حضرت خواجہ معین الدین خرد
حضرت خواجہ معین الدین خرد (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ معین الدین چشتی کے پوتے، یعنی حسام الدین سوختہ کے فرزند تھے، چونکہ آپ کا نام بھی معین تھا اس لیے بڑے اور بزرگ بہ نسبت آپ کو خورد (یعنی چھوٹا) کہا کرتے تھے اور یہی تعریف آپ کے لیے بہت کافی ہے کہ آپ کامل درویش تھے۔ مرید ہونے سے قبل ہی ا تنی ریاضت اور مجاہدہ کیا تھا کہ بغیر کسی واسطہ کے خواجہ معین الدین چشتی سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ آخر کار خواجہ صاحب کے ارشاد سے شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے مرید ہوئے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ شیخ حسام الدین سوختہ کے چھوٹے بیٹے شیخ قیام بابریال بڑے خوبصورت بہادر، شجاع اور پُرعظمت تھے۔ خواجہ معین الدین خرد اور شیخ قیام الدین کی کثرت سے اولاد ہوئی۔ مندو میں جو خاندان چشتیہ ہے وہ بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں، اگرچہ ان کا نام شیخ قطب الدین تھا، لیکن محمود خلجی نے انہیں چشتیہ خاندان کا لقب دیگر دو ہزار سواروں کا سردار مقرر کردیا تھا۔ سلطان محمود نے جب اجمیر کو فتح کیا تو اجمیر کو چشت خاندان کے حوالہ کرنا چاہا، لیکن آپ کے متعلقین خورد و کلاں مندو میں مقیم تھے، اس لیے چشت خاندان نے اجمیر کی حکومت کو قبول کرنے سے انکا رکردیا۔ شیخ قیام الدین بابریال کی اولادمیں سے شیخ بایزید بزرگ بھی ہوئے ہیں، جو نہایت ہی زیرک اور سمجھدار تھے اور خواجہ کے مزار پر پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ احمد مجدد اور دوسرے حضرات آپ ہی کے تلامذہ میں سے ہے۔
خواجہ چشت کے بیٹوں میں سے جس بیٹے کی بابت جھگڑے منسوب ہیں وہ یہی شیخ بایزی بزرگ ہیں، جھگڑے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دارالخلافہ دہلی میں شورش اور اختلاف کی وجہ سے حکومت کمزور ہوگئی تو اس کے نتیجہ میں کافروں کا اجمیر میں تسلط اور غلبہ ہوگیا تو خواجہ چشت کی اولاد میں سے خواجہ معین الدین خرد مندو چلے گئے اور وہیں رہنے لگے اور شیخ قیام الدین بریال گجرات میں جاکر حصول تعلیم میں مشغول ہوگئے۔ اسی طرح شیخ بایزید بزرگ بغرض تعلیم بغداد چلے گئے۔ سلطان محمود خلجی نے ایک عرصہ اور مدت کے بعد دوبارہ اجمیر کو فتح کرکے اس پر اسلامی پرچم لہرادیا اور یہاں کے تمام کفار کو ہزیمت و شکست دی۔ شیخ بایزید بزرگ بغداد وغیرہ کے اسفار سے واپس تشریف لائے۔ شیخ محمود دہلوی جو مندو کے شیخ الاسلام تھے اور تمام علماء میں آپ کو بڑا تسلیم کیا جاتا تھا۔ ان کی شیخ بایزید بزرگ سے کسی موقع پر ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کے بعد دونوں کے مابین تعلقات وابستہ ہوگئے، چنانچہ مندو ہی میں شیخ محمود دہلوی نے اپنی دختر نیک اختر کی شادی بھی بایزید بزرگ سے کردی۔ اتنے میں سلطان محمود خلجی بھی بایزید بزرگ کا اچھا خاصا معتقد ہوگیا، چشت خان کو بایزید بزرگ کا معتقد ہو جانا سخت ناگوار گزرا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ علماء اور مدرسین کے تقرر کی خاطر سلطان محمود خلجی ایک بار اجمیر میں تھا کہ چشت خاں نے کسی نہ کسی طرح شیخ با یزید بزرگ خواجہ کے مزار پر تعلیم دینے کی غرض سے بھجوادیا۔ چنانچہ لوگوں نے ان تمام حالات کو تحریر کرکے سلطان کی طرف بھیج دیا۔ جب سلطان نے ان باتوں کو دیکھا تو اس نے علماء اور مشائخ وقت سے شیخ بایزید بزرگ کی خاندانی شرافت کے بارے میں دریافت کیا۔ مخدوم خواجہ عین ناگوری اور مولانا رستم اجمیری جیسے اجمیر کے قدیمی علماء اور دیگر معزز علماء نے بھی شہادت دی تھی کہ بایزید بزرگ دراصل شیخ قیام الدین بریال بن شیخ حسام الدین سوختہ بن شیخ فخرالدین ابن خواجہ معین الدین چشتی کی اولاد میں سے ہیں اور اگر صرف خواجہ حسین ناگوری ہی شیخ بایزید بزرگ کا نسب بتادیتے تو کافی تھا، کیونکہ خواجہ حسین ناگوری ولی، مقتدا اور اس سلسلہ کے بخوبی عارف تھے، نیز خواجہ حسین ناگوری نے شیخ بایزید بزرگ کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں بھی دی تھیں۔ یہ بھی اس امر کا ثبوت تھا کہ شیخ بایزید بزرگ کا سلسلہ خاندان خواجہ معین اجمیری تک پہنچتا ہے اور یہی حقیقی اور فی الواقع امر ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
غرض یہ کہ خواجہ اجمیری کی اولاد کی کثرت اور وسعت ایک یقینی بات ہے اور لوگوں کا یہ کہنا کہ خواجہ کی کوئی اولاد نہ تھی، بالکل بے اصل بات ہے، بلکہ خواجہ اجمیری کی اولاد ملفوظات چشت میں بالتفصیل درج ہے۔ شیخ حمیدالدین کے پوتے شیخ فرید نے اپنی کتاب سرور الصدور میں اپنے جد امجد کے حوالہ سے تحریر کیا ہے کہ ہمارے شیخ کے لڑکے پیدا ہوچکے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ حمید! کیا بات ہے ہم اپنی جوانی اور قوت کے زمانہ میں اللہ سے جو کچھ مانگتے، فوراً اور جلدی مل جایا کرتا تھا، لیکن اب بڑھاپے میں جو دعا کرتے ہیں تو اُلٹا کام بگڑ جاتا ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ شیخ کو خوب معلوم ہوئے کہ جب تک حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے تھے تو بغیر محنت و مشقت کے انہیں محراب میں سردیوں کا گرمیوں میں اور گرمیوں کا سردیوں میں پھل دیا جاتا تھا، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور ولادت کے بعد حضرت مریم منتظر ہیں کہ پہلے کی طرح اب بھی میوہ جات ملتے رہیں، مگر وحی آئی کہ (جاؤ کھجور کی شاخوں کو ہلاؤ تاکہ تمہاری جانب تازہ کھجوریں گریں)
آپ کی پہلی اور موجودہ حالت میں یہی فرق ہے۔ خواجہ نے میرے اس جواب کو قبول کیا اور پسند فرمایا۔
اخبار الاخیار