حضرت خواجہ فریدالدین مسعود
حضرت خواجہ فریدالدین مسعود (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اور خواجہ اجمیری سے فیض یافتہ تھے، آپ کا شمار اکابر اولیاء کرام میں سے ہے۔ ریاضت، مجاہدہ، فقر اور ترکِ دنیا آپ کے محبوب ترین مشغلے تھے آپ کشف و کرامت کی علامت اور ذوقِ محبت کی درخشندہ نشانی تھے ہمیشہ سر و خفی کی جانب کوچ فرماتے رہتے، آخر کار ر اجودھن (موجودہ پاکپتن تشریف لائے، یہاں کے باشندے تند خو، ظاہر پرست اور خاص کر فقیروں اور درویشوں کے دشمن تھے، آپ نے اس جگہ پہنچ کر فرمایا کہ یہ مقام میرے رہنے کے مناسب ہے چنانچہ وہیں رہنے لگے، آپ کا یہاں پر کوئی پُرسانِ حال نہ تھا قصبہ کے باہر کریر کے درخت تھے ان میں سے ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے، یہاں کی مسجد میں اکثر و بیشتر نماز پڑھتے اور عبادت کرتے، یہیں آپ کے فرزند پیدا ہوئے اور یہیں آپ نے فاقے کیے اور یہیں مجاہدے اور ریاضت کی صعوبتوں کو برداش کرتے رہے چونکہ زبردست روحانیت کے مالک تھے اس لیے پوشیدہ نہ رہ سکے۔
حکایت: آپ جو لباس پہنا کرتے تھے وہ بوسیدہ ہوکر تار تار ہوگیا ایک شخص آپ کی خدمت میں ایک نیا کُرتہ لایا آپ نے وہ کُرتہ زیب تن فرمایا ا ورپھر فوراً ہی اتار کر شیخ نجیب الدین المتوکل کو دیدیا اور فرمایا کہ جو لطف اور سرور مجھے اس پرانے کُرتے میں ہے وہ نئے کُرتے میں نہیں آتا۔
اگر پیوند ملبوس پیمبر کے نظر آتے
ترا اے حلہ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا
(ذوقِ نعت)
روزہ افطار کرنے کا طریقہ: حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا معمول تھا کہ وہ اکثر و بیشتر شربت سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے ، اسی عادت کے موافق جب افطار کا وقت ہوتا تو آپ کے سامنے ایک شربت کا گلاس جس میں منقیٰ کے دانے ہوتے پیش کیا جاتا جس میں سے آدھا بلکہ دو تہائی تو حاضرین مجلس میں تقسیم فرمادیتے اور باقی خود نوش فرماتے اور بعض دفعہ اس میں سے بھی کچھ کسی طلب گار کو دیا کرتے تھے پھر دو روغنی روٹیاں آپ کے سامنے پیش کی جاتی تھیں جن میں سے ایک ٹکڑا نوش فرماکر باقی حاجرین مجلس میں تقسیم کردیتے اس کے بعد دستر خوان پر مختلف الاقسام کے کھانے چنے جاتے جو تمام لوگ کھاتے اور آپ دوسرا دن افطار تک کچھ تناول نہ فرماتے سوتے وقت اسی کمبل کو جس پر دن کو بیٹھا کرتے تھے بچھونا بنالیتے اور یہ کمبل اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے بچھونے پر لیٹتے وقت آپ کے پاؤں اس سے باہر ہی رہتے تھے۔
ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرے
ہے خزانہ بھرا ہوا تیرا
(ذوقِ نعت)
حکایت: حضرت نظام الدین اولیا فرمایا کرتے تھے کہ شیخ فرید الدین گنج شکر اکثرو بیشتر زنبیل میں پکی روٹی کھایا کرتے تھے اور افطار کے وقت زنبیل میں سے ایک دو ٹکڑے لازماً آپ کے سامنے لائے جاتے تھے، شیخ فریدالدین محمود کا بیان ہے کہ میں نے ایک بڑی مدت تک شیخ فرید الدین گنج شکر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زنبیل گردانی کی ہے اور اور نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضری دیتے وقت کئی مرتبہ کہا ہے کہ ہم جس رات شیخ گنج شکر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں دلیہ یا کریر کے پھول پیٹ بھر کر کھالیتے اس دن ہماری عید ہوجاتی اور جو ہم سے بچتا وہ ہمارا ایک دوست چن لیتا جسے دوسرے سب لوگ کھالیتے تھے البتہ جب دلیہ یا کریر کے پھول وغیرہ نہ ہوتے تو ہم زنبیل گردانی کرتے، نیز شیخ فریدالدین محمود رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت نظام الدین اولیاء کے ہاں بھی کئی سال تک زنبیل گردانی کی ہے اور ان تمام حضرات نے یہی معمولی سی غذا کھاکر اتنے اعلیٰ اور بلند ترین مقامات حاصل کیے ہیں۔
کھانے میں خیانت کی بو:
شیخ فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نوکر ایک دن ایک پیسے کا نمک ادھار لے کر آیا جب اس نے کھانا پکاکر شیخ کے پاس بھیجا تو آپ کو باطنی نور کے ذریعہ معلوم ہوا تو نوکر سے فرمایا کہ اس کھانے سے خیانت کی بُو آ رہی ہے میرے لیے یہ کھانا جائز نہیں (چنانچہ وہ کھانا واپس کردیا)۔
عالم حال کا ایک واقعہ:
ایک مرتبہ آپ کی زوجہ نے آپ سے آکر عرض کیا کہ ایک لڑکا بہت سخت بیمار ہے اور بھوک کی شدت سے مر رہا ہے، شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سر اٹھا کر جواب دیا کہ مسعود کیا کرے اگر موت آجائے اور بھوک سے مرجائے اور دنیا سے سفر کرجائے تو اس کے پاؤں میں رسی باندھ کر باہر پھینک دو۔
پتھر شکر بن گئے:
شیخ فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب مجاہدہ کرنا چاہا تو اس سلسلے میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کیا آپ نے فرمایا طے کا روزہ رکھو (طے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس میں افطار صرف پانی سے کرتے ہیں اور کم از کم تین دن کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال، اس طرح روزہ رکھنا صوفیائے کرام کے ہاں عام ہے اور اکابر علمائے اسلام میں بھی بعض حضرات رمضان میں افطار صرف چائے وغیرہ سے کرنے کے بعد اور کچھ نہیں کھایا کرتے تھے چنانچہ شیخ گنج شکر نے طے کے روزے رکھنے شروع کردیے اور تین روز تک کچھ نہ کھایا، تیسرے روز افطار کے وقت ایک آدمی نے آپ کے سامنے چند روٹیاں لاکر رکھیں۔ آپ سمجھے کے غیب سے آئی ہیں اور انہیں روٹیوں سے افطار کیا لیکن پیٹ نے انھیں قبول نہیں کیا اور کھایا پیا تمام باہر آگیا، آپ نے یہ واقعہ اپنے پیرو و مرشد سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اے مسعود! تم نے تین روز روزہ رکھنے کے بعد ایک شرابی کا کھانا کھایا لیکن اللہ کی عنایت نے تمہاری دستگیری فرمائی کہ تمہارے معدے میں اس غذا کو رہنے نہ دیا، اب جاؤ اور پھرتین دن طے کا روزہ رکھو اور غیب سے جو کچھ ملے اس کو کھاکر گزر کرو چنانچہ شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھر تین دن طے کا روزہ رکھا اور شام کو کوئی کھانا میسر نہ ہوا، یہاں تک کہ رات کا ایک پہر گزر گیا اور کمزوری بڑھ گئی بھوک کی وجہ سے بدن جلنے لگا، اس عالمِ بیتابی میں آپ نے ہاتھ بڑھا کر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈالے تو وہ شکر ہوگئے آپ کو فوراً خیال آیا کہ ہوسکتا ہے یہ بھی شیطانی کرشمہ ہو اس لیے ان سنگریزوں کو تھوک دیا، اور پھر یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے جب آدھی رات گزر ہوگئی تو کمزوری پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی آپ نے پھر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈال لیے وہ پھر شکر بن گئے آپ نے انہیں بھی تھوک دیا، آپ نے تین مرتبہ اس طرح کیا اور ہر مرتبہ یہی کرامت ظاہر ہوتی رہی تو یقین ہوا کہ یہ نعمت خداوندی ہے، اس لیے انہیں کھالیا، پھر دوسرے روز خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں حاضری دی پیرو مرشد نے فرمایا کہ اچھا کیا جو پتھروں سے افطار کیا وہ غیب سے آئے تھے اب جاؤ شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہو گے اس دن سے شیخ فرید الدین مسعود کو لوگ گنج شکر کہتے ہیں اور سیر الاولیاء میں بھی یہی واقعہ لکھاہے۔
شکر نمک بن گئی:
آپ کے گنج شکر ہونے کی وجہ تسمیہ کا ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ کچھ سودا گر شکر لے کر جا رہے تھے شیخ فرید نے ان سے کچھ شکر مانگی، انہوں نے کہا شیخ آپ کو مغالطہ ہوا ہمارے اونٹوں پر شکر نہیں بلکہ نمک ہے، شیخ نے فرمایا نمک ہی ہوگا، سوداگروں نے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کے بعد جب مال کھولا تو وہ واقعی نمک ہی تھا، وہ دوڑے دوڑے شیخ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے کہ واقعتاً ہم سے غلطی ہوئی آپ اسے معاف فرمائیں اور دعا کریں کہ وہ شکر ہوجائے آپ نے فرمایا کہ شکر ہوجائے گا (چنانچہ وہ نمک پھر سے شکر ہوگیا)۔
خانخاناں نواب محمد بیرم خاں بڑے صاحب جاہ و جلال اور مراتبِ علیا پر فائز ہونے کے باوجود فقیروں اور درویشوں سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے، امرِخداوندی کی تعظیم کے پیش نظر مخلوقِ خدا پر مہربانی اور شفقت کے کامل مجسمہ اور پیکر تھے، وہ دنیا کی زندگی نیک بختی سے گزار گئے اور دنیا سے شہادت کی موت گئے کے مصداق تھے وہ (اس واقعہ شکر و نمک کے بارے میں فرماتے تھے۔
کانِ نمک جہان شکر شیخ بحرو بر
آں کز شکر نمک کندواز نمک شکر
(نمک کی کان، شکر کا خزینہ، بحرو بر کا شیخ وہ ہے جس نے شکر کو نمک اور نمک کو شکر بنادیا)۔
رباعی
کان نمک د گنج شکر شیخ فرید
کز گنج شکر کان نمک کرد پدید
در کان نمک کرو نظر گشت شکر
شیریں ترازیں کر امتے کس نشنید
ترجمہ: نمک اور شکر کا خزانہ شیخ فرید ہیں جنہوں نے شکر کے خزانے کو نمک کی کان سے تبدیل کردیا اور نمک کی کان کو ایک ہی نظر میں شکر بنادیا اس سے زیادہ بہتر کرامتیں کسی اور کسی سننے میں نہیں آئیں۔ غرض یہ کہ شکر کو نمک اور نمک کو شکر بنانے کے بعد۔
کنویں والا واقعہ:
آپ نے مقام ’’اُچہ‘‘ مین جاج کی جامع مسجد میں معوس کھینچا، چالیس دن تک اس طرح عبادت کی کہ روزانہ رات کے وقت اس درخت کے سہارے جو کنویں کے کنارے پر ہے اپنے کو کنویں میں لٹکا دیتے اور صبح کو باہر نکل آتے (اس طرح کی شریعت میں کوئی عبادت نہیں البتہ بعض بزرگان ملت اپنے نفس کو اس طرح سزا دے کر اس کا محاسبہ کرتے تھے۔
حضرت شیخ نظام الدین اولیا فرماتے ہیں کہ ایک مشہور عقل مند اور فلسفی جس کا نام ضیاء الدین تھا اور جو منارہ کے نیچے پڑھایا کرتا تھا ان کی زبانی میں نے خود سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں خواجہ فریدالدین شکر گنج کے پاس گیا میں ظاہری شریعت کے علوم کے علاوہ کچھ نہ جانتا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ اگر شیخ نے ظاہری علوم کے علاوہ کچھ اور پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا، میں ابھی اسی خیال میں تھا کہ شیخ نے مجھ سے پوچھا تنقیح مناط کیا ہے؟ (تنقیح مناط کے معنی ہیں بے خودی کے اسباب جس کو اہل تصوف کی اصطلاح میں وجد و حال کہتے ہیں) چونکہ تنقیح مناط علم خلاف کا ایک خاص مسئلہ ہے، شیخ کے اس مسئلہ پوچھنے سے مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے اس مسئلہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا اور اس کے نفی و اثبات کے ہر پہلو کو اجاگر کیا۔ بابا فریدالدین گنج شکر نے اپنی زندگی کے انسٹھ برس پورے کرکے 5محرم الحرام 665ھ میں وفات پائی۔
نماز کی اَہمیت بابا صاحب کے ہاں!
پانچ محرم کی رات آپ پر مرض کی شدت طاری ہوئی با جماعت عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد بے ہوش ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش میں آئے تو حاضرین سے پوچھا کہ کیا میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے لوگوں نے کہا جی ہاں! آپ نے فرمایا، ایک مرتبہ اور پڑھ لوں پھر کون جانے کیا ہوگا، چنانچہ آپ نے دوسری مرتبہ پھر عشاء کی نماز پڑھی، اور اس کے بعد پھر بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش آیا تو پوچھا، کیا میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ آپ اس سے پہلے دوبارہ پڑھ چکے ہیں، آپ نے فرمایا ایک مرتبہ اور پڑھ لوں پھر معلوم کیا ہو، غرض یہ کہ آپ نے تیسری بار بھی عشاء کی نماز پڑھی اورنماز پڑھنے کے بعد ’’یاحی یا قیوم‘‘ کہتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
حضرت شیخ گنج شکر کے بعض ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ملے ہیں جن میں لکھا ہوا ہے کہ چار چیزوں کے بارے میں سات سو مشائخ سے سوال کیا گیا تو سب نے ایک ہی جواب دیا۔
1۔ گناہوں کو چھوڑ دینے والا ہی سب سے زیادہ عقل مند ہے۔
2۔ دانا اور حکیم آدمی وہ ہے جو کسی چیز پر غرور نہیں کرتا۔
3۔ قناعت کرنے والا ہی سب سے زیادہ مالدار اور غنی ہے۔
4۔ تارک قناعت ہی سب سے زیادہ محتاج اور غریب ہے۔
نیز لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس آدمی سے حیا آتی ہے جو بندہ اللہ کے دربار میں دست سوال دراز کرے اور وہ اسے خالی واپس کردے۔ فرماتے ہیں، ہونے کا غم نہیں اور نہ ہونے کا افسوس نہیں، نامرادی اور مایوسی کا دن دراصل مردان خدا کی معراج ہے، لوگوں کی سرد کلامی کی وجہ سے اپنی سرگرمی نہیں چھوڑنی چاہیے۔
پہلے تولو پھر بولو:
شیخ جلال الدین رومی فرمایا کرتے تھے کہ باتوں کا دل پر اثر ہوتا ہے اس لیے اولاً ہر بات کے اول و آخر کو خوب جانچو اور پرکھو، اگر وہ کام اور بات اللہ کے لیے ہے تو بات کرو ورنہ خاموش رہو، فقیر جب کوئی نیا کپڑا پہنے تو وہ یہ سمجھے کہ اس نے کفن پہن لیا ہے، تم جیسے (اندر میں) ہو ویسے (باہر میں) نظر آؤ، ورنہ تمہاری اصل اور حقیقت خود بخود ظاہر ہوجائے گی، اچھے اور پاکیزہ جذبات و نظریات ثقلین کی عبادت سے بہتر ہیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص لوگوں کی عیب جوئی سے کنارہ کش اور علیحدہ رہا وہ نیک بخت اور خوش قسمت ہے اور صوفی کسی چیز کو مکدر اور خراب نہیں کرتا، بلکہ وہ ہر چیز کو مانجھ کر صاف اور منقیٰ کرتا ہے، تم اگر بزرگ ہو بڑا بننے کی خواہش رکھتے ہو تو حاکموں کی طرف توجہ نہ کرو بلکہ ان سے علیحدگی اختیار کرو اور یہ رباعی بھی انہیں کی ہے۔
رباعی
دو شینہ شیم دل حزنیم بگرفت
و اندیشہ یار ناز نینم بگرفت
گفتم بہ سرد دیدہ روم بردر تو
اشکم بدوید آستینم بگرفت
ترجمہ: (کل رات میرا دل بے قرار ہوکر نازنین محبوب کے تصور میں گم ہوگیا اور میں نے دل ہی میں کہا کہ میں خوشی خوشی آپ کے در دولت پر حاضری دوں گا لیکن آنسوؤں نے دوڑ کر میری آستین پکڑ لی)۔
صرف کھانا پینا پہننا ذلت ہے:
ایک محفل میں بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی موجود تھے اور لوگ سماع کے جواز اور عدم جواز کے متعلق علمائے کرام کے اختلاف کا ذکر کر رہے تھے ان لوگوں کی تمام تر گفتگو سننے کے بعد آپ نے فرمایا، سبحان اللہ ایک جل کر راکھ ہوچکا ہے اور دوسرے ابھی تک اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں، ایک اجتماع میں آپ نے فرمایا کہ تدبیر اور زیادہ غور و فکر کرنے سے آفت آتی ہے اورتسلیم کرلینے میں سلامتی ہے، علمائے کرام عام لوگوں میں زیادہ باعزت ہیں اور درویش اور فقیر لوگ با عزت لوگوں ہیں، زیادہ معزز اور سردار شریف ہیں، عالموں اور فاضلوں میں شریف کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان کے ستاروں میں چودھویں رات کا چاند، ذلیل ترین وہ انسان ہے جو اپنے کو کھانے، پینے اور پہننے میں مشغول رکھتا ہے۔
حکایت: بابا فرید الدین گنج شکر کو کسی نے ایک مرتبہ ایک معروضہ پیش کیا کہ سلطان غیاث الدین بلبن کو میرے لیے ایک سفارش نامہ تحریر فرمادیجیے، چنانچہ آپ نے لکھا کہ میں اس شخص کا معاملہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے آپ تک پہنچاتا ہوں اگر آپ اسے کچھ عطا کردیں تو حقیقتاً یہ عطا کرنے والا اللہ ہی ہے، آپ مشکور ہوں گے اور اگر آپ عطا نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہی مانع اور روکنے والا ہے اس طرح آپ معذور تصور کیے جائیں گے۔
اخبار الاخیار