حضرت خواجہ نظام الدین خاموش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ خواجہ علا ؤ الدین کے مرید ہیں۔آپ نے خواجہ بزرگ کو تحصیل علم کے زمانہ میں بخارا کے ایک عالم کی صحبت میں دیکھا تھا۔اس کے بعد خواجہ علاؤ الدین کی صحبت میں پہنچے ہیں۔آپ کی صحبت میں پہنچنے سے پہلے طرح طرح کی ریاضت و مجاہدات میں مشغول رہتے تھے۔تزکیہ نفس اور دل کے تصفیہ میں بڑی سعی کیا کرتے تھے۔فرماتے ہیں میں نے اول دفعہ جبکہ میں خواجہ علاؤ الدین رحمتہ اللہ کی صحبت میں پہنچا تو دیکھاکہ خواجہ بزرگ کے مریدوں میں سے ایک شخص آپ کے مکان کے باہر بیٹھا ہوا ہے۔اس نے مجھے دیکھا تو کہاکہ مولانا نظام الدین اب وقت آگیا کہ تم اپنے زہدوں اور پاکیزگیوں سے گزر جاؤ گے۔یہ ان کی بات مجھ کو گراں معلوم ہوئی۔جب خواجہ کے پاس آیا تو آپ نے بھی یہی فرمایالیکن آپ کا فرمانا مجھے گراں نہ معلوم ہوا۔مولوی مخدومی مولانا سعد الدین کاشغری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہمیشہ آپ کا کرتہ آگے سے چرب رہا کرتا تھا۔مجھ کو یہ مشکل معلوم ہوا کہ اس کا سبب کیا ہے۔آخر ایسا معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے وقت میں غلبہ حال کی وجہ سے جو آپ کو رہتا تھا۔آپ کے ہاتھ مبارک سے چمچہ گرجایا کرتا تھااور جو شور با کھایا کرتے ہیں وہ کپڑے پر گر جایا کرتا ہے۔اس لیے چکنا ہوجاتا ہےاور آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب خواجہ علاؤ الدین کی صحبت میں ان پر جذبہ اور غلبہ کے آثار ظاہر ہوئےتھے۔خواجہ نے چاہا کہ یہ آثار ان سے واپس لے لیں۔تب آپ نے فرمایا کہ بغرا(بغرا ایک قسم کا پلاؤ ہوتا ہے جس میں گوشت ،میدہ،چنےروغن پڑتا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس قسم کا پلاؤترکستان پکتا ہے۔ترشی وغیرہ پڑتی ہے۔چونکہ بغرا خان بادشاہ نے اس کی ایجاد کی تھی۔اس لیے اس کو بغرا کہتے ہیں۔)پکائیں اور کواجہ نے کمر باندھی تھیاور خود مشغول تھے۔جب بغرا ڈالنے کا وقت آیا تو مولانا نظام الدین کو بلایا اور شوشسان(چاندی کی سلاخ یا چمچہ)ان کے ہاتھ میں دیا کہ بغرا ڈال دیں۔جب ایک بغرا ڈالا تو مغلوب ہوگئےاور شوشہ ان کے ہاتھ سے گر پڑا۔خواجہ نے فرمایاکہ مولانا نظام الدین اٹھو جس کے خدائے تعالی نے اپنی طرف مشغول کر دیا ہوہم نہیں کرسکتے کہ اس کو اس سے ہٹالیں۔
آپ یہ فرماتے ہیں کہ مولانا نظام الدین فرماتے تھے،ایک دن حضرت خواجہ کا ارادہ ہوا کہ خواجہ علی حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ کی زیارت کریں۔میں ہمراہ نہ گیااور جہاں کہ تھا وہیں متوجہ ہو کر بیٹھ گیا۔ان کی روح حاضر ہوئی۔جب حضرت خواجہ ان کے مزار پر پہنچے تو خالی پایا۔انہوں نے ضرور اس روح کی جہت کو معلوم کرلیا ہوگا۔جب واپس آتے تو چاہا کہ میری طرف متوجہ ہوجائیں اور تصرف کریں۔میں بھی متوجہ ہوگیا۔اپنے آپ کو کبوتر کی طرح پایااور خواجہ کو باز کی طرح کہ میرے پیچھے بھاگتا ہےجہاں میں بھاگتا تھاوہ میرے پیچھے ہوتے تھے۔آخر میں بے قرار ہوگیااور حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت مبارک میں پناہ لی اور حضور کے بے نہایت انوار میں محو ہوگیا۔اب خواجہ کو قابو پانے کی طاقت نہ رہی اس غیرت سے آپ بیمار ہوگئےاور کسی نے بیماری کا سبب نہ جانا۔یہ بھی آپ فرماتے تھے کہ آپ کے مخلصوں میں سے ایک شخص کو قویٰ مرض پیدا ہوگیا۔آپ نے فرمایا کہ ہم اس کی بیمار پرسی کو جاتے ہیں۔راستہ میں جاتے تھے تو کہنے لگے فلاں شخص ہماری بڑی شائستہ خدمتیں کرتا رہا،ہمیں چاہیے کہ اس کی بیمار پرسی کو جائیں اور اس کے بوجھ کو تلے آئیں۔اس کی بیماری اٹھالیں۔میرا دل اس سے بہت ڈرگیاجب آپ اس کے سرہانے بیٹھے تو وہ بستر پر پڑا ہوا تھا۔بات اور حرکت کرنے کی طاقت اس میں نہ تھی۔مولانا ایک گھڑی متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اتنے میں وہ شخص بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ یہ بوجھ بھی تمہارے حوالہ ہے تم بڑی باتیں بناتے رہتے ہو۔جب باہر آئے تو فرمایا کہ وہ چلنے والا ہے اور اس کا بوجھ اٹھا نہیں سکتےہم نے پھر اسی کے حوالہ کردیا۔چنانچہ وہ شخص اس مرض میں فوت ہوگیا۔
آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک رات منکروں میں سے ایک شخص آپ کی نسبت باتیں کر رہا تھا اور میں بھی اس کے مقابلہ میں باتیں کر تا تھا،چنانچہ بات بڑھ گئی اور جہاں کہ ہم تھے ۔ان کا مکان دور تھا یہ ممکن نہ تھا کہ آواز وہاں تک پہنچے۔جب میں صبح کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا،کل تمہاری آواز ہم کو پریشان کرتی تھی۔تم کو چاہیے کہ جو شخص کچھ کہے ،اپنی طبیعت کو ادھر مشغول نہ کرو۔اپنے کام میں لگے رہو ۔جناب مخدومی خواجہ عبید اللہ اوام اللہ القابہم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن ان کی زیارت کا احرام باندھا تھا،تو میرے دوستوں میں سے ایک دوست راہ میں مجھے ملا۔اس نے شراب پی ہوئی تھی اور اس کے آثار اس پر ظاہر تھے۔اس نے مجھے باتوں میں لگا لیا۔جب آپ کی خدامت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا ،شاید تم نے شراب پی ہے۔میں نے عرض کیا کہ نہیں۔فرمایا کہ پھر تمہاری کیا حالت ہے۔میں نے کہا،راستہ میں ایک مست سے ملا تھا۔اس سے چند باتیں کی تھیں۔فرمایا کہ پس یہی وہ حالت ہےکہ تم کو اس کا اثر ہو گیا۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مولانا نظام الدین فرماتے تھے۔سمرقذ کے ایک بزرگ جس کو ہماری نسبت بہت اخلاص اور محبت وارادت تھی بیمار ہوگیا۔یہاں تک کہ مرنے کہ قریب آگیا۔ان کے فرزنددوں اور متعلقین نے بہت عاجزی کی۔میں نے مراقبہ کیا ۔دیکھا کہ اس کی زندگی اور بقا سوائے اپنے ضمان میں لینے کے نہیں۔میں اس کو ضمان میں لیا۔اس کو صحت ہو گئی ۔کچھ عرصہ کے بعد ہماری نسبت ایک تہمت ہوگئی جو ہماری ذلت کا باعث ہوئی۔اور وہ شخص اس کام میں سعی کر سکتا تھا۔جس سے وہ تہمت دفعہ ہو جاتی،مگر اس نے خودداری کی اور اس میں دخل نہ دیا۔ہماری طبیعت اس سے ناراج ہوگئی۔ہم نے اس کو اپنے ضمان سے نکال دیا۔تب وہ اس وقت گر پڑااور مرگیا۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے یہ خبر دی گئی کہ مولانا بیمار ہوگئے۔جب میں آپ کی خدمت میں گیا تو آپ کو سخت لرزہ ہو رہا تھا۔چنانچہ آگ جلائی ہوئی تھی اور بہت سے کپڑے آپ پر ڈالے گئے تھے۔آپ کو کچھ تسکین نہ ہوئی۔میں ایک گھڑی تک بیٹھا۔آپ کے مریدوں میں سے ایک شخص جس نے گیہوں چکی میں پیسنے کے لیے لے گیا تھا۔آیا اس کے کپڑے تر تھےاور بڑی سردی کا مارا تھاکہ چکی کی راہ میں اس پر پانی پڑا تھا۔جب مولانا نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ اس کو گرم کروکیونکہ یہ اسی کی سردی ہے جو مجھ میں اثر کر گئی ہے ۔جب ایسا کیا گیا تو آپ کی سردی جاتی رہی اور ہوش آگیا۔
(نفحاتُ الاُنس)