حضرت خواجہ ضیاءالدین برنی
حضرت خواجہ ضیاءالدین برنی (تذکرہ / سوانح)
آپ تاریخ فیروز شاہی کے مصنف اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید اور خواجہ صاحب کی کرم فرمائیوں کی وجہ سے ممتاز اور مجسمہ لطائف و ظرائف تھے، آپ کو ہر قسم کے اقوال اور حکایات یاد تھیں۔ علماء، مشائخ اور شعراء کی محفلوں اور مجلسوں سے اکثر لطف اٹھاتے تھے، امیرخسرو اور میر حسن سے بے انتہا محبت کرتے تھے، ان دونوں کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے۔ ابتداً شیخ نظام الدین سے بیعت ہوکر غیاث پور میں رہنے لگے، آخر عمر میں طبعی لطافتوں اور فن مصاحبت کی وجہ سے سلطان محمد تغلق بادشاہ کے خاص مصاحب ہوگئے، سلطان محمد تغلق کے فوت ہوجانے کے بعد فیروز شاہ کی حکومت کے زمانہ میں ضروریات زندگی پر قناعت کرکے گوشہ نشین ہوگئے اور وفات کے وقت دنیا سے تہی دست اور پاک و صاف عالم پائیدار میں تشریف لے گئے، کہتے ہیں کہ خواجہ کے جنارے پر صرف ایک بوریا تھا، شیخ نظام الدین اولیاء کے مقبرے میں اپنی والدہ کے پائیں دفن کیے گئے۔
سیرالاولیاء میں ہے کہ خواجہ ضیاء الدین برنی نے اپنے حسرت نامہ میں لکھا ہے کہ میں ایک دن اشراق کے وقت سے لے کر چاشت کے وقت تک خواجہ نظام الدین کی خدمت میں حاضر رہا اور آپ کے روح افزا کلمات سے مستفید ہوتا رہا اس دن متعدد افراد آپ سے بیعت ہونے کو آئے تھے، اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ گذشتہ مشائخ بیعت لینے میں بڑے محتاط ہوتے تھے اور شیخ نظام الدین اپنے کرم و عنایت سے ہر عام و خاص سے بیعت لے رہے ہیں میرے دل میں آیا کہ اس عدم احتیاط کے بارے میں شیخ سے دریافت کروں، چونکہ شیخ کشف کے بہت بڑے عالم تھے میرے دل کی بات سے اللہ نے انہیں آگاہ فرمادیا اور فرمایا اے خواجہ ضیاء الدین برنی! تم سب کچھ مجھ سے دریافت کرلیتے ہو مگر یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں تمام آنے والوں کو بغیر تفتیش کے کیوں بیعت کرلیتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنی حکمت بالغہ سے ایک خاصیت رکھی ہے جو اس زمانے کی رسم و عادت بن جاتی ہے جس کی حقیقت دوسرے زمانے کے مزاج اور طبیعت سے جدا ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ مرید کی خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ وہ ماسوی اللہ سے جدا اور علیحدہ ہوکر ذکر اللہ میں مشغول ہوجائے، گزرے ہوئے مشائخ کا یہ طرز اور طریقہ تھا کہ جب تک وہ مرید میں بحد تام ما سوی اللہ سے علیحدگی اور جدائی نہ دیکھ لیتے تھے بیعت نہ کیا کرتے تھے، لیکن آیات من آیات اللہ شیخ ابوسعید ابوالخیر کے زمانے سے لے کر شیخ سیف الدین باخزری کے زمانے تک اور اسی طرح شیخ شہاب الدین سہروردی کے زمانے سے شیخ فریدالدین کے زمانے تک ان بادشاہان مذہب کے دروازے پر مخلوق اللہ کی بھیڑ اور ہجوم رہتا تھا اور بادشاہ، امراء، مشہور و معروف دوسرے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہ لوگ عذاب آخرت کے خوف سے ان مشائخ کی پناہ میں حاضر ہوتے اور یہ مشائخ ان تمام سے بیعت لیا کرتے تھے کسی دوسرے کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ اللہ کے دوستوں کے معاملات کو دوسروں پر قیاس کرکے خود بھی ان کی طرح لوگوں سے بیعت لیتا رہے، اب تمہارے سوال کا صاف صاف جواب تو یہ ہے جو میں برابر سن رہا ہوں کہ مجھ سے مرید ہونے والے گناہوں سے دور رہتے اور نماز باجماعت پڑھتے اور وظائف و نوافل میں مشغول رہتے ہیں، اگر میں ابتداً ان پر بیعت لینے کی حقیقی شرطیں عائد کردوں تو وہ جو نیکیاں کر رہے ہیں اس سے بھی محروم ہوجائیں گے دوسرے یہ کہ میں کسی سے التماس، وسیلہ یا سفارش کیے بغیر بیعت لینے کا منجانب شیخ مجاز قرار دیا گیا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ ایک غریب و لاچار مسلمان میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میں نے تمام گناہوں سے توبہ کرلی ہے میں اس کی اس بات کو سچا سمجھ کر بیعت کرلیتا ہوں اور خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ میں نے نیک اور سچے لوگوں سے سنا ہے کہ مجھ سے بیعت کرنے والے گناہوں سے گریز کرتے اور دور رہتے ہیں اس لیے ان کو مرید کرتا ہوں اس کا ایک قوی اور مضبوط سبب اور بھی ہے وہ یہ کہ ایک دن شیخ فریدالدین نے مجھے قلم دوات دیا اور فرمایا تعویذ لکھو اور ضرورت مندوں کو دو جب انہوں نے میرے اندر جلال کے اثرات کو دیکھا تو فرمایا کہ تم ابھی سے دعائیں وغیرہ لکھنے سے تھک گئے حالانکہ وہ زمانہ بہت قریب ہے جب ضرورت مند لوگ تمہارے دروازے پر آئیں گے تو تم اس وقت کیا کرو گے، یہ سن کر میں نے شیخ کی قدمبوسی کی اور روتے ہوئے عرض کیا کہ آپ نے مجھے معظم اور اپنا خلیفہ مقرر کیا حالانکہ میں ایک طالب علم تھا جو لوگوں کے میل جول سے نفرت کرتا تھا تعویذ وغیرہ دینا تو بزرگوں کا کام ہے یہ مجھ بےچارے کا کام نہیں میرے لیے تو بس آپ کی نظرِ شفقت ہی کافی ہے، میری گزارش سننے کے بعد شیخ نے فرمایا کہ تعویذ دینے کا کام تم اچھی طرح کرسکو گے میں نے جب بہت عاجزی کی تو میری عذر خواہی سے مرشد پر ایک حالت طاری ہوگئی۔ بعد میں آپ سیدھے بیٹھے اور مجھے قریب بلایا اور اپنے سامنے بیٹھنے کا امر کیا پھر فرمایا نظام! جان لے کہ کل مسعود کو بارگاہِ الٰہی میں عزت ملے گی یا نہیں، اگر ان کی عزت و تکریم ہوئی تو میں بخدا کہتا ہوں کہ جنت میں اس وقت تک قدم نہیں رکھوں گا جب تک اپنے مریدوں کو اپنے ساتھ جنت میں نہ لے جاؤں گا، اتنی بات بیان کرنے کے بعد شیخ نظام الدین مسکرانے لگے اور فرمایا مجھے اسی طرح خلافت دی گئی ہے اور یہ کام کبھی درست ہوتا ہے اور کبھی نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ جو لوگ تمام عمر اسی کام کی طلب میں رہتے ہیں اور حیلہ، مکاری، فریب، جھوٹ وغیرہ کے ذریعہ یہ نازک کام کرتے ہیں ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے، نیز میں نے اپنی آنکھوں سے بچشم خود دیکھا ہے کہ میرے شیخ و مخدوم اللہ کی درگاہ کے واصل لوگوں میں سے تھے، جس پیالہ سے بایزید، جنید اور ان کے علاوہ دیگر مستان عشق الٰہی نے خمہائے عشق نوش کیے ہیں میرے مرشد نے بھی انہی پیالوں سے خمہائے عشق نوش فرمائے ہیں، اور جب میرے پیر و مرشد ان لوگوں کے بارے میں جن سے میں بیعت لیتا ہوں ایک بات کہہ گئے ہیں اور اس پر عہد و اقرار ہوچکا ہے تو پھر وہ کون سی چیز ہے جو مجھے بیعت لینے سے روک سکے۔
اخبار الاخیار