حضرت خواجہ خواجگاں فقیر محمد ابن حضر ت خواجہ نور محمد قدس سرہما اپنے دور کے اکابر مشائخ سے ہوئے ہیں ۔آپ کا لقب حاجی گل تھا اور عام لوگ عقیدت و محبت سے با با جی صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔آپ کی ولادت با سعادت تیز ئی شریف مضافات تیراہ میں ہوئی۔ ولادت کے بعد جد امجد حضرت خواجہ محمد فیض اللہ تیرا ہی قدس سرہ کو پتہ چلا کہ آپ دودھ نہیں پیتے آپ تشریف لائے اور فرمایا : یہ ابھی سے اپنا حصہ طلب کر تے ہیں چنانچہ اپنی زبان مبارک نو مولود بچے کے من میں ڈال دی جسے حضرت خواجہ محمد فیض اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لڑکا برا نیک سخت ہوگا اور اس کے وجود سے خلق خدا کو بہت فیض پہنچے گا۔
حضرت خواجہ فقیرمحمدنے تمام ظاہری او ر باطنی علوم حضرت والد ماجد سے حاصل کئے ، بچپن ہی سے آپ کی طبیعت کا میلان ذکر و فکر کی طرف تھا ،علم و عرفان کے انور نے اس شوق کو اور جلادی ۔ آپ شریعت مطہرہ کی اس قدر پابندی فرمایا کرتے تھے کہ سنت مبارکہ سے سر موتجاوزنہ کرتے تھے،غرباء اور مساکین خاص طور پر آپ کی شفقت و عنایت سے بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔۲۰ سال کی عمر میں والد ماجد نے آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ آپ کے حلقۂ ارادت میں بڑے بڑے فضلاء اور کاملین داخل ہوئے جو آپ کے فیض صحبت سے آسمان علم و عرفان کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے ،ان میں سے امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری،حضرت پیر سید جماعت عی شاہ لاثانی ، حضرت مولانا حافظ عبد الکریم (راولپنڈی) مولانا غلام محمد بگوی، مولانا حسن محمد (گجرات) مولانا غلام محی الدین (باولی شریف) مولانا حافظ فتحدین (رانگپور) وغیر ہم رحہم اللہ تعالیٰ نہایت مشہو بزرگ گزرے ہیں۔
حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حلیم الطبع اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے مریدین کو دوست یا یار کہہ کر یاد فرمایا کرتے تھے مرید کا لفظ استعمال نہ کرتے تھے، بیعت کے وقت مخلتف مواقع پر درج ذیل اشعار پڑھا کرتے تھے ؎
یا رسول اللہ انظر حالنا
یا حبیب اللہ اسمع قالنا
انی فی بحر غم مغرق
خذ یدی سہل نسا اشکالنا
؎ ہر دم خدا ر یا دکن ، دلہائے غمگیں شاد کن
بلبل صفت فریادکن ،مشغول شور درذکر ہو
؎ غافلی کفر است پنہاں در و جو د آدمی
ایں چنیں کافر شدن را حاجت زنار نیست
آپ صاحب کرامات و خوارق تھے،آپ ایک گائوں میں تشریف لیجا یا کرتے تھے جہاں دو چھار گھروں کے سوا سب شیعہ تھے،آہستہ آہستہ وہ لوگ آپ کی مجلس میں حاضر ہونے لگے دو تین سال کے عرصے میںپورا گائوں صحیح العقیدہ سنی ہو گیا۔
۲۹؍محرم الحرام،یکم جولائی ۱۳۱۵ھ,۱۸۹۷ء بروز جمعرات بوقت عصر سو سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا،آپ کا مزار پر انوار چورہ شریف ضلع کیمبلپور میں مرجع انام ہے۔ ہر سال عرس کیموقع پر بیشمار مریدین اور معتقدین آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں،مادئہ تاریخ وصال ’’غفرلہ ‘‘ (۱۳۱۵ھ) ہے[1]
[1] صلاح الدین نقشبندی : جمال نقشبند ص ۲۲۰۔ ۲۲۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)