حضرت خواجہ توکل شاہ انبالوی
حضرت خواجہ توکل شاہ انبالوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ توکل شاہ انبالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
(مشتمل بردوازدہ باب)
ولادت اور نسب شریف:
آپ موضع پکھو کے میں جو ضلع گورد اسپور میں موضع رتر چھتر اور ڈیرہ بابانانک کے درمیان واقع ہے۔ قریباً ۱۲۵۵ھ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا سایۂ عاطفت نہایت خرد سالی میں سر سے اُٹھ گیا آپ کا کوئی اور بہن بھائی نہ تھا۔ آپ کے نانا صاحب میاں اللہ دین شاہ مست نے جو نو شاہی طریق کے ایک صاحب نسبت درویش تھے اس در یتیم کی پرورش کی۔ ایک موقع پر خود آپ نے فرمایا:
’’میرے نانا صاحب کے صرف دو بچے تھے۔ ایک والدہ صاحبہ دوسرے ماموں صاحب جو دو مرتبہ انبالہ میں میرے ملنے کو تشریف لائے۔ ماموں صاحب نے شادی نہیں کی۔ تمام عمر تجرد میں بسر کردی۔[۱]
[۱۔ تذکرہ توکلیہ مولفہ مولوی نور احمد صاحب مرحوم۔ صفحہ نمبر ۶۲۱۔]
نام مبارک:
آپ کے نام مبارک میں مختلف اقوال ہیں جن کے ایراد کی چنداں ضرورت نہیں۔ جناب مولوی حاجی سید ظہورالدین بن حضرت مولانا مولوی حاجی حافظ سید سخاوت علی انبیٹوی رحمۃ اللہ علیہ[۱] کا بیان ہے کہ حضرت قبلہ سائیں صاحب ایک روز ارشاد فرمانے لگے:
’’مولوی! ہمارا نام توکل شاہ نہ تھا، ہمیں خدا کی طرف سے یہ لقب عطا ہوا ہے۔‘‘
[۱۔ سید صاحب موصوف گورنمنٹ مڈل اسکول انبالہ میں مدرس تھے۔ نومرب ۱۸۸۷ء سے فروری ۱۸۹۴ء تک شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں بلا فصل حاضر ہوتے رہے۔ اور فیض حاصل کرتے رہے۔ راقم الحروف کی التماس پر آپ نے حضرت شاہ صاحب کے مختصر حالات قلم بند فرمائے ہیں۔ جن کا قلمی نسخہ اس وقت زیر نظر ہے۔]
معلوم ہوا ہے کہ آپ سید نہ تھے۔ چنانچہ جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب لکھتےہیں کہ ایک دفعہ جو خطوط آپ کے نام آئے تھے۔ ان میں آپ کا نام مبارک سید توکل شاہ لکھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو منع کردو، آیندہ مجھے سید نہ لکھیں، میں سید نہیں ہوں۔ ؎
بندۂ عشق شدی ترکِ نسب کن جاؔمی
کاندریں راہ فلاں ابنِ فلاں چیزے نیست
دوسرا باب
پیر طریقت کی تلاش اور بیعت
آپ کی پرورش تصوف کے گہوارے میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اس لیے بچپن ہی سے آپ کو بزرگوں کی صحبت کا شوق دامنگیر تھا۔ اسی خیال سے سنِ بلوغ سے ہلے ہی آپ نے وطن کو خیر باد کہا اور پھرتے پھراتے ہریانہ کے علاقہ اور کہاں کہاں ہوتے ہوئے اجمیر شریف پہنچے۔ وہاں ایک بزرگ چشتی نظامی رہتے تھے آپ اکثر ان کی صحبت میں حاضر ہوتے۔ وہ ایسے صاحبِ استغراق تھے کہ صبح سے اپنے حجرے کا دروازہ بند کرکے ظہر کے وقت تک مراقبے میں رہتے۔ اور سماع میں شریک نہ ہوتے تھے۔ حضرت میاں صاحب قبلہ اُس وقت سماع سنا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت خواجہ غریب نوا ز کے روضہ شریف میں قوالی ہو رہی تھی۔ حضرت صاحب نے لوگوں کی التجا پر اُس بزرگ سے بھی عرض کیا کہ تشریف لے چلیے، انہوں نے فرمایا بیٹا! میرے جوشِ عشق کو کوئی برداشت نہ کرسکے گا۔ حضرت صاحب نے اصرار کیا اور ان کا دامن پکڑ کر مجلس میں لے گئے، اُن پر جو حالت وجد طاری ہوئی تو الا اللہ کا ایسا نعرہ مارا کہ اہل مجلس و قوال بے ہوش ہوگئے۔ جب حجرے میں واپس آئے تو فرمایا بیٹا! کیا میں نہ کہتا تھا کہ وہ میرے جوش کو برداشت نہ کرسکیں گے۔ ایک روز اسی بزرگ نے حضرت میان صاحب قبلہ کو بطریق چشتیہ نفی اثبات کی تلقین کی۔ اسی وقت کلمہ شریف قلب پار جاری ہوگیا اور عجیب کیفیت وارد ہوئی کچھ عرصے کے بعد اس بزرگ کو حضرت خواجہ غریب نواز کی بارگاہ سے حکم ہوا کہ تم بصرہ کے قطب ہوگئے۔ وہاں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ وہاں چلے گئے۔
حضرت میاں صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے تھے کہ ایام قیام اجمیر شریف میں ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پر انوار پر اولیاء اللہ کی مجلس منعقد ہے۔ تمام اولیائے کرام حسب مراتب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے واسطے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ میں ایانوں (بچوں) کی طرح کود کر عین صدرمجلس میں حضرت خواجہ کے پاس جا بیٹھا۔ بعض اولیاء کو یہ گستاخی ناگوار گزری۔ مگر حضرت خواجہ نے فرمایا کہ یہ مست ہے اور بچہ ہے ؎
ہر بیخودی کہ مست خدا مے کند رواست
پنجاب کا سفر:
قصہ کوتاہ آپ کو حضرت خواجہ کی بارگاہ سے اشارہ ہوا کہ تم خاندان نقشبندیہ میں صاحب ارشاد و ہدایت ہوگے۔ تمہارا پیر پنجاب میں ہے اس لیے آپ تلاش مرشد میں اجمیر شریف سے پنجاب کو آئے۔ راستے میں چند روز انبالہ میں قیام رہا۔ وہاں سے لودہیانہ اور لودہیانہ سے جالندھر پہنچے۔ بنابر روایت جناب مولوی[۱]۔ محبوب عالم صاحب مرحوم ایک روز ایک جگہ ایک مست آپ کو ملا اس نے کہا تم جہانخیلاں جاؤ، جب آپ جہانخیلاں کے قریب پہنچے تو ایک مجذوب عورت نے کہا آگئے ہو؟ جاؤ آفتابِ ہدایت کے غروب کا وقت قریب ہے۔ جلدی اپنا حصہ لے لو، غرض آپ شمس العرفاں خواجہ قادر بخش قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بوقت تلقین انہوں نے فرمایا کیاری کیاری یا اکوواری۔ اور بقول جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب فاروقی[۲] فرمایا، نیاری نیاری (جدا جدا) یا اکوواری۔
[۱۔ آپ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاءمیں سے ہیں۔ گیارہ برس حضرت کی خدمت میں رہے۔ آپ نے حضرت کے حالات میں کتاب ذکر خیر لکھی ہے۔]
[۲۔ آپ بھی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے ہیں۔ پچیس سال حضرت کی خدمت میں رہے ہیں۔ آپ نے حضرت کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ جن کا قلمی نسخہ اس وقت میرے زیر نظر ہے۔ صاحب تذکرہ توکلیہ نے آپ ہی کی معلومات سے استفادہ کیا ہے۔]
آپ نے عرض کیا کہ اکوواری۔ یہ سن کر حضرت شمس العرفاں نے آپ کو اپنے سینہ مبارک سے لگاکر نسبت نقشبندیہ کا القاء کیا، اور انوار لطائف سبعہ اور فیوض ولایات ثلاثہ وغیرہ سے مالا مال کردیا۔ فیض کا غلبہ اس قدر ہوا کہ آپ کے ناک مبارک سے خون بہنے لگا اور آپ بیہوش ہوگئے۔ یہ دیکھ کر کسی نے عرض کیا کہ یہ تو مست ہوگئے۔ ان سے سلسلہ کس طرح جاری ہوگا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ان سے بڑا سلسلہ جاری ہوگا۔ اور میری روح ان کے مریدوں کی پرورش کرے گی۔ اس کے بعد دو ماہ یا کچھ کم و بیش اپنے پیر کی خدمت میں حاضر رہے۔ پھر انبالہ رہنے کی اجازت ہوگئی۔ اس لیے آپ انبالہ چلے آئے۔ مگر جب طبیعت چاہتی تو جہانخیلاں شریف چلے آتے۔ آخر کچھ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت شمس العرفاں نے آپ کو خلافت سے مشرف فرمایا۔ جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب کا بیان ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔
دستار کا قصہ:
’’مولوی! خلافت آسمان سے خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ چنانچہ جب اس فقیر کو حضرت مرشدنا قدس سرہ کی طرف سے اجازت ملی تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک دستار لٹک رہی ہے اور اس فقیر کے سر پر خود بخود لپٹ رہی ہے۔‘‘
جناب مولوی محبوب عالم صاحب اسی قصہ دستار کو بروایت حضور علیہ الرحمۃ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمۃ کا وصال ہوگیا۔ چنانچہ وہ صحیح نکلا اورخبر لگی کہ حضرت خواجہ صاحب کا وصال واقعی ہوگیا ہے۔ ہم وہاں گئے تو چہلم پر تمام خلفاء کو دستار بندی ہوئی۔ مگر مجھے کم سن سمجھ کر کسی نے دستار نہ دی۔ میں اسی فکر میں باہر جنگل میں چلا گیا۔ اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوا۔ کچھ سکرت طاری ہوئی۔ دیکھا کہ ایک بڑی لمبی دستار کا پلہ عرش سے میرے پاس آیا اور آواز آئی کہ اس کو باندھ لو، آپ کے واسطے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ میں نے اسے اپنے سر پر باندھنا شروع کردیا۔ دستار اتنی لمبی تھی کہ میں باندھتا گیا مگر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ آخرکار میں نے تھک کر باندھنا چھوڑ دیا مگر وہ ختم نہ ہوئی۔ انتہیٰ۔
سماع کی کیفیت:
سیّد صاحب موصوف ناقل ہیں کہ حضور علیہ الرحمۃ بہت عرصہ تک سماع میں شامل ہوے رہے۔ مگر خاندان مجددیہ میں داخل ہونے کے بعد پرہیز تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل دو تارا بجاکر گاتا ہوا آیا، آپ نے کئی مرتبہ فرمایا کہ بغیر دوتارے کے تو گا نہیں سکتا؟ وہ نہ سمجھا، آخر یہ کہہ کر او باؤلے! اُس کو آدھ آ نہ دینے کا حکم دیا اور گانے بجانے سے روک دیا۔ نعت شریف جس وقت بھی کوئی سنادے آپ سن لیتے تھے۔
تیسرا باب:
مجاہدہ اور مزارات سے استفاضہ
جب حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ اجازت لے کر انبالہ میں تشریف لائے تو آپ نے پہلے پہل نند سنگھ کے باغ میں قیام کیا۔ آپ پر حالتِ جذب طاری تھی، کسی کو نزدیک نہ آنے دیتے تھے ۔ طوائف شہر کچھ نذر یا شیرینی لے کر جاتیں تو رد کرکے ان کو نماز و نکاح کی تاکید فرماتے اور نکال دیتے۔ آپ انبالہ سے دورہ رپ جایا کرتے۔ چنانچہ بوڑیہ اور ساڈھورہ میں بہت دفعہ تشریف لے گئے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ بوڑیہ میں ابدال اکثر آتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے جناب قاری سید اکرام حسین نقوی[۱] سے بیان کیا کہ میں بوڑیہ کے جنگل یا ساڈھورہ شریف کے صحراء میں مراقب تھا۔ اثنائے مراقبہ میں ایک سانپ میرے سر پر آکر بیٹھ گیا۔ جب میں مراقبہ سے فارغ ہوا تو سر پر کچھ بوجھ سا محسوس ہوا۔ عمامہ جو اتار اتو کیا دیکھت اہوں کہ اُس پر سانپ بیٹھا ہے۔ جب بغور دیکھا تو اُسے فیضان میں بیہوش پایا۔ آخر کار میں نے عمامہ کو جھٹک دیا، وہ نیچے گر پڑا، مگر اُس سے چلا نہیں جاتا تھا۔
[۱۔ سید صاحب موصوف بھی حضرت کے خلفاء میں سے ہیں جیسا کہ جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب نے لکھا ہے۔ آپ نے حضرت کے حالات میں کتاب کمالات توکلی لکھی ہے۔]
مجاہدات کی کیفیت:
جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضور علیہ الرحمۃ مقام پنجلاسہ تحصیل نرائن گڑھ میں بھی رہے۔ فرمایا کرتے کہ حضرت قطب دیار عرب حاجی امداد اللہ صاحب ہمارے دوست تھے اور وہ اور ہم دیر تک پنجلاسہ میں رہے ہیں۔ آپ کا معمول تھا کہ دن کو تو ویرانوں اور جنگلوں میں یادِ الٰہی میں رہتے۔ اور رات کو حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کے پاس تشریف رکھتے۔
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب بروایت سید رستم علی شاہ انبالوی بیان کرتے ہیں کہ علاوہ دیگر مجاہدات کے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کو سلطان الاذکار کی مشق ایسی تھی کہ عالم شباب میں کڑے جاڑےمیں انبالہ کے نبو والے تالاب میں حبس دم کے ساتھ غوطہ لگاکر نفی اثبات کیا کرتے۔ اور دو دو گھنٹے کےبعد سر نکالتے۔ اور اکثر فرمایا کرتے کہ اس شغل میں جو اسرار کھلتے ہیں وہ اور کسی شغل میں نہیں کھلتے۔
جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب یوں بیان فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الرحمۃ سلطان الاذکار کا ورد حبس دم کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ میں نے گھڑی رکھ کر دیکھا ہے۔ کبھی پندرہ منٹ اور کبھی بیس منٹ تک سانس نہ لیتے تھے۔ اس سے پہلے جب اس کا پورا عمل تھا دریا میں غوطہ لگاکر حبس دم کیا کرتے تھے۔ خواص کہتے تھے کہ کبھی دو گھنٹے اور کبھی ڈیڑھ گھنٹے تک دوسرا سانس نہ لیتے تھے۔ اللہ اکبر۔
سکرات کا غلبہ:
آپ پر سکرات کا غلبہ رہتا تھا۔ اس لیے وضو اور نماز میں بڑی دقت پیش آیا کرتی تھی۔ چنانچہ جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اول جب میں ۱۸۷۴ء میں آپ سے بیعت ہوا۔ توآپ کا وضو ایک گھڑے سے ہوتا ہے۔ اور کبھی غلبہ حال میں ایک ہی پاؤں پر ایک مشک پانی کی صرف ہوتی، پھر بھی وضو تمام نہ ہوتا اور تالاب پر جاکر وضو فرماتے۔ جب خلیفہ امیراللہ شاہ حج کو جانے لگے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ میزابِ رحمت تلے میرے واسطے دعا کرنا کہ میرا وضو ہوجایا کرے فرمایا کہ ہم ایسے مقام میں ہیں کہ اگر اس کا خیال چھوڑیں تو وضو ہو۔ اور نہ چھوڑیں تو وضو محال۔ غرض خلیفہ صاحب موصوف نے خانہ کعبہ میں میزاب رحمت تلے دعا کی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ آپ ایک گھڑے سے چھ لوٹے پر، پھر چار پر اور اخیر میں دو پر آگئے تھے۔ جناب قاری سید اکرام حسین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وصال سے سالہا سال پیشتر ایک مقام حضرت صاحب پر ایساآیا تھا کہ جس میں بوجہ کثرت استغراق آپ ہر نماز کو مشکل سے وقت پر ادا کرتے تھے۔ اور عشاء کی نماز میں تو خصوصیت سے دقت پیش آتی تھی۔ آپ کبھی محمد علی شاہ مرحوم کو اور کبھی کریم بخش حاجی کو فرماتے کہ شمار کرنا، مگر شمار کنندہ بھی مارے فیضان کے بے ہوش ہوجاتا آپ کبھی ایک رکعت پر اور کبھی دوسری پر سلام پھیردیتے اور شمار کنندہ سے فرمادیتے۔ جا میاں میں خود ہی پڑھ لوں گا، مگر اس حالت میں بھی نماز آپ سے کبھی قضا نہیں ہوئی۔
مراقبہ کی کیفیت:
جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب کا بیان ہے کہ حضرت صاحب مسجد کے شمالی طرف بعد مغرب مراقبہ کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی پہلے سے کوئی مانع ہوتا تھا تو دوسری جگہ بھی بیٹھ جاتے۔ لیکن مراقبہ میں مشغول ہونے کے بعد خواہ آندھی چلے یا سخٹ سے سخت بارش ہو ہرگز وہاں سے نہ اُٹھتے تھے۔ موسم گرما میں اگر کوئی چھتری لگالے بدیں طور کہ حضور کو خبر نہ ہو تو لگالے۔ ورنہ کچھ پرواہ نہ کرتے تھے۔ موسم سرما میں نیم آستین پر کمبل ہوتا تھا۔ تھوڑی دیر کمبل اوپر سے اتر جاتا تھا۔ حضور ۱۲ بجے یا ۲ بجے شب تک اُسی طرح مراقبہ میں مشغول رہتے۔ کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ کمبل کاندھے پر ڈال دے۔
جب آپ پر حالتِ وحدت وجود وارد ہوئی تو اُس وقت کا حال آپ بنا بر روایت جناب مولوی محبوب عالم صاحب یوں بیان فرماتے ہیں۔ جب ہم پر وحدت وجود کھلی اور وحدت کا ایک بے کنار دریا نظر آیا۔ چاروں طرف ایک ہی نظر آتا تھا۔ اور وہ حالت ہوگئی تھی کہ جس میں شیخ منصور علیہ الرحمۃ نے انا الحق کہا تھا۔ جوش کی حالت تھی اور مجھے اپنا وجود نظر نہیں آتا تھا بلکہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ میرا وجود اُس بے کنار دریا کا ایک قطرہ ہے۔ اور وہ قطرہ پھر اُس میں مل گیا۔ محض وحدت ہی وحدت ہوگئی ہے۔ جب یہ حال وارد ہوتا ہے میں اپنے بدن میں سوئیاں چبھوتا۔ جب سوئی کے چبھنے سے بدن کو تکلیف محسوس ہوتی تو کہتا کہ اگر تو خدا ہے تو سوئی کے چبھنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ تو تمام تکلیفوں سے پاک ہے۔ پھر جب کبھی سوئی کے چبھنے کی بھی تکلیف نہ ہوتی تو میں یہ حیلہ کرتا کہ آگ کا دھکتا ہوا انگارہ بدن پر رکھ دیتا۔ جب بدن سے لگتا اور اُس کو تکلیف محسوس کرتا تو پھر کہتا کہ اگر تو خدا تھا تو اس آگ نے تجھے کیوں جلایا۔ پس معلوم ہوا کہ تو خدا نہیں۔ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ذات ان تمام جھگڑوں سے بری ہے۔ غرض اس زمانے میں ہمیں بڑی دقت پیش آتی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا ہی فضل رہا۔ حضرات خواجگان کی ارواح سے ایسی پرورش ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی عنایت سے نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ یہ خاص پرورشِ روحِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طفیل تھا کیونکہ ہم درود شریف بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ ورنہ اور کوئی اتنا نہ کرسکتا۔ بعض اوقات جب سوئی اور آگ کی انگاری سے بھی تکلیف نہ ہوتی تو ہم بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے کہ خداوند تو وحدہٗ لاشریک اور بڑا ہی کارساز ہے تو ہی اپنی مدد بھیج اور میرے اوپر رحم کرتا کہ میں تیری نماز ادا کرلیا کروں، تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دریائے بے کنار سے پارہ نکال کر شاہراہِ شہود پر ڈال دیا پہلے تو ہم اسی کو ایک بہت بڑی چیز جانتے تھے مگر آگے چل کر معلوم ہوا کہ توحید کے آگے شاہراہِ شہود ہے۔[۱]
[۱۔ ذکر خیر، صفحہ ۲۹۴۔ ۲۹۵۔]
مزارات سے فیض:
آپ نے مزارات سے بھی بکثرت فیض لیا ہے۔ چنانچہ جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب قبلہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم عشاء کے بعد خواجہ باقی باللہ کے مزار پر مراقبہ میں بیٹھے صبح کو آواز آئی کہ السلام علیکم۔ معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ کی روح نماز فجر کو گئی۔ آنکھ کھلی تو صبح تھی۔ فرمایا کہ سارا چبوترہ فیض سے بھرا ہوا ہے۔
ایک دن ارشاد ہوا کہ ایک دفعہ ہم حضرت بو علی قلندر کے مزار پر بیٹھے۔ دیکھا کہ کمبل اوڑھے تشریف رکھتےہیں۔ اور آپ کا محبوب مبارک خاں بھی حاضر ہے۔ فرمایا کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے مزار پر ہم نے مراقبہ کیا۔ نہایت زور کا اور تیز فیض ہے۔ اور آپ کو استغراق بہت ہے۔ وہاں نسبت چشتیہ ایسا غلبہ کرتی ہے کہ ذکر جہر اور سماع کو دل چاہتا ہے نیز فرمایا کہ سلطان المشائخ نظام الدین اولیا کے مزار فیض آثار پر ہم بیٹھے تو ہمارا سانس کبھی بند ہوتا اور کبھی نکل جاتا، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ کی روح شغل حبس دم کر رہی ہے اور نیز معلوم ہوا کہ ایام حیات میں آپ کا حبس دم کا یہی وقت تھا۔ حدیث شریف میں وارد ہے۔[۱] کما تعیشون تمون وکما تمونون تحشرون۔ یعنی جس حال میں تم دنیا میں ہو گے اُسی حال میں مرو گے۔ اور جس حال میں مرو گے اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے۔ مولانا روم فرماتے ہیں ؎
ہر چہ در دنیا خیالت آں بود
عاقبت راہ وصالت آں بود
[۱۔ مرقات شرح مشکوٰۃ جزء رابع۔ صفحہ ۱۹۵۔]
شیخنا العلامہ مولانا مولوی حاجی حافظ مشتاق احمد صاحب چشتی صابری کا تحریری بیان ہے کہ مخدومنا توکل شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں بمقام پانی پت حضرت مخدوم شمس الدین ترک شاہ ولایت پانی پت رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شریف میں رات بھر حاضر رہا۔ غلبہ نسبت اس قدر تھا کہ برداشت کرنا اور وہاں ٹھہرنا مجھے دشوار معلوم ہوا۔ میں نے دیکھا کہ حضور مخدوم مزارِ مقدس سے باہر تشریف لائے۔ زبانِ مبارک پر لا الہ الا اللہ جاری ہے اور تمام احاطہ خانقاہ شریف ارواحِ مقدسہ اولیاء اللہ سلسلہ چشتیہ صابریہ سے پر نظر آتا تھا۔ حضرت قطب الوقت سید شاہ بھیک رحمۃ اللہ علیہ کو بھی میں نے ان اولیاء میں دیکھا۔ پھر حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، ٹھیرا رہ ہم بھی اسی طرح مسافرانہ آئے تھے۔
جناب مولوی سید ظہورالدین انبہٹوی کی روایت یوں ہے کہ حضرت شاہ صاحب فرماتے تھے کہ جب ہم خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی قدس سرہ کے مزار پر حاضر ہوئے تو صاحب مزار کا فیض اس قدر زور سے آیا کہ تمام رات ہم سے کچھ کام نہ ہوسکا۔ امیراللہ شاہ ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے جب مراقبہ کیا توحضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا فیض چمکتی ہوئی تلواروں کی صورت میں نمودار ہوا۔ امیراللہ شاہ ڈر گئے میں نے کہا ڈرو مت، یہ حضرت کا جلالی فیض ہے، پھر ہم دونوں نے وہاں خوب مراقبے کیے اور فیض حاصل کیے۔
شیخنا العلامہ ہی سے یہ روایت ہے کہ شاہ صاحب فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں پیرانِ کلیر شریف حاضر ہوا۔ خانقاہ شریف میں داخل ہوتے ہی لطائف ستہ جاری ہوگئے۔ تین دن وہاں حاضر رہا۔ حضور مخدوم علاء الدین علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت کرم فرمایا اور مجھے انگوٹھی پہنادی اور نصیحتیں فرمائیں۔
سیّد صاحب انبہٹوی نے اس واقعہ کو یوں تحریر فرمایا ہے کہ شاہ صاحب فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ فقیر کلیر شریف حاضر ہوا۔ میں اکثر اوقات مراقبہ میں مشغول رہتا تھا۔ اسی حالت میں سجادہ نشین صاحب الگ اور مجاورین الگ مجھ کو کھانے کا تقاضہ کرنے لگے۔ فقیر نے ذرا اونچے لہجہ میں ان سے کہا کہ ہم کھانے نہیں آئے۔ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ یہ کہہ کر ہم مراقب ہوگئے۔ حضور مخدوم صاحب نے فقیر کو ایک چھلانقرئی عنایت کیا اور فرمانے لگے کہ مسافر فقیر کو اس قدر غصہ نہ چاہیے۔ فقیر فوراً باہر آیا اور لنگر والوں سے کہا پہلے ہمیں کھانا دو پھر کوئی کام کریں گے۔ یہ واقعہ بیان فرماکر ارشاد فرمایا مولوی! اولیاء اللہ کو اپنے متوسلین کا بہت خیال ہوتا ہے۔ ان سے خلاف نہ ہونا چاہیے۔
فیضان کا حصول:
سید صاحب موصوف نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ فقراء ٹھسکہ کے ذکر پر شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت بہادر علی شاہ صاحب بڑے صاحب تصرف تھے۔ ہمیں ان کے چہلم پر بلوایا گیا۔ ہم ضروری سمجھ کر چہلم میں شامل ہونے کی غرض سے ٹھسکہ جا رہے تھے۔ راستے میں حضرت بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روح سے ملاقات ہوئی۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ نے بہت مہربانی کی۔ اور ایک کنگھا (شانہ) مجھے عنایت فرمایا۔ ہم نے خوش ہوکر لے لیا اور چہلم میں شامل ہوئے۔ حضور علیہ الرحمۃ اپنے حجرے میں بیٹھے ہوئے بھی مسافات بعیدہ سے ارواح مقدسہ سے فیض لیا کرتے تھے۔ چنانچہ مراقبات شروع کرنے سے پہلے مدینہ منورہ کی طف متوجہ ہوکر جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضان لیا کرتے تھے اورنماز صبح سے پہلے بغداد شریف کی طرف منہ کرکے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے اور سرہند شریف کی طرف متوجہ ہوکر روحِ مطہر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے فیض حاصل کرتے۔ جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ انبالہ میں انبالہ میں بعد نماز مغرب آپ مسجد میں مراقب تھے کہ فرمایا کہ حضرت خواجہ قطب الدین دہلی والوں کا فیض آ رہا ہے بلکہ خود روح مبارک حاضر ہے۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتےہیں کہ ایک روز حضرت غوث پاک سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ تھا۔ کہ حضرت غوث پاک نے جو یہ فرمایا ہے کہ اولیاء اللہ کی گردنوں پر میرا قدم ہے بظاہر اس کا کیا مطلب ہے۔ فرمایا یہ درست ہے۔ آپ کے وقت سے لے کر قیامت تک جس قدر لوگ قادریہ نسبت کو حاصل کریں گے۔ ان سب کی گردنوں پر آپ کا قدم مبارک ضرورہوگا۔ کیونکہ نسبت قادریہ کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب کہ آپ کا قدم مبارک ان کی گردنوں پر آئےگا۔ چنانچہ ہم نے بھی دیکھا ہے کہ ایک دفعہ ہم بغداد شریف کی طرف منہ کرکے حضرت پیران پیر کی روح سے فیض لے رہے تھے۔ آپ کی روح مبارک ظاہر ہوئی اور نسبت چشتیہ وار د کرکے فرمایا کہ تمہیں ہماری طرف سے بھی اجازت ہے۔
غرض اس زمانہ قربِ قیامت میں آپ سا مجاہد و مرتاض۔ ذاکر و شاغل، پاند اوقات و پابند شرع دیکھنے میں نہیں آیا۔ آپ کے اوراد کا مزید بیان آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
چوتھا باب
اشاعتِ طریقہ
اس آسمانی دستار والے نے اپنے پیر دستگیر حضرت خواجہ قادر بخش قدس سرہ کے وصال کے بعد دیر تک سلسلہ بیعت جاری نہیں کیا۔ جو کوئی بیعت ہونےآتا۔ آپ اسے حضرت حاجی محمود جالندھری قدس سرہ سے یا اپنے پیر بھائی خلیفہ عالم شاہ سے بیعت کرادیتے۔ اور اپنے پاس کسی کو نہ بیٹھنے دیتے۔ نہ اللہ کا نام بتاتے۔ ایک روز میاں عالم شاہ نے آپ سے کہا کہ تم لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے دیا کرو۔ جب آپ اس کے خوگر ہوگئے تو پھر فرمایا نام اللہ کا بتادیا کرو۔ بعد ازاں آپ ایسا ہی کرنے لگے۔ صاحبزادہ خواجہ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ جب میں انبالہ میں زیر نگرانی حضرت سائیں توکل شاہ تعلیم پا رہا تھا تو دورانِ تعلیم میں ایک روز فیض طلب خان ساکن ڈیرہ بسی متصل شہر انبالہ نے سائیں توکل شاہ اور خلیفہ عالم شاہ کی اور میری دعوت کی۔ تناول طعام کے بعد اس نے حضرت سائیں صاحب سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ سائیں صاحب نے اس وقت کوئی مرید نہ کیا تھا، انکار کردیا۔ مگر خلیفہ عالم شاہ کے اصرار کرنے پر مرید کرلیا۔ وہ حضرت سائیں صاحب کا پہلا مرید تھا۔
فیض کا جاری ہونا:
اس کے بعد آپ کا فیض حدود انبالہ سے باہر دور دور پھیلنے لگا۔ چنانچہ پہلے پہل جب آپ کلا نور رہتک میں تشریف لے گئے تو بہت سے زن و مرد نے آپ سے اللہ کا نام پوچھا اور بیعت کی۔ آپ حلقہ میں توجہ دینے لگے۔ اُن ایام میں شغل حبس دم کے سبب سے آپ کی نسبت قلبی ایسی گرم و تیز تھی کہ حاضرین حلقہ تڑپ کر بے ہوش ہوجاتے۔ یہ دیکھ کر بعض لوگ آپ کو جادوگر کہنے لگے۔ اسی اثناء میں جناب مولوی نواب قطب الدین خاں صاحب دہلوی ادھر تشدریف لے گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ جادو نہیں اور خود بھی معتقد ہوگئے، پھر انبالہ میں تشریف لائے، تو طالبانِ خدا اطراف و اکناف سے جوق در جوق آئے اور بیعت ہوئے۔ چنانچہ لاہور، دہلی، کرنال، پانی پت، اجمیر شریف، احمدآباد، جے پور، بمبئی وغیرہ سے ارادتمند پر وانہ وار حاضر ہوکر داخل سلسلہ ہوئے۔ دیہات سے بھی کثرت سے لوگ آپ کے مرید ہوئے۔ القصہ آپ کے پیر و مرشد خواجہ شمس العرفاں قادر بخش رحمۃ اللہ علیہ کا وہ ارشاد کہ اس سے بڑا خاندان جاری ہوگا۔ لفظ بلفظ پورا ہوگیا۔
صحبت و توجہ کا اثر:
آپ کی صحبت میں عجیب اثر تھا۔ اپنوں کا تو کیا ذکر بیگانے بھی جب آپ کو دیکھے تو بے ساختہ بول اُٹھتے کہ یہ ولی اللہ ہیں۔ کئی غیر مسلم آپ کے ذریعے سے راہِ راست پر آگئے۔ آپ کی توجہ ایسی زبردست تھی کہ جس پر خصوصیت سے پڑ گئی۔ وہ مجذوب ہوگیا۔ ضلع شاہ پور کی بار اور ہتنی کنڈ کے پہاڑوں کی طرف شاید اب بھی کئی مجذوب سالک ایسے ملیں گے جن پر حضرت کی نظر کیمیا اثر پڑی ہوئی ہے۔ اور وہ رات دن یادِ خدا میں مستغرق اور شریعت کے پورے پابند ہیں۔
جنات کی بیعت:
جناب مولوی سراج الدین صاحب لکھتے ہیں کہ میاں صاحب قبلہ کے جن بھی مرید تھے۔ کیونکہ جو قطب ارشاد ہوتا ہے۔ جن اس کے پاس آتے ہیں۔ چنانچہ جن جناب غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے تابع و مرید تھے۔ اسی واسطے آپ کا لقب غوث الثقلین ہے۔ اخیر زمانہ میں مولانا شاہ ولی اللہ و شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ تعالیٰ کے جن مرید تھے۔ اسی طرح ہمارے حضرت صاحب سے بھی جن مرید تھے۔ چنانچہ ایک روز آپ نے فرمایا کہ ایک بار ہم باغ والی مسجد میں حلقہ کر رہے تھے کہ سوں سوں کی سی آواز آئی اور آگ کی دو انگیٹھیاں دھکتی ہوئی نظر آئیں۔ معلوم ہوا کہ دو جن بھی شامل حلقہ ہیں اور توجہ لے رہے ہیں۔ نیز فرمایا کہ جب ہم ہوشیار پور ضلع جالندھر گئے تو وہاں ایک مکان میں مدت سے جن کا تسلط تھا۔ لوگوں نے ہمیں اسی میں اتارا۔ آدھی رات کے وقت ایک شخص طویل القامت اور بدشکل و مہیب نظر آیا اور ہمیں ڈرانے لگا۔ ہم یادِ خدا اور درود و خوانی میں مشغول رہے۔ آخڑ کار جھک مار کر خود بشکل انسان سامنے آیا اور عذر کیا اور خدا کا نام پوچھ کر چلا گیا۔
جناب قاری سید اکرام المحسن صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ بھائی مغلی شاہ کا بیان ہے کہ ایک روز گیارہ بجے رات کے ایک اجنبی شخص جس کو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت صاحب کی خدمت مبارک میں حاضر ہوکر کہنے لگا۔ حضور والا! مجھے داخلِ سلسلہ کرلیجیے، پھر مجھے جلدی جانا ہے۔ حضرت صاحب نے اس کو بیعت کیا۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت نے مجھ سے فرمایا مغلی شاہ! کیا تو نے پہچانا یہ کون تھا؟ میں نے عرض کیا حضور مجھے کیا علم ہے کہ کون تھا، آخر الامر حضرت صاحب نے خود ارشاد فرمایا کہ میاں مغلی شاہ یہ شخص جن تھا۔ اکثر ہم سے جنات بھی مرید ہوکر جاتے تھے۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اس باغ میں تشریف لے گئے جواب روضہ مبارک کی غربی سڑک کے کنارہ پر مغرب کی طرف واقع ہے۔ وہاں ایک کچا مکان تھا، آپ اس میں بیٹھ گئے۔ درویش بھی ساتھ تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک ضعیف العمر بڑھیا رومی ریوڑیاں ایک برتن میں لیے حاضر خدمت ہوگئی اور کہا حضور! میں ابھی روم سے یہ ریوڑیاں لے کر آیا ہوں اور اپنی مزدوری کی حلال کی کمائی سے خرید کر لایا ہوں۔ اور بیعت ہونے کے واسطے عرض کیا، آپ کا معمول تھا کہ ہمیشہ عورتوں کو دستارِ مبارک کا پلہ پکڑ کا ور دور بٹھاکر بیعت فرمایا کرتے۔ برخلاف اس کے آپ نے بلا تکلف اس کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کیا۔ اس حلقہ میں سے ایک درویش کو خیال گزرا کہ آپ نے خلافِ معمول ایک نا محرم عورت کا ہاتھ کیوں پکڑا اس سے رہا نہ گیا۔ عرض کر ہی دیا، فرمایا یہ عورت نہیں، یہ تو جن ہے۔ پھر وہ غائب ہوگیا۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ جن بہت نیک بخت اور پرہیزگار ہے۔ اپنے ہاتھ سے مزدوری کرکے کھاتا ہے۔
بیعت میں احتیاط
جناب مولوی سید ظہیرالدین صاحب انبہٹوی لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا مولوی حافظ حاجی صوفی مشتاق احمد صاحب انبہٹوی اپنے رشتہ کے ماموں صاحب شیخ مخدوم بخش کو حضرت کی خدمت میں بغرض بیعت لائے۔ شیخ صاحب چاہتے تھے کہ خاندان قادریہ میں داخل ہوں۔ اگرچہ حضرت سائیں صاحب کو حضرت مولانا کی بہت ہی دلداری منظور تھی۔ مگر آپ نے صاف انکار کردیا۔ اور فرمایا کہ ہمیں اس خاندان میں بیعت کی اجازت نہیں ہے۔ صرف نقشبندیہ خاندان میں ہم بیعت کرسکتے ہیں۔ جس کی ہمیں اجازت ہے۔ یہ عاجز خاندان چشتیہ میں داخل ہونا چاہتا تھا مگر یہی جواب ملا تھا کہ مولوی! تعلیم تو ہم تمہیں چشتیہ اور نقشبندیہ کر رہی ہے۔ مگر اس خاندان میں بیعت کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔
پانچواں باب
اخلاق و عادات
آپ کے مکارم اخلاق کا کیا بیان ہوسکتا ہے۔ نظر بر اختصار ہم ذیل میں صرف چند جزئیات کا بیان درج کرتے ہیں۔
اوراد و وظائف:
نمازوں کے علاوہ آپ کے روزانہ اوراد و ظائف یہ تھے ۔ اسم ذات، نفی اثبات، کلمہ تمجید۔ سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَّبّ رَّحِیْم اَللہُ الصَّمَدُ ، آیہ کریمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ سورہ اخلاص۔ بسم اللہ شریف، سبحان اللہ درود شریف مراقبات وغیرہ۔ یہ وظائف آپ مختلف اوقات میں کیا کرتے تھے رات کو سونا برائے نام تھا۔ کوئی لمحہ کوئی منٹ یادِ الٰہی سے خالی نہ تھا۔ بلکہ اکثر گھنٹے اور منٹ کے موافق وظیفہ کیا کرتے تھے۔ پنجشنبہ کے دن اللہ بخش حجام سے حجامت بنواتے۔ مگر اُس وقت بھی سبحان اللہ وغیرہ پڑھتے رہتے۔ حجامت کے بعد خادم عبدالکریم سر مبارک پر پانی ڈالتا اور کریم بخش دھوتا۔ اس اثناء میں بھی جس ورد کا وقت ہوتا وہی زبانِ مبارک پر ہوتا۔
روزمرہ کی عبادت:
آپ کے اوقات انضباط کی نسبت جناب مولوی سیّد ظہورالدین صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کی روزمرہ عبادت یہ تھی کہ نماز فجر باجماعت ادا کرکے آفتاب کے طلوع ہونے پر حکیم معزالدین صاحب دہلوی کا ناشتہ شہد وغیرہ نوش فرماکر مراقبہ کی نیت سے بیٹھتے تھے۔ پھر مراقبہ سے فارغ ہوکر قریب بارہ بجے یا کچھ کم وبیش درود شریف ورد فرماتے۔ پھر دوپہر کا کھانا تناول فرماکر قیلولہ کی نیت سے لیٹتے تھے۔ بعد ازاں اٹھ کر اکثر استنجا اور وضو کرتے اور نماز ظہر جماعت کے ساتھ ادا فرمایا کرتے تھے۔ بعد نماز عصر مسجد میں مغرب تک وظائف میں مشغول رہتے تھے۔ مغرب سے پہلے وضو کرکے نماز مغرب با جماعت ادا کیا کرتے تھے۔ بعد نماز مغرب مراقبہ میں تقریباً دو یا ڈیڑھ گھنٹہ کبھی کم و بیش عرصہ تک مشغول رہتے۔ پھر مسجد سے مکان کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نصف یا ایک روٹی خشک سادی اندر سے آتی تھی۔ اس کو تقسیم کرکے تقریباً آٹھواں حصہ یا کم خود تناول فرماکر پھر مراقبہ میں مشغول ہوجاتے تھے۔ یہ مراقبہ بہت لمبا ہوتا تھا۔ کبھی بارہ بجے رات کے اور کبھی ایک یاد و بجے فارغ ہوتے۔ نماز عشاء بوجہ سکر بدقت تمام ادا کیا کرتے تھے۔ رات کو سوتے نہ تھے۔ فجر سے پہلے ذرا یونہی لیٹے جاتے۔ پھر نماز صبح ادا کیا کرتے۔‘‘
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ جب تک آپ تندرست رہے۔ یہی معمول رہا مگر جب مرض بواسیر نے غلبہ پایا اور دو دو گھنٹے بیت الخلا میں بیٹھنا پڑا تو مسجد میں جانا ترک ہوگیا۔ مکان ہی پر نماز با جماعت ادا کرلیا کرتے۔ مگر دیگر اوراد میں سے کسی میں آخری دم تک ذرا فرق نہیں آیا۔
عقد ثانی سے پہلے جب حضور مسجد میں رہتے تھے اس زمانہ کے حالات جناب مولوی سراج الدین صاحب یوں لکھتے ہیں کہ قبل از صبح حاجی کریم بخش بڈھا آپ کو آواز دیتا۔ آپ بیت الخلا جاکر وضو کرکے سنتِ فجر ادا کرتے۔ اور نماز فجر با جماعت میاں جی رحیم بخش خاں صاحب کے پیچھے پڑھتے۔ نماز کے بعد تین بار سورہ اخلاص نہایت تدبر و تفکر سے پڑھتے تھے۔ اس اثنا میں کسی سے کلام و مصافحہ نہ کرتے تھے۔ اور مریدین کو اس کی تلقین کرتے اور فرماتے کہ تین بار قل ھو اللہ ایک قرآن شریف کے ثواب کے برابر ہے۔ اور فرماتے کہ اس سے ضیق معاش بھی دور ہوتی ہے۔ چنانچہ ساڈا (ہمارا) لنگر اسی سے جاری ہے پھر سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ الرَّحِیْم سو بار اور آیت کریمہ سو بار پڑھ کر ان سب کا ثواب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک کو اس طرح بخشتے۔ ’’الٰہی غلطی مینوں (مجھے) بخش دیجو۔ اور صحیح حرف کا ثواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو میں نے بخشا۔ پھر فرماتے کہ خاص کرمیاں صاحب پیر دستگیر کی روح مبارک کو بخشا۔‘‘ بعد ازاں بارہ بجے تک لمبا مراقبہ فرماتے۔ ایک بجے کے قریب اٹھ کر بیت الخلا میں جاتے۔ اور کھانا کھاکر قیلولہ فرماتے پھر استنجا اور وضو مع مسواک کرکے نماز ظہر جماعت کے ساتھ ادا کرتے نماز کے بعد تین بار قل ھو اللہ پڑھ کر عصر تک اورا دمیں مشغول رہتے۔ اور تازہ وضو مع مسواک کرکے نماز عصر جماعت کے ساتھ پڑھتے۔ اور مغرب تک کسی سے کلام و مصافحہ نہ کرے اور سلام کا جواب بھی نہ دیتے۔ مغرب کی نماز تازہ وضو سے جماعت کے ساتھ پڑھتے۔ اور تین بار قل ھو اللہ اور سو بار آیت کریمہ پڑھ کر مراقبہ خفیفہ کرتے۔ بعد ازاں یہ درود شریف لطیفہ اخفیٰ پر بے شمار پڑھتے: اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی اٰل سیدنا محمد بعدد کل معلوم لک وبعدد کل ذرۃ مائۃ الف الف مرۃ۔ اس کے بعد وضو تازہ کرکے نماز عشاء جماعت کے ساتھ پڑھتے۔ اور صبح و شام درود شریف کے اور کئی صیغے پڑھا کرتے تھے۔ حتی کہ درود شریف کی کثرت سے آپ کے بدن و جامہ سے خوشبو آتی تھی۔ اور آپ رات کو سویا نہ کرتے تھے۔
ادب و رعایت حقوق:
ادب کے لفظی معنی ہر چیز کا اندازہ و حد نگاہ رکھنا ہے۔ اصطلاح میں اس سے مراد اپنے نفس کو قول نا پسندیدہ اور فعل ناستودہ سے بچانا اور اپنی دوسروں کی حرمت کا پایہ نگاہ رکھنا ہے۔ حقیقت ادب یہ ہے کہ تمام حالات میں حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی جائے۔ کیونکہ ادیب کامل آپ ہی ہیں۔ اس لیے بفحوائے ادبی ربی فاحسن تادیبی آپ کا مودب خود خدا تعالیٰ ہے۔ ؎
ادب آموز زاں ادیب کہ او ادب از حضرت خدا آموخت
بر کسے خواں سبق کہ در ہمہ حال سبق از لوح کبریا آموخت
سنت مطہرہ کی پیروی:
جہاں تک ہمیں معلوم ہے حضور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ جملہ اقوال و افعال حرکات و سکنات اور خور د و نوش غرض تمام امور میں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کا پورا اتباع کیا کرتے تھے۔
جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’جب تک حضور بقید حیات رہے۔ ایک چپہ زمین کے مالک نہیں ہوئے۔ نہ پلنگ پر آرام کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر بسترہ کریں اور ہم ناچیز پلنگوں پر آرام کریں۔ نیز فرماتے تھے کہ صرف سنت کی ادائیگی کے خیال سے کبھی زوجہ کے پاس لیٹنا ہوتا ہے۔ ورنہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ کرم فرمایا ہے کہ حور بھی بغل میں بیٹھی رہے۔ تو اُس کی طرف بھی کبھی آنکھ نہ اُٹھے۔
آپ کھانا شاید تمام دن رات میں اول تو کم ورنہ دو روٹی سے زیادہ کبھی نہ کھاتے تھے۔ جب کھانا سامنے آتا تھا تو تمام روٹیاں حاضرین میں تقسیم کردیتے تھے۔ نصف یا پونی روٹی آپ تناول فرماتے تھے۔ صبح کے وقت حکیم معزالدین دہلوی آپ کے خاص خادم آپ پر جان و مال قربان کرنے والے کبھی انڈا اور شہد اور کبھی کلونجی اور شہد پیش کیا کرتے تھے کہ حضور! یہ دوا ہے اور مسنون غذا ہے، پھر یہ فرمایا کر سب سنت کے اتباع میں شریک ہوجاؤ اکثر حصہ تقسیم کردیتے اور کچھ بقیہ آپ تنازل فرماتے تھے۔ حکیم صاحب یہ انتظام فرمایا کرتے تھے کہ ایسے وقت میں کوئی صاحب حضور کے پاس نہ آئیں، مگر حضور خود طلب فرمالیا کرتے تھے، فرمایاکرتے تھے کہ مولوی! جب جنگل میں رہنا ہوا تو برسوں پتے کھاکر گزر کیا۔ پتے بھی نیم کے کڑوے تاکہ شکم زیادہ حرص کھانے کی نہ کرے۔
آپ صرف جمعہ کے دن لباس تبدیل فرمایا کرتے تھے۔ جس قسم کا جوڑا چھوٹی مائی صاحبہ نے پہنادیا۔ آیندہ جمعہ تک وہی زیب تن رہتا تھا۔ اگر کسی کو اپنا لایا ہوا لباس پہنانا منظور ہوتا تو مائی صاحبہ جمعہ کے دن وہی پہنادیتیں۔ درمیان میں دوسرا پہنانا ممکن نہ تھا۔ سرمہ، شانہ اور خوشبو کا استعمال کیا کرتے تھے۔ جمعہ کے وقت یہ سب اشیاء جمع ہوجاتی تھیں۔ ورنہ سرمہ رات کے وقت باتباعِ سنت ہوا کرتا تھا۔ جمعہ کے وقت یہ سب اشیاء جمع ہوجاتی تھیں۔ ورنہ سرمہ رات کے وقت اور شانہ کبھی رات کو اور کبھی دن میں استعمال کیا کرتے تھے۔
جناب مولوی سراج الدین صاحب یوں لکھتے ہیں:
خورد و نوش کی کیفیت:
’’حضرت مولوی سراج صاحب علیہ الرحمۃ دن کا کھانا موسم گرما ہو یا سرما دو بجے کے قریب اور رات کا کھانا کبھی بارہ بجے اور کبھی بعد کھایا کرتے تھے۔ عقد ثانی سے پہلے آپ کا کھانا بلا تکلف تھا۔ مونگ یا ماش کی دھوئی ہوئی دال۔ سرخ گیہوں کی روٹی اور بکری کا کم روغن گوشت مگر جب آپ کا عقد ثانی ہوگیا۔ اور لنگر اور خورد و نوش کا انتظام چھوٹی مائی صاحبہ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ تو انہوں نے بمقتضائے مبت حضرت کے طعام میں گونہ تکلف کردیا۔ اگرچہ وقت طعام وہی رہا۔ مگر قدرے تکلف ہوگیا۔ حضرت نے جو سامنے آیا کھالیا۔ کبھی کھانے میں نکتہ چینی نہ کرتے تھے۔ اگر کوئی نمک مرچ کم و بیش کہتا تو فرماتے کہ دو قت کے بعد کھایا کرو۔ کھانا خود اچھا لگے گا۔ مسافر اور مہمان وغیرہ سب آپ سے پہلے کھاچکتے تھے۔ جب آپ کھاتے تو اس میں سے کسی کو الوش دیتے۔ اور کسی کو شریک طعام کرتے۔ کیونکہ حدیث شریف میں شرالناس من اکل وحدہ[۱] چھوٹی مائی صاحبہ کے زمانہ میں حکیم معزالدین دہلوی صبح کو چائے دودھ کی اور زردہ بیضہ مرغ۔ نیمبرشت حاضر کرتے۔ حضرت دونوں ہاتھ مٹی کے برتن میں دھوکر پہلے ایک روکھا سوکھا روٹی کا ٹکڑا کھاتے۔ پھر چاء وغیرہ نوش جاں فرماتے۔ مگر اس میں سے کسی تبرک ضرور دیتے۔ دوا و شربت و میوہ و شیرینی وغیرہ میں بھی یہی آپ کا معمول تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ شاہ آباد میں کسی نے آپ کے لیے ست پودینہ کی ایک چھوٹی شیشی بھیجی۔ آپ نے اُس میں سے کچھ کھایا اور مجھ سے فرمایا کہ تھوڑا سا سب حاضرین کے ہاتھ پر رکھ دو۔‘‘
[۱۔ عن ابن عباس عن النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام انہ قال شرالناس من اکل وحدہ وضرب عبدہ ومنع رفدہ۔ یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے برواہ ہے جس نے تنہا کھایا، اور اپنے غلام کو مارا اور کسی نے پیالہ مانگ تو نہ دیا۔ (بستان ابواللیث سمرقندی)]
محفل میلاد کا انعقاد:
حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی تعظیم و توقیر کرتے تھے۔ آپ کی طرف سے محفل میلاد شریف منعقد ہوا کرتی۔ چنانچہ جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۲ ربیع الاول کو حضور کی طرف سے میلاد کی ایک مجلس شریف منعقد ہوا کرتی۔ یہ عجیب کیفیت کی مجلس ہوتی تھی۔ تمام حاضرین پر انوار الٰہی وار د ہوتے تھے۔ حضور شاہ صاحب مجلس سے فاصلے پر کبھی مکان پر ہی تشریف رکھا کرتے تھے اور اُس جگہ سے عالم خاموشی و مراقبہ میں آپ کی شمولیت ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ آپ مجلس سے اندر کیوں تشریف نہیں لے جاتے۔ آپ نے فرمایا کہ مولوی! ہم تو اس جگہ ہی بالکل بیہوش ہوکر آنے جانے سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار اس قدر ہم پر وارد ہوتے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی خبر نہیں رہتی۔ اس مجلس میں شیرینی بھی تقسیم ہوتی تھی۔ اور وقت پر قیام بھی ہوتا تھا۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب پہلے محفل میلاد شریف میں قیام نہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ میر یوسف علی شاہ صاحب نے بتقریب محفل مذکور حضرت صاحب سے مولوی صاحب کی شکایت کردی کہ انہوں نے قیام نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کی قیل و قال پر فرمایا[۱] (۱۔ذکر خیر صفحہ۳۶۵) تم اس نیت سے قیام کرلیا کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت جو حیوانات نباتات ملائک حجر شجر غرض تمام موجودات کی روحانیت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے واسطے قیام کیا تھا۔ ہم اُس کی نقل کرتے ہیں اور اس قسم کی نقل شریعت میں منع نہیں اور دوسرے قیام کے وقت یہ مراقبہ کرلیا کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض میرے دل میں آرہا ہے۔‘‘ یہ سن کر مولوی صاحب نے کہا لو میر صاحب! اب میں قیام بھی کیا کروں گا۔ اور لوگوں کو جواب بھی دے دیا کروں گا۔
جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ کتاب مشکوٰہ شریف منگاؤ۔ اور اُس میں سے مجھے باب وسوسہ کی حدیثیں سناؤ۔ چنانچہ کتاب شریف منگوائی گئی۔ میں ادب سے چار پائی کی پینتی کی طرف بیٹھے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ سرہانے بیٹھ جا میں نے اصرار کیا تو فرمایا: الامر فوق الادب۔ ہم تیرا ادب نہیں کرتے۔ کتابِ حدیث کا ادب کرتے ہیں۔
کثرتِ درود شریف:
تعظیم و توقیر کی طرح امت پر حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کریں۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے اس حق کو جس خوبی سے ادا کیا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ یہ ورد آپ کے وظائف میں امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ آپ اپنے مریدوں کو بھی اس کی کثرت کی بہت تاکید فرمایا کرتے اور اس کے فوائد بتایا کرتے تھے۔
درود شریف کی برکت:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز بڑی خوشی وقتی کی حالت میں فرمانے لگے کہ ہم نے بھی درود شریف بہت پڑھا تو ہمیں ایک صورت نظر آنے لگی جس کا چہرہ نہایت موزوں سرخ و سفید تھا اور آنکھیں نہایت خوبصورت تھیں جن میں سرخ ڈورا پڑا ہوا تھا۔ اس کے عمامہ میں ایک شملہ پیشانی پر پڑا ہوا تھا۔ وہ صورت ہر وقت ہمارے ساتھ رہنے لگی۔ جاگتے بھی سوتے بھی۔ وہ ساتھ رہتی ہم حیران تھے کہ یہ کون ہیں اور کسی سے کبھی ذکر نہ کیا کہ یہ حالت ہے۔ اور اثر اس کا یہ تھا کہ طبیعت میں ہمیشہ جوش و خروش اور سوز و درد رہتا پھر کچھ عرصہ کے بعد دو صورتیں ہوگئیں دونوں صورتیں نظر آتی تھیں پھر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ پہلی صورت حضرت غوث الاعظم کی تھی اور دوسری حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ صورتیں گم ہوگئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بالمشافہ ہونے گی۔ اور ہماری روح کو ذاتِ رسول میں فنا ہوگئی۔ پھر بڑی موج ہوئی۔ مدینہ شریف سے جلدی جلدی فیض آنے لگا۔ اب ہمیں سمجھ آئی کہ فنا فی الرسول کی یہ صورت ہے۔
ادب کا لحاظ:
حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیگر انبیائے کرام کا ادب بھی کماحقہ کیا کرتے تھے۔ اور ان کے حق میں کسی قسم کی بے ادبی کو برداشت نہ کرتے تھے۔ چنانچہ جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مولوی خلیل الرحمٰن سہارنپوری آپ کے سلسلہ مریدین میں سے تھے۔ انہوں نے حضرت سائیں صاحب کے لیے رزق کا بے وقت آنا، من و سلویٰ سے تعبیر کرکے ایک نظم اس نزولِ رزق کے بارہ میں لکھی۔ حضرت سائیں صاحب نے جب یہ نظم سنی تو بہت ناراض ہوئے حکم دیا کہ اس نظم کو پھاڑ ڈالو اور تلف کردو۔
غیب سے رزق:
پھر مجھ سے فرمانے لگے کہ مولوی! ہم نا چیز آدمیوں کو پیغمبروں کے اوصاف میں شامل کرنا نہایت بے ادبی اور گستاخی ہے وہ تو ایک خاص رزق عنایت الٰہی کا ذکر فرمایا کہ بات صرف اس قدر تھی کہ ہم چند آدمی راوی کے کنارے یادِ الٰہی میں ٹھہرے ہوئے ذکر و شغل کیا کرتے تھے۔ اتفاقً چار پانچ روز تک کوئی چیز کھانے کی یا نقدی نہ آئی فقیر عین صبح صادق کے وقت کچھ پہلے مراقبہ سے فارغ ہوکر خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں سجدے میں گر پڑا اور نہایت عاجزی سے عرض کیا۔ اے پاک پروردگار! میں تو امتحان کے قابل نہیں ہوں۔ میرے ساتھ یہ چند بندے بھی امتحان میں آگئے تو ہمارے حال پر رحم فرما اور ان ہمراہیوں کو اپنے فضل و کرم سے رزق عطا فرما کر مجھ گنہگار کو سرخرو فرما اور ان کے رو برو نادم نہ کر۔ خدا تعالیٰ کا فضل ایسا ہوا کہ میں نے سجدے سے سر اٹھایا ہی تھا کہ دو تین آدمی خوانوں میں بہت عمدہ دودھ کی کھیر لیے میرے سامنے آئے اور وہ خوان میرے آگے کھانے کے لیے پیش کیا سب نے سیر ہوکر کھایا۔ مولوی! اللہ تعالیٰ تو روز مرہ غیب ہی سے اپنے بندوں کو طرح طرح کی نعمتیں عطا کرتا ہے اس کو من و سلویٰ کہنا بڑی نادانی ہے۔ انتہےٰ۔ اس کے بعد سید صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ حضرت سائیں صاحب کا یہ فرمانا درست ہے کہ غیر انبیاء کو انبیاء کرم کے مشابہ نہ کرنا چاہیے کہ باقی خدا تعالیٰ ہی اگر غیر انبیاء جیسے انعامات کرے تو یہ اس کا فضل ہے۔ حضرت سائیں صاحب کا ایسا فرمانا انکسار ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہے کہ حضور کی امت مرحومہ پر ایسے ایسے انعام و اکرام غیب سے عطا ہوں۔ ذٰلک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء۔ انتہےٰ۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ صاحب تفسیر روح البیان ولکل امۃ رسول الآیہ کے تحت میں یوں تحریر فرماتے ہیں:۔
ثم الرسول یاتی بالوحی الظاھر والباطن ووارث الرسول یاتی بالوحی الباطن وھو الالھام الالٰھی وکل ماجز وقوعہ للانبیاء من المعجزات جاز للاولیاء مثلہ من الکرامات
رسول وحی ظاہر و باطن لاتا ہے اور رسول کا وارث وحی یعنی الہام الٰہی لاتا ہے اور جن معجزات کا وقوع انبیاء کرام کے لیے جائز ہے اولیاء کے لیے اُن کی مثل کرامات کا وقوع جائز ہے۔
پس مرشدنا خواجہ انبالوی علیہ الرحمۃ کا ارشاد آپ کے کمال تواضع و تقویٰ پر مبنی ہے۔
سادات کا احترام:
حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے ایک امر یہ بھی ہے کہ آپ کے اہلیت کا احترام کیا جائے قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس پر پورے عامل تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کے پاؤں دبانے لگتا تو پوچھ لیتے تھے کہ تو سید تو نہیں اگر سید ہونے کا شبہ بھی ہوجاتا تو پاؤں ہٹالیتے اور فرماتے کہ سید سے پاؤں دبوانا گستاخی ہے۔
صاحب تذکرہ توکلیہ لکھتے ہیں کہ آپ کے مدرسہ میں ایک طالب علم پڑھتا تھا جو اپنے تئیں سید بتاتا تھا۔ اس کو روٹی مدرسہ سے ملتی تھی۔ ایک دن اسے جو کھانا ملا تو وہ کسی ناجائز جگہ لے گیا۔ جناب حکیم سمیع الدین صاحب دہلوی اور ایک مولوی صاحب نے حضرت صاحب سے شکایت کی او ر استدعا کی کہ اس کو مدرسہ سے نکال دینا چاہیے فرمایا تم لوگ مولوی ہو تم جانو مگر ہم تو سید کے نکالنے کی بابت کبھی بھی لب کشائی نہ کریں گے۔ اگر اس کو نکالو تو اس کا وظیفہ بند نہ کرنا۔ اور طعام مقررہ جاری رکھنا۔
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب کا بیان ہے کہ حضرت شاہ صاحب سید اور مولوی کی بہت عزت فرماتے تھے میر محمد یوسف صاحب چھاؤنی والے آپ کے کاص مریدوں میں تھے مگر آپ سید ہونے کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے تھے ان کی طرف پشت تک نہ کرتے تھے۔ ایک روز آپ کا سانس اکہرا ہوگیا رات کے دس بجے تھے تکلیف زیادہ تھی میں اتفاقاً حاضر خدمت ہوا اور پائے مبارک کی طرف بیٹھ گیا فوراً مجھے سر مبارک کی طرف کھینچ لیا۔ فرمانے لگے سید ہو صوفی مولوی ہو میرا خیال تھا کہ اس وقت مولوی ہو تو بہتر ہے تو آہی گیا۔ تھوڑے عرصہ میں حضور کو اُس تکلیف سے آسائش مل گئی اور سانس دہرا آنے لگا۔
جناب حافظ سید سر فراز علی شاہ صاحب سکندر پوری جو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے ہیں اپنے خط میں جو کمالات توکلی کے اخیر میں درج ہے تحریر فرماتے ہیں کہ میں جب مرید ہوا تو وہ زمانہ میرے شروع شباب کا تھا اور علم ظاہری کی تازگی سے کچھ عجیب عالم تھا۔ حضرت مرشدی و مولائی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ اول سبق طریقت میں کیا ہے۔ میں نے عرض کیا حکم مرشد کا بجالانا پس ارشاد فرمایا کہ تم چوں کہ آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ اس سے مجھے تمہاری ظاہری سرداری ماننی چاہیے اور تم میرا باطنی خیال دل میں رکھو اور خوب یاد رکھو کہ کبھی کوئی خدمت مثل نعلین برداری یا اور کوئی چیز ضرورتاً اٹھانے کا خیال نہ کرنا میں تم سے کبھی کسی خدمت کو نہ کہوں گا اور اگر تم بعض وقت اس خیال سے کہ کوئی آدمی نہیں ہے کوئی چیز اٹھادو گے تو میں نا خوش ہوں گا اور تم الا مرفوق الادب کے عامل نہ ہوگے اور نیز ہمیشہ آپ کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر کہیں جاتے تو مجھے آگے لیتے سواری میں بیٹھتے تو میری طرف پشت نہ کرتے اور یہاں تک کہ بعض وقت تشنگی میں پانی طلب فرماتے تو پانی لانے والے کو اشارہ کرتے جب پہلے میں پی لیتا تو آپ نوش فرماتے حالانکہ میں اُس زمانہ میں حقہ پیتا تھا۔ جس کی مذمت آپ مجھے وقتاً فوقتاً فرمایا کرتے تھے۔ جب میں زیارت کو وطن سے آتا تو کھڑے ہوکر معانقہ فرماتے۔
علمائے دین کا احترام:
حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نظر بر حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے عالموں کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ چنانچہ صاحب تذکرہ توکلیہ لکھتے ہیں کہ جناب مولانا مولوی قاری عبد الرحمٰن صاحب مرحوم محدث پانی پتی انبالہ میں تشریف لائے اور میاں صاحب کی ملاقات کے لیے پاپیادہ آپ کے مکان پر آئے۔ اس وقت حضرت صاحب کھانا نوش فرمارہے تھے۔ خادم نے بلا اطلاع میاں صاحب کے کہہ دیا۔ کہ اس وقت میاں صاحب نہیں مل سکتے مولوی صاحب ناراض ہوکر واپس تشریف لے گئے جب میاں صاحب کو اطلاع ہوئی بہت رنج کیا نہایت گھبرائے کہ نائب رسول آئے اور واپس گئے اُسی وقت گاڑی طلب فرمائی مع رفقاء سوار ہوکر چلنے کو تھے کہ اتنے میں مولوی غلام محمد صاحب ہوشیار پوری وکیل ندوۃ العلماء بھی آگئے۔ میاں صاحب نے ان کو بھی گاڑی میں بٹھالیا جب قاری صاحب کے پاس پہنچے تو قاری صاحب سیدھے سر و قد تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور میاں صاحب سے مصافحہ کیا۔
علماء کی دعوت:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور علیہ الرحمۃ نے مولویوں کی دعوت کی اور نہایت عمدہ نفیس کھانے پکوا کر کھلائے۔ اُس دعوت میں تمام مولوی صاحب ہی تھے اور میں بھی شامل تھا۔ حضور کے دوسرے درویش باہم سرگوشیاں کرنے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ خصوصیت کے ساتھ مولویوں کی ہی ضیافت کی گئی اور دوسرے درویشوں کو اس میں شریک نہ کیا گیا۔ کئی دنوں کے بعد ایک روز میں نے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس میں کیا مصلحت تھی کہ حضور نے بالخصوص مولویوں کی ضیافت کی۔ فرمایا ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی ہمیں بھی تو کھانا کھلا دیا کرو۔ ہم نے خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح کھلایا جائے۔ آخر کار اس مسئلہ پر نظر جا پڑی کہ جب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا تو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اُن کا حصہ ان کی ہمشیرہ(ہالہ رضی اللہ عنہا) کو جن سے وہ ہت ہی خوش تھیں بھجوادیا کرتے اس پر ہم نے خیال کیا کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہیں اسی کو دعوت کھلانی چاہیے چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور آپ کا کام انجام دینے والے علماء ہیں اس واسطے ہم نے آپ کی دعوت علماء کو کھلائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فاتحہ دلا کر ہم یہ سمجھے کہ علماء کو کھانا کھلانا خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو کھلانا ہے اور پہنچ تو یوں بھی جاتا اگر ہم دوسروں کو کھلادیتے۔ مگر اس میں ہم نے زیادہ مصلحت یہ سمجھی کہ اس گروہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیار ہے تو انہیں کو کھلانا چاہیے تاکہ آپ زیادہ خوش ہوں۔
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مولانا ولی محمد صاحب فاضل جالندھری حضور کے معتقدین میں سے تھے۔ ایک مرتبہ سائیں صاحب کی خدمت میں قبور اولیاء اللہ اور اہلِ مراقبہ کی باہمی بات چیت میں گفتگو کرنے لگے کہ ارواح لطیف سے اُن کی باہم گفتگو کیسے ہوسکتی ہے۔ آپ نے فوراً یہ فرمایا کہ فاضل ہوکر ایسی بات نہ کہو۔ الست بربکم کے جواب میں بلیٰ کس نے کہا۔ مولوی صاحب اس جواب سے حیران ہوکر قدموں میں گرنے لگے۔ آپ نے ہر گز اجازت نہ دی نہ قدم چومنے کی اجازت دی۔ فرمایا گو تمہیں ہم سے ارادت ہے مگر مولوی ہو۔ یہ خلافِ ادب ہے۔
پیر کی تعظیم و خدمت
حضور علیہ الرحمۃ اپنے پیر و مرشد کا بڑا ادب کیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ حلقہ میں ہم سب سے دور بیٹھا کرتے تھے مگر فیض ہمیں سب سے زیادہ پہنچتا تھا بپاس ادب و خوف سلب نعمت آپ عموماً خدمت مرشد میں کم رہتے اور ہوشیار پور چلے جاتے۔
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب بروایت صاحبزادہ خالقداد صاحب جہانخیلی ذکر کرتے ہیں ہ ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ جہانخیلاں تشریف لے گئے۔ اتفاقاً وہاں حضور کو مرض پیچش کی شکایت ہوگئی یہاں تک کہ دن میں کئی کئی مرتبہ رفع حاجات کے لیے جاتے اور سرحد جہانخیلاں کو چھوڑ کر ننگے پاؤں دو دو میل کے فاصلہ پر چلے جاتے یہ دیکھ کر صاحبزادہ صاحب ممدوح نے عرض کیا کہ اگر حضور والا ارشاد فرمائیں۔ تو یہں پر چوکی رکھوادی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب مجھ سے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں میرے حضرت صاحب کا گزریا قیام ہو۔ وہاں رفع حاجت کے واسطے بیٹھوں یا جوتا پہن کر چلوں۔
مرشد کی خدمت:
آپ نے اپنے پیر کی بڑی خدمت کی ہے۔ فرمایا کہ کرتے تھے کہ دوسرے پیر بھائی ہمارے سر پر دو دو تین تین من بھوسا کا گٹھا رکھ دیا کرتے اور ہم دو دو میل تک اسے چھوڑ آتے جب شمس العرفان کا وصال ہوگیا تو اُس وقت صاحبزادگان عبد الخالق و خالقداد بہت ہی کم سن تھے اس لیے حضرت شاہ صاحب قبلہ جہانخیلاں ہی میں رہنے لگے ان کے تمام کاروبار کی خبر گیری رکھتے او کھیتی وغیرہ کو دیکھتے اور عبد الخالق کو کندھے پر اٹھائے پھرتے چنانچہ ایک دن کا واقعہ آپ یوں بیان فرماتے ہیں کہ صاحبزادہ عبد الخالق ابھی بچہ ہی تھے کہ ہم ان کو گود میں اٹھائے اور سر پر گھاس کا گٹھا لیے ہوئے مکان پر آئے صاحبزادہ صاحب کو تو ہم نے زمین پر بٹھادیا اور خود گھاس کا گٹھیا لیے اندر چلے گئے دروازہ بہت تنگ تھا ہم بدقت تمام اندر پہنچے اس پر صاحبزادہ صاحب ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ گھاس کا گٹھا باہر لاکر اُسی طرح سر پر گھاس اور گود میں مجھے لے کر اندر جاؤ۔ تو میں راضی ہوں بچوں والی ضد تھی مجبوراً ہم بڑی مشکل سے گھاس باہر لائے اور ان کی مرضی کے موافق گھاس سر پر اور ان کو گود میں لے کر نہایت مشکل سے دروازے میں سے اندر گئے اور وہاں گھاس ڈال دی۔ ہم اس طرح صاحبزادوں کی دلجوئی کرتے اور محبت سے اُن کی پرورش میں لگے رہتے۔[۱] جب ذرا سیانے ہوئے تو آپ دونوں کو انبالہ میں لے آئے اور ان کو تعلیم دلوانے لگے۔
[ا۔ ذکر خیر۔ صفحہ ۲۲۔]
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ناقل ہیں کہ ایک شخص ہندوستانی حضور کے پاس بیٹھا تھا۔ اثنائے گفتگو میں اُس کی زبان سے نکلا کہ پنجاب کی زبان بڑی خراب ہے۔ یہ سن کر حضور نے اس کے منہ پر ایک طمانچہ مارا اور فرمایا کہ تو نہیں جانتا کہ ہمارے خواجہ صاحب پنجاب ہی کے تھے اور ان کی زبان پنجابی تھی تو ہمارے خواجہ صاحب کی زبان کی توہین کرتا ہے۔ وہ نادم ہوا اور معافی مانگی۔
حضرت شمس العارفین خواجہ قادر بخش قدس سرہ کے وصال کے بعد آپ حضرت حاجی محمود صاحب جالندھری قدس سرہ کی خدمت میں بھی نہایت ادب و نیاز مندی سے حاضر ہوا کرتے تھے چنانچہ اس حاضری کا ذکر حافظ انور علی صاحب رہتکی یوں فرماتے ہیں:۔
’’مشفقی ام حکیم معز الدین صاحب دہلوی نے جو حضرت توکل شاہ صاحب کے جاں نثار مریدوں میں تھے مجھے اطلاع دی کہ حضرت شاہ صاحب تشریف لائے ہیں اور حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں گئے ہیں میں بھی وہاں حاضر ہوا دیکھا کہ مجلس بڑی گرم ہے حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں حضرت توکل شاہ صاحب با ادب بیٹھے ہیں اور حضرت توکل شاہ صاحب کی گرمی نسبت سے طالبوں کے قلب گرم ہورہے ہیں۔ ایک جانب کو میں بھی بیٹھ گیا پھر حضرت توکل شاہ صاحب نے تحفہ تحائف پارچہ جات وغیرہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کیے۔ حضرت حاجی صاحب نے ان سے بڑی شفقت اور عنایت سے باتیں کیں۔ یاد پڑتا ہے حضرت حاجی صاحب ان کے خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب بھی تھے پھر میں نے بھی حضرت شاہ صاحب سے نیاز حاصل کی بڑی عنایت اور شفقت فرماتے رہے۔ پھر شاہ صاحب انبالہ تشریف لے گئے میں نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں شرح کافی ہاے بلھے شاہ صاحب قصوری انبالہ بھیجی۔ جب دوبارہ حضرت توکل شاہ صاحب انبالہ سے حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں جالندھر تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا۔ بیلی! شرح کافیوں میں خوب موجیں ماری ہیں۔ باوجود یکہ شاہ صاحب خواندہ نہ تھے۔ ذات و صفات کے مسئلہ میں بڑے بڑے اعلیٰ نکات مجھ سے بیان فرمائے۔ جب حضرت حاجی صاحب کی خدمت سے رخصت ہوکر حضرت شاہ صاحب اپنے قیام گاہ کو تشریف لے جانے لگے تو میں بھی شاہ صاحب کے ہمراہ ہوا۔ اثنائے راہ میں جب شیخوں کے بازار میں پہنچے تو وہاں پیشہ ور طوائفیں کچھ گا رہی تھیں۔ سماع رنگ پر تھا۔ شاہ صاحب نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بیلی! ہم نے بھی یہ موجیں بہت ماری ہیں مگر جلدی یہاں سے نکلو پھر قدم اُٹھا کر جلد اُس بازار سے نکلے۔ یہ اشارہ شاہ صاحب کا اپنے ایام مستی کی طرف تھا مگر چونکہ ان ایام میں سلوک اور پورے ہوش میں تھے باتباح شرع وہاں سے جلد نکلنا ضرور ہوا۔ حضرت توکل شاہ صاحب حضرت حاجی صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے اگر جالندھر میں کوئی ان سے بیعت ہونا چاہتا تےو بپاس ادب وہاں اُس کو بیعت نہیں کرتے تھے۔[۱]
[۱۔ مقامات الحمود۔ صفحہ ۴۹۔ ۵۰۔]
تواضع:
جب حضرت صاحب علیہ الرحمۃ کے پاس لوگ کثرت سے بیعت ہونے آتے تو فرماتے تم لوگ مجھ سے اچھے ہو نمازیں پڑھتے ہو۔ نیک کام کرتے ہو لکھے پڑے ہو۔ میں تو بے علم مسکین بندہ ہوں تم کسی مولوی سے بیعت ہوجاؤ جب وہ نہ مانتے تو یہ کہہ کر بیعت کرلیتے خدایا تو ہی ان کو میرے پاس بھیجتا ہے۔ میں تیرے ہی بھروسہ پر ان کو تیرا نام بتاتا ہوں۔ اور تیرے ہی حوالہ کرتا ہوں۔
اگر کوئی شخص مسجد میں آپ کی تعظیم کے لیے قیام کرتا تو آپ ناراض ہوتے بلکہ قیام کو ہر جگہ نا پسند فرماتے۔ اگر کوئی شخص آپ کی مدح شعر لکھ کر لاتا تو پسند نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ہم تو مسکین آدمی ہیں ہماری مدح کی کوئی ضرورت نہیں جب آپ سے کسی کی نسبت دریافت کیا جاتا کہ وہ کیسے ہیں تو فرماتے ساڈے نالوں چنگے ہن(وہ ہم سے اچھے ہیں)۔ آپ طعام میں کبھی نکتہ چینی نہ فرماتے جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔
زہد و استغنا:
جب ۱۲۹۸ھ میں حضرت صاحب علیہ الرحمۃ کا عقد ثانی ہوگیا تو فتوحات بکثرت شروع ہوئیں۔ اول دو روپے یومیہ کی فتوح تھی بعد ازاں دس بارہ بلکہ کبھی چالیس روپے تک آنے لگے۔ جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آج چالیس روپے فتوحات کے آئے تھے۔ بیگم(چھوٹی اہلیہ صاحبہ) خوش ہوئی۔ مگر ہمارا دل بہت گھبرایا ہم نے دعا کہ کہ الٰہی! زیادہ کا بندہ متحمل نہیں وہی دس بارہ کافی ہیں۔
نور باطن:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مہا راجہ جموں ہندوستان کی سیر کرتا ہوا انبالہ میں راجہ ناہن کی کوٹھی میں اترا۔ ایک بہر و پیا حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی نقل بن کر مہاراجہ کے پاس پہنچا۔ حضرت کے مکان سے راجہ ناہن کی کوٹھی بہت فاصلہ پر ہے۔ حضرت صاحب نے نورِ باطن سے معلوم کرلیا اور راجہ ناہن کی کوٹھی کی طرف منہ کرکے فرمایا دیکھ رے نقل صحیح صحیح کرنا۔ کوئی بات چھوڑ نہ دینا جھوٹی نقل میں گناہ ہوتا ہے۔
حضرت شاہ صاحب کی عادت تھی کہ بعض اوقات خاص انداز سے اللہ اللہ اللہ حق حق حق فرمایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی آپ یہی کلمات کہہ کر فکر و مراقبہ میں مشغول ہوگئے ادھر نقل کرتے کرتے بہر و پئے کی زبان پر بھی اُسی انداز سے یہ کلمات جاری ہوگئے مہا راجہ پر عجیب کیفیت و محویت طاری ہوگئی۔ اُس نے خوش ہوکر بہر و پئے کو منہ مانگا انعام دیا اور پوچھا کہ جس بزرگ کی تونے نقل کی ہے وہ زندہ ہیں یا انتقال کرگئے۔ نقال نے کہا حضور! زندہ ہیں اور یہیں انبالہ میں موجود ہیں یہ سُن کر مہاراجہ شوق زیارت میں پانچ سو بیگہ زمین کا قبالہ۔ پانچ سو روپے کے نوٹ اور کچھ اشرفیاں لے کر بہروپئے کے ساتھ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔
شانِ بے نیازی:
شاہ صاحب نے بہروپیے کو دیکھتے ہی فرمایا کیوں بندے اللہ دے! نقل تو ٹھیک ٹھیک کی تھی۔ نقال نے شرمندہ ہوکر عرض کیا۔ کہ حضور! مجھ سے غلطی ہوئی معاف فرمائیے۔ آپ نے فرمایا غلطی تو تب ہوتی۔ اگر تو صحیح صحیح نقل نہ کرتا۔
مہا راجہ نے سینی میں رکھ کر نذر پیش کی۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ مہاراجہ نے عرض کیا کہ پانچ سو بیگہ زمین کا قبالہ اور ایک نوٹ اور کچھ اشرفیاں ہیں آپ نے فرمایا کہ میں زمین لے کر کہاں جاؤں گا یہ تو فساد کی جڑ ہے۔ ان روپوں کی بھی مجھے ضرورت نہیں اور آسمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا دیکھ وہ ہمارا لنگر ہے وہاں سے روپے پیسے اور اناج چلا آرہا ہے۔
ایک روز نواب ابراہیم علی خاں والئی مالیر کوٹلہ حاضر خدمت ہوا۔ اس نے قریباً تین سو روپے تھال میں رکھ کر پیش کیے آپ نے انکار کیا نواب نے اصرار کیا تو آپ نے وہ تھال پرے پھینک دیا جس کا کچھ حصہ نواب کی پیشانی پر بھی لگا۔ حضور فوراً جوش کی حالت میں جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ آخر کار نواب نے معافی مانگی اور آپ سے بیعت ہوا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ وہ روپیہ ہمیں خون اور پیپ نظر آتا تھا کیوں کہ زکوٰۃ کا تھا جو ہمارے واسطے جائز نہیں۔ انتہےٰ۔
آفت و بلا:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے ایک اشرفی پیش کی میں نے حسبِ عادت اپنی نیت میں اس کے حصے کرلیے مگر کوئی درویش موجود نہ تھا مراقبہ کا وقت تھا میں نے اپنی لنگی میں ٹوم لی اور مراقبہ میں مشغول ہوا۔ خدا کی قدرت ہر چند مراقبہ میں دل لگاتا دل ہی نہ لگتا۔ توبہ کرتا ہوں۔ استغفار پڑھتا ہوں مگر پریشانی وہی، سوچتا کہ خدایا کیا قصور ہوا کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا آخر قدرت نے مدد کی دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ اشرفی آفت و بلا ہے۔ فوراً میں نے اُس اشرفی کو سڑک پر پھینک دیا۔ مراقبہ میں دل لگ گیا۔
غصہ کی وجہ:
عبد الرحمٰن خاں صاحب مراد آبادی انبالہ میں نائب تحصیل دار تھے۔ انہوں نے ایک روز آکر کہا کہ حضور میں کل سے تحصیل دار ہوگیا۔ یہ سنتے ہی حضور کو غصہ آگیا اور جوش میں فرمانے لگے تحصیل دار ہوگیا تو کیا ہوا۔ اوپر کا سب روپیہ نوکروں اور متعلقین کا ہوگا تو تو وہی پاؤ بھر کھائے گا۔ وہی کپڑے پہنے گا۔ در اصل خان صاحب موصوف دین سے غافل تھے نہ صوم و صلوٰۃ کے پابند نہ رشوت و شراب سے پرہیز اس لیے حضور کو ان کا یہ خبر دینا نا گوار ہوا۔ بار بار جوش میں فرماتے تھے کہ مجھے آکر یہ کہتا ہے میں نے نماز شروع کردی فلاں فلاں ممنوعات سے توبہ کردی۔ مجھے یہ فضول خبر سناتا ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
زکوٰۃ کا مال:
ایک صاحب نے زکوٰۃ کا ایک روپیہ حضور کی نذر کیا آپ کو معلوم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا کسی دوسرے غریب کو دے دو اُس نے اصرار کیا مگر مقبول نہ ہوا۔ دوسرے روز آزمائش کے طور پر اُس نے اسی قسم کے تین سو روپے رومال میں پیش کیے۔ حضور گھبرا گئے اور جوش میں اُس رومال کا گوشہ پکڑ کر دور پھینک دیا کہ تو فقیر کو آماتا ہے۔ ناجائز لاکھ روپے بھی فقیر کے نزدیک برتراز گناہ ہیں اور جوش میں آکر اُس کو فرمانے لگے کہ دیکھ! خدا نے ہمیں ایسے مال سے ایسے بے پروا کیا ہے کہ ہم نے پھینک دیئے اور تو چگتا پھرتا ہے۔
چغہ پرزری کا کام:
ایک روز فرمانے لگے ایک روز ایک شخص نے ایک چغہ پیش کیا جس پر چاروں طرف آگے پیچھے مونڈھوں پر زری کا بہت زیادہ کام تھا ہم دیکھ کر گھبرا گئے درویش سوال کرنے لگے کہ حضور ہمیں دے دیجیے یہ سن کر ہم اور بھی گھبرا گئے آخر ہم نے اُس چغہ کو دلا دیا۔ اس وقت اطمینان ہوا درویش کہتے تھے کہ اس میں سے بہت چاندی نکلی ہم نے کہا یہ ہمارے کام کی نہیں ہے تم جانو تمہارا کام۔ انتہیٰ۔
حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے حجرے میں کھجور کی چٹائی ہوتی تھی جس پر ایک دری اور چھوٹا سا تکیہ ہوا کرتا۔ موسم سرما میں بجائے چٹائی کے کسیر ہوتی۔ آپ کے اوڑھنے کو کمبل اور ایک سادہ لحاف تھا جسے بعض سائیں مغلی شاہ بھی اوڑھ لیتے تھے آپ کے لنگر میں تمام برتن مٹی کے تھے آپ کا یہ زاہد اختیاری تھا اس میں شک نہیں کہ آپ کو فتوحات بکثرت آتی تھیں، مگر جو کچھ آتا آپ اُسے راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور خود زاہدانہ زندگی بسر کرتے۔
توکل:
آپ اسم بامسمیٰ تھے۔ آپ کے توکل میں کبھی فرق نہیں آیا ایک روز ارشاد ہوا کہ ہم نے اپنے توکل کا امتحان کرنا چاہا اور ہتنی کنڈ کے جنگل میں جا بیٹھے۔ دو تین دن گزر گئے کھانا نہ آیا۔ ہم نے امتحان کا پورا پورا ارادہ کرلیا تھا بیٹھے ہی رہے آخر ایک دن ایک گوجری کھیر کی ہنڈیا لے کر حاضر ہوئی۔ بعد ازاں دودھ۔ چاول۔ گھی۔ مکھن کثرت سے آنے لگا۔
غیب سے رزق:۔
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز فرمانے لگے کہ ہم شہر لودہیانہ میں تھے۔ بدیں خیال کہ ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہے ہم جنگل میں آگئے ایک بلند ٹیلے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگاہ ہماری ایک شخص پر پڑی جو ٹوکری لیے ہوئے ہماری طرف آرہا تھا ہم نے سوچا کہ جب ہم شہر سے چلے آئے ہیں۔ اس شخص سے بھی الگ رہنا چاہیے اس لیے وہاں سے چل پڑے وہ شخص ہمارے پچھے آیا ہم لپکے وہ بھی لپکا ہم بھاگے وہ بھی بھاگا اور کہنے لگا کہ مجھے تو خدا ہی نے بھیجا ہے یہ سن کر ہم ٹھہر گئے اس کی ٹوکری میں پوریاں حلوا مٹھائی وغیرہ تھا۔ ا نے پیش کیا ہم نے اس سے کچھ کھا کر واپس کردیا۔ انتہےٰ۔
ایک کیمیا گر:
ایک درویش عبد اللہ شاہ نامی کیمیا گر حضرت صاحب کا مرید ہوگیا جب اسے رہتے سہتے چند روز گزر گئے تو اُس نے معلوم کیا حضرت کے لنگر کا خرچ محض توکل پر ہے اور گاہ گاہ لنگر مست بھی ہوجاتا ہے اس لیے اُس نے دو تولہ سونا تیار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیا حضرت صاحب نے کچھ توجہ نہ فرمائی وہ یہ سمجھا کہ حضرت کی کم تو جہی کا باعث شاید یہ ہے کہ میں نے سونا تھوڑا بنایا ہے اور سونا بنانے کی ترکیب بھی نہیں بتائی اس لیے وہ عرض کرنے لگا۔ یا حضرت! میں بازار سے دولاتاہوں اور آپ کے ہاتھ سے اکسیر بنوادیتا ہوں۔ قصہ کوتاہ وہ بازار میں دوا لینے گیا۔ حضرت صاحب کو خطرات آنے لگے آپ نے فوراً اُس کے پیچھے اپنا خادم دوڑایا اور فرمایا کہ اس کیمیا گر کو ہمارے ہاں نہ گھسنے دینا۔ اب وہ بازار میں ہے۔ اُس کا اسباب وہیں اُس کے حوالہ کردو۔ اُس کے سونا بنانے سے ہماری توجہ الی اللہ اور توکل میں فرق پڑتا ہے۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔
اصلی وراثت:
ذکرِ خیر میں ہے کہ ایک دفعہ کسی سکھ راجہ کا خط حضور علیہ الرحمۃ کی خدمت میں اِس مضمون کا آیا کہ ہمارے لڑکے کی پیدائش کی خوشی میں جلسہ ہے کیا خوب ہو جو آپ جیسے بزرگ بھی اسی جلسہ میں تشریف لائیں اور دُعا کی برکت سے مالا مال کریں آپ کی خاطر مدارات میں پوری کوشش کی جائے گی۔ضرور تشریف لائیں حضور نے جواب میں لکھوایا ہم ایسے غنی کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں جس کے دربار کے گدا گر بھی تجھ سے بہتر ہیں ہم کو تیری خاطر و مدارات کی کچھ پرواہ نہیں ہم اس کے دروازے سے اُٹھ کر کہیں نہیں جاتے ہماری اصلی وراثت توکل ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامل عطا فرمائی ہے ہم اُس میں کمی کرنا نہیں چاہتے۔ انتہےٰ۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضور علیہ الرحمۃ نے کیا اور خوب فرمایا سچ ہے بئس الفقیر علیٰ باب الامیر۔(بُرا ہے فقیر دروازے پر امیر کے)۔
آپ کا لنگر، ختم شریف، مدرسہ تو کلیہ غرض کل کام توکل پر چل رہے تھے۔ جب لنگر بہت وسیع ہوگیا تو کئی مریدوں نے جو اچھے زمیندار تھے عرض کیا۔ کہ حضرت جی! لنگر کے خرچ کے لیے ہم کچھ زمین نذر کرنا چاہتے ہیں آپ نے انکار کیا بلکہ خفا ہوئے اور ایک موقع پر یوں فرمایا کہ جہاں جہاں زمین اور جائدادیں تھیں وہیں فساد ہوئے اور ہم اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں۔
لنگر کی کیفیت:
سخاوت آپ کی جبلی تھی۔ مسافر یا سائل کو بغیر کھانا کھلائے نہ جانے دیتے اگر کھانے کا وقت نہ ہوتا تو نقد حسبِ حیثیت خادم سے دلوا دیتے تاکہ بازار سے کھالے یا خود بازار سے منگوادیتے آپ کا لنگر عام تھا جس میں مساوات کا پورا التزام تھا۔ مسلم ہو یا غیر مسلم واقف ہو یا نا واقف۔ زائر ہو یا محض اجنبی سب کو یکساں ملتا تھا۔ یہ لنگر توکلی اب تک جاری ہے میں نے ایسا حسنِ انتظام کسی اور جگہ نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ اِس لنگر کو تا قیامت جاری رکھے بجاہ حبیبہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اکثر یہ دوہرہ پڑھا کرتے تھے۔؎
آیا ساون سارس بولے اور بولے ڈڈو
نام نہ لینا دان نہ دینا لے کیا جاگا کدو
سخاوت و ایثار:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت کے دربار سے کبھی کوئی سائل خالی نہ جاتا خواہ کتنے ہی ہوں۔ اگر کسی سائل کو پیسے دینے کا حکم ہوگیا اور وہ دیر یا کسی اور وجہ سے چلا گیا تو خادموں کو حکم ہوتا کہ جس جگہ ملے تلاش کرکے رقم دو بعض مرتبہ کئی کئی گھنٹے میں وہ سائل ملتا تھا جب خدام آکر عرض کرتے تھے کہ دے آئے تو حضرت کو اطمینان ہوتا تھا اور چین آتا تھا۔ اگر کسی جگہ سے کوئی رقم بطور نذر آتی تھی تو وہ پیش ہوتے ہی ٹھکانے لگ جاتی تھی۔ جب تک آپ اُس رقم سے اپنا تعلق الگ نہ کرلیتے تھے کوئی دین یا دنیا کا کام نہ کرتے تھے۔[۱] نقد میں کچھ حصہ فقرا و خدام کا تھا۔ اُس میں حضور کا وجود باجود باجود شامل نہ ہوتا تھا۔ اگر کوئی رقم نہ آتی اور سابق آمدہ ختم ہوجاتی تو حضور فاقہ سے رہتے تھے جب تک لنگر میں کچھ آمد نہ ہو خدام کو اجازت نہ تھی کہ تم جس جگہ سے ملے کھاؤ۔ اس کو حضور کی اصطلاح میں لنگر مست کہتے تھے اگر کوئی مہمان لنگر مست کے وقت آجاتا تو قرض لے کر مہمان کی میزبانی فرماتے تھے اور آپ بدستور فاقہ سے رہتے تھے۔ انتہےٰ۔
[۱۔ حضور علیہ الرحمۃ کا یہ خلق اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک روز میں نے نمازِ عصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی تو آپ سلام پھیرتے ہی گھر کے اندر تشریف لے گئے پھر جلدی نکل آئے صحابہ کرام کو تعجب ہوا آپ نے فرمایا کہ مجھے نماز میں خیال آگیا کہ صدقہ کا کچھ سونا گھر میں پڑا ہے مجھے پسند نہ آیا کہ رات ہوجائے اور وہ گھر میں پڑا رہے۔ اس لیے جاکر اُسے تقسیم کرنے کے لیے کہہ آیا ہوں(صحیح بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب۔ یفکر الرجل فی الصلوٰۃ) اس طرح کی اور مثالیں بھی احادیث میں ملتی ہیں۔]
سوال رد نہ کرنا:
آپ کسی کے سوال کو رد نہ فرماتے اگر موجود ہوتا تو عطا فرماتے اگر پاس نہ ہوتا تو قرض لے کر دیتے یا وعدہ فرماتے چنانچہ جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتے ہیں کہ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے دہلی سے خط لکھا کہ حضور میں بہ تنگدست ہوں گزارہ کی کوئی صورت نہیں حضور میرے واسطے ہمت اور دعا فرمائیں حضور نے حسبِ عادت اُس کے واسطے دعا فرمائی کہ الٰہی تو اُس پر حلال روزی کھول دے اور جواب لکھوادیا تھوڑے دنوں کے بعد اُس نے پھر خط میں لکھا کہ میں بہت تنگدست ہوں حضور کو بہت ہی خیال آیا پوچھا ہے درویشوں نے کہا کہ حضور اس وقت تو ایک پیسہ بھی نہیں حضور علیہ الرحمۃ نے محمد علی شاہ سے ایک روپیہ قرض لیا اور بذریعہ منی آرڈر اُس کے پاس بھیج دیا اور لکھوادیا کہ فی الحال تم اس کو کھاؤ تمہارا کام خدا آسان کردے گا۔ چنانچہ اس روپیہ کے خرچ کرتے کرتے اُس کا کام لگ گیا اور روزی کھل گئی پھر اُس نے خط لکھا کہ حضور کی بخشش کے ساتھ ہی میرا کام آسان ہوگیا۔ انتہےٰ۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ قرض لے کر دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ سے تھا۔
ایثار کی کیفیت:
ذکر خیر میں ہے کہ حضور علیہ الرحمۃ کی عادات مبارک تھی کہ جو چیز حضور کے بدن پر کپڑے کی قسم سے یا کوئی اور عمدہ شے ہوتی اور کسی نے اُس کی تعریف کردی کہ حضور! یہ آپ کے جسم پر بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ فوراً اتار کر کسی کو دے دیتے چنانچہ ایک بار کا ذکر ہے کہ کوئی مرید حضور کے پاس ایک بہت قیمتی کرتہ جس کی لاگت متعدد روپے ہوں گے نذر لایا۔ حضور نے اُس کو پہنا۔ حاضرین میں سے کسی نے تعریف کردی کہ حضور! یہ بہت ہی اچھا ہے یہ سُن کر فوراً اُتار دیا اور فرمایا کہ یہ ہمارے مولوی صاحب کو دے دو۔ چناں چاں میں نے وہ کرتہ لے کر پہن لیا فرمایا مولوی صاحب اس کرتہ کو اپنے گھر بھیج دو یہاں نہ رکھو میں نے عرض کیا حضور! اس میں کیا مصلحت ہے فرمایا ہم نے اِس کو ایثار کیا ہے۔ تم ہمارے پاس رہتے ہو اور ہمارا کام کرتے ہو تو گویا ہمارے کام میں آیا اس کا یہاں رہنا ایثار کے خلاف ہے اس طرح ایثار میں نقصان آتا ہے۔ چناں چہ حسبِ ارشاد روانہ کردیا گیا۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ سے تھا کہ اگر آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی اور دوسرا اُس کی تحسین کردیتا تو فوراً اُسے عطا فرمادیا کرتے چنانچہ ایک عورت نے آپ کی خدمت اقدس میں اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چادر پیش کی۔ ایک صحابی نے اُس کی تحسین کردی آپ نے اُسی کو عطا فرمادی جیسا کہ شمائل تزمذی میں مذکور ہے۔ بخوفِ طوافِ طوالت ہم شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے ایثار کی زائد مثالیں یہاں درج نہیں کرتے۔
غیرت و حمیت:
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی مخالف شرع امر دیکھے تو اُسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے بدل دے یعنی زورِ بازو سے لوگوں کو اُس سے روکے اگر ہاتھ سے منع نہ کرسکے تو زبان سے منع کرے۔ اگر زبان سے بھی منع نہ کرسکے تو دل سے اُسے برا جانے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔ انتہےٰ۔ جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتے ہیں کہ جس مکان میں مائی صاحبہ رہتی تھیں اُس کے پاس والے مکان کی چھت پر ایک شخص پہلوان کھڑا دکھائی دیا۔ اُس کے اِس کے اِس طرح چھت پر چڑھنے سے بے پردگی ہوتی تھی آپ نے فرمایا بھائی شریعت کا حکم ہے کہ اِس طرح چھت پر نہیں چڑھا کرتے اُس نے نہ مانا اور کہا میں تو ہمیشہ چڑھا کروں گا۔ حضور نے پھر اُس کو رو کا مگر وہ نہ مانا پھر آپ نے فرمایا کہ اوہم تجھے شریعت کا مسئلہ بتاتے ہیں اس طرح چھت پر نہ چڑھا کر اُس نے کہا آپ کی شریعت دیکھی ہوئی ہے۔ فرمایا۔ ہیں! اتنا فرماتے ہی نہ معلوم کس ذریعہ سے حضور لاٹھی ہاتھ میں لیے چھت پر نظر آئے اور مار مار کر اُسے بیہوش کردیا۔ دوسرے روز وہ خدمت میں حاضر ہوا اور توبہ کی۔ انتہےٰ۔ اس واقعہ سے حضور علیہ الرحمۃ کی غیرت دینی کا اندازہ بخوبی لگ سکتا ہے۔
شفقت و مرحمت:
آپ کی شفقت عامہ خلق پر تھی ایک دفعہ آپ کے پڑوس میں ایک چمار مرگیا۔ جب تک اُس کی لاش کو نہ لے گئے حضور نے کھانا نہ کھایا جب اُس کو جلانے کے واسطے لے گئے تو پھر مسجد میں جاکر تھوڑا سا کھایا اور فرمایا کہ پڑوسی ہے جب ان پر غم ہے تو ان سے الگ ہوکر کھانا چاہیے۔
پہلے پہل جب حضور نے اپنے پیر و مرشد کا عرس مبارک انبالہ میں شروع کی تو ہمسائگان جو چمار وغیرہ تھے سب کو خشک رسد دلوایا کرتے اور فرماتے کہ یہ پڑوسی ہیں ان کا بھی حق ہے مگر بعد ازاں جب چماروں نے خود انکار کیا تو رسد بند کردی گئی۔
اگر کسی خطا کی وجہ سے آپ کسی درویش پر خفا ہوکر اُس کو مکان سے نکلادیتے تو اُس کا کھانا لنگر سے موقوف نہ ہوتا وہ جہاں شہر میں ہوتا اُس کا کھانا وہاں بھجوادیتے اور فرماتے کہ فقیر متصف با خلاق الٰہی ہوتا ہے۔ وہ رزاق مطلق گناہ کے سبب سے کسی کی روزی بند نہیں کرتا؎
ولیکن خدا وند بالا و پست
بعصیاں در رزق بر کس نہ بست
یتامےٰ و مساکین و بیوگان پر آپ بڑی شفقت فرماتے او ان کی خبر گیری کرتے اکثر بیوگان کی روٹی لنگر سے مقرر تھی پردہ دار بیوگان کو وظیفہ کے طور پر عطا فرمایا کرتے جب کوئی یتیم بچہ آپ کے سامنے آتا تو اُس کے سر پر درستِ شفقت پھیرا کرتے اور ہر طرح اُس کی مدد فرماتے۔ عام بچوں کو مٹھائی اور بتاشے دلوادیا کرتے اپنی مجلس میں کسی کی غیبت سننا گوارا نہ فرماتے بلکہ فاسق فاجر کی بھی غیبت نہ ہونے دیتے تھے۔
پرندوں پر شفقت:
انسان تو در کنار پرندوں پر بھی آپ کی شفقت تھی چنانچہ صاحب ذکرِ خیر لکھتے ہیں کہ آپ کی عادت مبارک تھی کہ گیارہ بجے دن کے حجرے کا دروازہ کھولتے تو اپنے سامنے چڑیوں کو دانے ڈلوایا کرتے اور الگ برتن میں پانی رکھوادیتے تاکہ وہ بھی کھائیں پئیں ایک روز آپ باہر تشریف لائے ایک چڑیا دانے چُگ رہی تھی وہ کواڑوں کی آواز سُن کر اُڑ گئی۔ آپ فرمانے لگے افسوس یہ بھوکی تھی اب جب تک یہ چڑیا آکر دانے نہ چگ لے گی ہم کھانا نہ کھائیں گے درویشوں کو سخت تردد ہوا۔ انہوں نے چاہا کہ کسی اور چڑیا کو پکڑ کا دانے چگادیں آپ نے فرمایا بھوکی تو وہ چڑیا تھی جب تک وہی نہ چگے گی ہم کھانا نہ کھائیں گے۔ وہ چڑیا اڑ کر روشندان میں جا بیٹھی فرمایا۔ بھولی آجا۔ اب چگ لے وہ فوراً آئی اُس نے دانے چگے۔ جب وہ پیٹ بھر چکی فرمایا۔ اب کھانا لاؤ ہم بھی کھائیں گے۔ بار ہا دیکھا گیا کہ جب آپ حجرہ سے باہر درود خوانی میں مشغول ہوتے تو چڑیا آکر کوئی زانو مبارک پر بیٹھ جاتی اور کوئی سر مبارک پر اور فیضان میں محو ہوجایا کتیں۔ انتہےٰ۔
صاحبِ تذکرہ توکلیہ لکھتے ہیں کہ حضور کو جانوروں پر بھی اس قدر رحم تھا کہ جو کچھ حضور نوش فرماتے اُس میں سے چڑیوں کا حصہ بھی رکھوادیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ برف میں سے بھی پرندوں کا حصہ نکلتا۔ ایک دفعہ ایک درویش نے چڑیا کا حصہ کھالیا اور اُس نے یہ سمجھا کہ مجھےعنایت ہوا ہے حضرت گھبرا گئے اس نے معافی چاہی فرمایا کہ تونے چڑیا کا حصہ کھایا ہے اس سے معاف کرا۔ پرایا حق کیوں کھایا۔ پھر اس درویش نے اپنے حصہ میں سے چڑیوں کو کھلایا ایک دن ایک چڑیا پانی پی رہی تھی حضرت وضو کرنے لگے وہ اُڑ گئی حضرت کو سخت رنج ہوا فرمایا کہ جب تک یہ چڑیا دوبارہ آکر پانی نہ پی لے ہم وضو نہ کریں گے۔ چناں چہ جب اُس چڑیا نے پانی پی لیا تو آپ نے وضو کیا۔
عفود در گزر:
اگر درویشوں میں سے کسی سے کوئی خطا سر زد ہوتی تو آخر کار آپ معاف فرما دیا کرتے۔ اپنے تو درکنار بیگانے بھی جب صدق دل سے معافی طلب کرتے تو خواہ کتنا ہی سخت جرم ہوتا آپ درگزر فرماتے چنانچہ ذکر خیر میں ہے کہ جب لیکھرام آریہ مارا گیا تو ہندوؤں کو یہ خیال ہوا کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے لوگوں کو ہلاک کیا جائے چناں چہ اکثر مقامات میں علماء و صلحاء کو کسی نہ کسی حیلہ سے زہر دیا گیا ایک رات بارہ بجے کے بعد دو ہندو مسلمان کے بھیس میں بارادۂ قتل حضور کے پاس آئے آپ اُس وقت تنہا مراقب تھے تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سر مبارک اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا وہ دونوں کانپ گئے۔ آپ نے حسبِ عادت اُن سے پوچھا کہ کس کام کے واسطے آئے ہو؟ مارے ہیبت کے وہ بول نہ سکے آخر کار نامراد واپس چلے گئے دوسرے روز علی الصباح وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ عرض کی کہ ہم سے بڑی خطا ہوئی ہندوؤں نے ہمیں لالچ دیا تھا اس لیے ہم شب کو آپ کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے ہماری تمام رات بے چینی میں گزری ہے خدا کے واسطے آپ ہماری خطائیں معاف فرمائیں اور ہمیں مسلمان کرلیں۔ چنانچہ حضور نے ان کی خطا معاف فرمائی اور دونوں کو مسلمان کرکے رخصت کیا۔
عدل کی کیفیت:
قرآن مجید(سورہ نساء، رکوع اول) ایک مرد کے لیے چار عورتوں تک اجازت ہے اگر یہ ڈر ہو کہ ان عورتوں میں عدل نہ کرسکے گا۔ تو اُس صورت میں ایک ہی عورت سے نکاح کرے۔ فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس عدل کی یہ تشریح کی ہے کہ اپنی منکوحات کو کھانے اور لباس اور شب باشی و موانعت میں برابر رکھے۔ اب حضور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے عدل پر غور کیجیئے جب آپ بڑی اہلیہ صاحبہ کے مکان پر تشریف لے جاتے تو جس حالت و ہیبت میں وہاں جاتے اُسی حالت وہیبت میں چھوٹی اہلیہ صاحبہ کے مکان پر تشریف لے جاتے ایک دفعہ بڑی اہلیہ صاحبہ کے ہاں سرمہ لگا کر تشریف لے گئے تھے چھوٹی اہلیہ کے ہاں تشریف لے جاتے وقت سرمہ لگانا بھول گئے مکان پر پہنچ کر یاد آیا۔ وہیں سے لوٹ آئے اور اُسی قدر سلائیاں سرمہ کی ڈال کر پھر تشریف فرما ہوئے۔ اسی طرح سے جن کپڑوں میں حضور ایک کے ہاں جاتے انہیں کپڑوں میں دوسری کے ہاں جاتے ایک روز ایک کے ہاں تشریف لے جاتے وقت عصا ہاتھ میں تھا دوسری کے ہاں جاتے ہوئے خالی ہاتھ تھے پھر جو یاد آیا وہی عصا ہاتھ میں لیے تشریف لے گئے جس قدر باتیں زبان مبارک سے ایک کے ساتھ کرتے اُسی قدر دوسری سے کرتے۔ ایک کم و بیش نہ ہوتی اور وقت کا اندازہ بھی اُسی قدر ہوتا نہ کم نہ زیادہ۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز میں تازی اور نرم چھوٹی چھوٹی دو ککڑیاں حضور کی خدمت میں لے گیا حضور اُس وقت گھر میں موجود تھے مائی صاحبہ کو پردہ میں فرما کر مجھے اندر بلالیا۔ میں نے وہ پیش کیں ایک تو حضور نے وہاں ایک چھوٹا بچہ کسی کا کھیل رہا تھا اُس کو دے دی دوسری کو اندر بھیجنے کا حکم دیا ابھی وہ دروازے کے باہر ہی تھی کہ واپس منگانے کا ارشاد ہوا اور فرمایا کہ آدھی یہاں دو۔ آدھی دوسرے گھر میں بھیج دو میں نے عرض کیا حضور یہ اس جگہ دے دی جائے میں دوسری لاکر وہاں پہنچادوں گا فرمایا شاید تمہیں یار رہے یا نہ رہے اور اس سے مقدار میں کم ہو یا زیادہ میں نے عرض کیا نہیں حضور اسی قدر ہوگی فرمایا اچھا اس جو ناپ لو۔ اسی قدر رہے کم و بیش نہ ہو میں نے اُس کا ناپ لے لیا اور پھر اُسی ناپ کی ککڑی لاکر حضور کو دکھلادی اور وہ دوسرے گھر بھیج دی حضور کو عدل کا اس قدر خیال تھا کہ دوسرا کوئی نہیں کرسکتا۔ جب حضور کے وصال کا وقت نزدیک آیا تو چھوٹی مائی صاحبہ نے بڑی مائی صاحبہ کو جن سے حضور پہلے مل آئے تھے اپنے مکان میں آکر زیارت کرنے کی اجازت نہ دی کیوں کہ مکان اِن کی مِلک تھا۔ حضور نے فرمایا ہم کیا کریں مکان ان کی ملک ہے پھر دوبارہ ان چھوٹی مائی صاحبہ نے زیارت کرنی چاہی تو فرمایا کہ اب ہم نہیں مل سکتے کیوں کہ تم سے مل کر پھر اُن سے ملنا پڑے گا اور وقت اخیر ہے۔
تقویٰ:
حضور علیہ الرحمۃ کی عادت تھی کہ کھانا کھاتے ہوئے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کو لقمہ سے دور رکھا کرتے تھے اس کی وجہ دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نے مکاشفہ میں دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت جنگل میں بیٹھی ہے ہزار ہا مولوی و عامل اور قسم قسم کے لوگ طرح طرح کے حیلوں سے اُسے اپنی طرف مائل و متوجہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتی ہم نے جو دیکھا کہ یہ عورت ہے اُس کی طرف نظر نہ کی اور وہاں سے چلے آئے وہ بھی ہمارے پیچھے پیچھے چلی اور کہنے لگی۔ حضرت! آپ کیوں تشریف لے جاتے ہیں میں آپ کی خدمتگار و فرماں بردار ہوں مگر ہم نے ایک نہ سُنی اور بھاگنے لگے وہ بھی بھاگنے لگی اور کہتی تھی کہ اگر آپ حُجرے میں تشریف لے جائیں گے میں وہاں بھی حاضر ہوں گی چناں چہ ہم نے حجرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرلیا مگر وہ سوراخوں میں سے اندر داخلی ہوگئی ہم ہر چند اُسے نکالنا چاہتے تھے مگر وہ نہ نکلتی تھی آخر ہم نے اپنی انگشت شہادت مار کر اُسے حُجرے سے نکال دیا۔ وہ حُجرے کے دروازے کے پاس ہی باہر نکل کر بیٹھ گئی۔ ہم نے اُس کا نام پوچھا تو کہا کہ میں دنیا ہوں اپنے عاشقوں کو ذلیل کرتی ہوں مگر عاشقانِ الٰہی کی خدمت کرتی ہوں لٰہذا میں یہاں سے ہر گز نہ جاؤں گی۔ اس تقریر کے بعد حضور علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ہم نے جو اس کو اس انگشت شہادت دے مار کر حجرے سے نکالا تھا۔ یہ انگلی اس کے بد کو چھو گئی تھی۔ اس لیے ہمارا دل نہیں چاہتا کہ اس انگلی کو کھانے کی چیز پر لگائیں۔
حضور علیہ الرحمۃ کوئی جائداد اپنی ملکیت میں نہ رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ مکان اور حجرے وغیرہ بھی سب حضرت مائی صاحبہ کی مِلک تھے آپ نے اپنے نام پر کوئی شے نہ لی تھی اور نہ آپ کوئی چیز اپنی ملک قرار دیتے تھے اگر کوئی مائی صاحبہ کسی درویش سے ناراض ہوکر فرماتیں کہ ہمارے مکان سے نکل جا تو حضور اُس درویش سے حُجرے میں نہ ملتے فرماتے کہ یہ اُن کی مِلک ہے اور تجھ سے ناراض ہیں ہم تُجھ سے ناراض نہیں اور حجرے سے باہر تشریف لاکر گلی میں ملتے۔
صاحب ذکر خیر لکھتے ہیں کہ اگر حضور علیہ الرحمۃ سے کبھی کوئی فعل مکروہ تنز یہی صادر ہوگیا تو اُس کا کفارہ خود ہی مقرر فرما کر مسکینوں، محتاجوں، یتیموں، بیواؤں کو تقسیم کراتے۔ کبھی چھ روپے کبھی بارہ روپے کبھی بارہ روپے میں نے بار ہا حضور کا ایسا صدقہ دیا ہوا تقسیم کیا ہے ہمارے نزدیک تو آپ کا کوئی فعل مکروہ تنز یہی بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ مگر آپ خود ہی فرمادیا کرتے تھے اور فرماتے حسنات الابرار سیئات المقربین نیز فرماتے کہ کامل مومن وہ ہے جو خود منصف ہوکر اپنے اعمال کی چھان بین کرتا رہے اور جو چیزیں گندی ہیں اُن کو خد ہی نکالتا رہے۔
حضو علیہ الرحمۃ تین شخصوں کی نذر کسی حال میں قبول نہ فرماتے۔ (۱) ڈوم میراسی کی۔ (۲) طوائف کی اس واسطے کے گانے بجانے کا پیشہ کرتی ہیں۔ (۳) یتیم بچے کی کہ وہ قابل رحم و پرورش ہے میرے سامنے اکثر میراسی نذر لاتے قبول نہ فرماتے اور جواب دیتے کہ تم گا بجا کر یہ پیدا کرتے ہو ایک دفعہ ایک یتیم بچہ کی ماں نے نذر پیش کی۔ حضور نے نہ لی تو اُس نے عرض کیا کہ حضور! میں اِسی بچہ کی ملکیت سے نہیں دیتی یہ خاص میری مِلک ہے حضور نے فرمایا اچھا یہ بھی اِسی کی پرورش میں صرف کردینا۔ اگر کوئی عورت نذر لاتی تو حضور دریافت کرتے کہ یہ نذر تو اپنی مِلک سے لائی ہے یا اپنے خاوند کے مال میں سے اگر وہ کہتی کہ میں اپنی ذاتی مِلک سے لائی ہوں۔ تب قبول فرمالیتے اور اگر کہتی کہ خاوند کے مال سے لائی ہوں۔ تو فرماتے کہ اچھا اُس سے اجازت لو پھر لاؤ۔ یہاں تک حضور کو اتقاء کا خیال تھا۔ انتہےٰ۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے کچھ نقدی پیش کی حضور علیہ الرحمۃ نے تامل فرمایا اور پوچھا کیا تمہیں چنگی سے تنخواہ ملتی ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اور مولوی سراج الدین صاحب نے جو اُس وقت حاضر خدمت تھے میری تائید کی۔ تو قبول فرمائی۔
چھٹا باب
مکاشفات و واقعات
سیر و سلوک سے مقصود سے مقصود صور و اشکال کا دیکھنا نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ امر استدلالی کشفی، عیانی ہوجائے جیسا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرّہ نے فرمایا ہے۔ ہم اس باب میں حضور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے مکاشفات درج کرتے ہیں کہ تاکہ علاوہ دیگر فوائد کے ایک حد تک حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد مبارک کی توضیح بھی ہوجائے۔
ملائکہ کرام علیہم السلام:
جناب مولوی سراج الدین صاحب حضرت شاہ صاحب قبلہ سے حسب ذیل روایت کرتے ہیں۔
فرشتے کا وظیفہ
فرمایا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک فرشتہ نورانی سبحان اللہ وبحمدہ کے ساتھ نغمہ سرائی کر رہا ہے اس نے ہم سے کہا کہ ایک آدھ تسبیح درود شریف کی بھی پڑھ لیا کرو۔ اس دن ہمارا درود شریف قضا ہوگیا تھا اس واقعہ کو جناب مولوی محبوب عالم صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز ارشاد فرمایا کہ ہمارا ہمیشہ معمول تھا کہ عشا کے وقت درود شریف کی دو تسبیح پڑھ کر سوتے تھے اتفاقاً ایک دن قضا ہوگئیں ہم نے وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ فرشتے بہت ہی خوش الحانی سے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کر رہے ہیں اور اثنائے تعریف میں کہہ رہے ہیں کہ وضو کرنے والو! دو تسبیح درود شریف کی پڑھ لیا کر وقضا نہ کیا کرو۔
(۲) فرمایا کہ بار گر دیکھا کہ بندہ سبحان اللہ پڑھتا ہے اور کاتب یمین جھٹ ہمارے نام لمبے لمبے حرف لکھ رہا ہے۔
رزق کی تقسیم:
فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم فجر کی سنت پڑھ کر بیٹھے تھے کہ دیکھا کہ ایک فرشتہ رزق تقسیم کر رہا ہے اور سب حاضرین مسجد کے آگے گندم کے ڈھیر لگا رہا ہے۔ اس نے ہمارے سامنے سے زیادہ ڈھیر لگایا۔ معلوم ہوا کہ یہ وقت[۱] تقسیم روزی کا ہے۔ انتہیٰ
[۱۔ حدیث شریف میں بھی ایسا ہی آیا ہے۔ چنانچہ قطب شعرانی لکھتے ہیں۔
کان انس رضی اللہ عنہ یقول دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی فاطمۃ رضی اللہ عنھا بعد صلوٰۃ الصبح فوجدھا مضطجوا فجر کھابر جلہ ثم قال لھا یا نبیۃ قومی فاشھدی رزق ربک ولا تکونی من الغافلین فان اللہ یقسم ارزق الناس مابین طلوع الفجر الی طلوع الشمس(کشف الغمہ۔ جزء ثانی۔ ص ۳)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو ان کو لیٹی ہوئی پایا پس اپنے پاؤں مبارک سے انہیں ہلا دیا پھر ان سے فرمایا اے پیاری بیٹی! اٹھ اپنے پروردگار کے رزق میں حاضر ہو اور غافلین سے نہ بن۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے رزق طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک کے درمیان تقسیم فرماتا ہے، انتہےٰ۔]
صاحب ذکر خیر لکھتے ہیں:
کراماً کاتبین کا تذکرہ:
ایک روز کراماً کاتبین کا تذکرہ تھا کہ وہ دائیں رہتے اور بندوں کے نیک و بد اعمال لکھتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں بے شک لکھتے ہیں ایک مرتبہ ہم سکرت کی حالت میں تھے ہم نے دیکھا کہ دو شخص جن میں سے ایک ہمارے دائیں تھا اور دوسرا بائیں۔ کاغذ قلم ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں ان کی عجیب ہی حالت دیکھی وہ اس طرح تحریر نہیں کرتے جس طرح یہ لوگ لکھتے ہیں ان کی تحریر اوپر سے نیچے کو ہوتی ہے اور یہ بات بھی نہیں کہ جب آدمی بات یا کوئی فعل اچھا برا کرچکے تب ہی اسے لکھیں بلکہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ آدمی کی زبان اور ان کے ہاتھ کے درمیان کچھ ایسی کل ہے کہ ادھر زبان ہلی اور اُدھر ان کا ہاتھ ہلا۔ اِدھ وہ بند ہوئی اُدھر ان کا ہاتھ بھی رُک گیا اور یہ بات بھی نہ تھی کہ رُکنے کے بعد کاغذ سے قلم الگ ہوجاتا ہو یا دوات وغیرہ کی طرف لے جانا پڑتا ہو بلکہ اُن کے قلم میں کچھ نوری سیاہی نظر آتی تھی اور ہاتھ اور قلم کاغذ سے اُٹھتا نہیں تھا بلکہ وہیں ٹھہرا رہتا تھا جب پھر زبان سے کوئی بات نکلتی تو اُن کی تحریر شروع ہوجاتی چنانچہ ایک دفعہ میں نے دانستہ سکوت کیا تو وہ بھی خاموش ہو رہے پھر میں نے زبان ہلائی تو ان کا ہاتھ بھی ہلا پھر میں نے تسبیح پڑھنی شروع کی تو انہوں نے بھی جلدی جلدی بڑی سرعت سے لکھنا شروع کیا اور یہ بھی نظر آیا کہ دائیں جانب والا نیک عمل لکھتا ہے او بائیں طرف والا بد عمل۔ اُس روز سے میں نے یہ عادت کرلی کہ ہر وقت تسبیح اور ذکر و شغل میں ہی اپنی زبان کو ہلاتا ہوں تاکہ میرے نامہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ ہو۔
ملک الموت کی باتیں:
ایک روز فرمانے لگے کہ سکریت کی حالت میں ہم سے ایک شخص ملے ہم نے پوچھا آپ کون ہیں؟ اُس نے کہا میں ملک الموت ہوں ہم نے پوچھا کہ جانیں تم ہی قبض کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا۔ ہاں۔ میں ہی قبض کیا کرتا ہوں۔ ہم نے پھر پوچھا کہ میرے پیر اور دادا کی جان آپ ہی نے قبض کی تھی۔ کہاں ہاں۔ میں نے ہی کی تھی۔ پھر پوچھا کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ کس طرح ان کی جان قبض کی تھی۔ کہا جس طرح جنید بغدای رحمۃ اللہ علیہ کی کی تھی۔ ہم نے کہا۔ اچھا حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کی جان کس طرح قبض کی تھی کہا کہ ایک سیب بہشت سے لاکر ان کو سونگھایا تھا۔ اُس کی خوشبو کے ساتھ ہی روح اللہ اللہ کرتی ہوئی حضور الٰہی میں چل گئی تھی۔ پھر ہم نے کہا کہ بھلا اب یہ بتلاؤ کہ ہماری جان کس طرح قبض کرو گے؟ کہا کہ خدا تعالیٰ کوئی اس سے بھی بہتر صورت کرے گا اور اسی طرح میں عمل کروں گا۔
نور کی چادر:
ایک روز فرمانے لگے کہ ہم نے بچپن میں وعظ سنا کہ جب کوئی نمازی وضو شروع کرتا ہے تو اس پر چار فرشتے نور کی چادر تان دیتے ہیں جب وضو کرنے والا ایک بات کرتا ہے تو ایک فرشتہ چادر کا ایک گوشہ چھوڑ دیتا ہے دوسری بات کرے تو دوسرا تیسری بات کرے تو تیسرا اور چھوتھی بات سے چھوتھا چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے ایک درویش نے عرض کیا کہ حضور! پھر تو ضروری بات کرنی چاہیے کہ فرشتے چادر چھوڑ دیں اور وہ نور کی چادر وضو کرنے والے کے اوپر آگرے اس پر آپ مسکرائے اور فرمایا کہ ایک روز ہم نے دیکھا کہ ضرور فرشتے اسی طرح چادر تان دیتے ہیں۔ ایک دفعہ وضو کرتے ہوئے ہم نے ایک بات کی۔ تو دیکھا کہ فرشتے نے چادر کا ایک گوشہ چھوڑدیا۔ ہم نے اسی وقت استغفار پڑھی۔ تو وہ ٹھہر گیا۔ فرمایا کہ نور کی چارد نیچے نہیں آیا کرتی۔ نور کا خاصہ ہے کہ اوپر کو چڑھتا ہے چنانچہ جب ہم نے وہ بات کی تو وہ گوشتہ جو فرشتے نے چھوڑ دیا تھا اوپر ہوگیا اور کلام مجید میں بھی ایک آیت سُنی ہے کہ نور اوپر کو ہی جاتا ہے یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ۔ اس روز سے ہم نے کبھی وضو کرتے ہوئے کلام نہیں کیا۔
جنت و دوزخ:
جناب مولوی مولوی سراج الدین صاحب امور ذیل حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ سے روایت کرتے ہیں۔
جنت کے درخت:
فرمایا۔ سراج الدین! کیا جنت کنار(بیری) بھی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہے پھر میں نے کہا کہ شاید آج حضور نے اشجار جنت میں سے بیری کو دیکھا ہے فرمایا کہ ہم آیہ کریمہ پڑھ رہے تھے دیکھا کہ جب ہم ذکر کرتے ہیں تو جنت کے کیلے اور بیری کی ڈالیاں جھومتی ہیں اور جب خاموش ہوجاتے ہیں تو وہ بھی جھومنے سے بند ہوجاتے ہیں گویا اشجار جنت ذکر الٰہی پر شیفتہ ہیں۔
(۲) فرمایا کہ ہم نے دیکھا کہ جنت میں سونے چاندی کے محل ہیں اور منڈے(لڑکے) کھیل رہے ہیں ایک منڈا ساڈی گودوچ(میں) میں آبیٹھا۔
(۳) فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ چھوٹی بیگم جنت میں ایک چار پائی پر بیٹھی ہے اور ہم بھی وہاں ہیں ہم نے کہا بیگم! ہم دنیا کی طرف جاتے ہیں بیگم نے کہا کیا جنت سے دنیا کو جاتے ہو؟ ہم نے کہا کہ ہماری جنت یاد الٰہی اور دیدار خدا ہے۔
دوزخ کی کیفیت:
فرمایا کہ ایک مرتبہ لڑکپن میں ہم سے کوئی گناہ ہوگیا تو دو فرشتے نظر آئے او ہم کو دوزخ کے قریب لے گئے دوزخ ایسا سرخ تھا جیسا کہ لوہاروں کی بھٹی ایک نے کہا کہ ان کو اس میں ڈال دو، دوسرے نے سفارش کی کہ بار دگریہ ایسا نہ کریں گے۔
(۵) ایک مرتبہ آپ مسجد میں نماز عصر کے لیے وضو فرما رہے تھے کسی نے ذکر کیا کہ راجہ پٹیالہ مرگیا آپ نے فرمایا کہ پھر یہ ذکر نہ کرنا ہم کو اس کی روح سے بد بو آئی اور وہ دوزخ میں جلتا ہوا دکھائی دیا۔
انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام:
حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کو حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اکثر ہوا کرتی تھی جیسا کہ واقعات ذیل سے ظاہر ہے جن میں سے پہلے چھ کے راوی جناب مولوی سراج الدین صاحب ہیں۔
تین شخص:
فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تخت پر جلوہ گر ہیں ہم بجد و جہد حضور کے تخت کے قریب پہنچے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا میں تین شخص ہماری حضور میں آتے ہیں ایک تم اور دو اور. راوی کا قول ہے کہ میں نے حضرت شاہ صاحب سے ان دو کا نام و نشان اور شہر و دیار استفسار کیا مگر آپ نے مجھے نہ بتایا اور فرمایا کہ وہ بھی قطب وقت ہیں اظہار کی اجازت نہیں۔
(۲) فرمایا کہ ایک بار دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت مجدد الف ثانی کے روضہ پر وعظ فرما رہے ہیں۔ فقیر خدمت میں حاضر ہیں اور پارچہ برادری کی خدمت بندہ کے سپرد ہے۔
(۳) فرمایا کہ ایک مرتبہ جو زیارت ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ توکل شاہ ہمارا فقیر ہے۔
مقام تکمیل:
فرمایا کہ ایک مرتبہ روضہ مقدسہ پر حاضر ہوا ایک بزرگ کی روح وہاں وضو کر رہی تھی انہوں نے فرمایا ہ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رہے ہیں کہ انبالہ کا مست اب تک نہیں آیا مگر جناب مولوی محبوب عالم صاحب کی روایت میں اس طرح ہے کہ میاں صاحب قبلہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ ہم ایک حوض پر وضو کر رہے ہیں تاکہ پاک و صاف ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوں۔ اسی اثنا میں دیکھا کہ مولوی محمد سعید صاحب انبالوی حضرت کے دربار سے میرے پاس آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں کہ اس انبالہ والے مست نے اتنی دیر کہا لگادی میں جلدی وضو سے فارغ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں پہنچا حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اپنے سر مبارک کا تاج تو مجھے دے دیا اور خود نیا منگا کر سر مبارک پر رکھ لیا میں نے لے کر پہلے تو اس تاج کو بڑی محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور پھر اپنے سر پر رکھ لیا اس دن سے تکمیل ہوگئی اور مخلوق خدا کو بہت ہی ہدایت ہو رہی ہے کہ یہ مقام تکمیل تھا۔
(۵) فرمایا کہ ایک مرتبہ ہماری روح روضہ منورہ کے اندر داخل ہوئی دیکھا کہ تربیت شریف اندر سے خام ہے ہم نے چاہا کہ غلبہ محبت و فرط عشق میں مزار پر انوار کو جپھی پالیں(یعنی لپیٹ جائیں) مگر حضور سے ممانعت ہوئی۔
(۶) فرمایا کہ ایک مرتبہ ایام جوانی میں کہ ہم تمباکو بہت کھایا کرتے تھے دیکھا کہ یہ فقیر جناب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے آغوش میں مثل اطفال کے لیٹا ہوا ہے۔ ناگہاں حضور نے فرمایا کہ توکل شاہ! تیرے منہ سے تمباکو کی بو آتی ہے اس روز سے میں نے تمباکو کھانا چھوڑ دیا۔
مدینہ طیبہ کی حاضری:
مصنف ذکر خیر کا بیان ہے کہ ایک روز میں اور سائیں محمد علی شاہ مرحوم حاضر خدمت مبارک تھے آپ باہر والے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے حضور کے پاؤں مشرق کی جانب تھے اور سر مبارک غرب کی جانب تھا ہم دونوں پاس بیٹھے ہوئے پنکھا ہلا رہے تھے۔ میں نے حضور کے بدن مبارک کی طرف غور جو کیا تو نظر آیا کہ آپ کو سانس مطلق نہیں آتا تقریباً دس یا پندرہ منٹ تک یہی حال رہا میں نے پریشان ہوکر سائیں محمد علی شاہ سے کہا کہ دیکھو تو حضرت کو سانس نہیں آتا ہم اس گفتگو میں تھے کہ حضور جاگ اٹھے اور آنکھ کھول کر فرمایا کیا باتیں کر رہے ہو میں نے وہ واقعہ عرض کیا آپ نے فرمایا ہاں ہم مدینہ شریف گئے ہوئے تھے میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید آپ خواب میں مدینہ شریف تشریف لے گئے ہوں حضرت علیہ الرحمۃ نے نور باطن سے میرے اس خطرہ پر آگاہ ہوکر فرمایا۔ مولوی صاحب! اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے اب بھی موجود ہیں جو نظر اٹھانے میں مدینہ شریف پہنچ جاتے ہیں اور نظر نیچی کرنے میں یہاں واپس آجاتے ہیں۔
خواب کی کیفیت:
شیخنا العلامہ مولانا مولوی حاجی حافظ مشتاق احمد صاحب چشتی صابری ادام اللہ تعالیٰ فیوضہ لکھتے ہیں کہ حضرت مخدومنا توکل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے برسبیل تذکرہ عاجز سے فرمایا کہ ایک مرتبہ خواب میں یہ دیکھا کہ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ےتشریف لے جارہے ہیں میں اور مولانا محمد قاسم دیوبندی دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے دوڑے کہ جلد حضور تک پہنچیں۔ مولانا محمد قاسم صاحب تو وہاں اپنا قدم رکھتے تھے جہاں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کا نشان ہوتا تھا مگر میں بے اختیار جارہا تھا آخر مولانا سے آگے ہوگیا او پہنچ گیا۔
درود شریف کی برکت:
مولانا ممدوح اس طرح تحریر فرماتے ہیں عاجز محمد مشتاق احمد نے حضرت عارف کامل سائیں توکل شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بار ہا اس حالت میں دیکھا ہے کہ حضرت ممدوح بعد نماز عصر یہ درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ اللّہمّ صلّ علیٰ سیّدنا محمد وعلی ال سیّدنا محمد بعد دکلِّ ذرّۃِ مائۃ اَلْفِ اَلْفِ مرِۃِ۔ پڑھتے پڑھتے بعض وقت حضوری ہوجاتی تھی اور بے اختیار سر زمین پر جھکا دیتے تھے گویا بے ہوش ہوجاتے تھے عجیب فیض اس وقت وارد ہوتا تھا۔
مراقبہ حقیقت محمدی:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز بعد مغرب احقر مراقبہ میں شامل تھا کیا دیکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس قائم ہے۔ حضور سائیں صاحب اندر ہیں اس نابکار کو دربان مجلس شریف کے ندر جانے کی اجازت نہیں دیتے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو نہ روکو اندر آنے دو اس کے پاس توکل شاہ کا رقعہ ہے میں نے مراقبہ سے فارغ ہوکر عرض کیا تو آپ نے فرمایا فلاں وقت دیکھا ہوگا میں نے عرض کیا جی ہاں! فرمایا اس وقت حقیقت محمدی کا مراقبہ تھا پھر مجھ کو اس مراقبہ کا طریقہ تعلیم کیا۔
خواب کا واقعہ:
حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کو دیگر انبیائے کرام اعلیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھی زیارت ہوئی ہے چنانچہ صاحب ذکر خیر لکھتے ہیں کہ ایک روز وصال سے تقریباً ایک سال پہلے علی الصبح مجھے طلب کیا میں فوراً حاضر خدمت ہوا فرمایا آؤ مولوی صاحب بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا تو آپ نے یہ خواب سنایا فرمایا ہم نے دیکھا کہ ہم یہاں سے چل کر حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے انہوں نے فرمایا آؤ آج رات یہیں رہو چناں چہ ہم وہیں رہ گئے ہم نے دیکھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قلب ایسا ہے کہ جیسا کوئی بہت بڑا گنبد ہو اور جیسے بڑے زور سے نہر کا پانی پڑتا ہے اس طرح اور اس میں وارد ہو رہا ہے اور اس پر نورانی تجلیات اس طرح وارد ہو رہی ہیں جیسے بڑے زور سے نہر کا موسلا دھار دہانہ پڑ رہا ہو ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر حکم ہوتو میں آپ کے قلب میں داخل ہوکر اندر سے اس کی سیر کرلوں۔ فرمایا۔ ہاں جاؤ خوب سیر کرو۔ چنانچہ اجازت ہوتے ہی میں اس کے اندر داخل ہوا اور خوب ہی سیر کی بہت ہی بڑا قلب تھا پر ہم نے بھی تمام ہی کی سیر کرلی پھر ہم وہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس پہنچے انہوں نے بھی فرمایا کہ ایک رات ہمارے ہاں مہمان رہے کھانا کھایا اور ان سے اجازت لے کر ان کے لطیفہ روح کی سیر کی پھر اسی طرح حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہا السلام کے یہاں ان کے حکم کے موافق ایک رات مہمان رہے اور کھانا کھایا اور ان دونوں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لطیفہ سرّ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لطیفہ خفی کو خوب ہی سیر کی پھر حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آج رات یہیں رہو۔ چنانچہ ہم وہیں رہے اور کھانا کھایا اور پھر اجازت لے کر آپ کے لطیفہ اخفیٰ کی سیر کی پھر آگے پتہ نہ لگا کہ اس کی انتہا کہاں تک ہے حقیقت محمد یہ تک تو پہنچے پھر وہاں سے رخصت ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بڑی بڑی بشارتیں دیں پھر ہماری آنکھ کھل گئی یہ کیا بات تھی وہاں تو ہم اتنی راتیں گزار کر آئے تھے۔ پر یہاں ایک رات بھی پوری نہ گزری۔
ذکر خیر میں ہے کہ ایک روز یہود و نصارٰی کے کفر و ایمان کا تذکرہ ہورہا تھا کہ آپ نے فرمایا عالم رویا میں ہم نے دیکھا بھی ہے کہ ایک مرتبہ ہم حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے دربار میں پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بہت عمدہ مکان ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں تشریف رکھتے ہیں اور لوگوں کے گروہ کے گروہ دروازے کی طرف آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے ملتے ہیں آپ سے بہت ہی خوشی کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لوگ تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مجھے اپنے پاس بلاکر بہت ہی محبت سے بٹھایا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں اور مجھ سے ملتے ہیں کیوں کہ میری ملت پر ہیں میں ان سے بہت خوش ہوں پھر میں نے دوسرے گروہ کی بابت دریافت کیا جو دروازے سے نہیں آتا تھا بلکہ جس طرح حجرے کا دروازہ تھا پشت کی طرف سے آنا چاہتا تھا اور دیوار کے حائل ہونے کی وجہ سے نہیں آسکتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ یہ یہود و نصارٰی ہیں اب میں ان سے بیزار ہوں۔ کیوں کہ یہ جو نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لائے اس واسطے یہ میرے طریقہ پر نہیں رہے اور میری ملت سے نکل گئے پھر فرمایا ایک مرتبہ جب کہ ولایت ابراہیمی ہم پر کھلی تھی ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہوئی آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا تو حق پر ہے کیوں کہ تو ہمارے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ہے۔ انتہیٰ
صحابہ کرام و اولیائے عظام:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز تصرف ارواح کے ذکر پر فرمانے لگے۔ مولوی! وہ شخص نادان ہے جو تصرف ارواح کا منکر ہے فقیر ایک روز دوپہر کو قیلولہ کے وقت مراقبہ میں مشغول تھا اس قدر سکر غالب ہوا کہ کچھ خبر نہ رہی نماز میں بھی دیر ہونے لگی اسی وقت حضرت مالک ذوالفقار حضور امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ نے مجسم تشریف فرما ہوکر میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر زور سے ہلائے اور فرمانے لگے۔ ہوش میں آؤ ظہر کا وقت قضا ہوجائے گا میں ہوش آگیا اور میرے مونڈھے دیر تک دُکھتے رہے۔
صاحب تذکرہ توکلیہ لکھتے ہیں کہ فرمایا ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ روضہ پر نُور پر امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہیں۔ گویا وہاں کے مختار یا داروغہ ہیں گندمی رنگ۔ پوریاں لمبی۔ انگلیاں نازک ہیں۔
کشف قبور کی کیفیت:
جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ حضرت میاں صاحب علیہ الرحمۃ کو کشف قبور ایسا تھا کہ مزار پر کھڑے ہوتے ہی اہل مزار کی نسبت نقشبندیہ ہو یا چشتیہ قادریہ ہو یا سہروردیہ فوراً معلوم کرلیتے تھے فرمایا کہ جیسے تم لوگ کٹھاس اور مٹھاس کو چکھ کر بتا دیتے ہو۔ اسی طرح نسبت کے ذائقہ اور رنگ و بو کو پہچانتے ہیں چناں چہ نسب آدمی و نوحی و ابراہیمی و موسوی و عیسوی و محمد کا باہمی فرق الگ الگ بندے کو بتایا جو قابل اظہار و تحریر نہیں فرمایا کرتے کہ شہید کے مزار پر سرخ رنگ کا نور ہوتا ہے چناں چہ مرزا مظہر جانجاناں شہید دہلوی کے مزار پر سرخی نما فیض شہادت کا ہے فرمایا کہ ٹھسکہ میرا نجی جو ہم گئے تو میاں بہادر علی شاہ کے مزار پر خوشبو دار فیض پایا اور محمد شاہ مست کا فیض کھٹا بو دار پایا اگر سڑک پر کوئی مزار مخفی ہوتا تو آپ اس کی نسبت بتا دیتے اور فرماتے کہ یہاں سے خوشبو آتی ہے۔ انتہےٰ۔
قبر پر مراقبہ:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ناقل ہیں کہ ایک روز حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت لکھی شاہ صاحب کی قبر پر مراقب تھے۔ دیکھا کہ خون کا ہاران کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ شہید ہیں۔ سائیں لکھی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم یہاں کے شاہ ولایت ہیں۔ ہم نے کہا۔ بے شک ہم آپ کے شاہ ولایت ہونے کو مانتے ہیں۔ پھر سائیں لکھی شاہ صاحب نے ہم سے پوچھا کہ آپ کس سلسلہ میں مرید ہیں۔ میں نے کہا کہ مجددی طریق میں۔ لکھی شاہ صاحب نے فرمایا۔ یہ سلسلہ ہمارے بعد کا ہے۔ اور ہم حضرت غوث بہاء الحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶۶۶ھ) کے وقت میں ملتان سے یہاں آئے تھے۔ اور تصوف میں انہیں کے سلسلہ (سہروردیہ) میں سے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے گزرے ہیں۔ پھر ہم نے ان قبر والوں سے جو لکھی شاہ صاحب کے پاس شرقاً غرباً مدفون ہیں پوچھا کہ آپ کس زمانہ میں گزرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ان کی امت میں سے تھے۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہاں آئے ہیں۔ کافروں سے یہاں بڑی لڑائی ہوئی تھی۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اسی وجہ سے ان کے منہ بیت القدس کی طرف ہیں۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں قبلہ اسی طرف تھا۔ اور ان کے قد اتنے لمبے ہیں کہ ان کے پاؤں اس شرقی دیوار سے باہر نکلے ہوئے ہیں جس میں دروازہ اور چوکھٹ لگی ہوئی ہے۔ پھر فرمایا کہ ہمیں مکاشفہ سے بھی معلوم ہوا ہے کہ سائیں لکھی شاہ صاحب کے علاوہ یہاں اور بہت سے شہداء کی قبریں ہیں۔ جن کا کچھ نشان ظاہر میں نہیں۔ اور یہ منڈی کا تمام میدان شہیدوں سے پُر ہے۔ اسی وجہ سے میں نے بار ہا دیکھا ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ احاطہ کے شرقی دروازے سے داخل ہوکر شمال کی طرف کو لکھی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر تشریف لے جاتے تھے اور جنوب کی طرف کو نہیں جاتے تھے۔ کیونکہ اس طرف ان دونوں قبروں والوں کے پاؤں راستہ میں حائل ہوتے ہیں۔ انتہیٰ۔
لنگر کی تقسیم:
جناب مولوی سراج الدین صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز میں نے میاں صاحب قبلہ سے دریافت کیا کہ نقد روپیہ پیسہ کا لنگر آپ کا کب سے جاری ہے۔ فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ لکھی شاہ صاحب کی روح اپنی مسجد میں کچھ نقدی فقیروں کو عالم مثال میں تقسیم کر رہی ہے پھر کچھ درہم و فلوس ہمارے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ تم ہی تقسیم کیا کرو۔اس دن سے بحکم الٰہی فتوحات نقد زیادہ ہونے گلیں۔ فرمایا کہ ہم نے مراقبہ میں شاہ عبدا لرسول صاحب شاہ ولایت انبالہ کو دیکھا کہ نقاب پوش ہیں جیسا کہ عالم حیات میں تھے۔ اور فرمایا کہ ایک مرتبہ دہلی میں حکیم لطیف حسین کے مکان پر دیکھا کہ شاہ صاحب فرما رہے ہیں کہ توکل شاہ! ہم تیرے پاس جنت سے آئے ہیں۔ تو انبالہ جلدی چلا آ۔ انتہیٰ
فضائل درود شریف:
جناب مولوی سراج الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ شاہ صاحب نے فرمایا۔ حدیث شریف میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود و رحمت نازل فرماتا ہے اس کی صورت ہم نے یہ دیکھی کہ ایک بار ہم حجرہ میں ذکر میں مشغول تھے۔ ہم نے ایک بار درود شریف پڑھا۔ دیکھا کہ نور کا ایک بادل آیا اور وہ ہم پر دس بار برسا۔ نیز فرمایا کہ درود شریف پڑھنے میں ہم نے آسمان سے سفید پھول برستے دیکھتے۔ سفید پھول سے مراد نور رحمت ہے۔ انتہیٰ۔
پھولوں کا ہار:
صاحب تذکرہ توکلیہ بروایت مولوی خلیل الرحمٰن صاحب مدرس لکھتے ہیں کہ میاں صاحب قبلہ ’’اللھم صلی علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ اٰل سیدنا محمد بعد د کل معلوم لکَ وبعد د کل ذرۃ مائۃ الف الف مرۃ وبارک وسلّم‘‘۔ کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ ایک روز شام کے وقت بعد مغرب میں میاں صاحب کے ساتھ مراقبہ کے لیے کوٹھے پر چڑھا۔ آپ نے مجھے حضور میں طلب فرمایا اور فرمایا کہ ابتداء میں جب میں نے یہ درود پڑھنا شرو کیا تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر میرے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا۔ انتہیٰ۔ جناب مولوی محبوب عالم صاحب اس صیغہ کی نسبت یوں لکھتے ہیں۔ کہ میاں صاحب قبلہ نے فرمایا۔ کہ ایک دفعہ ہم نے جو یہ صیغہ پڑھا تو دیکھا کہ ایک باغ ہے اور ایک نوری چبوترہ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں۔ میں جا کر نہایت ادب سے ملا۔ تو آپ سینہ سے لگا کر ملے۔ اور پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا۔ انتہیٰ۔ مگر جناب مولوی سراج الدین صاحب یوں بیان کرتے ہیں کہ میاں صاحب قبلہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فر مارہے ہیں کہ جب تم یہ صیغہ درود شریف کا پڑھتے ہو۔ تو ہم پھولوں کا ہار تمہارے گلے میں ڈالتے ہیں۔ میں نے حضور علیہ الرحمۃ سے پوچھا کہ وہ صیغہ کونسا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ صیغہ یہ ہے ’’صلَی اللہ علی النّبیّ الاّمّی واٰلہٖ وَسَلّم۔‘‘ انتہیٰ۔ جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب نے رسالہ ’’توسل بالنبی والولی‘‘ میں یوں لکھا ہے۔ زبدۃ الاولیا المتاخرین مرشدی سائیں توکل شاہ صاحب نے مجھ سے براہ راست فرمایا ہے کہ مولوی صاحب! جس وقت میں یہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ تو میں دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک مجسم ہوکر میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتی ہے۔ سائیں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میری خواہش پر مجھے بھی اس درود شریف کی اجازت عطا فرمائی۔ درود شریف یہ ہے ’’اللھم صل علی محمد وعلیٰ اٰل محمد بعدد کل معلوم لک۔‘‘ انتہیٰ۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ان ہرسہ روایات میں تطبیق بآسانی ہوسکتی ہے۔ کما لا یخفی۔
کشف قلوب:
خطرات سے آگاہی مقام ارشاد کے لوازم سے ہے۔ حضور علیہ الرحمۃ کو اشراف خواطر کمال درجہ کا تھا۔ جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں حضور کے روبرو کچھ بات کہتے ہوئے رک گیا۔ آپ نے فرمایا۔ سراج الدین! تو کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے کس طرح جانا۔ فرمایا کہ ایک روشنی اندر سے باہر آکر واپس چلی گئی۔
جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتے ہیں:
قلبی خیال سے آگاہی:
ایک روز اس جگہ جہاں اب حضور کا روضہ مبارک ہے۔ ایک کنجری سیاہ فام آئی۔ اس نے عرض کیا کہ حضور میرے لیے دعا فرمائیں۔ ایک درویش حضور کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دل میں خیال کیا کہ اگر اس کنجری کا نکاح میرے ساتھ ہوجائے تو بہتر ہے۔ حضور نے اس کے خطرہ پر آگاہ ہوکر پیچھے کی طرف منہ کر کے فرمایا۔ اوہُوں! یہ تیرے لائق نہیں۔ اور اس کے واسطے دعا فرمادی۔ دوسرے ہی روز وہ کسی کے ساتھ نکاح کر کے چلی گئی اور پیشہ قطعی چھوڑ دیا۔ وہ درویش صاحب نسبت تھا اس نے فرمایا کہ تیرا نکاح کہیں اور اچھی جگہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔
درویش کے دل کی بات:
ایک درویش انبالہ آئے ہوئے تھے۔ انبالہ میں ان کے کچھ مرید بھی تھے۔ میں عصر کے بعد حضرت صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت سے واپس جا رہا تھا۔ جب میں اس چھوٹے سے پُل کے پاس پہنچا۔ جو حضرت صاحب کے روضہ کے پاس غرب کی طرف واقع ہے۔ تو وہ درویش بھی سامنے سے آملے۔ اور مجھے خطاب کر کے کہا۔ مولوی صاحب! آپ عالم و فاضل ہیں۔ بڑے بزرگ ہیں۔ آپ کے پیر عصر کی نماز دیر کر کے پڑھتے ہیں۔ آپ انہیں نصیحت کریں۔ قرآن شریف میں آیا ہے ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ والصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔‘‘ اور وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ اس کی حفاظت ضرور کرنی چاہیے میں نے جواب دیا کہ اس حفاظت سے مراد فوت نہ ہونے دینا ہے۔ یعنی نماز عصر کو فوت نہیں ہونے دینا چاہیے۔ باقی آپ وہاں جاتے ہی ہیں تقدیم و تاخیر کے بارے میں خود حضور میں ہی عرض کردینا۔ وہ تو آگے نکل گئے۔ اور ہم پھر واپس حضرت صاحب کی خدمت میں گیا۔ لیکن دانستہ تھوڑی دیر اس واسطے کی کہ مبادا حضرت صاحب کے دل میں میری طرف سے کوئی خیال گزرے۔ وہاں پہنچ کر مین نے دیکھا کہ مارے ہیبت کے ان درویش کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ سوال کر سکیں اور بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ آپ نے خود ہی فرمایا۔ یہ لوگ اچھے ہیں۔ اور ان کو آسانی ہے۔ فقط قلبی ذکر کو فقیری سمجھ بیٹھے ہیں اور آگے قدم نہیں اٹھایا۔ صرف اسی پر قناعت کر کے بیٹھ رہے۔ جب وہ حالت اس فقیر پر وارد ہوئی جو غوث بہاء الحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ پر وارد ہوئی تھی اور انہوں نے دو برس تک تہہ بند نہیں باندھا تھا اور بے ہوش جنگلوں میں پڑے رہتے تھے اور کوئی ایسا نہ تھا کہ ان کو تہہ بند ہی بندھوا دیتا نماز کا تو کیا ذکر تھا۔ اس فقیر نے اس حالت میں بھی کبھی نماز قضا نہیں ہونے دی۔ اس فقیر کی پرورش روح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی مہربانی رہی ہے کہ باوجود ان حالات کے ابتداء سے آج تک کبھی نماز قضا نہیں ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل اور روح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش ہی کی برکت ہے کہ کبھی نماز نہیں قضا ہوئی ورنہ ان مقامات میں حضرت غوث بہاء الحق ملتان رحمۃ اللہ علیہ جیسوں کی نماز بوجہ سکرت اور غلبہ حال کے رہ گئی۔
امانت:
ایک روز حضرت صاحب علیہ الرحمۃ مع ایک درویش کے مکان سے باہر نکل کر سڑک پر کھڑے ہوگئے۔ ایک شخص آیا۔ سلام علیک کی۔ اور مصافحہ کر کے رخصت ہوگیا۔ ابھی شاہ عبد الرسول صاحب کے باغ کے گوشہ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ پھر لوٹا اور آکر سلام کیا اور رخصت لے کر چلا گیا۔ اسی طرح تین دفعہ اس نے کیا۔ تیسری بار آپ ایک مخلص سے فرمانے لگے۔ تم نے دیکھا۔ یہ شخص کیا کر رہا ہے۔ اس نے عرض کیا۔ حضور یہ شخص کچھ بے سمجھ سا ہے۔ فرمایا۔ بے سمجھ تو نہیں ہے۔ اس کے پاس ہماری ایک شے ہے۔ وہ اسے جانے نہیں دیتی اور کھینچ کر پھرلاتی ہے اور یہ دیتا نہیں۔ چوتھی بار پھر آیا اور عرض کرنے لگا کہ حضور مجھے ایک شخص نے دس روپے حضور کو دینے کے لیے دئیے تھے۔ مجھے ضرورت تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اپنا کام کرلوں۔ حضور کو پھر دے دوں گا۔ مگر جب حضور کے پاس سے جاتا ہوں۔ تو میرا دل پکڑا جاتا ہے۔ جب حضور کی طرف رجوع کرتا ہوں تو چھوٹ جاتا ہے۔ سو لیجیے یہ حضور کا مال ہے۔ حضور نے اس درویش سے فرمایا کہ لے لو۔ یہ حلال طبیب مال ہے۔ اس نے لے لیا۔ پھر اس شخص سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے میں سے تو نہیں رکھ سکتا۔ کسی کی امانت میں خیانت منع ہے۔ ہاں اگر تجھے ضرورت ہے تو اب لے لے۔ اس نے نہ لیا اور کہا کہ حضور دعا کردیں میرا کام ہوجائے حضور نے دعا فرمائی اور وہ چلا گیا۔ انتہیٰ۔
دلی خیال جان لیا:
جناب مولوی نور احمد صاحب مولف تذکرہ توکلیہ لکھتے ہیں کہ ایک دن نامہ نگار حاضر خدمت ہوا۔ دل میں یہ خیال تھا کہ میں ایک لیکچر دوں کہ سب لوگ واہ کریں۔ اور یوں کہوں اور اس طرح بیان کروں۔ جب مجھے پاس بیٹھے ہوئے اپنے دل میں ایسے ایسے منصوبے گھڑتے کچھ دیر ہوگئی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی یوں طالب کمال نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے غرور پیدا ہوا۔ انتہیٰ۔
روح کی تسلی:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی گور نمنٹ سکول انبالہ شہر میں ملازم تھے۔ یہاں سے ان کی تبدیلی حصار سکول میں ترقی پر ہوگئی۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے ان کی روانگی سے پہلے خلیفہ مظفر علی خاں صاحب کو بذریعہ ڈاک اطلاع دے دی۔ غرض یہ حصار میں پہنچ کر خلیفہ صاحب موصوف سے ملے اور پھر چند روز کے بعد بوجہ تعطیل انبالہ میں حاضر خدمت ہوئے۔ اس ملاقات و زیارت کی تفصیل جناب مولوی صاحب خود یوں فرماتے ہیں۔
جب احقر خان صاحب سے مسجد میں ملا۔ میں نے خاں صاحب سے کہا کہ کیا کوئی مکان میرے لیے تلاش کر کے رکھا؟ آپ نے فرمایا کہ مکان نہیں ملا۔ مجھے یہ خیال آیا کہ اس قدر محبت کا دعویٰ۔ پھر شاہ صاحب نے پہلے سے اطلاع بھی دے دی۔ مگر خاں صاحب نے خیال ہی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ خاں صاحب تو خود ہی ایک غیر شخص کے مکان میں عارضی طور پر رہتے ہیں۔ یہ مجبور ہیں۔ واقعی مکانات کی کمی ہے۔ چند ہی روز کے بعد سکول کی بڑی تعطیل ہوئی۔ میں نے خیال کیا کہ گوادھر سے وطن جانے کے لیے چکر اور خرچ بھی زیادہ ہوگا۔ مگر شاہ صاحب کی زیارت پر جان و مال قربان ہے۔ احقر انبالہ حاضر ہوا۔ بارہ بجے تھے۔ آپ وظیفہ شروع کرنے والے تھے۔ میں نے رحیم بخش خادم سے کہا کہ بھائی! میرے پاس سہارنپور کا ٹکٹ ہے۔ تو شاہ صاحب کی خدمت میں خبر کردے۔ اگر بلالیاز ہے قسمت ورنہ وہیں سے زیارت کر کے رخصت ہوجاؤں گا۔ رحیم بخش کے خبر کرنے پر۔ قربان جائیں، اس عنایت پر۔ سائیں صاحب فرمانے لگے کہ سید کی زیارت اور درود شریف پڑھنا ایک ہی بات ہے۔ مولوی کو فوراً بلاؤ۔ میں خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کہا۔ جواب اور مصافحہ کے بعد فرمانے لگے کہ حصار سے تیری روح آئی تھی۔ مظفر خان صاحب کی شکایت کرتی تھی۔ ہم نے تیری روح کی تسلی کردی تھی کہ یہ بیچارہ خود مجبور ہے۔ یہ میرے اس خیال کا اظہار تھا جو خاں صاحب سے ملاقات کے وقت میرے دل میں آیا تھا۔ اور اس کا دفعیہ بھی ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ اللہ اکبر! یہ کشف کہ گویا تمام قلوب کے حالات سامنے ہیں۔ انتہیٰ۔
شب قدر:
فرمایا کہ فقیر کو دو تین مرتبہ شب قدر دکھائی دی۔ ایک مرتبہ تجلی صاف اور تیز تھی۔ بارد گر ذرا پھینکا رنگ۔ فرمایا کہ ماہ رمضان میں ستائیسویں رات کو ایک دفعہ مغرب سے آثار خیر و برکت نمودار تھے۔ ہم دو بجے تک جاگتے رہے۔ ایک بڈھے کے ہاں ہماری سحری کی دعوت تھی۔ وہ ہمیں ڈوگروں کے محلّہ میں لے گیا۔ دو اور تین بجے کے بابین وہ بڈھا ہمارے ہاتھ دھلا رہا تھا۔ بادل ہو رہا تھا۔ کچھ ترشح بھی تھا کہ یکایک تجلی پھیل گئی۔ بڈھا تو تاب نہ لایا اور گر پڑا۔ ہماری نظر بھی خیرہ ہوگئی۔ ہم پر رقَت اور قَشعریرہ طاری ہوا جو مصافحہ جبرائیل علیہ السلام کی علامت ہے۔ ہم نے جلد جلد کئی دعائیں مانگیں۔ جن کا ظہور صبح سے شروع ہوا۔ اور حضرت مرزا مظہر جانجاناں کی طرح احوال و ورادات کھلنے لگے۔ (روایت مولوی سراج الدین صاحب)
نوری تختی کا ٹکڑا:
ایک مرتبہ بعد مغرب عوام زائرین میں سے دو شخص توجہ میں آبیٹھے۔ آپ نے ان میں سے ایک سے فرمایا کہ تو درود شریف بہت پڑھا کر۔ وہ شخص فسق و فجور میں بہت مبتلا تھا۔ جب وہ دونوں چلے گئے۔ تو ایک درویش نے عرض کیا۔ حضور! یہ درود شریف کیا پڑھے گا۔ اس کی حالت تو خراب ہے۔ فرمایا نہیں۔ اس کا اخیر اچھا ہے۔ ایک شخص نے پھر عرض کیا کہ حضور! آپ نے یہ کیسے معلوم کرلیا کہ اس کا خیر اچھا ہے۔ فرمایا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص کی روح کے گلے میں ایک نور کی تختی کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا۔ جس پر لفظ سعید یاشقی لکھا ہوا ہوتا ہے۔ میں نے جوان کی روحوں کی طرف نظر کی۔ تو دیکھا کہ نوری تختیوں کے ٹکڑے جو ان کی روحوں کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں ان پر لکھا ہوا ہے۔ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہِ۔‘‘ اس دوسرے شخص کا کلمہ شریف تو چمک رہا تھا اور اس کا ذرا گدلا سا تھا۔ مگر لفظ سعید اس کی تختی پر بھی لکھا ہوا تھا۔ اس سے ہم نے سمجھ لیا کہ اس کا اخیر اچھا ہے۔ اور درود شریف ہم نے اس لیے بتایا کہ اس کی تختی کا گدلا پن دور ہوجائے۔ حضرت میاں صاحب قبلہ کے ارشاد سے پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی آیہ ’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا‘‘ میں طائر سے مراد وہی نوری تختی کا ٹکڑا ہے جو سب لوگوں کی روحوں کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ (روایت مولوی محبوب عالم صاحب)
حلال و حرام کی شناخت:
جب نقدی یا طعام خدمت میں پیش کیا جاتا۔ تو اسے بنظر کشفی دیکھتے۔ اگر مشتبہ یا حرام پاتے۔ فوراً انکار کردیتے یا لے کر کسی دوسرے کو دے دیتے۔ اور جو حلال ہوتا تو اسے لے کر گھر یا لنگر میں بھیج دیتے۔ جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میرے روبرو چھاؤنی انبالہ میں ایک رسالدار کچھ روپے بطور نذر لے کر آیا۔ حضرت علیہ الرحمۃ اس کی نذر ہمیشہ لے لیا کرتے تھے۔ مگر اس دفعہ آپ نے انکار کردیا۔ جب میں نے دریافت کیا تو فرمایا کہ روپیہ رشوت کا تھا جس وقت اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور ہم نے اسے مس کیا تو آگ کی سی حرارت محسوس ہوئی۔ ایک دفعہ کسی ڈپٹی نے ایام عرس میں سات روپے آپ کی نذر کیے۔ آپ گھبرائے اور ان کو باہر تقسیم کرادیا۔ انتہیٰ۔
نذر قبول کرنے میں احتیاط:
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب اپنا چشم دید واقعہ لکھتے ہیں کہ میرے سامنے منشی بہرام خان صاحب انسپکٹر پولیس پنشنر نے حضرت صاحب کی خدمت میں نذر پیش کی۔ حضرت نے قبول نہ فرمائی۔ پوچھا کہ تیرے پاس کوئی اور روپیہ ہے۔ منشی صاحب نے عرض کیا ہاں حضور ہے۔ چنانچہ دوسرا روپیہ پیش کیا وہ بھی قبول نہ فرمایا۔ غرض تیسری دفعہ تیسرا روپیہ قبول فرمایا۔
رشوت کا مال قبول نہ کیا:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز تھا نہ دار شاہ آباد حاضر خدمت ہوا اور اس نے بائیں جانب کی جیب سے دو یا تین روپے نکال کر بطور نذر پیش کیے۔ حضور نے اشارہ سے فرمایا۔ ہوں ہوں! دوسری جیب سے۔ اس پر تھانہ دار نے دوسری جیب سے کچھ روپے نکالے اور پہلے جو ہاتھ میں تھے ان کے ساتھ ملا کر پیش کیے۔ حضور نے فرمایا۔ کہ جا۔ اب ہم یہ دونوں نہیں لے سکتے۔ وہ بھی خراب ہوگئے لے جاؤ۔ جب تھانہ دار باہر نکلا تو میں نے کہ یہ کیا بات تھی۔ اس نے کہا کہ میں نے تنخواہ لی تھی اور ارادہ تھا کہ اس میں سے حضرت شاہ صاحب کو نذر دوں گا۔ راستے میں ایک شخص نے کچھ روپے رشوت کے مجھے دئیے۔ وہ میں نے دوسری جیب میں ڈال لیے۔ مگر پیش کرتے وقت غلطی سے رشوت کے روپے پیش ہوگئے جو منظور نہ ہوئے۔ دوسری جیب سے جو نکال کر دینے لگا تو وہ روپے بھی ان ہی میں مل گئے۔ اس واسطے اب وہ سارے ہی خراب ہوگئے۔ انتہیٰ۔
دعوت کھانی ترک کردی:
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشتبہ طعام کا حال بعد میں معلوم ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ جناب مولوی سراج الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ چھاؤنی انبالہ میں اکرم پٹواری نے جس کی دو زوجہ تھیں آپ کی دعوت کی۔ رات کو کباب اور گاجر کا حلوہ کھلایا۔ اس وقت کچھ معلوم نہ ہوا۔ مگر صبح کو مراقبہ سے اٹھ کر فرمانے لگے کہ رات کے کھانے میں کچھ تھا۔ میں نے عرض کیا۔ کیا زہر تھا؟ فرمایا۔ زہر فقیروں کو کون دے گا۔ وہ رشوت کا مال تھا۔ ہم نے اس وقت دیکھا کہ میری اور تیری انگلیاں گندگی میں آلود ہیں۔ اس پر آپ نے خود یہ قصہ بیان کیا کہ کریم بخش تھانہ دار نے ہماری دعوت کی۔ ہم نے دیکھا کہ کھانے میں سر کے بال اور خون ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ طعام رشوت کے مال کا تھا۔ ہم نے اسے بلاکر توبہ کرائی۔ اس نے پھر دعوت کی۔ ہم نے دیکھا کہ کھانے میں بھڑوں کے بچے ہیں۔ پھر توبہ کرائی اور آئندہ اس کی دعوت کھانی ترک کردی۔
توجہ کی کیفیت:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جن ایام میں لیکھرام آریہ مارا گیا ایک روز بعد مغرب میں حضور سے رخصت ہوکر اپنے قیام گاہ کی طرف چلا۔ جب باہر نکلا تو ایک شخص نے نفیس شیرینی مجھ کو دے کر کہا کہ یہ حضرت صاحب نے آپ کو دی ہے۔ میں نے وہ لے لی اور چل دیا۔ اتنے میں حضور نے نور باطن سے معلوم کر کے ایک آدمی کو دوڑایا۔ کہ مولوی صاحب کو کہو کہ راستے میں اگر کوئی شخص مٹھائی دے۔ تو مت کھانا۔ وہ آدمی مجھ کو آوازیں دیتا تھا۔ لیکن مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔ اس اثناء میں راستے میں کیچڑ آیا۔ میں نے کھانے کا ارادہ کیا۔ مگر اس کیچڑ کو جو پھلا نگنے لگا تو وہ شیرینی اس میں گر گئی اور میں بھی ورلے کنارے گر گیا۔ اتنے میں وہ آدمی آپہنچا۔ کہنے لگا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ مٹھائی نہ کھانا۔ میں نے کہا۔ وہ تو پہلے ہی تمام کیچڑ میں گر گئی۔
حق پر ہونا:
شیخنا العلامہ مولانا مولوی حاجی حافظ مشتاق احمد صاحب چشتی صابری کا بیان ہے کہ کسی زمانہ میں غیر مقلدین انبالہ نے بحث مباحثہ اہل سنت مقلدین سے شروع کر رکھا تھا۔ نا اتفاقی زیادہ ہوگئی تھی۔ حضرت سائیں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان دنوں کا قصہ مجھ سے اس طرح فرمایا کہ مجھے یہ خیال آیا کہ غیر مقلدین جب حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہیں۔ تو ان کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے اور فکر میں تھا کہ اس کے متعلق مجھے جو حق ہو معلوم ہوجائے۔ آخر الامر ایک شب یہ خواب دیکھا۔ کہ ایک احاطہ میں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں۔ اس احاطہ کا صرف ایک دروازہ ہے۔ گرد اگرد دیوار ہے۔ دیوار کے باہر نصاریٰ بھی کھڑے ہیں۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نصاریٰ کی پشت ہے۔ اور غیر مقلدین بھی دیوار احاطہ کے باہر ہیں۔ ان کا چہرہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے۔ مگر اندر جانے کا دروازہ انہیں نہیں ملتا۔ دیوار احاطہ کے باہر کھڑے ہیں۔ اور اہل السنّت والجماعت مقلدین حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ بے تکلف دروازہ سے اندر جاتے ہیں اور حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ خواب دیکھ کر اطمینان ہوگیا کہ مقلدین امام اعظم و دیگر مقلدین ائمہ حق پر ہیں اور غیر مقلدین غلطی پر ہیں۔ کہتا ہے عاجز مشتاق احمد کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس قصبہ خواب کے ذکر کرنے کے بعد انبالہ ہی میں اس عاجز نے حضرت مولانا محمد یعقوب رحمۃ اللہ علیہ مدرس اول دیوبند کو خواب میں دیکھا کہ عاجز سے فرماتے ہیں۔ توکل شاہ نے جو خواب تمہارے سے بیان کیا۔ وہ صحیح ہے۔ میں بھی وہاں حاضر تھا۔ انتہیٰ۔
علم کے مومن:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وسعت علم کا حال حضور علیہ الرحمۃ سے یوں نقل کرتے ہیں۔ کہ فرمایا کہ ایک دفعہ ہم مراقبہ میں تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا حوض ہے۔ جس کا پانی سبزرنگ کا ہے اور بہت ہی گہرا ہے۔ ہم نے بہت ہی غوطے لگائے اور بہت ہی زور مارا۔ مگر اس کی تہہ کا پتہ بالکل نہ لگا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس حوض میں سے کچھ نہریں نکلی ہوئی ہیں۔ اور حوض کے کناروں پر بہت سی چرخیاں بھی لگی ہوئی ہیں پانی نہر کے ذریعہ سے بھی نکل رہا ہے اور چرخیوں کے ذریعہ سے بھی کھینچتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ اور بھی ہزار ہا خلقت پانی کھینچ رہی ہے۔ مگر پانی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہم نے پوچھا۔ یہ کس کا حوض ہے کہا گیا کہ یہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علم کا حوض ہے۔ تمام عمر اسی طرح کھینچتا رہے۔ تو بھی یہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ باقی حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم کے علم کے حوض بھی ہم نے دیکھے ہیں۔ وہ پاس ہی تھے۔ گو وہ اپنی مقدار کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں مگر اس حوض کے مقابلہ میں بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔ اس روز سے ہم کو حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ سے اس قدر محبت ہوگئی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ نہروں کو بابت جو ہم نے پوچھا تو جواب ملا کہ یہ امام محمد کی نہر ہے۔ یہ امام ابو یوسف کی ہے۔ یہ امام زفر کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ حوض کا پانی سبزرنگ کا تھا اس سے ہم نے سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام شریعت کا نور ادھر ہی آگیا۔ انتہیٰ۔
بار گاہِ الٰہی میں قبولیت و منظوری:
ایک روز تقلید شخصی کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کا استنباط اور آپ کی عبادت اور زہدو تقویٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوچکا ہے۔ مسائل شرعیہ بنفس ذاتہا تو خوبصورت تھے ہی۔ اب حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلوص کی وجہ سے یہ عنایت اللہ تعالیٰ نے حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ پر فرمائی کہ جو کوئی آپ کے استنباط پر عمل کرے اس کے کسب و عمل میں بھی یہ طاقت آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں منظوری و قبولیت کے لائق ہوجاتے ہیں۔ ہر شخص کی ذاتی تحقیق میں یہ طاقت نہیں ہوسکتی کہ بارگاہ خدا وندی میں منظور و مقبول ہوسکے۔ اس لیے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے استنباط اور طریقہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سلسلہ کی فضیلت:
ذکر خیر میں سلاسل اربعہ صوفیہ کرام کی حقیقت اور سلسلہ نقشبندیہ کی فضیلت کے بارے میں حضرت شاہ صاحب قبلہ سے یوں منقول ہے۔ کہ فرمایا۔ ایک فضیلت تو نقشبندی سلسلہ کی عالم رویا میں دیکھتی تھی کہ ایک دفعہ زیارت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوئی۔ دیکھا کہ میں آپ کے حضور میں بیٹھا ہوں۔ اور آپ کے سینہ مبارک سے چار نہریں نکلی ہیں اور تمام عالم میں جاری ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی وہاں تشریف فرما ہیں۔ منجملہ ان کے ایک نہر اتنی بڑی ہے کہ وہ اکیلی ہی ان تینوں کے برابر ہے۔ اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بڑی نہر میں بیعت فرمایا۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! اس نہر کا کیا نام ہے۔ آپ نے فرمایا۔ نقشبندی نہر یہی ہے۔ جس وقت بیعت کی قبولیت کے واسطے فرمایا۔ تو میں نے عرض کیا کہ طفیل اپنے میاں صاحب (پیر) کے اس طریقہ کی بیعت کو قبول کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ یہی نہریں ہیں جو قیامت تک میری امت کے اولیاء میں جاری اور مجھ تک پہنچاتی رہیں گی۔
ایصال ثواب اور کھانا:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب کا بیان ہے۔ کہ ایک روز میں نے عرض کیا۔ کہ حضور ایک شخص نے آج مجھ سے سوال کیا تھا کہ یہ جو ایصال ثواب ہے کہ کھانا وغیرہ پکا کر اللہ تعالیٰ کے واسطے کھلاتے ہیں۔ یہ کھانا پانی وغیرہ تو کھانے والوں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ پھر میت کو کیا چیز پہنچتی ہے۔ اور اگر پہنچتی ہے تو کس طریقہ سے۔ فرمایا ہم کچھ پڑھے ہوئے تو ہیں نہیں۔ مگر اس کے بارے میں جو بات ہم کو معلوم ہوئی وہ اس طرح ہے۔ کہ ایک دفعہ ہم نے اپنے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ختم دلایا۔ اور رکابیوں میں کھانا ڈال کر اور سب کے آگے چن کر ان پر فاتحہ کہلائی۔ بحالت مکاشفہ یہ کیفیت دیکھی کہ ان رکابیوں کی نوری شکل بن گئی ہے طعام سے بھری ہوئی۔ اور وہ نوری شکل کی رکابیاں طعام کی بھری ہوئی آسمان پر چڑھ رہی ہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ آسمان سے وہی نوری شکل کی رکابیاں اتر کر حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر میں جا رہی ہیں اور آپ ان میں سے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس وقت ہماری سمجھ میں آیا کہ جس طرح اس بدن کی غذا یہ دنیاوی چیزیں ہیں اور بدن ان کو کھا کر مضبوط ہوتا ہے اسی طرح روح کی غذا نور ہے۔ اور روح اسے کھا کر تقویت حاصل کرتی ہے۔ مرنے کے بعد بدن کو تو غذا کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ وہ فنا ہوجاتا ہے۔ البتہ روح کو غذا کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ چونکہ یہ دنیاوی کھانے روح کی غذا نہیں بن سکتے۔ اس لیے ضروری ہوا کہ ان کھانوں کو نور سے بدلا جائے تاکہ روح کھاسکے۔ اور نور سے بدلنے کا طریقہ ہے کہ یہ طعام اللہ تعالیٰ کے واسطے اس کے بندوں کو کھلا دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ منظور فرماکر کھلانے والوں کو اس کے بدلے نوری کھانا جیسا کہ جنت میں جنتیوں کو ملتا ہے اسی طعام کی مثل دے دیتا ہے۔ مثلاً اگر کسی نے اللہ کے واسطے دودھ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دودھ ہی دیتا ہے مگر نور کا۔ ایسے ہی کسی نے روٹی دی۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دیتا تو روٹی ہی ہے مگر ہوتی ہے وہ روٹی نور کی۔ جیسا کہ جنتیوں کو جنت میں کھانے تو ملتے ہیں لیکن وہ نوری کھانے ہوتے ہیں۔ اور یہ نوری کھانا کھلانے والے کا ملک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاتا ہے۔ اسی نوری بدلے کا نام اجر و ثواب ہے۔ اب اس کھلانے والے کو اختیار ہے کہ اس نوری بدلے کو اپنی ہی ملک میں رہنے دے یا کسی میت کو بخش دے۔ اگر اپنی ہی ملک میں رکھے گا تو قیامت کے دن خود اس کے کام آئے گا۔ اور اگر کسی میت کو بخشنا ہو تو لا محالہ ایک ایسی ذات کی ضرورت ہے جو یہاں بھی ہو اور وہاں بھی۔ اور ایسی ذات فقط اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو ہر جگہ ہر وقت میں یکساں موجود ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ کے واسطے کھانا وغیرہ کھلایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ طعام جو ولوگوں نے کھایا ہے یہ تو ان کے پیٹ میں چلاگیا۔ اس کا اجر و ثواب جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں منظور ہوچکنے کے بعد ہماری ملک ہوتا ہے ہم اس اجر و ثواب کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں کہ خدا وندا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سے اس چیز کا ثواب جس طریقہ سے تو پہنچایا کرتا ہے فلاں شخص کی روح کو پہنچادے۔ تو اس صورت میں بلا شبہ ثواب پہنچ جاتا ہے لیکن اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ طعام کھلانے میں خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا مندی مد نظر ہو۔ اور اس میں کسی قسم کی ریا۔ شرک۔ نام آوری اور فخر و بڑائی کا دخل نہ ہو۔ اور حرمت و نجاست سے بھی بری ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک ہی لوگوں کی نیکیاں قبول فرماتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں ہم نے ایک آیت سنی تھی کہ ’’اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے ہی صدقے اور قربانیاں قبول کرتا ہے۔ انتہیٰ۔
مرزا قادیانی کا خط:
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب لکھتے ہیں۔ کہ ایک روز بندہ اور شیخ محمد رمضان صاحب گھڑی ساز حاضر حضور تھے کہ اتفاقیہ دوسرا خط مرزا قادیانی صاحب کا حضرت صاحب کی خدمت میں اس مضمون کا آیا کہ آپ کے ایک لاکھ کے قریب مرید ہیں۔ آپ مجھ کو مسیح موعود مہدی موعود جان کو میری تقلید کریں۔ ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ یہ سن کر ہمارے حضرت کو جوش آگیا۔ فرمایا کہ آج سے اس کا کوئی خط مت لو۔ اگر آئے تو واپس کردو۔ اتنا فرما کر ارشاد فرمایا کہ دل میں تو یوں آتا ہے۔ کہ جس طرح سے حضرت صابر علیہ الرحمۃ نے کلیر میں ذائقہ چکھایا تھا اسی طرح میں یہیں بیٹھا ہوا مرزا کو تماشا دکھا دوں۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آتا ہے کہ پچاس سال انبالہ میں سفید لباس میں گزرے۔ اب انبالہ والے دل میں یوں کہنے لگیں گے کہ توکل شاہ نے تمام عمر تو صبر و توکل میں بسر کی۔ اب فقیری جتانے لگا ہے۔ انتہیٰ۔
چور مسافر:
ایک مرتبہ ایک مسافر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اسے روٹی کھلائی اور فرمایا کہ اسے جلدی رخصت کرو۔ اس نے عرض کیا۔ حضور میرے پاس سفر خرچ نہیں۔ آپ نے سفر خرچ اکٹھا کروادیا۔ اور فرمایا کہ جلدی رخصت کردو۔ چنانچہ وہ چلاگیا۔ بعد میں ایک درویش نے عرض کیا۔ حضور! یہ تو مسافر تھا۔ اسے اتنی جلدی کیوں رخصت کردیا۔ فرمایا ہم نے دیکھا کہ اس کی روح کا دہنا ہاتھ کہنی پر سے کٹا ہوا تھا۔ معلوم ہوا وہ شخص کہیں سے چوری کر کے آیا ہے۔ اس کا رخصت کر دینا ہی ٹھیک تھا۔ آخر کار وہ شخص انبالہ سے بمبئی پہنچا۔ دو تین دن کے بعد لوگ اس کی تلاش کرتے ہوئے آئے کہ حضرت یہاں ایک شخص چوری کر کے آیا تھا۔ پھر وہ بمبئی سے گرفتار ہوکر آیا۔
زری دار دستار:
فرمایا۔ ایک بار ہم نے دیکھا کہ ایک نہایت عمدہ زری وار دستار جس کے پلے بٹے ہوئے تھے آسمان سے اتر کر ہمارے پاس آئی ہے۔ ہم سمجھ گئے کہ اب اللہ تعالیٰ کہیں سے بھیجے گا۔ ہم نے میانجی رحیم داد خاں کو اس کا تمام نقشہ اور اس کی طرز و وضع بتا کر کہہ دیا کہ میاں جی صاحب خیال رکھنا۔ دیکھو اب اللہ تعالیٰ وہ دستار کہیں سے ہمارے پاس بھیجے گا۔ صبح کو جب ہم مراقبہ سے فراغت پاکر باہر آئے۔ تو ایک شخص بعینہ وہی زری دار بٹے ہوئے پلوں کی دستار لیے ہوئے ہمارے پاس آیا۔ ہم نے لے کر میاں جی رحیم داد خاں کو دکھادی۔ انہوں نے دیکھ کر مطابقت جو کی۔ تو بعینہ وہی نکلی۔
مستقبل کی خبر:
پیر جی سید عنایت حسین صاحب لودہیانوی کا بیان ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ لودہیانہ میں تھے شہر سے جنوب کی طرف دور تک میدان پڑا تھا۔ ایک دن حضور علیہ الرحمۃ حالت سُکر میں اس طرف چلے۔ ہم کئی شخص ساتھ تھے۔ جب شہر سے باہر نکلے۔ تو حضور ادھر ادھر کو قدم بدلتے رہے اور فرماتے رہے کہ یہاں مکانات ہیں۔ ادھر کو راستہ ہے۔ پھر ایک جگہ پیشاب کا رادہ کیا۔ تو فوراً جگہ چھوڑ دی اور فرمایا کہ یہاں مسجد ہے۔ ہم عرض کیا کہ حضور! یہاں تو صاف میدان پڑا ہے۔ نہ مسجد ہے نہ مکانات ہیں۔ کبھی پہلے ہوں گے۔ تو خبر نہیں یا آئندہ ہوجائیں گے۔ حضور نے فرمایا۔ کہ ہم کو کوٹھوں مسجدوں اور گلیوں کی روحیں نظر آتی ہیں۔ پھر آگے چل کر ایک کھیت میں جاکر لیٹ گئے اور ہم سے فرمایا کہ درختوں کے سایہ میں جاکر آرام کرو۔ کیونکہ گرما کا موسم اور دھوپ کی شدت تھی۔ بڑی دیر کے بعد حضور اٹھے۔ بدن مبارک سرد ہے۔ ہم نے عرض کیا۔ کہ حضور لیٹے تو رہے دھوپ میں۔ مگر بدن مبارک سرد ہے۔ فرمایا کہ جو تجلی رحمت کی بہشت پر وارد ہے اس کا فیضان لے کر ہم نے اپنے اوپر لپیٹ لیا تھا۔ اور کچھ نیچے بچھائی تھی۔ اس واسطے ہم آرام سے ہوئے رہے۔ دھوپ اور گرمی کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ تم چونکہ وہ فیضان نہیں لے سکتے۔ اس واسطے ہم نے تم کو درخت کے سایہ میں بھیج دیا تھا۔ اس واقعہ کے ایک سال کے بعد اس میدان میں وہی صورت وقوع میں آئی۔ یعنی حضور علیہ الرحمۃ نے جس جگہ مسجد فرمائی تھی وہاں مسجد اور جس جگہ مکان و آبادی وغیرہ فرمائی تھی وہاں ہی حالت ہوگئی۔ اور وہ تمام زمین شہر کی آبادی میں آگئی۔ انتہیٰ۔
تذکرہ توکلیہ میں ہے:
لڑکا اور آدمی:
سائیں مغلی شاہ روایت کرتے ہیں۔ کہ ایک دن بارہ بجے رات کو حکم دیا۔ کہ دیکھو مسجد میں ایک لڑکا اور ایک آدمی بھوکے سوتے ہیں۔ ایک درویش کو بھیجا۔ تو معلوم ہوا کہ بے شک وہ دونوں بھوکے تھے۔ ان کو روٹی بھجوائی۔
مراقبہ کی کیفیت:
ایک بار آپ نے صبح کے وقت مراقبہ کیا۔ اور بعد اس کے فرمایا کہ آج ہمیں حکم ہوا کہ تمہارے پاس ایک غریب آئے گا۔ اس کے پاس جوتا نہیں۔ تم اس کو جوتا پہنانا۔ آپ کی طبیعت کو بڑا انتشار ہوا کہ یہ حکم کس واسطے ہے۔ آخر دن بھر اسی انتظار میں گزرا۔ جب عصر کی نماز سے فارغ ہوئے۔ اور دن تھوڑا سا باقی رہا۔ تو ایک طالب علم پا برہنہ آیا۔ اور اس نے آکر جوتے کا سوال کیا۔ آپ نے خادم سے کہا کہ یہی وہ شخص ہے۔ اسے بازار لے جاکر جوتا پہناؤ۔ چنانچہ اسی وقت خادم لوگ اس کو بازار لے گئے اور نیا جوتا پہنایا۔ انتہیٰ۔
جوگی کا لڑکا:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب ذکر کرتے ہیں۔ کہ جب آپ جذب کی حالت میں تھے ایک جوگی کا لڑکا آپ کو گانا سنا کر خوش وقت کیا کرتا تھا۔ فرماتے تھے کہ مولوی ہم نے دیکھا کہ ہمارے اور اس جوگی کے درمیان آگ روشن ہے۔ ہم نے اس کو جواب دے دیا کہ اب مت آیا کرو۔ وہ لڑکا بہت روتا تھا اور چاہتا تھا کہ الگ نہ ہو۔ مگر ہم نے اس سے کہا کہ اب حکم نہیں ہے۔ تم اپنا کام کرو۔ پھر وہ نالاں و گریاں چلا گیا۔ انتہیٰ۔
مستوں کی کثرت:
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب لکھتے ہیں کہ بروایت ثقہ معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت صاحب کھانا تناول فرما رہے تھے کہ یکا یک مراقب ہوکر فرمانے لگے۔ آہا! لاہور کے تو ہر کوچہ و بازار میں آج مست پھردے (پھرتے) دکھائی دیتے ہیں۔ اسی اثناء میں ایک شخص لاہور سے آپ کی زیارت کے لیے آنکلا۔ اس نے آپ کے اس قول کی تصدیق کی اور کہا واقعی لاہور میں مستوں کی کثرت ہے۔ انتہیٰ۔
جناب سید رفیق احمد صاحب بی اے۔ حال سینئر جج لودہیانہ خلف الصدق جناب سید فیض محمد صاحب پنشنر انسپکٹر بنک ہائے زراعتی انبالہ شہر نے بتاریخ ۲۶ صفر ۱۳۵۷ھ اپنی کوٹھی پر واقعات ذیل مجھ سے ذکر کیے۔
ترقی ہوگئی:
میرے والد مسٹر یلمن صاحب ڈپٹی کمشنر انبالہ کے دفتر میں پچیس روپے ماہوار کلرک تھے ان کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ترقی (پچیس سے تیس) کا موقع آیا۔ تو امیدواروں کی کثرت تھی۔ میں حضرت قبلہ سائیں توکل شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔ حجرہ کا دروازہ بند تھا۔ آپ ذکر الٰہی میں مشغول تھے۔ میں چپکے سے دروازے کے باہر بیٹھ گیا۔ آپ نے نور باطن سے معلوم کرلیا۔ اور آواز دی۔ ’’ڈاڈھے سید! اندر آجاؤ‘‘ میں حاضر خدمت ہوا۔ تو آپ نے دنیا کی بے ثباتی پر تقریر فرمائی۔ پھر میرے قلب کو اپنے قلب سے لگا کر دریافت کیا۔ کیا اب کوئی دنیوی خواہش باقی ہے۔ میں نے دو دفعہ نفی میں جواب دیا۔ آپ نے تیسرے بار بتا کید تمام فرمایا۔ کہ ہُن ویلا ہے۔ مانگو جو چاہو۔ میں نے ترقی کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا۔ ایسا ہی ہوجائے گا۔ دوسرے روز صاحب بہادر نے امیدواروں کو طلب کیا۔ میں قصداً حاضر نہ ہوا اور اپنے کام میں مشغول رہا۔ صاحب بہادر نے فرمایا کہ زیادہ مستحق تو حاضر ہی نہیں۔ پھر مجھے طلب کر کے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو۔ میں نے اظہار مطلب کیا۔ صاحب بہادر نے فوراً میرے ہی حق میں فیصلہ کر دیا۔
دل کی تمنا:
میرے والد فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل میں اپنی سیادت کی تصدیق کی تمنا پیدا ہوئی۔ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے عمامہ اتار کر رکھا ہوا تھا اور وضو فرما رہے تھے۔ جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو میں نے بپاس ادب عمامہ اٹھا کر دیا۔ آپ بہت خفا ہوئے فرمانے لگے کہ میں اس وقت حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھ سے جواب طلب فرما رہے ہیں کہ تم اب سادات سے بھی خدمت لینے لگے ہو۔ پھر شاہ صاحب نے مجھ سے معافی مانگی اور عہد لیا کہ آئندہ کبھی ایسا نہ کرو گے۔
صاحبِ خدمت:
میری دادی حاحبہ حاملہ تھیں۔ان کو مرض اسہال کی کبدی عارض ہوا۔ مایوسی کے عالم میں میرے جد بزرگوار حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور واقعہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ صاحب خدمت کا کام ہے۔ جدّ بزرگوار نے عرض کیا۔ ہم تو اس راہ سے بالکل نا بلد ہیں۔ آپ صاحب خدمت کا نام و نشان بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ فلاں دروازے میں ایک بڑھیا پھٹے پرانے کپڑے پہنےہوئے بیٹھی ہے۔ وہی صاحب خدمت ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ فقیروں کی خدمت میں خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔ یہ سن کر جدّ بزرگوار ہ سیب لے کر اس بڑھیا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ بے نقط گالیاں سنانے لگی۔ پھر بڑ بڑانے لگی کہ میرا راز فشاء کرتا ہے۔ جدّ بزرگوار نے نہایت تحمل سے کام لیا اور سیب پیش کیے۔ اس نے لے کر راکھ میں پھینک دئیے۔ پھر ایک رکھ لیا۔ اور دوسرا میرے جدّ بزرگوار کو دے دیا۔ وہ اسے لے کر حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں آئے۔ آپ نے فرمایا۔ اس میں دو بشارتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ تمہاری اہلیہ زندہ رہے گی۔ دوسری یہ کہ لڑکا پیدا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ساتواں باب:
کرامات و تصرّفات
جھوٹے مقدمے سے خلاصی:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب کا بیان ہے کہ میرے مکرم میر امتیاز علی صاحب منصف شہر انبالہ کے خلاف ایک فوجداری کا مقدمہ دائر ہوا۔ آپ نہایت پریشان ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دعا کراؤ کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور بلا دور کرے۔ میں نے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا۔ شام کو مراقبہ سے فارغ ہوکر فرمانے لگے کہ یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ کاغذات شکایات کے واپس ہوگئے ہیں۔ کئی روز کے بعد منصف صاحب فرمانے لگے کہ جس قدر شکایات افسروں نے دشمنوں کے کہنے سے کی تھیں سب کی سب فضول اور لغو سمجھ کر داخل دفتر ہوگئیں۔ جب آخر تاریخ مقررہ آئی۔ تو منصف صاحب اعداء کے حالات سن کر بہت پریشان تھے۔ اسی حال میں میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے بعد مغرب مراقبہ سے فراغت کے بعد دعا کے لیے عرض کیا۔ آپ نے کچھ تامل کے بعد فرمایا۔ کہ کل انشاء اللہ اصل دشمن منصف صاحب کے پاؤں میں گرے گا۔ تسلی رکھو۔ منصف صاحب یہ سن کر بہت متعجب ہوئے۔ ان کو اس ارشاد کا یقین نہ آیا۔ کیونکہ یہ معاملہ زبر دست وکلاء نے منصف صاحب کے خلاف ایک سکھ سے اٹھوایا تھا۔ خدا کی قدرت دوسرے روز دن کے دو بجے منصف صاحب سکول میں میرے پاس تشریف لائے۔ اور میرے ہاتھ چومنے لگے کیونکہ میں نے یقین دلایا تھا کہ انشاء اللہ اس میں سرِ موفرق نہ ہوگا۔ اور بڑی حیرانی سے کہا کہ میاں سب وکلاء نے اس کو چھوڑ دیا اور الگ ہوگئے۔ آخر مجبور ہوکر وہی دشمن پیشی سے پہلے میرے قدموں میں گرا۔ میں نے تحریری درخواست معافی لے کر معاف کر دیا۔ اور خدا کا شکر بجالایا۔ میں نے شاہ صاحب کی خدمت میں یہ قصہ سنایا۔ آپ خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ منصف نیک آدمی ہے۔ خدا نے جھوٹوں کو ذلیل کیا۔
باعزت رہائی:
ڈپٹی حمید علی صاحب مرحوم سہارنپوری شہر انبالہ میں تحصیل دار تھے۔ اور شاہ صاحب کے نہایت معتقد تھے۔ اکثر کھانے کے وقت آتے۔ تو شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔ ان پر بغاوت کی تہمت لگی۔ اور وہ زمانہ اس قدر خطر ناک تھا کہ باغی کے لیے پھانسی کے سوا دوسرا حکم ہی نہ تھا۔ تاریخ سے ایک دن پہلے ڈپٹی صاحب مرحوم شاہ صاحب کی خدمت میں آئے اور بدستور کھانے میں شریک ہوئے۔ کھانا کھاتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ حضور! کل میں شاید زندہ بھی نہ رہوں۔ اب حضور میرے واسطے دعائے مغفرت فرمائیں۔ حضور شاہ صاحب فرمانے لگے۔ کیوں؟ ڈپٹی صاحب نے اپنا قصہ سنایا۔ شاہ صاحب قدس سرہ تامل کے بعد فرمانے لگے کہ مجھ کو یہ معلوم ہوا ہے کہ تم انشاء اللہ بری ہوکر پھر ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ گے۔ دوسرے دن ڈپٹی صاحب عدالت میں جاتے ہی عزت کے ساتھ بغاوت کی تہمت سے بری ہوئے۔ اور اپنی بریت کا قصہ سنایا۔ شاہ صاحب بھی خوش ہوئے اور آئندہ کے لیے دعائے خیریت فرمائی۔
مسجد کا تنازعہ:
ضلع انبالہ کے ایک گاؤں میں مسلم و غیر مسلم آبادی میں ایک مسجد کے بارے میں تنازع ہوا۔ عدالت ماتحت نے انہدام مسجد کا حکم دیا۔ مسلمانوں نے کمشنری میں اپیل دائر کی۔ میانجیو عبدالرحیم صاحب نے اس بارے میں حضرت شاہ صاحب کے بن دیکھے معتقد لالہ گنگا بشن سرشتہ دار صاحب کمشنر بہادر کے نام حضرت شاہ صاحب سے ایک پرچہ لکھوا کر سرشتہ دار صاحب کی خدمت میں شملہ جاکر پیش کیا۔ سرشتہ دار صاحب میانجیو صاحب سے کہنے لگے کہ اس شکل کے آدمی مجھ سے آکر فرما گئے ہیں کہ ہمارا رقعہ بے فائدہ نہ جائے۔ حضور کی وہی شکل تھی۔ سرشتہ دار صاحب نے وہ کام کردیا۔ اور شہر انبالہ آکر حضور کے قدموں میں گر پڑے اور خفیہ تعلیم حاصل کی۔ اور خاص معتقدین کے سلسلہ میں داخل ہوئے۔ اسی طرح بہت سے اہل ہنود آپ سے تعلیم پاتے تھے اور نماز بھی ادا کرتے تھے۔ حضور فرما دیا کرتے تھے کہ جب تک اسلام ظاہری طور پر اختیار نہ کرو گے اصل فائدہ نہ ہوگا۔
کنویں کا پانی:
بوڑیہ کے جنگل میں ایک درویش صبح کے وقت نماز فجر کے لیے پانی تلاش کرنے لگے۔ نہ ملا۔ ایک اندھے مٹی سے اٹے ہوئے کوئیں سے خطاب کر کے فرمایا کہ تو ہی وضو کے لیے پانی دے دے۔ وہ کنواں اُبل پڑا۔ درویش نے وضو کر کے نماز فجر ادا کی اور چل دئیے۔ اس کنوئیں کا پانی امراض کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا تھا۔ حاجت مند اپنی اپنی ضروریات کے لیے جانے لگے۔ روی یعنی مولوی سید ظہور الدین صاحب کا بیان ہے کہ میں نے حضور سائیں صاحب کی خدمت میں یہ قصہ عرض کر کے التجا کی کہ اگر معلوم ہوجائے کہ درویش صاحب کون تھے تو بہتر ہے کیونکہ اکثر صاحب کی خواہش ہے۔ علی الصباح حضرت سائیں صاحب نے فرمایا کہ وہ درویش صاحب میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ابدال ہیں۔ بطور سیر ادھر بھی آگئے تھے۔ نماز صبح کا وقت تنگ ہو رہا تھا۔ اس لیے خدا کے فضل کی امید پر یہ معاملہ ہوا ہے۔
بزرگوں کی بے ادبی پر سزا:
قصبہ انبہٹہ ضلع سہار نپور میں حضرت سائیں صاحب کے ایک صاحب کشف خلیفہ سیدنا شاہ ابولمعالی قدس سرہ کے سجادہ نشینوں کے خلاف دعائیں کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ سائیں صاحب کی خدمت میں سلام کے بعد یہ پیغام پہنچادیں کہ ہم بھی کسی کامل کے دامن سے لگے ہوئے ہیں اور بے قصور ہیں۔ جناب کے خادم ہمارے لیے بد دعائیں کرتے ہیں میں جب انبالہ آیا۔ تو وہ پیغام حضرت شاہ صاحب کو پہنچادیا۔ آپ نے فوراً یہ فرمایا کہ مولوی! وہ تو گِر پڑا۔ اس نے شاہ ابو المعالی قدس سرہ کی اولاد کے خلاف سعی کی۔ تیسرے دن وہ خلیفہ صاحب پریشان ہوکر میرے پاس آئے کہ میں ڈوب گیا۔ جو نعمت مجھے ملی تھی وہ مجھ سے لے گئی۔ اور میں اپنے تئیں کیچڑ میں دھنسا ہوا دیکھتا ہوں۔ خدا کے واسطے میرے لیے حضور سے سفارش کرو۔ کئی مرتبہ حضور سے معافی کے لیے عرض کیا گیا۔ آخر دو ماہ کے بعد وہ اپنے اصلی مرتبہ پر بحال ہوگئے۔ حضور فرماتے تھے کہ بزرگوں کی اولاد سے حتی الوسع محبت اور ؟؟؟؟ سے پیش آنا چاہیے۔
جن بھاگ گیا:
انبالہ شہر میں ایک غریب بڑھیا کی بیٹی پر جن کا اثر غالب ہوا۔ اس نے ادھر ادھر تعویذ گنڈے کرنے کے بعد پیر جیو عنایت اللہ صاحب کو حضرت سائیں صاحب کی خدمت میں بھیجا کہ اس آفت میں مجھ غریب کی امداد فرمائیے۔ پیر جیو صاحب نے بڑھیا کا سلام و پیغام حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچادیا۔ آپ نے فرمایا کہ جن سے ہمارا سلام کہو۔ اور یہ کہہ دو کہ غریب بڑھیا کی بیٹی کو تکلیف نہ دو۔ پیر جیو صاحب نے جس وقت سائیں صاحب کا سلام کہا۔ جن یہ کہہ کر چلا گیا کہ حضرت کو کیوں تکلیف دی۔ مگر دوسرے دن پھر آگیا۔ بڑھیا نے پھر پیر جیو صاحب کو حضرت کی خدمت میں بھیجا کہ جن تو پھر آگیا۔ شاہ صاحب نے دوبارہ سلام کہلا بھیجا۔ جن سلام سنتے ہی چلا گیا۔ مگر پھر آگیا۔ پھر جیو صاحب نے یہ ماجرا عرض خدمت کیا۔ اس وقت اتفاقاً خلیفہ امیر اللہ شاہ صاحب حضرت کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت جوش میں آکر خلیفہ صاحب سے فرمایا۔ امیر اللہ! جاؤ۔ اس کو ڈنڈے مار کر نکال دو۔ خلیفہ صاحب نے تعمیل کی اور ڈنڈے مارنے شروع کیے۔ جن صاحب مار کھا کر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت سے خلیفہ صاحب میں وہ وصف پیدا ہوگیا۔ کہ جہاں کوئی آسیب زدہ ہوتا۔ آپ جوش میں آکر اس کو ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیتے۔ اور جن ڈنڈے کھا کر رخصت ہوجاتا اور پھر نہ آتا۔ خلیفہ صاحب کا یہ وصف مشہور ہوگیا۔ آسیب زدہ جوق در جوق خلیفہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ اس طرح خلیفہ صاحب کے معمولات میں بھی حرج ہونے لگا۔ مجبور ہوکر خلیفہ صاحب حضرت سائیں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آسیب زدگان کی کثرت سے میرے معمولات میں حرج ہو رہا ہے۔ خدا کے واسطے میرے لیے دعا فرمائیں کہ مجھ میں یہ وصف نہ رہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم کو اس وصف سے تکلیف ہے۔ جانے دو۔ نہ سہی۔ اسی وقت سے یہ وصف خلیفہ صاحب میں نہ رہا۔
ترقی ہوگئی:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ جناب مولوی خلیفہ عماد الدین صاحب لاہوری نے انسپکٹر صاحب سے کچھ کہہ کر مجھ کو بمشاہرہ تیس روپے ترقی پر جگا دھری بھیج دیا۔ مگر وہاں کے مدرس صاحب سید مظہر حسن صاحب سہار نپوری نے ترقی پر جانے سے انکار کردیا۔ جب شاہ صاحب سے اس کا ذکر آیا۔ تو فرمانے لگے۔ مولوی! بادل چڑھا ہوا ہے برسنے کی دیر ہے۔ تیری ترقی تو انشاء اللہ قریب ہی ہونے والی ہے۔ ایک ہفتہ یا کچھ کم و بیش عرصہ کے بعد ہاروے صاحب نے مجھ کو تیس روپے ماہوار پر مدرس فارسی کر کے حصار سکول میں بھیج دیا۔
حکم منسوخ ہوگیا:
جناب سید صاحب انبہٹوی کا بیان ہے کہ احقر کی تبدیلی ہائی سکول ریواڑی میں مولوی مقرب علی صاحب کی جگہ ترقی پر عارضی طور پر ہوگئی۔ احکام جاری ہوگئے۔ میری روانگی کے لیے حکم آگیا۔ حضرت شاہ صاحب کی جدائی کی وجہ سے میں ریواڑی جانا پسند نہ کرتا تھا۔ حضرت کی یہ عادت مستمرہ تھی کہ اگر یہ خادم مراقبہ میں شامل نہ ہوتا۔ تو حضرت مجھے زیارت کرا کر مکان پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ میں مسجد میں حضور کے کمرے میں رہتا تھا۔ حسب عادت قدیمہ آپ حجرہ میں تشریف فرما ہوئے اور فرمانے لگے۔ کیا سبب ہے جو مراقبہ میں شامل نہیں ہوئے۔ لکھی شاہ صاحب کے مزار پر بھی حاضر ہوئے یا نہ؟ میں نے گستاخانہ طور پر عرض کیا۔ کہ میں لکھی شاہ میں حاضر ہوکر کیا کروں گا جب مجھ کو انہوں نے یہاں سے روانہ ہی کردیا۔ سائیں صاحب فرمانے لگے لکھی شاہ صاحب تم سے بہت خوش ہیں۔ شکستہ دل نہ ہو۔ تم کو تو ہم نے خدائے تعالیٰ سے عرض کر کے انبالہ ہی رکھا لیا ہے مولوی نور احمد صاحب مدرس اول میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جوش محبت و عقیدت میں انشاء اللہ کہہ کر قسم کھائی کہ اب میں ریواڑی نہیں جاؤں گا۔ مولوی نور احمد صاحب میری ایسی عقیدت کے خلاف تھے۔ کہنے لگے کہ حکم آچکا۔ اب تم کیسے رک سکتے ہو۔ تمہارے زنانے عقیدے فضول ہیں۔ تم کو ضرور جانا ہوگا۔ میں نے پھر زور سے روانگی کے رُکنے کا اظہار کیا۔ مولوی نور احمد صاحب نے فرمایا کہ اگر تم جائز طور پر رُک گئے تو میں کل ہی شاہ صاحب کا مرید ہو جاؤں گا۔ میں نے کہا یہ تم کو اختیار ہے۔ مگر انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا جیسا حضرت سائیں صاحب فرماتے ہیں۔ صبح کو جب سکول کی حاضری ہوئی۔ تو ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس تار آگیا کہ سید ظہور الدین کو ریواڑی روانہ نہ کرنا۔ پہلا حکم منسوخ سمجھو کیونکہ مولوی مقرب علی نے ترقی پر جانے سے انکار کردیا۔ مولوی نور احمد صاحب حیران ہوئے۔ اور شام کو شیرینی ہمراہ لے کر بعد عصر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور داخل سلسلہ ہوگئے۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ وہی مولوی نور احمد صاحب ہیں۔ جنہوں نے بعد میں تذکرہ توکلیہ تالیف کیا۔ اس میں اپنا حال یوں بیان کرتے ہیں۔
میں نے حضرت صاحب قبلہ کو بڑھاپے میں دیکھا ہے۔ جب کہ سر کے بال سیاہ و سفید تھے۔ میں ایک ایسا شخص تھا کہ جس کی نظر میں کوئی فقیر جچتا نہ تھا۔ اور ہمیشہ نکتہ چینی کی سوجھا کرتی تھی۔ لیکن شاہ صاحب کو دیکھنا تھا کہ بس شاہ جی کے ہوگئے۔
آں دل کہ رم نمودے از خو برو جواناں
دیرینہ سال پیرے بُردش بیک نگا ہے
چہرے کی تبدیلی:
ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا چہرہ گدھے کی مانند ہے۔ ایک اور بھی نا فرمانی کی بات فرمائی۔ ہمارے دل میں خوف الٰہی ہوا اور بار بار دربار الٰہی میں توبہ کی۔ پھر بحکم خدا ہم نے اس کو درود شریف پڑھنے کی تعلیم کی۔ خدا کے فضل سے وہ نفس جاتا رہا۔ اور وہ مولوی صاحب اپنے اصلی بابرکت چہرہ کے ساتھ دکھائی دینے لگے۔
یک زمانے صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
شہید کو جنگ کرتے دکھادیا:
ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب بمقام دورالہ مسجد میں اپنے مریدوں کو توجہ دے رہے تھے۔ ایک مرید نے عرض کیا کہ حضرت جی! یہ جو خانقاہ سامنے ہے حضرت شاہ ملک شہید کی ہے۔ کسی نے ان کو بے سر خونچکاں دیکھا تھا۔ اور بھی بہت سے سواران کے ساتھ تھے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر تم کو بھی دیکھنا منظور ہو تو آؤ۔ دوانو ہو کر بیٹھ جاؤ اور آنکھیں بند کرلو۔ جب انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ تو کیا دیکھا کہ حضرت ملک شہید برچھا ہاتھ میں لیے ہوئے جنگ میں مصروف ہیں۔ اور بدن سے خون جاری ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ آنکھیں کھول دو۔اور تاکید کی کہ کسی پر یہ بات ظاہر نہ کرنا۔
میاں جی عبد القادر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے تین آدمی اس وقت کو یہ کتاب (تذکرہ توکلیہ) لکھی جا رہی ہے اور ۱۳۱۸ ہجری ہے قمر خاں وغیرہ زندہ ہیں۔ جسے اعتبار نہ ہو۔ ان سے پوچھا لے۔
جن بھاگ گیا:
جب منشی محمد حمزہ صاحب قانوں گوکھرڑ سے انبالہ تبدیل ہوکر آئے تو ان کی لڑکی کو آسیب کا خلل ہوگیا۔ وہ اس کو حضرت صاحب کی خدمت میں لایا کرتے۔ جب وہ حضرت کے مکان کے قریب آیا کرتی۔ تو آرام ہوجایا کرتا۔ مگر جب اپنے مکان میں جاتی۔ پھر تکلیف شروع ہوجاتی۔ ایک دن قانوں گو صاحب نے تنگ آکر عرض کیا۔ حضرت جی! مجھے اس جن نے تنگ کر دیا۔ خدا کے واسطے اس کا علاج کر دیجیے۔ یہ سن کر آپ مراقب ہوئے۔ چند منٹ کے بعد سر مبارک اٹھا کر فرمایا۔ کہ میاں! میں تو تمام انبالہ شہر میں لاٹھی لے کر پھر آیا۔ اس جن کا کہیں پتہ نہیں لگا۔ اب وہ چلا گیا ہے۔ امید ہے کہ نہیں آئے گا۔ چنانچہ اسی دن سے لڑکی کو آرام رہا۔
مراقبہ سے چونکنا:
ایک دفعہ چھاؤنی انبالہ میں میر یوسف علی صاحب نے اپنی صاحبزادی کو نماز عشاء کے بعد زور سے آواز دی۔ انبالہ شہر میں میاں صاحب قبلہ مراقبہ سے چونک اٹھے اور کریم بخش سے کہا کہ دیکھو سید کس طرح زور سے لڑکی کو پکار رہا ہے۔
نوکری مل گئی:
مولوی اکرم حسین صاحب کرنالی بیان کرتے ہیں کہ دس بجے دن کا وقت تھا۔ میں حاضر خدمت تھا۔ میر یوسف علی صاحب بھی حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت صاحب! میں نے چھاؤنی انبالہ کی نوکری چھوڑ دی ہے۔ اب مجھ کو نوکری دلوائیے۔ مگر سو روپے سے کم نہ ہو۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ جاؤ ہوجاؤ گی۔ چنانچہ اگلے ہی دن ایک سو دس روپے ماہوار کی جگہ ریاست پٹیالہ میں مل گئی۔
لڑکا مرگیا:
ایک دن آپ نے اپنے خادم کریم بخش سے خفگی میں فرمایا کہ تیرا چراغ گل ہوگیا۔ چنانچہ چند روز میں ان کا جوان لڑکا مرگیا۔
غیب کی خبر:
ایک دن خادم کریم بخش سے فرمایا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ تیرے سر میں لٹھ لگا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اہلیہ کو لے کر مظفر نگر کو گئے تو ڈاکہ پڑا اور ان کے لٹھ لگا۔
سلسلہ اولاد جاری ہوگیا:
حضرت صاحب قبلہ دہلی اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اور خواجہ باقی باللہ میں قیام ہوا کرتا تھا۔ ۱۸۶۲ء میں ایک دن حکیم لطیف حسین خاں صاحب نے دعوت کی۔ آپ تشریف لے گئے تو حکیم جی صاحب سے فرمایا۔ کہ تمہارے مکان سے ایانے (بچہ) کے رونے کی آواز آتی ہے۔ حکیم جی نے عرض کیا۔ کہ حضرت جی! یہاں تو کوئی بچہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ خدا دے گا چنانچہ اسی سال حکیم جی صاحب کی بڑی لڑکی پیدا ہوئی۔ سلسلہ اولاد خدا کے فضل سے جاری ہوگیا ورنہ مایوسی ہوگئی تھی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت:
حافظ خیر الدین پنجابی کا بیان ہے۔ کہ میں ایک مرتبہ حاضر خدمت تھا۔ مولوی سراج الدین صاحب دہلوی شاہ حسن رسول نما (ج کا مزار دہلی میں ہے) کا ذکر خیر حضرت صاحب قبلہ سے کرنے لگے کہ وہ ہر کس و ناکس کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرا دیتے تھے۔ میں نے یہ حکایت سن کر اپنے دل میں خیال کیا کہ اگر میں ان کے وقت میں ہوتا۔ تو ان کا مرید ہوکر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال با کمال سے مشرف ہوتا۔ میں نے یہ خیال دل میں کیا ہی تھا کہ اسی وقت حلقہ مجلس میں بیٹھا ہوا بے ہوش ہوگیا۔ اور حضرت صاحب مجھ کو اپنے تصرف خاص سے مدینہ لے گئے اور زیارت با کرامت سے مشرف کرادیا۔ جب میں ہوش میں آیا تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ کیوں حافظ کہاں گیا تھا؟ میں عرض کیا کہ جہاں حضور والا لے گئے تھے۔
ابدال کی زیارت:
مست الٰہی بخش نامی حضور کے پرانے مرید تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں اپنے موضع کوڑوہ سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ کہ تو ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ ابدال کیسے ہوتے ہیں۔ آج موقع ہے۔ اگر تو دیکھنا چاہتا ہے۔ تو دیکھ آ۔ ایک ہمارے دوست مولوی مست علی نامی ابدال دہرہ دون کے پہاڑ میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس جا۔ اور یہ چیز ہماری طرف سے لے جا۔ اور دے کر شام کو واپس انبالہ آکر ہم کو اطلاع دے۔ میں نے عرض کیا۔ کہ حضور والا! وہاں ریل گاڑی نہیں جاتی۔ اور کسی قسم کی سواری لے جانے کی مجھ میں گنجائش نہیں۔ پیدل اس قدر جلدی آنا جانا غیر ممکن ہے۔ اگر حضور انور اپنے تصرف خاص سے جلدی پہنچا دیں اور شام کو بلالیں۔ تو مجھ کو کچھ عذر نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جا چلا جا۔ کسی سواری کی حاجت نہیں۔ خاصان خدا کی زیارت کو جاتا ہے۔ پھر اندیشہ کیوں کرتا ہے۔ اللہ پاک مالک ہے غرض میں نے دہرہ دون کی راہ لی۔ اب میں راستے کی کیفیت کیا بیان کروں۔ واللہ باللہ میں اس طریق سے راستہ کو طے کرتا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہوا جایا کرتی ہے۔ مجھ کو معلوم نہ ہوتا تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ اور مجھ کو کون لیے جا رہا ہے۔ القصہ جب میں دہرہ دون کے جنگل میں پہنچا۔ تو مجھ کو سینکڑوں جانوروں نے آگھیرا۔ میں گھبرایا۔ اور خائف ہوکر حضرت صاحب کی صورت کا خیال کیا۔ حضرت صاحب میرے سامنے آگئے۔ آپ نے با آواز بلند فرمایا۔ کیوں گھبراتا ہے۔ یہ آپ کا فرمانا تھا کہ وہ فوراً چلے گئے۔ اور میں مولانا شاہ مست علی صاحب ابدال کے صومعہ کے قریب جا پہنچا۔ مولانا ممدوح نے دور ہی سے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کیا الٰہی بخش تجھ کو جنگل کے گیدڑوں نے گھیر لیا تھا۔ میں ان کو بلاؤں۔ اتنا فرماکر مولانا صاحب نے ایک آواز دی کہ آؤ رے جنگل کے گیدڑو! آپ کے پکار نے کے ساتھ سینکڑوں شیر دم ہلاتے مولانا کے سامنے سلام کر کے بیٹھ گئے۔ میں یہ حالت دیکھ کر حیران تھا۔ کہ اے پروردگار! سچ ہے جو تیرا ہو جاتا ہے تو اس کا ہوکر دنیا کی کل چیزیں اس کے تابع بنادیتا ہے۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے فرمایا۔ کہ جاؤ رے گیدڑو! ہمارے مہمان کو نہ ستانا۔ القصہ وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد آپ نے مجھ سے کہا۔ الٰہی بخش! تو دودھ پئے گا؟میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ یہاں اس پہاڑ میں بھلا دودھ کہاں۔ آپ نے میرے خطرہ پر آگاہ ہوکر فرمایا۔ آتجھ کو دودھ پلا ہی دوں۔ حسب الارشاد میں مولانا صاحب کے صومعہ میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک برتن میں دودھ گرم ہو رہا ہے۔ میں ششدر رہ گیا۔ مولانا نے مجھ کو خوب دودھ پلایا۔ پھر فرمایا۔ جا شاہ صاحب نے تجھ کو یہ بھی فرمایا تھا کہ شام کو آکر اطلاع دینا۔ الحاصل جس طرح راستہ طے کر کے گیا تھا اسی طرح شام کو حاضر ہوکر حضرت صاحب کو اطلاع دی۔ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ گھبراتا کیوں تا۔ اللہ والوں کی اللہ خود حفاظت کرتا ہے۔
لڑکے کی ولادت کی خبر:
خلیفہ مظفر علی خاں صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز غلام سرسہ میں اپنی اہلیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ کہ اتنے میں حضرت صاحب کا کرامت نامہ صادر ہوا۔ کہ ہم کو مشاہدہ ہوا ہے کہ تمہارے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا۔ اہلیہ یہ خبر سن کر خاموش ہوگئی۔ جب میں نے دریافت کیا تو کہا کہ مجھ کو کچھ شبہ ہے کہ ایک دو ماہ کا حمل ہے۔ چنانچہ حسب بشارت میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔
جنتی ہونے کی بشارت:
جناب قاری سید اکرام حسین صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز بندہ مع چند برادران طریقت کے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ اور آپ مرض موت میں مبتلا تھے۔ اسی اثناء میں دو شخص بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ نے اسی حالت میں ان کو بیعت کیا۔ جس وقت شیرینی پر دم کر کے کھلانے لگے۔ تو بخلاف تمام عمر کے حاضرین مجلس سے خطاب کر کے فرمایا۔ کہ جو شخص ان الائچی دانوں کو کھائے گا وہ قطعی جنتی ہوگا۔
کوتوال بنا دیا:
جناب قاری صاحب موصوف ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک روز یہ خاکسار حاضر خدمت تھا حضرت صاحب نے برسبیل تذکرہ فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم لودیانہ میں تھے۔ بہرام خاں کو ان ایام میں اللہ اللہ کرنے کا اور ہمارے ساتھ رہنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ اتفاقاً میرا گزر بہمراہی بہرام خاں وغیرہ جو کوتوالی لودیانہ کے سامنے کو ہوا۔ تو یگا یک میری زبان سے نکلا۔ کہ بہرام خاں! تجھ کو کوتوال کردیں؟ بہرام خاں نے کہا۔ حضور! یہ خدا کے واسطے مجھ کو کوتوال نہ بنائیں۔ اور اپنی ہی خدمت میں رہنے دیں۔ آپ نے فرمایا۔ بس اب تو کوتوال ہوچکا۔ ہم کیا کریں۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا۔ مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے ؎
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود
اللہ اللہ:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک فقیر پاؤں میں لکڑی کے پوّے پہنے ہوئے آیا۔ حضرت صاحب نے حسب عادت فرمایا کہ کہو کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا۔ حضور! مجھے سونا بنانا سکھادو۔ آپ جوش میں گردن پکڑ کر اس کو حجرے کے اندر لے گئے۔ اور بڑی دیر کے بعد حتی کے ظہر کا وقت بھی آخر ہوگیا باہر تشریف لائے۔ میں اس فقیر کو مسجد میں لے گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس پر سکرت طاری تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بتا کیا کیفیت گزری۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے حجرے کے اندر لے گئے۔ اور مصلاً کے نیچے میرا سر دے دیا۔ میں دیکھتا ہوں کہ سونے چاندی اور جواہرات کی نہریں جاری ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا دیکھا۔ میں عرض کیا کہ یہ حال ہے۔ فرمایا آگے چل کر دیکھ کہ یہ نہریں کہاں سے آتی ہیں۔ اور مجھے ایک دھکا اور دے دیا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ ایک نوری تختہ پر لفظ لکھا ہوا ہے۔ اور اس کے ایک ایک حرف سے ایک ایک نہر جاری ہے۔ فرمایا۔ دیکھ لے۔ اس سے کیمیا آتی ہے۔ بعد ازاں میرے قلب میں اللہ لکھ کر مجھے توجہ دی۔ اب میرے بدن کے جوڑ جوڑ سے اللہ اللہ جاری ہے۔ وہ اسی حالت میں جنگل کو چلا گیا۔ کیمیا کی خواہش اس کے دل سے بالکل جاتی رہی اور خدا کا نام اس کو چمٹ گیا۔
لوٹا چل پڑا:
صاحب ذکر خیر کا بیان ہے۔ کہ ایک روز دن کے ایک بجے آپ وضو فرمانے لگے۔ معمول تھا کہ آپ کے واسطے دو لوٹے ہوا کرتے تھے۔ ایک میں بھائی مغلی شاہ پانی لینے گئے ہوئے تھے۔ اور دوسرا لوٹا آپ سے کوئی ڈیڑھ گز کے فاصلے پر رکھا تھا۔ آپ نے پانی لینے کا اشارہ فرمایا۔ اس وقت حجرے میں میرے سوا کوئی اور نہ تھا۔ اور آپ کو میرا موجود ہونا معلوم نہ تھا۔ میں پانی دینے کے واسطے اٹھنے ہی لگا تھا کہ آپ نے ہاتھ سے لوٹے کی طرف اشارہ فرمایا جیسے کسی کو بلایا کرتے ہیں۔ لوٹا فوراً آپ کے پاس آگیا۔ ادھر میں باہر نکل آیا۔ تو انگلی کے اشارے سے فرمایا۔ ہوں ہوں۔ یعنی کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
اندھا بینا ہوگیا:
نقل ہے کہ ایک روز ایک ہندو عورت اپنے چھوٹے لڑکے کو لیے ہوئے حاضر خدمت ہوئی۔ وہ لڑکا اندھا تھا۔ عرض کیا۔ حضور! یہ لڑکا نا بینا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اس کی آنکھیں اچھی ہوجائیں۔ فرمایا اوہو۔ ہم کو تو طب بھی نہیں آتی۔ نہ ہم حکیم ہیں۔ تو اس کا علاج کسی حکیم سے کرا۔ اس نے عرض کیا۔ حضور! میں بہت علاج کرا چکی ہوں۔ کچھ آرام نہیں ہوتا۔ آپ دعا ہی کریں۔ فرمایا۔ اچھا۔ جا دعا کردی ہے۔ اللہ آرام کرے۔ وہ لڑکے کو لے کر باہر چلی گئی۔ جب حضرت شاہ عبد الرسول کے باغ کی دیوار کے شرقی کونے کے پاس پہنچی۔ تو لڑکے کو ٹھوکر لگی۔ وہ گر پڑا۔ اور اس کی پیشانی میں کسی رگ پر نوکدار ٹھیکری ایسی چبھی کہ بہت سا خون نکلا اور لڑکے کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ بچے کو لیے ہوئے پھر حاضر ہوئی۔ اور تمام ماجرا عرض کر کے کہا۔ کہ حضور! آپ کی دعا سے اس کی آنکھوں میں روشنی ہوگئی۔ آپ نے فرمایا۔ آہ دوا بھی اللہ نے آپ ہی کردی۔ تجھے دوا کرنے کی بھی تکلیف نہ ہوئی۔
گائے نے دودھ دینا شروع کردیا:
نقل صحیح ہے کہ ایک روز گیارہ بجے دن کے کچھ سودا گر کا بلی ایک گائے لیے ہوئے آپ کے یہاں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ حضور! ہم نے یہ گائے بہت قیمت میں لی تھی۔ اب یہ دودھ نہیں دیتی۔ بلکہ اس کے بچے کا بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم اس کے گھاس وغیرہ میں تو کمی نہیں کرتے۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضور! دیکھ لیں یہ کیسی موٹی تازی ہے ہم اسے گھاس وغیرہ خوب دیتے ہیں۔ آپ نے اس کے سینگوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ ابندی رب کی! انہوں نے تیرا حق ادا کردیا۔ تیرے بچے کا حق ادا کردیا۔ اگر تو ان کا حق ادا نہیں کرے گی۔ تو قیامت کے دن تیری ہی پکڑ ہونی ہے۔ بمجرد آپ کے اس ارشاد کے اس کے چاروں تھنوں سے دودھ بہنے لگا۔ آپ نے فرمایا۔ او خدا کے بندو! تم اس کی شکایت یونہی کرتے ہو۔ یہ تو اچھا خاصا دودھ دیتی ہے۔ وہ گائے کو لے گئے۔ رات کو دس بجے گائے کو ساتھ لے کر پھر آئے۔ اور عرض کیا کہ حضور! اس کا دودھ بند ہی نہیں ہوتا۔ آپ گائے کی طرف مخاطب ہوکر فرمانے لگے۔ ہم نے تو تجھے یہ کہا تھا کہ ان کا حق دے دیا کرو۔ جا اس طرح نہ کیا کر بچے کا حق رہنے دیا کر۔ اور اپنے معمول کے وقت پر دودھ دیا کر۔ آپ کے اس ارشاد کے ساتھ ہی گائے کا دودھ بند ہوگیا۔ اور سودا گر گائے کو واپس لے گئے۔
درخت کا چل کر آنا:
صاحب ذکر خیر لکھتے ہیں کہ ایک روز میں حدیث شریف پڑھا رہا تھا۔ شاید ترمذی یا کسی اور کتاب حدیث شریف میں ذکر تھا کہ بہشت میں ایک ایک محل پانسو برس کی راہ کی مسافت کی برابر اونچا ہوگا۔ اور ایک ایک درخت بھی اتنا اونچا ہوگا کہ جس کی مسافت پانسو برس کے براستہ کے برابر ہوگی ایک درویش نے یہ [۱] حدیث جو سنی۔ تو مسکرا کر عرض کیا کہ حضور! بہشتیوں کو تو بڑی مصیبت ہوگی۔ فرمایا وہ کیسی؟ عرض کیا کہ حضور پانسو برس تو چڑھنے میں لگ جائیں گے۔ پھر میوے کس طرح کھائیں گے۔ فرمایا جب بہشت والے ارادہ کریں گے۔ وہ درخت خود بخود ان کے سامنے آکر جھک جایا کریں گے وہاں توت کا ایک پھل دار درخت حضور کے دروازے سے شمال کی طرف تھا حضور نے اس توت کے درخت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا مثلاً جس طرح یہ درخت کھڑا ہے۔ اگر اسے کہیں آجا تو فوراً سامنے آکر جھک جائے میں درخت کی طرف بیٹھا ہوا تھا۔ بمجرد آپ کے اس فرمان کے وہ درخت میرے اوپر کو ہوتا ہوا حضور کے سامنے زمین سے آلگا، آپ نے فرمایا اوہم نے تجھے تو نہیں کہا تھا بلکہ ہم نے صرف بہشت کا ایک مسئلہ بیان کیا تھا۔ تو سمجھا کہ مجھ کو ہی کہا ہے جا تو ا پنی جگہ جا کھڑا ہو چنانچہ فوراً وہ اپ نی جگہ جا کھڑا ہوا اس وقت سائل نے پوچھا کہ حضور! کس کلام کے پڑھنے یہ چیزیں تابع ہوجاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ وہ تجلی ہے جو رسول اللہ صلیا للہ علیہ وسلم پر وارد ہوئی تھی۔ اور جس کی وجہ سے تمام حجر شجر آپ کے سامنے جھک پڑے تھے۔ یہ حقیقت محمدیہ کے فیضان کا اثر ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) جو شخص کثرت سے درود شریف پڑھے۔ خوشنودی اور پرورش روح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح ہوجاتی ہے۔ اور حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے یہ باتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ اور اس کے واسطے بہشت کی نشانیاں یہیں شروع ہوجاتی ہیں۔
[۱۔ جناب مولوی محبوب عالم صاحب جو اس قصہ کے راوی ہیں اس حدیث کی صحت نقل کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت شاہ صاحب قبلہ نے جو فرمایا اس کی صحت میں کلام نہیں۔]
پھانسی سے بچالیا:
نقل معتبر ہے کہ ایک لڑکا کانپور کی طرف کا آیا۔ وہ اور اس کا باپ دونوں حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ اور اس کا باپ ڈپٹی تھا۔ اس لڑکے نے عرض کیا کہ حضور جو مدد قیامت کے دن فرمانے والے ہیں وہ ابھی کردیں۔ حضرت صاحب علیہ الرحمۃ نے اس کو جھڑکا اور تنبیہ کی۔ اس نے کہا کہ حضرت! میرے والد کو پھانسی کا حکم ہوا ہے۔ اب میرا کیا رہ گیا ہے۔ دس روز میعاد میں ہیں۔ میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک اس امر کا فیصلہ نہ کرلوں۔ غرض دروازہ پر پڑا رہا۔ آپ نے شام کو اس لڑکے سے فرمایا کہ پچھلی رات جب ہم باہر نکلیں تو ہمارے پیچھے چلے آنا۔ چنانچہ اسی رات کو حضور تالاب غربی شہر انبالہ پر تشریف لے گئے۔ درویشوں کے ساتھ وہ لڑکا بھی پیچھے چلا گیا۔ حضور نے تالاب میں غوطہ لگاکر حبس دم کیا۔ درویشوں کو فکر ہوا کہ خدانخواستہ کہیں ڈوب نہ گئے ہوں۔ کیونکہ اس میں پانی بے انتہا تھا اور حضور کو دیر ہوگئی تھی۔ اچانک دیکھا کہ حضور کنارہ پر کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جا چھوٹ گیا۔ لڑکے کو ایسی تسلی ہوئی کہ وہیں سے رخصت ہوکر سیدھا ریل پر چلا گیا۔ چند روز کے بعد وہ لڑکا اور اس کا باپ دونوں مع نذرانہ اشرفیوں سے شیرینی کے آئے، آپ نے پوچھا کہ یہ لڑکاتو کہتا تھا کہ پھانسی کا حکم ہوگیا ہے اور تم ہمارے پاس سالم آئے ہو۔ وہ شخص عرض کرنے لگا کہ حضور واقعی بات ہے۔ جس روز لڑکا یہاں سے گیا ہے اسی روز رات کو سیشن جج کو خیال آیاکہ کہیں روئداد میں غلطی نہ ہوئی ہو۔ مسل پر مکرر غور کرکے فیصلہ لکھوں۔ مسل جو دیکھی تو میری نسبت ذرہ بھر بھی ثبوت جرم نہ ملا بلکہ جس جگہ یہ لکھا تھا کہ اس پر جرم ثابت ہے وہاں بجائے اس کے یہ لکھا ہوا ملا کہ یہ اس جرم سے بری ہے۔ چونکہ وہ حکم دے چکا تھا۔ مجھے بلاکر کہا کہ اگر تم معافی نامہ لکھ دو تو تم کو بری کردوں کہ میں نے ناحق تم کو قید کیا۔ میں نے معافی نامہ لکھ دیا۔ اس نے مجھے رہا کردیا۔
جذب و مستی کا عالم:
ایک دفعہ حضور ڈیرہ بسی سے پرے رائے پور کے قریب کسی گاؤں میں جذبہ و مستی کے عالم میں تھے۔ یہ حضور کا عام حکم تھا کہ کھانے پینے کی کوئی شے ہمارے پاس کھلی نہ لایا کرو۔ ایک شخص کھلا پانی لے کر چلا آیا۔ حضور کی زبان مبارک سے نکلاکہ تو اندھا ہے۔ جانتا نہیں کہ پانی کھلا نہیں لایاکرتے وہ اسی وقت اندھا ہوگیا۔ اس کے بعد حضور کو ہمیشہ اس کا خیال رہا۔ اگر کسی سے خلاف طبع حضور کوئی کام ہوجاتا تو فرماتے کہ بے خبر نہیں، بات نہیں سمجھتے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالتے۔
کنویں میں گرنے پر چوٹ نہ لگی:
حاجی کریم بخش جو آپ کے درویشوں میں تھے ایک بار آپ کو وضو کرا رہے تھے۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کسی بات پر ان سے گھبرا گئے۔ غصہ میں فرمایا، اوکریم بخش! جا کنویں میں گر پڑ تھوڑی دیر کے بعد حاجی صاحب مشک لے کر بارو کے کنوئیں پر پانی لینے گئے۔ ڈول جو لٹکایا تو سچ مچ کنوئیں میں گر پڑے۔ مگر چوٹ بالکل نہ لگی۔ اُدھر شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا اوہو کریم بخش تو کنوئیں میں گر گیا مگر خیر۔ لوگوں نے جلدی حاجی صاحب کو باہر نکالا۔ وہ مشک بھر کر بڑی دیر کے بعد حاضر خدمت ہوئے۔ فرمایا او کریم بخش! اتنی دیر کہاں لگائی عرض کیا حضور! میں کنوئیں میں گر پڑا تھا۔ فرمایا چوٹ تو نہیں آئی؟ اس نے کہا آپ نے ہاتھ پر تھام لیا تھا پھر چوٹ کیسے لگتی۔
حقیقت کا فیضان:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم ذکر کرے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صاحب حافظ مسلم والی مسجد میں جمعہ پڑھنے تشریف لائے۔ بعد نماز آپ پر حالت استغراق طاری ہوئی۔ اس حالت میں اکثر آپ کے پاؤں زمین پر ٹھہرا نہ کرتے تھے۔ درویش دونوں طرف سے آپ کو مونڈھے پکڑ کر چلایاکرے تھے۔ اور کوئی عجیب مستی کی حالت ہوتی تھی۔ میں نے حسب معمول آپ کا مونڈھا پکڑ لیا۔ جب وہاں سے آپ سڑک پر پہنچے اور پلی سے نیچے اترنے لگے تو سامنے سے پچاس ساٹھ آدمیوں کا گروہ آ رہا تھا۔ وہ سب کے سب آپ کی صورت دیکھ کر آپ کے پاؤں میں سجدے میں جا پڑے۔ میں نے ان کو سخت سست کہا اور بڑے غصہ سے کہا کہ تم مشرک ہوگئے۔ پھر بعد میں میری نظر بھی آپ کی صورت پر جا پڑی۔ فوراً میں بھی بے اختیار سجدے میں گرگیا۔ تقریباً پانچ ہی منٹ کے بعد آپ کو ہوش آگیا اور ہوش آتے ہی سب کے سب سجدے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! آج تو ہم سب سے بڑا گناہ ہوا ہے۔ فرمایا کیا میں نے عرض کیا کہ ہم سب نے آپ کو سجدہ کیا حالانکہ یہ شرک ہے اور آپ سجدہ سے سخت ناراض ہوا کرتے تھے۔ فرمایا تمہیں مجبوری تھی اس کی وجہ اور ہی تھی وہ جو حقیقت کعبہ کی جاہ و جلال والی تجلی کعبہ شریف پر وارد ہوتی ہے۔ آج ہم اس حقیقت کا فیضان لے رہے تھے۔ وہ فیضان عشق پکتے پکتے حقیقت کعبہ ساری ہی ہم پر وارد ہوگئی تھی وہی تجلی یہاں تھی۔ یہ اس تجلی کی کشش اور جبر کا اثر تھا کہ زبردستی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ کر سجدہ کرالیا۔ اس وقت جو کوئی سامنے آتا۔ بے اختیار سجدہ کرتا اب اس حقیقت کے بجائے دوسری حقیقت کا فیضان بدل گیا۔ اس واسطے یہ سب لوگ سجدہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
حقیقت عیسوی کا فیضان:
ایک روز آپ حقیقت عیسوی کا فیضان لے رہے تھے۔ اس حالت میں ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور حضور سے کچھ پوچھا، آپ نے فرمایا کہ درود شریف پڑھا کر۔ اس نے درود شریف جو پڑھا تو اس پر استغراق کی حالت طاری ہوگئی۔ تین دن تک اس کا یہ حال رہا کہ جس پر وہ دم کرتا فوراً آرام ہوجاتا۔ بعد ازاں وہ حالت جاتی رہی مولوی محبوب عالم صاحب نے دریافت کیا کہ حضور! یہ کیا بات تھی، آپ نے فرمایا جس وقت وہ ہمارے پاس آیا تھا اس وقت ہم حقیقت عیسوی کا فیضان لے رہے تھے۔ اس پر بھی وہی فیضان وارد ہوگیا تھا اب وہ فیضان ہٹ گیا تو وہ حالت بھی جاتی رہی۔
گواہی:
حضور علیہ الرحمۃ کے پڑوس میں ایک شخص نے پرنالہ کا مقدمہ دائر کیا کہ میرا پرنالہ اس جگہ تھا۔ دوسرا فریق وہاں سے مانع تھا۔ عدالت میں مقدمہ گیا توایک فریق نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ نے میرے پرنالہ کو دیکھا ہوا ہے آپ میرے حق میں شہادت دیں، آپ نے فرمایا اگلی بات تو ہمیں یاد نہیں جس جگہ پرنالہ تھا وہاں لگادو، ہم دیکھ لیں گے اور دیکھ کر پھر گواہی دے دیں گے کہ یہاں لگا ہوا دیکھا ہے خیر اس نے عدالت میں حضور کی گواہی لکھوادی، ڈپٹی صاحب نے کہا کہ شاہ صاحب کی گواہی ہم وہیں جاکر لیں گے۔ جس وقت ڈپٹی صاب کگواہی لینے کے واسطے موقع پر آئے۔ حضور علیہ الرحمۃ شاہ عبدالرسول صاحب کی مسجد میں مراقب تھے۔ وہ ڈپٹی وہیں پہنچا۔ ایک درویش نے دروازے کے پاس دور ہی سے ڈپٹی کو دیکھ کر عرض کیا کہ حضور! وہ ڈپٹی گواہی کے واسطے آیا۔ حضور نے دروازے کی طر دیکھ کر فرمایا کہاں ہے جونہی حضور کی نظر اس پر پڑی، وہ فوراً الٹا گرگیا۔ اور چلایا اور وہیں سے واپس بھاگا۔ آپ نے فرمایا جاتا کیوں ہے گواہی تو لیتا جا، اس نے کہا کہ توبہ ہے میری، مجھ سے خطا ہوئی معاف فرمائیں، آپ نے معاف فرمادیا اور وہ چلا گیا۔
سائیں کی بھینس:
میانجی عمرالدین ساکن موضع بوتھ گڈھ تحصیل و ضلع لودہیانہ نے بتاریخ ۳ ذی الحجۃ الحرام ۱۳۳۶ھ راقم الحروف سے ذکر کیا کہ ایک دفعہ ایک گوالا نمازی ہمارے گاؤں کی مسجد میں دس پندرہ روز رہا۔ وہ بیان کرتا تھا کہ ہم اپنی بھینس چرانے کے لیے شہر انبالہ مین جا رہے۔ پہلے دن خیال آیا کہ کچھ دودھ دوھ کر کسی درویش کو دے آئیں، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ شہر میں حضرت سائیں صاحب مشہور درویش ہیں۔ ہم دودھ لے کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ مستی کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے ہم نے پوچھا کیا آپ توکل شاہ ہیں؟ فرمایا: کون سے توکل شاہ؟ آگے جاؤ، ہم نے نہایت عاجزی سے عرض کیا کہ توکل شاہ تو آپ ہی ہیں، ہم یہ دودھ آپ کے لیے لائیں گے، آپ نے فرمایا دودھ نعمت الٰہی ہے اسے رد نہیں کرنا چاہیے مگر کیا تم ہر روز لایا کروگے ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس پچاس ساٹھ بھینسیں ہیں۔ آپ ان میں سے ایک پر اپنا دست مبارک رکھا آئیں، ہم اُسی کا دودھ آپ کی خدمت میں پہنچا دیاکریں گے۔ چنانچہ آپ ہمارے ساتھ بھینسوں میں آئے، وہ چر رہی تھیں۔ آپ ان میں پھرتے رہے پھر ایک نہایت کمزور لاغر بھینس پر اپنا دست مبارک رکھا اسے تھاپی دی، اور ہم سے کہا کہ اس کا دودھ ہم کو دیا کرو، ہم نے عرض کیا کہ یہ تو دوسرے تیسرے روز تھوڑا ساد ودھ دیتی ہے۔ اس کا بچہ بھی مرگیا ہے آپ نے فرمایا کہ اسی کا دودھ لایا کرو، دوسرے روز اس بھینس نے برتن بھر دیا، ہم وہاں دو تین ماہ رہے، وہ بھینس بدستور دودھ دیتی رہی۔ ہم اسے سائیں کی بھینس کہا کرتے تھے۔
مست بچہ:
محمد شفیع لودہیانہ نے راقم الحروف سے بیان کیا کہ میری خالہ زاد ہمشیرہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے شوہر خاں صاحب مظفر خاں انسپکٹر پولیس نے اپنے مرشد حضرت توکل شاہ صاحب سے عرض کیا، حضور دعا فرمائیں کہ میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو۔ آپ نے دعا فرمائی، کچھ عرصہ کے بعد لڑکا پیدا ہوا جس کو اس کی والدہ چھٹی کے بعد انبالہ شریف میں خدمت اقدس میں لے گئی۔ بچہ اپنی ماں کی گود ہی میں تھا کہ آپ نے فرمایا مست کوکہاں لائی ہو؟ ماں نے بچہ کو حضور کے سامنے کردیا۔ آپ نے اپنا لعاب دہن مبارک بچہ کے منہ میں ڈال کر فرمایا کہ یہ تو مست ہے۔ چنانچہ وہ مست ہی رہا۔ یہاں تک کہ پچیس سال کی عمر میں مستی ہی کے عالم میں انتقال کرگیا۔ اس کا نام غضنفر خاں تھا۔
دشمن کا تبادلہ:
سید رفیق احمد صاحب حال سینئر سب جج لودہیانہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد ماجد فرماتے تھے۔ کہ منشی حکیم الدین صاحب ای۔ اے۔ سی انبالہ شہر اور مجھ میں باہم چشمک رہا کرتی۔ منشی مذکور میرے آزار کے درپے رہتا۔ میں نے تنگ آکر حضرت شاہ صاحب سے عرض کیا کہ وہ اب مجھے ضرورت نقصان پہنچائے گا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ وہ یہاں نہ رہے گا۔ چنانچہ تیسرے دن اسے بذریعہ تار تبادلہ کا حکم آگیا۔ میں جو حاضر خدمت ہوا، تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ سنا گیا ہے کہ وہ تبدیل ہوگیا، میں نے عرض کیا کہ تبدیل تو ہوگیا مگر یہ کہہ گیا ہے کہ میں پھر آجاؤں گا۔ آپ نے جوش میں آکر فرمایا کہ وہ یہاں ہرگز نہیں آسکے گا۔ چنانچہ باوجود کوشش کے وہ پھر ا نبالہ میں نہ آسکا۔
حضور شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامات تو اور بھی سینکڑوں ہیں۔ جن کے ایراد کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ نظر براختصار ہم نے پینتیس ہی پر اکتفا کیا ہے ان میں سے پہلی نو جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب انبہٹوی کے قلمی نسخہ سے منقول ہیں۔نمبر دس سے سولہ تک تذکرہ توکلیہ سے۔ سترہ سے اکیس تک کمالات توکلی سے اور بائیں سے بتیس تک ذکر خیر سے ماخوذ ہیں۔ باقی تین راقم الحروف کا اضافہ ہیں۔
آٹھواں باب
وفات شریفہ و حلیہ مبارک
بیماری کا زور:
آخر عمر میں حضور علیہ الرحمۃ کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق تھیں۔ بواسیر ن ے وہ زور پکڑا کہ سیروں خون جاتا۔ پیشاب زیادہ آتا۔ کبھی کبھی بخار بھی ہوجایا کرتا۔ حسب بیان مولوی سراج الدین جب حضور کی عمر اٹھاون سال کی ہوئی تو قرب وصال کی باتیں کرنے لگے۔ چنانچہ ۱۳۱۳ھ میں فرمایا کہ اب ساڈا (ہمارا) وقت نیڑے (نزدیک) آگیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری روح سبز کا ہی عمامہ باندھے بدن سے جدا تیار بیٹھی ہے۔ پھر ۱۳۱۴ھ میں فرمایا کہ ہم نے اپنی مسجد کے امام میانجی رحیم خان صاحب کو معاملہ میں دیکھا کہ ہم سے جپھی پاکر (لپٹ کر) ملے اور کہا کہ شاہ جی! تمہارا انتظار اوپر ہو رہا ہے۔ اور اس عالم کے لوگ تمہارے منتظر و شائق ہیں۔شعبان ۱۳۱۴ھ سے ماہ صفر ۱۳۱۵ھ تک مرض کی شدت رہی۔ اس اثناء میں فرمایا کہ اب اس عالم ناسوت میں ہمارا رہنا ہوگا۔ ہم نے رات کو ایک بلائے عظیم دیکھی۔ جس سے مراد موت تھی۔ بعد ازاں وصال سے دو تین ماہ قبل آپ نے دیکھا کہ بزرگوں کی روحیں آسمان سے اُتر کر آپ سے مصافحہ کر رہی ہیں۔
دعا کی برکت:
آخری بیماری میں بھی حضرت بڑے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ وصال سے ایک ماہ پہلے دیگر امراض کے علاوہ آپ کو اسہال کبدی بھی شروع ہوگئے۔ حالت صحت میں آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ خدایا مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ یہ اس دعا کی برکت تھی کہ اسہال جاری ہوگئے۔ کیونکہ شریعت میں موت اسہال شہادت کے حکم میں ہے۔ اسہال کی وجہ سے حضور کو دن رات میں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ مرتبہ بیت الخلا میں جانا پڑتا تھا۔ مگر اس تکلیف میں بھی آپ کی یہ حالت تھی کہ نماز پنجگانہ جماعت سے ادا فرماتے۔ اور تمام اذکار و اشغال و مراقبات بدستور پورا کرتے۔
توکل کی کیفیت:
حسب بیان جناب قاری اکرام حسین صاحب کرنالی اسی عرصہ میں حضرت مولانا شاہ عبدالخالق صاحب جہانخیلی بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضور کا یہ حال دیکھ کر عرض کیا کہ اب آپ اپنی موجودگی میں کسی کو اپنا قائم مقام یعنی سجادہ نشین کردیجیے، اس کے جواب میں آپ نے کچھ نہ فرمایا بلکہ فرمایا تو یہ کہ میرا نام توکل شاہ ہے۔ میرے توکلی بوٹے ہیں۔ خدا پرورش کرنے والا ہے۔ کوئی ضرورت سجادہ کی نہیں۔ جب صاحبزادہ صاحب ممدوح نے زیادہ مصر ہوکر بایں الفاظ حضرت سے عرض کی کہ کیا آپ میرے والد ماجد خواجہ قادر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان بند کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے جوش میں آکر فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب! مجھ کو اور آپ کا فرمانا مانند حضرت صاحب کے ساتھ مگر کیا کروں، نہ تو بڑے حضرت نے اپنی مووجودگی میں کسی کو سجادہ نشین بنایا۔ اور نہ حضرت خواجہ شمس العرفاں نے کسی کو سجادہ نشین مقرر کیا اب میں اپنے پیروں کے خلاف کس طرح کسی ایک کو سجادہ نشین بنادوں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے یہ کہ میں نے تمام عمر اپنے توکل کو نبھایا ہے یہ کام توکل اور استقامت کے خلا ف معلوم ہوتا ہے میں ہرگز ایسا نہ کروں گا مجھے معاف فرمائیں اگر بالفرض والتقدیر میں اپنے دوستوں سے کسی ایک کو سجادہ نشین بنا بھی دوں تو کیا مریے بہت سے لائق دوست نہیں ہیں۔ وہ اپنے دلوں میں مایوس ہوں گے اس لیے میں اس کام کو توکل پر چھوڑتا ہوں۔ جس کو مولیٰ چاہے گا سجادہ نشین ہوجائے گا اور سجادگی میں رکھا ہی کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو اجرائے سلسلہ کا فکر ہے۔ اس کے واسطے میرے متعدد خلیفے موجود ہیں جن کو میں اپنی موجودگی میں تلقین و بیعت کی اجازت دے چکا ہوں وہ میرے بعد بیعت کریں ۔ علاوہ ان کے اور بہت لائق لائق نام لینے والے میرے درویش موجود ہیں۔ میرے بعد ان سے بہت سلاسل جاری ہوں گے اور آپ دیکھیں گے۔
جاروب کشی کی خدمت:
صاحب تذکرہ توکلیہ لکھتےہیں کہ مرض موت میں صاحبزادہ عبدالخالق صاحب نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ آپ کسی شخص کے واسطے اجازت دیں۔ جو مزار پر بیٹھ کر مزار شریف کی خدمت کرے۔ حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا، صاحبزادہ صاحب آخر بڑے مرتبہ کے آدمی تھے، انہوں نے عرض کیا کہ آخر جاروب کشی کے لیے ضرور کوئی شخص ہونا چاہیے تب حضرت صاحب نے فرمایا کہ مغلی شاہ ہماری قبر پر جاروب کشی کیا کرے گا اور کسی شخص کے لیے کسی طرح کا جناب نے حیات میں اشارہ نہیں کیا۔
بے ہوشی کی کیفیت:
حضور علیہ الرحمۃ کا علاج معالجہ ہوتا رہا۔ آپ دوا پیتے وقت اکثر فرماتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر دوا کھاتے پیتے ہیں۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے دوا کچھ نہیں کرسکتی۔ ایک روز وصال سے دو ہفتہ پہلے بعد نماز ظہر آپ پر غشی سی طاری ہوگئی مگر جلدی ہوش میں آگئےا ورا ندروز نانہ دالان میں تشریف لے گئے۔ اور مکان کے اندر چار پائی پر جس کا سرہانہ جانب شمال اور پینتی جانب جنوب تھی جا لیٹے اور لیٹتے ہی بے ہوش ہوگئے۔ صاحبزادہ عبدالخالق، سائیں مغلی شاہ، خلیفہ مظفر علی خاں، مولوی محبوب عالم، مولوی عبدالرحیم مسکین، حاجی کریم بخش، میر یوسف علی شاہ، حاجی غلام محمد وغیرہ حاضر خدمت تھے۔ سب کے سب رونے اور کف افسوس ملنے لگے۔ تھوڑی دیر میں حضور کو ہوش آیا، تو فرمانے لگے روتے کیوں ہو، اس سے تو یہی بہتر ہے کہ ہماری صحت کے واسطے دعا کرو، اس ارشاد سے سب کو گونہ تسلی سی ہوگئی۔ ماہ صفر ۱۳۱۵ھ کے آخری چار شنبہ سے پہلے آپ کو قدرے افاقہ ہوگیا۔ باعتقاد مریدوں نے شکرانہ کا کھانا محتاجوں کو کھلایا۔ آخری چار شنبہ کو دو بجے کے بعد مرض نے پھر عود کیا، آپ کی صحت کے واسطے بکرے ذبح کرکے ان کا گوشت راہِ خدا میں تقسیم کیا گیا۔ اطرا ف و اکناف سے زائرین آپ کی عیادت و زیارت کے لیے ہجوم کر آئے۔ حکم لطیف حسین خاں دہلوی، حکیم معزالدین خاں دہلوی اور دیگر بہت سے اطباء جمع ہوگئے۔ انہوں نے ہر چند تدبیریں کیں مگر افاقہ نہ ہو۔ آخر آپ بیٹھ کر نماز باجماعت پڑھنے لگے اور اپنے معمولات فکر کے ساتھ بجالانے لگے۔ اس حالت میں بھی جو شخص آپ کی زیارت کے لیے آتا اس سے بڑے اطمینان کے ساتھ ملاقات کرتے۔ راقم الحروف ان ایام میں بورڈ کالج امرت سر میں ملازم تھا۔ عرس حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے فارغ ہوتے ہی درِ دولت پر حاضر ہوا۔ اور اجازت حاصل کرکے اندر حاضر خدمت ہوا۔ دیکھا کہ آپ غربی دالان میں بے بستر چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ سرہانہ جانب شمال اور پینتی جانب جنوب تھی۔ اسہال جاری تھے۔ زبان مبارک پر اور حلق میں آبلے تھے۔ بول نہ سکتے تھے میں نے سلام عرض کیا، آپ نے اشارہ سے جواب دیا اور حال پوچھا میں نے کچھ نذرانہ پیش کیا آپ نے لنگر کی طرف اشارہ فرمایا اس حالت میں آپ کی استقامت کا یہ حال تھا کہ اپنے معمولات انگلیوں کے پوروں سے بجا لا رہے تھے۔
انتقال کی خبر ہونا:
جناب مولوی سراج الدین صاحب بروایت سائیں مغلی شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب غلبہ مرض میں یاس ہوگئی۔ تو چھوٹی مائی صاحبہ یعنی حضور کی چھوٹی بیگم صاحبہ گریہ و زاری کرنے لگی، آپ نے فرمایا کہ بیگم ! غم نہ کر، رو مت تجھے ان شاء اللہ جلدی بلالیں گے۔ اس سے پایا جاتاہے کہ حضور کو اپنے وصال اور بیگم صاحبہ کے انتقال کا حال منکشف ہوگیا تھا۔ چنانچہ آپ کے وصال کے پانچ مہینے دس دن بعد عین شب برات کی رات کو چھوٹی مائی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا نے انتقال فرمایا۔
نور ہی نور:
وصال سے تین چار روز پہلے حسب بیان جناب مولوی محبوب عالم صاحب حضرت صاحب نے ایک دن فرمایا کہ آج ہم نے دیکھا کہ ایک بے حد نور ہے جس کی نہ کہیں ابتداء ہے نہ انتہا، ہم وہاں گئے وہاں ایک دیوار ہے دیوار سے پرلی طرف ہمیں بلایا گیا مگر ہم نے جواب دیا کہ ابھی ہم نہیں آتے ان ایام میں زائرین دور دور سے زیارت کو آتے تھے ان کو دستہ دستہ کرکے صرف زیارت کرائی جاتی تھی۔ بات چیت کا موقع نہ ملتا تھا۔ پھر آپ نے بار بار اس طرح فرمانا شروع کیا کہ اب ہماری روح اس بے حد نور کی طرف چڑھتی چلی جاتی ہے دنیا میں رہنے کو جی نہیں چاہتا، یہاں بڑے بڑے جھگڑے فساد ہیں۔ اب یہاں سے دل اُٹھ گیا۔
وصال مبارک:
۳ ربیع الاول کو بائیں ہاتھ پر تشنج پڑا، آپ نے میر یوسف علی شاہ سے فرمایا کہ دم کرتے رہو، چنانچہ وہ دم کرتے رہے۔ آخر یوم وصال آپہنچا ۴ ربیع الاول ۱۳۱۵ھ یوم چہار شنبہ کو آپ نے فجر کی نماز اول وقت چار پائی پر لیٹے ہوئے اشارے سے باجماعت ادا کی۔ حافظ مولانا بخش صاحب امام تھے۔ بائیں جانب سائیں مغلی شاہ اور دائیں جانب میر یوسف علی شاہ مقتدی تھے۔ اللہ اللہ جماعت کا شوق ایسا تھا یہ حضور علیہ الرحمۃ کی آخری نماز ہے۔ اب آپ کے لیے کسی نماز فرض کا وقت نہ آئے گا اس کے بعد حضرت صاحب کی چا رپائی دالان کے صحن میں لائی گئی۔ آپ کبھی اٹھتے اور کبھی لیٹے جاتے تھے دو خادم لٹاتے بٹھاتے تھے چونکہ صحن خانہ میں گرمی ہوتی جاتی تھی اس لیے چار پائی دالان میں لے گئے وہاں بھی حضور نے اسی طرح اٹھنا بیٹھنا شروع کیا۔ جب آپ مغلی شاہ کا انگوٹھا دباتے تو وہ اُٹھالیتا تھا جب چھوڑ دیتے تو لٹا دیتا تھا، اتنے میں آپ نے اشارہ فرمایا کہ پردہ اُٹھادو، چنانچہ وہ چکیں جو دروازہ پر پڑی ہوئی تھیں سب اٹھادی گئیں، اسی اثناء میں حضرت صاحب نے دونوں ہاتھ زمین کی طرف جھکائے، چنانچہ آپ کو فرش زمین پر اس طرح لٹادیا گیا کہ آپ کا نصف دھڑ بوریا پر اور نصف بستر پر رہا، پھر آپ نے مغلی شاہ سے شہد کا شربت تیار کرایا، اور خود گڈوی ہاتھ میں لے کر شربت نوش فرمایا، اس حالت میں شہد کا نوش فرمانا عین اتباع سنت تھا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے لیے مرض اسہال میں استعمال شہد ہی ارشاد فرمایا تھا، اسی حالت میں صاحبزادہ خانقداد صاحب کے سرہانے کی طرف پاس آکر شجرہ سنانے لگے۔ آپ نے اشارہ سے فرمایا ہوں ہوں! یعنی مت پڑھو، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کوئی اور کیفیت طاری تھی۔ پھر آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر تبدیل لباس کرایا، اور تیمم کے لیے مٹی طلب کی اور تیمم کیا، پھر پوچھا کیا وقت نماز ہے؟ عرض کیا گیا کہ نہیں، فرمایا کہ وقت مراقبہ تو ہے، عرض کیا گیا کہ ہاں، یہ سن کر آپ دو زانو ہو بیٹھے اور دس بجے دن کا وقت تھا کہ سلطان الاذکار شروع کیا، دف دفعہ حبس دم کرکے سناس لیا تیسری دفعہ حبس دم کیا تھا کہ روح پاک محبوب حقیقی سے جا واصل ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سائیں مغلی شاہ کا بیان ہے کہ ایک ہاتھ میرا حضرت صاحب کی گردن مبارک کے پیچھے تھا اور ایک سامنے جب مجھے معلوم ہوتا کہ سانس نہیں آتا تو میں نے کہا کہ حضرت صاحب تو تشریف لے گئے۔ حاضرین اہل کشف کا بیان ہے کہ نزع کے وقت آپ پر نسبت حسینیہ وارد تھی۔ غرض جس شعغل میں جوانی سے ساری عمر گزاری تھی۔ اسی میں جان حق کو سونپ دی۔
عقیدت مندوں کی حالت:
انبالہ میں ایک شور قیامت و سانحہ برپا ہوا۔ مخلوق اوپر تلے گرتی تھی۔ کوئی آنکھ نہ تھی جو آنسوؤں سے تر نہ ہو۔ اور کوئی دل نہ تھا جو تیر غم سے نڈھال نہ ہو۔ ہزار ہا ہندو مسلمان موجود تھے۔ ہزاروں پردہ نشین عورتیں ڈولیوں میں بیٹھ بیٹھ کر زیارت کو آئیں۔ باوجود منع کرنے کے آہ و زاری کی آواز گنبد گردوں تک پہنچتی تھی۔ ایک کہرام مچ رہا تھا کیوں نہ ہو وہ شہسوار عرصہ توکل، اتباع سنت میں متوغل، بظاہر امی مگر عالم علم لدنی قطب زمانہ، شہباز بلند آشیانہ، شناور دریائے معرفت کوہِ استقامت و آفتاب ہدایت یتیموں کا ملجا، بیوگان کا ماوا، ہمسایوں کا غمگسار، بیماروں کا تیماردار بے تعداد فرزندان معنوی کا باپ، اعلیٰ درجہ کا صوفی آج ہمیشہ کے لیے ہماری نظروں سے غائب ہوگیا۔
نماز جنازہ کی کیفیت:
دہلی و لاہور و ملتان و کرنال وغیرہ میں آپ کے مریدین و احباب کو تار دیا گیا، دور دور سے لوگ حاضر ہوئے۔ آخر بصدِ وقت عصر کے وقت آپ کو غسل دیا گیا۔ قلت وقت کی وجہ سے نمازِ جنازہ مغرب پر ملتوی کردی گئی۔ لوگ گروہ ہاگر وہ آخری دیدار کے منتظر و مشتاق تھے۔ صاحبزادہ عبدالخالق صاحب نے منہ کھول کر سب کو زیارت کرائی، مغرب کے بعد احاطہ میں خلقت کا ہجوم بہت زیادہ ہوگیا۔ اس لیے نماز جنازہ شہر سے باہر میدان میں پڑھی گئی، خلیفہ مظفر علی خاں صاحب امام تھے۔ صفیں درست کی گئیں تو پہلی بار کی نمازیں اٹھارہ ہوئیں، جن میں سے ہر ایک میں بقول میر یوسف علی شاہ صاحب پانچ چھ سو آدمی سے کم نہ تھے اور بقول مولوی محبوب عالم صاحب ہر ایک صفت میں ایک ہزار آدمی تھے۔ دوسری بار کی نماز میں شمار نہیں کیا گیا کہ کس قدر آدمی شامل تھے کیونکہ رات ہوگئی تھی بعد ازاں جنازہ مبارکہ احاطہ میں لایا گیا۔ اور تقریباً دس بجے شب کے حضور علیہ الرحمۃ کو عین مطابق شریعت اس جگہ سپرد خاک کردیا گیا جہاں آپ نے حیات ہی میں اشارہ فرمادیا تھا۔
جائے دفن:
واضح رہے کہ زمین احاطہ جہاں اب مزار مبارک ہے وصال سے دو ماہ پہلے چھوٹی مائی صاحبہ نے اپنے روپے سے خریدی تھی۔ جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب لکھتے ہیں کہ جس جگہ حضور کا مزار شریف ہے یہاں صاف ویرانہ میدان تھا۔ گمان بھی آباد ہونے کا نہ تھا۔ البتہ کچھ دنوں پہلے سے آپ کے سامنے ہی اس میدان میں خیمے نصب ہوکر حضور حاجی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ختم ہونے لگا تھا۔ حضور اکثر باہر جنگل میں جاتے ہوئے اس میدان کو پاؤں سے ٹھکرا کر فرمایا کرتے تھے: ’’مولوی! اس جگہ سے کچھ محبت کی بو آتی ہے۔‘‘ یہ کس کو خبر تھی کہ یہی جگہ حضور کا آرام گاہ ہوکر رشک جناں ہوگی۔ انتہیٰ۔
بعد از وصال مبارک:
ذکر خیر میں ہے کہ وصال سے تیسرے دن ایک بزرگ قبر مبارک پر جاکر مراقب ہوئے کہ دیکھیں تو منکر نکیر کا برتاؤ کیسا رہا، حضرت علیہ الرحمۃ سے روحانی ملاقات ہوئی، پوچھا کہ حضور کے ساتھ حساب قبر کیسا رہا، فرمایا حساب کتاب کیسا؟ انہوں نے کہا حضور! کتابوں میں لکھا ہے کہ قبر میں دو فرشتے آکر سوال کیا کرتے ہیں ایک منکر ہے دوسرا نکیر۔ حضور نے ہاتھ سے ایک خاص طرح کا اشارہ کرکے فرمایا ہمارے سامنے تو کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔
وصال مبارک سے چھ ماہ یا کچھ کم و بیش بعد جب قبر مبارک کو پختہ کرنے کے ارادہ سے بزرگوں کے اوپر کڑا پختہ باندھا گیا تو اس وقت ایک طرف سے ایک مخلص نے چوری سے غلبہ عشق کی وجہ سے تھوڑا سا سوراخ جس سے کہ تمام بدن مبارک دیکھ سکے کھول کر دیکھا تمام بدن مبارک اور کفن مبارک تر و تازہ اور سالم تھا۔ خوشبو نے اندر سے اس قدر غلبہ پایا کہ دماغ برداشت نہ کرسکے، مگر وہ فوراً بند کردیا گیا اور اس کی خوشبو کا اثر کئی روز تک دماغوں میں رہا۔ انتہیٰ۔
راقم الحروف کو جب حضور علیہ الرحمۃ کے وصال کی خبر امرت سر میں پہنچی، تو ایک گوشہ تنہائی میں اپنی عمر گزشتہ پر غور کرکے بہت رویا کہ ایسے شیخ کامل اب کہاں ملیں گے ؎
جب تھی پیا کی خاطر کو میں ڈھونڈ رہی مورے ہاتھ نہ آئیو
اور سکھی اپنا پی سووت کھویو میں اپنا پی جاگ گنوائیو
رات کو دیکھا کہ حضور علیہ الرحمۃ جنگل کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔ اور لوگ آپ کے پیچھے ہیں۔ میں بھی زیارت کے لیے روانہ ہوا جنگل میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹی جھونپڑی میں پلنگ بچھا ہوا ہے، حضور علیہ الرحمۃ پلنگ سے نیچے کسی درخت کی سبز شاخیں ہاتھ میں لیے ایک بیمار پر ہلا رہے ہیں۔ وہ بیمار فوراً چنگا ہوگیا۔ حضور نے میری طرف نظر اٹھاکر فرمایا تم نے دیکھا ہمارے ہاں بیمار اس طرح اچھے ہوجاتے ہیں، تمہیں اگر کوئی مشکل آئے تو ہمارے پاس آجایا کرو، ان شاء اللہ تعالیٰ حل ہوجایا کرے گی اس خواب سے مجھے کمال درجہ کا اطمینان حاصل ہوا، چنانچہ جب کبھی مزار مبارک پر حاضر ہوتا ہوں تو عجیب عنایت محسوس ہوتی ہے۔
تاریخ وصال:
حضور علیہ الرحمۃ کی تاریخ وصال بہت لوگوں نے لکھی ہے۔ نظر براختصار یہاں صرف دو درج کی جاتی ہیں جن میں سے ایک بلحاظ مادہ تاریخ اور دوسری بلحاظ مضمون سب سے اچھی معلوم ہوتی ہے۔
از نتائج طبع جناب پیر غلام دستگیر صاحب نامی لاہوری
رفت از دنیا چوں آں قطب زماں |
پیر کامل خواجہ انبالوی |
از نتائج طبع جناب مولوی محمد سعید صاحب سعیدؔ پروفیسر دہلوی مرحوم
اگر ہم چھوڑ دیں خوئے تغافل |
تو جائے چشمِ عبرت ہیں ابھی کھل |
حلیہ مبارک:
قد مبارک میانہ موزوں، فربہ اندام، سینہ چوڑا ہاتھ پاؤں مضبوط قوی ہیکل صاحب رعب و ادب سر کے بال سیدھے نرمہ گوش تک دراز، ڈاڑھی گنجان، ابرو باریک خمدار مثلِ ہلال۔ پیشانی کشادہ نورانی ناک موزوں رخسارے پر گوشت، آنکھیں بڑی بڑی بادۂ عشق سے مخمور۔ رنگ سرخ و سپید۔
حضور علیہ الرحمۃ اکثر کرتہ بہت نیچا اور کوٹ ہندوستانی قطع کا پہنتے تھے تہبند باندھتے تھے۔ سر مبارک پر کبھی سپاہیانہ وضع کا اور کبھی عالمانہ انداز کا عمامہ ہوتا تھا موسم سرما میں اکثر کنٹوپ پہنتے۔ آپ کو سفید لباس مرغوب تھا ر نگین یا گیر والباس آپ کے بدن پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔
میاں عبدالغفور قیس بوڑیوی نے اس حلیہ شریف کو بحر مثنوی شریف میں یوں منظوم فرمایا ہے:
ہے توکل ہادی راہِ خدا |
ہے توکل تابعِ خیرالورا |
نواں باب
ارشاداتِ عالیہ
حضرت خواجہ نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ سلوک سے مقصود یہ ہے کہ معرفت اجمالی تفصیل ہوجائے۔ اس قول کی تشریح حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام علوم کو وحی سے اخذ فرماتے تھے۔ اولیاء کرام ان علوم کو بطریق الہام حق تعالیٰ سے اخذ کرتے ہیں۔ اور علمائے کرام نے ان علوم کو شرائع سے اخذ کرکے بطریق اجمال بیان کیا ہے۔ وہ علوم جیسا کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ ولالسام کو تفصیلاً و کشفاً حاصل تھے اولیاء اللہ کو بھی اسی طریق سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہاں اصالت و تبیعت کا فرق ضرور ہے۔ مگر اولیاء اللہ میں سے ہر ایک کویہ کمال حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض کو از منہ دراز کے بعد اس کمال کے لیے انتخاب کرتے ہیں (مکتوبات دفتر اول مکتوب۔ ۳) یہ معلوم ہے کہ حضرت شاہ صاحب قبلہ امی تھے۔ آپ کے مکاشفات قدسیہ راقم الحروف کے خیال میں ایک حد تک حسرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف مذکور کی توضیح کے لیے کافی و وافی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
علم قرآن:
ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیْکَ الْیَقِیْنُ (سورہ حجر۔ اخیر آیت) سے کیا مراد ہے، کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین نہ تھا۔ فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حق الیقین کا مرتبہ حاصل تھا۔ اس آیت میں یقین سے مراد موت ہے۔
آیت کا مفہوم:
کسی نے آپ سے آیہ شریفہ ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ (سورہ حدید رکوع اول) کے معنی دریافت کیے۔ فرمایا کہ اول نور خدا اور آخر نور اس کا۔ وہ ظاہر ہے تجلی ظہور صفات سے اور باطن ہے عین ذات کے لحاظ سے۔ ذات پردے میں ہے اور صفات کا ظہور ہے۔
قدیر و محیط میں فرق:
ایک روز آپ نے مولوی سراج الدین صاحب سے سوال کیا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے کہ اللہ ہر شے پر قدیر ہے۔ اور دوسری جگہ یوں ہے کہ اللہ ہر شے پر محیط ہے۔ قدیر و محیط میں کیا فرق ہے۔ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! مجھے کیا خبر۔ آپ نے فرمایا کہ تم بھی مولوی ہو، مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اس سوال کا تعلق تصوف سے ہے نہ کہ علم ظاہر سے۔ آپ ہی ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ قدیر ہے ذات سے اور محیط ہے صفات سے، فرمایا کہ مراقبہ قدیر اعلیٰ درجہ کا ہے مراقبہ محیط سے۔ ؎
تو محیطی برہمہ اندر صفات
وزہمہ پاکی و مستغنی بذات
روح امر ربی ہے:
جناب مولوی سراج الدین صاحب نے آپ سے سوال کیا کہ حضور! روح امر ربی ہے بحکم قُلِ الرُّوْح مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل۔ ع۱۰) اور یہ مومن و کافرں دونوں میں ہے۔ جب کافر کی روح دوزخ میں گئی۔ تو گویا امر ربی گیا۔ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جنت و دوزخ کیا ہیں؟ یہ دونوں اسماء و صفات کے ظہور ہیں۔ دوزخ صفت قہاری کا ظہور ہے۔ پس کافر کی روح جو قہر سے پید اہوئی، قہر یعنی دوزخ کی طرف گئی، قُلُّ شَیْءٍ یَرْجِع اِلٰی اَصْلِہٖ (ہر چیز اپنے اصل کی طرف رجوع کرتی ہے) مولانا روم فرماتے ہیں ؎
نوریاں مر نوریاں را جا ذبند
ناریاں مرناریاں راجا ذبند
پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ کن کے فرمانے سے ارواحِ خلق پیدا ہوئیں۔ چونکہ روحیں دو قسم کی ہیں۔ قہری اور رحمت کی۔ تو گویا کن دوبارہ فرمایا ، ارشاد ہوا کہ نہیں کن ایک ہی دفعہ کہا، مگر صفات رحم و قہر ہر دو کا ظہور ہوگیا جیسا کہ ہم ایک آنکھ سے کسی کو قہر سے اور کسی کو رحم سے دیکھتےہیں۔
خوف اور غم:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز صبح کے وقت میں حاضر خدمت ہوا، فرمایا: مولوی صاحب! یہ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ کیا کلام ہے۔ میں نے عرض کیا، حضور یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور تمام آیت یوں ہے۔ اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورہ یونس۔ ع) فرمایا اچھا اس سے پہلے اولیاء اللہ کا لفظ بھی ہے؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور ہے، پھر فرمایا اس کے معنی کیا ہوئے، میں نے عرض کیا، حضور! اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اولیاء اللہ ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے نہ غم ہے، فرمایا، اس خوف و غم کے نہ ہونے کا کیا مطلب ہے، میں نے عرض کیا حضور! اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اولیاء اللہ ہیں انہیں عذاب قبر، حشر، قیامت، میزان، پل صراط دوزخ وغیرہ وغیرہ کا کچھ خوف اور غم نہیں ہے، فرمایا یہ سارا تو لَا خَوْف میں آچکا۔ کیونکہ انہیں کوئی خوف جو نہ ہوا، پھر غم کا ہے کا باقی رہ گیا۔ میں نے عرض کیا حضور اس کا مطلب آپ جانتے ہوں گے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب عذاب قبر، قیامت، میزان، حساب و کتاب، پل صراط وغیرہ کا کچھ خوف نہ رہا اور وہ بلا حساب بخشے گئے۔ تو خوف ہر طرح کا جاتا رہا۔ مگر غم اس بات کا رہا کہ دیکھیے اجر و ثواب اور جنت میں مراتب بھی پورے ملتے ہیں یا کسی قدر کمی بیشی ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں ان مراتب اور اجر و ثواب کے بارے میں بھی کسی طرح کا غم نہ ہوگا۔ پھر فرمایا: ہمیں تین دفعہ یہ آواز آئی کہ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ یعنی تجھے اس گروہ میں داخل کردیا۔ جن کے بارے میں یہ آیت ہے تجھے نہ خوف ہوگا اور نہ کسی طرح کا غم ہوگا۔ ہم نے تجھے بے حساب بخش دیا، میں نے عرض کیا، حضور! یہ بشارت خاص حضور ہی کے واسطے ہےیا آپ کے ملنے والوں کے واسطے بھی، فرمایا یہ بشارت ہمارے ملنے والوں کے واسطے بھی ہے اور جو ان کے ملنے والے ہوں گے ان کے واسطے بھی۔ اور جو کوئی ہمارے سلسلہ میں قیامت تک ہماری نسبت حاصل کرے گا اور ہمارے طریقہ کا پابند رہے گا ان سب کے واسطے یہ بشارت ہے۔ اس بات کا حکم بھی اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک سے بھی اس کی تصدیق ہوگئی۔ اور پھر مجدد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنے دفتر میں ہمیں ان سب کے نام لکھے ہوئے دکھائے جو قیامت تک ہمارے سلسلہ میں داخل ہوکر ہماری نسبت حاصل کریں گے۔ اور ہمارے طریقہ کے پابند رہیں گے۔ اور بشارت میں داخل ہیں۔
جنت کا واجب ہونا:
ایک روز کسی شخص نے یہ مسئلہ پوچھا کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ اس کے لیے بہشت واجب ہوگئی۔ پھر ابوجہل و ابولہب وغیرہ نے بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتھا وہ کیوں بہشتی نہ ہوئے۔ فرمایا ابوجہل ابولہب وغیرہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھتیجا سمجھ کر دیکھا تھا۔ اور بھتیجا اور چھوٹا سمجھنا ہی کفر تھا۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول سمجھ کر دیکھتے۔ تو یہی ایمان تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ اور بہشت میں جانا ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ انتہےٰ
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب قبلہ نے جو جواب ارشاد فرمایا وہ بالکل درست ہے، سلطان محمود غزنوی نے اسی قسم کا اعتراض شیخ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ پر کیا تھا۔ حضرت شیخ نے یہی جواب دیا تھا اور ثبوت میں آیہ وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (اعراف۔ اخیر رکوع) پیش کی تھی جیسا کہ ترجمہ حضرت ابوالحسن خرقانی میں بیان ہوا۔
برائے دیدن روے تو چشمے دیگرم باید
کہ ایں چشمے کہ من دارم جمالت رانمے شاید
حزب البحر:
ایک روز ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضور! مجھے حزب البحر پڑھنے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو حزب البحر پڑھتے نہیں۔ جو پڑھتا ہو۔ اس سے اجازت لے لو، خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو کام تم خود نہیں کرتے اوروں سے کیوں کہت ےہو کہ کرو جبکہ ہم حزب البحر نہیں پڑھتے۔ تو اس کی اجازت کس طرح دے دیں۔ اس طرح منع ہے۔ قرآن شریف میں صریح حکم ہے۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضور علیہ الرحمۃ کا اشارہ آیہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کی طرف ہے۔ یعنی اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔
رزق کا وعدہ:
ایک روز ان آیتوں کا تذکرہ تھاوَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ O فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقُّ مِثْلَ مَا اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَ۔ ترجمہ اور آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ سو آسمان و زمین کے پروردگار کی قسم کہ یہ بات تحقیق ہے جیسے کہ تم بولتے ہو۔ ایک زمیندار حاضر خدمت تھا۔ اس نے حضرت علیہ الرحمۃ کی طرف متوجہ ہوکر عرض کیا کہ حضور! ہم زمین میں ہل چلاتے اور بوتے بیجتے ہیں۔ تو ہم کو زمین سے رزق ہاتھ آتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رزق آسمانوں میں ہے۔ یہ کیا بات ہے، فرمایا: درحقیقت رزق آسمانوں ہی میں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم آسمان سےپانی برساتے ہیں۔ جس سے مری ہوئی زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اور وہی آسمان سے پانی برساکر بندوں کے واسطے رزق پید اکرتا ہے وہ آیتیں تو ہمیں یاد نہیں۔ پھر فرمایا بات یہ ہے کہ رزق آسمان ہی سے آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ تاثیر اور پانی آسمان سے زمین پر وارد کرتا ہے اور زمین کو حکم دیتا ہے تب زمین اس پانی اور تاثیر سے رزق اگاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم مانتی ہے پس دراصل رزق آسمان سے ہی آتا ہے کیونکہ زمین سے کچھ پیدا نہیں ہوسکتا جب تک کہ آسمان سے تاثیر پانی اور خدا تعالیٰ کا حکم زمین پر وارد نہ ہو۔
علمِ حدیث:
ایک روز جالندھر کے ایک فاضل مولوی صاحب حاضر خدمت ہوئے اور آپ سے کئی مسئلے دریافت کیے۔ فاضل موصوف حضور علیہ الرحمۃ کے جوابات سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کو امی کون کہتا ہے یہ تو علم کے دریا ہیں۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا بھی ایک مسئلہ بتاتے جاؤ اور وہ یہ کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے سوا کچھ نہ تھا اس وقت خدا تعالیٰ کہاں رہتا تھا۔ یہ سن کر فاضل موصوف نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں، آپ ہی ارشاد فرمائیے اس پر آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنی صفات کے بادل میں تھا۔ یعنی ذات خدا صفات کے پردہ میں تھی۔ فاضل جالندھری نے تسلیم کیا اور کہا کہ[۱] (یہ مولوی محبوب عالم صاحب کی روایت ہے مگر مولوی سراج الدین صاحب کی روایت میں یوں ہے کہ خود حضرت صاحب نے اس حدیث کے معنی فاضل موصوف سے دریافت کیے۔ جب اسے نہ آئے تو خود ارشاد فرمائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہے فرمایا کان فی عماء۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہم حدیث شریف تو پڑھے ہوئے نہیں۔ مگر معلوم اسی طرح ہوتا ہے اور پھر ان ہی صفتوں کا ظہور ہوا۔ جن سے زمین و آسمان چاند سورج وغیرہ سب چیزیں بن گئیں۔ا نتہیٰ۔
(راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ فاضل موصوف نے جس حدیث کا حوالہ دیا وہ یوں ہے :
عن اب ی رزین قال قلت یارسول اللہ این کان ربنا قبل ان یخلق خلقہ قال کان فی عماء ما تحتہ ھواء وما فوقہ ھواء وخلق عرشہ علی الماء رواہ الترمذی وقال قال یزید بن ھارون العماء ای لیس معہ شیئ (مشکوٰۃ شریف۔ باب بدء الخلق)
ابورزین صحابی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ پیدائش خلق سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا، فرمایا: عماء میں تھا، کہ نہ اُس کے نیچے ہوا تھی اور نہ اُس کے اُوپر ہوا تھی اور اس نے اپنے عرش کو پانی پر پیدا کیا۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا۔ اور کہا کہ حافظ حدیث یزید بن ہارون (متولی۲۱۷ھ) ن ے کہا کہ عماء کنایہ ہے اس سے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔
عماء کے معنی بادل کے ہیں۔ اس کی تشریح میں شراح حدیث حیران ہیں۔ ابوعبید کا قول ہے کہ اس عماء کی کیفیت کسی عالم کو معلوم نہیں۔ کوئی اس سے حجاب جلال مراد لیتا ہے۔ کوئی غیب ہویت ذات بلا ظہور مظاہر صفات بتاتا ہے۔ بعض اسے متشابہات میں شمار کرتے ہیں۔ مولانا جامی نے اس حدیث کی شرح میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ اندریں صورت حضور علیہ الرحمۃ کا ارشاد خاص اہمیت رکھتا ہے اور ہمارے نزدیک اقرب الی الصواب ہے۔ بلکہ صواب یہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث کا مفہوم:
جناب مولوی سراج الدین صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز حضور علیہ الرحمۃ نے مجھ سے اس حدیث (انکم سترون ربکم کما ترون ھذا القمر) کے معنی پوچھے۔ اور فرمایا کہ اگر چاند جیسا ہوگا۔ تو نور محدود ہوگا۔ حالانکہ ذات خدا محدود نہیں۔ میں نے عذر کیا کہ آپ ہی ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ جمالیت کا ظہور ہوگا، چاند جیسا چٹکا ہوا نور ہوگا۔ نہ یہ کہ اسی قدر کرہ ہوگا جو محدود ہے۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حدیث زیر بحث یہ ہے:
عن جریر بن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم سترون ربکم عیانا وفی روایۃ قال کنا جلوسا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنظر الی القمر لیلۃ فقال انکم سترون ربکم کما ترون ھذا القمر لا تضامون فی ررؤیتہ (مشکوٰۃ شریف۔ باب رؤیۃ اللہ تعالیٰ)۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک تم اپنے پروردگار کو ظاہر آنکھ سے دیکھو گے۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا تحقیق تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے جیسا کہ اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیدار میں ضرر یا ظلم نہ کیے جاؤ گے۔
شارحین لکھتے ہیں کہ یہاں رؤیت کی تشبیہ رؤیت سے ہے انکشاف تام میں۔ یعنی تمہارا حق تعالیٰ کو دیکھنا ایسا ہوگا جیسا اس چاند کو دیکھنا کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور مرئی کی تشبیہ مرئی سے مراد نہیں۔ یعنی یہ مطلب نہیں کہ جیسا کہ یہ چاند تمہارے مقابلہ میں اور جہت میں ہے اور محدود ہے ذات حق تعالیٰ بھی اسی طرح محدود ہوگی۔ رہا لا تضامون۔ سو اس کی تشریح کئی طرح سے کی گئی ہے۔ اگر تضامون کو بضم تا و تخفیف میم مضمومہ پڑھا جائے۔ تو وہ ضیم سے ہے جس کے معنی ضرورظلم کے ہیں۔ یعنی تم پر دیدارِ حق میں ضرور ظلم نہ ہوگا کہ بعضے دیکھیں اور بعضے نہ دیکھیں۔ بلکہ سب دیکھیں گے یا یہ مطلب ہے کہ تم ایک دوسرے پر تکذیب و انکار سے ظلم نہ کرو گے۔ بلکہ سب تصدیق کریں گے کہ واقعی یہ رویۃ حق تعالیٰ ہے۔ اگر بشدمیم مضمومہ اور ضم تا یا فتح تا کے ساتھ باب مفاعلہ (مضامۃ بمعنی مزاحمۃ) اور باب تفاعل (تضام بمعنی تزاحم) سمجھا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ تم بوقت رویت باری تعالیٰ بوجہ کمال ظہور و وضوح کے مزاحمت و ازدحام نہ کرو گے۔ جیسا کہ ماہِ نور کی رؤیت کے وقت بوجہ خفا و اشتباہ کیا کرتے ہو۔ بلکہ ہر ایک مومن حق تعالیٰ کو بآسانی دیکھ لے گا۔ یہ ہے ماحصول شراح کی تگ و دو کا۔ مگر حضور علیہ الرحمۃ نے جو معنی بیان فرمائے ہیں۔ وہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی فقیر راقم کے نزدیک یہی معنی اقرب الی الصواب بلکہ صواب ہیں۔ کیونکہ حدیث زیر بحث میں رؤیت باری تعالیٰ کا ذکر ہے جو قیامت کے دن مومنوں کو نصیب ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ رؤیت رؤیت جمالیہ ہوگی۔ اسی واسطے اس کو رؤیت بدر سے تشبیہ دی۔ موقف میں کفار کو بھی رؤیت حق ہوگی۔ مگر وہ رؤیتِ قہر جلال ہوگی۔ اس کے عبد وہ محجوب ہوجائیں گے تاکہ ان کو حسرت و عذاب زیادہ ہو۔ حدیث شریف کے الفاظ لا تضامون فی رویتہ اسی معنی کی تائید کر رہے ہیں۔ مصباح منیر میں ہے: ضامہ ضیما مثل ضارہ ضیر او زنا و م عنی۔ اور ضارہ ضیرا من باب باع اضربہ۔ پس لا تضامون فی رویتہ کے معنی یہ ہوئے کہ رویت باری تعالیٰ میں تم کو تکلیف و ضرر نہ ہوگا کیونکہ وہ رؤیت جمال ہوگی۔
دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے:
ایک شخص نے سوال کیا کہ حدیث شریف میں آیا ہے: اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّہُ اْلْکَافِرِ یعنی دنیا مومن کے لیے قید و خانہ اور کافر کے لیے بہشت ہے۔ مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے مومن مالدار اور کئی کافر نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان یہاں کتنا ہی عیش و آرام میں ہو بمقابلہ العماء بہشت قید خانہ ہی میں ہے اور کافر و دنیا میں خواہ کتنی تکلیفیں اٹھائے عذاب دوزخ کے مقابلہ میں یہ تکالیف بہشت معلوم ہوں گی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث مشکوٰۃ شریف (کتاب الرقاق۔ فصل اول) میں مذکور ہے۔ اس کا مطلب جو حضور علیہ الرحمۃ نے فرمایا بالکل درست ہے۔ چنانچہ علامہ ح سن بن محمد طیبی (متوفی ۷۴۳ھ) نے شرح مشکوٰۃ میں اس کے معنی یوں لکھے ہیں۔
الدنیا سجن المومن وذافی جنب ما اعدّ لہ من المشوبۃ وجنۃ الکافر فی جنب مااعدٌ لہ من العقوبۃ وقیل المومن یسجن نفسہ عن الملا ذویا خذھا بالشدائد وکافر عکسہ (مجمع بحار الانوار)
دنیا مومن کے لیے مثل قید خانہ کے ہے بمقابلہ اس ثواب کے جو اس کے لیے تیار کیا گیا ہے اور کافر کے لیے مثل جنت کے ہے بمقابلہ اس عذاب کے جو اس کے لیے تیار ہے۔ اور کہا گیا کہ مومن اپنے نفس کو لذات و شہوات سے روکتا ہے اور اسے سختیوں میں ڈالتا ہے۔ اور کافر اس کے برعکس لذات و شہوات میں مشغول رہتا ہے۔
تفسیر روح البیان میں شرح تفسیر سورہ ہود میں ہے کہ دنیا کا قید خانہ ہونا بمقابلہ نعیم آخرت کے ہے جو مومن کے لیے تیار کی گئی ہے اور یہ فی الجملہ راحت کا منافی نہیں۔ چنانچہ حکایت ہے کہ اہل بغداد میں سے ایک قاضی اپنے خدم و حشم کے ساتھ ایک گلخانی کے کوچہ سے گزرا وہ گلخانی بدشکل جہنمی کی صورت میں یوں نمودا رہو اکہ گویا چیڑ کا تیل اس کے جوانب سے گر رہا ہے۔ اس نے قاضی صاحب کی خچر کی لگام تھام کر کہا تمہارے پیغام کے اس قول (الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر) کے کیا معنی ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ دنیا تمہارے واسطے جنت ہے حالانکہ تم مومن محمدی ہو۔ اور میرے واسطے قید خانہ ہے حالانکہ میں کافر یہودی ہوں۔ قاضی نے جواب دیا کہ دنیا اور اس کی زینت و حشمت مومنوں کے لیے قید خانہ ہے بمقابلہ جنت اور درجات جنت کے جوان کے لیے تیار کیے گئے ہیں اورکافروں کے لیے جنت ہے بمقابلہ جہنم اور درکات جہنم کے جو ان کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ یہودی سمجھ گیا اور اسلام لایا۔ انتہیٰ۔
اخلاص کا مفہوم:
حضور علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ نماز میں اخلاص کیا چیز ہے۔ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اخلاص کے یہ معنی ہیں کہ نماز میں خیال رکھو کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو اتنا خیال ضرور رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جس حدیث شریف کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ حدیث جبرئیل ہے۔ جس میں اسلام و ایمان کی نسبت استفسار کے بعد حضرت جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں۔ فاخبرنی عن الاحسان۔ یعنی مجھے بتائیے کہ احسان و اخلاص کیا چیز ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں فرماتے ہیں: ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک (مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان) یعنی احسان سے مراد یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اُس کو دیکھ رہا ہے پس اگر تیرا یہ حال نہیں کہ گویا تو اُس کو دیکھ رہا ہے تو عبادت کر بدیں صفت کہ تو جانے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے انتہیٰ۔
اللہ تعالیٰ کی ندا:
حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر شب سب سے نیچے کے آسمان کی طرف نزول فرماتتا ہے جس وقت کہ رات کا اخیر کا تیسرا حصہ باقی ہوتا ہے۔ اور یوں پکارتا ہے:
من یدعونی فاتجیب لہ من یسألنی فاعطیہ من یستغفرنی فاغفرلہ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کون ہے کہ مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کرلوں۔ کون ہے کہ مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے عطا کروں۔ کون ہے کہ مجھ سے معافی مانگے تاکہ میں اسے معاف کردوں۔
حضور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت شاہ غلام علی صاحب دہلوی نے اس ندا کو چند بارسنا ہے۔ اور اس فقیر نے بھی دو تین بارسنا ہے۔ اس ندا کا وقت اکثر تین چار بجے کے مابین ہوتا ہے چنانچہ ایک دفعہ ہم اس وقت وظیفہ کر رہے تھے کہ آسمان پر پہلے ایک سیٹی کی سی آواز ہوئی پھر اس میں سے یہ الفاظ پیدا ہوئے۔ اے ہمارے بندے توکل وظیفہ کرنے والے!
توکل کی کیفیت:
فرمایا ہمارا توکل ایسا ہے جیسا کہ بچہ باپ کی گود میں ہوتا ہے۔ بچہ کو کسی طرح کا فکر نہیں ہوتا اور باپ کو اس کے سارے فکر ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اصل اصول توکل میں یہ ہے کہ حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ یعنی میں اپنے بندے کے ساتھ اُس کے گمان کے موافق برتاؤ کرتا ہوں۔ جیسا کہ گمان وہ میری نسبت رکھتا ہے۔ میں اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتا ہوں۔
حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے ؎
کسی ندانست کہ منزلگہِ مقصود کجاست
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے مے آید
حضور علیہ الرحمۃ نے اس شعر کے حل میں فرمایا کہ مقصود سے مراد خدا تعالیٰ ہے۔ جس کی جگہ معلوم نہیں کیونکہ وہ لامکانی ہے اور بانگِ جرس (گھنٹی کی آواز) سے مراد وحی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ وہ حدیث صحیح بخاری میں ہے اس میں مذکور ہے کہ حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے۔ آپ نے فرمایا:
احباناً یا تینی مثل صلصلہ الجرس وھو اشدہ علی فیفصم عنی وقدوعیت عنہ ما قال
گاہ گاہے مجھ پر وحی گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور وحی کی یہ نوع مجھ پر زیادہ سخت ہے۔ پس وہ مجھ سے منقطع ہوجاتی ہے حالانکہ میں اُس وحی سے یاد رکھتا ہوں اس چیز کو جو فرشتہ نے کہی۔
علم فقہ:
فرمایا علم ظاہری کے بغیر فقیری میں قدم رکھنا گمراہی ہے۔ کیونکہ نماز روزہ اور دیگر ارکان اسلام کا ادا کرنا اور ان کے حقائق وارد ہوکر ان میں سیر کرتے ہوئے دیدار الہی میں مستغرق ہونا اسی کا نام تو فقر ہے۔ رہا علم لدنی سو وہ خدا تعالیٰ کا انعام و فضل ہے۔ اور فضل و انعام اس پر ہوتا ہے جس پر خداراضی ہو۔ مگر وہ نافرمان پر راضی نہیں ہوتا پس جس نے ان ارکان کو ترک کیا اس پر وہ راضی نہیں تو اسے علم لدنی جو فضل و انعام ہے کیونکر حاصل ہو۔ پس پہلے ارکان اسلام کے مسائل مثل حلت و حرمت۔ جائز و ناجائز، سنت، مکروہ، مستحب، واجب و فرض سے خوب واقفیت حاصل کرے۔ پھر فقیری میں قدم رکھے۔
دستِ غیب کی روزی:
دست غیب کی روزی کی نسبت فرمایا کہ دست غیب کے سب عمل حرام نہیں۔ بلکہ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص عمل کے طریقہ پر کوئی اسم الٰہی پڑھتا ہے تو دو طرح کے خادم اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ ایک ملائکہ میں سے دوسرے جنات میں سے۔ جنات روزی لانے میں حرام و حلال کی تمیز نہیں کرتے اس واسطے جس طریقہ عمل سے جنات تابع ہوتے ہیں اس طریقہ سے عمل پڑھنا منع ہے اور اس طریقہ کی روزی حرام ہوتی ہے مگر فرشتے ہمیشہ حلال و طیب روزی تلاش کرتے ہیں اور کسی ایسے خزانہ سے جو کسی کی ملکیت نہ ہو لاتے ہیں ایسا عمل جائز ہے۔
حلال اور حرام:
جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب انبیٹھوی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوتوالی کی ملازمت کا ذکر آیا، حضور علیہ الرحمۃ فرمانے لگے اس کا حلال یا حررام ہونا تو مولوی جانیں۔ لیکن ایک مرتبہ حسب عادت میں نے مظفر علی خاں صاحب کے پاس کوتوالی میں قیام کردیا۔ شب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس قائم تھی۔ مجھ کو اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توکل شاہ کوتوالی میں ٹھہرا ہوا ہے، اسے اندر نہ آنے دو۔ میں فوراً مظفر علی خاں سے یہ ماجرا بیان کرکے اپنا بستر اُٹھا جنگل کو ہولیا۔ خدا جانے اس میں کیا حکمت تھی۔
درود شریف کی فضیلت:
ایک روز فرمایا کہ اور تمام عبادتیں بسبب کسی قصور کے رد ہوسکتی ہیں۔ مگر دورد شریف ایسی شے ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی ردنہیں ہوسکتا۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ قول سلف سے منقول ہے جس کی توضیح و تشریح ہم نے سیرتِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں کی ہے۔
علم تصوف:
فرمایا مرید پر پیر کا حق یہ ہے کہ گھر باردھن دولت غرض جو چیز مرید کی ملکیت میں ہے سب پیشوا کی ملک ہوجاتی ہے اور اس میں اصل باقاعدہ یہ ہے کہ مرید پیشوا کے سامنے اپنے آپ کو ایسا سمجھے جیسا مردہ بدستِ غسال۔ ایک فانی جان دینے سے وہ باقی جان آجاتی ہے جو کبھی فنا نہ ہو۔
پیر کا مرید پر حق:
پیر پر مرید کا حق یہ ہے کہ اول مرید کے واسطے جان کنی کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور خود مدد کرے کہ اُس کے دل میں نام الٰہی جاری ہوجائے۔ اگر مرید پر بیہوشی ہے تو نور کی تجلی وارد کرے تاکہ اُس کو علم توحید ہوجائے۔ اور شیطان کے دھوکہ سے بچائے کہ وہ ایمان سلب نہ کرسکے۔ دوسری منکر نکیر کے سوال کے وقت اللہ تعالیٰ سے جواب میں آسانی یا معافی کرادے۔ بلکہ سوال کے وقت پیر کی روح مرید کے پاس ہو تا کہ وہ گھبرا نہ جائے۔ تیسری پل صراط پر مدد کرے پھر سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت میں داخل کرے اور جنت میں پہنچادے۔ یہ ان مریدوں کا حق ہے جو پیشوا سے محبت رکھنےو الے اور ان کے وظائف کے پابند اور ان کے ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں باقی وہ مرید جو پیشوا کی ذات میں فانی ہوچکے ہیں ان کے حقوق کہنے سننے سے باہر ہیں۔ انتہا یہ کہ اللہ تعالیٰ سے واصل کردے۔
پیر کا مرتبہ:
ایک روز مجمع میں کسی شخص نے پوچھا کہ حضور! مرید پیر سے بڑھ بھی جاتا ہے؟ فرمایا: بعض مرید ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی سیر اتنی دور ہوتی ہے کہ پیر کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کہاں تک ہے چنانچہ سری سقطی علیہ الرحمۃ سے کسی نے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جنید مجھ سے بھی بڑھا ہوا ہے، پھر فرمایا کہ اب بھی ایسے ہیں۔ مگر مرید گو پیر سے بڑھ جائے لیکن پیر ہی رہتا ہے پیر کا وہی ادب و تعظیم اور مرتبہ باقی رہتا ہے۔
مرشد کی توجہ:
کسی نےعرض کیا کہ حضور! اکثر مرشد مریدوں کو خواب میں آکر ہدایت کرتے ہیں یا توجہ وغیرہ دیتے ہیں اس کا علم مرشد کو بھی ہوتا ہے یا نہیں، فرمایا کبھی مرشد کو علم ہوتا ہےا ور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ اگر خود مرشد کا ارادہ ہوتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے ورنہ مرشد کا لطیفہ خود مرشد کی صورت اختیار کرکے مرید کے لطائف وغیرہ کو توجہ یا ہدایت کیے جاتا ہے اور مرشد کو علم بھی نہیں ہوتا۔
روح سے افاضہ:
ایک روز ارشاد فرمانے لگے کہ ارواح سے افاضہ اور استفاضہ یقیناً جاری ہے۔ فقیر ایک مرتبہ مراقبہ میں مشغول تھا۔ ایک شخص کی روح جو کئی سو کوس کے فاصلہ پر تھی فقیر سے اس قدر فیض لے رہی تھی کہ فقیر تقریباً خالی ہو ہوجاتا تھا مگر فیض الٰہی نا متناہی ہے۔ اس سے خدا کا بندہ خالی نہیں ہوسکتا۔ فکر سے معلوم ہوا کہ مستفیض فقیر کا مرید ہے۔
ذکر کا جاری رہنا:
ایک مرتبہ فرمانے لگے سالک جس شغل یا ذکر کی کثرت زندگی میں کرتا ہے انتقال کے بعد بھی وہ جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ہم پانی پت میں تھے۔ خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی قدس سرہ کے مزار پر حاضر ہوکر مراقب ہوئے تو صاحب مزار پکار پکار کر اللہ اللہ کہہ رہے تھے ہم نے امیراللہ شاہ کو بھی یہ ذکر سنوا کر کہا کہ یہ زندگی کا شغل اب تک جاری ہے۔
فیض کا سلب ہونا:
ذکر خیر میں ہے کہ ایک روز آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا فقیر ایک دوسرے کا فیض سلب کرلیتے ہیں۔ فرمایا ہاں، کرلیتے ہیں۔ مگر وہی جو کم ہمت ہوں۔ کامل کسی کا فیض سلب نہیں کرتے۔ بلکہ دوسرے کو ترقی بخشتے ہیں۔ اس کے بعد آپ سے فیض مسلوب کے واپس لینے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا کہ اپنے پیشوا کے قلب کے نیچے اپنا قلب کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کا فیض بتوسط مرشد لے اور درود شریف پڑھے۔ فیض واپس آجائے گا اور ترقی ہوجائے گی اگر وہی فیض واپس لینا ہو تو اس کی ترکیب یہ ہے کہ سلب کرنے والے شخص کے قلب کے پیچھے اپنے پیشوا کا قلب اور اس کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب تصور کرکے درود شریف پڑھے اور کشش کرے تو وہی فیض بعینہ واپس آجائے گا اور فرمایا کہ اہل قبور کی حالت اس طرح ہے کہ جو بزرگ فیض دیتے ہوئے فوت ہوا وہ فیض دیتا ہی رہتا ہے اور جو فیض لیتے ہوئے مرگیا، اس کی قبر پر جو شخص جائے گا وہ اسی سے فیض لینا شروع کردے گا۔ اگر مرشد کامل کے فرمودہ وظائف کو پورے طور پڑھتا رہے تو بھی سلب شدہ فیض واپس آجاتا ہے اور ترقی ہوجاتی ہے پھر فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھنے والے کی نسبت کوئی سلب نہیں کرسکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے اُس کی ہر وقت پرورش ہوتی رہتی ہے۔
کرامت کا مفہوم:
ایک روز کسی نے عرض کیا کہ حضور! کرامت کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا: کرامت فعل اللہ تعالیٰ کا ہے۔ بندہ بیچ میں صرف واسطہ ہے۔ اولیاء اللہ سے جو کرامت ظہور میں آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے ظہور میں آتی ہے اولیاء اللہ جب تک ارادہ الٰہی معلوم نہیں کرلیتے تب تک اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اولیاء اللہ خدا کے پیارے ہوتے ہیں۔ ظہور کرامت سے وہ اپنے پیاروں کی قدر کرواتا ہے۔ لوگوں کو ان سے محبت ہوجاتی ہے اور ان سے ہدایت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے دوسرے یہ کہ ولی کی کرامت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ جب ولی سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیلی اور تباع ہیں اس قسم کی کرامت ظہور میں آتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بڑی شان ہے۔
قطبیت کی خبر:
ایک روز جناب مولوی محبوب عالم صاحب نے عرض کیا کہ حضور! کیا قطب کو اپنی قطبیت کی خبر بھی ہوجاتی ہے فرمایا کہ عقلمند پڑھا ہوا شخص جب قطب ہوتا ہے تو اس کو لباس پہنایا جاتا ہے اور عمامہ بندھوایا جاتا ہے۔ بعضوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے اور بعضوں کا ہاتف غیب سے آوازہ ہوجاتا ہے کہ یہ قطب ہوگیا۔ اور جو ان پڑھ مگر صالح و پرہیزگار ہو یا چھوٹے گاؤں کا قطب ہو ان میں سے بعضوں کو خبر بھی نہیں ہوتی مگر غوث کو تمام خبر ہوتی ہے کیونکہ فریاد رسی اس کا کام ہوتا ہے احکام الٰہی پہلے اس پر وارد ہوتے ہیں، پھر جہان میں نفاذ پاتے ہیں۔ قطب پر حروف مقطعات کھل جاتے ہیں قطب مدار تمام دنیا میں ایک ہوتا ہے اور اکثر وہ جنگل میں رہتا ہے۔
حکومت باطنی کی تلوار:
نقل ہے کہ حضور کی عادت مبارک تھی کہ بعض اوقات تمام ران پر ہاتھ نہ رکھا کرتے بلکہ کہنیوں کو اُٹھائے رکھتے جب دو زانو بیٹھتے اور ہاتھ دھوتے، تو زانو پر ہاتھ ٹکالیتے اور کہنیاں کھڑی رکھتے یعنی ران پر نہ لگنے دیتے، ایک روز پیر جی عنایت حسین لودہیانوی نے حضور سے اس کا سبب دریافت کیا، فرمایا: جب کوئی ولی قطب ہوجاتا ہے تو اس کو نوری شکل میں حکومت باطنی کی تلوار خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا ہوتی ہے وہ ہر وقت برہنہ رانوں پر رکھی رہتی ہے بعض وقت ایک تلوار ہوتی ہے لیکن اکثر دو تلواریں کھچی رہتی ہیں۔ اس واسطے ہم کو اپنے بازو اس سے الگ رکھنے پڑتے ہیں۔
انبالہ والا مست:
ایک روز کسی نے عرض کیا کہ حضور! اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام اولیاء اللہ کو ایک لقب عنایت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ کا بھی تو کوئی لقب ہوگا۔ فرمایا ہم مسکین جیسے آدمی ہیں، ہمارا لقب کیا پوچھتے ہو، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں تو ہمیں انبالہ والا مست کہتے ہیں۔ اور عرش کے اوپر ہمارا لقب حبیب الرحمٰن پکارا گیا ہے۔
منہ میں مٹھاس:
حضور شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وظیفہ پڑھتے ہوئے مزے لے لے کر لبوں کو ہلایا کرتے تھے۔ جناب مولوی سید ظہورالدین صاحب نے آپ سے سوال کیا کہ کیا یہ کوئی خاص بات ہے، آپ نے جواب میں فرمایا کہ جب ہم درود شریف یا کوئی ذات صفات کا اسم پڑھتے ہیں تو منہ میں گویا مٹھائی بھر جاتی ہے۔ اول سے آخر تک اس قدر کہ لب چسکے لیے جاتے ہیں۔
دو قسم کے طالب:
فرمایا: طالب دو قسم کے ہوتےہیں۔ ایک مرید دوسرے مراد، مراد وہ ہوتا ہے جس کے دل میں ابتدا ہی سے جذب اور محبت اللہ تعالیٰ کی ہو، ایسے شخص کے لیے کسی کا مل کے ہاتھ پر بیعت ہونا ضروری ہے، اور وہ بہت جلد واصل ہوکر اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور مرید وہ شخص ہوتا ہے جس کے دل میں پہلے سے جذب اور محبت اللہ تعالیٰ کی نہ ہو لیکن وہ کسی کامل کے ہاتھ پر بیعت ہوکر ذکرو شغل اور ریاضت و مجاہدہ کرتا ہوا بتدریج سلوک میں ترقی کرے، ایسا شخص بھی متقدمین اولیاء اللہ کے سے ریاضات و مجاہدات کرتا ہوا آخر میں واصل ہوکر محبوب بن جاتا ہے۔
سماع سے نفع:
ایک روز سماع کا ذکر ہو رہا تھا فرمایا جو لوگ صاحب حال ہوتے ہیں اور ان کو اس میں فنا ہوجاتی ہے ان کو سماع نفع دیتا ہے اور جو صاحب حال نہیں ہوتے ان کو وجد و سماع نفع نہیں دیتا۔
قبر اطہر کی مٹی:
جناب مولوی محبوب عالم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز علماء کا مجمع تھا، اور اس مسئلہ کا ذکر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں جو مٹی جسم اطہر سے لگی ہوئی ہے اس کا مرتبہ عرش معلے سے زیادہ ہے اور خودذات اقدس کا مرتبہ تو عقل بشر سے آگے ہے۔ اس پر ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جن و انس کو عبادت کے واسطے پیدا کیا ہے اگر عبادت کے یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تعریف کی جائے تو اس میں تو اللہ تعالیٰ کی کل مخلوقات شامل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں میری جس قدر مخلوق ہے وہ سب میری تسب یح کرتی ہے سو اس میں جن و انس بھی آگئے، ان معنی کے لحاظ سے جن و انس کی کوئی خصوصیت نہ ہونی چاہیے تھی، حالانکہ اللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ فرماتا ہے کہ نہیں پیدا کیا میں نے جن و انس کو مگر واسطے عبادت کے۔ پس معلوم ہوا کہ اس جگہ عبادت کے معنی تسبیح و تہلیل نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نہیں پیدا کیا میں نے جن و انس کو مگر واسطے معرفت کے۔ یعنی عبادت سے مراد معرفت والی عبادت ہے۔ او رمراتب قرب کا مدار معرفت پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت جن و انس ہی کو عطا فرمائی ہے، ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عقل و معرفت ایسے درجہ کمال پر تھی کہ نہ پہلے کسی میں ہوئی اور نہ آئندہ کسی میں ہوگی، اورومزید بریں یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیات النبی ہیں۔ اور عرش معلیٰ کو معرفت نہیں تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ عرش کیا تمام ملکوت السموات والارض سے بہت زیادہ ےہ اور اس قدر ہے کہ کسی مخلوق کی وہاں تک رسائی نہیں ہوسکتی، اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت کی وجہ سے اس خاک پاک میں بھی حیات و معرفت آگئی۔ کیونکہ جو حیات و معرفت والے کے ساتھ اتصال رکھے وہ بھی حیات و معرفت والا ہوجاتا ہے اسی حیات و معرفت کے باعثِ اس خاک پاک کا مرتبہ عرش سے زیادہ ہوگیا کیونکہ عرش میں معرفت نہیں، اور اس خاک میں بوجہ صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معرفت والی حیات آگئی جیسا کہ ستون حنانہ میں آگئی تھی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر آپ کے فراق میں رویا تھا اور جیسا کہ ابوجہل کے ہاتھ میں کنکروں میں وہی معرفت والی حیات آگئی تھی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر آپ کی رسالت کی شہادت دی تھی، اسی طرح اس خاک پاک میں معرفت آگئی اور مرتبہ اک مدار معرفت پر ہے۔ پس معرفت والے کا مرتبہ بے معرفت والے سے اعلیٰ کیوں نہ ہو، یہ سن کر تمام علماء حیران رہ گئے اور بالاتفاق کہنے لگی کہ یہ علم لدنی کی نہریں ہیں۔
مسجد حرام کا قبلہ ہونا:
ایک شخص نے آپ سے عرض کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا بقعہ شریف عرش معلے سے بدرجہا افضل و اعلیٰ ہے۔ تو مسجود الیہ آپ کا مرقد مبارک کیوں نہ ہوا۔ مسجود الیہ افضل و اولیٰ ہوتا ہے۔ اور شرط اولویت و افضلیت آپ کے بدن مطہر میں بدرجہ اتم ہے آپ نے تھوڑی دیر درود شریف پڑھ کر فرمایا کہ کعبہ شرف کی دیواریں مسجود الیہا نہیں بل کہ اس فضا کی جگہ تجلیات ذاتی کا مورد ہے۔ اس کے احاطہ کو سمت استقبال ہے اور تجلیات اس ذات کی ہیں۔ جس پر حقیقت محمدیہ عاشق ہے ذات مسجود اور تجلی مسجود الیہ ہے اور اس تجلی کا مورد یہی کعبہ شریف کی جگہ ہے اور حقائق میں حقیقت محمدیہ حقیقت کعبہ پر عاشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اول ہی محبت اس قبلہ کی طرف تھی چنانچہ کئی دفعہ آپ کو مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا، مگر مسجد حرام ہی کی طرف آپ کی محبت رہی، آخر الا مر حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے موافق یہی قبلہ آپ کا بنا۔
مومن کی پختگی:
ایک روز فرمایا کہ مومن اس وقت پختہ ہوتا ہے جب اپنے عیوب کو خود دیکھے اور خود ان پر سزا مقرر کرے، اور ان کے نکالنے کے درپے رہے۔ جوں جوں وہ ان عیوب کو نکالتا رہے گا امن بڑھتا جائے گا اسی اثناء میں ایک عورت چھاج کے ساتھ اناج پچھوڑنے لگی، حضور اسے دیکھ کر فرمانے لگے کہ چھلنی کی نسبت یہ بڑی اچھی چیز ہے یہ اپنے میں سے خراب اور بری چیز کو نکالتا اور اچھی اور عمدہ کو رکھتا ہے اور چھلنی اچھی اور نفیس چیز کو اپنے میں سے نکال دیتی اور بری کو اپنے اندر رکھتی ہے فقیر کو ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ یہ چھاج ہے۔ چنانچہ کسی فقیر کا مقولہ ہے۔
دوہرہ
چھانن کی مت چھوڑ دے چھاجن کی مت لے
سادھو کی مت چمٹا ہے جو چن چن گن کولے
فکر کی اہمیت:
آپ فکر کو ذکر پر ترجیح دیتے اور فکر سے مراد مراقبہ لیا کرتے۔ فرماتے تھے کہ اگلے مقامات میں ذکر رہ جاتا ہے لسانی ہو یا قلبی، مگر فکر ساتھ ہی رہتا ہے پھر فرماتے کہ فکر کو فکر سے صفائی ہوتی ہے۔ ذکر کرنے کے بعد فکر کرے، پھر فرماتے ؎
تسبیح مالا سب رہے انحد بھی رہ جائے
سرت سہاگن نامرے جو تن میں رہے سمائے
وضو کے بعد خوشبو:
جناب مولوی سراج الدین صاحب نے عرض کیا کہ وضو کے بعد مجھے خوشبو مثل برنج پلاؤ آتی ہے، فرمایا کہ جیسے باسمتی کے چاول، پھر فرمایا کہ جس طرح کلی (غنچہ) کی خوشبو اندر بند ہوتی ہے۔ جب وہ گل ہوکر کھلتا ہے تو خوشبو آتی ہے۔ اسی طرح دل کے اندر نور و خوشبو سب کچھ ہے، تمہارا دل کثرت توجہ اور درود خوانی سے کھل گیا ہے۔ اس واسطے خوشبو آتی ہے۔
بابرکت غریبی:
بڑی بابرکت اور مبارک وہ غریبی ہے۔ جس کے ساتھ خدا کی یاد ہو، جس غریبی و تنگی کے ساتھ فسق و فجور یا کفر مل جائے، وہ خدا کے غضب کی نشانی ہے، کیونکہ دنیا تو گئی ہی تھی دین بھی ہاتھ سے جاتارہا۔
قبولیت کی نشانی:
جب بندہ کوئی کلام پڑھتا یا دعا مانگتا ہے تو جن لوگوں پر انکشاف نہیں، ان کے واسطے قبولیت کی نشانی یہ ہے کہ اس کے پڑھنے یا دعا مانگنے میں لذت آوے اور خوب دل لگے۔ جب یہ بات حاصل ہو تو سمجھ لے کہ میری دعا قبول ہوگئی یا قبول ہونے لگی ہے اور جن لوگوں پر انکشاف ہوتا ہے ان پر قبولیت کی تجلی جو لذت و سرور والی ہے وارد ہوجاتی ہے اور وہ یہ دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہوگئی۔
ولایت عیسوی و موسوی کا مفہوم:
ایک دن مولوی فضل الدین صاحب گجراتی مصنف کتاب انوار نعمانیہ حاضر خدمت تھے، انہوں نے سوال کیا، کہ ولایت عیسوی و موسوی کے کیا معنی ہیں، حالانکہ تمام اولیاء اللہ امت محمدیہ میں سے ہوتے ہیں، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ولایت محمدی سب ولایتوں کی جامع ہے کیونکہ جتنے کمالات اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو فرداً فرداً عطا کیے ہیں۔ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں جمع ہیں۔ پس اگر کسی ولی کو ولایت موسوی یا عیسوی حاصل ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فیض ہے۔ یہ مت سمجھو کہ جن اولیائے کرام پر نسبت محمدی کے سوا کوئی اور نسبت غالب ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہیں یا اور شریعت پر ہیں۔
توجہ کی کیفیت:
مولوی خلیل الرحمٰن صاحب ملفوظات توکلی میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ اکثر اولیاء اللہ استغراق و بیخودی میں رہتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام شامل مخلوقات رہتے ہیں اس کا کیا سبب ہے، ارشاد ہوا، کہ اللہ جل جلالہ انبیاء علیہم السلام کو ایسی قدرت دیتا ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ متوجہ الی اخلق رہیں اس وقت بھی کامل طور سے واصل جناب الٰہی رہیں۔ جس طرح ان کی توجہ مخلوق کی طرف کامل ہوتی ہے اسی طرح وہ حالت تعلیم امت میں خدا کی طرف متوجہ رہتے ہیں مخلوق کی طرف متوجہ ہونا ان کو توجہ الی اللہ سے نہیں روکتا، برخلاف اولیاء اللہ کے کہ وہ جب جناب باری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس طرف سے بالکل بے خبر ہوجاتے ہیں۔
توکل کا مفہوم:
ایک روز کسی نے آپ سے توکل کے معنی پوچھے، آپ نے فرمایا کہ توکل کے یہ معنی ہیں کہ مخلوق سے غنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ جب یہ بات پک جاتی ہے تو توکل پختہ ہوجاتا ہے پھر اگر اسباب بھی مہیا کرے تو توکل کا ثواب مل جاتا ہے اور توکل کے خلاف نہیں ہوتا خواہ کتنے ہی اسباب مہیا کرے، مگر فقیروں کا توکل اور ہی ہے ان کا توکل اسباب کو توڑتا رہتا ہے جہاں کوئی سبب پیدا ہو انہوں نے فوراً اس کو توڑا تب ان کو توکل پختہ ہوتا ہے ماسوا سے امیدیں منقطع ہوکر ذات پر لگ جاتی ہیں۔
معصوم اور محفوظ:
ایک روز فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ رحمہم اللہ محفوظ۔ معصوم کے یہ معنی ہیں کہ گناہ کی طاقت ان کے اندر رکھی ہی نہیں جاتی اور محفوظ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ کی طاقت ان کے اندر ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کردیتا ہے اور حفاظت الٰہی ان کے شامل حال ہوجاتی ہے پھر ان سے ارادتاً کوئی صغیرہ یا کبیررہ گناہ صادر نہیں ہوتا۔
ابدالوں کا اڑنا:
ایک روز ابدالوں کا ذکر آیا، لوگوں نے کہا کہتے ہیں کہ ابدال اڑا کرتے ہیں، جب ان کے پر نہیں، تو وہ اڑتے کیسے ہیں۔ بغیر پرکے تو کوئی اڑ نہیں سکتا، آپ نے فرمایا، ہاں ہم نے بھی دیکھا ہے، ایک دفعہ دہرہ دون کے پہاڑ سے ابدال ہمارے پاس آیااور ہوا میں ہاتھوں کو ہلاتا ہوا اڑا چلا آتاتھا جس طرح لوگ دریا میں تیرا کرتے ہیں ابدالوں کا اڑنا سچ ہے، ہم نے یہ اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اور وہ مدت تک ہمارے پاس آتا رہا۔
وحدت الوجود و شہود:
جناب مولوی سراج الدین صاحب لکھتے ہیں کہ کسی نے مرشد برحق سے سوال کیاکہ وحدت وجود و شہود میں کون سی حق ہے فرمایا کہ دونوں حق پر ہیں، اکثر اولیاء اللہ مثل خواجہ بزرگ اجمیری اور خواجہ نقشبند بخاری اور مولانا جامی وغیر رحمہم اللہ تعالیٰ وجودی گزرے ہیں اور شیخ ابوالحسن خرقانی اور علاء الدولہ سمنانی اور مجدد الف ثانی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ شہودی ہیں۔ اگرچہ فقیر پر بھی حالت وحدت وجود طاری رہی ہے۔ مگر ساڈا (ہمارا) مشرب شہودی ہے۔ یہ دونوں حال ہیں نہ محض قال۔ اس کی مثال یہ فرمائی کہ اگر کوئی شخص سبز یا شربتی عینک آنکھوں پر لگائے تو اسے تمام چیزیں سبز یا شربتی نظر آئیں گی حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جب وہ عینک آنکھوں پر سے اتار دی جائے تو وہی معاملہ ہے اسی طرح اولیاء کو غلبہ حال میں کثرت (موجودات خارجیہ) نظر نہیں آتی۔ وحدت ہی نطر آتی ہے۔ دیگر مثال یہ بیان فرمائی کہ دن کے وقت آفتاب کی شعاع کے سامنے ستارے نطر نہیں آتے حالانکہ موجود ہیں۔ اسی طرح اولیاء اللہ کو آفتاب الٰہی کے نور کے سامنے کثرت نظر نہیں آتی کامل نظر لوگ وہ ہیں۔ جو کثرت میں وحدت کو دیکھیں جیسا کہ کوئی شخص دن میں آ فتاب کو بھی دیکھے اور ستاروں کو بھی فرمایا کہ بعض اولیاء عکس کو عین سمجھتے ہیں۔ حالانکہ عکس عین نہیں ہے چنانچہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں۔ ؎
عکس روئے تو در آئینہ جام افتاد
عارف از پر تو مے در طمع خام افتاد
فرمایا کہ حافظ شیرازی بھی شہودی تھے۔ کیونکہ وہ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ خدا کے نور کا عکس جب عارف کے دل کے پیالہ میں چمکا۔ تو اس نے جانا کہ میں نے اصل کا مشاہدہ کیا حالانکہ وہ عکس ہے۔
فرمایا کہ وحدت وجود والے اس دیدمیں معذور ہیں۔ مجنون عامری کو دیکھیے کہ ایک سانولی لیلیٰ کے عشق میں ایسا مستغرق ہوا کہ ہر شخص کو حتی کہ اپنے والد کو بھی لیلیٰ ہی گمان کرتا تھا۔ غرض اولیاء وجودی عکس کو عین سمجھتے ہیں۔ مگر وہ معذور ہیں۔ اور اولیاء شہودی عکس کو عکس جانتے ہیں اور یہی حق ہے اور یہی تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا مشرب رہا ہے۔
شعر کا مفہوم:
ایک بار قصبہ شاہ آباد میں جناب مولوی سراج الدین صاحب نے حضور علیہ الرحمۃ سے پوچھا کہ خواجہ بزرگ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس شعر کا کیا مطلب ہے۔
من دُرے بودم نہاں در قعرِ بحرِ لم یزل
عشق غواصانہ ام آورد بیراں زاں محل
فرمایا در سے مراد روح ہے، اور بحرِ لم یزل سے مراد دریائے تجلی صفات ہے۔ عشق کا وہاں سے لانا اشارہ ہے طرف حدیث قدسی کنت کنزاً مخفیا فاجبت اعراف فحلفت الخلق لاعرف۔ مراد خواجہ بزرگ بزرگ کی یہ ہے کہ میری روح (ملکہ سب روحیں) تجلی صفات کے دریا میں مخفی تھی۔ خدا کو جو محبت ظہور ہوئی تو وہ حب ہم کو وہاں سے نکال لائی۔
۲۹۔ جناب مولوی سراج الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت میاں صاحب قبلہ کے ہمراہ چھاونی انبالہ میں تھا ایک طالب علم نے امتحاناً آپ سے دریافت کیا کہ اس شعر مولانا کے کیا معنی ہیں؟ ؎
جملہ معشوق است عاشق پردہ
زندہ معشوق است عاشق مردہ
فرمایا کہ مولوی سے پوچھ میں نے عذر کیا تو آپ کو جوش آگیا، فرمایا کہ جملہ یعنی کل والا (خدا تعالیٰ) معشوق ہے اور کثرت جو عاشق ہے حجاب ہے وہ معشوق زندہ ہے کہ الحی القیوم اُس کی صفت ہے اور عاشق یعنی کثرت فانی ہے۔
۳۰۔ جناب مولوی خلیل الرحمٰن صاحب نے لکھا ہے۔ کہ ایک دن ارشاد ہوا۔ کہ اپنے کمال پر نظر مت کرو۔ بلکہ یہ سمجھو کہ جو کچھ کمال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ پھر یہ حکایت بیان فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ کو حکم دیا۔ کہ جو چیز سب میں بری ہو۔ وہ ہمارے پاس لاؤ۔ یہ اس تلاش میں چلے۔ اور ان کو آدمی کا پاخانہ سب سے برا معلوم ہوا۔ چنانچہ گندگی اٹھا کر لے چلے اور چاہا کہ جناب باری میں پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس گندگی کو زبان عطا فرمائی۔ گندگی بولی۔ صاحب میں وہ چیز ہوں کہ جس کو آپ بازار سے گراں قیمت پر خرید کر کپڑے میں باندھ سر پر رکھ کر لائے۔ پھر اسے پیسا پکایا۔ نہایت رغبت سے مزے لے لے کر کھایا۔ لیکن آپ کے پیٹ میں رہنے سے میرا یہ حال ہوگیا کہ اب آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ حضرت! یہ تو آپ کی صحبت کا اثر ہے۔ ورنہ میں تو وہی ہوں۔ یہ سن کر وہ بزرگ نہایت شرمندہ ہوئے اور جناب باری عزاسمہ میں عرض کیا۔ کہ یا اللہ! مجھ سے زیادہ بری چیز دنیا میں کوئی نہیں۔ حضور کا یہ بیان کچھ ایسا تھا۔ کہ حاضرین جلسہ زار زار روتے تھے۔ ہر شخص پر رقت طاری تھی۔
جلالی اور جمالی:
جناب مولوی سراج الدین صاحب نے عرض کیا۔ کہ اللہ الصّمد کے ورد کے وقت نور مثلِ قرص خورشید نظر آتا ہے اور بوقت درود خوانی مثل قمر۔ فرمایا کہ اللہ الصّمد جلالی ہے اور شمس بھی جلالی۔ اور درود شریف جمالی اور نور قمر بھی جمالی ہے۔ لہذا مناسب نور نظر آتا ہے۔
شعر کے معنی:
مولانا روم فرماتے ہیں۔ ؎
ہفتصد و ہنقاد قالب دیدہ ام
ہمچو سبزہ بارہا روئید ام
بقول جناب مولوی سراج الدین صاحب حضور نے اس شعر کے حل میں فرمایا۔ کہ اس شعر کے ظاہر معنے سے جو لوگ تناسخ نکالتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ بندہ مقام فنا میں آفتاب الٰہی کے سامنے گیا اور محو ہوگیا جیسا کہ سایہ آفتاب کے سامنے ہوا تو گم ہوا۔ اور جب آفتاب سے ذرا اوٹ میں ہوا۔ تو وجود پکڑا۔ اسی طرح مولانا فرماتے ہیں۔ کہ ہمارا وجود مقام فنا میں اکثر بار معدوم ہوا اور پھر موجود ہوا ہفتصد سے مراد کثرت ہے کہ نہ کہ عددِ معین۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی قدس سرہ نے ارشاد الطالبین میں ایسا لکھا ہے۔ کہ ولایت صغریٰ میں سالک کی سیر ظلال صفات میں ہوتی ہے۔ اس سیر میں صوفی جس ظل پر پہنچتا ہے۔ اپنے تئیں اس میں فانی و مستہلک اور اس کے وجود سے باقی پاتا ہے۔ بقول حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمۃ مولانا روم کے شعر زیر بحث کے یہی معنی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
شعر کی تحقیق:
جناب مولوی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی لکھتے ہیں۔ کہ ایک روز فرمانے لگے۔ کہ مولوی! حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کی طرف اس شعر کو منسوب کرتے ہیں۔ ؎
پنجہ در پنجہ خدا داریم
ماچہ پروائے مصطفےٰ داریم
ہم یقیناً نہیں کہہ سکتے کہ یہ شعر حضرت مجدد قدس سرہ کا ہے۔ بالفرض اگر ہو۔ تو مولوی! اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں۔ کہ ہم خدا کے ساتھ خاص تقرب رکھتے ہیں۔ مگر ہماری کیا حقیقت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت اور امداد کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ماچہ ؔ کے معنی ہیں ہم ہیچ اور ناچیز ہیں۔ پروائے مصطفےٰ داریم۔ یعنی حضور ہی کا صدقہ ہے۔ جو کچھ قرب الٰہی ہمیں حاصل ہے وہ حضور ہی کے طفیل سے ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! مطلب صاف ہوگیا۔ آپ خوش ہوئے۔
حیرت کی کیفیت:
ایک دفعہ جناب مولوی سراج الدین صاحب نے سوال کیا۔ کہ مولانا نیاز احمد چشتی بریلوی کے اس شعر کے کیا معنی ہیں؟ ؎
واہ گرو نے خوب سمجھائی
سرسوں پھولی آنکھوں میں
فرمایا کہ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک ابتدائی اور وہ یہ کہ مرشد نے ایسا ذکر و شغل بتایا۔ جس سے لطیفہ قلب کا نور زرد نظر آنے لگا۔ دوسرے انتہائی معنی یہ ہیں کہ اس سے حیرت مراد ہے۔ یعنی انتہائی مقام میں ایسا نور بے رنگ محیط نظر آیا کہ حیرت ہوگئی جیسا کہ سرسوں کے پھول دیکھنے سے حیرت ہوتی ہے۔
دونوں میں تطبیق:
آپ سے دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں تطبیق کس طرح ہے۔
۱۔ مَنْ عَرَفَ اللہَ کُلَّ لِسَانُہٗ۔
جس نے اللہ کو پہچانا۔ اس کی زبان گونگی ہوگئی۔
۲۔ مَنْ عَرَفَ اللہَ طَالَ لِسَانُہٗ۔
جس نے اللہ کو پہچانا۔ اس کی زبان دراز ہوگی۔
فرمایا کہ درازی زبان یعنی بہت بولنا اور اسرار کا ظاہر کرنا تجلی (ظلال) صفات میں ہے۔ جب تک سالک کو ذات تک وصول نہ ہوگا۔ بہت بولے گا۔ اور افشاے راز کرے گا۔ گنگئی۔ زبان اور کم بولنا اور اسرار کا نہ کھولنا تجلی ذات میں ہے۔ یعنی جس کو ذات کی خبر ہوئی وہ مقام جہل و حیرت میں ہوتا ہے۔ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ پس درازی لسان در ظلال بود و گنگی زبان فوق مراتب ظلال است فعل بودیا صفت اسم بودیا مسمے۔ (مکتوبات شریف۔ دفتر دوم۔ مکتوب ۵۸)۔ مولانا نظامی فرماتے ہیں۔
ستانی زباں از رقیبانِ راز
کہ رازت بمردم نگویند باز
افضل اور عمدہ طریقہ:
ایک روز کسی شخص نے ذکر کیا۔ کہ جن لوگوں کا کھانا پینا چھوٹ گیا ہو۔ وہ بہت ہی اعلیٰ درجہ والے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جب وہ تجلی جو ملائکہ پر وارد ہوتی ہے کثرت عبادت کی وجہ سے فقیر پر نازل ہوجاتی ہے۔ تو اس کی غذا وہی نور ہوجاتا ہے جو ملائکہ کی غذا ہے اوراسے کھانا کھانے کی ضروت نہیں رہتی۔ صفات ملکوت اُس میں آجاتی ہیں۔ اس سے پہلے کوئی فقیر کھانے کو نہیں چھوڑسکتا۔ مگر افضل اور عمدہ طریقہ یہی ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کرام اولیاء اللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نہ چھوڑے۔ کیونکہ ان سب نے کھایا بھی ہے اور عبادت بھی کی ہے۔
شعر کا مفہوم:
جناب قاری سید اکرم حسین صاحب لکھتے ہیں۔ کہ ایک مرتبہ کمترین نے حضرت صاحب سے حضرت بو علی قلندر رحمۃ اللہ پانی پتی کے اس شعر کا مطلب دریافت کیا۔ ؎
انبیا و اولیا یک جان و تن
ذاتِ شاں باشد خدا بشنوز من
یہ سن کر اول تو یہ فرمایا۔ کہ میاں! قلندر کے کلام کو میں کیا سمجھ سکتا ہوں۔ قلندر کے کلام کو تو کوئی قلندر ہی سمجھے۔ اس کے بعد دو منٹ سرنگوں ہوکر زبان مبارک سے ارشاد فرمایا۔ کہ میری سمجھ میں تو اس کا مطلب یہ آتا ہے۔ کہ اگرچہ بظاہر انبیاء و اولیا ایک جان نہیں ہوسکتے مگر باعتبار حقیقت اصلی کے عالم حقیقت میں انبیاء و اولیاء ایک ہی جان و تن تھے۔ ہاں البتہ خدا کے علم و ارادہ میں بلحاظ مراتب ضرور فرق تھا۔ کہ میں ان کو انبیاء بناؤں گا اور ان کو اولیا کروں گا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کن فرمایا۔ تو بتدریج ظہور میں آتا رہا۔ جو کچھ قیامت تک ظہور میں آتا رہے گا۔ وہ سب کچھ اسی ایک کلی کے افراد ہوں گے۔ رہا دوسرے مصرع میں جو قلندر صاحب نے انبیاء و اولیا کی ذات کی بوجہ مغلوب الحال ہونے کے خدا فرمایا ہے۔ اس کو ہم بلحاظ ادب غلط تو نہیں۔ کہہ سکتے۔ مگر ہاں سکرت کا کلام ہے۔ جس کی تاویل ہوسکتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مرتبہ جمع میں بحالت سکرات انہوں نے عکس کو عین کہہ دیا ہے۔ ورنہ خدا اس سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ تک رسائی:
ایک روز ارشاد فرمایا۔ کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے۔ کہ میں خدا تعالیٰ تک پہنچ گیا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طناب تک نہ پہنچ سکا۔ اس پر ایک عالم نے سوال کیا۔ کہ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے بھی آگے ہیں۔ فرمایا جب اللہ تعالیٰ کی صفت علمی نے ظہور فرمایا۔ تو نور کا بے تھاہ دریا موجیں مارنے لگا۔ پھر اس صفت علمی کی تجلی کے نور سے تمام انبیاء علیہم السلام کی پاک روحیں پیدا کی گئیں۔ اس نور کے بے تھام دریا کا نام حقیقت محمدیہ [۱] ہے۔ حضرت بایز بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ کی مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ سے یہی حقیقت محمدیہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بھی یہی حقیقت محمدیہ ہے۔ جس کا نام تعین اول ہے۔ یہاں سوائے ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ولی یا امتی کا تو کیا ذکر انبیائے مرسلین کا بھی گزر نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں سب سے اعلیٰ مقام یہی ہے۔ باقی رہا اللہ تعالیٰ کا پانا اور اس کی ذات کا وصل ہونا۔ سو اس کی حقیقت یوں ہے۔ کہ عرش کے اوپر عالم امر میں اللہ تعالیٰ کے قرب میں ہر انسان کی ایک حقیقت موجود ہے۔ اور ہر شخص کو اپنے اپنے درجہ اور استعداد کے موافق اسی حقیقت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معیت حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وُھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں ہو۔ پس ہر ولی اپنی اسی حقیقت اور معیت کےساتھ اللہ تعالیٰ سےواصل ہوتا ہے۔ مگر حقیقت محمدیہ و احمدیہ جو مقامات قرب میں سب سے اعلیٰ مقام اور بہت ہی دور ہے اس مقام کو حاصل کر کے واصل ہونا بہت محال ہے۔ اس مقام میں انبیاء علیہم السلام کا ہی جب گذر نہیں۔ تو پھر اولیاء اللہ اور دیگر امتی لوگوں کا کیا ذکر ہے کہ وہاں پہنچ سکیں۔
[۱۔ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پہلے ظاہر ہواہ حقیقت محمدی صفت العلم ہے۔ پھر ظاہر ہوا کہ شان العلم ہے۔ پھر شان جامعہ۔ بعد ازاں ظاہر ہوا کہ تعین اول تعین وجودی ہے۔ سب سے آخر منکشف ہوا کہ تعین اول تعین حبی ہے۔ جس پر حدیث قدسی کنت کنزاً مخفیا شاہد ہے۔]
دُعا کی کیفیت:
جناب مولوی سراج الدین صاحب لکھتے ہیں۔کہ ایک روز میں نے حضرت صاحب کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد میں نے یوں دعا مانگی۔ ’’اَ للّٰھُمَّ حَدِّقْ قَلْبِیْ بِنَارِ عِشْقِکَ۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی! آج تو نے چنگی (اچھی) دعا مانگی۔ میں نے عرض کیا۔ کہ آپ نے کیوں کر جانا۔ فرمایا۔ کہ تم نے یہی کہا تھا۔ کہ اے میرا دل عشق کی آگ میں ساڑدے (جلادے)۔ اکثر فرمایا کرتے تھے۔ العلم نکتۃ۔
صاحب کمال:
۴۰۔ ایک روز کسی نے عرض کیا۔ حضور! فنافی الشیخ کس قدر فائدہ دیتا ہے۔ فرمایا۔
دوہرہ
پیر نگر کو جائکے نبی نگر نوں جا
نبی نگر میں بیٹھ کے روشن یار کاپا
اور ارشاد فرمایا۔ کہ جلدی فائدہ تو یہی دیتا ہے۔ اور یہ بہت آسان اور جلدی واصل ہونے کا طریقہ ہے۔ کیونکہ جب پیشوا کا تصور پختہ ہوجاتا ہے۔ تو کمالات اور تجلیات جو پیشوا پر بالا صادقہ وارد ہیں۔ وہ بوجہ اس کی محبت کے بالتبع اس پر بھی وارد ہونے لگتی ہیں۔ اور پیشوا کے ساتھ ساتھ اس کی بھی ترقی ہوتی جاتی ہے۔ تصور کو یہاں تک پکانا چاہیے۔ کہ تمام حرکات و سکنات نشست و برخاست غرض ہر فعل میں پیشوا کی ادائیں آجائیں اور آخر کار پیشوا کی صورت کے مشابہ ہوجائے۔ اسی سے پھر آگے کا رستہ کھل جاتا ہے۔
صاحب کمال:
ایک دفعہ ایک صاحبزادہ صاحب (شاہ ابوالخیر دہلوی؟) حضرت مجدد الف ثانی کی اولاد میں سے چھاؤنی انبالہ تشریف لائے۔ اور حضور علیہ الرحمۃ کو بلایا۔ آپ بپاس ادبِ مرشداں پیدل ان کی خدمت میں تشریف لے گئے۔ صاحبزادہ صاحب نے آپ سے پوچھا۔ کہ شاہ صاحب! یہ جو ایک نور کا دریا ہوتا ہے، جس میں تمام زمین اور جہان کی تمام اشیاء، ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ کیا اس تک آپ کی رسائی ہوچکی ہے۔ حضور نے فرمایا۔ کہ میاں صاحبزادے! یہ تو غصری تجلی عالم خلق کی ہے۔ جو اس فقیر پر اول ہی اول کھل چکی تھی۔ پوچھنا ہو۔ تو عرش سے اوپر عالم امر کی کوئی بات دریافت فرمائیے۔ پھر آپ نے مقامات بیان کرنے شروع کیے۔ صاحبزادہ صاحب نے سن کر دو نفل شکریہ کے ادا کیے اور کہا کہ شکر ہے اس مالک کا کہ ہمارے باپ دادوں کے سلسلہ میں ایسے صاحب کمال موجود ہیں۔
ایمان اور تندرستی:
فرمایا۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکریہ ادا کرنے چاہیے۔ سب سے بڑا احسان ایمان اور تندرستی ہے۔ جس کی قدر انسان کو معلوم نہیں۔ اور مفت اپنی عمر عزیز کو کھوتا ہے۔
کلمہ توحید کی برکت:
ایک دن ارشاد ہوا۔ کہ جب ہم کلمہ توحید پڑھتے ہیں۔ توشیطان بھاگتا معلوم ہوتا ہے۔
دنیا کی یاد:
فرمایا۔ کہ ایک درویش قبرستان میں گئے۔ جس وقت دنیا داروں کی قبروں سے گزرے۔ تو ان کو ’’ہائے ہائے دنیا‘‘ کی آواز آئی۔ جب فقراء اور شہداء کے مزاروں میں سے گزر ہوا۔ تو وہاں بھی یہی صدا بلند تھی۔ تعجب ہوا کہ یہ کیا بات ہے۔ خدا نے ان کو بذریعہ الہام بتایا۔ کہ دنیا دار تو اس واسطے دنیا کو روتے ہیں۔ کہ اس مردار نے ان کو کسی کام کا نہ چھوڑا۔ اور فقرا و صلحا دنیا کو اس واسطے یاد کرتے ہیں۔ کہ افسوس چندے اور دنیا میں رہتے تو کچھ اور کرلیتے۔
مومن کی نشانی:
خطرہ سے دل پلید ہوتا ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ اس کے زائل ہونے کی ترکیب یہ ہے۔ کہ اولیاء اللہ کی صحبت حاصل کرے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہو۔ پیشوا کے تصور سے بھی زائل ہوجاتا ہے اور دعا مانگنے سے بھی۔ خطرہ ایمان والے کو آتا ہے۔ بے ایمان کو کبھی نہیں آتا۔ اور خطرہ کو برا جاننا بھی مومن کی نشانی ہے۔
فقیر کے لیے لازم:
فقیر پر لازم ہے کہ جو کام کرے۔ استقامت کے ساتھ کرے۔ ایک استقامت سو کرامت سے بہتر ہے۔ جب خدا تعالیٰ کو یاد کرنے لگے۔ تو جب تک واصل باللہ نہ ہوئے۔ کسی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ فقیر پر صبر حرام ہے اور حرص فرض۔ صبر کے معنی ہیں۔ ٹھہرنا ایک تجلی پر ٹھہرنا مذموم ہے۔ یہاں حرص اور طمع ہی فرض ہے۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے دیدار اور وصل کی حرص بڑھاتا رہے اور محبت الٰہی کا ہر وقت گرویدہ رہے۔ ؎
سن اے طالب مولے والے ول مولےٰ دی ہودیں
دم دم قدم اگیرے رکھیں ٹھیر نہ کتے کھلوویں
استفار کا مفہوم:
ایک روز استغفار کے معنے کے بارے میں ذکر تھا۔ کسی نے عرض کیا۔ حضور! اولیاء اللہ جب گناہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ذکر و شغل کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان پر وارد ہوجاتی ہے۔ پھر وہ جو استغفار کرتے ہیں۔ کون سے گناہ کرتے ہیں۔ فرمایا۔ ہر مقام میں فقیر کا استغفار علیحدہ ہوتا ہے۔ فقیر شروع شروع میں جب اللہ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے تو اس وقت تو وہ اپنے گزشتہ گناہوں سے استغفار کرتا ہے۔ پھر جو آگے ترقی کرتا ہے۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں کمی واقع ہونے پر استغفار کرتا ہے۔ پھر اس سے بھی جب ترقی کرتا ہے۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں کمی واقع ہونے پر استغفار کرتا ہے۔ پھر اس سے بھی جب ترقی کرتا ہے۔ تو اپنے قصور ہمت پر استغفار پڑھتا ہے۔ آخر اسی طرح ہر مقام میں علیحدہ علیحدہ استغفار پڑھتا ہوا جب مقام مشاہدہ میں پہنچتا ہے۔ اور اس کو اللہ جل شانہ کا دیدار اور وصل ذات الٰہی ہوتا ہے۔ اُس وقت اس بات پر استغفار پڑھتا ہے، کہ خدا وند میرے اندر اتنی استعداد نہ تھی کہ میں اپنی ہمت اور کوشش سے تیرا دیدار اور تیری ذات کا وصل حاصل کرتا۔ اُس وقت استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔ کے یہ معنی ہوتے ہیں۔ کہ خدا وند میں تیرے دیدار اور تیری ذات کے وصل کے حصول کو اپنی استعداد اور ہمت و کوشش کی طرف منسوب کرنے سے توبہ کرتا ہوں اور استغفار پڑھتا ہوں۔ یہ جو کچھ ہوا۔ تیرے ہی فضل سے ہوا۔ اور واقعی بات بھی یہی ہے۔ کہ بندہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ پیر کامل ہو اور رحمت الٰہی شامل حال ہو۔ تو یہ مراتب اس کو ملتے ہیں۔ ورنہ بندہ کی اپنی استعداد اور ہمت و کوشش سے کچھ بھی نہیں بن سکتا۔ اور اس کو کسی حال اور کسی مقام میں استغفار سے چارہ نہیں۔
درود شریف کی برکت:
ایک روز فرمایا کہ اکثر بندہ جس وقت عبادت و یاد خدا میں مشغول ہوتا ہے۔ تو اس پر فتنے اور ابتلاء بکثرت وارد ہوتے ہیں۔ درود شریف کا بڑا عمدہ خاصہ یہ ہے کہ اس کے ورد رکھنے والے پر کوئی فتنہ اور ابتلاء نہیں آتا۔ اور حفاظت الٰہی شامل حال ہوجاتی ہے۔
مجذوب کی اقسام:
ایک روز مجذوبوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ کسی نے عرض کیا۔ حضور! مجذوب بھی بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دنیا سے کنارہ کر جاتے ہیں اور کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ان کے عالی مقام ہوں گے۔ آپ نے فرمایا۔ کہ مجذوب کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو خلل دماغ کی وجہ سے بیہوش ہوجاتے ہیں اور دنیا و مافیہا کی انہیں کچھ خبر نہیں رہتی۔ دوسرے وہ جو صرف روٹی کے واسطے مجذوب بن جاتے ہیں۔ ان دونوں قسموں کا کوئی مرتبہ و مقام نہیں ہوتا۔ البتہ تیسرا گروہ مجذوبوں کا ہے جو خدا تعالیٰ کی یاد یا ذکر میں مستغرق ہوکر بیہوش ہوجاتے ہیں۔ وہ اصلی مجذوب ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی بڑے سے بڑا مجذوب ولایت صغریٰ ہی میں رہتا ہے۔ خواہ کتنی ہی کوشش کرے ولایت کبرے تک نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ ایسے مجذوبوں کی توجہ بڑی تیز ہوتی ہے۔ ایک ہی توجہ میں دوسرے کو اپنے مقام پر پہنچادیتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔
درویشی کا مفہوم:
درویشی تو اس کا نام ہے کہ ہر فعل اور قول اور حرکت اور سکون رضائے الٰہی میں ہو۔ اور دل میں یہ تصور ٹھہرائے کہ اس حیات میں میرا مقصود خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے جس طور پر مولا راضی ہو۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ارشادات تو اور بھی بکثرت ہیں۔ مگر نظر بر اختصاران کا یہیں ختم کردینا مناسب معلوم ہوا۔
(مشائخ نقشبند)