حضرت خواجہ ضیاءالدین بخشی
حضرت خواجہ ضیاءالدین بخشی (تذکرہ / سوانح)
آپ بدایوں میں گوشہ نشینی کے اندر ہی اپنے کام میں مشغول رہے آپ کی کئی کتابیں بھی ہیں، مثلاً سلک السلوک، عشرہ مبشرہ، کلیات و جزئیات، طوطی نامہ وغیرہ آپ کی تمام تصنیفات بلند مرتبہ اور مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متشابہ ہیں، سلک السلوک وہ کتاب ہے جو اپنی حلاوت، رنگینی اور لطافت بیانی کے ساتھ ساتھ پرتاثیر حکایات و نصائح اولیاء سے لبریز ہے، آپ کی اکثر کتب میں ایک ہی طرز کے قطعات ہیں جیسا کہ یہ قطعہ ہے۔
قطعہ
بخشی خیز با زمانہ بساز!
ورنہ خود رانشانہ ساختن است
علاقلان زمانہ می گویند!
عاقسلی با زمانہ ساختن است
ترجمہ: (اے بخشی کھڑا ہو اور زمانہ کا ساتھ دے ورنہ خود کو لوگوں کا نشانہ بنانا ہے، زمانہ کے عقل مندوں کا یہ مقولہ ہے کہ زمانہ کا ساتھ دینا ہی عقل مندی ہے)۔
آپ کا حال جو ظاہر ہوا وہ یہ تھا کہ لوگوں کے میل جول سے علیحدہ رہتے اور کسی اعتقاد یا عدم اعتقاد سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔
کہتے ہیں کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے زمانے میں ضیاء نام کے تین آدمی تھے، ایک ضیاء سنائی، جو شیخ نظام الدین اولیاء کے منکر اور مخالف تھے دوسرے ضیاء برنی، جو شیخ نظام الدین اولیاء کے معتقد اور مرید تھے اور تیسرے ضیاء بخشی، جو نہ شیخ نظام الدین اولیاء کے منکر اور نہ مخالف تھے اور نہ ہی معتقد اور عقیدت مند تھے۔ اسی طرح سنا گیا ہے کہ ضیاء بخشی شیخ فرید کے مرید تھے جو سلطان التارکین شیخ حمیدالدین ناگوری کے خلیفہ اور پوتے تھے، آپ کا وصال 751ھ میں ہوا۔
بزرگوں کے نصیحت آموز واقعات
سلک السلوک میں ہے کہ ایک روز شیخ ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لونڈی خریدی، جب رات ہوئی تو اسے فرمایا کہ ہمارا بستر درست کردو تاکہ ہم سوجائیں، لونڈی نے کہا، اے میرے آقا کیا آپ کا بھی کوئی مولیٰ اور آقا ہے؟ شیخ نے جواب دیا ہاں، لونڈی نے پھر پوچھا کیا آپ کا مولیٰ بھی سوتا ہے؟ شیخ نے کہا نہیں، تو لونڈی نے کہا پھر آپ کو حیا نہیں آتی جب آپ کا آقا بیدار ہے تو آپ کیوں سوتے ہیں؟ بذر جمہر سے پوچھا گیا کہ کون سا جانور زیادہ سرکش ہے؟ تو بذر جمہر نے جواب دیا کہ انسان، جس کے سامنے موت، درویشی اور دوزخ موجود ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت دی، رسولوں نے احکام خداوندی کے مطابق لوگوں کو دعوت دی اور بذریعہ آسانی کتب کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا، مگر پھر بھی یہ انسان ہی ہے جو تکبر اور سرکشی پر تلا ہوا ہے، اس کے بعد فرمایا سنو سنو! ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم اپنی قوم سے نیک لوگوں سے بدکاروں کو علیحدہ اور جدا کردو، موسیٰ علیہ السلام نے تمام لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے کو کہا، چنانچہ اکثر لوگ باہر آگئے تو آپ نے ستر نیک آدمیوں کو جدا کھڑا ہونے کو فرمایا، پھر خدا نے حکم دیا کہ ان ستر میں سے سات نیک آدمیوں کو منتخب کیجیے، پھر خدا نے حکم دیا کہ ان سات میں سے صرف تین نیک آدمیوں کا انتخاب کیجیے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ یہ تین آدمی جو تمام مخلوق میں سے اپنے کو نیک سمجھ رہے ہیں ہمارے نزدیک یہی تمام سے برے اور بدکار ہیں کیونکہ جب انہوں نے سنا کہ آپ نیک لوگوں کو بلا رہے ہیں تو یہ آگے بڑھ آئے (گویا کہ یہ تکبر اور ریا کاری تھی، جس کی وجہ سے وہ تمام لوگوں سے بدتر شمار کیے گئے۔
اسلامی دستور کے اعتبار سے اسلامی مملکت میں مدعی علیہ کو سزا دی جاتی ہے، اور دنیائے طریقت میں مدعی کو قید و بند میں بھیج دیا جاتا ہے۔
قطعہ
بخشی تا نظر بخود نکنی!
مثل ایں کار مردہ نکند!
ہر کرا سوئے خود نگہ باشد
ہیچکس سوئے اونگہ نکند
ترجمہ (اے بخشی جب تک تم اپنی طرف نہ دیکھو گے تو مانند مردہ کے ہو گے اور اس کام کو نہ کرسکوں گے اور جو کوئی تکبر کرتا ہے اس کی طرف کوئی شخص التفات نہیں کرتا، اور اس شعر کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص اپنی حفاظت کرتا ہے یعنی شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کی طرف کوئی بھی نقصان دہ نظر نہیں اٹھا سکتا)
میرے عزیز! پہلے لوگوں کو دوسرے لوگوں کے گناہ اور جرائم سن کر بخار آجایا کرتا تھا اور تمہارے گناہوں سے خود تمہارا باطن کیوں نہیں جل کر راکھ ہوجاتا؟ ایک قدیمی دستور تھا کہ موسم بہار میں لوگ عیش و عشرت میں مشغول ہوجاتے تھے، لیکن حضرت معروف کرخی موسمِ بہار کے آتے ہی کبیدہ خاطر اور مغموم ہوجایا کرتے تھے اور فرماتے موسم بہار آگیا اور لوگ پھر کھیل کود میں لگ جائیں گے، اس کے بعد فرمایا کہ ایک صاحب حال فقیر کسی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اچانک بارش ہونے لگی تو اس فقیر کے دل میں (نماز کے اندر ہی) اپنے خالی کمرے کا خیال آیا، اسی وقت مسجد کی ایک سمت سے (غیبی) آواز آئی کہ اے درویش! تیری یہ نماز ہم پر کوئی احسان مندی نہیں، تو اپنی لطافت اپنے گھر بھیج رہا ہے اور کثافت ہمارے حضور پیش کر رہا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ احکام طریقت کے احکام جن کی پوری دنیا فرمانبردار ہے، ان کا قول ہے کہ کسی بلی کا مطیع اور فرمانبردار اس شخص سے بدر جہا بہتر اور اچھا ہے جو اپنے نفس کا مطیع اور فرمانبردار ہو)
ایک درویش سجادہ نشین ہر جمعہ کو اپنی نشست گاہ سے باہر آکر لوگوں سے دریافت کرتے کہ مسجد کو جانے کا راستہ کدھر ہے؟ ایک مرتبہ ایک آدمی نے جواب دیا کہ آپ برس ہا برس سے مسجد کی جانب جاتے ہیں اور اتنا معلوم نہیں کہ مسجد کا راستہ کون سا ہے؟ یہ سن کر اس درویش نے کہا کہ راستہ تو میں جانتا ہوں، لیکن جس راستہ پر میں چلتا ہوں اس پر محکوم ہوکر چلنا خود حاکم ہوکر چلنے کی بہ نسبت بہتر سمجھتا ہوں، یعنی واقعہ یہ ہے کہ کہ خود کو دوسرے کا تابع سمجھنا بڑا کام ہے۔
سنو سنو! حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب بن احبار مسجد میں نماز پڑھتے وقت پچھلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آخیر صف میں کھڑے ہونے میں کیا راز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جب ان میں سے کوئی ایک خدا کے حضور سر بسجود ہوگا تو ابھی اس نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پیچھے والے لوگوں کو بخش دے گا۔ میں اسی لیے سب سے آخر میں کھڑا ہوتا ہوں کہ اگلے لوگوں کے سجدوں کے طفیل میرا مقصد پورا ہوجائے (یعنی میں بخش دیا جاؤں)۔
قطعہ
بخشی درمیان مبیں خود را
قطرۂ راچہ سیل می خوانی
ہمہ کس در طفیل تو گردو
گر تو خود را طفیل کس دانی
ترجمہ: (اے بخشی لوگوں کے درمیان (یعنی لوگوں جیسا) نہ دیکھو خود کو، ایک قطرہ کو سیلاب کون سمجھتا ہے، تمام دنیا تمہارے مطیع اور فرمانبردار اس وقت ہوسکتی ہے جب تم بھی کسی کے فرمانبردار بن جاؤ)
شیخ المشائخ عبداللہ خفیف ایک دفعہ بیمار ہوگئے، ایک طبیب آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا اے شیخ! کیا آپ بیمار ہیں؟ شیخ نے جواب دیا جب جسم ختم ہوجائے گا تو بیماری بھی خود بخود دور ہوجائے گی۔
اِنکساری کی اعلیٰ مثال
’’شیخ محمد واسع وہ بزرگ تھے جن کو یہ وسیع او رعریض دنیا ایک چیونٹی کی آنکھ سے بھی کم نظر آتی تھی۔ ان سے منقول ہے اگر گناہ اور مصیبت میں بدبو ہوتی تو کوئی آدمی میرے پہلو میں نہ بیٹھ سکتا۔‘‘
خواجہ ابوالحسن خرقانی کا قول ہے کہ جو آبِ رحمت سے قریب ہوا وہ رحمت میں غرق ہوگیا اور ہمارا حال یہ ہے کہ جو اس سے دور ہوا وہ سب سے دور ہوکر اس آگ کے قریب پہنچ گیا جو جلا کر راکھ کردے گی۔
کہتے ہیں کہ ایک روز زبیدہ کے دروازے پر ایک آدمی نے آکر کہا کہ میں زبیدہ کا عاشق ہوں، زبیدہ کو اس کی خبر دی گئی تو اس نے اس آدمی کو اندر بلایا اور کہا کہ خبردار آئندہ ایسی بات کی جرأت نہ کرنا، تو اس نے کہا کہ میں اس بات سے کسی صورت میں باز نہیں آسکتا تو زبیدہ نے کہا کہ اچھا دو ہزار درہم لےلو اور عشق کا اظہار چھوڑ دو، مگر اس آدمی نے انکار کردیا۔ وہ انکار کرتا اور زبیدہ رقم اور بڑھادیتی۔ یہاں تک کہ جب زبیدہ نے دس ہزار درہم دینے کا وعدہ کیا تو اس نے تسلیم کرلیا اور عشق کے اظہار کے ترک پر رضا مند ہوگیا، زبیدہ نے جب اس کی یہ کیفیت دیکھی تو اپنے خادموں اور ملازموں سے کہا کہ اس کی گردن اُڑا دی جائے، کیونکہ یہ اوپر اوپر سے ہماری محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور فی الواقع اس کو ہماری محبت نہیں۔
سنو سنو! ایک بزرگ تھے جو کبھی بھی دائیں بائیں جانب مڑ کر نہ دیکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے تو انہیں کسی نے آواز دی اور پکارا، انہوں نے مڑ کر دیکھنا چاہا کہ کون پکار رہا ہے تو اچانک فضاء سے آواز آئی کہ جو ہمارے علاوہ کسی اور کی طرف توجہ کرے وہ ہمارا نہیں۔
یہ داغ بھی نہ ہو گا تیرے سِوا کسی کا
کو نین میں ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا
اے عزیز! اگر ہزار برس بھی اس راستے پر چلتے رہو اور پھر تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ تمہاری دعا قبول ہونی چاہیے تو یقین کرلو کہ تم جاہ پرست ہو اور راہ حق کے طالب نہیں ہو۔
بھلا جو پیشاب کے پلید راستے سے دنیا میں آیا ہے اسے شان و شوکت کیسے زیب دے سکتی ہے؟ وہ بےچارہ تو گندے نطفہ اور سڑی ہوئی مٹی سے بنایا اور پیدا کیا گیا ہے۔
سلک السلوک میں ہے کہ مجھ جیسے کمزور، لاغر، مفلس، ناکارہ کو بہادروں کے میدان کار زار میں لاکر کھڑا کردیا گیا ہے، امر الٰہی ایک سمت کھینچ رہا ہے اور حکم الٰہی دوسری جانب، اے برادر، اگر اس راہ میں منزل مقصود کی رسائی درکار ہے تو اپنی ذات کو کچھ نہ سمجھو، جو لوگ خدا کی عبادت و اطاعت میں تونگر اور غنی نظر آتے ہیں وہ اپنی ذات کو ہر وقت مفلس و محتاج ہی سمجھتے ہیں اور جو لوگ ہمیشہ کے مفلس و محتاج نہیں وہ اپنے کو تونگر و غنی کہلوانے کے حقدار نہیں۔
اے طلب گار! اگر تو فی الواقع طالب ہے تو ان لوگوں کا طریقہ اختیار کر، جن کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہی حقیقتاً دوست اور طلب گار تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جب منجنیق اور گوپئے میں رکھ کر ننگا کیا گیا تو غیب سے آواز اور ندا آئی کہ اے ابراہیم ایمان تو مجسمہ ایمان ہے اور ایمان ہمیشہ ننگا اور برہنہ ہی ہوا کرتا ہے۔
سُنو سُنو! جب ابراہیم علیہ السلام اس آگ کے قریب پہنچے تو آگ کو اتنا مسکین اور بے بس پایا کہ الٹا آپ کو آگ پر رحم آیا،ا سی لیے نبی کریم صاحب لولاک لما خلقت الافلاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی کو راہ حق میں اتنی مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا کہ مجھے مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا، ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں چلاجانا، زکریا علیہ السلام کا پارہ پارہ ہوجانا یہ اتنی مصیبتیں نہیں جتنی ہمارے اوپر ڈالی گئیں، ہمیں اہل زمین و آسمان سے مقدم رکھا گیا اور بنی آدم کے گناہوں کو ہماری شفاعت کے ذیل سے وابستہ کردیا گیا۔ بے راہوں کو ہماری راہ اختیار کرنی چاہیے۔ مجرموں کو ہماری طرح عذر کرنا چاہیے اور کامل اور سست لوگوں کو ہماری طرح کام کرنا چاہیے، میرے پروردگار نے مجھے کبھی تو قاب قوسین او ادنیٰ کی مسند پر بٹھایا اور کبھی ابوجہل جیسے ظالم و جابر کے پاس بھیج دیا اور کبھی مجھ کو شاہد اور مبشر کے لقب سے یاد فرمایا اور کبھی لوگوں نے مجھے پاگل اور ساحر کہا، معاذاللہ جبریل امین کو میرا رکا بدار اور ساتھی بنادیا اور کبھی بغیر اجازت نامہ کے مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، کبھی ملکوت کے خزائن میرے حجرے میں لائے گئے اور کبھی ایک جو کی خاطر ابو شحمہ کے در پر بھیجتے رہے، کبھی آپ کے غلاموں سے خیبر سے مفتوح کرواتے ہیں اور کبھی ظالموں کے ہاتھوں سے بذریعہ پتھر دندان مبارک شہید کرواتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کرواتے ہیں تاکہ اہل دُنیا یہ یقین کرلیں کہ ہمارا راستہ پرخار راستہ ہے جس پر چلنے کے لیے پاؤں کو سر پر رکھ کر چلنا پڑتا ہے اور اگر کسی سے یہ نہ ہوسکتا ہے تو وہ اس راہ پر چلنے کا نام تک نہ لے اس راستہ کو عام راستوں کی طرح عبور اور طے نہیں کیا جاسکتا۔
وہ عشق حقیقی کی لذت نہیں پا سکتا
جو رنج و مصیبت سے دو چار نہیں ہوتا
(ارمُغانِ مدینہ)
بشرحافی جن کو سر و پا برہنہ کہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ سخت تازیانہ اور ڈنڈا حسن بصری کی لڑکی نے مارا تھا، اس کی صورت اس طرح پیش آئی کہ میں ایک دن حسن بصری کے گھر گیا اور ان کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی، ان کی لڑکی نے پوچھا کون؟ میں نے کہا بشر حافی (ننگے پاؤں والا) لڑکی نے کہا یہاں سے سیدھے بازار چلے جاؤ اور وہاں سے جوتا خرید کر پاؤں میں پہن لو اور اس کے بعد اپنے کو بشر حافی (ننگے پاؤں والا) مت کہنا۔ اگر کوئی سوال کرے کہ جنت میں وَجُوْہٌ یومئذ ناظرۃٌ الیٰ ربھا ناظرہ کا عاشقوں کو مشاہدہ ہوگا تو اس مشاہدہ کے بعد عاشقوں کو واپس لوٹا دیا جائے گا یا یہ خود بخود لوٹ آئیں گے۔ سو بصورت اول یہ رجوع قابل ندامت ہے اور بصورت ثانی کیا انہیں تجلی الٰہی کا مشاہدہ ہوگا یا نہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ عاشقوں کو نہ لوٹایا جائے گا اور نہ ہی یہ خود بخود لوٹ جائیں گے بلکہ وہ تو ہر وقت خدا کے جمال میں مستغرق رہیں گے اور اسی کے جاہ و جلال کو دیکھیں گے۔
خود کہتی رہی روپوش ہے تو لاکھ پردوں میں
مگر میری نظر میں جلوہ فرما چار سو تو ہے
(ارمغانِ فیض)
سُنو سُنو! آدم علیہ السلام کو آٹھ جنتیں عطا کی گئیں اور وہ ایک روز اس سے بھاگ گئے، لیکن عشق کا جو ذرہ اس میں رکھ دیا گیا تھا وہ اس سے متصل رہا۔ جی ہاں! آدم علیہ السلام کی لغزش بھی مشغولیت حق کی وجہ سے تھی اور شیطان کا گناہ فارغ البالی کی وجہ سے۔
قطعہ
بخشی از فراغ بیروں است
غم دل جز چراغ دل نہ بود
دل فارغ نشاں بیکاری است
عاشقاں را فراغ دل نہ بود
ترجمہ (بخشی فراغت سے باہر ہوگیا ہے، دل کا غم بجز چراغ دل کے نہیں ہوتا، فراغت قلبی بیکاری کی دلیل ہے عاشقوں کا دل فارغ نہیں رہتا)۔
’’حضرت رابعہ بصریہ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ ابلیس کو دشمن سمجھتی ہیں؟ فرمایا: نہیں، لوگوں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا میں دوست کے خیال میں اتنی مشغول ہوں کہ مجھے دشمن کی خبر ہی نہیں۔‘‘
کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی
آنکھ ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال
(ذوقِ نعت)
کسی بزرگ سے دریافت کیا گیا کہ دنیا کس چیز کی مانند ہے؟ فرمایا کہ دنیا اتنی حقیر اور ذلیل چیز ہے کہ اس کو کسی چیز سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔
ایک آدمی ایک فقیر اور درویش کے پاس گیا اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ میں کچھ کچھ زمانہ آپ کی صحبت میں گزاروں ، اس بزرگ نے دریافت کیا کہ جب مرجاؤں گا تو تم کس کے ساتھ رہوں گے؟ اس نے جواب دیا کہ خدا کے ساتھ رہوں گا، تو بزرگ نے فرمایا کہ یہ سمجھ لو کہ میں معدوم ہوں، اس لیے ابھی سے خدا ہی کے ساتھ ہوجاؤ۔
ایک روز کسی دنیا دار نے کسی بزرگ کے گھر سے پانی طلب کیا، اس درویش اور بزرگ نے بدمزہ اور گرم پانی پیش کیا۔ دنیا دار نے کہا کہ یہ پانی تو بدذائقہ اور گرم ہے درویش نے جواب دیا کہ اے خواجہ ہم قیدی ہیں اور قیدی اچھا پانی نہیں پیا کرتے۔
کسی نے یحییٰ معاذ کو فوت ہوجانے کے بعد خواب میں دیکھا اور دریافت کیا کہ عالمِ بالا میں آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا؟ فرمایا، جب میں پیش کیا گیا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ دنیا سے کیا لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جیل خانے سے آ رہا ہوں، وہاں سے کیا لاتا، اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو ستر برس تک دنیا کی قید و بند میں نہ رہتا۔
ایک پیر کے کچھ مُریدوں نے اپنے پیر سے دریافت کیا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور وصال نصیب ہوجائے؟ شیخ نے جواب دیا کہ کس راستہ سے تم آئے ہو کہ تم راہ بھی نہیں جانتے (مقصود ان پر تعریض تھی کہ تمہیں تو اس راستہ کی بھی خبر نہیں جس پر اب چل رہے ہو، تو آگے والے راستہ کی کیا خبر ہوگی)
کہتے ہیں کہ با مروت آدمی وہ ہے جو بے مروت لوگوں کی باتوں سے کبیدہ خاطر اور رنجیدہ نہیں ہوتا، ایک بزرگ کا مقولہ ہے کہ فضیل کی وفات کے بعد زمین سے غم چلا گیا۔
ایک شیخِ طریقت کا کہنا ہے کہ دس برس تک میں روتا رہا اور میرے آنسو بہتے رہے پھر دس برس تک خون کے آنسو رویا اور اب دس برس سے خوش اور مسرور ہوں۔
کسی شخص نے ابوبکر شبلی کو فوت ہوجانے کے بعد خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ منکر و نکیر کے سوالات سے تم نے کس طرح خلاصی پائی؟ جواب دیا اگر تم وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ کس طرح میرے ساتھ پیش آئے۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ بتاؤ تمہارا خدا کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرا خدا وہ ہے جس نے تم تمام فرشتوں کو میرے باپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا اور میں اس وقت اپنے باپ کی پشت میں تم سب بھائیوں کو دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ ہم کو اس کے ہاں سے چلا جانا چاہیے، کیونکہ ہم اس سے جو سوال کرتے ہیں وہ اس کا جواب تمام اولاد آدم کی جانب سے دیتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ساتھ میری اس وقت ملاقات ہوئی جبکہ وہاں کسی مقرب فرشتے کو بھی آنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ بات سننے کے بعد جبریل علیہ السلام شکستہ خاطر ہوئے تو آپ نے فرمایا افسوس نہ کرو، اس وقت کوئی نبی مرسل بھی نہ تھا۔
جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے تلوں کی لیتے اترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
سنو سنو! جب صاحبِ قاب قوسین او ادنیٰ عالم بالا سے واپس ہوئے تو جبریل نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس عالم سے آپ آ رہے ہیں وہاں آپ نے کیا دیکھا؟ آپ نے فرمایا کہ اے برادر! یہ کیا سوال کا موقعہ ہے کہ محمد (جبریل) محمد سے سوال کر رہا ہے، جان لیا جس نے جان لیا اور سمجھ لیا جس نے سمجھ لیا۔
خواجہ علی سیاح فرماتے ہیں کہ میری صرف اتنی تمنا ہے کہ کوئی حق بات کہے اور میں سنوں، یا میں حق بات کہوں اور کوئی دوسرا اسے سنے، ایک مرتبہ ایک منکر نے حسن بصری سے سوال کیا کہ آپ کی میرے متعلق کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا، آپ دشمن خدا ہیں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ آپ کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب دیا میں خدا کا دوست ہوں۔ اس منکر نے کہا کہ محض اسی نام پر ہرگز مغرور نہ رہنا۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ میں نے اس کا نام خالد رکھا اور خالد کے معنی جاوداں اور ہمیشہ رہنے والے کے ہیں، وہ اول روز ہی سے تونگر اور غنی تھا اور تونگری اور غناء میں چار چیزیں ملتی ہیں (1) جسمانی تکلیف (2) مشغولی دل (3) نقصان دین (4) قیامت کا حساب اور دریشوں کو بھی فقر و فاقے سے چار چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ (1) آسائش تن (2) فارغ البالی (3) سلامتی دل (4) قیامت کے حساب سے خلاصی۔
اے فقیر! ایک روز صبح سے شام تک اپنے نفس سے جنگ کر،تا کہ یہ چار چیزیں ظاہر ہوجائیں اور مرد حقیقتاً وہی لوگ ہیں جو اپنے نفس سے جنگ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کیونکہ یہ جنگ ایسی ہے جس کے لیے مصالحت اور صلح کی کوئی سبیل نہیں، عزیز من! جو کوئی اپنے نفس سے ہمیشہ احتساب کرتا ہے تو وہ تمام دعوے اور معنی ترک کردیتا ہے اور تمام سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ سنو سنو! ایک دفعہ ایک بنیے نے جس کی ترازو کا پلڑا آسمان کی طرف جا رہا تھا، ایک آدمی کو دیکھا جو شیر پر سوار اور ہاتھ میں سانپ کا کوڑا لیے وہاں سے گزر رہا تھا بنیے نے اس سے کہا کہ تیرا کام تو بہت سہل اور آسان ہے اور اصلی کام تو یہ ہے کہ ترازو کے دو پلڑوں کے درمیان بیٹھ کر صحیح اور حق کام سر انجام دیا جائے۔
حضرت ابراہیم ادہم اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اکثر و بیشتر فقیروں کی طلب میں خلوت نشینی سے باہر آتے ہیں اور ہم کو دنیا دار چمٹ جاتے ہیں۔ ایک روز ایک شخص یہ کہہ رہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں۔ یہ دنیا پوری کی پوری ایک دن ختم ہوجائے گی، اگر میں یہاں آبادی کروں تو ایک نہ ایک دن میرے کام میں کوئی ضرور آڑے آئے گا اور یہ کہے گا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ دنیا کی آبادی کا دارومدار تو نیک لوگوں پر ہے، اگر دنیا میں نیک لوگ نہ رہیں تو سمجھو کہ دنیا خراب ہوگئی۔
بعض لوگوں نے خواجہ جنید کو خواب میں دیکھ کر یہ پوچھا کہ آپ نے اپنے کام کو کہاں تک پہنچا دیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دنیا کے کاموں کا ہم جو اندازہ کرتے ہیں آخرت کا کام اس سے زیادہ سخت ہے۔
سُنو سُنو! ایک پرہیزگار اور نیک بخت مرد کا بازار جانے کا خیال و ارادہ ہوا کہ وہاں سے کچھ خریدا جائے۔ اس نے ایک اشرفی لی اور اس کا اپنے گھر میں وزن کیا، پھر جب بازار جاکر اس کا وزن کیا گیا تو گھر والے وزن سے وہ وزن کم رہا، تو وہ نیک بخت مرد رونے لگا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ روتے کیوں ہیں؟ اس نے کہا آج گھر کا ماجرا جب بازار میں لایا گیا تو گھر کے مطابق نہ رہا، تو کل قیامت کے روز جب دنیا کا ماجرا پیش ہوگا کیسے دُرست رہ سکے گا، اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی اِرادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
(اقبال)
اخبار الاخیار