حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تذکرہ / سوانح)
خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: غلام صدیق۔شہداد کوٹ کی نسبت سے شہداد کوٹی کہلاتےہیں۔لقب: غوثِ زماں، سند الفقہاء،سید الاتقیاء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: خواجہ غلام صدیق بن شیخ الاسلام علامہ نور محمد بن مولانا غلام محمد بن محمد توکل فاروقی ۔علیہم الرحمہ۔ آپ کا شجرہ نسب علامہ تفتازانی (مصنف شرح عقائد نسفی ) سے ملتا ہوا، امیر المومنین ، جانشین مصطفی حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ: 570)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1260ھ مطابق 1842ء کو گوٹھ کنڈا،تحصیل بھاگ ناڑی،ضلع کچھی بلوچستان میں ہوئی۔(ایضا)
تحصیلِ علم:تعلیم کا آغاز گھر سے کیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی ان کے علاوہ بقیہ تعلیم اپنے برادر اکبر استاد العلماء حضرت علامہ گل محمد شہداد کوٹی ( متوفی 1306ھ)سے حاصل کر کے درس نظامی مکمل کیا اور تیرہ سال کی عمر میں دستار فضیلت سے سر فراز ہوئے۔ایک روایت کے مطابق علامہ غلام صدیق فرماتے تھے کہ جب مولانا ہمایونی ، ہمایون سے شہداد کوٹ ہمارے پاس پہنچے تھے تو قلیل مدت میں میں فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب کو حفظ کر لیتا تھا ۔ یہ آپ کے حافظہ کا کمال تھا۔ ( مقالات قاسمی)
پیدائشی حافظ قرآن:ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن پڑھنے کیلئے ہر سال حافظ صاحب ڈیرہ غازی خان سے آیا کرتے تھے ۔ لیکن ایک بار رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد بھی حافظ صاحب نہیں پہنچے ۔ تو اس موقع پر آپ کے والد ماجد نے گھر میں اہل خانہ کو فرمایا کہ الحمدللہ!غلام صدیق عالم فاضل تو بن گئے لیکن اگر ساتھ میں حافظ ِقران بھی ہوتے تو فرض اور وتر میں پڑھاتا اور نماز تراویح غلام صدیق پڑھاتے۔ یہ بات سن کر خواجہ غلام صدیق نے اپنے والد ماجد کے سامنے دست بستہ ہو کر عرض کی کہ حضور!الحمد اللہ !یہ عاجز قرآن پاک کا حافظ بھی ہے۔ یہ سن کر آپ کے والد ماجد بہت خوش ہوئے اور خواجہ غلام صدیق نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن حکیم کا ختم سنایا۔حالانکہ آپ نے ناظرہ قرآنِ مجید مکمل کیا تھا۔بعد میں حفظ بھی نہیں کیا۔تراویح میں پورا قرآن سنادیا۔ (تجلیات صدیقیہ)
بیعت و خلافت:قادریہ سلسلہ کے مشہور شیخ کامل عارف باللہ حضرت خواجہ غلام حیدر قادری قدس سرہ (درگاہ کٹبار شریف بلوچستان ) کے دست حق پر آپ بیعت ہو کر خلافت سے سر فراز ہوئے۔
سیرت وخصائص:غوثِ زماں، سندالفقہاء، سید الاولیاء،نائبِ غوث و مصطفیٰ،حامیِ اہل سنت،ماحیِ اہل فتن،قاطعِ وہابیت و نجدیت و رافضیت، حضرت علامہ مولانا غلام صدیق شہداد کوٹی۔آپ ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتےتھے۔آپ کے آباؤ اجداد علم و فضل،تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔تحصیلِ علم کےبعد ساری زندگی قال اللہ اور قال رسول اللہﷺ کی صدائیں بلند کرتےرہے۔آپ کی ذاتِ اقدس سے کثیر مخلوقِ خدا نے علمی و روحانی استفادہ فرمایا۔خطۂ سندھ او ربلوچستان میں آپ کا فیضان عام رہا۔احیاِ ءِ مسلک ِ اہل سنت،اور رد روافض و خوارج میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ ماضی قریب کے ان نفوسِ قدسیہ کی بدولت بدعقیدہ لوگوں کو سرزمینِ سندھ کی سادہ لوح سنی عوام کو گمراہ کرنے اور ان کے ایمان پر ڈالہ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔لیکن آج حالات مختلف ہیں۔
عادات و خصائل :آپ شریعت مطہرہ کے پابند، نبی اکرم ﷺ کے عشق میں سر شار ، نہایت ادیب ، انتہائی مخلص ، متقی پرہیز گار، متوکل ، دریا دل سخی ، انتہائی شفیق و مہربان ، پیکر اخلاق، مہمان نواز ، زندگی بالکل سادہ ، عمر بھر چٹائی استعمال کی ، قالین کو پسند نہ کیا۔ دن رات طلباء کی تعلیم و تربیت پر صرف فرما کر تسکین محسوس کرتے ۔ مادرزادولی ، کرامت کے ذہنی اور زبان مبارک سے جو نکلتا وہ ہو کر رہتا۔ ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔تکبیر اولیٰ آپ کی کبھی قضا نہیں ہوئی۔ہمیشہ شہود باری تعالیٰ اور دربار مصطفی ﷺ کی حاضری کا شرف رہتا تھا۔ حضرت کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ دوران سفر بھی ہوٹل کا کھانا ، بازار کی مٹھائیاں پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ کا کھانا پکانے والی خاتون نماز، ذکر شریف کی پابند،با وضو ہو کر کھانا پکاتی تھی اور سفرمیں خادم کھانا تیار کرتا تھا ۔لباس سفید ، عمامہ سفیدیا سبزاور چادر پسند فرماتے تھے ۔ اور ملتانی جوتا استعمال میں لاتے تھے۔
درس و تدریس:شہداد کوٹ میں خانقاہ والی مسجد شریف میں تیرہ سال کی عمر سے دم آخر تک تقریبا پچاس سال درس و تدریس کے ذریعے علم کی روشنی اطراف عالم میں پھیلانے میں بسر کئے ۔ سندھ اور بلوچستان میں کثیر علماء تیار کیے۔جو مسلک حق کی ترجمانی کا حق ادا کررہےہیں۔
وقت کے غوث:ایک مرتبہ آپ لاڑکانہ دعوت میں مدعو تھے۔ اور پلنگ پر تشریف فرما تھے کہ ایک سائل نے سوال کیا کہ حضرت!غوث کو اللہ تعالیٰ نے کتنی طاقت عطا فرمائی ہے؟آپ نے فرمایا : وقت کے غوث کو قدرت نے اتنی طاقت عطا کی ہے کہ اگر پلنگ کو اڑنے کا حکم دے تواڑنے لگے۔ آپ کا اتنا کہنا تھا کہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کا پلنگ حرکت میں آگیا ۔ آپ نے فرمایا: اے پلنگ صبر کر ہم تو غوث وقت کی طاقت بتارہے تھے نہ کہ تم کو حکم دیا تھا۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ: 571)
دربار قلندر میں مقبولیت :ہر ماہ شہباز ولایت حضرت حافظ محمد عثمان سیوہانی المعروف لعل شہباز قلندر (سیوہن شریف ضلع دادو) کے مزار شریف پر حاضری دینا آپ کا معمول تھا۔ شہباز قلندر کے دربار میں آپ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بوقت ضرورت آپ اپنے کسی خادم یا طالب علم کو خط دے کر سیوہن شریف بھیج دیتے تھے اور آپ کا خادم یا طالب علم وہ خط آپ کے حکم سے شہباز قلندر کے مزار پر انوار کے غلاف مبارک کے نیچے رکھ دیا کرتے تھے اور اگلے روز وہ ہی خط اٹھا کر واپس شہداد کوٹ لے کر آتے تھے ۔ اس خط کی پشت پر جواب لکھا ہوا تھا۔(انوار علماءِ اہل سنت سندھ:571)
سادات و علماء کی تعظیم و تکریم :آپ جب بھی مرشد خانہ دربار کٹبار شریف جاتے تو ریلوے اسٹیشن سے بارہ میل تک برہنہ پا اور پیدل جاتے ۔ پیر خانہ پر کبھی بھی چار پائی پر نہیں سوئے حالانکہ آپ کے مرشد کریم کے صاحبزاد گان آپ کے شاگرد تھے ۔ اساتذہ کرام کا بہت احترام کرتے ۔ جن کا نام محمد یا عبدالقادر ہوتا تھا ، اس کا بھی انتہائی احترام فرماتے تھے ۔ سادات کرام اور حفاظ کرام کی بھی بہت تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے ۔مولانا پیر سید تراب علی شاہ راشدی آپ کے شاگردو داماد تھے ۔ ایک بار شاہ صاحب کی آنکھیں دکھنے لگیں اور علاج سے کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آپ اپنے داماد کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے ۔ شاہ صاحب نے حویلی میں پردہ کرایا کی حویلی میں کیسے قدم رکھوں یہ آل رسول کا آستانہ ہے، یہ خاتون جنت کا چمن ہے‘‘۔ بار بار اسرار پر فرمایا:’’میں اپنی آنکھوں پر چادر باندھتا ہوں تاکہ اندر حویلی کے درو دیوار پر میری نظر نہ پڑے اور مجھے احتیاط سے لے کر چلنا تاکہ میرے ہاتھ حویلی کے درو دیوار سے مس نہ ہوں بالآخر ایسا ہی ہوا، آپ کی نظر کرم سے شاہ صاحب کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ کو حویلی سے باہر تک رخصت کے لئے خود اٹھ کر آگئے ۔(ایضا:572)
سفر حرمین شریفین :آپ نے ظاہری زندگی میں دو مرتبہ حجاز مقدس کا سفر احتیار کیا۔ جب آپ جدہ پہنچے تو آپ نے وہاں جوتے اتار دیئے اور وہاں سے تمام سفر برہنہ پا کیا۔ مکہ مکرمہ میں حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا۔ حضور پر نور سید عالم ﷺ کے دربار مقدس میں نہایت عجز و انکساری و گریہ کی حالت میں حاضری دی ۔ آپ کی مسلسل گریہ وزاری دیکھ کر رفقاء کو خوف ہونے لگا کہ کہیں حضرت ہم سے بچھڑنہ جائیں ۔
ردوہابیت:ردوہابیت کے حوالہ سے آپ کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔ جب سندھ میں تاج محمود امروٹی اور عبید اللہ سندھی کے ذریعے وہابیت نمودار ہوئی تو آپ اور آپ کے بےشمار مریدین اور عظیم تلامذہ نے سدباب کیا۔ عوام الناس کو نئے فرقہ و فتنہ وہابیت کی اللہ عزوجل ، رسول اکرمﷺ کی جناب میں گستاخانہ و کفری عقائد سے بروقت آگاہ فرما کر عوام الناس کو گمراہی و بے دینی سے بچایا۔آپ نے وہابیت کے عقائد با طلہ کے رد میں بے شمار فتاویٰ جاری فرمائے جو کہ ’’فتاویٰ جگ ‘‘ میں محفوظ کئے گئے تھے اور رسائل بھی تحریر میں لاتے تھے۔آپ نے سنت کا احیاء کیا، بدعت کا قلع قمع کیا، دین کی اشاعت کی ۔ شیعہ کے غلط عقائد کا نوٹس لیا، ان کی بدعات شنیعہ سے عوام الناس کو آگاہ کیا۔
شاعری :آپ کو عربی ، فارسی ، سندھی ، سرائیکی ، بلوچی وغیرہ زبانوں پر دسترس تھی ۔ فارسی سندھی میں آپ کا نعتیہ کلام منتشر ہے۔ آپ کی زندگی کے تمام پہلووٗں پر کماحقہ کام کرنے کی ضرورت و شدت محسوس کی جارہی ہے۔ بے تحاشہ صدری مواد بھی دستیاب ہو سکتا ہے۔ آپ کا تخلص ’’صدیق‘‘ اور دستخط میں ’’فقیر غلام صدیق شہداد کوٹی ‘‘لکھتے تھے۔تمام مصروفیات کے باوجود آپ تصنیف و تالیف کا وقت نکال لیتے تھے ، فتویٰ نویسی کے کام کیلئے آپ نے خاص وقت مقرر کیا تھا۔ آپ کے نورانی قلم کے نوشتہ نے بے شمار مظلوموں کو ان کا ورثہ اور حقوق دلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ آپ کے فتاویٰ مبارکہ اور مکتوبات شریف جو کہ موتیوں کی لڑیاں اور ہدایت کے شہہ پارے ہیں ، آج بھی بعض حضرات کے پاس نمونہ موجود ہے۔1۔ تفسیر قرآن حکیم بزبان فارسی۔2۔فتاویٰ جنگ۔3۔ دیگر رسائل۔آپ کو دو بیٹے 1۔میاں عبدالوہاب 2۔ میاں غلام دستگیر تولد ہوئے ، لیکن دونوں بچپن میں انتقال کر گئے ۔ مولانا پیر سید تراب علی شاہ راشدی داماد تھے۔ آپ نے اپنے بھانجے مولانا میاں نصیر الدین اول کو جانشین مقرر کیا جس کی تعلیم و تربیت خود فرمائی تھی ۔آپ کے تلامذہ کی کثیر جماعت ہندو پاک ایران ، قطر ، اردن ، خلیج اور افغانستان وغیرہ میں پھیلی ہوئی تھی ۔
دین کے خادم کا مقام :رئیس پیر بخش خان مرحوم کے انتقال کے بعد فرمایا: ’’ہے کوئی باطن کی آنکھ والا جو حاجی پیر بخش کی قبر میں قرب مصطفی ﷺ کی برکات و انوار کا مشاہدہ کرے ۔ مرحوم کو حضور پاک کے مہمانوں (طلباء و علماء ) کی خدمت کے صلے میں یہ انعام و مقام ملا ہے‘‘۔
تاریخِ وصال:غوث ِزمان مفتی اعظم حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی نے 23/ ربیع الاول 1323ھ مطابق 28/ مئی 1905ء کو 63سال کی عمر شریف میں اس دنیا کے حجاب سے نکل کر محبوب کریم ﷺ کی آغوش رحمت میں ہمیشہ کے لئے ہم نشین ہوئے۔
آپ کے وصال کے37سال بعد 1942ء کو شہداد کوٹ میں سیلاب آیا۔ سارا شہرویران ہو گیا۔ پورا شہر پانی میں ڈوب گیا اور ریت کے ٹیلوں تک پانی چڑھ گیا لیکن اس مرد کامل کا مزار مقدس اور متصل پوری درگاہ شریف اس خطرے سے محفوظ رہی ۔ پانی کو قریب آنے کی ہمت نہ ہو سکی ۔ یہ عظیم کرامت دیکھ کر بے شمار ہندووں نے اسلام قبول کر لیا۔آپ کا مزار پر انوار شہداد کوٹ میں مرجع خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔