء الدین خلجی سے سفارش کی، بادشاہ نے روزانہ ایک روپیہ مال غنیمت سے وظیفہ مقرر کردیا، مگر آپ نے قبول نہ کیا اورکہا مجھے تو صرف چار آنے ہی چاہیے اور یہی میں قرآن کریم کی کتابت سے حاصل کیا کرتا تھا۔ بادشاہ نے بڑا اصرار کیا مگر آپ نے بڑی مشکل سے بارہ آنہ یومیہ قبول کیا۔
یہ جامع الکمالات شخصیت ۷۳۶ھ کو سلطان محمد عادل تغلق بن غیاث الدین کے عہد حکومت میں فوت ہوئی۔
فخر روزی چوں شد بخلد بریں
وصل شد با وصال رحمانی
سال وصلش بگو خلیل اللہ
۳۷۶ھ
ہم براں شاہ زیب عرفانی
۳۷۶ھ
حضرت مولانافخرالدین مروزی دربحریقین ہیں۔آپ بادشاہ عالم رازہیں۔مخلوق میں ممتازہیں۔
نام:
آپ کانام فخرالدین ہے۔
تعلیم وتربیت:
آپ علوم ظاہری کی تکمیل سےفراغت پاکرعلوم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔آپ نے قرآن مجید حفظ کیا۔علم تفسیر،حدیث اورفقہ حاصل کیا۔
ارادت:
آپ حضرت محبوب الٰہی کےحلقہ ارادت میں شامل ہوئےاورآخری عمرمیں غیاث پورمیں سکونت اختیارکی۔آپ کوحضرت محبوب الٰہی سےبےحد محبت اورعقیدت تھی۔غیاث پورمیں رہ کر حضرت محبوب الٰہی کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے۔
حضرت محبوب الٰہی کامکتوب:
حضرت محبوب الٰہی نےآپ کوایک خط میں محبت رب العالمین کے مضمرات ومتعلقات سےآگاہ فرمایاتھا۔حضرت محبوب الٰہی تحریرفرماتے ہیں کہ۔
"اتفاق اصحاب طریقت وارباب حقیقت است کہ اہم مطلوب است واعظم مقصود،زخلقت بشر محبت رب العالمین است وآں برودنوع است محبت ذات و محبت صفات،محبت ذات ازمواہب است و محبت صفات ازمکاسب۔ہرچہ ازمواہب است کسب وعمل وبندہ راہداں تعلقےنیست وہرچہ از مکاسب است ہست وطریق اکتساب محبت ودام ذکراست مع تخلیہ القلب عماسواہ دایں رافراغ شرکا است وفراغ کاچہارچیزاست مانع۔ہرچہ مانع شرط است مانع مشروط است خلق ودنیاونفس وشیطان طریق دقع خلق عزلت وآں نزداست وطریق دفع دنیاقناعت است و طریق دفع نفس و شیطاں التجاکردن بحق ساقہ فساعتہ"۔
ترجمہ:اصحاب طریقت وارباب حقیقت کااس بات پراتفاق ہے کہ اہم مطلوب ہےواعظم مقصود، خلقت بشرسےمحبت رب العالمین ہےاوروہ دوطرح سےہے۔محبت ذات اورمحبت صفات،محبت ذات مواہب سےہےاورمحبت صفات مکاسب سےہے۔جومواہب سےہے،اس کوبندے کے کسب وعمل سےکوئی تعلق نہیں اورجومکاسب سےہے،وہ اور محبت حاصل کرنےکاطریقہ ودام ذکر ہے، مع تخلیہ القلب عماسواہ اوراسکےلئےفراغ کی ضرورت ہےاورفراغ کےلئےچارچیزیں مانع ہیں، جومانع ہیں،جومانع شرط ہےمانع مشروط ہے،خلق اوردنیااورنفس اورشیطان۔خلق کودفع کرنے کاطریقہ عزلت ہےاوروہ قرب ہےاوردنیاکودفع کرنےکاطریقہ خداوندتعالیٰ سےالتجاکرنا ہے۔
سیرت مبارک:
آپ قرآن مجیدکےحافظ تھے۔قرآن مجیدکی کتابت کرکےگزارہ کرتےتھے،نہایت بردبار،متوکل اورقانع تھے۔ترک وتجریدمیں خوشی پاتے تھے۔جمال ورع اورکمال تقویٰ سےآراستہ تھے۔ صاحب کرامت تھے۔آپ کی مردان غیب سے ملاقات تھی۔
وفات شریف:
آپ نے۷۳۶ھ میں وصال فرمایا۔آپ کامزارپاک دہلی میں حضرت محبوب الٰہی کی درگاہ کے اندر چبوترۂ یاراں میں واقع ہے۔
کرامات:
ایک مرتبہ کاواقع ہے کہ آپ کوپیاس لگی۔کوئی پاس نہیں تھاکہ جس سے پانی منگاتے۔اتنے میں کیا
دیکھتےہیں کہ ایک پیالہ پانی سےبھراہوانمودارہوا۔آپ نے اس پیالے کوتوڑ دیااورکہاکہ کرامت کا پانی نہیں پیئں گے۔جب آپ نے حضرت محبوب الٰہی سے اس کاذکرکیا،حضرت محبوب الٰہی نے فرمایاکہ وہ پانی پیناچاہیےتھا۔۱؎
ایک اورمرتبہ کاواقع ہے کہ آپ کوکنگھی کی ضرورت ہوئی۔لیکن آپ کےپاس کوئی نہ تھاکہ کنگھی لاکردے۔اتنےمیں کیادیکھتے ہیں کہ دیوار میں سے ایک کنگھی برآمدہوئی،آپ نےوہ کنگھی لی اور کرلی۔۲؎
حواشی
۱؎سیرالاولیاءص۲۹۹،۲۹۸
۲؎سیرالاولیاءص۲۹۹،۲۹۸
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
آپ قرآن کریم کے حافظ اور نہایت ہی متقی اور پرہیزگار تھے، آپ کا بہترین مشغلہ قرآن کریم کی کتابت تھا اور مخلوق سے جدا رہ کر تنہائی کی زندگی بسر کرنے کے خوگر تھے خواجہ نظام الدین کے صحبت یافتہ اور مرید تھے آپ کی مردان غیب سے بھی ملاقات رہتی تھی۔
آپ نے ایک بار خواجہ نظام الدین اولیاء سے عرض کیا کہ ایک مرتبہ مجھے شدید پیاس لگی اور میرے پاس اس وقت کوئی آدمی بھی موجود نہ تھا کہ اس سے پانی منگواتا اسی اثناء میں غیب سے بھرا ہوا پانی کا ایک پیالہ میرے پاس آگیا، میں نے وہ پیالہ توڑ دیا اور پانی گر گیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ کرامت سے آیا پانی میں نہیں پیوں گا، یہ سن کر خواجہ نظام الدین نے فرمایا کہ پی لینا چاہیے کیونکہ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا رہتا ہے، پھر ایک مرتبہ کہا کہ میں ایک دفعہ کنگھا کرنا چاہتا تھا، مگر اس وقت بھی میرے پاس کوئی آدمی نہ تھا جو کنگھا لے آتا چنانچہ اسی وقت ایک دیوار پھٹی اور اس کے اندر ایک کنگھا نظر آیا میں نے اسے اٹھالیا اور اپنے بال دُرست کیے۔
شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی سے منقول ہے کہ مولانا فخرالدین مروزی جو کچھ کتابت کرتے اس کی اجرت لوگوں سے مقرر کراتے، جب لوگ کہتے کہ ایک جزو کی کتابت کی اُجرت چھ آنے ہوتی ہے تو آپ فرماتے ہیں چھ چیتل (ایک قسم کا سکہ ہے) لوں گا، اس سے زیادہ نہیں لوں گا اور اگر کوئی چار پیسے بطور تبرک زیادہ دے گا تو اسے بھی ہرگز قبول نہ کروں گا۔ جب بوڑھے ہوگئے تو آپ نے کتابت ترک فرمادی تھی، اس وقت کے ایک بڑے تاجر قاضی حمیدالدین کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے سلطان علاؤالدین خلجی سے کہا کہ مولانا فخرالدین مروزی یہاں کے ایک بہت بڑے ولی اللہ اور بزرگ ہیں ان کا گزر بسر کتابت پر موقوف تھا اور اب انہوں نے بڑھاپے کی وجہ سے اسے ترک کردیا ہے اس لیے بیت المال سے ان کا کچھ وظیفہ مقرر کردیا جائے تو بہت ہی مناسب ہوگا چنانچہ سلطان علاؤ الدین نے روزانہ ایک درہم وظیفہ مقرر کردیا، جب آپ کو ایک درہم پہنچایا گیا تو آپ نے فرمایا میں اسے قبول نہیں کرتا مجھے تو وہی چھ آنے دو، غرض یہ کہ بڑی منت و سماجت کے بعد آپ نے بارہ آنے لینے قبول فرمائے، خواجہ نظام الدین اولیاء نے اپنے ہاتھ سے خود آپ کو ایک خط لکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کیا ہے اس میں یہ بات تھی کہ اہل طریقت و حقیقت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کا بڑا اور عظیم مقصد اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا اور پالینا ہے اور اس محبت کی دو قسمیں ہیں، اولاً۔ محبت ذاتی جو قدرت کا عطیہ ہے، ثانیاً۔ محبت صفاتی، جو کسی اور اکتسابی ہے اس میں عطیہ قدرت کو کوئی دخل نہیں، اور عطیہ قدرت سے کسب کو کوئی تعلق نہیں کیونکہ کردار و عمل کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ للہ کے ذکر کو ہمیشہ کرتے رہنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیراللہ کو اپنے قلب و جگر سے نکال دے اور غیراللہ کے تصور سے فارغ رہے، نیز غیراللہ سے فارغ رہنے کے لیے بھی چار چیزوں سے دور رہنا شرط ہے کیونکہ جو چیز شرط میں رکاوٹ ڈالتی ہے وہ مشروط میں بھی مانع اور آڑے بن جاتی ہے، اور وہ چار چیزیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔ مخلوق، دنیا، خواہشات، نفسانیہ، شیطان۔
مخلوق سے دور رہنے کی ترکیب یہ ہے کہ گوشہ نشینی اور عزلت کو اختیار کرے، دنیا سے دور رہنے کا طریقہ قناعت و صبر ہے اور نفسانی خواہشات اور شیطان سے بچنے کی سبیل ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مصروف رہنا اور اس سے التجا اور دعا کرتے رہنا ہے۔ والسلام اور مشہور یہ ہے کہ شیطان سے بچنے کے لیے ذکر اللہ اور نفس سے بچنے کے لیے اللہ کے حضور التجا ہے۔
اخبار الاخیار