حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 1036 | رجب المرجب | 08 |
حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ ہندوستان کے بہت بڑے ولی اللہ تھے ظاہری اور باطنی تصرف کے مالک تھے مذہباً حنفی تھے اور چشی صابری تھے آپ کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ شیخ جلال الدین تھانیسری کے بھتیجے تھے اور داماد بھی تھے خلیفہ بھی تھے اور جانشین بھی تھے اور آپ کے ہی سجادہ نشین تھے اگرچہ آپ نے ظاہری علوم میں اُستاد سے ایک سبق نہ پڑھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں علم لدنی سے نوازاتھا اور آپ پر ظاہری اور باطنی علوم کے کمالات منکشف ہوگئے تھے باوجود یکہ اُمی تھے مگر بڑے بلند حقائق اور نقطے بیان کیا کرتے تھے آپ کی گفتگو موتی کی لڑیاں تھیں اُمّی ہونے کے باوجود آپ کی تصانیف شرح لمحات مکی و مدنی بڑی مشہور ہوئی ایک رسالہ حقیقت لطیفہ باطن وجود لکھا ریاض القدس کے نام سے قرآن کے آخری دو سپاروں کی تفسیر لکھی امام غزالی کے رسالے کی شرح لکھی علماء بلخ کے اعتراضات کا جواب رسالۂ بلخی میں دیا۔ سماع کے جواز میں ایک مکمل کتاب لکھی آپ کو سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں خاص مقام حاصل تھا وہ بات کرنے میں کسی کے مقلد نہیں تھے جو اُن پر اللہ کی طرف سے کشف ہوتا وہ اپنی کتابوں میں لکھ دیا کرتے تھے وہ شریعت اور طریقت کے علوم اپنے وقت کے تمام علماء سے بڑھ گئے تھے ان علوم کے علاوہ آپ کو علم کیمیا و سیمیا اور بیما اور لیمیا میں بڑی مہارت تھی غائب کے خزانے اور زمین میں دبے ہوئے سونا چاندی کے ذخیرے آپ کو نظر آجاتے تھے اپنے پیر و مرشد کی وفات کے بعد سجادہ نشین بنے تو آپ کی کرامتیں اور کرامات دنیا میں پھیل گئیں۔ شہزادہ سلیم نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ آپ کا بڑا معتقد تھا انہوں نے ہی اُسے ہندوستان کی بادشاہی کی بشارت دی تھی جب اکبر بادشاہ ایک ہزار چودہ(۱۰۱۴) ہجری میں مرگیا تو شہزادہ سلیم جہانگیر شاہ کے خطاب سے تخت نشین ہوا۔ اس کا لڑکا شہزادہ خسرو باپ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور بغاوت کرکے اکبر آباد سے پنجاب کی طرف بڑھا راستے میں تھانسیر کے مقام پر حضرت شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کرائی حضرت شیخ نے اسے بڑی اچھی نصیحتیں دیں اور فرمایا کہ باپ کے خلاف بغاوت کرنے سے باز آجاؤ مگر آپ کی یہ باتیں شہزادہ خسرو کے دماغ میں نہ آئیں وہ وہاں سے اپنا لشکر لے کر دریائے بیاس کی طرف چلا گیا اس وقت حضرت شیخ نظام الدین کے مخالفوں نے موقعہ سے فائداہ اٹھایا اور شیخ کے خلاف بہتان طرازی کرکے بادشاہ جہانگیر تک یہ بات پہنچائی کہ شیخ خسرو شاہ کو سلطنت دلانے کے لیے دعا کررہے ہیں اور انہیں سلطنت کی بشارت بھی دے دی ہے یہ بات سن کر جہانگیر بڑا خفا ہوا اور اُس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ شیخ کو ہندوستان سے باہر نکال دیا جائے تاکہ وہ پھر یہاں نہ آئے شیخ اس واقعہ سے پہلے ہی حج بیت اللہ کا ارادہ کرچکے تھے وہ ہندوستان سے اٹھے اور کعبۃ اللہ کی طرف روانہ ہوئے پہلے مکہ پہنچے حج ادا کیا اور پھر مدینہ پاک کی حاضری دی اور کئی سال وہیں قیام کیا وہاں ہی آپ نے شرح و لمعات لکھی جس میں خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی اشارہ پر رخصت ہوکر بلخ کو چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ مقیم رہے وہاں آپ نے سات سو لوگوں کو کمال تک پہنچایا ان دنوں بلخ کے بادشاہ امام قلی خان ازبک بھی آپ کے حلقۂ ارادت میں آئے اس طرح بہت بڑی مخلوق علماء و مشائخ آپ کے مرید بن گئے اور آپ کو بڑی شہرت ملی۔
جس وقت حضرت خواجہ کے کمالات کی شہرت بلخ میں عام ہوئی اور بادشاہ وقت بھی اُن کا مرید ہوگیا شہر کے علماء ان سے حسد کرنے لگے بادشاہ کو کہا گیا کہ شیخ نظام الدین سُنت رسول کا تارک ہے وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے جامع مسجد میں نہیں آتا اور اپنی خانقاہ میں ہی نماز ادا کرلیتا ہے حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شہر میں دومقامات پر نماز جمعہ جائز نہیں بادشاہ نے حضرت شیخ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کا امام رافضی ہے میں اُس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ میری نماز رافضی کے پیچھے نہیں ہوتی یہ بات سن کر بلخ کے لوگوں میں ہنگامہ ہوگیا انوں نے کہا کہ اگر شیخ نظام الدین امام رافضی ہونا ثابت نہ کرسکے تو انہیں بادشاہ قتل کرنے کا حکم دے بادشاہ یہ بات سُن کر حضرتِ شیخ کے پاس آیا اور ساری کیفیت بیان کی آپ نے ساری بات سن کر بادشاہ کو تسلّی دی اور فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں یہ جتنے بھی مخالفین ہیں یہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ شہریوں کا ایک ہجوم بارہ ہزار افراد پر مشتمل شیخ کی خانقاہ کے دروازے پر آگیا امام خود ننگی تلوار لیے حضرت شیخ کے سامنے آیا اور زبان درازی شروع کردی اور کہا کہ آپ نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی ہے میں آپ کو قتل کردوں تو جائز ہے حضرت شیخ نے بادشاہ کو کہا کہ امام کے جوتے اتروا کر انہیں پھاڑہ جائے ابھی اِس کا رفض ظاہر ہوجائے گا بادشاہ اٹھا امام کے پاؤں سے اُس کا جوتا اُتروایا اور اُس کو پھاڑا گیا اس میں سے ایک کاغذ نکلا جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا تھا شہر والوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو امام کو وہیں قتل کردیا تمام حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بن گئے۔
ایک بار حضرت شیخ بلخ کے پہاڑ کے دامن میں گئے وہاں پانی نہ تھا نماز ظہر کا وقت آیا تو آپ کو وضو کے لیے پانی نہ ملا اپنا عصا پکڑ کر ایک پتھر پر مارا جس سے خوشگوار پانی کا چشمہ جاری ہوگیا یہ بات بلخ شہر میں ایک نجومی نے سُنی وہ کہنے لگا اس میں شیخ کا کیا کمال ہے اُس وقت آبی ستارے بُرجِ سرطان میں تھے اُس کی وجہ سے پتھر سے پانی نکل آیا اس کو شیخ کی کرامت نہیں سمجھنا چاہیئے۔ کسی مرید نے آپ کو اس نجومی کی بات سنائی آپ خاموش رہے کچھ دنوں بعد شیخ بلخ کے جنگل میں سیر کرنے تشریف لے گئے اور اُس نجومی کو بھی ساتھ لے لیا جنگل میں پانی نہیں تھا آپ نے نجومی سے پوچھا کہ کیا اس وقت ستارے برج سرطان میں ہیں یا نہیں نجومی نے اپنے علم کی وجہ سے غور کیا کہ اس وقت تو آتشی ستارے آتشی برج میں ہیں کہیں سے پانی برآمد ہونا نا ممکن ہے حضرت شیخ نے اپنا عصا زمین پر مارا اور پانی کا ایک میٹھا چشمہ جاری ہوگیا نجومی حیران رہ گیا اور آپ کے پاؤں میں گر پڑا۔
ایک دن ایک گڈریا جو بالکل جاہل تھا طلبِ حق کے لیے حضرت شیخ کی خدمت میں آیا شیخ نے اُس پر توجہ کی اُسے جامئے کمال بنادیا اُس پر دینی اور دنیوی علوم کے اسرار ظاہر ہونے لگے۔
حضرت شیخ ۸ ماہ رجب المرجب بروز جمعہ ۱۰۳۶ ہجری میں فوت ہوئے آپ کا مزار بلخ میں ہے۔
شیخ بڑے صاحب اولاد تھے آپ کے دو بیٹے خواجہ محمد سعید اور عبدالحق ہندوستان میں آگئے محمد سعید تھانیسر میں اور عبدالحق کرنال میں رہنے لگے اگرچہ شیخ کے خلفاء کی تعداد حد سے زیادہ ہے مگر ہم چند بزرگوں کے نام لکھتے ہیں خواجہ ابو سعید گنگوہی، شیخ حسین بہوہری، شیخ ولی محمد نارنولی، شیخ پایندہ سنوری، سیّد الہ بخش لاہوری بمکری، شیخ عبد الکریم لاہوری(آپ کا مزار نواں کوٹ لاہور میں ہے)، حضرت شیخ بندگی، شیخ الہ داد لاہوی، شیخ دوست محمد لاہوری، شیخ مصطفےٰ، شیخ عبدالفتاح اندری، شیخ عبد الرحمان کشمیری، سید قاسم برہانپوری، قاضی عبد الحی ولد قاضی سالم، شیخ برہانپوری، شیخ فتحی، اور اسماعیل اکبر آبادی، شیخ جان اللہ لاہوری (آپ کا مزار مہان سنگھ کے باغ میں ہے) یہ سب بزرگ آپ کے نامور خلفاء تھے۔ [۱]
[۱۔ صاحب اقتباس الانوار(مواطع الانوار) شیخ محمد اکرم قدوسی(مرتبہ ۱۱۳۰ھ) نے حضرت خواجہ نظام الدین بلخی قدس سرہ کی زندگی کے کوائف کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے آپ نے مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ خلفاء کے علاوہ شیخ محمد مرزا سرہندی کا نام بھی لکھا ہے اور پھر یہ بتایا ہے کہ ہندوستان کا کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہ تھا جہاں نظام الدین بلخی کا کوئی تربیت یافتہ خلیفہ سے خالی ہوتا برصغیر کے باہر توران عربستان میں بھی آپ کے کئی خلفاء کام کر رہے تھے آپ کے خلیفہ شیخ اللہ بخش لاہوری کے کمالات کو خصوصی طور پر سپرد قلم کیا گیا ہے شیخ نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ وحدت الوجود حضرت شیخ اکبر ابن عربی کے نکات سے اعلیٰ اسرار کا اظہار فرمایا ہے اور شرحی لمعات مکی اور مدنی میں ایسے اسرار کا اظہار کیا ہے رویت باری تعالیٰ پر آپ کے خیالات سالکان تصوّف کے لیے باعث اطمینان ہیں آپ کی تصانیف میں سے صاحب خزینۃ الااصفیاء کی بیان کردہ کے علادہ رسالہ حقیہّ دریباں ہفت باطن ریاض القدس شرح مشکوٰۃ شریف اور مصباح الولایت کا بھی ذکر ہے۔]
نظام الدین ولی بلخی!!
چو از دنیا بجنت راہی
وصالش ناظم پاکیزہ جُستم
دوبارہ شد عیان نظم الٰہی
۱۰۳۶ھ