خواجہ کریم الدین
خواجہ کریم الدین (تذکرہ / سوانح)
فقراء کے درخشاں آفتاب، اتقیا کے چمکدار ماہتاب منتخب اور برگزیدہ لوگوں کے شیخ وقت، صاحب کشف و کرامت، ذات و صفات میں پسندیدہ سرداری کے خلعت سے ممتاز حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری ہیں (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو اپنے انوار اقدس سے منور کرے) اس معزز اور پاک نفس بزرگ نے خرقہ ارادت خواجہ ہبیرہ بصری سے زیب تن فرمایا۔ آپ ریاضات و مجاہدات میں نہایت بلند و ارفع درجہ رکھتے اور مشاہدات میں انتہا سے زیادہ قدر و منزلت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے زمانہ زندگی میں دن کو کبھی کچھ کھایا نہ پیا چنانچہ لکھا ہے جب بزرگ خواجہ پیدا ہوئے تو صرف رات کو دودھ پیا کرتے تھے لیکن صبح کی پوپھٹتی تو اس وقت سے لے کر شام تک دہن مبارک میں چھاتی نہ لیتے غرضیکہ ابتدائے پیدائش سے منتہائے عمر تک ہمیشہ روزہ سے رہے اور کبھی افطار نہیں کیا یہاںں تک کہ خدا تعالیٰ سے ملاقات کی
ھو الذی قد صام فی ایامہ
من مھدہ حتی زمان رقادہ
- یعنی یہ بزرگ وہ مقدس شخص ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ایام گہوارہ سے قبر میں آرام کرنے کے وقت تک روزہ میں بسر کی۔
(سیر الاولیاء)
آں ماحی رسوم وبشری، وباقی أساس رہبری وتابع آثار احمدی، وموصوف بصفات سرمدی، مزین بہ پیرا یہ دین وری، قطب الابدال حجرت کواجہ ممشاد علودینوری قدس سرہ ریاضات و مجاہدات میں بلند مقام اور مشاہدات ومکاشفات میں رفیع الشان تھے۔ وقت کے جملہ مشائخ آپ کے ظاہری وباطنی کمالات کے قائل تھے۔ حقائق ومعارف کے بیان میں آپ کا کلام بہت بلند ہے۔ آپ کا وطن دینور تھا۔ (بہ کسر دال وفتح نون) جو کوہستان کے شہروں میں ایک شہر ہے۔ لیکن تربیت آپ نے بغداد میں پائی۔ آپ کا اسم گرامی علو ہے اور لقب کریم الدین ہے۔ آپ حضرت کواجہ ہبیرہ الصری قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ ہیں۔ راقم الحروف نے مختلف کتب تواریخ کے مطالعہ سے یہی تحقیق کی ہے کہ علو دنیوری وہی ممشاد دینوری ہیں اور میرے مشائخ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن مراۃ الاسرار میں دو ممشاد دینوری کا ذکر کیا گیا ہے ایک وہ جو حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی قدس سرہٗ کے مرشد ہیں دوسرے اور بزرگ ہیں۔ لیکن راقم الحروف اپنے مشائخ کی شہادت کی بنا پر اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا۔ واللہ اعلم
اولیاء وقت کی زیارت
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری قدس سرہٗ مشائخ عراق میں سے تھے، یگانہ روزگار تھے، حافظ قرآن تھے، جامع علوم ظاہری وباطنی تھے، بڑے باعظمت وکرامت بزرف تھے، شیخ جنید بغدادی شیخ ردیم، سفیان ثوری اور شیخ المشائخ حضرت خواجہ معروف کرخی قدس سرہٗ کے صحبت یافتہ تھے۔ نیز حضرت خواجہ معروف کرخی قدس سرہٗ سے آپ کو خلافت بھی ملی تھی۔ اس سلسلہ میں بھی آپ صاحب طریقت وسلسلہ ہیں اس کے علاوہ آپ کو بہت سے دیگر مشائخ واولیاء کی صحبت بھی نصیب ہوئی ہے اور ہر مشائخ سے آپ نے اخذ فیض کیا ہے۔
عبادات، ریاضات وعادات، وخصائل
مرید ہونے سے قبل آپ نے سالہا سال ریاضت ومجاہدہ کیا۔ آپ سات دن کے بعد افطار کرتےتھے۔ گلے کی خشکی دور کرنے کے لیے آپ تھوڑا سا پانی پیتے تھے اور خرما پر اکتفا کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے بلکہ ایام طفلی سے روزہ رکھنا شروع کیا تھا اور شیر خوارگی کے زمانے میں آپ نے دن میں کبھی اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیا تھا۔ غرضیکہ آپ ساری عمر شیر خوارگی سمیت صائم رہے۔ یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ آپ دیدار الٰہی سے افطار کریں۔ حق تعالیٰ نے آپ کو دولت عرفان والدہ کی گود ہی سے عطا فرمائی تھی۔ منقول ہے کہ آپ اوائل عمر میں مال دار تھے۔ جب حق تعالیٰ کے عشق نے غلبہ کیا آپ نے تمام مال ودولت راہ حق میں دے کر کعبۃ اللہ کا رخ کیا اور عرض کیا کہ الٰہی مجھے تیرے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے عیال واطفال تیرے سپرد کیے انکو رزق عطا کرنا تیرا کام ہے۔ آواز آئی کہ اے علو تم میرے ساتھ رہو تیرے عیال واطفال میرے ذمہ ہیں۔ آپ مکہ معظمہ پہنچ کر عبادت میں مشغول ہوگئے۔ ایک دن آپ بیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص طعام کو خونچہ سر پر رکھے آیا اور سلام کیا۔ خواجہ صاحب نے دریافت کیا کہ تم کون ہو اور یہ طعام کس ن ے بھیجا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں رمدان غیب[1] میں سے ہوں مجھے حق تعالیٰ سے حکم ملا ہے کہ یہ نعمت آپ کے فرزندوں کو پہنچادوں۔ نیز آپ کے لیے حق تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میرے کام میں کوتاہی نہ کرنا۔ تیرے اہل وعیال میرے بندے ہیں ان کی فکر نہ کرنا میں نے اپنے خزانہ کے دروازے ان کے لیے کھول دیئے ہیں۔ آپ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عبادت حق تعالیٰ میں مشغول ہوگئے۔ فقر وفاقہ پر قناعت کی۔ یہاں تک کہ کپڑوں پر پپوند لگاکر پہنتے تھے اور خدا کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ بے ہوش ہوجاتے تھے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ آپ حضرت خضرعلیہ السلام کے صحبت یافتہ تھے۔ اور خضر ہی کی وساطت سے آپ حضرت خواجہ ہبیرہ بصری کی خدمت میں پہنچے اور مرید ہوئے۔ خواجہ ہبیرہ نے فرمایا آؤ اے علو! تمہارا کام ہمیشہ علو (یعنی بلند) رہے گا۔ میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ میرے جانشین ہو اور خلق خدا کی ہدایت میں سر گرم رہو۔ اس کے بعد آپ نے ان کو ذکر لاالہ الا اللہ تلقین فرمایا اور خلوقت میں بٹھادیا۔ خلوت میں بیٹھتے ہی حجاب اٹھ گیا اور عرش سے تحت الثریٰ تک سب کچھ نظر آنے لگا۔ راقم الحروف عفی اللہ عنہٗ کہتا ہے کہ ذکر نفی واثبات (لا الہ الا اللہ) اکثر مشائخ سلسلہ چشتیہ کا معمول رہا ہے اور ذکر جہری کے طور پر سالکین کو خلوت میں نفی واثبات کا ذکر کرایا جاتا ہے۔ سلطان المشائخ شیخ نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے طریقہ کے مطابق یہ ذکر اس طرح کیا جاتا ہے کہ لا الہٰ کہتے وقت یہ تصور کرے کہ جو کچھ غیر اللہ ہے میں نے اسے اپنے دل سے نکال دیا ۔ الا اللہ کہتے وقت یہ خیال کرے کہ میں نے حق تعالیٰ کا اثبات کیا۔ یعنی نفی کے وقت یہ تصور کرے کہ کوئی معبود نہیں ہے اور اچبات کے وقت یہ خیال جمائے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے نیز ہر ذکر اور خصوصاً نفی اثبات میں مرشد کا چہرہ چودہ سال کے نو جوان کا تصور کرے۔ اور اپنے چہرہ کی بجائے رکھے یعنی اپنے آپ کو شیخ کی شکل خیال کرے اور شیخ کو اپنا عین تصور کرے اس ذکر کی اتنیمشق کرنی چاہئے کہ قلب ذاکر ہوجائے اور قلب ذاکر ہوجائے اور قلب کے ذکر کی آواز دل کے کانوں سے سنے۔ بعض درویش ذکر کے وقت اپنی زبان ساکت (خاموش) رکھتے ہیں اور دل میں ذکر کرتے ہیں۔ جو اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔ لیکن حضرات قادریہ کے سلسلہ میں بیشتر اسم ذات (اللہ اللہ) کا ذکر کرتے ہیں اور ابتدائے حال میں اسے دل سے جاری کراتے ہیں۔ اس کے بعد باقی لطائف خمسہ پر جاری کرتے ہیں کہ بعد ازاں سارے جسم میں یہ ذکر جاری وساری ہوجاتا ہے۔ اس اثنا میں طالب پر سلطان الاذکار بھی طالب کے پیش آتا ہے ار معاملہ شنید سے نکل کر دید تک پہنچ جاتا ہے (مشاہدہ حاصل ہوتا ہے) اور محو بنائی مطلق ہوجاتا ہے۔ صاحب سیر الاقطاب لکھتے ہیں کہ چونکہ خواجہ ممشاد علو دینوری قدس سرہٗ نے کچھ عرصہ ریاضت ومجاہدہ اپنے پیر مرشد کی خدمت میں کیا تھا ایک دن آپ نےفرمایا کہ اے علو تمہارا کامہوگیا ہے جاؤ وضو کر کے آجاؤ آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت شیخ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا الٰہی علو کو مقام درویشی پر پہنچادے یہ کہنا تھا کہ حضرت خواجہ ممشاد دینوری بے ہوش ہوگئے کچھ دیر کے بعد ہوش آیا لیکن پھر بے ہوش ہوگئے غرضیکہ آپ چالیس بار بے ہوش ہوئے۔ حضرت خواجہ ہبیرہ قدس سرہٗ نے اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں دیا تو حالت درس ہوگئی۔ حضرت شیخ نے فرمایا علو تم نے دیکھ لیا اور اپنے مطلوب ومقصود کا مشاہدہ کرلیا۔ انہوں نے سرزمین پر رکھ دیا۔ اور عرض کیا کہ حضور میں نے تیس سال ریاضت ومجاہدہ کیا لیکن یہ گنج سعادت نصیب نہ ہوا۔ جو طرفہ العین میں پیر دست گیر کے ذریعے حاصل ہوا۔ اس کے بعد حضرت شیخ نے اپنی وہ گلیم جو مشائخ عظام سے ملی تھی خواجہ ممشاد علو کو پہنائی اور سجادہ پر بٹھایا۔ اس دن کے بعد حضرت خواجہ ممشاد علو نے کوئی کام حق تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہ کیا۔ جب کوئی شخص مرید ہونے کے لیے آتا تو آپ سرنگوں ہوکر مراقبہ کرتے اور پھر مرید بناتے تھے ورنہ نہیں اور جو کوئی آپ کا مرید ہوتا اسی روز عرش سے تحت الثریٰ تک اُس پر مکشوف ہوجاتا تھا۔ حضرت اقدس قیلولہ[2]کے سواہر گز نہیں سوتے تھے۔ آپچار پائی پر بھی نہیں سوتے تھے۔ ہمیشہ ذکر مولا اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے۔
ذوق سماع
آپ صاحب سماع تھے۔ آپاکثر سماع سنتے تھے اور مجالس سماع منعقد کرتے تھے۔ مجلس سماع کی ابتدا تلاوت قرآن سے کرتے تھے اور آخر میں بھی قرآن پڑہتے تھے۔ ایک دن آپ کو آنحضرتﷺ کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ سماع کی کس چیز سے آپ کو انکار ہے۔ رسول خداﷺ نے فرمایا ما انکرہٗ بشی(مجھے اس کی کسی چیز سے انکار نہیں ہے)۔ لیکن اہل سماع سے کہہ دو کہ مجلس سماع کا آغاز قرآن سے کیا کریں۔ اس روز سے آپ ہمیشہ اسی پر عمل کرتے تھے۔
بت پرستوں کا ولی اللہ بن جانا
نقل ہے کہ ایک دن کا فر لوگ شہر سے باہر نکل کر بت پرستی کر رہے تھے۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ لوگو تم کو شرم نہیں آتی کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔ آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنتے ہی ان کے دل جہالت سے پھر گئے اور مسلمان ہوگئے حضرت خواجنہ نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا کہ الٰہی تیرے بندے تیری دربار میں حاضر آئے ہیں ان پر عنایت فرمائی جاوے۔ آواز آی کہ اے علوان کے حق میں تم جو دعا کرو پوری کروں گا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ نے ان کے حق میں دعا کی تو انہیں عرش سے تحت الثریٰ تک سب کچھ نظر آنے لگا۔ ذکر حق میں مشغول ہوئے اور تھوڑے عرصے میں مطلوب حقیقی تک رسائی ہوگئی۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت کواجہ علو دنیوری کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کوچہ میں جاؤ تاکہ ممشاد علو کی دعا سے تجھے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس نے کہا خدا کا کوچہ کہاں ہے۔ فرمایا جہاں تم کھڑے ہو۔ چنانچہ اس آدمی نے خلوت اختیار کرلی اور بلند مراتب کو پہنچا۔ ایک دفعہ دنیور میں ایسا سیلاب آیا کہ خلق خدا بھاگی ہوئی حضرت شیخ کی خدمت میں گئی۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کا وسی مرید مصلے پانی پر بچھائے اس پر بیٹھا آرہا ہے حضرت شیخ نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اس نے عرض کیا کہ یہس ب آپ کی دعا کا نتیجہ ہے۔ جب آپ خود جانتے ہیں مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ میں ساری خلقت سے مستفی ہوچکا ہوں۔
جو از عرس وسماع
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے مشائخ کا عرس کی اکرتے تھے اور عرس کے دوران سماع سنتے تھے لوگ مجلس میں جمع ہوتے تھے اور آپ سب کو طعام کھلاتے تھے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ سماع سننا اور وہ بھی عرس کے دن یہ کہاں جائز ہے آپنے فرمایا ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ واسلام، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ اور ہمارے تمام مشائخ نے سماع سنا ہے۔ عرس کے دن کی خصوصیت میں یہ راز ہے کہ اس روز اولیاء کرام کو محبوب حقیقی کا وصال نصیب ہوتا ہے الموت جسرٌ بوصل الجیب الی الجیب (موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے)۔ پس میں اپنے مشائخ کے یوم وصال کی شادی کے موقعہ پر سماع سنتا ہوں تاکہ ان کی توجہ سے ہم بھی مقام وصال تک پہنچ جائیں۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا ہےکہ جو شخص دوستان حق کی دوستی کا انکار کرتا ہے اس کی ادنیٰ ترین سزا یہ ہے کہ اس کو اس دوستی سے ہرگز نہیں نوازا جاتا۔ جب تک توبہ نہ کرے۔
جمع وتفرقہ کیا ہے
آپ فرماتے ہیں کہ جمع یہ ہے کہ خلق کو توحید میں جمع کرے اور تفرقہ یہ ہے کہ شریعت میں تو خلق کو متفرق کرے[3]۔
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے کسی ولی اللہ کی خدمت میں جاکر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ صاف دل کے ساتھ حاضر ہوا ہوں حتیٰ کہ وہ جو چاہیں بیان فرمادین۔ نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عارف کو سر میں ایک آئینہ دیا ہے جب بھی اس کے اندر نگاہ کرتا ہے اللہ دیکھتا ہے۔ نیز فرمایا چالیس سال ہوئے ہیں کہ جب بہشت کو اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ میرےسامنے کیا جاتا ہے تو میں اسے گوشہ چشم سے بھی نہیں دیکھتا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ شیخ عبداللہ طاقی حضرت کواجہ محمد خفیف سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواجہ ممشاد علو دنیوری کو خواب میں دیکھا کہ ہاتھ آسمان کی جانت اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں اے پرور دگار قلوب اے پروردگار قلوب! اور آسمان نیچے کی جانب آرہا ہے حتیٰ کہ آسمان ان کے سر کے برابر آکر پھٹ گیا اور ان کواٹھالیا اور تطروں سے غیب ہوگئے۔ (نقل ہے کہ آخر وقت میں آپ نے ایک شخص سے کہا کہ لا الہ الا اللہ کہو) اس نے کہا میں تمہارے اندر فانی ہوگیا ہوں جو شخص تجھے دیکھتے ہو فرمایا تیس سال ہوئے میں دل کھو بیٹھا ہوں۔ مجھے نہیں مل رہا۔ جب تمام صدیقین نے اس جگہ دل گم کردیا ہے میں اسے کس طرح پا سکتا ہوں
خلفاء
روایت ہے کہ آنحجرت کے تین خلفاء تھے۔ خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی، حضرت ابو عامر اور شیخ احمد اسود دنیوری جو سہروردیہ میں صاحب سلسلہ ہیں۔ آپ کا وصال بتاریخ چودہ محرم ۹۹ھ ہوا۔ سیر الاقطاب میں تاریخ وصال یہ نکالی گئی ہے ‘‘قدوہ اولیائے حق بود’’[4]
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ رجال الغیب جو مختلف علاقوں میں صاحب خدمت ہوتے ہیں اور باطنی طور پر فرائض انجام دیتے ہیں۔
[2] ۔ نماز اشراق وچاشت و معمولات ادا کرنے کے بعد دوپہر کے قریب تھوڑی دیر آرام کرنے کو قیلولہ کیا جاتا ہے۔ یہ عام اولیاء کرام کا معمول رہا ہے۔ رات کے وقت نہیں سوتے تھے کیونکہ رات تو اولیاء کرام کی عید ہوتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔ ہر روز روزِ عید است وہر شب شب قدر است گر قدر بدانی۔
[3] ۔ وجمع اور تفرقہ علم سلوک یا طریقت کے دو اصطلاحات ہیں جمع کے مراد فنافی اللہ ہے جہاں پہنچ کر سالک کو اللہ کے سو ا کچھ نہیں آتا اور تفرقہ سے مراد مقام دوئی جسے نزول یا بقا باللہ ودرجدیت ہے جہاں فنا کے استغراق سے نکل کر سالک دوبار مقام کثرت اور دوئی پر واپس آتا ہے یہاں استغراق ختمہوجاتا ہے اور سالک پر صحو یا ہوشیاری طاری ہوجاتی ہے۔ حضرت شیخ کا مطلب یہ ہے کہ مقام بمع میں سالک خلق کو مخلوق کا عین دیکھتا ہے اور وحدت الوجود قائم ہو جاتا ہے۔ لیکن مقام عبدیت پر نزول کے بعد خالق اور مخلوق میں مغائرت پیدا ہوجاتی ہے اور احکام شریعت لازم آتے ہیں۔ اور یہی تفرقہ ہے یعنی خالق کو مخلوق سے الگ دیکھنا۔ یادر ہے کہ یہ بحث بہت طویل ہے ہاں صرف اس قدر بتایا جا سکتا ہے کہ عینیت اور غیریت کے متعلق جس قدر اخلاق کا طوفان ب رپا ہوچکا ہے محض نزاع لفظی اور بلا ضرورت ہے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے اختلاف کو بھی خود مجدد الف ثانی قدس سرہٗ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے نزاع لفظی کہا ہے۔ کیونکہ ایک لحاظ سے خلق عین خالق ہے اور ایک لحاظ سے غیر ہے۔ چونکہ کائنات حق تعالیٰ کی صفت خلق کا ظہور ہے اگر صفات کو موصوف کا عین تصور کیا جائے تو خلق خالق کی عین ہ۔ اور صفات کو موصوف کا غیر تصور کیا جائے تو خلق خالق کی غیر ہے اس لیے اولیاء کرام نے فرمایا ہے کہ صفات اللہ ھِیَ لاَ عَیْنِہٖ وَ لاَ غَیرِہٖ (یعنی صفات نہ اللہ تعالیٰ کا عین ہیں نہ غیر) یعنی ایک لحاث سے ہم عین کہہ سکتے ہیں اور ایک لحاظ سے غیر یہ صرف نقطۂ نگاہ کا فرق ہے اس سے تصادم لازم نہیں آتا۔ آپ کی مرضی آپ صفات کو موصوف کا عین سمجھیں یا غیر اگر عین سمجھیں گے و اس کا نام وحدت الوجود با جمع اور عینت ہے۔ اگر صفات کو موصوف کا گیر تصور کریں گے تو یہ تفرقہ غیریت ہے وحدت نہیں ہے چنانچہ حضرت شیخ کا مطلب یہ ہو اکہ جب سالک کو ذات احدیت میں فنائیت حاصل ہوتی ہے تو اس وقت وہ ہر چیز کو خالق میں گم دیکھتا ہے یہ وحدت الوجود اور جمع ہے۔ جب مقام دوئی پر واپس آتا ہے تو کثرت قائم ہوجاتی ہے اور خالق و مخلوق میں عینیت کی بجائے غیریت قائم ہوجاتی ہے اور احکام شریعت لازم ہوجاتے ہیں یہ بھی یادر ہے کہ قنائیت عارضی ہوتی ہے اس لیے علی الدوام ترک احکام شرع لازم نہیں آتا۔ یہ چند ساعت کا مراقبہ ہوتا ہے جہاں شریعت سے تحائف کی نوبت ہی نہیں آتی۔ البتہ جو لوگ مجذوب ہوجاتے ہیں اور دائمی طور پر فنا میں رہ جاتے ہیں وہ مرفوع القلم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ معذور ہیں۔
(اقتباس الانوار)
فقراء کے درخشاں آفتاب، اتقیا کے چمکدار ماہتاب منتخب اور برگزیدہ لوگوں کے شیخ وقت، صاحب کشف و کرامت، ذات و صفات میں پسندیدہ سرداری کے خلعت سے ممتاز حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری ہیں (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو اپنے انوار اقدس سے منور کرے) اس معزز اور پاک نفس بزرگ نے خرقہ ارادت خواجہ ہبیرہ بصری سے زیب تن فرمایا۔ آپ ریاضات و مجاہدات میں نہایت بلند و ارفع درجہ رکھتے اور مشاہدات میں انتہا سے زیادہ قدر و منزلت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے زمانہ زندگی میں دن کو کبھی کچھ کھایا نہ پیا چنانچہ لکھا ہے جب بزرگ خواجہ پیدا ہوئے تو صرف رات کو دودھ پیا کرتے تھے لیکن صبح کی پوپھٹتی تو اس وقت سے لے کر شام تک دہن مبارک میں چھاتی نہ لیتے غرضیکہ ابتدائے پیدائش سے منتہائے عمر تک ہمیشہ روزہ سے رہے اور کبھی افطار نہیں کیا یہاںں تک کہ خدا تعالیٰ سے ملاقات کی
ھو الذی قد صام فی ایامہ
من مھدہ حتی زمان رقادہ
یعنی یہ بزرگ وہ مقدس شخص ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ایام گہوارہ سے قبر میں آرام کرنے کے وقت تک روزہ میں بسر کی۔
آپ کا لقب کریم الدین تھا، ریاضت اور مجاہدہ میں عالی مقام رکھتے تھے کلام پاک کے حافظ تھے خرقۂ خلافت و ارادت حضرت خواجہ ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ سے پایا آپ عراق کے صاحب ولایت و کرامت مشائخ میں مشہور تھے آپ حضرت جنید بغدادی رویم اور حضرت سفیان نوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر تھے، حضرت شیخ معروف کرفی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کے پاس بھی حاضری دیتے تھے۔ ان سے بھی خرقۂ خلافت حاصل کیا تھا، آپ کو سلسلہ معروفی سے بھی اجازت ملی تھی،حضرت شیخ معروف کرفی سے چار نسبتوں سے واسطہ تھا۔
خواجہ علو دینوری،خلیفہ شیخ عبداللہ بن خفیف وہ خلفہ شیخ محمد رویم کے تھے اور وہ حضرت جنید بغدادی کے خلیفہ تھے آپ حضرت سری سقطی کے خلیفہ تھے، وہ حضرت معروف کرخی کے خلیفہ تھے۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین، ان حضرات کے علاوہ بھی آپ نے بہت سے بزرگان دین سے فیض پایا تھا۔
خواجہ علو دینوری ابتدائی زندگی میں بڑے صاحب ثروت و دنیا دار تھے، مگر جب اللہ سے لگاؤ، ہوا تو سب کچھ غریبوں میں تقسیم کردیا اور کعبۃ اللہ کی طرف روانہ ہوگئے، اور فرمایا اے اللہ میں نے اپنے عزیز و اقارب کو تیرے سپرد کردیا ہے اب انہیں رزق دینا تیرا کام ہے، دینور سے روانہ ہوئے، مکہ معظمہ پہنچے ایک دن دوران سفر ایک شخص کو دیکھا کہ سر پر کھانا رکھے تیز تیز جا رہا تھا، پوچھا تم کون ہو، اور کہاں جا رہے ہو، اور یہ کھانا کس کے لیے ہے؟ فرمایا میں رجال الغیب سے ہوں، یہ کھانا تمہارے اہل و عیال کے لیے ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہر روز انہیں کھانا پہنچاؤں۔
جس دن خواجہ علو دینوری نے خرقہ خلافت پہنا، خواجہ ہبیرہ بصری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو فرمایا اے علو، جاؤ تماہرا کام بھی علو (اعلیٰ) ہوگیا، وضو کرکے ہمارے پاس آؤ، وضو کرکے آئے تو پیر روشن ضمیر نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہا اے اللہ! علو کو درویشی عطا فرمادے یہ بات سنتے ہی خواجہ علو بیہوش ہوکر گر پڑے چند لمحوں کے بعد ہوش میں آئے پھر بے ہوش ہوگئے، اس طرح چالیس بار بے ہوش ہوئے آخرکار پیر روشن ضمیر نے اپنا لعب دہن منہ میں ڈالا، آپ کو ہوش آیا ، قدموں میں گر گئے، فرمایا،علو! تمہیں اپنے مطلب کا دیدار ہوگیا ہے آپ نے عرض کیا کہ میں تیس سال مجاہدہ کرتا رہا ریاضتیں کیں، مگر یہ مقام نہ پاسکا، آج آپ کی وساطت سے ایک لمحہ میں پہنچ گیا ہوں، اور بے پناہ دولت م لی ہے، خواجہ ہبیرہ نے اپنا خرقہ پہنایا اور اپنے مصلی پر بٹھا کر ارشاد و سلوک کی اجازت دی۔
حضرت خواجہ علو کی عادت تھی کہ اپنی زندگی کے چالیس سالوں میں دن کے وقت کبھی کوئی چیز نہیں کھائی رات کو کچھ نہ کچھ کھالیتے تھے بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ شیر خوارگی کے زمانہ میں بھی آپ صرف رات کو دودھ پیا کرتے تھے، آپ تولد سے لحد تک صائم الدہر رہے۔
آپ کی وفات ۲۹۸ ھ میں ہوئی اور اسی پر تمام وقائع نگاروں کا اتفاق ہے، یاد رہے کہ بزرگان دین کے حالات میں ایک اور بزرگ خواجہ ممشاد دینوری کا نام نامی بھی ملتا ہے آپ سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ تھے، اور حضرت خواجہ جنید کے سلسلہ میں سے تھے، بعض تذکرہ نگاروں نے خواجہ علو دینوری اور خواجہ ممشاد دینوری کو ایک ہی بزرگ لکھا ہے ان دنوں نے دونوں خاندانوں سے فیض پایا تھا، اس لیے یہ تسامح واقعہ ہوا ہے، دار اشکوہ نے اپنی مشہور کتاب سفینۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ خواجہ علو دینوری خانوادہ چشتیہ عالیہ کے بزرگ تھے اور خواجہ ممشاد دینوری خانوادہ سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے شاید دار اشکوہ کی یہ تحقیق درست ہی ہو، مگرایک بات سامنے آتی ہے کہ دونوں بزرگوں کی تاریخ وفات ایک ہی ہے یعنی ۲۹۸ھ ہوسکتا ہے اس وجہ سے یہ شک پیدا ہوا ہو، اور لوگوں نے ممشاد اور علو کو ایک ہی شخصیت جان لیا ہو۔
تاریخ وفات:
شیخ عالی علو دینوری
یافت چوں زین جہاں بخلد مکان
شد عیاں آنچہ از دل سرور
سالِ ترحیل آن شہِ ذیشاں
۲۹۸ھ