حضرت خواجہ حسین ناگوری
حضرت خواجہ حسین ناگوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ حسین ناگوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ حسین ناگوری جامع علوم معنی و صوری ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ حضرت حمیدالدین ناگوری رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شیخ وحیدالدین کی اولاد سے ہیں۔
بیعت و خلافت:
آپ حضرت شیخ کبیرکےمریداورخلیفہ ہیں۔اپنےپیرومرشدکی خدمت میں ایک عرصے تک گجرات میں رہے،پھراپنےوطن ناگورواپس ہوئے۔
اجمیرمیں آمد:
آپ اجمیرآئےاوردربارخواجہ غریب نوازمیں مدتوں حاضررہے،خواجہ غریب نوازکےمزار مبارک کی خدمت میں مشغول رہے،عبادت ومجاہدات کرتےرہے۔
واپسی:
خواجہ غریب نوازکاحکم پاکراپنےوطن تشریف لےگئے،وہاں پہنچ کرتعلیم و تلقین میں مشغول رہے۔
سازوسامان:
آپ کےپاس جوجائیدادتھی،یعنی مکان کنواں اورباغ دہ آپ نےسرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پروقف کردی تھی۔
آپ کےپاس ایک چھکڑاتھا۔جوآپ کی سواری کےکام آتاتھا۔اس چھکڑے کوخودہی ہانکتےتھےاور بیلوں کوجواس میں جوتےجاتے تھے،خود ہی چرانےلےجاتے تھے۔
موئے مبارک کی زیارت:
منڈوکےبادشاہ سلطان غیاث الدین خلجی نےآپ کوکئی مرتبہ بلایا،لیکن آپ تشریف نہیں لے گئے۔سلطان غیاث الدین خلجی کےپاس سرورعالم حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا موئے مبارک کہیں سےآیا۔سلطان نےآپ کوخبرکرائی،آپ منڈوتشریف لےگئےاورموئے مبارک کی زیارت سےمشرف ہوئے۔کہاجاتاہےکہ آپ کےدیکھتےہی موئےمبارک آپ کے ہاتھ میں آگیا۔
سلطان غیاث الدین خلجی نےآپ کی آمداپنےلئےباعث خیروبرکت سمجھی،وہ آپ کواپنےوالد کی قبرپرلےگیا،آپ نےاس کےعرض کرنےپراس کےلئے دعائےمغفرت کی۔
نذرانہ:
سلطان غیاث الدین خلجی نےآپ کونذرانہ اورتحائف پیش کئے۔آپ نےقبول کرنےسےانکار کردیا۔آپ کےلڑکےکےدل میں یہ خیال آیاکہ اگرنذرانہ وتحائف قبول کرلیں توکیااچھاہو۔یہ بات آپ کوکشف سےمعلوم ہوئی۔آپ نےاپنےلڑکےسےمخاطب ہوکرفرمایا۔۱؎
"یہ سانپ ہیں۔سانپ کوبھی کسی نےپالاہے"۔
آپ نےجب یہ دیکھاکہ صاحب زادےکی دلی خواہش ہےکہ نذرانہ قبول کیاجائےتوآپ نےاپنے صاحب زادےکوتاکیدفرمائی۔
"اگراس میں سے کچھ لےکرحضرت خواجہ بزرگ اوراپنےداداکےروضہ کوبناؤتولےلو،کیونکہ اس باب میں اپنےپیرشیخ کبیرسےسناہےکہ تمہارےہاتھ زرلگےگا،جس کوتم اپنےمشائخ کے روضوں پر صرف کروگے"۔چنانچہ نذرانہ قبول کیاگیااورحضرت خواجہ غریب نواز اورصوفی حمیدالدین ناگوری کےمزارات پروہ رقم خرچ کردی۔
وفات:
آپ نے۹۰۱ھ میں وفات پائی۔مزارناگورمیں ہے۔
خلیفہ:
حضرت شیخ احمد شیبانی آپ کے خلیفہ ہیں۔
سیرت:
آپ کوحضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ فناتھے۔آپ زہدوتقویٰ،ذوق وشوق،عشق ومحبت اورعلوم ظاہری و باطنی سے آراستہ تھے۔
آپ کی پوشاک بہت معمولی ہوتی تھی۔
آپ نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کےمکتوبات مشہورہیں۔آپ کی مشہورکتابیں حسب ذیل ہیں۔
نورالنبی،آپ نےقسم ثالث مفتاح پرشرح قلم بندکی ہے،اس کےعلاوہ آپ نےسوانح شیخ احمد غزالی پربھی شرح تحریرکی ہے۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۳۷۷
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
آپ حضرت شیخ کبیر کے خلیفہ اعظم تھے علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کیا تھا شریعت و طریقت اور حقیقت میں اہل ہندوستان کے امام جانے جاتے تھے ان کی ولایت اور عظمت پر تمام اہل ہندوستان کے امام جانے جاتے تھے ان کی ولایت اور عظمت پر تمام اہل اللہ قائل تھے بڑے صاحب ذوق اہل محبت کے پیشوا زہدو تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے گجرات میں رہ کر اپنے پیر و مرشد سے ظاہری اور باطنی علوم حاصل کیے اپنے وطن واپس آئے کئی سال حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پُر انوار پر مجاور رہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے جن دنوں اجمیر ویران ہوگیا۔ اجمیر کے گرد و نواح میں وحشی جانورون کا بسیرا تھا صرف آپ اکیلے ہی حضرت خواجہ اجمیری کے حجرے میں قیام فرمارہے ابھی حضرت خواجہ اجمیری کے مزار پر عمارت نہ بنی تھی۔ آپ نے کئی سال محنت کرکے گنبد کھڑا کیا اور شاندار عمارت بنوائی پھر ایک وقت آیا کہ حضرت خواجہ اجمیری کے روحانی حکم پر ناگوار چلے گئے۔ وہاں ایک دارالعلوم قائم کیا اور لوگوں کو علم کی دولت سے مالا مال کرنے میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے نور النبی کے نام سے قرآن پاک کی تیس جلدوں پر ایک تفسیر لکھی ہے ہر پارہ کی علیحدٰ علیحدٰ جلد ہے اس میں معانی اور بیان کی روشنی میں مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ علوم دینیہ کے علاوہ اسرار الہیہ بھی بیان کردئیے ہیں۔ آپ کی ایک کتاب مفتاح بھی بہت مشہور ہوئی۔ آپ کے قلم سے اور بھی کئی رسالے اور تصوّف کی کتابیں سامنے آئی ہیں آپ نے شیخ احمد غزالی کی سوانح کی شرح لکھی ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے حضور سرور کائنات کی زیارت ہوجاتی ہے۔ آپ بذات خود حضرت سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں رہتے تھے۔ آپ کے پاس زمین باغات اور کنویں جتنے بھی تھے حضور کے نام نامی پر نثار کر کے غرباء میں تقسیم کردیئے گئے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ آپ نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی مگر اپنی افطاری کے لیے تھوڑا سا کھانا رکھ لیا۔ کچھ دیر بعد چند مسافر آپہنچے جنہیں پہلے نہ کسی نے دیکھا تھا نہ انہیں کوئی پہنچانتا تھا۔ یہ سارے مسافر کوڑھ کے مرض میں اس حد تک مبتلا تھے کہ ان کی انگلیون سے خون اور پیپ رستی تھی انہوں نے آپ سے کھانے کے لیے کچھ مانگا آپ افطاری کے لیے جو کچھ ساگ دہی اور چاول رکھے تھے انہیں دے دیا وہ شام تک کھاتے رہے افطاری کا وقت ہوا تو وہ کہنے لگے اب ہمارا جوٹھا جو کچھ بچا ہے اس سے افطار کریں آپ پر غلبہ حال تھا آپ نے ان کا پس خوردہ کھانا شروع کردیا اسی دن سے آپ کے فتوحات روحانی اور ظاہری کھل گئے اور آپ پر اللہ کی رحمت کی بارشیں ہونے لگیں۔
حضرت حسین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ایک بہیلی پر سفر کیا کرتے تھے۔ اس بہیلی کو خود ہی چلاتے اور اپنے بیلوں کی خود ہی خاطر و مدارات کرتے تھے لیکن لباس نہایت ہی میلا کچیلا اور بوسیدہ پہنا کرتے تھے صاحب الاخبار الاخیار لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کو ایسے لباس میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ایک شخص شیخ عبدالقادر نامی بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا۔ ان دنوں دہلی میں رہا کرتا تھا وہ فقیرانہ لباس میں رہتا تھا۔ وہ اکثر حسین کے پاس حاضری دیا کرتا تھا وہ تین کپڑوں میں رہتا پگڑی قمیض اور شلوار ایک ہی رنگ کے ہوتے جن کی قیمت ایک روپیہ سے زیادہ نہ ہوتی تھی آپ اس درویش کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
ایک بار آپ مجلس سماع میں تشریف فرما تھے قوالوں کی ایک غزل پر آپ وجد طاری ہوگیا وہ اسی حالت میں اٹھے اور گھر بار چھوڑ کر شہر کے باہر صحرا میں چلے گئے آپ کے پیچھے پیچھے مجلس کے تمام لوگ جن میں مسلمان غیر مسلم سب شامل تھے ہولیے قوال بھی نظم پڑھتے پڑھتے پیچھے تھے صحرا میں ایک بہت بڑی جھیل ہے آپ اس کے کنارے پر پہنچے تو رکنے کی بجائے پانی پر سے یوں گزرے جیسے خشکی پر گزرتے ہیں۔ آپ کے ساتھ ہی تمام لوگ بھی پانی کی جھیل پر سے گزر گئے۔ البتہ قوال کنارے پر رک گئے اور وہ آگے نہ جاسکے اس طرح آپ کچھ راستہ آگے جاکر رک گئے سلطان غیاث الدین کی بڑی خواہش تھی کہ آپ کبھی ان کے دربار میں تشریف لائیں اس نے کئی بار التماس کی کہ آپ مندوا میں قدم رنجہ فرمائیں مگر آپ ہمیشہ انکار کردیتے۔ ایک بار سلطان کے دربار میں حضور سرور کائنات کا ’’موئے مبارک‘‘ لایا گیا۔ لوگوں نے سلطان کو کہا کہ اگر حضرت شیخ حسین گوالیارں کو اس بات کی خبر پہنچائی جائے تو وہ خود بخود دربار میں آئیں گے چنانچہ بادشاہ نے اپنے سرکاری ذرائع سے حضرت کے شہر میں ’’موئے مبارک‘‘ کی آمد کی خبر عام کردی حضرت سنتے ہی تیار ہوگئے اپنی بہیلی پر بیٹھے صلوٰۃ و سلام پڑھتے روانہ ہوئے جب آپ اس شہر کے نزدیک پہنچے تو بادشاہ استقبال کے لیے آگے آیا اس نے دیکھا ایک گرد آلود شخص چلا آرہا ہے اور بیلوں کو خود ہی ہانک رہا ہے لوگوں نے بادشاہ کو بتایا کہ یہی حضرت حسین ناگوری ہیں سلطان نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا آپ نے فرمایا میں تو صرف ’’موئے مبارک‘‘ کی زیارت کو حاضر ہوا ہوں ’’موئے مبارک‘‘ سامنے لایا گیا تو ’’موئے مبارک‘‘ اُڑ کر آپ کے ہاتھ میں آپہنچا بادشاہ بڑا حیران ہوا۔ آپ کو اپنے والد کی قبر پر لے گیا آپ نے دعا مغفرت کی اور ساتھ ہی اس کے والد کی قبر میں بعد از وفات کے حالات بیان کیے۔ بادشاہ نے آپ کی خدمت میں قیمتی تحائف پیش کیے اور نقدی بھی نذر کی مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا مگر اسی مجلس میں حضرت شیخ کے بیٹے کے دل میں خیال آیا کہ اتنا مال و دولت واپس کرنا اچھا نہیں حضرت شیخ نے بیٹے کی خواہش کو بھانپ لیا فرمایا بیٹا یہ سانپ ہیں کوئی عقلمند سانپوں کو اپنے گلے نہیں ڈالتا لیکن اگر تم اس پر قربان ہی ہوگئے ہو تو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس روپے سے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے مزار کی تعمیر کرو اور جو روپیہ بچے اپنے دادا کے مزار کی تعمیر میں صرف کردو مجھے میرے پیران عظام نے بتایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ تمہیں بہت سا مال و زر ملے گا شاید یہ مال و زر وہی ہو لیکن آپ کے حکم پر یہ روپیہ لے لیا گیا اور حضرت اجمیری کے مزار مبارک کی تعمیر میں لگا دیا گیا روضہ مبارک کی تعمیر تو حضرت نے کردی مگر بعد میں مسلمان بادشاہوں نے دوسری عمارات بنائی تھیں اسی طرح حضرت شیخ حسین نے خواجہ حمید الدین چشتی کا مزار بنایا مگر اس کی چار دیواری بعد میں مسلمان بادشاہوں نے بنائی تھی۔ سلطان محمد تغلق نے اس مقبرہ کی عمارات کو بڑے عالی شان طریقہ سے بنایا تھا۔
حضرت شیخ حسین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ۹۰۱ھ میں ہوئی تھی۔
کرد رحلت چو از جہاں فنا
شد بدار الاسلام خاص حسین
عارف متقی است فارنجش
۹۰۱ھ
ہم بفرما امام خاص حسین
۹۰۱ھ
آپ بھی صوفی حمید الدین ناگوری کی اولاد میں سے تھے۔ بڑے ولی اللہ اور صاحب کرامات و مقامات عالیہ تھے۔ علم شریعت، طریقت، حقیقت میں جامع بزرگ تھے۔ تمام ساکنان ناگور کے نزدیک آپ مسلم بزرگ تھے۔ ذوق میں کامل، عشق میں اکمل اور علم میں اتم، زہد و تقویٰ میں اعراف تھے۔ شیخ وحید کی اولاد میں سے اور شیخ کبیر کے مریدوں میں سے تھے۔ اپنے شیخ کی گجرات میں عرصہ دراز تک خدمت کرتے رہے۔ اللہ کی نظرِ عنایت اور ذاتی محنت کی بدولت ظاہری علوم سے فراغت حاصل کرلینے کے بعد اپنے وطن تشریف لائے اور عرصہ دراز تک خواجہ معین الدین کے مزار پر مجاور رہے اور اللہ کی عبادت کرتے رہے۔
جس زمانہ میں اجمیر غیر آباد تھا اور اس کے ارد گرد شیروں کی چراگاہیں تھیں اس وقت خواجہ معین الدین کے مزار پر گنبد وغیرہ نہ تھا تو آپ ہی نے خواجہ صاحب کے روضہ کی عمارت بنانے میں ابتداء کی پھر خواجہ صاحب ہی کے اشارہ سے اجمیر کو چھوڑ کر ناگور چلے گئے اور علم دین کی تعلیم اور ارباب یقین کے طریقہ کی تلقین میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے ایک تفسیر بنام ’’نور الہی‘‘ لکھی ہے جس میں ہر پارہ کی علیحدہ علیحدہ تفسیر کی ہے اور ہر ایک کی جدا جدا جلدیں ہیں۔ اس میں آپ نے حل تراکیب اور قرآن کریم کے وہی معنی کو دوسرے مفسرین نے لکھے ہیں بڑی وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ مفتاح کی قسم ثالث پر بھی آپ نے ایک شرح لکھی ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔
کہتے ہیں کہ سوانح شیخ احمد غزالی کی بھی شرح لکھی ہے۔ آپ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا تھے۔ چنانچہ اپنا گھر کنواں اور ایک باغ جو آپ کا کل اثاثہ تھا سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر وقف کردیا تھا۔
ایک مرتبہ آپ نے اپنے جدّامجد کا عرس کیا اور کھانا تیار کرا کر لوگوں کو کھلایا اور اپنے حصہ کا کھانا افطار کے لیے رکھ لیا آپ کے علاوہ اہل ناگور نے بھی آپ کے جد امجد کے عرس کے موقع پر چاول اور ساگ وغیرہ کا کھانا تیار کیا۔ آپ نے اس میں سے بھی اپنا حصہ لیا اور سب کو یکجا کر کے افطاری کے لیے رکھ دیا۔ اتفاقاً غیب سے چار آدمی آئے جنھیں کوئی نہ جانتا تھا اور یہ چاروں کوڑھی تھے اور یہ مرض اتنا سخت تھا کہ انگلیوں سے خون اور پیپ ٹپک رہا تھا انہوں نے آپ سے کھانا طلب کیا۔ خواجہ صاحب نے جو کھانا اپنے لیے رکھا تھا وہ ان کے حوالہ کردیا۔ انھوں نے وہ کھانا کھا کر تھوڑا سا اس برتن میں بچا دیا اور خواجہ صاحب سے کہا کہ اسے تم کھا لینا چنانچہ خواجہ صاحب نے وہ پس خوردہ سب کھالیا اس دن کے بعد خواجہ صاحب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا دروازہ کھول دیا۔
اہل ناگور کے رواج کے مطابق آپ کے پاس بھی ایک سواری تھی جس پر سوار ہو کر خود ہی چلایا کرتے تھے اور خود ہی گاڑی کے بیلوں کی نگہداشت کیا کرتے تھے (سادہ ہونے کی وجہ سے) پھٹے پُرانے کپڑے زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی اولاد میں سے ایک شخص بنام شیخ عبدالقادر جو فقیرانہ مسلک رکھتا تھا دہلی آیا اس کے پاس خواجہ حسین ناگوری کی اکثر و بیشتر چیزیں تھیں ان چیزوں میں آپ کی پگڑی، کرتہ، پائجامہ بھی تھا لیکن ان کپڑوں کی کیفیت یہ تھی کہ ان میں سے دو ایک کپڑے تو ایسے تھے کہ جن کی قیمت بمشکل ایک پیشہ فی گز ہوگی۔ میں مصنف اخبار الاخیار نے ان چیزوں کو اس شخص کے پاس بچشم خود دیکھا۔ الحمدللہ
ایک مرتبہ سماع میں آپ پر ایک حالت طاری ہوئی آپ اسی حالت میں جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک خاکروب آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا وہ کچھ غزلخواں بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیے یہ نو مسلم مظاہراًو باطناً پاکیزہ اور صاف تھا۔ شہر ناگوری کے باہر ایک بڑا حوض ہے۔ شیخ اس حوض پر حالت جذب میں اس طرح چلنے لگے جیسے کوئی زمین پر چلتا ہے۔ یہ نو مسلم بھی آپ کے پیچھے اس طرح چلتا رہا کہ کبھی گرتا اور کبھی اٹھتا اور پھر چلتا۔
آپ کو مندو کے بادشاہ سلطان غیاث الدین خلجی نے بلایا مگر آپ اس کے پاس تشریف نہ لے گئے، ایک مرتبہ سلطان کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک لایا گیا۔ لوگوں نے بادشاہ سے کہا کہ اگر موئے مبارک کی اطلاع خواجہ حسین کو ہوجائے تو وہ بے اختیار فوراً یہاں آجائے چنانچہ بادشاہ نے آپ کو اطلاع کرادی تو آپ اسی وقت مندو کا قصد کرکے درود شریف پڑھتے ہوئے نہایت ذوق و شوق سے روانہ ہوئے اور جب مندو کے نزدیک پہنچے تو بادشاہ اپنے شاہی اعزاز کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے آیا جب اس نے دیکھا کہ ایک غبار آلودہ پھٹے پرانے کپڑوں والا اپنی گاڑی کو خود چلاتے ہوئے آرہا ہے تو وہ سمجھا کہ خواجہ حسین شاید کوئی اور ہوں گے جب لوگوں نے بتلایا کہ خواجہ صاحب یہی ہیں تو اس نے خواجہ صاحب کا مزاج پوچھنا چاہا۔ لیکن شیخ کو اس کے جواب کی فرصت کب تھی وہ تو بے خودی کے عالم میں موئے مبارک کے دیدار کے لیے آرہے تھے۔ کہتے ہیں کہ موئے مبارک پر جب خواجہ صاحب کی نظر پڑی تو وہ خود بخود اڑ کر آپ کے ہاتھ میں آگیا۔ اس کے بعد بادشاہ آپ کو اپنے والد بزرگوار کی قبر پر لے گیا اور اس کے لیے دعا کی درخواست کی، آپ نے دعا کی اور کشف کے ذریعہ صاحب قبر کی جو حالت معلوم ہوئی وہ بتلادی اس کے بعد سلطان بادشاہ نے آپ کو بڑے قیمتی تحائف دینا چاہا ہے، مگر آپ نے قبول نہ فرمایا، کہتے ہیں کہ ان تحائف کو دیکھ کر خواجہ صاحب کے لڑکے کے دل میں کچھ رغبت پیدا ہوئی شیخ کو کشف کے ذریعہ اس کا علم ہوگیا تو فرمایا اے بیٹے! یہ سانپ ہیں اور سانپ کو کوئی شخص بھی رکھنا پسند نہیں کرتا، اس کے بعد بھی جب دیکھا کہ لڑکے کے دل میں ابھی ان چیزوں کی رغبت باقی ہے تو فرمایا کہ اچھا اگر اس سے خواجہ بزرگ اور اپنے دادا کے روضہ کی عمارت بنوائے تو لےلو کیونکہ میرے شیخ نے فرمایا تھا کہ تمہیں دولت ملے گی اس کو اپنے بزرگوں کی قبر کی تعمیر پر خرچ کردینا۔ کہتے ہیں کہ آپ کے اس صاحبزادے کو سوائے اس کے جو مندو میں دولت ملی تھی اس کے بعد اور کچھ نہیں ملا۔
خواجہ صاحب کے مزار کی بالائی عمارت سلطان غیاث الدین خلجی نے خود بنوائی تھی البتہ آپ کے روضہ کا دروازہ مندو کے دوسرے بادشاہوں نے بنوایا تھا شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری کے روضہ اور دروازہ کی عمارت اور مقبرہ اور ناگوری کی چار دیواری سلطان محمد تغلق نے بنوائی تھی۔
اخبار الاخیار