حضرت خضر رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
خضر بیگ بن قاضی جلال الدین صدر الدین بن حاجی ابراہیم رومی۸۱۰ھ میں پیدا ہوئے اور شہر سفری حصار میں جو بلا دروم میں سے ایک شہر ہے، پرورش پائی۔پہلے اپنے والدِ ماجد سے جو یہاں کے قاضی تھے،تعلیم پاتے رہے پھر مولیٰ احمد بن اومغان المشہور بہ مولیٰ یگان کی خدمت میں حاضر ہوکر کمالیت کا رتبہ اور فضیلت کا درجہ حاصل کیا۔جب ۸۳۷ھ میں سفری حصار کے مدرس مقرر ہوئے تو آپ کو اور بھی علوم غریبہ اور فنون عجیبہ حاصل ہوئے یہان تک کہ حکایت کرتے ہیں کہ اوائل جلوس سلطان محمد خاں بن مراد خاں میں ایک شخص عجمی جو مختلف علوم میں بڑا متجر تھا،بادشاہ کے دربار میں آکیر مباحثہ کا خواہاں ہوا،اس وقت جتنے برے بڑے عالم و فاضل تھے وہ اس کے مباحثہ کے لیے جمع ہوئے لیکن جن اس نے سوالات پیش کیے تو ان کے جواب دینے سے سب کے سب عاجز آگئے،اس سے بادشاہ کو نہایت بیقراری اور عاردا منگیر ہوئی پس اس نے کسی ایسے شخص کے طلب کرنے کا حکم دیا جو علوم غیربہ میں مہارت رکھتا ہو،سب لوگوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا،سو آپ فورآ حاجر کیے گئے،اس وقت آپ نوجوان تھے،عجمی بنظر حقارت آپ کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔آپ نے فرمایا کہ تجھے جو سال کرنا ہے وہ پیش کر،اس نے مکتلف علوم میں کئی ایک سال کیے جن کا جواب آپ نے نہایت خوبی سے دیا۔پھر آپ نے ایسے سو رفن میں اس سے سوال کیے جن کو وہ ہر گز نہ جانتا تھا پس وہ بند ہوکر خاموش ہوگیا۔بادشاہ کو اس بات سے بری خوشی حاصل ہوئی اور آپ کی بڑی تعریف و تکریم کی اور شہر بردسا کے مدرسہ کا مدرس مقرر کیا۔
جب سلطان نے قسططنیہ کو فتح کیا تو آپ کو وہاں کا قاضی بنایا پھر آپ نے ۸۵۹ھ میں مکہ معطمہ کا حج کیا۔آپ کے شاگردوں میں مصلح الدین المعروف بخواجہ زادہ اور شمس الدین المشہور خطیب زادہ اور خیر الدین معلم سلطان محمد خاں معروف و مشہور ہیں۔ایک کتاب عقائد کی نظم میں تصنیف کی جس کی شرح آپ کے شاگرد شمس الدین احمد خیالی نے لکھی ہے،علاوہ اس کے ایک مختصر کتاب علم عروض میں اور تفتازانی کے حاشیہ تفسیر کشاف پر حواشی تصنیف فرمائے اور ۸۶۳ھ میں انتقال کیا۔’’گنج معرفت‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)
آپ قلندر قسم کے بزرگ تھے، رُوم کے رہنے والے تھے، آپ سے بے شمار کرامتیں ظاہر ہوا کرتی تھیں، ابتداً کسی کو اپنا مُرید نہ بنایا کرتے تھے، آپ خواجہ بختیار اوشی کی زندگی ہی میں دہلی تشریف لائے تھے، چنانچہ آپ نے خواجہ صاحب سے روحانی فیض حاصل کیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی کلاہ اور خرقہ شاہ خضر کی قیام گاہ پر بھجواکر رخصت کیا،اس کے بعد شاہ خضر کو جونپور جانے کا اتفاق ہوا، جب آپ موضع سر ہر پور پہنچےتو وہاں شاہ قطب آپ کے مرید ہوگئے، آپ نے شاہ قطب کو خلافت دینے کے بعد پھر اپنے اصلی وطن رُوم کا رُخ کیا، اس وقت بھی ہندوستان میں آپ کا سلسلہ قائم ہے جس کو سلسلہ قنطوریہ چشتیہ کہتے ہیں۔
(اخبار الاخیار)