حضرت خواجہ قادر بخش جہانخیلی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1337 | شوال المکرم | 17 |
یوم وصال | 1272 |
حضرت خواجہ قادر بخش جہانخیلی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ قادر بخش جہانخیلی علیہ الرحمۃ
سلسلہ نسب:
آپ کا سلسلہ نوب یوں ہے۔ خواجہ قادر بخش بن دیدار بخش بن شیر محمد خان بن غلام محمد خان بن ممریز خاں بن موکل خاں بن مصری خان۔
آپ کے مورث اعلیٰ مصری خاں قصبہ کلال گو علاقہ غزنی میں رہا کرتے تھے۔ موکل خان جو احمد شاہ درانی کے اعلیٰ رکن سلطنت تھے۔ ایک درویش با کمال گلزار محمد خاں قم مہمند زئی ملک افغانستان سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ ان کے پیر نے بغرض تعلیم و تلقین اپنے دو خلیفے شیر خاں غازی اور حاجی مڈکی ان کے ساتھ کردیے۔ جب موکل خاں پنجاب کو آئے تو وہ ہر دو ساتھ تھے۔ آپ ضلع ہوشیار پور میں جہانخیل کی زمین پر آباد ہوئے۔ ہر دو خلیفوں کی پختہ قبریں اس وقت ہائی سکول خالقیہ کی جدید جامع مسجد کے عقب میں جانب غرب موجود ہیں۔ شیر محمد خان ریاست منڈی میں ملازم ہوئے۔
والدمحترم کی پیدائش و دیگر حالات:
جب ان کی عمر ساڑھے بتیس سال کی ہوئی تو ۱۳۰۴ھ میں دیدار بخش پیدا ہوئے۔ دیدار بخش بعارضہ چیچک بیمار ہوگئے اور چند روز میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ جب بچہ کو کفن پہناکر لے چلے تو والدہ نے کہا کہ مجھے دکھلادو۔ جب نوش اس کے ہاتھ میں دی گئی تو وہ دوسری طرف سے نکل کر ایک مسیحادم درویش با کمال نادر علی شاہ نام کی خدمت میں پہنچی شاہ صاحب حسب معمول آنکھیں بند کیے مراقب بیٹھے تھے اُن کی گود میں لٹاکر چلی آئی۔ چاہ صاحب نے خادم کو بلاکر پوچھا کہ میرے زانو پر نمدار چیز کون رکھ گیا ہے۔ خادم نے عرض کیا کہ بیوہ شیر محمد خان اپنے اکلوتے بچہ کی نعش رکھ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس کو پانی میں ڈال دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ ایک گڑھے میں جس قدرے پانی تھا لٹادیا گیا اور آپ سر بسجدہ بارگاہِ رب العزت میں خلوص دل سے گڑ گڑا کر دعا کرنے لگے۔ دریائے رحمت الٰہی جوش میں آیا پہلے بچہ کا انگوٹھا ہلا پھر تمام بدن میں جان پڑ گئی۔ شاہ صاحب نے سجدہ سے سر اُٹھایا تو بچہ کو زندہ پایا۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے۔ والدہ کو خبر ہوئی تو خوشی میں دوڑی آئی۔ اور بچہ کو گود میں لے کر شاہ صاحب کے قدموں پر لٹادیا۔ اور عرض کیا یہ آپ ہی کا ہے۔ آپ ہی کے قدموں میں رہے گا۔ یہ کہہ کر واپس گھر چلی گئی اس طرح دیدار بخش نے شاہ صاحب کے ہاں پرورش پائی اور علم ظاہری سے فارغ ہوکر ان ہی سے بیعت ہوئے۔ چوبیس سال کی عمر میں شاہ صاحب نے ان کو خرقہ خلافت و دستارِ فضیلت سے مشرف فرمایا۔ جب شاہ صاحب کی عمر ایک سو پچیس سال کی ہوئی تو آپ نے اس دارِ فانی سے انتقال فرمایا آپ کا مزار مبارک کوٹ عبدالخالق کے متصل واقع ہے دیدار بخش نہایت غمگین ہوئے اور چھ ماہ کے بعد وہاں سے کشمیر چلے گئے۔ اور مہاراجہ کشمیر کے ہاں ملازم ہوگئے۔ دورانِ ملازمت میں بھی آپ سے لوگوں کو بہت فیض پہنچا۔ جب آپ کی عمر ۳۳ برس کی ہوئی تو ایک مجذوب احمد شاہ نام نے آپ سے فرمایا کہ خان صاحب! تم اپنے وطن میں جاکر شادی کرو۔ تمہاری پشت سے ایک قطب پیدا ہونے والا ہے۔ آپ انکار کرتے رہے۔ مگر مجذوب اصرار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک سال کے بعد راجہ کشمیر سے رخصت لے کر وطن کی طرف روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں موضع دینا نگر میں ایک صاحب خدمت درویش نے فرمایا کہ ضلع ہوشیار پور میں موضع میانی سے پرے بستی جلال خاں ہے۔ وہاں تمہاری شادی ہوگی۔ منکوحہ کا نام زہرہ خاتون ہوگا اور اُس کے بطن سے ایک قطب پیدا ہوگا۔ آپ وہاں سے بستی جلال خاں میں پہنچے۔ یہاں کے باشندوں کی رشتہ داری قدیم سے جہانخیلاں میں تھی۔ یہاں آپ کی یہاں آپ کی نسبت گامن خان کی دختر نیک اختر زہرہ خاتون سے قرار پائی۔ آپ یہاں سے اپنے وطن جہانخیلاں میں پہنچے جو بستی مذکور سے پندرہ کوس ہے۔ اوروہاں سے تاریخ مقررہ پر بستی جلال خاں میں آکر رسوم نکاح ادا کی گئیں۔
ولادت باسعادت:
کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں حضرت خواجہ قادر بخش بروز دو شنبہ ۱۷ شوال ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۸۲۲ء میں پیدا ہوئے۔ اتفاقات حسنہ سے ہے کہ الفاظ خواجہ قادر بخش سے ہی تاریخ ولادت مطابق سنہ عیسوی نکل آتی ہے۔
تحصیل علم ظاہر و باطن:
حضرت خواجہ قادر بخش نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور سات سال کی عمر میں ختم کیا۔ ان ہی ایام میں آپ کے والد ماجد نے کشمیر میں وفات پائی۔ اُن کا مزار کشمیر ہی میں پنجابی پیر کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ سال کی عمر تک آپ کتب اردو و فارسی اور دینیات میں مشغول رہے۔ پھر کھیتی کرنے لگے۔ چودہ سال کی عمر میں کھیتی کا کام چھوڑ کر تن تنہا لدہیانہ میں آکر مقیم ہوئے۔
فوج کی ملازمت:
چونکہ عمر چھوٹی تھی۔ یہاں انگریزی فوج میں ترم بجانے پر مامور ہوئے۔ دوران ملازمت میں شاہ کابل اور سلطنت برطانیہ میں جنگ شروع ہوئی۔ اور انگریزی افواج نے کابل پر چڑھائی کی وہ رسالہ بھی جس میں آپ ملازم تھے مہم پر گیا۔ لڑائی ختم ہونے پر آپ پانچ سال کابل ہی میں رہے۔
بیعت و خلافت:
اس اثناء میں آپ نے شاہ عنایت اللہ سے خاندان قادریہ میں بیعت کی اور خلافت حاصل کی پھر آپ نے اپنے اصلی وطن کلال گو میں ایک سال قیام فرمایا۔ بعد ازاں پشاور ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ یہاں نواب شیخ امام الدین سے آپ کا تعارف تھا۔ ان ہی کے ہاں ٹھہرے نواب صاحب نے کہا کہ مجھے آپ کی مرلی سننے کا نہایت شوق ہے میں نے اکثر تعریف سنی ہے ۔ نواب صاحب کے اصرار پر آپ کو عمل کرنا پڑا۔ نواب صاحب نے خوش ہوکر اپنے ہاں ترم یا مرلی بجانے پر ملازم رکھ لیا۔ لاہور سے آپ سنگھڑ شریف میں حضرت شاہ سلیمان تونسوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اوراُن سے سلسلہ چشتیہ کی نسبت مع خلافت لے کر کشمیر پہنچے۔ وہاں ایک درویش سید احمد صاحب سے خاندان سہروردیہ میں بیعت ہوئے۔ اور اجازت ارشاد پاکر جالندھر تشریف لائے۔ یہاں حاضی حافظ محمود قدس سرہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔ اس بیعت کا ذکر حافظ انور علی رہتکی نے مقامات المحمود میں یوں لکھا ہے:
ایک روز حضرت شاہ قادر بخش صاحب جہانخیلاں والوں کے مرید ہونے کا تذکرہ آیا۔ (حضرت حاضی صاحب نے) فرمایا کہ وہ پٹھان تھا۔ جب شاہ شجاع (مئی ۱۸۴۲ء میں) کابل میں مارا گیا تو وہ سکھوں کی آئین کی فوج میں یہاں نوکر تھا۔ اُس نے ایک شخص محمد بخش سے یہاں کہا کوئی ایسا مرشد بتاؤ جس کا میں مرید ہوجاؤں اُس نے قادر بخش سے کہا کہ یہاں حاجی صاحب مولوی صاحب کے مرید ہیں۔ وہ تجھے خدا کا نام بتائیں گے یہ سن کر قادر بخش ہمارے پاس آیا اور بہت رویا ہم نے کہا روتا کیوں ہے کہا میں نوکر ہوں میں کوینکر حاضر ہوسکوں گا، ہم نے کہا تو اللہ کا نام سیکھ تو سہی جب فرصت ہو آجائیو پھر اُس کو ہم نے اللہ کا نام بتایا، اللہ کا نام اُس کو چمٹ گیا اُس کے قلب میں اس کا اثر ظاہر ہوا تو ہم اُس کو اپنے پیشوا مولوی محمد شریف صاحب کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا آپ اس کو اپنا مرید کرلیں، انہوں نے اس کا حال پوچھا ہم نے اس کا حال عرض کیا، فرمایا: اس کے دل پر تمہاری توجہ کا اثر ہوا ہے۔ تم ہی اس کو مرید کرلو، اور ہمارے سامنے مرید کرو، ہم دیکھیں کس طرح مرید کرتے ہو، پھر ہم نے اُن کے روبرو قادر بخش کو مرید کیا۔ قادر بخش ہمارے پاس آٹا رہا، تھوڑے دنوں میں بڑا بزرگ ہوگیا۔ اور نور ہی نور ہوگیا، نوکری چھوٹ گئی۔ قادر بخش بین بجایا کرتا تھا، ایک دن ہم نے اس سے کہا کہ ہ میں بھی تو اپنی بین سناؤ جو تم بجاتے ہو، کہا حضرت! وہ بین بجانا سب بھول گیا، اب تو اور ہی بین بج رہی ہے۔ پھر قادر بخش کی مان نے ہم سے شکایت کی کہ تو نے میرے بیٹے پٹھان کو فقیر بنادیا ہم نے کہا وہ اب بزرگ آدمی ہوگیا ہے اور نور ہوگیا ہے، پھر وہ بھی ہماری مرید ہوگئی اور بزرگ عورت ہوئی پھر ہم نے قادر بخش کو بیعت کرنے کی اجازت دی، بڑا فیض اُس سے جاری ہوا، ہزارہا آدمیوں نے اُس سے فیض پایا۔‘‘
سیرت خانقیہ[۱] میں لکھا ہے کہ حضرت حاجی محمود قدس سرہ سے بیعت ہونے کے بعد آپ جمعدار محکمہ پولیس ہوگئے تھے۔ ایامِ ملازمت میں آپ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اجازت ارشاد حاصل کی، پھر آپ راہوں تبدیل ہوگئے۔ وہیں آپ ڈپٹی انسپکٹر ہوگئے۔ بعد ازاں انسپکٹر بھی ہوگئے۔ مگر حاجی صاحب نے آپ کو لکھا کہ اب نوکری چھوڑو، اور خلقِ خدا کو تلقین و ہدایت کرو۔ لہٰذا آپ نوکری چھوڑ کر اپنے وطن جانخیلاں میں آگئے۔
[۱۔ اس کتاب کی بعض روایات تنقید طلب ہیں۔]
تلقین و مجاہدہ:
دوران ملازمت میں آپ اشاعت طریقہ نقشبندیہ میں مشغول ہوگئے تھے۔ چنانچہ راہوں میں سب سے پہلے خلیفہ امام بخش آپ سے بیعت ہوئے۔ امام بخش کے بعد ان کا تمام کنبہ اور دیگر بہت سے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے۔ مگر جب آپ نے اپنے پیر دستگیر کے فرمان سے نوکری چھوڑ دی تو حسب الارشاد آپ ہمہ تن تلقین و مجاہدہ میں اوقات گرامی بسر کرنے لگے۔ باقاعدہ اشاعت کا کام پہلے آپ نے اپنے گاؤں سے شروع کیا، مگر باشندگان جہانخیل آپ کے ہم قوم افغان تھے۔ آپ مسجد ہی میں ذکر و اذکار میں مشغول رہا کرتے تھے وہ آپ کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یہ ہمارا پیر بننا چاہتا ہے جب وہ بہت تنگ کرنے لگے تو آپ نے کنارہ کش ہوکر اُس جگہ قیام فرمایا جو اب کوٹ عبدالخالق کے نام سے موسوم ہے۔ وہاں آپ نے رہنے کے لیے ایک چھپر اور نماز کے لیے ایک چبوترہ بنالیا۔ یہاں سے اس آفتاب ہدایت کی کرنیں پھیلنے لگیں۔ اس وقت ہوشیار پور کی چھاؤنی قائم تھی۔ چھاؤنی کے لوگ اور دیہات کے نواح کے بہت سے آدمی آپ کے مرید ہوگئے، آپ کا فیض یہاں سے دور دور پہنچا۔ آپ عرسوں پر تشریف لے جایا کرتے۔ اور دورہ پر بھی چلے جایا کرتے۔ اس طرح آپ کے ارشاد کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ حجرے کے اندر عبادت کرتے۔ نماز صبح سے فارغ ہوکر بارہ بجے تک اوراد و وظائف سلسلہ میں مشغول رہتے۔ اس کے بعد کھانا تناول فرماکر قدرے قیلولہ فرماتے، پھر نماز ظہر پڑھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ غرض یہ کہ آپ کا اکثر وقت عبادت میں گزرتا۔
مراقبہ کی کیفیت:
تذکرہ توکلیہ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب کو دو اڑھائی گھنٹہ کی حبس دم کی مشق تھی۔ صبح کو مکھن بادام نوش جان فرماکر حبس دم کرتے اور دوپہر تک تین سانس لیتے۔ اور اُس میں نفی و اثبات کیا کرتے۔ توجہ آپ کی کمال گرم اور تیز تھی۔ اور استغراق ایسا تھا کہ پاؤں میں بحالت مراقبہ کنکر گھس جاتے۔ اور آپ کو خبر نہ ہوتی۔ بعدہٗ موچنے سے نکالے جاتے۔ ایک دفعہ مولانا شاہ عبدالغنی محدث مجددی دہلوی سرہند تشریف لائے۔ خواجہ صاحب کو مراقب دیکھ کر فرمایا کہ مراقبہ اسی کا نام ہے جیسا کہ میاں قادر بخش کرتے ہیں۔
حضرت قبلہ مرشدنا سائیں توکل شاہ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن اس فقیر نے دیکھا کہ ایک نور برنگ سبز (نور ولایتِ محمدی) حضرت خواجہ صاحب سے آسمان کو چڑھا۔ اور ایک دفعہ میں نے سنا کہ آپ کے ہر بن مو سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی ہے۔
حالت کی تبدیلی:
مولوی پیر محمد صاحب بنگے والے کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ صاحب موضع تلونڈی میں تشریف لے گئے۔ معلوم ہونے پر میں بھی ضروریات سے فارغ ہوکر تلونڈی پہنچا۔ حضرت صاحب کے پاس ایک درویش بھی تھا میں نے اُس سے حضرت کا پتہ پوچھا۔ اُس نے کہا اس مکان میں ہیں۔ کواڑ بند تھے، میں نے آگے بڑھ کر کواڑ جو کھولے تو کیا دیکھتا ہوں کہ چراغ روشن ہے اور خواجہ صاحب کے ہاتھ پاؤں اور سر علیحدہ علیحدہ ہیں۔ میں نے سمجھا کہ حضرت صاحب کو کسی نے قتل کردیا ہے اور مجھے غش آگیا۔ ہوش آنے پر دیکھتا ہوں کہ حضرت صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے ادب سے سلام کیا ور ماجرا عرض کیا، حضرت نے فرمایا پیر محمد تیر ایہ خیال ہے میرے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ اونادان! فقیروں کو کبھی ایسی حالت بھی ہوجایا کرتی ہے ان باتوں پر زیادہ اصرار نہیں چاہیے۔
پسینہ کی خوشبو:
کثراتِ اذکار بالخصوص درود شریف کی وجہ سے آپ کے بدن مبارک اور پسینہ سے خوشبو آیا کرتی تھی۔ چنانچہ خلیفہ بیگے شاہ کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ نے مجھ سے فرمایا کہ میری کمر مل دو، میں نے تعمیل ارشاد کی۔ میں کمر ملتا تھا۔ پسینہ مبارک سے گلابوں کی سی خوشبو دماغ میں آتی تھی۔ میں نے جسم مبارک کو جو سونگھا تو اُس سے بھی عطر کی سی خوشبو آئی اور اندر سے اسم ذات کی آواز نکلتی ہوئی محسوس ہوئی جیسا کہ ہنڈیا میں جوش کی آواز ہوتی ہے۔ یہ حضور کے پاس انفاس کی کیفیت تھی۔ جب میں اس کیفیت میں محو ہونے لگا تو حضرت نے فوراً اپنا کرتہ نیچے کرلیا اور مجھے علیحدہ کردیا۔
مکاشفات
۱۔ خلیفہ میر خان نقل کرتے ہیں کہ ایک روز رات کے ایک بجے خواجہ صاحب نے مجھے آواز دی اور ساتھ ہی سلیمان خان کو پکارا کہ جلدی آؤ، آج میرے حلقہ سلیم پور میں قتل ہوگیا ہے۔ اور قاتل فلاں فلاں شخص ہیں۔ مقتول دریا کے کنارے فلاں جگہ جھاڑیوں میں پڑا ہے تم لاش اُٹھا لاؤ اور ملزمان کو گرفتار کرلاؤ، چنانچہ سپاہی اُسی وقت گئے مقتول کو اُسی جگہ دریا کے کنارے پایا اور قاتلین بھی وہی تھے جن کا نام بتایا گیا تھا صبح کو خواجہ صاحب موقع پر گئے اور تحقیقات ضابطہ کے بعد ملزموں کے بیانات لیے، انہوں نے اعتراف کیا، عدالت نے ان کو سزائے موت دی۔
چوری کا بتادیا:
امیر خان صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز راہوں میں ایک ساہوکار کے ہاں چوری ہوگئی۔ آپ اُس وقت مراقب تھے۔ یہ خبر پہنچتے ہی آپ فوراً ہوشیار ہوگئے اور غلام محمد جمعدار کو آواز دی، اور اُس کے ساتھ چار سپاہی کردیے اور حکم دیا کہ اسی وقت دریا پور جاؤ، وہاں مسمیان سکندر و رحمت و نتھاتین چور ہیں۔ جنہوں نے یہ چوری کی ہے۔ اُن کو گرفتار کرلاؤ، چنانچہ سپاہی گئے اور اُن ملزمان کو مال سمیت لے آئے۔ ملزموں نے آپ کے سامنے اقرار کیا، آپ نے ساہوکار کو مال دلوا کر معاملہ رفع دفع کردیا، اور اُن سے توبہ کرائی وہ تائب ہوکر آپ سے بیعت ہوئے۔
اصلی قاتل گرفتار کرادیے:
امیر خان ناقل ہیں کہ موضع گروپڑ سے رپورٹ آئی کہ موضع مذکور میں قتل ہوگیا ہے حضرت خواجہ نے گو بند رام جمعدار کو مع دو سپاہیوں کے تحقیقات کے لیے بھیج دیا، چوتھے روز آپ نے فرمایا امیر خان! چلو، تحقیقات درست نہیں کی گئی، بیگناہ گرفتار کرلیے گئے ہیں، موقع پر پہنچ کر آپ نے گاؤں کے تمام لوگوں کو جمع کیا، بیگناہوں کو رہاکردیا گیا اور اصلی قاتلوں کو گرفتار کرکے حوالات میں داخل کردیا گیا، آخر ملزمان نے اقرار کیا کہ ہم ہی قاتل ہیں۔
شمس عرفان:
حضرت خواجہ صاحب راہوں میں ملازمت تھانیداری میں ایک روز گشت کر رہے تھے۔ دو سپاہی آپ کے ساتھ تھے۔ ایک ٹیلہ کی طرف سے آواز آئی کہ شمس عرفاں! فاتحہ سے شاد کر، حضرت یہ سن کر مراقب ہوئے۔ معلوم ہوا کہ کسی ولی کی قبر یہاں ہے۔ مگر ظاہر نہیں۔ آپ نے اُس آواز کے جواب میں فرمایا کہ حضور کو کیسے معلوم ہوا کہ میرا لقب شمس العرفاں ہے۔ آواز آئی کہ میں حضرت مجدد الف ثانی کا خلیفہ ہوں، انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہمارے سلسلہ میں ایک شخص شمس العرفاں ہوگا اور تیری قبر پر فاتحہ پڑھے گا خواجہ صاحب نے فرمایا کہ یہاں قبر ہے۔ چنانچہ صبح کو آپ نے وہ جگہ کھودی تین گز نیچے ایک پختہ قبر برآمد ہوئی۔ سیرت خالقیہ میں ہے کہ وہ قبر اب تک راہوں میں موجود ہے۔
قلبی خیال سے آگاہی:
مولوی پیر محمد صاحب کا بیان ہے کہ میں ایک روز حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، چند اور مہمان بھی حاضر خدمت تھے۔ میں نے دیکھا کہ سب کے سامنے عمدہ عمدہ آم رکھے ہوئے ہیں۔ میرے دل میں آیا کہ دس پانچ ان میں سے نکال لوں، مگر ساتھ ہی یہ خیال گزرا کہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر لینا درست نہیں۔ بمجرد اس خطرہ کے حضرت نے فرمایا کہ پیر محمد! دس پانچ آم ضرور کھاؤ، میں حیران رہ گیا کہ حضرت کو کیسے معلوم ہوا۔
سانپ کا حملہ آور ہونا:
مولوی پیر محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مولوی سید عبداللہ فرمانے لگے کہ میرامعمول تھا کہ میں حضرت کی خدمت سے مغرب کے وقت رخصت ہواکرتا تھا۔ ایک روز میں خلاف معمول نماز تہجد کے بعد رخصت ہوا، خواجہ صاحب نے فرمایاک ہ جب شہر سے نکلو تو پانی کے راستہ سے نہ جانا، راستہ چھوڑ کر نیچے کی طرف سے جانا، میں بھول کر اپنے راستہ کی طرف چلا گیا، ناگاہ ایک سانپ نے پھونک ماری، میرے ہاتھ میں لاٹھی تھی، وہ میرے پیچھے ہولیا، میں بھوگا تو وہ بھی میرے پیچھے بھاگا۔ اور لاٹھی سے نہ ڈرا، آخر میں نے دہائی دی کہ دوڑنا سانپ کھاگیا! سانپ نے کھالیا، اسی اثنا میں ایک شخص بندوق لے کر نمودار ہوا اور کہا کہ بس کھڑا ہو اور اُس پر فائر کیا جس سے سانپ مرگیا، وزن کیا گیا تو ایک من پانچ سیر کا نکلا۔
تصرفات و کرامات
جذامی تندرست ہوگئے:
سندھے خاں نمبردار بجواڑہ کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ حجرے سے باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ پانچ جذامی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے خدا اور رسول اور حضرت مجدد بابا شریف کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ ہمارے واسطے دعا فرمائیے کہ یہ بیماری دور ہو جائے، آپ نے پوچھا کہ تم نے حضرت مجدد بابا کا واسطہ کیوں دیا، وہ بولے کہ حضور! ہم بھی نقشبندی ہیں۔ آپ حجرے میں دو گھنٹے مراقب رہے پھر نکل کر فرمایا کہ تم سب منہ کھولو، ہر ایک نے اپنا اپنا منہ کھولا، آپ بسم اللہ کہہ کر ہر ایک کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالتے گئے تھوڑی دیر میں سب کے سب اچھے ہوگئے، اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔
معذور کو صحت مل گئی:
خلیفہ بیگے شاہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ایام ملازمت تھانیدار میں حضور وردی پہنے ہوئے نور پور سے تشریف لا رہے تھے کہ ایک پہاڑ کی غار سے آواز آئی کہ کہ کوئی ہے جو مجھے راستہ بتادے، آپ یہ سن کر ٹھہر گئے اور فرمایا کہ سیدھے چلے آؤ، یہ راستہ ہے۔ اُس نے کہا میں کل کا گمشدہ ہوں، نظر کم آتا ہے، پاؤں کانٹوں سے زخمی ہیں، آپ خود اُس کے پاس تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ آنکھوں سے معذور ہے، آپ نے فرمایا میں تیری آنکھوں میں دوا ڈالتا ہوں، بشرطیکہ تو تین گھنٹے یہیں بیھا رہے، اس نے منظور کیا، آپ نے اپنی زبانِ مبارک اُس کی آنکھوں میں پھیردی، اوروہاں سے چل دیے، موضع سانولی تحصیل شنکر میں پہنچ کر آپ وضو کرکے نفل پڑھنے لگے،ناگاہ دیکھتے ہیں کہ وہی شخص آپ کے نقشِ پا پر دوڑا آرہا ہے، پاس آکر اُس نے آپ سے پوچھا یہاں کوئی فقیر آیا ہے، آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو فقیر یہاں نہیں دیکھا، تمہارا مطلب کیا ہے، اُس نے کہا کہ کوئی سنیاسی فقیر یا کیمیا گر تھا، اُس نے میری آنکھوں میں دوا ڈالدی، میں بالکل تندرست ہوگی،ا آپ نے فرمایا کہ ہم کیمیا گرن ہیں وہ مسجد سے جو نکلا تو خلیفہ بیگے شاہ سے بھی اُسنے اپنا مجارا کہہ کر سنایا، خلیفہ صاحب نے کہا ارے نادان! یہ کیمیا گرنہیں، یہی درویش ہیں، جنہوں نے تیری آنکھوں میں اپنی زبان پھیری تھی۔ جس کی برکت سے تجھے شفا حاصل ہوگئی۔ وہ ہندورا جپوت تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ کے ہاتھ پر اسلام لایا ور داخلِ سلسلہ ہوگیا۔
گھوڑے نے سرکشی نہ کی:
حکیم بخش ساکن موضع بنگہ ضلع جالندھر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز تھانہ راہوں کے قریب حضرت خواجہ نے دیکھا کہ ایک گھوڑا اپنے سوار کو گرا کر سرپٹ چلا آ رہا ہے۔ اور دوسری طرف سے شور و غل برپا ہے۔ کہ دیکھنا! گھوڑا سرکش ہے ۔ آدمیوں کو مارتا ہے۔ یہ شور سن کر حضرت گھوڑے کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ اور کلمہ شہادت پڑھ کر انگلی کے اشارے سے فرمایا اے گھوڑے! ٹھہرجا۔ آپ کے اشارے پر گھوڑا فوراً ٹھہرگیا۔ آپ نے اُس کو پیار کیا۔ اور فرمایا کہ اس قدر شوخی نہ کیا کرو، حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اُس گھوڑے نے کبھی سرکشی نہ کی۔
ادنیٰ غلام کی کیفیت:
مولوی خلیل الرحمٰن صاحب توکلی صاحب نفائس القصص میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ مع بھیکے خاں پشاور میں تھے۔ ایک روز آپ ایک مسجد میں جو گئے تو دیکھا کہ دونوں تعلیم یافتہ مولوی باہم بحث کر رہے ہیں۔ ایک کہنا تھا کہ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم مبارک میں سے پٹکا نکال دیا تھا۔ دوسرا کہتا تھا کہ یہ بعید از قیاس ہے۔ حضرت خواجہ ننے منکر کو ہر چند سمجھایا مگر وہ بدعقیدہ نہ مانا، آخر آپ نے اُ س سے فرمایا کہ دیکھ! میں حضور انور کا ایک ادنیٰ غلام ہوں۔ لا پٹکا میں نکال دیتا ہوں۔ اُس نے پٹکا دیا اور آپ نے کمر میں سے یوں نکال دیا جیسا کہ مسکہ میں سے دھاگا نکال دیتے ہیں وہ یہ دیکھ کر آپ کا معتقد ہوگیا اور داخل سلسلہ ہوا۔
چیتے سے بچالیا:
مولوی پیر محمد صاحب جو موضع بنگہ میں مدرسہ میں پڑھاتے تھے فرماتے ہیں کہ کوٹ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر میرا گاؤں تھا۔ میرا معمول تھا کہ بعد نماز مغرب میں کوٹ میں آجایا کرتا تھا۔ اور بعد نماز فجر وقت معین پر مدرسہ میں حاضر ہوجایا کرتا تھا۔ ایک روز مکان کو آرہا تھا کہ موضع سے تھوڑی دور ندی کے کنارے ایک چیتا میری طرف آتا ہوا نظر پڑا۔ دہشت کے مارے میں حواس باختہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت خواجہ اُس چیتے کے کان پکڑے ہوئے فرما رہے ہیں۔ پیر محمد جلدی نکل جا میں اسے پکڑے ہوئے ہوں، چنانچہ میں وہاں سے صحیح سلامت نکل گیا۔ دوسرے روز وقت معین پر جو میں حاضر خدمت ہوا تو میں نے اپنا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے فرمایا یہ تیرا خیال ہے میں نے عرض کیی کہ میں نے بحالت بیداری بچشمِ خود آپ کو وہاں دیکھا ہے۔ میرے اصرار پر آپ فرمانے لگے کہ اللہ کے بندوں کے نزدیک یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ درند و چرند و پرند ان کے تابع ہوتے ہیں۔ مشکل کے وقت مرید کی مدد کرنا پیر کا کام ہے۔ پھر فرمایا: ؎
بوٹے بوٹے ناگ بلمے بسرڈنگ چلاوے
باجھوں مرشد واصل باللہ اپنے کون بچادے
بغیر موسم کے آم:
مولوی پیر محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز سید عبداللہ نام حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آموں کا موسم ہوچکا تھا، اُس نے عرض کیا حضور آپ نے آم تو مجھ سے پہلے ہی لوگوں کو کھلادیے، آپ نے فرمایا کہ میں نے ختم تو نہیں کیے۔ اللہ تالیٰ نے ختم کردیے۔ سید صاحب نے اصرار کیا کہ حضرت! آپ کے پاس آم بھی نہ ملے۔ آپ نے اُس وقت ایک درخت کی طرف اشارہ فرمایا کہ آم دے۔ اور سید صاحب سے فرمایا کہ جاچوس لے۔ اُس نے درخت کی طرف دیکھا تو یک دم بیس سیر آدم گر پڑے۔ سید صاحب نے سیر ہوکر کھائے اور جان و دل سے آپ کا معتقد بن گیا۔
غیبی ہاتھ:
میاں ہیرا ساکن غوث گڑھ ضلع لدہیانہ بیان کرتا ہے کہ ایک روز دریا طغیانی پر تھا۔ میں عبور کرنے کے لیے سرنائی پر تیر رہا تھا۔ اتفاقاً سرنائی نیچے سے نکل گئی اور میں ڈوبنے لگا۔ اُسی وقت ایک ہاتھ پانی میں سے نمودار ہوا اور مجھے پکڑ لیا میں نے سرنائی سیدھی کرلی، اور اُس پر دریا کو عبور کرگیا۔ جب میں حاضر خدمت ہوا تو میں نے یہ قصہ عرض کیا فرمایا کہ وہ اسی فقیر کا ہاتھ تھا اور آپ نے وقت و موقع بھی بتادیا۔
غیبی تھپڑ:
خلیفہ الٰہی بخش سکان رائے کوٹ ضلع لدہیانہ بیان کرتے ہیں کہ دوران ملازمت میں میں ایک روز دورہ پر تھا، میں نے ایک مستغیث سے دس روپے لے کر اُس کا کام کردیا۔ جب روپے لے کر اپنے کیسہ میں ڈالے تو اُسی دم غیب سے ایک تھپڑ میرے منہ پر لگا۔ اور آواز آئی او کتے!تو رشوت کھاتا ہے ۔ میں نے روپے واپس کردیے جب حاضر خدمت ہوا تو میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، حضرت خواجہ نے منہ پھیرلیا، میں قدموں میں گر پڑا، اور رو کر معافی مانگی، آپ نے فرمایا تو نے بیعت کے وقت نواہی شرعیہ سے توبہ کی تھی، دس روپے کے لاچل سے تو نے وہ توبہ توڑ ڈالی، میں نے عرض کیا: حضور! مجھے سزا مل گئی ہے وہ روپے میں نے واپس کردیے ہیں، آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے خبر دی میں نے تمہیں روک دیا۔ میں نہایت شرمندہ ہوا اور تجدید بیعت کی۔
بارہ سال کی زبان بندی:
خلیفہ عام شاہ فرماتے ہیں کہ ایک روز مولوی عبداللہ تلمیذ مولوی نور محمد نیاز کی طرف سے مشرقی سمت میں سیر کرتے ہوئے حضرت کی خدمت میں پہنچے۔ آپ اُس وقت حلقہ میں مراقبہ فرما رہے تھے، اور آپ پر اور حاضرین پر حالتِ سکر طاری تھی، مولوی صاحب نے آکر سلام کیا۔ حضرت نے بوجہ سکر جواب نہ دیا، مولوی صاحب اپنے استاد کی طرح چلاکر یوں بکواس کرنے لگا کہ یہ کیا مراقبہ ہے، یہ سب فریب ہے، بدعت ہے، فقیری نہین، اس پر حضرت کو اور دیگر اہلِ حلقہ کو ہوش آگیا۔ حضرت نے جوش میں آکر مولوی کو پکڑ کر بٹھالیا۔ اور ایک نگاہ اُس کے دل پر ڈالی، وہ یک لخت چلا اُٹھا اور اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، آپ نے فرمایا کہ خبردار! بارہ سال نہ بولیو، مولوی صاحب اُسی وقت مجذوب ہوگئے اور بارہ سال اُن کی زبان بند رہی، اسی حالت میں انہوں نے سلوک طے کیا، چھاونی جالندھر میں قیام کیا اور صاحب اجازت و کرامات ہوئے۔ موضع ٹہرو تحصیل چہیڑو کے پاس اُن کی قبر ہے۔ جس سے فیض ملتا ہے۔
کھانے میں برکت:
خلیفہ بیگے شاہ راہوں والے ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز علمی خاں ساکن گرو پڑ ضلع جالندھر نے حضرت خواجہ کی دعوت کی اور اپنے خیال میں اندازہ لگاکر پندرہ آدمیوں کی خوراک کا انتظام کیا۔ کھانے کے وقت حضرت کے ساتھ چالیس آدمی آئے، اور اتنے ہی گاؤں کے لوگ شریک ہوئے۔ علمی صاحب حیران ہوگیا کہ کیا تدبیر کروں، حضرت نے اُس کے خطرہ سے آگاہ ہوکر فرمایا علمی! فکر نہ کر، میرا یہ رومال اُس کھانے پر ڈال دے۔ تمام لوگوں نے سیر ہوکر کھایا بلکہ اور احباب نے بھی کھایا اور قدرے بچ رہا۔
کچھ دکھائی نہ دیا:
کھڑ گولوہار ساکن جہانخیل کا بیان ہے کہ ایک روز میں دس بجے دن کے باغ میں آیا۔ جواب کوٹ کے نام سے مشہور ہے، حضرت خواجہ حجرے میں تھے، باہر کوئی آدمی نہ تھا، میں نے باغ میں سے پانچ سات سیر مرچیں توڑ لیں، اور سر پر رکھ کر گھر چلا۔ جب باغ کی حد سے نکلا تو پھر اندھا ہوگیا۔ واپس ہوکر میں نے مرچیں وہیں رکھ دیں اورگھر کو چلا۔ اتنے میں حضرت خواجہ باہر نکل آئے اور فرمانے لگے، فقیروں کی چیز بلااجازت نہیں لے جایا کرتے، میں یہ سُن کر شرمندہ ہوا، پھر حضرت خواجہ نے اپنے دست مبارک سے اور بہت سی مرچیں مجھے عنایت فرمائیں اسی طرح کا واقعہ متعدد دفعہ ظہور میں آیا ہے۔
درد قولنج سے نجات:
خلیفہ بیگے شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میاں عبدالوحید خاں کو ایسا درد قولنج ہوا کہ زندگی کی امید نہ ررہی۔ میں نے حضرت خواجہ سے عرض کیا، آپ نے شکستہ دل ہوکر یوں دعا کی، یا اللہ! آج کل مرچوں کی نلائی کے دن ہیں، آدمی کا ملنا مشکل ہے۔ اگر اُس کی موت کا وقت آگیا ہے تو بھی اُس کی عمر میں ایک سال کا اضافہ فرمادے اور پانی پر دم کرکے بھیجا کہ اُسے پلادو، میں نے جب اسے وہ پانی پلایا تو فوراً آرام ہوگیا، اور ایک سال کے بعد اسی تاریخ و ماہ کو اس کا انتقال ہوگیا۔ سچ ہے ؎
اولیا را ہست قدر ازالہ
تیر جستہ باز آرندش ذراہ
جن کو قابو کرنا:
خلیفہ محمد بخش ساکن ہوشیار پور ناقل ہیں کہ ایک جن نے مجھے بہت ستایا، کبھی سوتے وقت مجھ پر پانی ڈال دیتا، کبھی مجھے اور میری بیوی کو اُٹھاکر دریائے بیاس کی ریتی میں ڈال دیتا۔ اور وہیں کھانا پہنچادیتا، کئی روز ہم وہاں رہتے، میں نے تنگ آکر حضرت خواجہ سے عرض کردیا، آپ نے قرآن شریف کی آیت پڑھ کر انگوٹھے پر دم کیا او رزمین پر دبایا۔ اُسی وقت وہ جن بشکل انسان حاضر ہوا۔ کہنے لگا مجھے بچالو، میں جلتا ہوں، آپ نے فرمایا تو اس غریب کو کیوں ستاتا ہے اُس نے کہا کہ میری اس سے محبت ہے، اور میں اس کے ساتھ ہنسی کیا کرتا ہوں آپ نے فرمایا تیری یہ ہنسی اس کا مرنا ہے میں تجھے نہیں چھوڑنے کا،اس پر اس جن نے بڑے واسطے پیش کیے اور کہا کہ آیندہ میں کبھی اس کے پاس نہ آؤں گا، آپ نے فرمایا تجھے اس کے پاس آنے کی ممانعت نہیں، مگر اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دیتا، بعد ازاں وہ گاہے میرے پاس آتا رہا، اور حضرت خواجہ کی نسبت کہتا تھا کہ یہ بڑے بزرگ ہیں۔ مجھے ان سے دہشت آتی ہے میں پہلے کبھی کسی عامل سے نہ ڈرا تھا، آخر کار وہ جن حضرت خواجہ سے بیعت ہوگیا۔ بعد ازاں اس کی بیوی اور کئی اور جن آپ سے بیعت ہوئے۔ اس جن کا نام زمان شاہ تھا ۔ ہوشیار پور میں پہاڑ ی کھیڑے کے پاس جو مسجد ہے وہ اس کے نیچے تہ خانہ میں رہا کرتا تھا۔
تبرکات کی برکت:
میاں ہیرا ساکن غوث گڑھ بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ ہمارے گاؤں میں تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ تیس چالیس درویش تھے۔ کئی آدمیوں نے آپ کی دعوت کی، جب آپ واپس ہونے کے لیے تیار ہوئے تو رات کو میں تنگدستی کی وجہ سے بہت رویا۔ دل میں کہتا تھا کہ آج اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں بھی حضرت کی دعوت کرتا۔ صح کو حضرت نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تیرے گھر میں کچھ ہے بھی۔ عرض کیا حضور پانچ سیر آٹا اُدھار لایا تھا۔ جس میں سےآدھا کھالیا۔ اور اڑھائی سیر باقی ہے۔ آپ نے فرمایا جا اسی کو پکالے میں نے عرض کیا یا حضرت تیس چالیس آدمی ہیں۔ اڑھائی سیر سے کیا ہوگا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا میں نے وہی جواب دیا۔ آپ نے فرمایا تجھے اس سے کیا مطلب۔ تو اسی کو پکالے۔ حسب الارشاد میں نے اھائی سیرآٹے کی پتلی پتلی روٹیاں پکوائیں۔ اور ماش کی دال تیار کروائی۔ جب حضرت مع خدام غریب خانہ پر تشریف لائے تو آپ نے وضو کیا اور فرمایا کہ تم بھی وضو کرلو، آپ نے اپنی چادر مبارک دال روٹیوں پر ڈال دی۔ میں نے اس میں سے حضرت کے تمام درویشوں کو کھالایا۔ بعد ازاں اپنے متعلقین اور دیگر پیر بھائیوں کو کھلایا۔ فارغ ہوکر کپڑا جو اٹھایا تو اسی قدر روٹیاں موجود تھیں جتنی پکائی تھیں۔ بعد ازاں حضرت نے مجھے اپنی چادر اور کرتہ اتار کردیا، فرمایا اسے اپنے پاس رکھنا۔ جب تک یہ تیرے گھر میں ہوں گے تجھے معاش کی تنگی نہ ہوگی۔ اُس وقت میرے پاس صرف دو بیل گاڑی کے تھے ان تبرکات کی دو سال کے اندر تیس سالیس بیل اور پانچ چھ نوکر ہوگئے۔ پھر میں نے زمین بھی خریدی۔ لوگ مجھے ادب سے پکارنے لگے۔ اور حکام وقت بھی عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے وہ تبرکات اب تک میرے گھر میں ہیں۔
گستاخ کا انجام:
ایک روز حضرت خواجہ کی مجلس میں یہ تذکرہ ہوا کہ بقول حضرت مجدد الف ثانی ان کے متوسلین بالواسطہ سب بہشتی ہوں گے۔ اس وقت ایک بدعقیدہ مولوی بدرالدین بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بولا یہ بات غلط ہے، حضرت خواجہ نے فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ درست ہے مولوی نے کہا آپ ایسی بات کیوں کہتے ہیں۔ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف عشرہ مبشرہ کو جنتی کہا ہے، دوسروں کا حال خدا جانے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا اے بے ادب! اولیاء کی نکتہ چینی نہ کر، مگر وہ باز نہ آیا، اس پر حضرت خواجہ کو جوش آگیا، فرمانے لگے کہ میں حضرت خواجہ کا ایک ادنیٰ غلام ہوں تاقیامت جو میرے مرید ہوں گے جنتی ہوں گے۔ وہ مولوی اس پر بھی حجت ہی کرتا رہا، آپ نے طیش میں آکر تین بار فرمایا اے کوڑھی! یہاں سے چلا جا۔ چنانچہ وہ اپنے مکان پر جو وہاں سے پانچ کوس پر تھا چلا گیا، مگر وہاں جاتے ہی بیمار ہوگیا اور تمام جسم جذامی ہوگیا وہ دوسرے روز صبح کو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور تضرع و زاری کے بعد آپ سے معافی مانگی۔ حضور نے پانی کی کلی اُس کے ماتھے پر ماری اور فرمایا تو کیا تیری نسل میں بھی یہ داغ پیشانی پر رہے گا۔ چنانچہ اب تک اس کی اولاد کی پیشانی پر داغ پایا جاتاہے۔
جنتی ہونے کی بشارت:
ایک دن حضرت خواجہ نے درخت توت کی ٹہنی پکڑ کر اپنے خلیفہ بلاقی شاہ سے فرمایا کہ منادی کردو کہ جو شخص آج مجھے دیکھ لے گا جنتی ہوگا۔ یہ الہام خدا تھا۔ بہت سے لوگ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ ان میں دو ہندو ماگھی د سوندھی نام بھی تھے۔ ہر دو قوم زر گر سے تھے۔ ماگھی مسلمان ہوگیا۔ دسوندھی ہندو ہی رہا، مگر سنا ہے کہ جب وسوندھی کا انتقال ہوا اور اس کی لاش جلانے لگے تو لاش بالکل نہ جلی۔
سیرت خالقیہ میں حضرت خواجہ کی اور بہت سی کرامتیں مذکور ہیں یہاں نظر بر اختصار سولہ پر اکتفا کیا گیا۔
وصال مبارک:
مسجد کے صحن کے جنوبی گوشہ سے ملحق آپ کا حجرہ تھا، جس میں آپ عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک روز عشا کے بعد بارش زور سے ہونے لگی، آپ مع خلیفہ رنگ علی شاہ و بلاقی شاہ رحمہم اللہ تعالیٰ اُس حجرے میں مراقب تھے۔ اچانک اندھیری رات میں آپ نے نطر اُٹھاکرباہر جو دیکھا تو بجلی کی روشنی میں چند نورانی صورتیں بشکل انسان دکھائیں دیں۔ آپ نے خلیفہ بلاقی شاہ سے فرمایا کہ دیکھنا کون ہیں خلیفہ بلاقی شاہ نکل کر ان صورتوں کی جانب بڑھے کہ ناگاہ حجرے کی چھت گر پڑی۔ اور حضرت خواجہ اور خلیفہ رنگ علی شاہ شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خلیفہ بلاقی شاہ اضطراب میں ادھر ادھر دوڑے اور لوگوں کو جمع کرکے مٹی وغیرہ دور کرکے ہر دو نوش نکلوائیں۔ اس واقعہ جانکاہ سے کہرام مچ گیا۔ اُس وقت حضرت خواجہ کی والدہ ماجدہ اور ان کے ارادتمندوں کی حالت احاطہ بیان سے باہر ہے۔ حضرت خواجہ کا مزار مبارک موجود یتیم خانہ خالقیہ کے ہائی اسکول کی پشت پر ایک چار دیواری ہی میں ہے۔ جس میں اور قبریں بھی ہیں۔ تاریخ شہادت ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۸ھ ہے۔ ؎
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدم و بہار آخر شد
ارشاداتِ عالیہ
۱۔ فرمایا کرتے کہ خاندان کے سردار سب میرے سردار ہیں۔ کبھی یہ اشعار پڑھا کرتے ؎
تو نقش نقشبنداں را چہ دانی
گیاہِ سبز داند قدر باراں
ہنوز از کاف کفرت ہم خبر نیست
تو حال پیکر جاں را چہ دانی
تو خشکی قدر باراں را چہ دانی
حقائق ہائے ایماں را چہ دانی
۲۔ حضرت مرشد نا قطب زماں خواجہ توکل شاہ انبالوی قدس سرہ کا بیان ہے کہ میں اکثر دیکھا کرتا تھا کہ حضرت خواجہ کا چہرہ کبھی زرد کبھی سرخ کبھی سبز کبھی سفید ہوجایا کرتا تھا ایک روز میں نے عرض کیا کہ حضور! یہ کیا معاملہ ہے۔ آپ مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا توکل شاہ! فقیروں کی ایک حالت نہیں ہوتی نہ وہ ایک حالت پر رہتے ہیں جس طرح انوار الٰہی برستے ہیں۔ اُسی طرح سالک کی روحانی حالت بدلتی رہتی ہے۔ انوار الٰہیہ کے مختلف رنگوں پر ہی سالک کے لطائف کے انوار حالت جسمانی سے نمایاں ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا حضرت! ہم پر بھی یہ وارد ہوسکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں اگر تم اس کیفیت سے عملی طور پر آگاہ ہونا چاہتے ہو۔ تومیاں بلاقی شاہ اور عالم شاہ کو بلا لاؤ، میں دونوں کو بلالایا،آپ نے فرمایا باہر جاکر آنکھیں بند کرکے دیکھو، آپ جوں جوں توجہ فرماتے تھے۔ اُسی طرح انوار کا ورود ہوتا تھا۔ ہر لطیفہ اپنی نسبتی رنگ کی کیفیت دکھلاتا رہا۔ ہم نے انوار کا ورود لطائف پر ہوتا ہوا اور لطائف کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ اور بیرنگی اور بے کیفی کی سیر کی انوار مثل موسلا دھار بارش کے برستے تھے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ آنکھیں کھول کر بھی دیکھو، پس میں نے آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو وہی کیفیت ظاہر میں بھی اُسی طرح نظر آئی، جس طرح باطن میں اُس کی کیفیت تھی۔ انوار بے رنگ و بے کیف بھی ظاہر ہوئے، آپ نے فرمایا آنکھیں بند کرلو، ہم نے پھر آنکھیں بند کرلیں، آپ نے توجہ دی، پھر ایک ایسا مقام نظر آیا، کہ جس کی سیر کا بیان احاطہ تحریر سے خارج ہے۔
۳۔ آپ نے مولوی پیر محمد صاحب سے فرمایا: بھائی! ایسا ہونا چاہیے کہ اپنے محبوب و مطلوب کے سوا کسی طرف بھی نہ دیکھے۔ تب طالب کمال کو پہنچتا ہے اور انوار رحمانی اس پر وارد ہوتے ہیں، محض عبادت پر منحصر نہیں۔
۴۔ فرمایا یہ پیر کا حق ہے کہ جو معلق گناہ یا تکلیف مرید کو ہو۔ اس سے فوراً مرید کو آگاہ کردے۔
۵۔ پیر کی خدمت میں حاضر ہونے سے مقصود یہی ہونا چاہیے کہ مرشد کے باطنی فیض سے اپنی قلب کا تزکیہ و تصفیہ کرے۔ اگر ماسوا کے خیال سے قلب کو خالی کرکے پیر کی خدمت میں حاضر خدمت ہوکر قلب کی طرف متوجہ ہوجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ فیضان حاصل ہوتا ہے بقول شخصے۔ ؎
باسوختگان بنیشیں شاید کہ تو ہم سوزی
حضرت خواجہ شمس العرفاں اور آپ کے خلفاء کے مفصل حالات سیرت خالقیہ میں مذکور ہیں جس کا قلمی نسخہ میری نظر سے گزرا تھا مگر اب چھپ گئی ہے۔
(مشائخ نقشبند)