خلفاء حضرت خواجہ گنجشکر
خلفاء حضرت خواجہ گنجشکر (تذکرہ / سوانح)
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ گنجشکر کے خلفاء کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے ستر ہزار خلفاء تھے۔ آپ کے ملفوظات موسوم بہ جواہر فریدی میں جو پاکپتن شریف میں سجادہ صاحبان کے پاس ہے خلفاء کی تعداد پچاس ہزار تین سو بیالیس بتائی ہے۔ اس تفصیل سے کہ دس ہزار روئے زمین پر ہیں۔ اتھارہ ہزار دریاؤں میں، سات ہزار کوہ قاف میں، پانچ سو بیالیس ہوا میں، چار سو چوتھے آسمان پر، چودہ ہزار ساتویں آسمان پر، اور سات سو عالم غیب میں عنداللہ ہیں۔ اور حق تعالیٰ کے سوا انکو کوئی نہیں جانتا اور دس ہزار خلفاء جو زمین پر ہیں اور جنکے حضرت خواجہ گنجشکر کے درمیان سر موئے فرق تھا انکے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ حضرت خواجہ علی احمد صابر، حضرت سلطان المشائخ شیخ نظام الدین اولیاء، حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی، حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی، حضرت شیخ دھارو، حضرت شیخ زین الدین دمشقی، حضرت شیخ علی شکریز، حضرت شیخ علی شکر بار، حضرت شیخ محمد سراج، حضرت شیخ دھنی دیا، حضرت شیخ جمال عاشقاں کامل حضرت شیخ نجیب الدین متوکل (جو حضرت اقدس کے چھوٹے بھائی تھے)، شیخ عارف سیوستانی، حضرت شیخ زکریا سندھی صدر دیوانہ، حضرت مولانا داؤد بالہی، حضرت شیخ جلال الدین،حضرت شیخ رکن الدین۔
راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ جو صاحب سیر الاقطاب نے حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کو حضرت خواجہ گنجشکر کے خلفاء میں شامل کیا ہے، یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ یہ بات محقق ہے کہ انکو حضرت خواجہ گنجشکر کی صحبت نہیں ملی۔ نیز بی بی فاطمہ جو حضرت خواجہ گنجشکر کی ہمشیرہ تھیں بھی خلفاء کی فہرست میں شامل ہوتیں کیونکہ آپ بڑی عارفہ تھیں اور حضرت خواجہ گنجشکر بھی بارہا فرماچکے تھے کہ اگر عورتوں کو خلافت دینا جائز ہوتا تو میں بی بی فاطمہ کو خلافت دیتا کیونکہ وہ اس زمانے میں مردوں سے بہتر ہے۔ لیکن عورتوں کو خلافت جائز نہیں۔ بی بی فاطمہ کا مزار دہلی میں علاقہ اندہست میں ہے جو بیرون دروازہ میٹاکوٹ بالمقابل دروزہ قلعہ شیرشاہ ہے۔ اور زیارت گاہِ خلائق ہے۔ مشہور ہے کہ ابدالانِ وقت میں سے ایک ابدال ہمیشہ ان کے مزار پر رہتا ہے اور خدمت گاری کرتا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہما۔
اللّٰھم صَلّے عَلیٰ مُحمد وَآلہٖ وَاَصْحَابہٖ اَجمَعیْن۔
ازر ہگذر خاک سر کوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردست نسیم سحر افتاد |
نور دوم ذکر حضرت سلطان علاؤ الدین علی احمد صابر، حضرت شاہ شمس الدین ترک پانی پتی وحضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس اسرارہم،
حضرت مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر
آں شیر بیشہ محویت وفنا، غضنفر بادیۂ لااحصی ثنا، مصداق تخلقوا باخلاق اللہ، متعرف بر تصرفات حضرت الہ مدرک اسرارمن رأنی، ایمن از زخمہ لَنْ تَرانی، گؤیندہ اسرار عشق برمنابر، قطب ابدال حضرت شیخ علاؤ الدین علی احمد صابر قدس سرہٗ حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ کے بھانجے اور محبوب ترین خلیفہ ہیں اور احباب میں سے پہلے مرید ہیں۔ صاحب اخبار الاخیار کے قول کے مطابق آپ اپنے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے داماد بھ ی ہیں۔ آپ تمام افراد اور عباد کے سردار ہیں۔ اور طریق تصوف میں آپ کی شان بلند و ہمت قوی تھی۔ غلبۂ استغراق ذات مطلق کی وجہ سے آپ ہمیشہ دنیا سے الگ تھلگ رہے۔ شیخ سعدی شیرازی کا یہ شعر آپ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔
لیے صرف وحدت کسے نوش کردو |
|
کہ دنیا وعقبےٰ فراموش کردو |
(جس نے وحدت کا خلص شراب نوش کیا اس نے دنیا اور عقبےٰ کو فراموش کردیا)
ابتدائے سلوک میں آپ نے اپنے آپ کو اس قدر مجاہدات، ریاضات اور ترک و تجرید میں ڈالا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ آپ تمام ظاہری وباطنی قیود سے آزاد اور بے نیاز تھے اور افراد کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نفس قاطع رکھتے تھے۔ یعنی زبان سے نکلتا تھا فوراً ہوکر رہتا تھا۔ آپ قلب اسرافیل پر تھے۔ اور آپکی ولایت موسوی تھ ی۔ صلوٰاۃ اللہ علیہ۔ اور اسی وجہ سے آپ پر شوق وعشق اور غیرت کا غلبہ تھا۔ آپ کے احوال و مقامات حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہٗ سے بہت مشابہت رکھتے ۔ صاحب لطائف اشرفی[1] فرماتے ہیں کہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی ولائیت بھی موسوی تھی۔ اہل تصؤف کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ ہر ولی کی ولایت کسی ایک نبی علیہ السلام کے نقش قدم پر ہوتی ہے۔ حدیث العلماء الانبیاء (علماء وارث ہیں انبیاء کے) سے یہی ح قیقت مُراد ہے۔ آپ کی ذات سے تصرفات جلال کا اس قدر ظہور ہوا کہ مشائخ چشت میں سے کسی سے نہیں ہوا۔ آپ یگانۂ روزگار اور بے نظیر وقت تھے۔ سیر الاقطاب کی روایت کے مطابق آپ صحیح النسب سید ہیں اور حضرت خواجہ گنجشکر کی آپ نے بہت خدمت کی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ میرا ظاہری وباطنی علم شیخ نظام الدین بدایونی کو پہنچا ہے اور میرے شیخ کا ظاہری وباطنی علم شیخ علاؤ الدین علی احمد صابر کو ملا ہے۔ حضرت گنجشکر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے سی نہ کےعلم نے شیخ نظام الدین اور میرے قلب کے علم نے شیخ علاؤ الدین علی احمد صابر کی ذات میں سرایت کی ہے۔ آپ کو سماع سے بہت رغبت تھی۔ آپ کا وصال بھی حالتِ سماع میں ہوا۔ آپ اوائل حال میں بارہ سال تک لنگر خاص کی تقسیم کرتے رہے اور خود یہ سار مدت روزہ دار ہے۔ اور کچھ نہ کھایا۔ حتیٰ کہ ایک دن حضرت گنجشکر نے نورِ ولایت سے معلوم کر کے پوچھا کہ بابا علاؤ الدین تم جو لنگر تقسیم کرتے ہو آیا خود بھی کھاتے ہو یانہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ میری کیا مجال ہے کہ حضرت پیر دستگیر کی اجازت کے بغیر ایک دانہ کھاؤں۔ یہ سنکر آپ نے فرمایا کہ ہمارا علاؤ الدین علی احمد صابر ہے۔ اُسی دن سے آپ کا لقب صابر ہوگیا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ مشائخ چشت سے متوتر یہ روایت چلی آرہی ہے کہ حضرت خواجہ گنجشکر نے حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ کو تلقین اسمِ اعظم اور عطائے خلافت دیکر حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ سے پہلے دہلی کی طرف رخصت فرمایا کہ وہاں جاکر سکونت اختیار کریں۔ ایک رویات یہ ہے کہ حضرت گنجشکر نے آپکو اختیار دیدیا کہ جہاں چاہیں جاکر سکونت پذیر ہوں۔ حضرت مخدوم صابر نے عرض کیا کہ دہلی میں رہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ حضرت اقدس نے خلافت نامہ عطا کر فرمایا کہ پہلےاسے شیخ جمال الدین ہانسوی کو دکھا دینا اسکے بعد دہلی جانا جب آپ ہانسی پہنچے اور خلافت نامہ حضرت شیخ جمال ہانسوی کو دیا تو استدعا کی کہیہکام جلدی کردیں تاکہ میں دہلی روانہ ہوجاؤں۔ انہوں نے فرمایا اتنی جلدی کیا ہے دہلی کے صاحب ولایت کو تو برد بار ہونا چاہئے۔ لیکن آپ یہاں کچھ دیر بھی نہیں بیٹھ سکتے یہ کام کس طرح چلیگا۔ حضرت مخدوم صابر نے غلبۂ استغنیٰ میں آکر بے باکانہ جواب دیا۔ جس سےشیخ جمال باوجود اپنے جمال کی غیرت بشیریت سے متاثر ہوئے اور عنان صبر ہاتھ سےدیتےہوئے خلافت نامہ کو چاک کردیا۔ مخدوم صابر جو مظہر جلال تھے یہ بات کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔ فوراً آپکی زبان سے یہ کلمات نکلے کہ میں نے آپکا سلسلہ کاٹ دیا ہے اور آپ سے کوئی مشائخ وجود میں نہیں آئینگے۔ آخر یہی ہوا۔ حضرت شیخ جمال کے فرزند عقلمند اور سجادگی کے قابل تھے لیکن اسی اثنا میں وہ دیوانہ ہوگئے اور خلافت کے قابل نہ رہے۔ آپ کے پوتے شیخ برہان الدین آپکے آخر عمر میں ساتھ تھے۔ آپ نےجس قدر چاہا کہ انہیں مرید کر کے خلافت دیں لیکن منہ سےکچھ نہیں نکلتا تھا۔ حالانکہ دوسری بات کہہ رہے تھے۔ لیکن شیخ برہان الدین کے حق میں وصیت نہیں کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے شیخ جمال کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اور آپ کے وصال کے بعد شیخ برہان الدین حضرت خواجہ گنجشکر کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوئے۔ شیخ برہان الدین کو بھی آخری وقت میں یہی واقعہ پیش آیا۔ لہٰذا آپ کے فرزند شیخ قطب الدین منور نے حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں جاکر بیعت کی جیسا کہ مشائخ کی سوانح حیات میں درج ہے۔
جب حضرت مخدوم صابر ہانسی سے واپس ہوکر حضرت گنجشکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا بیان کیا تو آپ کو شیخ جمال کی یہ گستاخی پسند نہ آئی۔ اور حضرت مخدوم صابر کےحال پر نظر شفقت فرماتےہوئے فرمایا کہ جس کا غذ کو جمال نے ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اُسے دوبارہ درست نہیں کیا جاسکتا لیکن تمہیں اس سے بھی بہتر خلافت نامہ لکھ کر دیتا ہوں خاطر جمع رکھو اور فکر مند ہو۔ چنانچہ چند یوم میں آپ نے اپنے ہاتھ سے خلافت نامہ لکھ کر عنایت فرمایا اور قصبہ کلئیر کی طرف روانہ فرمایا جو دام کوہ میں واقع ہے۔ اسکی آب و ہوا بھی نہایت معتدل تھی۔ اور اس وقت وہ شہر بے حد آباد تھا۔ چنانچہ آپ نے حضرت مخدوم کو وہاں کا حاجب ولایت بنایا اور رخصت کردیا۔ لیکن اس واقعہ کو صاحب سیر الاقطاب نے مختلف طریقے سے بیان کیا ہے وہ لکھتےہیں کہ جب حضرت مخدوم صابر حضرت خواجہ گنجشکر سے خلافت نامہ حاصل کر کے شیخ جمال کےہاں ہانسی پہنچے تو خلافت نامہ نکال کر حضرت شیخ جمال کے ہاتھ میں دیا اور دہلی جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ رات کا وقت تھا چراغ موجود نہ تھا۔ اس وجہ سے کچھ دیر واقع ہوگئی بعد میں چراغ لایا گیا اور جب خلافت نامہ کھولا گیا تو اس سے چراغ بجھ گیا۔ حضرت مخدوم صابر نے پھونک ماری اور چراغ جل اٹھا۔ یہ دیکھ کر شیخ جمال کو غصہ آیا اور یہ کہہ کر خلافت نامہ چاک کردیا آپ کے سانس کی تاب شہر دہلی کیسے لاسکتا ہے ایک آہ سرد نکال کر سارے شہر کو جلادوگے۔ اس سے حضرت مخدوم نے غضبناک ہوکر فرمایا کہ آپ نے میرا خلافت نامہ چاک کیاہے۔ میں نے آپ کا سلسلہ چاک کردیا ہے۔ شیخ جمال نےپوچھا کہ اول سے یا آخر سے۔ انہوں نے فرمایا کہ اول سے۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کی خدمت میں چلے گئے۔ اور کیفیت بیان کی۔ حضرت اقدس نے دریافت فرمایا جب شیخ جمال نے خلافت نامہ چاک کیا تو تم نے کیا کہا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میری زبان سے یہ نکلا کہ آپ نے میرا خلافت ناہ چاک کیا ہے میں نے آپ کا سلسہ چاک کردیا ہے انہوں نے پوچھا کہ اول سے یا آخر سے میں نے کہا اول سے۔ یہ سنکر حضرت گنجشکر نے فرمایا کہ تیر نشانہ ر جالگا ہے لیکن خیریت ہوئی کہ تم نے لفظ ‘‘اول سے’’ کہہ دیا اور آخری سلسلہ سلامت رہ گیا۔ نیز تمہارے سلسلہ میں ایک بزرگ پیدا ہوگا جس کا نام شیخ جلال الدین پانی پتی ہوگا۔ اور جس کی برکت دُعا سے شیخ جمال کا سلسلہ پھر سے جاری ہوگا۔ اس اجمال کی تفصیل حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کے حالات میں آرہی ہے[2]۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ گنجشکر کے حالت میں حضرت مخدوم صابر کے حالات کم بیان ہونے کی وجہ ہے کہ اپ کی زندگی کے زیادہ حالات حضرت شیخ جمال نے قلمبند کیے تھے اس لیے اس تکدر کی وجہ جو ان کے مابین تھا انہوں نے مخدوم صابر کا اتنا ذکر نہیں کیا جتنا کہ مناسب تھا لیکن حضرت مخدوم صابر کی ولایت اور عظمت کا ثبوت آپ کے مریدین وخلفاء کے وجود مسعود سے ظاہر ہے جن کے سلاسل آج تک شان و شوکت کے ساتھ ہندوستان، ایران، توران، عرب وعجم میں جاری ہیں۔ بلکہ ساری دنیا آپ کے فیض سے مالا مال ہے اور ا س سلسلہ کی رونق بفضلہٖ تعالیٰ قیامت تک بڑھتی رہے گی۔
غرضیکہ جب حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ سے خلافت حاصل کر کے کلیر پہنچے اور سکونت اختیار فرمائی تو وہاں کے علمائے ظواہر آپ کے خلاف ہوگئے اس وجہ سے کہ آپکا مشرب قلندر نہ تھا، آپ ابدالوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اور باطنی آرائش میں اس قدر مستغرق تھے کہ ظاہری رسومات کی طرف توجہ نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلَا اِنَّ اَوْلِیَا اللہِ لَا خوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یحْزَنُوْن ط (خبردار اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جنکو نہ کسی چیز کا خوف ہے نہ غم) حضرت مخدوم صابر اس آیت کا صحیح نمونہ تھے اور کسی سے خوف نہ کسی سے خوف نہیں کرتے تھے بلکہ بے باکانہ زندگی بسر فرماتے تھے چنانچہ ہر زمانے میں اکثر قطب ابدال اسی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ مثلاً شیخ شمس الدین تبریزی اور شیخ فخر الدین عراقی وغیرہ کے حالات بھی اسی طرح تھے جس طرح حضرت مخدوم بے باک تھے۔ آپکے اصحاب بھی اسی طرح آزاد اور بیباک تھے۔ یا ممکن ہے کہ جان کر وہ لوگوں کی نظروں میں اپنے آپکو اسی طرح ظاہر کرتے تھے۔ یا پھر وہ اس وضع قطع کو ظاہر کرنے پر مامور تھے۔ غرضیکہ صوفیائے کرام کو مقام ذوق و شہود میں ایسا حال نصیب ہوتا ہے کہ انکی نظر میں خلق خدا کی مدح وقدح کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ اور جب کوئی صوفی کو تاہ نظر سے خلق کی مدح وقدح کا خیال رکھتا ہے تو اپنےم قام سے گرجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سلطان المشائخ نےفرمایا ہے کہ اگر سالک کے دل میں ذرہ بھر رعایت خلق باقی ہے اُس کا مقام معرفت حق میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پس اس باب میں مذہب صوفیائے باصفا کا مسلک یہ ہوتا ہے کہ یہ طائفہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں اور چونکہ معصیت سے پاک ہوتے ہیں اور اُن کےجملہ افعال وحی کے مطابق ہوتے ہیں وہ اپنا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔ اسی طرح صوفیاء کرام بھی آیۂ پاک یَفْعَل اللہ مَایشاء ویحکم ما یُرید (اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو ارادہ کرتا ہے پورا کرتا ہے) کے تصور میں ذاتِ مطلق میں مستغرق رہتے ہیں اور تمام امور صوری اور معنوی میں انکا کوئی کام اس مسلک کے خلاف نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام کو معصیت سے محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کہ ان حضرات کا ساری کائنات میں صرف حق تعالیٰ ہی م طلوت ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
چو بادصبا در بدر کو بکو |
|
طلب گار اویم طلبگار او |
(ہم بادصبا کی طرح در بدر اور کوچہ بکوچہ پھر رہے ہیں کیونکہ ہم اسکے طلبگار ہیں اور اپسی کے طلب گار ہیں)
پس اس قوم پر اعتراض کرنا حسد اور کم نظری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آمدم بر سر مطلب، جب مخدوم علی احمد صابر کی شہرت ہوئی اور چاروں طرف سے خلقت کا اعتقاد بڑھا تو شہر کے علماء ومشائخ کے دلوں میں ھس کی آگ بھڑک اٹھی۔ اور آپکے اصحاب کو آزار رسانی کے در پے ہوگئے۔ لیکن حضرت اقدس کی عظمت اور ظہور کرامات کے ڈر سے کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مخدوم صابر نماز جمعہ سے پہلے اپنے اصحاب کے ساتھ جامع مسجد میں ممبر کے قریب ایسی جگہ پر بیٹھ گئے جو وہاں کے علماء اور مشائخ کے لیےم خصوص تھی۔ جب وہ لوگ مسجد میں پہنچے تو ان ہوں نے شدت سے مطالبہ کیا کہ جگہ خالی کرو اور دوسری جگہ پر جاکر بیٹھو آپکے اصحاب نے انکسار سے کہا کہ جگہ خالی تھی ہم آکر بیٹھ گئے مہربانی فرماکر ہمیں معذور رکھیں لیکن انہوں نے ایک نہ سُنی اور زیادہ سختی سے پیش آنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ ہمارے آباواجداد کے بیٹھنے کی جگہ ہےیہاں کسی کو نہیں بیٹھنے دیں گے۔ جب شور بلند ہوا تو حضرت مخدوم نےسر مراقبہ سے اٹھایا اور فرمایا کہ اس ملک کا صاحب ولایت اس جگہ پر بیٹھنے کا لوگوں سے زیادہ مستحق ہے۔ اُن ناعاقبت اندیش لوگوں نے گستاخ ہوکر کہا کہ ہمیں کس طرح معلوم ہو کہ آپ صاحب ولایت ہیں۔ ہمیں اس بات کا ثبوت درکار ہے۔ یہ سنکر مظہر جلال کی غیرت جوش میں آئی اور عجب حال رونما ہوا۔ آپ نے مسجد سے باہر آکر فرمایا کہ ثبوت یہ ے کہ تم لوگ ابھی ختم ہوجاؤ گے۔ یہ کہنا تھا کہ مسجد گرگئی۔ اور کئی ہزار آدمی اسکے نیچکے آکر ہلاک ہوگئے۔ ان میں ے کم و بیش چارسو علماء ومشائخ تھے۔ اسکے بعد سارے شہر میں آہ وفغاں کا بازار گرم ہو۔ا ور باقیماندہ لوگ آپ کے پاس آکع معافی طلبگار ہوئے ۔ آپ نے غلبۂ حال میں فرمایا کہ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی ہے اور میری درخواست منظور ہوگئی ہے کہ اس شہر میں کوئی شخص زندہ نہ بچ جائے اور اسکے بعد ہرگز آباد نہ ہو کیونکہ میرے لیے یہاں کی ویرانی آبادی سے بہتر ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
منزل غمہائے توشد سینۂ ویران من |
|
لاجُرم باشد ہمیشہ گنج در ویرانۂ |
(میرا ویران دل اے دوست تیرے لیے بہترین جائے رہائش ہے اس وجہ سے کہ خزانہ ہمیشہ ویرانے میں ہوتا ہے)
چنانچہ آپکی بات کا یہ اثر ہوا کہ اسی سال شہر میں ایک بڑی وباآئی شہر کے لوگ سب نیست ونابود ہوگئے۔ اور سارا شہر ویران ہوگیا۔ بلکہ آج تک ویرانپڑا ہے۔ مسجد کی عمارت کے پتھر بھی آج تک اُسی جگہ پڑے ہیں۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب شہر ویران ہوگیا تو حضرت مخدوم صابر اطمینان سے وہاں ریاضت و مجاہدہ کرنے لگے اور پرندے اور جنگلی جانور آپ کے ساتھ مانوس ہوگئے ایک شیر آکر آپ ک ے دروازے پر پہرہ دیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ آج تک ایک شیر ہر شب جمعہ آپ کے روضۂ اقدس پر حاضر ہوکر جبیں سائی کرتا ہے۔ اور اپنی دُم سے جھاڑو دیتا ہے۔
مراۃ الاسرار میں آیا ہے کہ دہلی کے سلاطین نے بہت کوشش کی کلیر کو دوبارہ آباد کیا جائے لیکن حضرت مخدوم کے تصرف سے یہ بات میسر نہ آئی۔ اس بارے میں آپ کی کرامات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ دانا کیلئے اشارہ کافی ہے روایت ہے کہ آپکی زندگی کے دوران اطراف و جوانب سے لوگ اس کثرت سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوکر نیاز مندی حاصل کرتے تھے کہ انکی تعداد پہلے سے یعنی شہر کے آباد ہونے کے وقت سے بھی زیادہ تھی۔ حق تعالیٰ نے ان کو ایسا تصرف عطا فرمایا تھا کہ مشائخ وقت حیران تھے۔ اب بھی جب تیرہ ربیع الاول کو عرس ہوتا ہے تو گرد و نواح سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے جمع ہوجاتے ہیں اور تین دن تک کھانے پکواکر لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں؎
زندہ نہ آنست کہ جانے دروست |
|
اوست کہ از عشق نشانے دروست |
(زندہ نہیں کہ جس کے اندر جان ہے بلکہ زندہ وہ ہے جس کے دل میں عشق ہے)
روایت ہے کہ حضرت اقدس کے وصال کے بعد جب وہ شہر ویران رہ گیا تو مجاوروں کو بھی وہاں رہنے کی ہمت نہ رہی اور دور جاکر سکونت اختیار کی۔ اور بلا اجازت وہاں کوئی نہیں آسکتا تھا۔ اس وجہ سے آپ کا مزار مبارک ضائع ہوگیا اور کفار نے مزار کے نزدیک بُت خانہ بنالیا۔ لیکن چند ایام میں وہ نیست ونابود ہوگیا۔ اور کفار کی آمد ورفت بند ہوگئی۔ اتفاق سے ایک کافر کا وہاں سے گذر ہوا کیا دیکھتا ہے کہ نورانی اور باہیبت قبر پر طیور اور وحوش جمع ہیں اور شیر اپنی دم سے جھاڑو دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ حٰرت زدہ ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ یہ مقام ہماری عبادت گاہ تھا۔ اب یہاں یہ قبر ظاہر ہوئی ہے۔ میں ابھی اسے منہدم کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ اس نیت سے آگے بڑھا اسے دیکھ کر پرندے اور جنگلی جانور دور ہوگئے۔ جب اس نے مزار مبار پر پہاڑ وہ چلایا تو اچانک ایک سوراخ نظر آیا اس نے سراخ کے اندر جھانک کر دیکھا کہ اندر کیا ہے۔ لیکن جونہی اس نے سر اندر کیا دوبارہ نہ آسکا اور اسی جگہ مرگیا۔ حضرت اقدس نے خواب میں مجاروں کو حکم دیا کہ فوراً آؤ اور ایک کتا جو میرے مزار پر بے ادبی کی وجہ سے مرا پڑا ہے اسے دور پھینکو۔ صبح ہوتے ہی مجاور لوگ بھاگتے ہوئے کلیر شریف پہنچے اور اس کافر کی نعش کو اٹھاکر دور کردیا۔ جب انہوں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا تو بعینہٖ کتے کی شکل بن چکا تھا۔ اس کے بعد مجاروں نے واپس آکر آپ کے مزار اقدس کے قریب سکونت اختیار کرلی۔ انہوں نے مزار مبارک کی مرمت کی اور بناسنوار بیٹھ گئے۔ معتبر راریوں کی روایت کے مطابق شروع میں حضرت اقدس کے مزر مبارک کے نزدیک کوئی شخص نہیں جاسکتا تھا۔ جو شخص بھی ہمت باندھ کر قریب جاتا وہاں سے ایک بجلی نکل کر اُسے جلادیتی ت ھی۔
جب قطب عالم حضرت شاہ عبدالقدوس گنگنوہی قدس سرہٗ زیارت کی خاطر کلیر شریف گئے تو ابھی ایک کوس دور تھے کہ بجلی حسب دستور نکل کر پہنچ گئی۔ آپ نے بجلی کو دیکھ کر فوراً عرض کیا کہ عبدالقدوس آپ ہی کا ہے۔ اور زیارت کا بے حد شوق ہے جونہی آپ کی زبان سے یہ کلمات ن کلے بجلی گم ہوگئی اور آپ نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ جب نصف کوس باقی رہ گیا تو بجلی پھر اُسی زور و شور سے ظاہر ہوگئی۔ آپ نے پہلے کی طرح شوق زیارت کا اظہار کیا اور بجلی پھر گم ہوگئی۔ جب آپ روضۂ اقدس کے سامنے پہنچے تو بجلی پھر اسی قوت سے ظاہر ہوئی۔ اور آپ نے پھر وہی کلمات دہرائے۔ جس سے بجلی گم ہوگئی اور پھر واپس نہ آئی۔ جب شاہ عبدالقدوس مرقد شریف کے قریب پہنچے تو حضرت مخدوم صابر علیہ رحمہ کی روح مبارک قبر سے باہر نکل آئی اور ان کو آغوش میں لے لیا اور کافی لطف و کرم کے بعد فرمایا کہ تم اس وجہ سے ہمارے نزدیک پہنچ سکے ہو کہ ہمارے سلسلے سے تعلق رکھتےہو۔ کوئی دوسرا ہوتا تو ہر گز یہاں نہ پہنچ سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور ساری خلقت زیارت کے لیے بے چین ہے لیکن اس بجلی کی ہیبت سے کسی کو آنے کی مجال نہیں۔ اگر حضور کرم فرمایر جلال کی بجلی کو غلا دیکر بند فرمادیں تو خلق خدا حضور اقدس کے فیض سےمالا مال ہوگئی۔ حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ نے فرمایا کہ تمہاری خاطر ہم نے اپنی ذات کی برق (بجلی) کو عالم لا مکاں بند کردیا ہے۔ اور صفاتِ جمالیہ کو قدر سے ظاہر کردیا ہے تاکہ تمام عام و خاص یہاں پہنچ سکیں اس وقت سے تمام عام وخاص حضرت اقدس کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ اور فیوض وبرکات حاصل کرتے ہیں۔ اسکے بعد آپ کے عرسوں کا سلسلہ بھی جاری ہوگیا۔
مرآۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ صاحب سیر الاولیاء جس نے حضرت خواجہ گنجشکر کے خلفاء کے حالات بیان کیے ہیں حضرت مخدوم صابر کے متعلق اسی قدر لکھتے ہیں کہ وہ بہت بڑے درویش اورصاحب نعمت بزرگ تھے۔ انکا نام شیخ صابر تھا اور بڑے ثابت قدم اور صاحب تصرف تھے۔ آپ کلیر شریف میں رہتے تھے اور حضرت خواجہ گنجشکر سے وابستہ تھے انکو حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ سے خلافت بھی حاصل تھی۔ دستور تھا کہ جب حضرت خواجہ گنجشکر رہ کسی بزرگ کو خلافت دیکر رخصت فرماتے تھے تو انکو وصیت کرتے تھے اور صاحب تصرف بھی کرتے تھے۔ حضرت مخدوم صابر نے رخصت ہوتے وقت عرض کیا کہ میرے لیے کیا حکم ہے۔ حضرت اقدس نے زبان ہندی میں فرمایا کہ اے صابر بھوگہا خواہی کرو (مزے کروگے) یعنی تمہاری زندگی عیش سے گزرے گی۔ چنانچہ ساری عمر میں عیش کرتے رہے آپ بڑے خوش باش اور کشادہ پیشانی بزرگ تھے۔ صاحب مراۃ الاسرار آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مراۃ الاسرار جو سلسلہ عالیہ چشتیہ کی معتبر کتاب اوردستور العمل ہے کی یہ عبارت مجھے بہت پسند آئی ہے کہ اس مختصر کلمہ میں حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ نے آپ کے حق میں اس قدر نعمتیں بھردی ہیں کہ شمار سے باہر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ‘‘بھوگ’’ سے مراد راحت دنیا وآخرت ہے تو صحیح ہے، اگر یہ کہیں کہ اس سے مراد تجلیات جلا و جمال ہیں جنکا سالک پر مختلف مظاہر میں ظہور ہوتا ہے تو بھی درست ہے۔ اگر بھوگ سے مُراد قرب و بعد کی راحت لی جائے جسکا مشاہدہ عارف پر عتاب وخطاب کی صورت میں ہوتا ہے تو بھی صحیح ہے کیونکہ کبھی وہ عتاب کی لذت میں غرق ہوتا ہے اور کبھی شوق خطاب میں بصورت برق چمکتا ہے جیسا کہ ایک بزرگ نے فرمایا ہے؎
گہ ناز وگہ لطف وگہ عتاب |
|
مسکین ولم چرانشود زیں ہمہ خراب |
(کبھی ناز کرشمہ سے نوازش ہوتی ہے۔ کبھی لطف وعتاب سے نوازا جات اہے۔ میرا مسکین دل ان کرشموں سے کیوں نہ بتاہ برباد ہو۔)
لیکن مشائخ عظام کے نزدیک بہترین راحت جو ہے وہ راحت تحیر ہے۔ جو عارف کامل کو ذات احدیت میں فنا کے وقت نصیب ہوتی ہے یعنی ذات مطلق میں وہ اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ اپنے آپ کو جس قدر تلاش کرتے ہیں نہیں پاتے۔ ان کی حرکات و سکنات نائم یعنی سونےوالے کی طرح ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت رسالت پناہ ﷺ اکثر فرمایا کرتےتھے کہ اَللّٰھُمَّ زِدْنِیق تحیراً (اے اللہ میرے تحیر میں برکت دے) یہی وجہ ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ؎
من تا سروپائے جملہ تحیّر |
|
تحیّر ہم تحیر در تحیر[3] |
(میں سر سے پاؤں مجسم تحیر بن چکا ہوں بلکہ تحیر در تحیر در تحیر کی کیفیت ہے)
حضرت مخدوم صابر کے کمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ حضرت شیخ گنجشکر نے اپنے تمام بڑے خلفا مثل حضرت سلطان المشائخ کو بھی رخصت کے وقت یہی وصیّت فرمائی کہ جب دہلی پہنچو تو مجاہدہ کرتے رہو اور جو قرض کہ کسی کو دو واپس نہ لینا۔ حق تعالیٰ تجھے کسی کے قرض کا محتاج نہیں کریگا۔ لیکن حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ سے ایسی ا یک بات سے زیادہ کچھ نہ فرمایا کہ ‘‘بھوگہا خواہی کرو’’ (مزے کروگے) اس وجہ سے کہ مشائخ عظام کے ہاں یہ امر مسلم ہے کہ جب انکا کوئی مرید مرتبہ کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اسے ایمان مشاہدۂ حقیقی جس سے مراد قرب حق ہے، حاصل ہوجاتا ہے تو اُسے پھر کوئی وصیت نہیں کرتے کیونکہ اس پر فنائے احدیت جلوہ گر ہوجاتی ہے اور سرِ حق سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ اس کے حق میں وصیت کرنا بے فائدہ ہے۔ اور یہ حضرات بے فائدہ باتوں سے اجتناب کرتے ہیں فہم من فہم (سمجھا جوسمجھا) راقم الھروف کے دل میں اس کلمہ سے کہ ‘‘اے صابر برو بھوگہا خواہی کرو’’ یہ معنی آئے ہیں کہ اس سے نسبت محبوبیت مراد ہے کیونکہ بھوک کا مطلب ہے عیش و عشرت، جو مرتبۂ محبوبیت کا خاصہ ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت مخدوم صابر کو اس نسبت شریفہ کا آخری م قام حاصل ہوگیا ہو۔
باقی خلفاء کے مقابلہ میں ان کلمات کے ذریعے حضرت مخدوم کی ثنا مقصود ہو۔ اگر ان الفاظ (بھوگہا) سے جو صیغہ جمع ہے ہم حضرت مخدوم کا حقیقت محمدیہ اور حقیقت ذات بحت میں حضرت شیخ کے آئینہ کے ذریعے مشاہدۂ دوام سمجھیں تو بھی درست ہے اگر اس سے حضرت مخدوم کا حصول کمالاتِ نبوت و فنائے محمد مراولیا جائے تو بھی صحیح ہے۔
غرضیکہ آخری عمر میں حضرت مخدوم علی احمد صابر قدس سرہٗ نے اپنا خرقہ خلافت حضرت شیخ سمشس الدین ترک پانی پتی کو عطا فرماکر شہر پانی پت کی طرف رخصت فرمایا اور اس علاقے کا صاحب ولایت مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور وہاں تو شیخ بو علی قلندر قدس سرہٗ موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا فکر مت کرو۔ انکا آخری وقت آچکا ہے۔ اسکی تفصیل حضرت شیخ شمس الدین ترک کےحالات میں آرہی ہے۔
وصال
حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ کا وصال بتاریخ تیرہ ربیع الاول ۷۹۰ھ اور دوسری رویات کے مطابق ۷۶۴ھ میں سلطان جلال الدین خلجی کے عہد حکومت میں ہو۔ا سیر الاقطاب میں آپ کی تاریخ وصال ‘‘جانِ گنجشکر’’ آئی ہے جو دوسری کے مطابق ہے۔ صاحب مراۃ الاسرار فرماتےہیں کہ حضرت مخدوم صابر حضرت سلطان المشائخ کے ہمعصر تھے اور آپ کو حضرت سلطان المشائخ سے بے حد محبت تھی۔ اور حضرت سلطان المشائخ سے چند سال قبل آپکا وصال ہوا۔ آپکا مزار مبارک قصبۂ کلیر شریف میں خلق خدا کے لیے قبلۂ حاجات ہے۔ آپ کی ولایت کے تصرفات اس قدر جاری ہیں کہ طالبان و مریدین صادق الاخلاص کو آپ کی روحانیت سے ہر لحظ فیض مل رہاہے۔ اور تمام ظاہری وباطنی امور میں ممدو معاون ہے جیسا کہ اہل بصیرت پر روشن ہے۔
اللّٰھم صَلّے عَلیٰ مُحمد وَآلہٖ وَاَصْحَابہٖ اَجمَعیْن۔
ازر ہگذر خاک سر کوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردست نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ مجموعہ ملفوظات حضرت شاہ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ جو حضرت سلطان المشائخ کے خلیفہ اخی سراج الدین کے خلیفہ کے خلیفہ تھے۔ آپ غوث وقت اور بڑے صاحب تصرف تھے۔ آپ کا مزار کچھوچھہ شریف صوبہ پوپی (ہندوستان) میں ہے۔
[2] ۔ لیکن اکثر ارباب طریقت کا خیال یہ ہے کہ حضرت شیخ علاؤ الدین علی احمد صابر اور حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی کے مابین جو تلخی کی روایت متاخرین کی کتابوں مثل مراۃ الاسرار، سیر الاقطاب ار اقتباس الانوار میں آئی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ متقدمین کی کتابوں میں اسکا کوئی ذکرن ہیں ہے۔ مثلاً سیر الاولیاء جو حضرت سلطان المشائخ کے ایک مرید نے لکھی ہے میں حضرت مخدوم صابر کے ذکر میں واقع بیان نہیں کیا گیا۔ نیز کتاب فوائد الفواد جو سیر الاولیاء کی طرح مشائخ چشت کے جملہ حالات کا ماخذ ہے اور حضرت سلطان المشائخ کے مرید شیخ حسن علاسنجری نے تالیف کی ہے اس میں یہ واقع نہیں پایا جاتا۔ کتاب اخبار الاخیار مصنفہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی میں مخدوم صابر کے متعلق مختصر سا بیان ہے لیکن اس میں بھی یہ واقعہ بیان نہیں کیا گیا۔ اسی طرح کتاب سیر العارفین مصنفہ شیخ حامد بن فضل اللہ جمالی مراۃ الاسرار سے پہلے کی کتاب ہے۔ اس میں بھی یہ ذکر نہیں آیا اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا تو حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے زمانے میں جو حضرت مخدوم صابر کے بعد کا زمانہ تھا اس کا چرچا ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مخدوم صابر حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے سب سے پہلے خلیفہ ہیں اور حضرت سلطان المشائخ سے دس پندرہ سال پہلے خلافت حاسل کر کے اجودھن سے کلیر شریف تشریف لے جاچکے تھے لیکن شیخ جمال ہانسوی حضرت شیخ بدر الدین اسحاق اور حضرت سلطان المشائخ ایک ساتھ حضرت گنجشکر کی خدمت میں تربیت حاصل کر رہے تھے۔ چنانچہ فوائد الفوا اور سیر الاولیاء میں کئی بار حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ میں، شیخ جمال اور شیخ بدر الدین حضرت شیخ کی خدمت میں موجود تھے جب فلاں فلاں واقع پیش آیا یا حضرت گنجشکر نے فلاں فلاں بات کہی۔ نیز یہ بات بھی مستند کتابوں میں پائی جاتی ہے کہ حضرت سلطان المشائخ حضرت خواجہ گنجشکر کی عمر کے آخری حصے میں مرید ہوئے اور تقریباً ایک سال خدمت میں رہ کر خلافت حاصل کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ شیخ جمال نے بھی حضرت گنجشکر کے آخری حصے میں حضرت سلطان المشائخ کے ہمراہ سلوک طے کیا۔ لیکن خلافت نامہ چاک کرنے والے واقعہ میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت شیخ جمال نے حضرت مخدوم صابر سے بہت پہلے خلافت حاصل کی۔ اور چونکہ سب سےسنیئر خلیفہ تھے اس لیے خلافت نامہ پر انکی مہر ثبت کی جاتی تھی۔ چونکہ سیر الاولیاء اور فوائد الفواد جیسی مستند کتابوں میں حضرت سلطان المشائخ اور شیخ جمال ہانسوی کا ایک ساتھ سلوک طے کرنا پایا جاتا ہے اس لیے صاف ظاہر ہے کہ مخدوم صابر کو خلافت شیخ جمالس ے پہلے م لی تھی نہ کہ بعد میں اور جب پہلے ملی تو شیخ جمال کی مہر ثبت کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیز سیر الاولیاء اور فوائد الفواد میں مخدوم صابر کے حالات کی تفصیل نہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ آپ حضرت سلطان المشائخ کی اجودھن میں آمد سے بہت پہلے خلافت حاسل کر کے کلیر شریف جاچکے تھے اور ان کتابوں کے مصنفین کو جو حضرت سلطان المشائخ کے اصحاب تھے حضرت مخدوم صابر کی متعلق زیادہ علم نہیں تھا۔ اور نہ ہی حضرت سلطان المشائخ کو آپکی زندگی کے حالات معلوم تھے۔
[3] ۔ تحیر سے مرادک کمال حیرت ہے جو مقام فنافی اللہ میں سالک پر طاری ہوتی ہے۔ ذات حق میں اس قدر محو ہاجاتا ہے کہ اپنی بھی خبر نہیں رہتی۔ حٰرت کے دو اقسام ہیں۔ حیرت محمودہ اور حیرت مذمومہ، حیرت محمودہ عرفان کا نتیجہ ہےاور حیرت مذموہ جہل کا۔ تاج محل کو دیکھ کر ایک معمار کا حیرت زدہ ہونا حیرت محمودہ ہے، اور ایک گنوارا کا حیران رہ جانا حیرت مذمومہ ہے۔ اسی طرح ذات حق میں عارف کو جو حیرت حاصل ہوتی ہے وہ حیرت محمودہ ہے اور غیر عارف کو جو حیرت ہوتی ہے وہ حیرت مذمومہ ہے۔ امام غزالی کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی قدرت کی نیر نگیوں میں غرق ہوکر متحیر ہوجانا انبیاء واولیاء اللہ کا آخری مقام ہے۔ سعدی نے خوب کہا ہے؎
نہ حسنش غایتے دارونہ سعدی راسخن پایاں |
|
بمیرو تشنہ مستسقی ودریا ہمچناں باقی |
(اقتباس الانوار)