حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی ابن حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین سیالوی(قدس سرہما)۱۲۵۳ھ؍۱۸۳۷ء میں سیال شریف ضلع سرگودھا میںپیا ہوئے آپ صورت و سیرت میں اپنے والد مکرم کا عکس جمیل تھے۔حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ کے وصال کے بعد تونسہ شریف حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ نے آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا،ایک عالم آپ کی نظر کیمیا اثر سے مستفیض ہوا[1] مولانا محمد ذکر بگوی ثم لاہور رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے مرید اور مجاز تھے۔
حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی اخلاق عالیہاور اصاف حمیدہ کے مالک تھے لنگر میں بری فراخ ولی سے خرچ کرتے ،متعلقین کی خبر گیری میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہ کرتے،احباب کے غم اور خوشی میں بہ نفس نفیس شریک ہوتے،ایک شخص نے یہ باتیں آپ کی شان کے خلاف سمجھیں اور حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ کی خدمت میں خفیہ عریضہ ارسال کر کے درخواست کی کہ آپ انہیں ان امور سے منع فرمائیں،حضرت خواجہ تونسوی جواب دیا:۔
’’اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے یہ کام تو اسلام اور سید الانام کی متابعت ہے،ایسے کاموں میں کسر شان نہیں بلکہ نہ کرنے میں نقصان ہے۔ادب تجھے لازم ہے کہ اگر توان کے والد کامرید ہے تو تجدید بیعت کر اور یہ خیال دل سے نکال دے[2] ‘‘
حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ آپ سے بری عقیدت و محبت رکھتے تھے،آپ ہی کے ارشاد پر حضرت اعلیٰ گولڑوی تونسہ شریف گئے تھے۔آپ ہی کے ایماء پر انہوں نے ابتداء پاکپتن شریف کا سفر شروع کیا تھا،آپ ہی کے کہنے پر پیر صاحب نے حضرت دیوان غیاث الدین اجمیری کی تائد و معاونت کے لئے مسئلۂ سماع پر سرحدی علماء سے پشاور میں مناظرہ کیا تھا،حضرت اعلیٰ گولڑوی کے اس شعر ؎
آکھیں خواجہ شمس دیں دے لعل نوں
گوڑھے نیناں والرے لجپال نوں
اور حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی کیاصلاح دادہ اس شعر ؎
پیت کا وعدہ کر کے پیانے،پیت نبھانا چھوڑدیا
مہرؔ نے اکھیاں پھر لئیں،دم دم کا آنا چھوڑ دیا
کو دیکھنے سے دونوں حضرات باہمی تعلق کا اندازہ ہوتاہے۔
حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی قدس رہ کی مساعئی جمیلہ سے خواجہ شمس العارفین سیالوی کے مزار شریف کا بلند و بالا گنبد،وسیع و عریض مجلس خانہ،تالاب،عالی شان بنگلہ اور کنواں تعمیر ہوا،آپ کو اپنے پیر خانہ سے اس قدر محبت تھی کہ ہر سال تین چار مرتبہ ضرور حاضری دیتے اور جب علالت کی وجہ سے نقابت بہت بڑھ گئی تو چار پائی پر سفر کیا اور تونسہ شریف حاضری دی[3]
آپ کثیر الکرامات بزرگ تھے،ایک دفعہ پاکپتن شریف سے واپسی پر خدام کو کھانا پکانے کا حکم دیا اور آنے سوالیہر قافلیکو کھانا کھلاتے رہے یہاں تک کہ تین سو افراد نیکھاناکھایا جبکی اس وقت بیس سیرآٹا،آٹھ آنے کا گی اور ایک روپے کی شکر پاس تھی،
آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے جو سب کے سب عالم اور حافظ تھے،
۱۔ صاحبزادہ محمد امین(م۳۳۳۱ھ)
۲۔ صاحبزادہ محمد ضیاء الدین۔
۳۔ صاحبزادہ محمد عبد اللہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)
۴۔ صاحبزادہ محمد سعد اللہ مدظلہٗ
۲ رجب المرجب(۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ئ)کو حضرت خواجہ ممد الدین سیالوی قدس سرہ کا وصال ہوا اور والد گرامی حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ کے پہلو میں آرام فرما ہوئے۔آپ کے وصال کے بعد حضرت خواجہ ضیاء الدین سیالوی مسند نشین ہوئے[4]
مولانا امیر بخش مؤلف انوار شمسیہ نیایک ہی شر میں عمر شریف اور سن ولادت و وصال کو ـذکر کیاہے ؎
میلاد ’’مظہر حق‘‘ عمر ش ’’جمال گشتہ‘‘
’’مظہر جمال حق‘‘ شد تاریخ انتقال[5]
[1] امیر بخش ،مولانا: انوار شمسیہ المعروف بہ خطبہ چشتیہ(۱۹۱۶ئ)، ص ۸۷۔۸۸۔
[2] سلطان احمد فاروقی،مولانا: ماہنامہ الحبیب،جمیعت نمبر ،اکتوبر۰ ۱۹۷ء ص،۳۔
[3] امیر بخش،مولانا: انوار شمعیہ،ص ۹۸۔
[4] سلطان احمد فاروقی،مولانا: تذکرہاولیائے چشت،(طبع ثانی،سن ندارد ) ص۱۔ ۲۴۰۔
[5] امیر بخش،مولانا: انوار شمسیہ،ص۱۰۳
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)